انڈیا کا سب سے قدیم میلہ ’کمبھ‘ شرکا کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا، یہ کیوں اور کب منعقد ہوتا ہے؟

کمبھ میلہ، جو ہر 12 سال بعد ہندوستان کے مختلف مقامات پر منعقد ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک مذہبی تہوار نہیں ہے بلکہ ایک ایسا ایونٹ ہے جس میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا روحانی سفر ہے جو دنیا بھر سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ کمبھ میلہ کی جڑیں ہندو اساطیر میں گہری پیوست ہیں۔ یہ تہوار “کمبھ” یعنی گھڑے کے نام سے موسوم ہے، جو ایک مقدس برتن کی علامت ہے جس میں ہندو اساطیر کے مطابق امرت (امروت) رکھا گیا تھا۔ امروت سے مراد سمندرکومنتھن کرنے کے دوران دیوتاؤں اور شیطانوں کے درمیان امرت کا حصول ایک ایسی کہانی ہے جس میں اس کا چند قطرے ان مقدس مقامات پر گرے، جہاں آج کمبھ میلہ منایا جاتا ہے۔ ان مقامات میں پریاگ راج (گنگا)، ہریدوار (گنگا)، ناسک (گوداوری)، اور اجین (شیپرا) شامل ہیں۔ یہ میلہ ہر کسی کے لیے ایک نیا تجربہ اور ایک نیا موقع ہوتا ہے۔ یہاں آ کر ہندو عقیدے کے پیروکار اپنی روحانی صفائی حاصل کرتے ہیں، اور یہ ان کے گناہوں سے چھٹکارے اور نجات کا وسیلہ بنتا ہے۔ کمبھ میلہ میں شامل ہونے والے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ مقدس ندیوں میں غسل کرنے سے نہ صرف ان کے گناہ دھل جاتے ہیں بلکہ یہ انہیں موکش (روحانی آزادی) کے قریب لے آتا ہے۔ یہ تہوار زندگی میں ایک بار ہونے والے تجربات میں سے ایک ہے جو کسی شخص کو اپنے ایمان کو مزید پختہ کرنے اور اپنے روحانی سفر کو دوبارہ دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ 2025 کا کمبھ میلہ ایک مہا کمبھ ہے، انڈین حکام کے مطابق، یہ 45 دنوں پر مشتمل ہوگا اور اس دوران تقریباً 400 ملین افراد کی شرکت کی توقع ہے۔ کمبھ میلے کا احاطہ تقریباً 40 مربع کلومیٹر پرہے، جس میں 160,000 خیمے، 40,000 پولیس اہلکار، 15,000 صفائی ملازمین، اور 150,000 بیت الخلاء مختص کیے گئے ہیں۔ کمبھ میلے کی اصل کشش شاہی غسل ہے، جس میں سادھو (مقدس مرد) اور عام شہری حصہ لیتے ہیں۔ یہ غسل ایک روحانی صفائی کی علامت ہے اور اس میں شامل ہونا ایک مقدس رسم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔غسل کے دوران سادھو اپنے مخصوص لباس میں، اکثر ناگا سادھو (جو خود کو راکھ میں ڈھانپ کر جسمانی طور پر ترک کر دیتے ہیں) ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے عقیدت مند، جو اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اس موقع کا فائدہ اٹھانے آتے ہیں، ندی میں غوطہ لگاتے ہیں۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ کمبھ میلہ صرف ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک ثقافتی اور روحانی محفل ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہبی اجتماع ہے بلکہ ایک ایسا تہوار بھی ہے جو دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے افراد کو ایک جگہ جمع کرتا ہے۔ ہندوستانی روحانیت کی طاقت اور اس کی گہرائی کا یہ بہترین مظہر ہے، جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے اور انہیں اپنے اندر کی روحانی تجدید کی طرف راغب کرتا ہے۔ کمبھ میلہ 2025 کی تیاریوں کے حوالے سے انڈیا انتظامیہ کی قلعی کھل گئی ہے، بھگدڑ مچنے سے 30افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اگر ایسے انتظامات رہے تو 45 دن میں تو کیا سے کیا ہوجائے گا ۔ روحانی سکون کے لیے آنے والے ’بے چین ‘ ہی رہیں گے۔

