ویتنام میں نئی ٹریفک قوانین پر ہلچل، سڑکوں پر افراتفری

ویتنام کی حکومت نے ایک نیا قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں، اور ان خلاف ورزیوں کی اطلاع دینے والوں کو انعامات دیے جا رہے ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت، ہو ‘چی منہ’ شہر میں ٹکٹ کی آمدنی میں 35 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کا اثر عوام کی جیبوں پر پڑ رہا ہے۔ دا نیویارک ٹائیمز  کے مطابق ہنوئی شہر کے ایک موٹر بائیک ٹیکسی ڈرائیور، دِھنھ نگوک کوانگ نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “پولیس کا مقصد صرف پیسے نکالنا ہے۔” اس شخص کا کہنا تھا کہ ان نئے جرمانوں نے غریب طبقے کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے، جو پہلے ہی روزانہ کی محنت سے زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف غریبوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ٹریفک نظام کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ کچھ ڈرائیورز نے ان قوانین کو ظالمانہ اور استحصال کرنے والا قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ بھاری جرمانے اور اضافی احتیاطی تدابیر نے ان کی روزمرہ کی آمدنی میں کمی کر دی ہے۔ گاڑیاں اور ٹرک اب گھنٹوں تک پھنسے رہتے ہیں، اور اس سے نہ صرف ان کی کمائی متاثر ہو رہی ہے بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی بھی پریشان ہو گئی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر یہ موضوع بہت گرم ہے اور یہاں تک کہ ایمبولنسوں کو بھی ٹریفک جام میں پھنس جانے کی شکایات آ رہی ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد صرف ٹریفک کی سلامتی کو بہتر بنانا ہے۔ اور ایسا کچھ حد تک دکھائی بھی دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ شراب نوشی کے زیر اثر گاڑی چلانے والے حادثات میں 25 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ حکام نے ہنوئی میں 20,000 سے زائد کیمرے نصب کر رکھے ہیں اور اس تعداد کو مزید 40,000 تک بڑھانے کا منصوبہ ہے تاکہ ٹریفک کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کی جا سکے۔ لیکن یہ تمام تبدیلیاں نہ صرف ایک طرفہ ہیں۔ حکومت نے کچھ جگہوں پر عملی طور پر لچک دکھائی ہے، جیسے کہ ہو چی منہ شہر میں 50 اہم مقامات پر موٹر بائیکس کو سرخ لائٹ پر دائیں مڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے، اور ہنوئی میں بھی کچھ ٹریفک لائٹس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ یہ فیصلے حکومت کی جانب سے عوامی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ اس وقت ویٹنام کی سڑکوں پر ایک پیچیدہ توازن کا کھیل جاری ہے۔ جہاں ایک طرف سڑکوں پر ٹریفک کا بہاؤ تھما ہوا ہے، وہیں دوسری طرف عوام کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نئی ٹریفک قوانین سڑکوں پر مکمل نظم لا پائیں گے؟ یا یہ ویتنام کی سڑکوں پر مزاحمت کا نیا دور شروع ہو گا؟

