قذافی اسٹیڈیم اپ گریڈیشن سہ ملکی سیریز سے قبل ہوجائے گی: پی سی بی

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ڈائریکٹر انفراسٹرکچر جواد قاضی نے قذافی اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کے آخری مراحل کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسٹیڈیم کی مکمل اپ گریڈیشن جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کی سہ ملکی سیریز سے قبل مکمل کر لی جائے گی۔ اس وقت اسٹیڈیم کے تمام کام انتہائی تیز رفتاری سے مکمل کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹیڈیم کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کیا جائے اس کے لیے واضح حکمتِ عملی سے کام لیا جار ہا ہے۔ آج میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جواد قاضی نے اس بات کا انکشاف کیا ہےکہ قذافی اسٹیڈیم کی تمام کرسیاں آج رات تک نصب کر دی جائیں گی، جس کے بعد اسٹیڈیم کی اندرونی سہولتیں مکمل طور پر فعال ہو جائیں گی۔ اسی کے ساتھ پویلین اور دفتر کی عمارتوں کے فنشنگ کا کام مکمل ہو چکا ہے اور اب فرنیچر کی تنصیب کا کام جاری ہے۔ یہ اسٹیڈیم کے جدید معیار کی طرف ایک اور اہم قدم ہے۔ دوسری طرف اسٹیڈیم کے بیرونی علاقے میں صفائی اور ملبہ صاف کرنے کا کام بھی جاری ہے تاکہ اسٹیڈیم کی ظاہری شکل کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ جواد قاضی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جا رہی اور تمام کام مقررہ وقت پر ہوجائیں اس کے لیے نہایت احتیاط سے کام کیا جارہا ہے۔  ڈائریکٹر انفراسٹرکچر پی سی بی کے مطابق قذافی اسٹیڈیم کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) نے پھول، گھاس اور درخت لگانے کا عمل شروع کر دیا ہے، جس سے اسٹیڈیم کے اندر اور باہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ شائقین کو بہترین تجربہ فراہم کرنے کے لیے اسٹیڈیم کے باہر صفائی کا کام بھی کیا جارہا ہے۔ جواد قاضی نے کہا ہے کہ اسٹیڈیم میں آٹھ نئے گیٹ نصب کیے گئے ہیں، جس سے شائقین کے لیے داخلے اور اخراج کی سہولیات بڑھیں گی اور میچ کے دوران ٹریفک کا دباؤ کم ہوگا۔ ڈائریکٹر انفراسٹرکچر پی سی بی نے سرکاری محکموں کے تعاون کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کے مشترکہ کاوشوں کی بدولت قذافی اسٹیڈیم کو ایک نئی زندگی مل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیڈیم کی مکمل اپ گریڈیشن سہ ملکی سیریز سے پہلے ہوجائے گی اور یہ عالمی معیار کے مطابق تیار کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اسٹیڈیم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ وی آئی پی راستوں کو حتمی شکل دینے کا عمل بھی جاری ہے، جو ایک یا دو دن میں مکمل ہو جائے گا۔ پی سی بی کے مطابق جدید سہولیات سے آراستہ اس اسٹیڈیم کا مقصد بین الاقوامی کرکٹ کو مزید فروغ دینا اور شائقین کو بہتر تجربہ فراہم کرنا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سہ فریقی سیریز کا افتتاحی میچ 8 فروری کو قذافی اسٹیڈیم لاہورمیں کھیلا جائے گا۔ نجی ٹی وی آج نیوز کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف کو آئندہ ماہ اسٹیڈیم کے افتتاح کی دعوت دی گئی ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان سہ ملکی سیریز سے قبل قذافی اسٹیڈیم کا باضابطہ افتتاح کریں گے۔