امریکا کی امداد بند: سینکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا

جیسے ہی امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی پوری دنیا میں امداد کو روکاہے سیکڑوں کی تعداد میں عالمی ترقیاتی ایجنسیوں میں کام کرنے والے لوگ بغیر پیسوں کے چھٹیوں پر یا مستقل طور پر نوکری سے نکال دیے گئے ہیں۔ گوکہ امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہاانسانی جانیں بچانے والےاداروں کو امداد بحال کر دی جائے گی مگر واشنگٹن کی جانب سے 90 دن میں ریوئیوکرنے کے بعد امداد کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے اگلے چند گھنٹوں میں سامنے آیا۔ امریکی وزیر کے بیان کے بعد بھی صحت اور انسانی گروہوں کی تنظیمات نے بدھ کے روز غیر یقینی صورتحال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا انہیں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے یا نہیں۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم ٹرمپ کی “امریکا سب سے پہلے” پالیسی کے پیشِ نظر یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہاکہ اربوں ڈالر کی امریکی امداد ضائع نہ ہو ۔ امریکا ا تک کا دنیا میں سب سے زیادہ امدداد کرنے والا ملک ہے۔ 2023 کے مال سال میں اس نے 72 بلین ڈالر پوری دنیامیں تقسیم کیے جس میں خواتین کی صحت، صاف پانی، ایڈز کا علاج، توانائی اور اینٹی کرپشن کے منصوبے شامل ہیں۔ محکمہ خارجہ نے بدھ کے روز کہا کہ امداد میں وقفے نے غزہ میں خواتین کے لیے خاندانی منصوبہ بندی سمیت لاطینی امریکا میں توانائی کے پروگرامز کو معطل کر دیا ہے۔ یو ایس ایڈکے  کیریئر کے دفاتر سمیت امریکہ میں کام کرنے والے سینکڑوں ادارہ سپورٹ کنٹریکٹرز کی چھٹی اس وقت ہوئی جب انتظامیہ نے سوموار  کے روز تقریباً 60 اہلکاروں کو اس لیے چھٹی دے دی جس کے بارے میں موجودہ اور سابق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ایجنسی میں غیر جانبدار قیادت کی کمی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیاگیا ہے۔ یو ایس ایڈکے ایک اہلکار نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ادارہ جاتی معاونت کے معاہدوں کے لیے پیر کو جاری کیے گئے “اسٹاپ ورک” کے احکامات کے نتیجے میں 600 افراد کو گھر بھیج دیا گیا اور ایجنسی کے گلوبل ہیلتھ بیورو میں چھٹی دی گئی۔ پبلک ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ (پی ایچ آئی)، یو ایس ایڈ کے گلوبل ہیلتھ بیورو کے ادارہ جاتی معاونت کے ٹھیکیدار نے منگل کو دیر گئے اپنے گلوبل ہیلتھ ٹریننگ، ایڈوائزری اور سپورٹ کنٹریکٹ پروگرام کے ملازمین کو ایک ای میل بھیجی جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی ملازمت بند ہونے کے نتیجے میں ختم کر دی گئی ہے۔ یو  ایس ایڈ اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے میڈیا کے بھیجے ہوئے سوالا ت کا جواب نہیں دیا ہے۔ پی ایچ آئی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا ہےکہ کتنے لوگوں کو نوکری سے نکالا گیا ہے۔ یو ایس ایڈ کے ایک اور افسر نے بتایا کہ  “لوگ احکامات کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں وہ صرف اس ایجنسی کے مشن کو مجموعی طور پر جاری رکھنے کے طریقے تلاش کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ اہلکار نے کہا کہ 90 دن کے جائزے کے بعد امداد کی فراہمی کو دوبارہ شروع کرنا ان کے بغیر بہت مشکل ہو جائے گا۔

امریکا میں مسافر طیارہ فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا، 64 مسافر سوار ،28 لاشیں نکال لی گئیں