آپ کی تصویر کون کون دیکھے گا؟ واٹس ایپ نے نیا فیچر متعارف کروا دیا

واٹس ایپ نے صارفین کے لیے نئی پالیسی متعارف کروا دی۔ پالیسی کے مطابق صارفین کی پروفائل فوٹو سب کو نظر آئے گی جب تک صارفین خود اپنے اکاونٹ کی سیٹنگز نہیں کریں گے۔ نئی پالیسی کے مطابق جب بھی کوئی نیا یوزر واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کرے گا تو پہلے سے طے شدہ قوانین کے مطابق اس کی پروفائل تصویر سب لوگوں کو نظر آئے گی۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی تصویر کسی کو نظر نہ آئے تو وہ واٹس ایپ کی سیٹنگز میں جا کر تبدیلی کر سکتا ہے۔ اگر صارف چاہتا ہے کہ اس کی تصویر تمام لوگ دیکھیں تو وہ سیٹنگز میں موجود آپشن “ایوری ون” پہ کلک کر سکتا ہے۔ جب کہ  اگر وہ صرف ان لوگوں کو تصویر دکھانا چاہتا ہے جو اس کی کانٹیکٹ لسٹ میں ہوں تو اسے “کانٹیکٹس” کے آپشن پر کلک کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر وہ کسی کو بھی پروفائل فوٹو نہیں دکھانا چاہتا ہے تو “نو باڈی” پہ کلک کرے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ پیغام رسانی اور لوگوں سے رابطے میں رہنے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ آسانی اور یوزر فرینڈلی انٹرفیس کی وجہ سے پوری دنیا میں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ بیک لنکو کی  رپورٹ کے مطابق 2024 میں واٹس ایپ 113 ملین  ڈاؤن لوڈز کے  ساتھ دنیا کی چوتھی سب سے زیادہ چلنے والی ایپ ہے۔ واٹس ایپ پر صارفین میسج، آڈیو کال اور ویڈیو کال بھی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سٹیٹس ، واٹس ایپ گروپس اور واٹس ایپ کمیونٹی جیسے فیچرز اس کے استعمال کرنے والوں کے لیے دلچسبی کا باعث ہیں۔ واٹس ایپ نے تمام صارفین کو ایک میسج ،جس میں ایک ویڈیو بھی شامل تھی، بھیجا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ” آپ یہ کنٹرول کر سکتے ہیں کہ کون آپ کی پروفائل فوٹو دیکھ رہا ہے”  

ٹرمپ نے امریکی فوجی پالیسیوں کو نئی شکل دینے کے انتظامی احکامات پر دستخط کر دیے ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کی طرف قدم بڑھایا ہے، ایئر فورس ون پر فلوریڈا سے واپس آتے ہوئے ٹرمپ نے فوجی پالیسیوں میں اہم تبدیلیوں کے لیے کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے ہیں جو سابقہ حکومت کے اقدامات سے یکسر مختلف ہیں۔ ان تبدیلیوں نے نہ صرف امریکا بلکہ عالمی سطح پر ایک نیا بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ٹرمپ کے نئے احکامات میں سب سے متنازعہ اور اہم فیصلہ امریکی فوج میں خواجہ سراؤں کے خدمات انجام دینے پر سخت پابندیاں لگانا ہے۔ یہ فیصلہ فوج میں جسمانی اور ذہنی تیاری کو پہلی ترجیح دینے کے مقصد سے کیا گیا ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے گروہ اس پر شدید اعتراض کر رہے ہیں اور اسے امتیازی سلوک کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے فوجی ہم آہنگی اور شمولیت میں کمی آئے گی مگر ٹرمپ کا موقف ہے کہ یہ قدم فوجی طاقت اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ  ٹرمپ نے دفاعی محکمہ میں تنوع، مساوات اور شمولیت (ڈی ای آئی) پروگراموں کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ فیصلہ فوج میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتی اور ترقیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان پروگراموں کے ذریعے امریکا کی فوج میں مختلف قومیتوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ٹرمپ کی نظر میں یہ اقدامات فوج کی کارکردگی اور ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے ایک اور متنازعہ فیصلہ بھی کیا ہے جس میں وہ فوجی جو کووڈ-19 کی ویکسین لینے سے انکار کر چکے تھے اور فارغ کر دیے گئے تھے، انہیں واپس بحال کرنے کا حکم دے چکے ہیں۔ امریکی صدر کے مطابق ان فوجیوں کو پچھلے عرصے کی تنخواہ کے ساتھ دوبارہ فوج میں شامل کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ فوج میں ان افراد کی واپسی کے لیے ہے جنہیں ویکسین کے معاملے میں اختلافات کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے اسرائیل کے  دفاعی سسٹم ‘آئرن ڈوم’ کی طرز پر امریکا میں ایک جدید فضائی دفاعی نظام کی تیز ترقی کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کا مقصد داخلی سلامتی کو مزید مضبوط بنانا اور فضائی خطرات سے بچاؤ کو یقینی بنانا ہے، جبکہ دفاعی ماہرین اس فیصلے پر گرما گرم بحث کر رہے ہیں اور اس نظام کی ممکنہ تطبیق پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ دوسری جانب نئے وزیر دفاع پیٹ ہیگزیتھ نے حلف لینے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ان کا مقصد فوج میں ‘روایتی اقدار’ کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فوج میں نظم و ضبط، تیاری اور امریکی اقدار کو بحال کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں گے، جن میں ٹرانس جینڈر سروس پر پابندی اور فٹنس کے معیار کو یقینی بنانا شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کے بعد امریکا میں  شہری حقوق کے گروہ ان فیصلوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات فوجی ہم آہنگی اور اتحاد کو نقصان پہنچائیں گے۔ دفاعی ماہرین، سیاسی تجزیہ کار اور عوامی سطح پر اس تبدیلی کو لے کر مختلف آراء سامنے آرہی ہیں  ان کے مطابق ٹرمپ کے یہ فیصلے صرف امریکا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سطح پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

