اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہوتی تو ایک کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی: شبلی فراز

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات 3 نشستوں کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے بائیکاٹ کر دیا گیا تھا ، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر مذاکرات کے لیے پیشکش کی، مگر پی ٹی آئی کی طرف سے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شبلی فراز نے ہاؤس کمیٹی بنانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ موثر طریقہ نہیں ہے۔ شبلی فراز نے وزیر اعظم کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا اصل مسئلہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ حکومتی رویہ کا ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ہاؤس کمیٹی کی تجویز قابل عمل حل نہیں، اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہوتی تو ایک کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے جوڈیشل کمیشن کے مطالبے کو دہرایا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایسا ادارہ عوامی اعتماد کو متاثر کرے گا۔ہم عدالتی کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ لوگوں کو اس پر اعتماد ہے۔ ہاؤس کمیٹی کی تجویز مناسب نہیں ہے۔ شبلی فراز نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی کال کا مقصد ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ “ہم نے سیاسی بحران کے حل اور ملک کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے بات چیت پر اتفاق کیا۔” پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ کسی بھی مذاکرات کی کامیابی کے لیے حکومت کا اخلاص اور عمل کے لیے عزم ضروری ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حکومت کو جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ شبلی فراز کے مطابق پی ٹی آئی کی بنیادی توجہ قانون اور انصاف پر ہے، جس کی پیروی کرنے کے لیے وہ پرعزم ہیں، چاہے انہیں کسی بھی سیاسی چیلنج کا سامنا ہو۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ ہم وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔ پارٹی کے موقف کی توثیق کرتے ہوئے عمرایوب نے اس بات پر زور دیا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے نیک نیتی سے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ “ہمارے مطالبات واضح تھے،” انہوں نے پی ٹی آئی کے تمام “سیاسی قیدیوں” کی رہائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے جاری مسائل کے حل کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے ساتھ پہلے ہونے والے مذاکرات کو یاد کیا، جو پی ٹی آئی کی پیشکش کے بعد کمیٹی کی تشکیل سے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ذریعے تحریری مطالبات جمع کرائے تھے جن کا حکومتی کمیٹی سے تحریری جواب کی توقع ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے 28 جنوری کو ہونے والا اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔
’جو انصاف کا ادارہ ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے‘ عمران خان نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو ایک خط لکھا ہے، جو 349 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس خط میں پاکستان کے آئینی نظام کی تباہی پر بات کی گئی ہے۔ اس خط میں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیوں بلکہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان کے خط میں ایک طرف جہاں انتخابات میں دھاندلیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جبری گمشدگیاں، جسمانی تشویشات اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے اپنی اس تحریر میں دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2024 کے آخر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسپتالوں کے ریکارڈز کو سیل کرکے بعد میں ان میں تبدیلیاں کی گئیں۔ عمران خان نے اپنی تحریر میں عدالت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “جو ادارہ انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے”۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدلیہ نے انتخابات میں دھاندلیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف متعدد درخواستوں پر کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی۔ خط میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف ریاستی جبر کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کارکنان جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے اور انہیں تشویشات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ موجودہ حکومت نے انتخابی دھاندلی اور تاریخی دھاندلیوں کے ذریعے اقتدار میں آ کر پی ٹی آئی کو جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ جس کا عمران خان نے ذکر کیا، وہ ان کی اپنی گرفتاری تھی۔ انہوں نے 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت سے غیر قانونی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس گرفتاری کو جان بوجھ کر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا تاکہ عوامی غصے کو بھڑکایا جا سکے۔ عمران خان نے کہا کہ جب وہ ریاستی جبر کے خلاف ہائی کورٹ میں پناہ لینے گئے تو ان پر حملہ کیا گیا، اور بعد میں سپریم کورٹ نے اس آپریشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عمران خان نے مزید الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف پرامن احتجاجوں کو ناکام کرنے کے لئے تشدد کو بڑھایا گیا اور ان احتجاجوں میں خفیہ طور پر انارکی پھیلانے والے افراد کو شامل کیا گیا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر بھی عمران خان نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شبلی فراز نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی کمیٹی بنانا حل نہیں ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ تھی تو مذاکرات کے لیے کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی۔ عمران خان نے اپنے خط میں ایک اور اہم معاملے کی طرف بھی اشارہ کیا، جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی شکایت سے متعلق تھا جس میں انہوں نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے الزامات لگائے تھے۔ عمران خان نے اس معاملے کو ‘انتہائی سنجیدہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے آزادی کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ خط کے اختتام پر عمران خان نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام مسائل پر فوری طور پر کارروائی کریں اور پاکستان کے آئین کی پامالی کرنے والوں کو سزا دیں تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔ عمران خان نے کہا کہ “اگر سپریم کورٹ نے ان مسائل پر کارروائی نہ کی تو ملک آئینی بحران کی طرف مزید بڑھ جائے گا اور ہم ایک ایسی صورتحال میں پہنچ جائیں گے جہاں ‘طاقت ہی درست ہے’ کا قانون رائج ہوگا۔“ آخرکار عمران خان نے چیف جسٹس کو یاد دلایا کہ اس وقت قوم ان کی جانب دیکھ رہی ہے کہ آیا وہ پاکستان کے آئین اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں پر عمل کریں گے یا یہ صرف لفظی باتیں ہوں گی۔ یہ خط پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اہم موڑ کا اشارہ دے رہا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز اس پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں۔ یہ معاملہ اب صرف پی ٹی آئی یا عمران خان کا نہیں، بلکہ پورے ملک کے آئین اور عدلیہ کے مستقبل کا سوال بن چکا ہے۔
بورڈ آف ریونیو نے شکارگاہ چولستان حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دے دیا

پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کے اثرات اور ریاستی زمینوں کے مستقبل پر بحث ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب لینڈ کمیشن نے ایک اہم سرکاری خط کے ذریعے وفاقی حکومت کو شکارگاہ چولستان کی ملکیت کے حوالے سے حتمی قانونی مؤقف فراہم کیا ہے۔ اس خط میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ شکارگاہ چولستان حکومت پنجاب کی ملکیت ہے اور نواب آف بہاولپور کے وارثان اس پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ یہ معاملہ کئی دہائیوں سے مختلف قانونی اور عدالتی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ تاہم اب پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں حتمی اعلان کر دیا ہے کہ شکارگاہ مکمل طور پر صوبائی ملکیت ہے۔ پنجاب لینڈ کمیشن کی جانب سے یہ جواب وفاقی حکومت کے 9 جنوری 2025 کے خط کے ردعمل میں جاری کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے اس خط میں پنجاب کے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر سے مرحوم نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کی غیر منظم جائیداد کے لیے تشکیل دی گئی نفاذ کمیٹی کے حوالے سے وضاحت طلب کی تھی۔ پنجاب لینڈ کمیشن نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کے فیصلوں، آئینی و قانونی دفعات اور انتظامی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ شکارگاہ کسی بھی نجی فرد یا خاندان کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ پنجاب لینڈ کمیشن کے مطابق “1961 کے ایکٹ کے تحت اور 1969 کے امیر بہاولپور آرڈر کے مطابق ڈیراور میں کچھ غیر منقولہ جائیداد کے علاوہ پوری شکارگاہ حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دی جا چکی ہے؛ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین اہم فیصلے اس معاملے پر موجود ہیں جو تمام عدالتی اور انتظامی اداروں کے لیے لازم العمل ہیں؛ 1972 کے MLR-115 کے پیرا 16 کے مطابق شکارگاہ کے تمام علاقے حکومت کے حق میں بحال کر دیے گئے ہیں اور اس زمین پر کسی بھی شخص کو کوئی ملکیتی حق یا مالی معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔” یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں متعدد مرتبہ زیر بحث آ چکا ہے جہاں عدالت نے اس زمین کو حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق “سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت یہ زمین ایک سرکاری اثاثہ ہے اور اس کی نجکاری یا کسی فرد کو منتقلی ممکن نہیں۔ نواب آف بہاولپور کے ورثہ اس زمین پر کوئی قانونی مطالبہ نہیں کر سکتے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف کسی جوڈیشل یا انتظامی افسر کو حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں۔ ایسا کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔ یہ فیصلے پاکستان کے تمام عدالتی اور انتظامی اداروں پر لاگو ہوتے ہیں، اور ان کے برخلاف کوئی بھی دعویٰ قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔” دوسری جانب نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کے ورثا کئی سالوں سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ شکارگاہ ان کے آباؤ اجداد کی ملکیت تھی، اور انہیں اس پر حق دیا جائے۔ تاہم پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے نے ان تمام دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔ پنجاب لینڈ کمیشن نے واضح کیا کہ “یہ زمین ریاستی اثاثہ ہے اور اس پر کسی خاندان یا فرد کا حق نہیں ہو سکتا۔ بحال شدہ شکارگاہ کی وراثت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نجی جائیداد نہیں بلکہ عوامی ملکیت ہے۔ پنجاب حکومت ہی شکارگاہ چولستان کی نگران اور کسٹوڈین ہے، اور اسی کے تحت اس کا انتظام چلایا جائے گا۔” پنجاب حکومت نے تمام ضلعی اور ڈویژنل افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ “تمام سرکاری محکموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ شکارگاہ سے متعلق کسی بھی قسم کے ملکیتی دعوے کو مسترد کر دیا جائے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ اس معاملے پر دوبارہ قانونی کلیم کرتا ہے تو اسے فوراً رد کر دیا جائے گا اور قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ کو حکم دیا گیا ہے کہ شکارگاہ کی مکمل حفاظت اور سرکاری کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔” علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے اس خط کی کاپیاں تمام متعلقہ حکام کو بھیج دی ہیں تاکہ اس معاملے پر کوئی ابہام باقی نہ رہے اور سرکاری زمین کو محفوظ بنایا جا سکے۔ شکارگاہ چولستان، جو کہ تین لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل ہے، ریاست بہاولپور کے دور میں نواب کی ذاتی ملکیت تھی۔ تاہم 1971 میں پاکستان میں ریاستی نظام کے خاتمے کے بعد بہاولپور سمیت تمام نوابی ریاستوں کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔اس کے بعد 1972 کے MLR-115 قانون کے تحت حکومت نے کئی نوابی جائیدادوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جن میں شکارگاہ بھی شامل تھی۔ اس دوران نواب کے خاندان کو کچھ جائیدادیں واپس دی گئیں لیکن شکارگاہ کو عوامی اثاثہ قرار دے کر حکومت پنجاب کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں حکومت کے مؤقف کو درست قرار دیا گیا۔ پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ شکارگاہ چولستان مکمل طور پر حکومت پنجاب کی ملکیت رہے گی۔ اس پر نواب آف بہاولپور کے وارثان کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر کسی نے اس حوالے سے کوئی قانونی کارروائی کی تو اسے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں فوراً خارج کر دیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نواب خاندان اس فیصلے پر کیا ردِ عمل دیتا ہے، اور کیا اس معاملے میں کوئی نئی قانونی جنگ شروع ہوتی ہے یا نہیں۔ تاہم، حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ حتمی ہے او اس پر مکمل عمل درآمد کیا گا۔
کراچی ایئرپورٹ پر امریکی خاتون کی محبت میں ناکامی نے ایئرپورٹ حکام کو پریشان کر دیا

کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والی ایک ہنگامہ آرائی نے سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی۔ یہ ہنگامہ ایک امریکی خاتون کی محبت میں ناکامی کی وجہ سے ہوا جو پاکستان کے شہر کراچی اپنے محبوب سے ملنے آئی تھی، مگر یہاں آنے کے بعد ایک ایسی صورتحال کا سامنا کیا جس نے ایئرپورٹ حکام کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ اونیجا اینڈریو رابنسن ایک 33 سالہ امریکی خاتون جو نیویارک کی رہائشی ہے، اس عورت کو سوشل میڈیا پر کراچی کے رہائشی 19 سالہ ندال میمن کے ساتھ محبت ہوگئی۔ محبت کی اس داستان نے کئی پیچیدگیاں پیدا کیں، جو نہ صرف اونیجا کے لیے بلکہ پاکستان کے ایئرپورٹ حکام کے لیے بھی درد سر بن گئیں۔ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب اونیجا 11 اکتوبر کو کراچی پہنچی۔ اس کا مقصد صرف اپنے پاکستانی محبوب سے ملنا اور اس کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنا تھا۔ لیکن تقدیر نے کچھ اور ہی کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان ندال میمن جو شادی کے لیے تیار تھا، اپنے خاندان کی مخالفت کی وجہ سے امریکی خاتون سے شادی کرنے سے انکار کر بیٹھا۔ اور اس انکار کے بعد اونیجا کی دنیا جیسے ٹوٹ گئی۔ ایئرپورٹ پر ایک دم ہنگامہ مچ گیا جب خاتون نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد امیگریشن کے عملے کے سامنے جب اس نے امریکی واپسی کا ٹکٹ پیش کرنے کی کوشش کی تو اس نے یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائے گی جب تک اس کے تمام مطالبات پورے نہ کیے جائیں۔ یہ مطالبات روز بروز بڑھتے ہی گئے اور حکام کیلئے معاملہ پیچیدہ ہوتا گیا۔ سب سے پہلے تو خاتون نے اپنی واپسی کے لیے تیار ہونے سے انکار کیا۔ اس کے بعد جب ایئرپورٹ حکام نے اسے واپس جانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی تو اس نے ڈیپارچر لاؤنج میں ہنگامہ کھڑا کر دیا جس سے پرواز 36 منٹ کی تاخیر کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد پولیس اور ایئرپورٹ سیکیورٹی کے اہلکاروں نے کسی طرح خاتون کو قائل کر کے حفاظتی تحویل میں ڈیپارچر لاؤنج تک پہنچایا مگر اس نے اپنے مطالبات نہ چھوڑے۔ اونیجا کے مطابق اس کے پاس جو رقم تھی اس کا استعمال اُس نے کراچی میں اپنی موجودگی کو طول دینے کے لیے کیا۔ وہ نہ صرف خود کو کراچی میں غیر یقینی حالات میں پاتی رہی بلکہ ایک دن ایسا بھی آیا جب اس نے پاکستانی حکام سے بڑے مطالبات کرنے شروع کر دیے۔ اونیجا کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لیے ایک گھر چاہتی ہے بلکہ اس نے حکومت سے مالی امداد کی درخواست بھی کر ڈالی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ دبئی منتقل ہونا چاہتی ہے اور وہاں اپنا نیا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہے۔ خاتون کا دعویٰ ہے کہ اس کے ساتھ ایئرپورٹ پر بھی دھوکہ ہوا تھا جب اس کے ہزاروں ڈالرز ایک غیر قانونی منی ایکسچینجر کے ہاتھوں ہڑپ کر لیے گئے۔ اس کے بعد اس نے 20 ہزار ڈالرز کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک یہ رقم نہیں دی جاتی وہ پاکستان نہیں چھوڑے گی۔ اس کی کہانی صرف محبت کی ایک طرفہ داستان نہیں ہے بلکہ اس میں ایک اور پیچیدہ موڑ آیا۔ جب معلوم ہوا کہ اونیجا کا ماضی بھی کچھ زیادہ صاف ستھرا نہیں رہا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اونیجا کا مجرمانہ ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا کہ اس نے 2021 میں امریکی ریاست جنوبی کیرولینا میں ایک گھر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی تھی اور اس پر گرفتاری بھی ہوئی تھی۔ یہ خبر پاکستانی میڈیا میں جیسے ہی آئی لوگوں کی توجہ اونیجا کی شخصیت پر مرکوز ہو گئی۔ کراچی میں اس کا قیام نہ صرف ایک محبت کی کہانی بن چکا ہے بلکہ اس کی مالی مشکلات اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات نے اس کے ذہنی دباؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ نجی میڈیا کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اونیجا نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے پاکستانی محبوب سے محبت کرتی ہے مگر اس کا کہنا تھا کہ وہ پیسوں کے لیے نہیں شادی کرتی بلکہ وہ اپنے لئے ایک ایسا گھر چاہتی تھی جو تمام جدید سہولتوں سے لیس ہو۔ دراصل اس کے سب مطالبات اس بات کا غماز تھے کہ وہ پاکستان میں اپنے لیے ایک نئی زندگی کی تلاش میں تھی مگر اس کے لیے اس نے مختلف طریقوں سے حکام پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ آخرکار اس کے مطالبات اور ذہنی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے اونیجا کو چھیپا ویلفیئر کے ہیڈ آفس منتقل کر دیا گیا ہے جہاں اسے علیحدہ کمرہ فراہم کیا گیا اور وہاں اسے کھانا دیا گیا۔ فی الحال اونیجا کسی سے بات نہیں کر رہی اور اس کا ذہنی دباؤ بہت بڑھ چکا ہے۔ یہ تمام صورتحال ایک بہت ہی پیچیدہ اور غیر متوقع کہانی بن چکی ہے جس میں محبت، دھوکہ، ذہنی دباؤ اور مالی مسائل کا پیچیدہ تانے بانے بن گئے ہیں۔
پاکستان الیکٹرک وہیکلز کی پیداور میں پیچھے کیوں؟: سینٹ قائمہ کمیٹی

گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز (ای وی) کی پیداوار پر اجلاس منعقد ہوا، جس میں اس سال 6لاکھ کے ہدف کے مقابلے میں صرف 60 ہزار گاڑیاں تیار کرنے پربحث کی گئی ، کیونکہ حکومت گرین ٹرانسپورٹ کے حل کی طرف منتقلی کی طرف بڑھ رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلی کو شکست دینے کے لیے کوشاں ہے۔ عرب نیوز کے مطابق حکومت پاکستان نے 2019 میں نیشنل الیکٹرک وہیکلز پالیسی (NEVP) کی منظوری دی جس کا ہدف 2030 تک تمام مسافر گاڑیوں اور ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں کی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت 30% پر مشتمل ہے، اور 2040 تک 90% ہدف مقرر ہے۔ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بسوں کے لیے، پالیسی نے نئی فروخت کا 50% حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پاکستان میں ای وی کی پیداوار میں کمی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 6 لاکھ ہدف کے مقابلے میں صرف 60 ہزار ای وی تیار کی گئی ہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ فضائی آلودگی میں 48 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جس سے ای وی کو اپنانا اہم ہے۔ وزارت صنعت کو مقامی ای وی پروڈکشن اور چارجنگ اسٹیشنوں کے ڈیٹا کی کمی کی وجہ سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔ اہم سفارشات میں ای وی چارجنگ سٹیشنوں کو پھیلانا اور نجی سرمایہ کاری کی ترغیب دینا، گھروں اور کاروباروں میں قابل تجدید توانائی کو اپنانے کو فروغ دینا، پالیسی اہداف کو پورا کرنے کے لیے مقامی ای وی کی پیداوار کو بڑھانا، ملک بھر میں توانائی کی بچت والے بلڈنگ کوڈز کو نافذ کرنا، اور توانائی کے موثر ٹرانسپورٹ اور پبلک ٹرانزٹ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں، پاکستان نے کہا تھا کہ وہ توانائی کے شعبے میں جاری اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر وی وی چارجنگ اسٹیشنوں کے آپریٹرز کے لیے بجلی کے نرخوں میں 45 فیصد کمی کرے گا جو کہ طلب کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ حکومت ای بائیک اور دو اور تین پہیوں والی پٹرول گاڑیوں کی تبدیلی کے لیے فنانسنگ اسکیمیں متعارف کرانے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے۔ کابینہ نے 15 جنوری کو 39.70 روپے فی یونٹ کے ٹیرف میں کمی کی منظوری دی، جو پہلے 71.10 روپے تھی، جو ایک ماہ کے اندر لاگو ہو جائے گی۔ حکومت کو توقع ہے کہ اس شعبے میں سرمایہ کاروں کے لیے 20 فیصد سے زیادہ کی واپسی کی داخلی شرح ہوگی۔ وزارت توانائی کے مشیر عمار حبیب خان کی طرف سے حکومت کو پیش کی گئی اور 15 جنوری کو رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں اس وقت 30 ملین سے زیادہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیاں ہیں، جو 5 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کا پیٹرولیم استعمال کرتی ہیں۔ سالانہ وزارت توانائی کا منصوبہ ہے کہ پہلے مرحلے میں 10 لاکھ دو پہیہ گاڑیوں کو الیکٹرک بائک میں تبدیل کیا جائے، جس کی تخمینہ لاگت 40,000 روپے فی بائک ہے۔رپورٹ کے مطابق، سالانہ تقریباً 165 ملین ڈالر کے ایندھن کی درآمدی لاگت کی بچت ہوگی۔ واضح رہے کہ صوبہ سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ صوبائی انتظامیہ جیواشم ایندھن کی کھپت کو کم کرنے کے لیے ای وی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبے کو “زیادہ سے زیادہ امداد” فراہم کرے گی۔ انہوں نے یہ بات چین کے اے ڈی ایم گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر یاسر بھمبانی سے ملاقات کے دوران کہی، جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے مینوفیکچرنگ پلانٹ اور 3,000 ای وی چارجنگ اسٹیشن لگانے کے لیے 350 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ محکمہ اطلاعات نے ایک بیان میں کہا، “سندھ حکومت اپنے کامیاب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے شہروں اور اہم شاہراہوں پر ای وی چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کے لیے مناسب جگہیں اور دیگر سہولیات فراہم کرے گی۔”
پاکستان میں پیکا ایکٹ کی متنازعہ ترامیم: سوشل میڈیا پر کنٹرول یا آزادی کا کچلنا؟

پاکستان میں پیکا ایکٹ کی حالیہ ترامیم کا معاملہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی زیرِ بحث ہے۔ حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے تحت ایسی متنازعہ قانون سازی کر رہی ہے جو نہ صرف عدلیہ کو قابو کرنے کی کوشش ہے بلکہ آزادیِ اظہار کو بھی محدود کر رہی ہے۔ پاکستان کی صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کی پیکا ایکٹ میں ترامیم کو سختی سے رد کر چکی ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے تو پیکا ایکٹ کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صدر ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ اس ترمیمی ایکٹ کا مقصد صرف صحافیوں کی آزادی کو کچلنا ہے اور یہ ایک ‘کالا قانون’ ہے جو آزادیِ اظہار کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف حکومت کا موقف یہ ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی نفرت انگیز اور جھوٹی اطلاعات کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہے۔ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے اداروں اور ملک کے خلاف مواد پھیلانے میں مصروف ہیں اور ان کی کارروائیوں کو روکنا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کی آڑ میں حکومت سچائی کے راستے پر بندشیں لگا رہی ہے؟ اس قانونی بحران کا سب سے بڑا اثر پاکستان کے عالمی تعلقات پر پڑ رہا ہے۔ یورپی یونین نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے پاکستان کو یورپی منڈیوں میں ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہے جس سے پاکستانی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس متاثر ہوتا ہے تو یہ ملکی معیشت کے لیے ایک سنگین دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی حکومت بار بار یہ وضاحت دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ پیکا ایکٹ آزادیِ اظہار کو محدود نہیں کرتا بلکہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی اور جھوٹے مواد کو روکنے کے لیے ہے۔تاہم، یہ وضاحتیں حکومت کے حامیوں کے علاوہ کسی کو بھی قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ایک طرف صحافتی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی اس ایکٹ کو حکومت کی مخالف آوازوں کو دبانے کی ایک کوشش قرار دے رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے بے شمار سیاسی اور سماجی موضوعات پر بحث ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ فراہم کیا ہے۔ پیکا ایکٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مزید کنٹرول لانے کی کوششوں سے لوگوں میں یہ خوف پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت سچائی کو چھپانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیمی بل کے مطابق ایک نئی اتھارٹی قائم کی جائے گی جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کی نگرانی کرے گی۔ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے صارفین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور پلیٹ فارمز کے خلاف تادیبی کارروائی کی مجاز ہوگی۔ اگرچہ حکومت نے اس اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کی پیشکش کی ہے تاہم صحافتی برادری اب بھی اس قانون کو آزادیِ اظہار پر حملہ تصور کرتی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ایکٹ سوشل میڈیا پر بے قابو اور انتشار پھیلانے والے مواد کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ سوشل میڈیا پر حکومت کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور کنٹرول کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی اور سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیاں نہ صرف عوام کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہیں بلکہ یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا حکومت نے جان بوجھ کر انٹرنیٹ کی رفتار سست کر دی ہے تاکہ سوشل میڈیا پر موجود مخالف آوازوں کو دبایا جا سکے؟ پیکا ایکٹ کی قانونی شکل اختیار کرنے کے بعد اب یہ دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان میں آزادیِ اظہار کے حق میں چلنے والی تحریکیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اس ایکٹ کو چیلنج کرے گا، یہ ایک بہت بڑا سیاسی اقدام ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس معاملے پر صرف صحافتی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ قانونی حلقے بھی حکومت کی قانون سازی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ بحران ایک طرف ملکی سیاست میں گہرا اثر ڈالے گا تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت کو نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ عالمی برادری کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا ہے، اور یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر پیکا ایکٹ کے خلاف مزاحمت بڑھتی ہے تو اس کے نتائج پاکستان کے لیے سنگین ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک قانونی جنگ کا آغاز ہے، اور آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس جنگ کا رخ کہاں جاتا ہے اور پاکستان کی عالمی پوزیشن کس طرح متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان میں شعبان المعظم کا چاند نظر آگیا، شب برات اور یکم رمضان کب ہوں گے؟

پاکستان بھر میں ماہ شعبان المعظم کا چاند نظر آنے کی خوشخبری سنادی گئی ہے جبکہ ملک بھر میں تمام مسلمان اس مہینے کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 29 جنوری بروز بدھ کو ہوا، جس کی صدارت چیئرمین مولانا سید محمد عبد الخبیر آزاد نے کی۔ اجلاس میں ملک کے مختلف علاقوں سے رویت ہلال کمیٹیوں کے ممبران نے شرکت کی اور چاند کی رویت سے متعلق تفصیلی مشاورت کی۔ مطلع صاف ہونے کے باوجود کچھ علاقوں میں آبر آلود موسم کی وجہ سے چاند دیکھنے میں مشکلات پیش آئیں تھیں مگر اس کے باوجود کوئٹہ اور تھر سے چاند نظر آنے کی تصدیق ہو گئی۔ اس خبر نے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑا دی کیونکہ اس کے ساتھ ہی شب برات اور رمضان کے حوالے سے اہم تاریخوں کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد نے اعلان کیا کہ یکم شعبان المعظم 31 جنوری 2025 بروز جمعۃ المبارک کو ہوگی۔ اس کے علاوہ شب برات 13 فروری 2025 بروز جمعرات کو ہوگی جس کا لوگ بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ یہ رات مسلمانوں کے لیے عبادات اور دعاؤں کا خاص موقع ہوتی ہے جبکہ ملک بھر میں ہر طرف مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد نے نہ صرف رمضان المبارک کے آغاز اور عید الفطر کی تاریخوں کا اعلان کیا، بلکہ ملکی سلامتی، فلسطینی بھائیوں کی مشکلات کے حل اور بارشوں کی دعا کے لیے بھی خصوصی اجتماعی دعا بھی کی۔ اس دعا کے دوران ملکی عوام نے دعائیں کیں کہ اللہ تعالی مسلمانوں کی مشکلات حل کرے اور ملک میں امن و سکون برقرار رکھے۔ اس کے علاوہ اگر شعبان المعظم کا مہینہ 29 دنوں کا ہوتا ہے تو پاکستان میں رمضان المبارک کا پہلا روزہ یکم مارچ 2025 بروز ہفتہ ہوگا، اور اگر شعبان المعظم کا مہینہ 30 دنوں کا ہوتا ہے تو پہلا روزہ 2 مارچ بروز اتوار کو ہوگا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق اس سال رمضان کا چاند 28 فروری یا یکم مارچ کو نظر آ سکتا ہے۔ اسی طرح عید الفطر 30 یا 31 مارچ 2025 کو منائی جا سکتی ہے۔ علاقائی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک اور یورپ میں رمضان کا آغاز یکم مارچ سے ہونے کا امکان ہے اس لیے دنیا بھر میں مختلف علاقوں میں رمضان کی تاریخوں میں تھوڑی بہت فرق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ دن بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس موقع پر نیک دعاؤں اور عبادات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر شب برات کی رات کو اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کے گناہ معاف کرنے کا وقت ہوتا ہے جس کی تیاری ہر مسلمان اپنے دل سے کرتا ہے۔ اس سال بھی یہ رات بہت بڑی روحانی اہمیت رکھتی ہے اور پاکستانی عوام اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگیں گے۔ پاکستان بھر میں شعبان المعظم کے آغاز کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کی تیاریوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور لوگ روزوں کی تیاری کے لیے خود کو روحانی لحاظ سے تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
