“بلاول سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کو تباہ کر رہا ہے” خالد محمود صدیقی کی پریس کانفرنس

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے گزشتہ دنوں تاجروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شکایات ہیں تو مجھ سے کرو،کئی اور جا کر چغلی نہ کریں، ان الفاظ کی وجہ سے ایم کیوایم کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ بزنس کمیونٹی کو بلا کر دھمکایا گیا،تاجر حضرات تنہا نہیں ہیں ایم کیو ایم ان کے ساتھ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ  گزشتہ دنوں چیئرمین پیپلز پارٹی نے ہمیں دعوت دی تھی اور ہمیں لگا تھا کہ تاجروں کے مسائل کے حوالے سےکوئی اقدام کریں گے،ہمیں امید تھی کہ تاجروں کے ساتھ گزشتہ 15 سالوں  سے جو چل رہا ہے اس پر معذرت کریں گے،اپنی کی گئی غلطیوں کا ازالہ کریں گے لیکن چیئرمین پیپلز پارٹی کا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔ صدیقی کا کہنا ہے کہ کراچی میں حالیہ سالوں میں  بچوں کے اغوا میں اضافہ ہوا ہے، روزانہ دو سے تین وارداتیں ہوتی ہیں اور مزاحمت پر مار دیا جاتا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے بلاول بھٹو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ماضی میں لیاری گینگ وار کے ذریعے پورے شہر کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔بلاول کے آنے کے بعد کراچی جس شکل میں ہے، ہمیں اس کی وضاحت تو کریں۔ انھوں نے کہا کہ بلاول سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کو تباہ کر رہا ہے، ان کو تکلیف تھی کہ گلہ کہیں اور کیوں کیا، اسی وجہ سے کراچی کے تاجروں سے بات کی۔بلاول نےتاجروں سے ملاقات میں اسٹریٹ کرائم پر معافی کیوں نہیں مانگی؟ ایم کیو ایم کے سینئر مرکزی رہنما مصطفیٰ کمال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بزنس کمیونٹی کو بلا کر دھمکی دی ہے، تاجروں کو بلا کر دھمکانے پر ایم کیو ایم پی پی کے اس رویے پر مذمت کرتی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بزنس کمیونٹی تنہا نہیں ہم ان کے ساتھ ہیں، پچھلے تمام ادوار میں ایم کیو ایم نے بزنس کمیونٹی کو سپورٹ کیا انھوں نے کہا کہ حکومت اور ریاست کے تمام اداروں کو اس بات پر سوچنا چاہئے ،بزنس مین کسی پارٹی کا نہیں ہوتا پاکستان کے آرمی چیف آئے تھے انہوں نے بزنس کمیونٹی سے بات کرتے ہوئے ان کے مسائل سنے تھے۔ مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ کراچی کی گلیوں میں اختیارات اور وسائل آنے چاہئیں ،اگر اختیارات اور وسائل نہیں ملیں گے تو پھر نئے صوبے بنیں گے ،اگر 27ویں آئینی ترمیم نہیں ہو گی تو صوبے بننا لازم و ملزوم ہیں، انھوں نے کہا آرمی چیف جب کراچی آئے تھے تو انھوں نے اس بات کی تائید کی کہ پاکستان میں نئے صوبے بننے چاہئیں۔ ایم کیو ایم کے سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستارنے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کی حکمرانی پر ایک وائٹ پیپر رکھا ہے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کا تو رونا روتے ہیں انھوں نے کہا کہ سندھ میں ایک اہم ترین مسئلہ زمینوں پر قبضے کا ہے ،تیزی کے ساتھ صنعتکاروں اور بلڈرز کی زمینوں پر قبضہ ہوا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہا کہ تاجروں کو ڈانٹا گیا کہ تم لوگوں نے چغلی کی ہے جبکہ کراچی کا معیشت میں کردار پاکستان کی بقا اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تاجر برادری کے اعزاز میں کراچی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں انہوں نے تاجربرادری سے بات چیت کی اور ان کے مسائل سنے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اگر کسی بیوروکریٹ یا وزیراعلیٰ سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتائیں، کسی اور جگہ چغلی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سندھ میں ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے اور ہمیں مسائل کے حل کے لیے آگاہ کریں۔

“28 جنوری کو میٹنگ ہوئی مگر پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ گئی” شہباز شریف