مکہ اور مدینہ میں غیرملکیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت، کس شعبے میں انویسٹمنٹ کی جاسکتی ہے؟

مکہ اور مدینہ کو مسلمانوں کا مقدس شہر سمجھا جاتا ہے،یہاں صرف مسلمانوں کو ہی جانے کی اجازت ہے مگر اب سعودی عرب نےغیر ملکیوں کو یہاں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ سعودی عرب کی اقتصادی حکمت عملی کے تحت ملک کے ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنے اور معیشت میں تنوع لانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس اقدام سے سعودی عرب کی کیپٹل مارکیٹ کی عالمی سطح پر مسابقت میں اضافہ ہوگا اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں نئی امیدیں پیدا ہوں گی۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی کیپٹل مارکیٹ اتھارٹی (CMA) نے اس اہم فیصلے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اب سعودی کی لسٹڈ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرسکیں گے، جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حدود میں جائیدادوں کی مالک ہیں۔ اس سرمایہ کاری کی نوعیت محدود ہوگی۔ یہ فیصلہ سعودی عرب کے 2030 وژن کا حصہ ہے، جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ سعودی عرب کے لیے یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ملک عالمی سطح پر اپنی معیشت کو تنوع دینے اور ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے۔   اتھارٹی کے مطابق غیر ملکی افراد اور اداروں کی ملکیت مجموعی طور پر کمپنی کے شیئرز کا 49 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا ۔ سعودی عرب کی اقتصادی حکمت عملی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی ترقی کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ ان مقدس شہروں کی تعمیر و ترقی کے منصوبے سعودی عرب کی مجموعی ترقی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اور اس فیصلے سے ان شہروں میں رئیل اسٹیٹ کی ترقی کو مزید رفتار ملے گی۔  سعودی عرب میں رئیل اسٹیٹ کا شعبہ پہلے ہی تیز رفتار ترقی کر رہا ہے، اور یہ فیصلہ اس میں مزید تیزی لائے گا۔ اس میں سب سے اہم منصوبہ “مسار” ہے، جسے سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) کی مدد سے شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مکہ مکرمہ میں 40,000 نئے ہوٹلز رومز بنائے جائیں گے، جس سے یہاں آنے والے زائرین کی تعداد 30 ملین تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت سے سعودی عرب کی معیشت کو کئی فوائد حاصل ہوں گے۔  سعودی عرب کا یہ فیصلہ نہ صرف ملک کی اقتصادی حکمت عملی کا حصہ ہے بلکہ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کا ایک اہم قدم ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت سے سعودی عرب کی ترقیاتی منصوبوں کو مزید تقویت ملے گی۔  