امریکی سینیٹ نےعالمی عدالت پر پابندی کا بل روک دیا

امریکی سینیٹ نے اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کے معاملے پر ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ یہ وارنٹ غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی قیادت پر مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تناظر میں جاری کیے گئے تھے۔  عالمی خبر رساں ادارے’روئٹرز‘ کے مطابق سینیٹ میں اس بل کی حمایت اور مخالفت میں زبردست کشمکش ہوئی، تاہم بالآخر یہ بل درکار 60 ووٹوں کے بغیر مسترد ہوگیا۔ بل کے حق میں 54 ووٹ پڑے جب کہ 45 ووٹ اس کے مخالف میں تھے۔ اس بل کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، جسے اسرائیل کی قیادت کے خلاف آئی سی سی کے وارنٹس گرفتاری کے بعد مزید پیچیده قانونی مسائل کا سامنا تھا۔  یہ وارنٹس، جن میں حماس کے کمانڈر محمد دیف کے خلاف بھی الزامات شامل ہیں، اسرائیل کے غزہ پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے جاری کیے گئے تھے۔ ان وارنٹس کے جاری ہونے سے عالمی سطح پر شدید بحث نے جنم لیا، جس میں ایک طرف اسرائیل کے حامیوں کی آوازیں بلند ہوئیں تو دوسری طرف آئی سی سی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والے تحفظات بھی سامنے آئے۔ ڈیموکریٹک سینیٹروں کی بڑی تعداد نے اس بل کی شدید مخالفت کی، اور انہیں آئی سی سی کے اقدامات پر پابندیاں عائد کرنے کے نتیجے میں ممکنہ عالمی اثرات پر گہری تشویش تھی۔ سینیٹ میں اکثریتی رہنما چک شومر نے اس بل کی حمایت کی لیکن اس میں مزید ترمیم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ امریکی مفادات کو نادانستہ طور پر نقصان نہ پہنچے۔ شومر کا کہنا تھا کہ یہ بل اسرائیل کے خلاف متعصبانہ اقدام کے طور پر نظر آ سکتا ہے، اور اس میں مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ سینیٹر جان تھون نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی کے اقدامات امریکی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو مستقبل میں نشانہ بنانے کے لیے خطرناک مثال بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کو ہدف بنانا ایک سنگین اقدام ہو سکتا ہے، جو دیگر امریکی اتحادیوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے‘۔  تھون نے کہا کہ اگر اس طرح کے اقدامات کو نظر انداز کیا گیا تو آئی سی سی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔ دوسری جانب سینیٹر جان فیٹرمین، جو اس بل کے حق میں ووٹ دینے والے واحد ڈیموکریٹ تھے، نے اسرائیل پر آئی سی سی کے ‘بے بنیاد حملوں’ کی مذمت کی اور انہیں دفاع کے قابل قرار دیا۔ اسرائیل نواز گروپوں نے ان کی حمایت کی، جس میں امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) بھی شامل تھا۔ یاد رہے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب امریکا کو آئی سی سی کے ساتھ تصادم کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا نے آئی سی سی کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں، جب وہ امریکی فوجیوں پر ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔  جو بائیڈن کے دور میں ان پابندیوں کو ختم کردیا گیا تھا، لیکن ٹرمپ نے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پابندیوں کو پھر سے بحال کردیا تھا۔ اس پورے معاملے نے عالمی سیاست میں اسرائیل کے موقف اور آئی سی سی کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں، اور اس پر مزید عالمی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔  

آن لائن ’جعلی خبروں‘ پر تین سال قید، 20لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، صدر مملکت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کردیے

آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد اب سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کردی۔  صدر پاکستان نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 کی بھی منظوری دے دی جب کہ آصف زرداری نے نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن ( ترمیمی) بل 2025 کی بھی توثیق کر دی۔ صدر مملکت نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے ہیں، صدر کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔ اس سے قبل پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر مملکت نے پیکا ایکٹ کے ترمیمی بل پر دستخط کرنےمیں تاخیر کی تھی ۔  اس سلسلے میں پی آر اے پاکستان کے نمائندہ وفد نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے خصوصی ملاقات کی تھی جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے رابطہ کیا اور پیکا ترمیمی بل کی مشاورت کے بغیر منظوری کے خلاف پی آر اے پاکستان سے مکمل اظہار یکجہتی کیا۔ سربراہ جے یو آئی (ف) نے صدر آصف زرداری کو بل پر فوری دستخط نہ کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ملک بھر کے صحافی بعض شقوں پر معترض ہیں، مناسب ہو گا میڈیا کے جائز تحفظات کو دور کیا جائے۔ پی آر اے پاکستان کے مطابق صدر مملکت نے سربراہ جے یو ائی مولانا فضل الرحمن کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ صدر مملکت نے مولانا فضل الرحمن کی درخواست پر پی آر اے پاکستان کی تجاویز آنے تک بل پر دستخط کا مرحلہ کچھ وقت کے موخر کردیا ہے۔ صدر مملکت نے واضح کیا کہ ترمیمی بل کے معاملے پر وزیر داخلہ کے ساتھ پی آر اے پاکستان کی مشاورت بھی کرائی جائے گی، پی آر اے پاکستان نے آزادی اظہار رائے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد گزشتہ روز سینیٹ نے بھی متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کی منظوری دے دی تھی۔ حکومت پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ اُس نے صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر پیکا ایکٹ کو منظور کیا ۔صحافتی تنظیموں سمیت اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ متنازع اور کالا قانون ہے ۔جس کو منظور کروانے میں حکومت نے عجلت سے کام لیا ۔اب اس ایکٹ کو لے کر حکومت کو شک بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ حکومت کی نیت پر سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کو روکنے کیلئے اِس قانون کو لائی ہے۔ اب اِس بل کی مظوری پر ملک بھر میں صحافی سراپا احتجاج ہیں ۔جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون صحافیوں کے لیے نہیں ہے ۔رانا تنویر جنہوں نے اِس بل کو ایوان میں پیش کیا اُن کا اپنی صفائی میں کہنا ہے کہ قانون میں ترامیم کبھی بھی ہو سکتی ہیں ۔یہ بل الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کیلئے نہیں۔۔بلکہ سوشل میڈیا والوں کے لیے  ہے۔ ترمیمی بل میں ہے کیا؟ دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بےامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔

قائد اعظم کے متعلق ‘نامناسب’ الفاظ، اے این پی رہنما ایمل ولی مشکل میں

اے این پی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی نے جوش خطابت میں بانی پاکستان کے خلاف ’ہرزہ سرائی‘ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اپنے قائد محمد علی کو رہا کرو،ہتھکڑی میں وہ دنیا سے فرار ہوگیا،اور قبر میں گھس گیا‘۔ سوشل میڈیا پرسینیٹرایمل ولی خان کی ایک ویڈیووائرل ہے جس میں کہہ رہے ہیں کہ آج ہم کم سے کم اتنے  مطمئن  ہیں۔ یہ بات میں نے سینیٹ میں بھی کی اس پہ آگ لگ گئی۔ لیکن آج میں اس کے پیچھے بڑے قریب پہنچا ہوں۔۔ ایمل ولی نے کہا ’جو قیدی 70 سال سے قید ہے۔ آج میں فخر کرتا ہوں کہ باچا خان نے اپنی زندگی چالیس سال قید گزاری ہے۔ لیکن باچا خان تاریخ میں آزاد ہے، آج آزاد ہے، کل آزاد ہوگا‘۔ عبدالغفارخان المعروف باچا خان، جنہیں فرنٹیئر گاندھی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1929 میں خدائی خدمت گار تحریک کے نام سے ایک تحریک کا آغازکیا،جو اس وقت کے صوبہ سرحد میں اتنی مقبول ہوتی ہے کہ 1937 کے انتخابات میں شمال مغربی سرحدی صوبے میں مسلم لیگ اس کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کر سکتی۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ ’ہمارا لیڈر آزاد ہے۔ ہماری تاریخ کھلی کتاب ہے۔ جس پہ پی ایچ ڈیاں لکھی ہوتی ہیں۔ خدارا اپنے محمد علی کو آزاد کرو۔ پاکستان کا پہلا قیدی، ریاستی قیدی ۔ادھر ہمارے بڑے قریب سامنے پڑا ہوا ہے۔ ’ میں آج پاکستانی ہونے کے ناطے ایک دفعہ پھر مزارِ قائد سے یہ آواز اٹھاتا ہوں اس ریاست کو کہ اپنے قائد محمد علی کو آزاد کرو۔ اس کو تم لوگوں نے ہتھ کڑی زیارت میں ڈالی تھی۔اسی ہتھ کڑی میں دنیا سے فرار ہوگیا۔ اسی ہتھکڑی کو لے کے وہ قبر میں گھس گیا ہے‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’ اورآج تک ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہتھکڑی اس قبر میں بھی موجود ہے۔ ہم فخر کرتے ہیں کہ ولی خان کی تاریخ آزاد ہے۔ اس پہ لوگ پی-ایچ-ڈیز کرتے ہیں‘۔ ایمل ولی خان کی ویڈیوکو’ایکس‘ پرشیئر کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے لکھا ہے کہ’ قائداعظم کے بارے میں آپ کے الفاظ کا چناؤ نہایت نامناسب، گستاخانہ اور ناقابل قبول ہے۔ آپ نے کروڑوں پاکستانیوں کی دل آزاری کی ہے۔ وہ کہیں(پڑے ہیں) نہ کبھی (فرار ہوئے)، نہ کہیں(گھسےہیں)،۔ قائد اعظم رح کے بارے میں آپکے الفاظ کا چناؤ نہایت نامناسب ،گستاخانہ اور ناقابل قبول ھے -آپ نے کروڑوں پاکستانیوں کی دلآزاری کی ھے۔وہ نہ کہیں (پڑے ھیں )نہ کبھی (فرار ھوۓ )نہ کہیں (گھُسے ھیں )۔ سیاسی اختلاف کا یہ طریقہ کسی طور درست نہیں ، آپ نے جو کہنا تھا اور جنھیں کہنا تھا وہ… pic.twitter.com/MWQSoaGfIk — Khawaja Saad Rafique (@KhSaad_Rafique) January 28, 2025 سعد رفیق نے مزید لکھا ہے کہ سیاسی اختلاف کا یہ طریقہ درست نہیں، آپ نے جو کہنا تھا اور جنہیں کہنا تھا وہ آپ سے کہا نہیں گیا، نا جانے آپ کیوں قائداعظم کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے ایمل ولی خان کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں۔ یاد رہے کہ ولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور1986  میں بائیں بازوں کی چھوٹی جماعتوں بشمول نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور عوامی تحریک کو ضم کر کے عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1990 میں اس پارٹی کی قیادت تبدیل ہوئی اور ولی خان سے اسفندیار ولی خان کو منتقل کی گئی۔ اسفند یار ولی خان کے بعد اس پارٹی کی قیادت ایمل ولی خان کے ہاتھ لگی ہے۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق کی تنقید اور پوسٹ کو سوشل میڈیا صارفین نے سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ’عوام کے جذبات کی ترجمانی کا شکریہ‘۔