کانگو تنازعات میں پھنسے 150 پاکستانیوں کو روانڈا میں منتقل کر دیا گیا: دفتر خارجہ

مشرقی جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث اس سال کے آغاز سے اب تک تقریبا اڑھائی لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اس تنازعہ میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو کانگو سے نکال کر روانڈا منتقل کر دیا ہے۔ دفتر خارجہ (ایف او) کے مطابق روانڈا میں پاکستانی ہائی کمشنر نعیم اللہ خان نے ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں حالیہ تنازعات میں اضافے کے بعد پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے روانڈا میں داخلے کی سہولت فراہم کی ہے عالمی خبر ارساں ادارہ اے ایف پی کے مطابق تشدد سے متاثرہ شہر گوما میں تقریباً 150 پاکستانی پھنسے ہوئے تھے۔ اب تک لگ بھگ 75 پاکستانی روانڈا میں داخل ہو چکے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بتایا کہ کیگالی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے متاثرہ افراد کے لیے رہائش اور خوراک فراہم کی ہے۔ ہائی کمیشن مقامی پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ سرگرم عمل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مصیبت میں گھرے کسی بھی دوسرے شہری کی شناخت اور مدد کی جائے۔شفقت خان نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پاکستانیوں کی روانڈا میں مزید آمد متوقع ہے۔ ہائی کمیشن کا عملہ مدد کی درخواست کرنے والے ہر فرد سے براہ راست رابطہ قائم کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مشن سرحدی شہر بوکاوو میں پاکستانیوں تک بھی پہنچ رہا ہے، جو کہ تشویش کا ایک اور مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستانی شہری جن کو مدد کی ضرورت ہے وہ ہائی کمیشن سے واٹس ایپ کے ذریعے +92 333 5328517 پر رابطہ کر سکتے ہیں، جس کا انتظام ہیڈ آف چانسلری پرویز بھٹی کر رہےہیں۔ صورتحال میں مسلسل بہتری آرہی ہے اور خطے میں پاکستانیوں کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ واضح رہے کہ شمالی اور جنوبی کیوو نامی 2 صوبے (جہاں 46 لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد ہیں) 3 دہائیوں سے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں، یہاں ایم 23 باغی گروپ حالیہ برسوں میں سب سے طاقتور مسلح گروہوں میں سے ایک بن کر ابھرا ہے۔ ڈی آر سی حکومت کی جانب سے ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دیے جانے والے ایم 23 نے 2021 سے مشرقی ڈی آر سی کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، اور رواں ماہ کے اوائل میں شمالی کیوو کے قصبے ماسیسی کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔
قران پاک جلانے والا ‘سلوان مومیکا’ کے قتل کے بعد سویڈش پولیس نے 5 افراد کو گرفتارکر لیا

2023کے دوران قرآن کی بے حرمتی کے کئی واقعات میں ملوث ہونے والے عراقی شہری ‘سالوان مومیکا’ کو قتل کر دیا گیا۔ مومیکا کی موت بدھ کی رات ناروے میں ایک اپارٹمنٹ میں گولی مار کر کی گئی۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے پانچ افراد کو قتل کے شبے میں گرفتار کیا ہے اور یہ معاملہ عالمی سطح پر مختلف ردعمل کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف سویڈن اور ناروے بلکہ دنیا بھر میں بحث کا باعث بن چکا ہے جہاں مومیکا کی متنازعہ شخصیت اور اس کے اعمال پر مختلف اقسام کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سالوان مومیکا 2023 میں دنیا بھر میں اس وقت معروف ہوا جب اس نے سویڈن میں قرآن پاک کو جلایا اور اس کی بے حرمتی کی۔ مومیکا کا کہنا تھا کہ اس کے یہ اقدامات آزادیِ اظہار رائے کے تحت ہیں اور اس کا مقصد اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں اجاگر کرنا تھا۔ ان واقعات نے خاص طور پر مسلم دنیا میں شدید غصے اور نفرت کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں کئی ممالک میں مظاہرے اور فسادات ہوئے۔ مومیکا کا تعلق عراق کے صوبے موصل کے ضلع الحمدانیہ سے تھا۔ اس نے سویڈن میں پناہ حاصل کرنے سے قبل عراق میں ملیشیا کی سربراہی کی تھی اور وہاں دھوکہ دہی کے متعدد کیسز میں بھی ملوث تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عراق کو اس کی حوالگی کے لیے سویڈن نے درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔ مومیکا نے سویڈن میں پناہ حاصل کی تھی اور اس کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں اقلیتی فرقوں کے خلاف نفرت انگیزی شامل تھی۔ اس کی موت کے بعد پولیس نے پانچ افراد کو گرفتار کیا جنہوں نے ابتدائی طور پر قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم، ابھی تک اس قتل کے اصل محرکات کے بارے میں کوئی واضح تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ سویڈن کے وزیرِاعظم اولف کرسٹرسن نے اس واقعے کو حساس نوعیت کا قرار دیا اور کہا کہ سویڈن کی سیکیورٹی سروس بھی اس تحقیقات میں شامل ہو چکی ہے کیونکہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس قتل کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مومیکا نے اپنی آخری سوشل میڈیا پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ وہ سویڈن چھوڑ کر ناروے جا چکا ہے اور اس نے وہاں پناہ اور بین الاقوامی تحفظ کے لیے درخواست دی ہے۔ اس نے سویڈن کی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ مفکرین کے بجائے صرف دہشت گردوں کے لیے پناہ فراہم کرتی ہے۔ مومیکا کا کہنا تھا کہ اس نے سویڈن میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے باوجود وہاں کے عوام سے محبت اور احترام کو برقرار رکھا ہے مگر حکام کے ساتھ اس کا تعلق کشیدہ رہا۔ اس کے بعد مومیکا نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گا اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی وہ ادا کرے گا۔ یہ پیغام اس کے متنازعہ نظریات اور بیانات کو مزید اجاگر کرتا ہے اور اس کی شخصیت کو مزید واضع کر دیتا ہے۔ دوسری جانب مومیکا کا سویڈن میں رہائشی اجازت نامہ 2023 کے آخر میں منسوخ کر دیا گیا تھا اور اس کی درخواستوں میں غلط بیانی کرنے کے باعث اسے اپریل 2024 تک ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ سویڈش حکام نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ مومیکا نے اپنے رہائشی اجازت نامے کے لیے غلط معلومات فراہم کیں۔ تاہم، سویڈن نے مومیکا کو عراق کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ وہاں اسے تشدد یا غیر انسانی سلوک کا سامنا ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مومیکا نے سویڈن کے اس فیصلے کے خلاف مائیگریشن کورٹ میں اپیل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ ناروے پہنچ چکا تھا جہاں وہ مردہ پایا گیا۔ مومیکا کی موت پر دنیا بھر سے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے اس کی متنازعہ حرکتوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے اس کی موت کو ایک سنگین واقعہ قرار دیتے ہیں جس سے عالمی سیاست اور مذہبی حساسیت کے تعلقات پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سویڈن اور ناروے کی حکومتیں اس معاملے کی تحقیقات میں شدت سے مصروف ہیں جبکہ اس قتل کے پس منظر میں موجود محرکات کو جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لاہور میں پہلے ای وی چارجنگ اسٹیشن کا افتتاح

ای وی چارجنگ کے پہلے اسٹیشن کا لاہور میں اے ڈی ایم گروپ نے ملک فلنگ اسٹیشن ضرار شہید روڈ پر افتتاح کر دیا ہے یہ گروپ 3ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن لگائے گا۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت چوہدری شافع حسین نے لاہور میں پہلے ای وی چارجنگ اسٹیشن کا افتتاح کیا۔یہ ای وی چارجنگ اسٹیشن اے ڈی ایم گروپ نے ملک فلنگ اسٹیشن ضرار شہید روڈ پر لگایا ہے۔یہ گروپ 3ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن لگائے گا۔صوبائی وزیر صنعت و تجارت نے ای وی چارجنگ اسٹیشن کی ورکنگ کا جائزہ لیا۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت چوہدری شافع حسین نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے الیکٹرک وہیکلز سیکٹر بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے،دنیا ای وی سیکٹر کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چوہدری شافع حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مستقبل بھی اسی سیکٹر سے جڑا ہوا ہے۔پنجاب حکومت کا فوکس بھی ای وی سیکٹر کا فروغ ہے انھوں نے کہا کہ چین کی کمپنیوں نے پنجاب میں سستی الیکٹرک گاڑیوں کے پلانٹ لگانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔جتنے زیادہ ای وی چارجنگ اسٹیشن بنیں گے اتنی ہی زیادہ الیکٹرک گاڑیاں آئیں گی۔حکومت چاہتی ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں پنجاب میں مینوفیکچر ہوں۔ صوبائی وزیر صنعت اور تجارت کا مزید کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے الیکٹرک وہیکلز سیکٹر بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے،دنیا ای وی سیکٹر کی جانب بڑھ رہی ہے،جتنے زیادہ ای وی چارجنگ اسٹیشن بنیں گے اتنی ہی زیادہ الیکٹرک گاڑیاں آئیں گی۔ ملک گروپ کے چیئرمین ملک خدا بخش،پنجاب سرمایہ کاری بورڈ کے جلال حسن خان اور صنعتکار تقریب میں موجود تھے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چین کے اے ڈی ایم گروپ کے وفد نے سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے پاکستان میں ای وی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت کی، اس گروپ پاکستان میں 3 ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ چائنیز اے ڈی ایم گروپ کے سی ای او یاسر بھمبانی نے کہا کہ حکومت اجازت دے تو اس سال پاکستان میں گاڑی بنانے کو تیار ہیں، میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو مستقبل میں ایکسپورٹ بھی کیا جائے گا۔ سی ای اونے مزید کہا کہ میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو بھارت سمیت سات ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کا پلان ہے، پاکستان میں کراچی پنجاب اور بلوچستان میں 3مینوفیچرنگ پلانٹس لگائے جائیں گے، کمپنی کے پاس پاکستان میں سالانہ 72ہزار یونٹس کی پیداواری استعداد ہے۔