ایڈنبرا میں راتوں کو قیام کرنے والے سیاحوں پر ٹیکس: ایسا کیوں ہوگا؟

ایڈنبرا کے مقامی سیاست دانوں نے سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت میں راتوں کو قیام کرنے والے سیاحوں کے لیے سیاحتی ٹیکس کی منظوری دی ہے، جس سے برطانیہ میں اپنی نوعیت کا پہلا چارج متعارف کرایا گیا ہے۔ 2026 کے وسط سے، کسٹمائیڈ رہائش، بہترین ناشتہ اور کھانے، ہاسٹل، سیلف کیٹرنگ اپارٹمنٹ یا گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے والے سیاح سے فی رات ان کی رہائش کی قیمت کا 5% فیس وصول کی جائے گی۔ مقامی اتھارٹی کے مطابق، یہ چارج لگاتار پانچ راتوں تک محدود ہے۔ رہائش فراہم کرنے والے اتھارٹی کی جانب سے فیس جمع کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ ووٹنگ سے پہلے، سٹی آف ایڈنبرا کونسل کے سربراہ جین میگھر نے کونسلرز کو بتایا کہ سیاحت “شہر کے وسائل پر دباؤ ڈالتی ہے” جسے “منصوبہ بند اور پائیدار طریقے سے” ترقی کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ قومی سیاحتی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق 2023 میں 5 ملین سیاح ایڈبرا آئے جنہوں نے £2.2 بلین ($2.7 بلین) خرچ کیے۔ کونسل کو توقع ہے کہ نئی فیس 2028 یا 2029 تک ایک سال میں ($56-62 ملین) بڑھے گی۔ ایڈنبرا میں سیاحتی ٹیکس 2018 سے زیر بحث ہے اور یہ اس وقت لاگو ہوا جب جولائی میں وزیٹر لیوی (اسکاٹ لینڈ) ایکٹ نافذ ہوا۔ سٹی آف ایڈنبرا کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق، ایکٹ کے تحت، لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مقامی سہولیات اور خدمات کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جنہیں کاروباری اور تفریحی مہمان بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کونسلروں نے ووٹنگ سے پہلے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ چارج زیادہ ہونا چاہیے، اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہ لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی رہائشیوں کو سستی رہائش فراہم کرنے پر خرچ کی جائے، اور کہا جاتا ہے کہ فی الحال سیاحت میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کے لیے رہائش بہت مہنگی ہے۔ اگست میں وزیٹر لیوی کے مسودے کی نقاب کشائی کے بعد مقامی رہائشیوں اور کاروباری اداروں سے مشورہ کیا گیا۔ مقامی اتھارٹی کے نوٹس کے مطابق، اگرچہ نصف سے زیادہ رہائشیوں اور کاروباروں نے 5% چارج سے اتفاق کیا، زیادہ تر سیاح (62%) لیوی کے خلاف تھے یا ان کا خیال تھا کہ فیس کم ہونی چاہیے۔ چارج کے لیے راتوں کی تعداد کی حد اصل میں سات کے طور پر تیار کی گئی تھی لیکن وزٹ اسکاٹ لینڈ اور ایڈنبرا فیسٹیولز کے مشاہدات کے بعد اسے کم کر کے پانچ کر دیا گیا، جس سے یہ پتا چلا  کہ تقریبات کے دوران اداکار اور میلے کے دیگر کارکن اکثر کئی ہفتوں تک رہتے ہیں۔ جمعے کے حتمی فیصلے سے پہلے، کونسلرز نے گزشتہ ہفتے اس منصوبے کی منظوری دی، میگھر نے اس اقدام کو “زندگی بھر میں ایک بار ان چیزوں کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے دسیوں ملین پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کرنے کا موقع قرار دیا جو ہمارے شہر کو دیکھنے کے لیے ایک بہترین جگہ بناتی ہیں – اور ایک نیوز ریلیز کے مطابق – سارا سال رہتے ہیں۔ ایڈنبرا حالیہ برسوں میں سیاحتی ٹیکس متعارف کرانے کے لیے یورپی شہروں کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