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات  کی دعوت دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کردی۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیا گیا ہے، لیکن پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ رہی ہے۔ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی آفر کو شفاف انداز سے قبول کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ڈیمانڈ ہے کہ انھیں لکھ کردیا جائے، ہم نے ان کی یہ ڈیمانڈ قبول کر لی ہے اور انھیں کہا کہ لکھ کر دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہم نے ایک کمیٹی بنائی، اسپیکر کے توسط سے یہ مذاکرات شروع بھی ہوئے۔ رواں ماہ کی 28 تاریخ کو میٹنگ ہونی تھی اور اب پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کمیٹی نے ڈیمانڈ کی کہ انہیں لکھ کر دیا جائے، ہماری کمیٹی نے کہا ہم آپ کو لکھ کر جواب دیں گے۔ ہم نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا، یہ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں، انہوں نے 2018 میں ہاؤس کمیٹی بنائی تھی، کمیشن نہیں بنایا تھا۔ شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئیں بیٹھیں، ہم ہاؤس کمیٹی بنانے کو تیار ہیں، ہم مذاکرات کے لیے صدق دل سے تیار ہیں۔ ہم نے بہت نیک نیتی سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کیےہیں، ہماری کمیٹی نے کہا کہ اپنے تحریری مطالبات دیں۔ وزیراعظم پاکستان نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ پوری طرح حقائق کو سامنے لائیں۔ 2018 میں ہم نے ہاؤس کمیٹی قبول کی آپ بھی آئیں قبول کریں۔  2018 اور 2024 کے انتخابات پر کمیٹی بنے گی، 26 نومبر کے دھرنے کی بات کی جائے گی، اس کے ساتھ 2014 کے دھرنے کی بھی ہاؤس کمیٹی احاطہ کرے گی۔ وزیرِاعظم پاکستان نے کہا کہ نیک نیتی کے ساتھ ڈائیلاگ آگے بڑھانے کے لیےتیار ہوں، انتشار کے ہاتھوں ملک کا پہلے بھی بہت نقصا ن ہوچکا ہے، یہ ملک مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیرِاعظمِ پاکستان نے کہا کہ افواج پاکستان کے جوانوں نے خوارج کا مقابلہ کیا، پاک فوج کے جوانوں نے خارجی دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا اور جام شہادت نوش کیا۔  افواجِ پاکستان،رینجرز ،پولیس اور سکیورٹی اداروں کی ملک کیلئے لازوال قربانیوں کی ایک داستان ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر روز خوارج ،دہشتگردوں کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔ میں ایک شہید کے والد کو خود ملا، ان کے حوصلے بہت بلند تھے۔ اس کے ساتھ ہمیں ہر روز بہادری اور دلیری کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں ایک فیصد کمی کا اعلان کیاہے، میرے حساب سے پالیسی ریٹ میں کم از کم 2فیصد کمی ہونی چاہیے تھی، پالیسی ریٹ میں کمی سے صنعت اور کاروبار کو فائدہ ہوگا، ہم دن رات کاوشیں کررہے ہیں، ترقی و خوشحالی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں سیکڑوں پاکستانیوں کی جانیں گئیں، کالے دھندے کے نتیجے میں پاکستان کے چہرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے کل انسانی سمگلنگ کے معاملے پر ایک اور میٹنگ کی تھی۔ انسان اسمگلرز نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جب تک مکمل تحقیقات نہیں ہوتیں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ واضح رہےکہ پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے کمیشن بنانے کا مطالبہ کررکھا ہے جس کے باعث پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کےا جلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔

190 ملین پاؤنڈ سکینڈل: ملک ریاض کے خلاف نیب کی سخت کارروائی شروع

پاکستان کی سیاست میں ایک نیا تنازعہ جنم لے چکا ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ نے نیب کی درخواست پر 190 ملین پاؤنڈ کے سکینڈل میں اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے جس میں پاکستان کے معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض، ان کے صاحبزادے علی ریاض، سابق وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر اور فرح شہزادی کے نام شامل ہیں۔ ان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور یہ کارروائی ایک انتہائی سنجیدہ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ ملک ریاض وہ شخصیت ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے ریئل اسٹیٹ گروپ، بحریہ ٹاؤن کے مالک ہیں اور جن کی سیاست اور طاقتور حلقوں کے ساتھ قربتیں مشہور ہیں۔ قومی احتساب بیورو(NAB) کے مطابق ان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کے اسکینڈل میں سنگین الزامات ہیں جس میں ان پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس کیس میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی سزا سنائی گئی تھی۔ ملک ریاض کی گرفتاری کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ نیب نے 28 جنوری کو وزارتِ داخلہ کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ وزارتِ داخلہ نے فوراً اس کارروائی پر عمل کرتے ہوئے ان تمام افراد کے پاسپورٹس منسوخ کر دیے ہیں۔ نیب کے مطابق یہ اشتہاری ملزمان ملک سے فرار ہو کر بیرونِ ملک چلے گئے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ لیکن ملک ریاض نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر ایک بیان جاری کر کے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بیان میں کہا ہے کہ انہیں کسی مقدمے میں گواہی دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور وہ کبھی بھی “وعدہ معاف گواہ” نہیں بنیں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے کاروبار بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر نیب نے چھاپے مارے ہیں اور ان کے خلاف ریاستی مشینری استعمال کی جا رہی ہے۔ ملک ریاض کے مطابق ان کے دفاتر پر چھاپے سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے کیے گئے ہیں تاکہ انہیں کسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا جا سکے۔ ملک ریاض نے مزید کہا کہ یہ چھاپے غیرقانونی ہیں اور ان کی ذاتی زندگی اور کاروبار کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ تمام اقدامات ان پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ملک ریاض نے حکومت اور دیگر اداروں سے مطالبہ کیا کہ ان کے دفاتر سے ضبط شدہ تمام سامان واپس کیا جائے اور ان کے عملے کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی ملک ریاض کی حمایت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ ملک ریاض کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سیاسی انتقام اور جبر کا کھیل جاری ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کے خلاف الزامات لگانے کے لیے نہ صرف سیاست دانوں بلکہ ججز، صحافیوں اور تاجر طبقے کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملک ریاض نے اپنی پوسٹ میں ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ کسی صورت بھی سیاسی مقاصد کے لیے پیادے کے طور پر استعمال نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی کے لیے کام کرتے رہیں گے اور کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ “اگر یہ سب کچھ ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو مجھے اس کا سامنا ہے لیکن میں کبھی بھی اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔” ملک ریاض کی یہ پُرجوش پوسٹ ایک گہرے سیاسی پیغام کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ملک ریاض کی سیاست سے جڑی یہ پیچیدہ صورتحال اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ان کے خلاف کارروائیاں بھی سیاسی رنگ اختیار کر گئی ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ریاستی اداروں کی جانب سے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان میں طاقتور شخصیات اور سیاسی اداروں کے درمیان کشمکش ایک نئی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کا یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان میں ایک بدترین سیاسی آمریت کا دور چل رہا ہے اور اس میں جبر کے ذریعے لوگوں کو اپنے مقاصد کے تحت ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت جو بھی سیاسی قوتوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ نشانہ بنتا ہے۔ اب اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس تنازعہ میں مزید کشیدگی دیکھنے کو ملے گی۔ یہ صورتحال ایک طرف جہاں سیاسی طاقتوروں کے درمیان کشمکش کو ظاہر کرتی ہے وہیں دوسری طرف عوامی سطح پر بھی بے چینی اور سوالات کا سامنا ہے کہ آخر ملک ریاض کے خلاف یہ کارروائیاں کس حد تک درست ہیں۔

پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے

پاکستان میں پولیو کے کیسز ایک بار پھر بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ خطرہ ملک کے سب سے غیر مستحکم اور شورش زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد 2022 میں 73 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ پولیو کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان ایک بار پھر شکست کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی کشمکش اور دہشت گردی کی وجہ سے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ جیسا کہ 2024 میں بھی کئی ٹیموں اور ان کے محافظوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ یہ پولیو زدہ علاقے افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں جہاں پولیو کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور یہاں عالمی پولیو مہم کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے درمیان گہرے تعلقات کے بعدٹی ٹی پی نے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پولیو ٹیموں پر 25 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جہاں ملک کی حکومت پولیو کے خلاف لڑنے والے ہیروز کو تحفظ دینے کی کوششیں کر رہی ہے وہیں دوسری طرف دہشت گردگروپ سمجھتے ہیں کہ یہ مہم کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ان کی لڑائی کے خلاف جاسوسی کرنا ہے۔ نجی خبر رساں ادارے ‘دا واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق 2011 میں امریکی سی آئی اے نے اس مہم کو اس لیے بدنام کیا تھا کہ اس نے اسلحہ کی تلاش میں ایک جعلی ہیپاٹائٹس ویکسی نیشن مہم چلائی تھی۔ اس اقدام نے دہشت گردوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ ویکسی نیشن مہم ایک قسم کی جاسوسی ہے۔ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کے کارکنان جنہیں روزانہ صرف 18 ڈالر ملتے ہیں ،وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں۔ دا واشنگٹن پوٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک علاقے میں 24 سالہ احمد بھٹانی نے اپنے جان کے خوف سے پولیو ویکسی نیشن کے کام سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نوجوان نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی پولیس کی حفاظت میں ویکسین دینے جا رہے تھے جب ایک حملہ آور گروپ نے ایک پولیس افسر کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس کے لیے اپنے ہی گاؤں جانا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔ احمد بھٹانی کا مزید کہنا تھا” کہ اب میں اپنے گاؤں بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ دہشت گرد مجھے مار ڈالیں گے”۔ ٹی ٹی پی کی نظر میں اگر ویکسی نیشن ٹیمیں پاکستانی فوج کی بجائے ان کے ساتھ تعاون کریں تو وہ ان کی مکمل حفاظت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پولیو کے حوالے سے ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا تو ہے ہی اس کے  ساتھ ہی ساتھ پولیو ویکسین کی ترسیل میں درپیش مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سردی کی حالت میں ویکسین کی حفاظت میں نقائص اور ویکسین کی ناکافی فراہمی ان مسائل میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں دیہات میں صاف پانی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پولیو وائرس آلودہ پانی پینے سے پھیلتا ہے۔ پاکستان کے مشہور معالج ڈاکٹر نسیر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ صحت کے کارکنوں کے لیے بہتر مراعات فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ “یہ کارکنان قومی ہیروز ہیں جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کی زندگی بچا رہے ہیں، ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔” پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی وبا کا بڑھنا ایک عالمی بحران بن سکتا ہے۔اور اگر عالمی سطح پر اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو پولیو کا وائرس پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو پولیو کے خلاف مہم کے لیے تقریباً 7 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی لیکن اگر اس امداد میں کمی آئی تو یہ پاکستان اور افغانستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے سابق پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے خبردار کیا ہے کہ “اگر پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خلاف اس وقت کے اقدامات میں کمی آئی تو اس کے اثرات بہت سنگین ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائے گا۔” اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو نہ صرف بچے مفلوج ہو سکتے ہیں بلکہ یہ وائرس دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلنے کا خطرہ بن سکتا ہے۔ حکومت اور عالمی برادری کو اس بحران کا فوری اور مؤثر حل نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔

حماس نے اسرائیلی اربیل یہود،گڑی موسس اور برگر کے بدلے 110 قیدی چھڑالیے

فلسطینی عسکری گروہوں  نے جمعرات کے روز 110فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ ایک اسرائیلی اہلکار، اگام برگر جس نے زیتون کے جیسا سبز رنگ والا یونیفارم پہنا ہوا تھا اسے شمالی غزہ جابالیہ  میں ریڈ کراس کے حوالے کرنے سے پہلے تباہ شدہ علاقے میں سے گزارا گیا۔ گڑی موسیس اور اربل یاہود جو بالترتیب 80 اور 29 سال کے ہیں دونوں کبوتر نیراوزکے مقام پر حماس کی جانب سے کیے گئے حملے میں 7 اکتوبر 2023 کو اغوا ہوئے۔ انہوں نے رہا ہونے کے بعدمصلح گروہوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کو گلےسے لگایا، جس کی ویڈیو حماس دوست اسلامک جہاد نے جاری کی۔ فلسطینی قیدی جن میں 30 چھوٹے اور فلسطینی گروہوں کے کچھ ممبرز شامل ہیں اسرائیل میں بمباری کے حملوں میں ملوث پائے گئے تھے، دن کے اختتام میں مغربی کنارے یا غزہ سے حاصل کر لیے جائیں گے ۔ 5 تھائی لینڈ کے شہری بھی ان اغوا ہونے والے لوگوں میں شامل ہیں جو غزہ میں عسکری گروہوں نےایک اور معاہدے میں آزاد کیے ہیں۔ باغیوں کو اسرائیل میں تین مختلف مقامات پر لایا جانا تھا گوکہ ڈاکٹرز کی وجہ سے ان کی جگہ تبدیل بھی ہو سکتی تھی۔ تل ابیب کا مرکزی چوک جو اب یرغما لیوں کے چوک کے نام سے جانا جاتا ہے، میں اسرائیلی جمع ہوئے۔ یہ جگہ اب یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے  استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور خوشی کے آنسو بہاتے ہیں۔ حماس کے اسرائیل حملے میں تقریباً 12 سو لوگ مارے گئے اور 250 لوگ اغوا کر لیے گئے۔یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں پر سب سے شدید حملہ تھا۔ اسرائیلی عسکری جواب میں 47 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 2.2ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ جب کہ ان میں سے آدھے غزہ میں اسرائیلی حملوں میں زندہ یا مردہ پائے گئے۔ غزہ کے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ جو اس تنازع میں اغوا ہوئے تھے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جب اپنے گھروں کو دیکھتے ہیں تو وہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ابھی بھی 89 لوگ غزہ میں ہیں جن میں 30 کی موت ہو چکی ہے۔