Washington air incident

امریکی حکام کے مطابق ایک امریکن ائیر لائنز کا مسافر طیارہ  بدھ کی رات ریگن واشنگٹن نیشنل ائیر پورٹ کے قریب یو ایس آرمی کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے کے بعد دریائے پوٹومیک میں گر گیا۔ خبر رساں ادارے ’واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق ” پانی سے 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں”۔ ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے سوشل میڈیا پر کہا کہ “ہمیں معلوم ہے کہ ہلاکتیں ہوئی ہیں،” حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگ جاں بحق ہوئے ہیں”۔ امریکن ایئر لائنز کے ایک افسر نے بتایا کہ” 60 مسافروں کے ساتھ دو پائلٹ اور عملے کے دو ارکان پرواز میں شامل تھے۔ ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر میں تین فوجی سوار تھے”۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں مزید کی تلاش جاری ہے۔ فروری 2009 کے بعد سے امریکی مسافر بردار ہوائی جہاز کا کوئی جان لیوا حادثہ نہیں ہوا، لیکن حالیہ برسوں میں ہونے والے واقعات کی ایک سیریز نے حفاظت کے سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ “چار افراد کو دریائے پوٹومیک سے زندہ نکالا گیا ہے”۔ یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے کہا کہ “پی ایس اے ایئر لائنز کا علاقائی جیٹ ریگن کے قریب پہنچتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے درمیانی ہوا میں ٹکرا گیا”۔ دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ متعدد ایجنسیاں ہوائی اڈے سے متصل دریائے پوٹومیک میں تلاش اور بچاؤ کے آپریشن میں شامل تھیں۔ ہوائی اڈے کے حکام نے بدھ کے روز کہا کہ “تمام ٹیک آف اور لینڈنگ روک دی گئی ہیں کیونکہ ہنگامی عملے نے ہوائی جہاز کے واقعے پر ردعمل ظاہر کیا”۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ نے کہا کہ” وہ اس واقعے کے بارے میں مزید معلومات اکٹھا کر رہیں”۔ امریکی ائیر لائن کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ”وہ ان اطلاعات سے آگاہ ہے کہ ای ایس اے 5342 پروازایک حادثے کا شکار ہوئی ہے۔     View this post on Instagram   A post shared by NBC4 Washington (@nbcwashington) امریکن ایئر لائنز نے کہا کہ “وہ مزید معلومات فراہم کرے گی جیسے ہی یہ کمپنی کو ملتی ہیں ۔ پچھلے دو سالوں کے دوران، واقعات کی ایک سیریز نے امریکی ایوی ایشن کی حفاظت اور فضائی ٹریفک کنٹرول آپریشنز پر دباؤ کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ ایف اے اے ایڈمنسٹریٹر مائیک وائٹیکر نے 20 جنوری کو استعفیٰ دے دیا تھا اور ٹرمپ انتظامیہ نے کسی متبادل کا نام نہیں لیا ہے – یہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے کہ کون عبوری بنیادوں پر ایجنسی چلا رہا ہے۔ امریکہ میں کمرشل ہوائی جہاز کے ساتھ آخری مہلک بڑا حادثہ 2009 میں ہوا تھا، جب کولگن ایئر کی پرواز میں سوار 49 افراد ریاست نیویارک میں گر کر تباہ ہو گئے تھے۔ ایک شخص کی موت بھی ہوئی۔  وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف نے جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ایکس پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’اس مشکل میں ہماری ہمدردیاں اور دعائیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام کے ساتھ ہیں۔‘

کھانے کے شوقین لاہوریوں نے “ہزاروں کھانے بنانے” کا مقابلہ سجا لیا

لاہور میں شیفس ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کوتھم گروپ آف کالجز کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل کلینری چیمپئن شپ کا شاندار انعقاد کیا گیا۔ اس چار روزہ ایونٹ میں پاکستان اور دنیا بھر سے 5000 سے زائد شیفس اور کلینری طلباء نے حصہ لیا۔ اس ایونٹ میں 14 سے زائد ممالک کے معروف شیفس ججز کے طور پر شریک ہوئے، جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق مقابلوں کا جائزہ لیا۔ چیمپئن شپ میں پاکستانی روایتی پکوان جیسے بریانی، نہاری اور کڑاہی، اور عالمی ذائقے جیسے پاستا، سوشی اور اسٹیکس پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ، پیسٹری آرٹس میں تخلیقی کیک اور چاکلیٹ کے فن پارے دیکھنے کو ملے، جو حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے۔ یہ چیمپئن شپ 2017 سے ہر سال منعقد ہو رہی ہے اور کلینری آرٹس کے فروغ اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ایونٹ کو دیکھنے کے لیے لاہور اور پورے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میںآتے ہیں، جہاں کھانوں کے مقابلے، ورکشاپس اور فوڈ فیسٹیولز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ ایونٹ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر کلینری ثقافت کو ایک نیا پہچان دیتا ہے۔