’یہاں کچھ نہیں بچا، یہ صرف ایک بربادی ہے‘ غزہ لوٹنے والے گھر دیکھ کر آبدیدہ

غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران جو تباہی پھیل چکی ہےاس کا اثر عالمی سطح پر محسوس ہو رہا ہے۔ 15 ماہ کی شدید لڑائی کے بعد آخرکار ایک عارضی جنگ بندی (ceasefire) نے جنوبی غزہ سے شمالی غزہ کی جانب لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی کا دروازہ کھولا۔ تاہم، اس واپسی کے ساتھ ہی ایسی تباہی اور خوف کا سامنا ہو رہا ہے جو کئی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ شمالی غزہ میں تباہی کا منظر 300,000 سے زائد افراد نے جنوبی غزہ سے شمال کی طرف قدم بڑھایا، مگر جب انہوں نے اپنے گھروں کی طرف رخ کیا تو انہیں صرف تباہی نظر آئی۔ شمالی غزہ میں ہر طرف بربادی ہی بربادی نظر آتی ہے۔ وہاں کی عمارات، سڑکیں اور بنیادی ڈھانچے کا مکمل طور پر صفایا ہو چکا ہے۔ ان افراد کے ہاتھوں میں پانی کے ٹینک، بیٹریاں، سولر پینلز اور کچھ دیگر ضروری سامان تھا، کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ شمالی غزہ میں بجلی اور پانی کی شدید کمی ہے۔ عالمی خبررساں ادارے الجزیرہ کے مطابق غزہ کے شمالی حصے کی حالت اتنی بدتر ہے کہ لوگ اپنے خاندان کے دیگر افراد کو یہ بتا کر واپس آ رہے ہیں کہ “یہاں کچھ نہیں بچا، یہ صرف ایک بربادی ہے”۔ اس صورتحال نے انسانی ہمدردی کی عالمی سطح پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “میدان پر ضروریات بہت زیادہ ہیں”، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ غزہ کی عوام کی مشکلات کا کوئی خاتمہ نہیں۔ ایسے میں قطر یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر حسن باراری نے کہا کہ فلسطینیوں کی واپسی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جنگ بندی کامیابی سے جاری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی سطح پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ جنگ بندی کو مستقل بنایا جانا چاہیے، حالانکہ اسرائیل اور امریکا کی طرف سے اس پر متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ نکتہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اب یہ مشکل ہوگا کہ لوگ دوبارہ اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لئے کہیں اور پناہ لیں۔ باراری نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ شاید اسرائیل اور غزہ کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہو۔ اسرائیلی میڈیا نے بھی اس مسئلے پر اہم تبصرے کیے ہیں جس میں کین 11 کی نشریات میں اس بات پر تبصرہ کیا گیا کہ فلسطینیوں کی واپسی نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ‘مکمل فتح’ کے خواب کو توڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں فلسطینیوں کا دوبارہ لوٹنا ایک سنگین اشارہ ہے جس سے نیتن یاہو کی حکمت عملی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی میڈیا میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ شمالی غزہ میں واپس جانے والے فلسطینیوں کی گاڑیوں کو امریکی سیکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے چیک کرنا ایک نیا ‘چپکنے والا پلاسٹر’ ہےجو اس بحران کا حل نہیں ہو سکتا۔ غزہ کے اسپتالوں میں بھی صورتحال انتہائی سنگین ہے جہاں ہسپتالوں میں خواتین اور بچوں کی زندگیوں کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی بمباری اور انسانی امداد کی کمی نے حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بعض اسپتالوں میں بچے ایک ہی انکیوبیٹر میں سلیب ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیونکہ اسپتالوں میں ضروری سامان کی کمی ہے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر فرینسکا البانیز نے مغربی سیاستدانوں کی خاموشی پر سوالات اٹھائے ہیں خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل کی فوج فلسطینی بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔  البانیز نے کہا کہ “جب اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کو مار رہا ہے، تو کوئی مغربی سیاستدان آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟” ان کے اس بیان نے عالمی سطح پر اسرائیل کے اقدامات کے بارے میں مزید سوالات اٹھائے ہیں۔ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے باوجود عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حق میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔  سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کی تجویز دی ہے اور کئی عالمی رہنماؤں نے اس پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ تاہم، بیشتر فلسطینیوں کی نظر میں ان کے حقوق اور آزادی کی جنگ کا ایک حصہ ہے، جس کا خاتمہ ابھی دور ہے۔ غزہ کے شمالی حصے میں فلسطینیوں کی واپسی ایک نیا باب ہو سکتی ہےجو امن اور استحکام کی طرف بڑھنے کا اشارہ دے سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انسانی امداد کی فراہمی، زندگی کے معمولات کی بحالی اور عالمی سطح پر تنازعہ کے حل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ جنگ بندی ایک عارضی حل ہے یا اس سے کچھ دیرپا امن کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔ اس ساری صورتحال میں غزہ کی عوام کا دل شکستہ ہے مگر ان کی امیدیں اب بھی زندہ ہیں کہ عالمی برادری ان کی مدد کرے گی اور ان کا درد ختم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام کرے گی۔