شہری کی جیب سے ایک ہزار روپے نکالنے پر لاہور پولیس کے پانچ اہلکار معطل

پنجاب پولیس کے محکمے میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی ایک اور مثال اس وقت سامنے آئی، جب لاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں چیکنگ کے دوران پانچ پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر ایک ہزار روپے نکالنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ پنجاب پولیس کے احتسابی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے، کیونکہ قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں کرپشن کے دیگر اسکینڈلز بھی ماضی میں رپورٹ ہو چکے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پولیس میں بدعنوانی کوئی نیا یا الگ تھلگ مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہری جڑوں والی خرابی ہے۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ شہری اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں تھا جب قلعہ گجر سنگھ کے علاقے میں تعینات پولیس اہلکاروں نے اسے چیکنگ کے بہانے روک لیا۔ شہری نے الزام لگایا کہ چیکنگ کے دوران پولیس اہلکاروں نے اس کی جیب سے ایک ہزار روپے نکال لیے اور جب اس نے احتجاج کیا تو اہلکاروں نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کر لیا۔ شہری نے معاملہ رفع دفع کرنے کے بجائے فوری طور پر پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کر کے شکایت درج کرائی۔ تاہم، شکایت درج ہونے کے بعد پولیس اہلکاروں نے شہری پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی شکایت واپس لے اور زبردستی معافی نامہ لکھوایا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اہلکاروں نے شہری کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا کہ پیسے اس کی جیب سے خود ہی گر گئے تھے اور یہ سب ایک غلط فہمی تھی، لیکن جب معاملے کی تحقیقات شروع ہوئیں، تو اہلکار قصوروار پائے گئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق انکوائری میں الزام درست ثابت ہونے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل حسن، شکیل، طاہر اور کانسٹیبل تجمل اور عمران کو معطل کر دیا گیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ بدعنوان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مزید اصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں کرپشن کا معاملہ سامنے آیا ہو۔ اس سے قبل ستمبر 2024 میں ایک بڑا اسکینڈل رپورٹ ہوا تھا، جس میں انکشاف ہوا کہ لیڈی ہیڈ محرر اقصیٰ عزیز اور نائب محرر کرن جمال پولیس لائنز میں تعینات 24 لیڈی کانسٹیبلز کی غیر حاضری کے باوجود تنخواہ لے رہی تھیں۔ تحقیقات کے مطابق ان دونوں افسران پر ماہانہ رقم  لے کر جعلی حاضریاں لگانے کا الزام تھا۔ اس انکشاف کے بعد پنجاب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا، مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ واقعی کرپشن کے خاتمے کے لیے کافی تھا؟ اسی طرح دسمبر 2024 میں ڈی آئی جی آپریشنز محمد فیصل کامران نے قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں اردل روم کے دوران 18 پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری کی، جس میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایات شامل تھیں، ان کارروائیوں میں 10 اہلکاروں کی سروس ضبط کی گئی۔ یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پنجاب پولیس میں کرپشن کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے، جو نچلی سطح سے لے کر انتظامی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اہلکار بار بار بدعنوانی میں ملوث ہو رہے ہیں، تو کیا انہیں صرف معطل کرنا کافی ہے؟ کیا معطلی کے بعد وہ دوبارہ بحال نہیں ہو جاتے؟ اور کیا ان کے خلاف مقدمات درج کر کے سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے؟ عوام کا کہنا ہے کہ جب تک پولیس میں اندرونی احتسابی عمل شفاف اور مضبوط نہیں ہوگا اور بدعنوان اہلکاروں کو قانونی سزائیں نہیں دی جائیں گی، اس قسم کے واقعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے رویے میں بہتری لانے کے لیے صرف معطلی کافی نہیں بلکہ ایسے اہلکاروں کو قانون کے مطابق سخت سزا دینی چاہیے۔ کچھ صارفین نے نشاندہی کی کہ اگر کوئی عام شہری کسی جرم میں ملوث پایا جائے، تو اسے فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے، مگر پولیس اہلکاروں کو محض معطل کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق اس معاملے میں مزید انکوائری کی جا رہی ہے اور اگر معطل اہلکاروں پر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو انہیں مزید سخت کارروائی کا سامنا پڑ سکتا ہے۔ یہ واقعات ایک بار پھر سوالات کو جنم دیتے ہیں کہ کیا پنجاب پولیس واقعی عوام کی حفاظت کے لیے ہے، یا پھر شہریوں کے حقوق کی پامالی ایک معمول بنتی جا رہی ہے؟ اور کیا پولیس کے احتساب کے لیے کوئی آزاد اور خودمختار ادارہ ہونا چاہیے، جو ان معاملات کی شفاف تحقیقات کرے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر شہری کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، مگر ان کے جوابات شاید ابھی بھی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ شہری قاسم اکرم نے بتایا کہ پولیس اہلکار دوران چیکنگ انہیں بلاوجہ تنگ کرتے ہیں اور اکثر یہ کارروائیاں شہریوں کو خوف میں مبتلا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ قاسم کے مطابق اہلکار ضرورت سے زیادہ تفتیش کرتے ہیں اور بعض اوقات پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں، جس سے شہریوں کو ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا یہ رویہ عوام کے ساتھ اعتماد کے رشتہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ شہری عاطف شکیل نے کہا کہ پولیس کا رویہ اکثر نامناسب ہوتا ہے اور انہیں عوامی سطح پر احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ ان کے مطابق اہلکاروں کا سخت اور دھمکی آمیز طرز عمل پولیس کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے تاکہ شہریوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔ شہری احمد علی نے پولیس کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکار چیکنگ کے دوران بلاوجہ تنگ کرتے ہیں اور توہین آمیز سلوک کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پولیس کبھی کبھار بلاجواز تفتیش کرتی ہے اور شہریوں کو اپنی بات رکھنے کا موقع نہیں دیتی، جس سے ہمیں شدید ذہنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈیپ سیک کو آتے ہی سبکی کا سامنا، حساس ڈیٹا لیک ہوگیا  