وائٹ ہاؤس کی 20 لاکھ ملازمین کو ملازمت چھوڑنے کے لیے مالی مراعات کی پیشکش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے وفاقی حکومت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ٹرمپ کے اس متنازعہ اقدام میں 20 لاکھ کل وقتی وفاقی سویلین ملازمین کو “ڈیفرڈ ریزیگنیشن پروگرام” کی پیشکش کی گئی ہے۔  اس اقدام کا مقصد حکومت کے حجم کو کم کرنا اور وفاقی افرادی قوت کی تنظیم نو کرنا ہے۔ اس اقدام کو تنقید اور سوالات کا سامنا ہے، اور یہ نیا فیصلہ وفاقی ملازمین کی زندگیوں میں ایک سنگین موڑ لے سکتا ہے۔ ،جاری کی گئی ای میل میں وفاقی ملازمین کو 6 فروری تک اس پیشکش میں حصہ لینے کا وقت دیا گیا ہے۔ ای میل میں بتایا گیا ہے کہ اگر ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں تو انہیں 30 ستمبر تک پے رول پر رہنے کی اجازت ہوگی، مگر اس دوران انہیں ذاتی طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور ان کی ڈیوٹیز یا تو کم کر دی جائیں گی یا مکمل طور پر ختم کر دی جائیں گی۔ دلچسپی رکھنے والے افراد کو اپنے سرکاری ای میل اکاؤنٹ سے جواب دیتے ہوئے لفظ “استعفیٰ” لکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ پیشکش خاص طور پر امیگریشن، قومی سلامتی اور امریکی پوسٹل سروس کے ملازمین کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس میں بیشتر وفاقی سویلین ملازمین شامل ہیں۔ ان 20 لاکھ ملازمین میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو سابق فوجیوں کی صحت کی دیکھ بھال، زراعت کے معائنے اور حکومت کے بلوں کی ادائیگی جیسے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ غیر معمولی اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کے ابتدائی دنوں کو اپنی سیاسی ترجیحات کے مطابق امریکی وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے، اس کی تشکیل نو کے لیے استعمال کیا ہے۔ ای میل میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کا مقصد ایک “زیادہ ہموار اور لچکدار افرادی قوت” بنانا ہے۔ اگرچہ کچھ ایجنسیوں کو اپنے عملے میں اضافہ کرنے کا کہا جا سکتا ہے، تاہم زیادہ تر ایجنسیوں میں برطرفیوں اور تنظیم نو کے ذریعے کمی کرنے کا ارادہ ہے۔ ای میل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو ان کی ملازمتوں کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، اور اگر ان کے عہدے ختم کر دیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ عزت کے ساتھ برتاؤ کیا جائے گا۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ٹم کین نے اس تجویز کو “جعلی پیشکش” قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ کے پاس وفاقی ملازمین کو یہ پیشکش دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے وعدے کے مطابق ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل سکتیں۔ تاہم، ایک سینئر انتظامی عہدیدار نے یہ کہا ہے کہ اگر 5 سے 10 فیصد وفاقی ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں تو حکومت کو 100 ارب ڈالر تک کی بچت ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ پیشکش وفاقی حکومت کی ساخت میں ایک نئی شکل لاسکتی ہے، تاہم اس کے نتائج ابھی واضح نہیں ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کتنے ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں اور اس کا وفاقی خدمات کی سطح پر کیا اثر پڑتا ہے۔  