احتجاج کے شور میں ’متنازع پیکا ایکٹ‘ منظور، صحافیوں کا سینیٹ گیلری سے واک آؤٹ

سینٹ نے متنازعہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا ہے۔ بل کی منظوری کے وقت صحافی سینیٹ گیلری سے واک آؤٹ کر گئے۔ سینیٹ نے پیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025 منظور کیے ہیں۔ ڈپٹی چیئر مین سیدال خان ناصر کی صدارت میں اجلاس شروع ہوا، رانا تنویر حسین نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کی تحریک پیش کی، جسے ایوان نے کثرتِ رائے سے منظور کیا۔ بل کی منظوری کے وقت اپوزیسن اراکین کا سخت احتجاج دیکھنے میں آیا۔ احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں پھینک دیں۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کہتے ہیں کہ قانون بننے میں وقت لگتا ہے۔ لیکن یہاں وزیر قانون آتے ہیں ، نیا قانون بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس کوما وغیرہ کی درستی کی ضرورت ہے باقی فوری طور پر منظور کر لیں۔ شبلی فراز نے مزید کہا کہ صحافی آج اپنے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے تحفظات پر احتجاج پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لیا حکومے نے متعلقہ صحافیوں سے اس بارے م،ی ں رابطہ کیا؟ یہ قانون برائے اصلاح نہیں بلکہ قانون برائے سزا ہے اور ہم اس قانون کے بننے کے عمل میں شامل نہیں ہو سکتے۔ پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔ پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں  سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ اب حکومت سوشل میڈیا میں اصلاحات لانے کیلئے پیکا ایکٹ اور ڈیجیٹ نیشن بل لے کر آئی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اِن بلز کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے یا پھر ان بلز کی آڑ میں حکومت آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

نئی CSIRO ٹیکنالوجی نے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز کی دریافت کر لیئے