نیویارک کی معروف سائبر سیکیورٹی فرم ویز نے ایک انتہائی سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ چینی مصنوعی ذہانت کا اسٹارٹ اپ “ڈیپ سیک” کا حساس ڈیٹا بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے انٹرنیٹ پر آ گیا ہے۔ ویز کے مطابق، یہ ڈیٹا اس وقت غیر محفوظ طریقے سے منظرِ عام پر آیا جب کمپنی نے اپنے انفراسٹرکچر کی اسکیننگ کی۔ یہ انکشاف بدھ کے روز ویز کے بلاگ پر شائع کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈیپ سیک نے حادثاتی طور پر 10 لاکھ سے زائد حساس معلومات کو انٹرنیٹ پر کھلا چھوڑ دیا تھا۔ یہ ڈیٹا نہ صرف سافٹ ویئر کی لائسنس کی کلیدوں پر مشتمل تھا بلکہ چیٹ لاگ بھی شامل تھے، جو صارفین کی جانب سے ڈیپ سیک کے مفت مصنوعی ذہانت کے اسسٹنٹ کو بھیجے گئے اشاروں (prompts) کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ معلومات حساس نوعیت کی تھیں اور اس سے کمپنی کے صارفین کی پرائیویسی پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ ویز کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر، امی لوٹواک، نے اس بارے میں مزید تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ڈیپ سیک نے فوری طور پر اس مسئلے کی اطلاع دی اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ڈیٹا کو ہٹا دیا۔  ویز کی تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ڈیپ سیک نے اگرچہ فوراً کارروائی کی، لیکن اس نوعیت کی غلطیوں کے سامنے آنے سے مستقبل میں دیگر سیکیورٹی خطرات کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ڈیپ سیک کی کمپنی نے اپنی مصنوعی ذہانت کی خدمات کا کامیاب آغاز کیا،ڈیپ سیک کی کامیابی نے اس بات پر سوالات اٹھا دیے ہیں کہ آیا اوپن اے آئی اور دیگرامریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے منافع کے مارجن کو برقرار رکھ پائیں گی، کیونکہ ڈیپ سیک نے انتہائی کم قیمت پر اوپن اے آئی کی خدمات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دکھائی ہے۔ پیر تک، ڈیپ سیک کے ایپ نے ایپل کے ایپ اسٹور پر امریکی حریف چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا، جس سے ٹیک کمپنیوں کے شیئرز کی عالمی سطح پر فروخت میں تیزی آ گئی تھی۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، سائبر سیکیورٹی کی غفلت کسی بھی کمپنی کے لئے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے اور ڈیجیٹل دنیا میں حفاظت کے اقدامات کو نظرانداز کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔  

امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس واپسی تارکینِ وطن کے لیے چیلنج کیوں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپس آمد تارکینِ وطن کے لیے بڑا چیلنج بن گئی ہے۔گوانتاناموبے میں غیر قانونی تارکینِ وطن کےلیے ایک حراستی مرکز بنانے کا حکم دیا گیا ہے، جہاں 30 ہزار افراد کو رکھا جا سکے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبدھ کے روز اعلان کیا کہ  ہوم لینڈ سکیورٹی اور پنٹاگان کو حکم دیا ہے کہ گوانتانامو بے میں خصوصی جگہ بنائی جائے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر  نے لیکن ریلی ایکٹ پر دستخط کردیے ہیں جس سے غیر قانونی امیگرینٹس کو گرفتار کرنا، حراست میں لیا جانا اور جبری بے دخل کرنا آسان ہوگیا ہے۔مزید یہ کہ صدر ٹرمپ کے دوسرے دور میں قانونی حیثیت اختیار کرنے والا یہ پہلا قانون ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے دوسرے دور کے پہلے دن ہی ٹرمپ نے  امیگریشن سے متعلق کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے ہیں، اس کے علاوہ ایک قانون کو منسوخ کیا جس میں وفاقی ایجنٹوں کو گرجا گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں میں بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کی تلاش کی ممانعت تھی۔ یہ وہ مقامات ہیں جنھیں پہلے حساس سمجھا جاتا تھا اور انھیں امیگریشن چھاپوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔ اس بل کوری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں کی اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا تھا،جس پرصدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹس سے اظہار تشکر کرتے ہوئےکہا کہ اس قانون سے سیکڑوں امریکی زندگیاں محفوظ ہوں گی۔ ریلی ایکٹ کے تحت اب وفاقی امیگریشن حکام بغیر قانونی اسٹیٹس کے امریکا میں مقیم ایسے افراد کو بھی جبری بے دخل کرسکیں گےجن پر معمولی نوعیت کی چوری، دکان سے چیز اٹھانے، اہلکار پر تشدد کرنے یا کسی شہری کوموت کے منہ میں دھکیلنے یا شدید زخمی کرنے میں ملوث ہوں گے۔ امریکی صدر نے غیرقانونی امیگرینٹس کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کا منصوبہ بھی بنالیا ہے ۔اس ضمن میں ہوم لینڈ سکیورٹی اور پنٹاگان کو ٹرمپ کی  ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔مجرموں کیلئے گوانٹاناموبے میں 30 ہزار بستر موجود ہیں۔ خیال رہے کہ گوانتانامو بے ایک امریکی بحری اڈہ اور جیل ہے جو کیوبا کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے،جسے عام طور پر گوانتانامو بے حراستی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں 2002 کے بعد سے دہشت گردی کے مشتبہ ملزمان کو قید کیا گیا ہے۔ غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی اردو کے مطابق اگر کوئی شخص کسی معقول دستاویزات کے بغیر ان پناہ گاہ کہے جانے والے شہر میں رہ رہا ہے تو وہ اپنی امیگریشن کی حیثیت کو ثابت کیے بغیر حکام کے ساتھ معاملات میں آسانی کی توقع کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی بغیر دستاویز والے شخص کو کسی جرم کی وجہ سے حراست میں لیا جاتا ہے اور امیگریشن حکام کو اس کے بارے میں پتا چلتا ہے تو انھیں اس کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ کاروباری اداروں یا عوامی مقامات کے ساتھ ساتھ نجی گھروں میں بھی چھاپے مار سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ  دورِ حاضر کے امریکہ میں صحیح معنوں میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو کہ حقیقتا پناہ گاہ ہو اور جہاں آئی سی ای جیسی وفاقی ایجنسیاں ملک بدری کے لیے داخل نہ ہو سکیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کوئی شخص بغیر قانونی دستاویزات کے وہاں پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر سکتا ہے اور اسے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی میں امیگریشن لیبارٹری اور سینٹر فار لیٹن امریکن سٹڈیز کے ڈائریکٹر ارنیسٹو کاستانیدا نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اگرتارکین وطن  کے پاس معقول دستاویزات نہیں ہیں اور ان پر ملک بدری کے احکامات عائد ہیں تو تمام پولیس فورسز پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے تارکینِ وطن  کوئی بھی جرم کرنے سے بچتے ہیں، وہ ڈرائیونگ یا باہر جانے کی کوشش نہیں کرتے کہ کہیں پولیس کا سامنا نہ ہو جائے، وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے یا اس طرح کی کوئی چیز کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے لیے ملک بدری کا باعث بنے۔ دوسری جانب  ٹرمپ اور دیگر ریپبلکن سیاست دانوں کی جانب سے بغیر دستاویزات والے تارکینِ وطن کی پناہ گاہ کہے جانے والے شہروں میں ڈیموکریٹک حکومتوں کی جانب سے مبینہ تحفظ فراہم کیے جانے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ تارکین وطن دوسرے گروپوں کے مقابلے میں کم فلاحی پروگرامز کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس اور پنشن کی مد میں زیادہ ادائیگی کرتے ہیں جن کا وہ ریٹائر ہونے پر کبھی دعویٰ نہیں کرتے، کیونکہ انھوں نے یا تو غلط سوشل سکیورٹی نمبر استعمال کیے ہوتے ہیں یا پھر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہوتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ زائد ادا کیے ٹیکسوں کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کرتے اور بہت سے لوگ بے نقاب ہونے کے خوف سے امدادی پروگراموں پر اپنا حق نہیں جتاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ پناہ گاہ کہے جانے والے شہر امیگریشن ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس سے وفاقی حکومت سے وسائل کے حصول کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔وائٹ ہاؤس ان ریاستوں اور مقامی حکام کی حمایت کر سکتا ہے جو اس کی امیگریشن پالیسیوں میں مدد کرتے ہیں۔ جارج ڈبلیو بش یا ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور کی ریپبلکن انتظامیہ نے سیکشن 287 جی جیسے ضابطوں کا استعمال کیا ہے تاکہ مقامی حکام کو امیگریشن کی حیثیت کا جائزہ لینے جیسے وفاقی کاموں کو انجام دینے کے لیے ترغیبات فراہم کی جائیں۔