چیٹ جی پی ٹی نہ ڈیپ سیک، علی بابا نے مصنوعی ذہانت کا اپنا ماڈل پیش کردیا   

چینی ٹیکنالوجی کمپنی علی بابا نے بدھ کے روزاپنی مصنوعی ذہانت کا نیا ماڈل “کیوین 2.5” متعارف کرایا ہے، جس نے عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک غیر متوقع کامیابی حاصل کی ہے۔ علی بابا کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیا ماڈل “کیوین 2.5 میکس” نے ڈیپ سیک-وی 3 کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوین 2.5 کا آعازچین کے نئے قمری سال کے پہلے دن ہوگا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی بابا نے چینی مصنوعی ذہانت کی صنعت میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے بھرپور حکمت عملی اپنائی ہے۔ کیوین 2.5 میکس کی یہ کامیابی اس بات کا اشارہ ہے کہ چینی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے عالمی سطح پر اے آئی کے میدان میں تیزی سے ترقی کی ہے، خاص طور پر ان کے نئے ماڈلز، جیسے کہ “ڈیپ سیک-آر 1″، نے سلیکون ویلی کی مشہور کمپنیوں کو چیلنج کیا ہے۔  10 جنوری کو ڈیپ سیک کے اے آئی اسسٹنٹ کی ریلیز کے ساتھ، اس نے گوگل، اوپن اے آئی اور میٹا جیسے عالمی برانڈز کے ماڈلز کو پیچھے چھوڑنے کے دعوے کیے، اور پھر 20 جنوری کو اس کے “آر 1 ماڈل” کی ریلیز نے مزید ہلچل مچادی۔ علی بابا نے اپنے “کیوین 2.5 میکس” کو اوپن اے آئی کے جی پی ٹی-4 اور ڈیپ سیک-وی 3 اور لاما-3.1-405 بی جیسے جدید ترین ماڈلز کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا حامل قرار دیا ہے۔ علی بابا کے کلاؤڈ یونٹ نے اپنے آفیشل وی چیٹ اکاؤنٹ پر اس کا تفصیل سے اعلان کیا اور کہا کہ اس کا ماڈل تقریباً تمام بینچ مارکس میں ان ماڈلز سے بہتر رہا ہے۔ یہ ساری صورتحال چینی مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک نیا موڑ لے آئی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں ڈیپ سیک نے نہ صرف اپنے غیر ملکی حریفوں کو چیلنج کیا، بلکہ اپنے کے حریفوں کو بھی اپ گریڈ ہونے پر مجبور کیا۔  بائٹ ڈانس، جو کہ ٹک ٹاک کا مالک ہے، اس نے بھی اپنے اے آئی ماڈل کی تازہ ترین اپ ڈیٹ جاری کی، جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے مائیکروسافٹ کے حمایت یافتہ اوپن اے آئی کے ماڈل او-1 کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ مقابلہ چینی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا دور شروع کر رہا ہے جہاں عالمی کمپنیاں ایک دوسرے کو ٹیکنالوجی کی تیز تر ترقی کے حوالے سے دلچسپ مقابلے میں دیکھ رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی کمپنی اپنے اگلے اے آئی ماڈلز کے ذریعے اس میدان میں سبقت حاصل کرے گی؟ وقت ہی بتائے گا۔    

’ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں‘ لاہورمیں جدید ٹیکنالوجی کی شاندار نمائش

پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی فیسٹیول، فیوچر فیسٹ 2025، نے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں تاریخ رقم کر دی۔ اس شاندار ایونٹ میں جدید ٹیکنالوجیز کی نمائش، عالمی ماہرین کی رہنمائی، اور نوجوانوں کے لیے انمول مواقع پیش کیے گئے۔ شرکاء سے بات کی گئی تو ہر چہرے پر امید کی ایک نئی کرن نظر آئی۔ عوام کا کہنا تھا کہ یہ ایونٹ نہ صرف پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کے لیے سنگ میل ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے ایک بہترین موقع بھی ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ‘یہاں آ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے جدید ٹیکنالوجی نقشے پر جگہ بنانے کے لیے تیار ہے۔’ ایک اور شریک نے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ایونٹ ہمیں دکھا رہا ہے کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں، ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔’ فیوچر فیسٹ 2025 سے نوجوانوں میں نئی امید جاگی ہے، اس فیسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جائے گا بلکہ یہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیسٹیول، نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر دینے اور پاکستان کو ایک روشن مستقبل کی جانب لے جانے کا عزم ہے۔

وائیٹ پیپر کیا ہے اور کیوں جاری کیا جاتا ہے؟

وائٹ پیپر ایک ایسی دستاویز ہے جو کسی مخصوص مسئلے، پالیسی یا موضوع پر تفصیلی تجزیہ فراہم کرتی ہے اور اس کے بارے میں حل یا تجاویز پیش کرتی ہے، یہ دستاویز عام طور پر حکومتوں، کاروباری اداروں یا تحقیقی اداروں کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔ وائٹ پپر کو 90 کی دہائی میں متعارف کروایا گیا تھا، لیکن اب یہ مارکیٹنگ ٹول کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ خاص طور پر کاروبار میں انہیں صارفین اور شراکت داروں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا آغاز 1920 کی دہائی میں برطانیہ سے ہوا، جہاں یہ حکومت کے محکموں کی طرف سے جاری کی جانے والی پوزیشن پیپرز یا صنعت کی رپورٹس کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ یہ پیپرعام طور پر عوام یا مخصوص گروپوں کو اہم موضوعات سے آگاہ کرتا ہے اور یہ حکومتی یا کاروباری پالیسیوں کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وائیٹ پیپر عوامی فیصلوں کی وضاحت کو بڑھاتا ہے اور اداروں یا حکومتوں کو جوابدہ بنانے میں بھی معاون ہوتا ہے۔ ‘وائٹ پیپر’ کی اصطلاح برطانوی حکومت سے آئی جہاں یہ بلیوبک کا کم تفصیلی ورژن ہے۔ یہ حکومت کی پالیسیوں کو پیش کرنے اور عوامی آراء حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اس میں غیر متغیر پالیسی وعدے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں وائٹ پیپر کابینہ کی منظوری کے بعد عوامی سطح پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ دستاویزات حکومت کی پالیسیوں، منصوبوں اور اہم مسائل پر عوام کو آگاہ کرنے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان معلومات کا تبادلہ کرنے کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ سیاسی طور پر وائٹ پیپرز کا مقصد عوامی بحث کو فروغ دینا اور پالیسی سازی میں شفافیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ان دستاویزات کا استعمال عام طور پر پیچیدہ مسائل پر تفصیل سے تجزیہ پیش کرنے اور مختلف آپشنز کے فوائد و نقصانات کو واضح کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر مشہور وائٹ پیپرز کی مثالوں میں 1939 کا برطانوی وائٹ پیپر شامل ہے جس میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کے معاملے پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کا ‘فل ایمپلائمنٹ ان آسٹریلیا’ بھی ایک معروف مثال ہے جس میں ملک میں مکمل روزگار کی پالیسی پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ دوسری جانب کاروباری وائیٹ پیپرز عام طور پر کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں تاکہ مخصوص مصنوعات، خدمات یا کاروباری حکمت عملی کے بارے میں معلومات فراہم کی جا سکیں۔ یہ سیلز اور مارکیٹنگ ٹول کے طور پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ یہ وائیٹ پیپرز تحقیقی ادارے، یونیورسٹیز یا دیگر علمی ادارے بھی جاری کرتے ہیں۔ ان میں تحقیق کے نتائج، نئے علمی نظریات یا تجربات پر مبنی معلومات بھی شامل ہوتی ہیں۔ وائیٹ پیپرز حکومتی اداروں، کاروباری تنظیموں یا دیگر اداروں کے لیے ایک اہم ذریعہ ہیں جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پالیسی سازی کے دوران عوامی رائے حاصل کرنے اور تجاویز جمع کرنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں، ساتھ ہی عوامی آگاہی بڑھانے یا کسی خاص موضوع پر رائے ہموار کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ نئے کاروباری ماڈلز یا ٹیکنالوجیز کی تفصیل پیش کرنے کے لیے بھی وائیٹ پیپرز ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ مزید برآں تحقیقی وائیٹ پیپرز کسی خاص شعبے میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج اور تفصیلات شیئر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں تاکہ علم کا تبادلہ ہو سکے۔ وائیٹ پیپر جاری کرنے کی اہم وجوہات میں پالیسی سازی، عوامی رائے کی تشکیل، اور نئے حل کی پیشکش شامل ہے۔ یہ دستاویزات اہم مسائل پر معلومات فراہم کرتی ہیں تاکہ فیصلوں میں بہتری لائی جا سکے اور عوام کی آراء حاصل کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ وائٹ پیپر کی وجہ سے عوامی پالیسی کا کاروباری فیصلوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی، ٹیکس پالیسیوں اور ضوابط کاروباری حکمت عملیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں ترقی اور استحکام کی راہیں کھلتی ہیں۔ وائٹ پیپرز کے ساتھ آنے والے کچھ مسائل میں تعصب بھی شامل ہے کیونکہ یہ دوسروں کو نظر انداز کرتے ہوئے یک طرفہ خیالات پیش کر سکتے ہیں۔ اپنی وسیع تر اپیل کو محدود کرتے ہوئے مخصوص گروپوں کے مفادات کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وائیٹ پیپر میں ضرورت سے زیادہ تفصیل اس کو سمجھنا مشکل بنا سکتی ہے۔ اگر مؤثر طریقے سے پھیلایا نہ جائے تو ااس کا اثر کم سے کم ہو سکتا ہے جس سے مجموعی تاثیر کم ہو سکتی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر فیصل کامران نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “وائیٹ پیپر ایک رسمی دستاویز ہے جو کسی خاص موضوع، پالیسی، یا مسئلے پر تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ عوام یا متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو قائل کیا جا سکے یا کسی پالیسی کی وضاحت کی جا سکے”۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ عثمان شمیم نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وائٹ پیپر سے متعلق کہا کہ “وائٹ پیپر حکومتی یا ادارتی پالیسیوں پر وضاحت دینے اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی اہم مسئلے پر رہنمائی فراہم کرتا ہے اور پالیسی سازی میں مددگار ہوتا ہے”۔ پروفیسر فیصل کامران نے وائٹ پیپر کے استعمال سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ کاروباری ادارے، ٹریڈ یونینز، اور دیگر تنظیمیں بھی اپنی حکمت عملی، پروڈکٹس، یا مسائل کے حل پیش کرنے کے لیے وائیٹ پیپر جاری کرتی ہیں”۔ پروفیسر عثمان شمیم کے مطابق ” وائٹ پیپر کا دائرہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ کاروباری ادارے اور ٹریڈ یونینز بھی اپنے مسائل، مصنوعات، یا پالیسی تجاویز کے لیے یہ جاری کرتی ہیں”۔ پروفیسر کامران نے وائٹ پیپر کی تاریخ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پہلا وائیٹ پیپر برطانوی حکومت نے 1922 میں فلسطین کے مسئلے پر جاری کیا تھا جس میں مسئلہ فلسطین پر تفصیل سے بات کی گئی تھی”۔ اس حوالے سے پروفیسر