آسٹریلوی محققین نے ایک نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز دریافت کیے ہیں، جو سائنس کی دنیا میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی CSIRO (آسٹریلین سائنسی اور صنعتی تحقیقی تنظیم) نے تیار کی ہے اور اس کا نام CRACO رکھا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اس بات کا کھوج لگایا گیا کہ خلا میں کئی غیر معمولی اور پراسرار سگنلز کی موجودگی ہے، جنہیں سمجھنا ابھی تک انسان کے لئے ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ آسٹریلیشین نیشنل سائنس ایجنسی CSIRO کے ماہرین اور انجینئرز کی مدد سے یہ نئی ٹیکنالوجی تیار کی گئی ہے جس کی کامیاب آزمائش نے ماہرین کو خلا میں موجود پراسرار سگنلز کو سمجھنے میں اہم کامیابی دلائی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیقاتی ٹیم نے انتہائی کم وقت میں 20 سے زائد فاسٹ ریڈیو برٹس (Fast Radio Bursts) اور نیوٹرون اسٹارز جیسے اجسام دریافت کیے ہیں، جو اس تحقیق میں ایک بڑی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ CRACO ایک جدید سسٹم ہے جسے CSIRO کے ASKAP ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے جوڑا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے محققین خلا میں موجود مختلف اجسام کے سگنلز کو اس قدر سرعت سے ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں کہ پہلے کبھی یہ ممکن نہیں تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے تحقیق کے عمل کو بے حد تیز کر دیا ہے اور ریسرچرز اب ہر سیکنڈ میں 100 بار تک سگنلز کا معائنہ کر سکتے ہیں، جبکہ مستقبل میں یہ تعداد 1,000 تک بڑھنے کی توقع ہے۔ اس سسٹم کا کام انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ یہ ہر سیکنڈ میں 100 ارب پکسلز کو اسکین کرتا ہے تاکہ کسی بھی نوعیت کے فاسٹ ریڈیو برٹس کو شناخت کیا جا سکے۔ اس تحقیق کا ایک نکتہ نظر یہ تھا کہ ریڈیو سگنلز کا تجزیہ کیا جائے جو خلا میں مختلف فاصلے اور سمتوں سے آ رہے تھے، اور CRACO نے یہ عمل اس قدر درست اور تیز طریقے سے مکمل کیا ہے کہ اس کی مثال دی جا رہی ہے جیسے ریت کے بے شمار دانوں میں سے ایک بانچ روپے کا سکہ تلاش کرنا۔ فاسٹ ریڈیو برٹس ایک ایسا راز ہیں جن کی حقیقت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی۔ یہ انتہائی روشن اور مختصر مدت تک روشن ہونے والے ریڈیو سگنلز ہیں جو زیادہ تر ہماری کہکشاں سے باہر کے خلا سے آتے ہیں۔ ان کی اصلی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی، مگر ان کی موجودگی نے خلا کی تحقیق کے میدان میں ایک نیا باب کھولا ہے۔ ڈاکٹر اینڈی وانگ، جو اس تحقیق کی قیادت کر رہے ہیں، نہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں اس سے زیادہ اجسام دریافت کیے ہیں جو انہوں نے توقع کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کو ڈھونڈنے پر مرکوز تھے مگر ہم نے ان سے زیادہ چیزیں دریافت کیں، جن میں نیوٹرون اسٹارز اور پولسارز شامل ہیں۔” پہلے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں متعدد اضافی اقدامات درکار ہوتے تھے، لیکن CRACO کے ذریعے اس عمل کو زیادہ سادہ اور تیز بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر لورا ڈریسن، جو یونیورسٹی آف سڈنی میں ریڈیو ایسٹرونومر ہیں، انھوں  نے اس نئی ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ CRACO نے اس عمل کو بہت زیادہ موثر بنا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے فلکیات دانوں کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ خلا میں پھیلے ان سگنلز کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوں جو پہلے صرف عمومی سمت تک محدود تھے۔ CRACO کے ذریعے فاسٹ ریڈیو برٹس کی جگہ کا تعین کرنا ممکن ہو سکا ہے، جو کہ ان کی نوعیت اور ان کے ماخذ کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم ان سگنلز کے ماخذ کی صحیح جگہ معلوم کر سکیں تو ہم ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں، جیسے کہ ان کی صحیح فاصلے اور ان کے پیچھے موجود قدرتی عمل کی تفصیلات۔ ڈاکٹر ڈریسن نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تحقیق خلا کے پراسرار اجسام کو سمجھنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگر ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کے ہر ایک سگنل کو اس کے متعلقہ کہکشاں سے جوڑ سکیں تو ہم ان کی حقیقت کو سمجھنے میں مزید کامیاب ہو سکتے ہیں۔ CRACO کے ذریعے آسٹریلوی سائنسدانوں نے خلا میں موجود ایک اور معمہ حل کرنے کی طرف ایک قدم اور بڑھایا ہے۔ اس کی کامیاب آزمائش کے بعد ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کے بارے میں نئے راز کھلیں گے۔ اس تحقیق میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں اور یہ فیلڈ خلا کی دریافت کے حوالے سے ایک نئی سمت اختیار کرے گا۔

پاکستان اور امریکا کے درمیان کرکٹ سیریزکا آغاز کب سے ہوگا؟

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)کے چیئرمین محسن نقوی نے امریکی کرکٹ بورڈ(یو ایس اے کرکٹ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جوناتھن اٹکیسن سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان کرکٹ سریز کروانے کے متعلق حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا۔ محسن نقوی نے جوناتھن اٹکیسن کو یقین دلایا کہ پاکستان کرکٹ امریکا کے کوچز کو پاکستان میں تربیت دینے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یو ایس اے کرکٹ کے سی ای اوکو پاکستان میں ہونے والے چیمپئنز ٹرافی کے میچز دیکھنے کی دعوت بھی دی۔ چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ” پاکستان اور امریکہ کے درمیان کرکٹ کے فروغ کے لیے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کے حکام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔   اس سے قبل چیئرمین پی سی بی اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی سینیٹرز اور کانگرس کے اراکین سے ملاقات کی اور خصوصی عشائیہ کی تقریب میں بھی شرکت کی۔  محسن نقوی نے 20 جنوی کو ہونے والی ٹرمپ کے حلف اٹھانے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین صرف ایک کرکٹ مقابلہ ہوا ہے۔ یہ مقابلہ 2024 میں ہونے والے ٹی 20ورلڈ کپ میں ہوا۔ جس میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد امریکا نے پاکستان کو 5 رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان اور امریکا کی آپس میں کرکٹ سیریز ہونا، دونوں ممالک کو مزید قریب لائے گی۔ کھیل سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکا کے درمیان نئی شراکت داریاں دیکھنے کو ملیں گی۔