لندن میں روزانہ 55 ہزار چوری کے واقعات: پیشہ ورانہ گینگ ملوث

جمعرات کو شائع ہونے الی ایک رپورٹ کے مطابق چوری اورظلم کےبڑھتے ہوئے  واقعات لندن میں ریکارڈ لیول پر پہنچ چکے ہیں جن میں زیادہ تر جرائم پیشہ افراد اور مجرمانہ گینگ شامل ہیں۔ برٹش ریٹیل کنزورٹیم (بی آر سی) کے مطابق سورے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 31 اگست 2024 تک چوری کے 20 ملین واقعات رونما ہوئے، جو 55 ہزار فی دن بنتے ہیں، جس میں خوردہ فروشوں کو2.2بلین پاؤنڈز کا نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ سال واقعات کی تعداد 16 ملین تھی۔ بی آر سی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر واقعات پیشہ ورانہ جرائم سے منسلک تھے، جہاں گینگ مختلف طریقوں سے پورے ملک میں دکانوں کو نشانہ  بناتے ہیں۔ 2023 اور 24 میں ظلم و تشدد کے واقعات 2ہزار کی حد کو عبور کر گئے جب کہ اس سے پہلے یہ واقعات 13 سو تک تھے۔ بی آر سی کے ہیڈ ہیلن ڈکنسن نے  کہا “خوردہ فروشوں کے واقعات کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں۔ سٹورز مین موجود لوگ مارے جاتے ہیں ان پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ ہر دن یہ ہو رہا ہے ۔ جرائم پیشہ افراد روز بروز مزید طاقتور اور پر تشدد ہو رہے ہیں”۔ ان جرائم کے پیش نظر عوام پولیس کے اقدامات سے اطمینان محسوس نہیں کرتی ہے۔  سروے میں 61 ٪ لوگوں نے پولیس کے اقدامات کو “برا” یا “بہت برا” قرار دیا ہے۔ ڈکنسن کا کہنا ہے کہ پولیس کے غیر مطمن جواب کو دیکھتے ہوئے مجرمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس چوری اور ظلم و تشد د کرنے کا لائسنس موجود ہے”۔ بی آر سی کے مطابق ان جرائم کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں جو پیسے خرچ ہو رہے ہیں وہ بھی ریکارڈ ہائی جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک 1.8بلین پاونڈزسی سی ٹی وی کیمرے، اینٹی تھیفٹ آلات اور سیکیورٹی کے عملے کے لیے خرچ کیے گئے ہیں۔ ٹیسلو سمیت بہت سے بڑے ریٹیلرز  نے پچھلے ایک سال میں اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔

پیكا ترمیم: ‘آئینی حقوق اور صحافتی آزادی پر حملہ’ قرار

الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں حالیہ ترمیم پاکستان میں بنیادی آئینی حقوق اور صحافتی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ حکومت نے اس بل کو بغیر کسی متعلقہ فریقین سے مشاورت کےعجلت میں منظور کیا، جس سے صحافت اور آزادی اظہار پر سنگین خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا الائنس برائے پاکستان کے صدرسبوخ سید نے اپنے ایک بیان میں ترامیم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “یہ ترامیم پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے لیے مزید مشکلات پیدا کریں گی، جو پہلے ہی سخت قوانین کے تحت مشکلات کا شکار ہیں ،یہ امر تشویشناک ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بغیر اس کے طویل مدتی نتائج کو مکمل طور پر سمجھے ، اس مسئلے پر ایک ہی صفحے پر نظر آتی ہیں،۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستان کا میڈیا پہلے ہی شدید دباؤ کا سامنا کر رہا ہے، اور قوانین کو مزید سخت کرنے سے صرف آزاد صحافت کو خاموش کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم اس ترمیم کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے اہم فیصلے کرنے سے قبل میڈیا نمائندوں کے ساتھ بامعنی بات چیت کریں۔ ڈیجیٹل میڈیا الائنس برائے پاکستان صحافتی آزادی کے دفاع میں ثابت قدم ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جمہوریت اور آزادی اظہار کے مفاد میں اس ترمیم پر نظرثانی کرے۔” گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ایکٹ کے ترمیمی بل پر دستحط کیے جس کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل قانون کا حصہ بن گیا۔ یاد رہے کہ قومی اسملبی میں یہ بل 23 جنوری کو پیش کیا گیا۔ جس کے دوران صحافیوں نے کاروائی سے بھی واک آؤٹ کیا تھا۔ اسلام آباد میں صحافیوں کی تنظیم پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے بدھ کو دعویٰ کیا تھا کہ صدر آصف زرداری نے پیکا ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کی ان کی درخواست قبول کر لی تاہم اسی روز ایوان صدر سے جاری بیان میں بتایا گیا صدر نے پیکا ایکٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔ صحافتی تنظیموں اور جماعت اسلامی نے پیکا ترامیم کو ‘آزادی اظہار کے منافی’ قرار دے کر اس مخالفت کی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے قانون سازی کے دوران ہر مرحلے پر بل کی حمایت کی جب کہ ماضی میں پیکا قوانین نافذ کرنے اور اسے مزید سخت کرنے سے متعلق عمران خان کے بیان کے برعکس پی ٹی آئی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔ پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں  سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