امریکی امداد کی معطلی: پاکستان کے وہ منصوبے جو متاثر ہوں گے

پاکستان میں امریکا کی امداد کی معطلی کے بعد متعدد اہم منصوبے بند کردیے گئے ہیں ۔ امریکی حکام کے مطابق تمام غیر ملکی امدادی پروگرامز کی معطلی کا فیصلہ 90 دنوں کے لیے کیا گیا ہے جس کے بعد ان کی تجدید یا خاتمے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے تحت پاکستان سمیت مختلف ممالک کی امداد کو روک دیا گیا ہے جس میں یوکرین، تائیوان، اردن اور دیگر شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب تمام سفارتی مشنز کو حکم دیا گیا کہ وہ فوری طور پر غیر ملکی امدادی منصوبوں کو معطل کر دیں۔   اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں کئی شعبوں میں شدید مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں ثقافتی تحفظ کے لیے امریکی فنڈز کی فراہمی روک دی گئی ہے اور پانچ اہم توانائی منصوبوں پر کام بھی  رک گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اکانومک ترقی کے چار منصوبوں کی امداد بھی روک دی گئی ہے جبکہ  پانچ زرعی ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہو گئے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق، جمہوریت اور حکمرانی سے متعلق تمام منصوبوں کی امداد بھی معطل کر دی گئی ہے جس سے تعلیم اور صحت کے منصوبے بھی اس فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد امریکی پالیسیوں کے مطابق غیر ملکی امداد کی تقسیم کو مزید مؤثر بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کسی بھی ملک کو امریکہ سے امداد اس کی قومی مفادات اور ترجیحات کے مطابق ملے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب صدر ٹرمپ نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کے آغاز پر 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس میں تمام وفاقی ایجنسیوں کو 90 دن کے لیے غیر ملکی ترقیاتی امداد روکنے اور اس پر نظرثانی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ٹرمپ کے اس حکم میں کہا گیا کہ “امریکہ کی پالیسی ہے کہ وہ غیر ملکی امداد صرف اسی صورت میں دے گا جب وہ امریکہ کے مفادات کے مطابق ہو۔” ٹرمپ کے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی عوام کے پیسوں کے بدلے میں کچھ نہ کچھ فائدہ ہونا ضروری ہے، نہ کہ بے جا طور پر امداد دی جائے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی امریکی وزارت خارجہ نے ایک میمو جاری کیا جس میں تقریباً تمام غیر ملکی امدادی پروگرامز کے لیے نئی فنڈنگ روکنے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم، اس میں اسرائیل اور مصر جیسے کلیدی مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کو استثنیٰ دیا گیا۔ اس ےک علاوہ ایمرجنسی فوڈ اسسٹنس اور متعلقہ اخراجات کے لیے بھی کچھ رعایت دی گئی۔ امریکا کا یہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی ترقی کے لیے اہم امداد فراہم کی ہے۔ اب اس معطلی کے باعث پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست ہو سکتی ہے اور اس کے اثرات مختلف شعبوں پر پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام اب اس صورتحال سے نکلنے کے لیے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں لیکن اس بات کا یقین ہے کہ امریکی امداد کی معطلی سے متعلق فیصلے کے نتائج آنے والے دنوں میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘کیا امریکا اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا یا پاکستان کو نئی مشکلات کا سامنا ہوگا؟ اس سواک کا جواب اب وقت ہی بتائے گا۔