بیگ اور کتابوں کی چھٹی، ای لرننگ جدید مگر مکمل متبادل نہیں

ای لرننگ نے تعلیم کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں لیکن اس کے باوجود روایتی اسکولوں میں سماجی تعلقات اور ذاتی تجربات کی اہمیت برقرار ہے۔ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب تعلیم کے تسلسل کو بہتر بناتا ہے مگر بچوں کی شخصیت کی تکمیل میں روایتی تعلیم کا کردار بھی ضروری ہے۔ ای لرننگ جسے آن لائن تعلیم بھی کہا جاتا ہے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعلیم فراہم کرنے کا جدید طریقہ ہے یہ طریقہ تدریس جہاں کئی لحاظ سے سہولت فراہم کرتا ہے وہاں اس کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔  بچوں کے اسکول جانے کی خوشی، استاد کے ساتھ براہِ راست تعلق اور کلاس روم کے ماحول کی تو ای لرننگ کا متبادل نظر آتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب بچوں کے دلوں میں اسکول جانے کی محبت کو مٹا دے؟ عالمی سطح پر تیز رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی نے کئی شعبوں کو متاثر کیا ہے اور تعلیم ان میں سرِفہرست ہے۔ کرونا وبا کے دوران جب دنیا بھر میں اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہوئے، ای لرنینگ (E-learning) نے نہ صرف تعلیمی تسلسل کو برقرار رکھا بلکہ اس نئے طریقہ تدریس نے تعلیم کے روایتی نظام کو چیلنج بھی کیا۔ ایک لمحے کے لیے یہ سوال دل میں آتا ہے کیا ای لرننگ وہ انقلاب ہے جو اسکولوں کے روایتی طریقے کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا؟ یا پھر یہ صرف ایک وقتی حل ہے جو وقت کے ساتھ اپنا اثر کھو دے گا؟ ای لرنینگ کا آغاز ابتدا میں صرف یونیورسٹیوں اور اوپن کالجوں تک محدود تھا لیکن کرونا وبا نے اس کے استعمال کی رفتار میں ایک زبردست اضافہ کیا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اسکولز بند ہونے کے باوجود ای لرننگ نے طلبا کو ایک نئی امید دی اور تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا۔ جرمن شہر کولون میں اسکولوں نے اس بات کا تجربہ شروع کیا ہے کہ مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور بلیک بورڈ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ طلباء اپنے لیپ ٹاپز پر کلاس کے تمام مواد تک رسائی حاصل کریں گے اور انٹرنیٹ کے ذریعے سیکھنے کی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا اسکول میں بچوں کی ملاقات، دوستوں کے ساتھ کھیلنا اور اساتذہ کے ساتھ براہ راست رابطہ ان سب چیزوں کا متبادل ممکن ہے؟ دوسری جانب ای لرننگ کے بے شمار فوائد ہیں جو اسے روایتی تعلیم سے ممتاز کرتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں طلباء کو جگہ اور وقت کی آزادی ہوتی ہے۔ وہ اپنے شیڈول کے مطابق تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیوز، انٹرایکٹو ماڈیولز اور گیمز کے ذریعے تعلیم کو مزید دلچسپ اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم کیا یہ ڈیجیٹل تعلیم بچوں کی سوچ، جذبات اور سماجی تعلقات کو مکمل طور پر سمجھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ ای لرننگ کے فوائد کے باوجود اس میں کئی چیلنجز بھی ہیں جو اس طریقہ تدریس کو مکمل طور پر کامیاب ہونے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً 40 کروڑ طلباء ہیں اور 10 لاکھ سے زیادہ سکولز ہیں مگر وہاں کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت، بجلی کی فراہمی اور اسمارٹ فونز کی کمی کی وجہ سے ای لرننگ کے فوائد کو حاصل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ کلاس روم کے ماحول میں جو سماجی تعلقات بنتے ہیں اور جو تفریحی سرگرمیاں بچوں کی شخصیت کو پروان چڑھاتی ہیں وہ ای لرننگ کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بچے سکول میں آکر اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ کھیلتے ہیں سیکھتے ہیں اور بہت کچھ سمجھتے ہیں جو ای لرننگ میں ممکن نہیں۔ جبکہ ای لرننگ کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی تعلیم کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور کاپیوں کا تیزی سے خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہر طالب علم کے پاس اپنا لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ ہوگا۔ تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی صرف تدریسی وسائل تک محدود ہوگی یا پھر اس کا اثر طلباء کی شخصیت پر بھی پڑے گا؟ بچوں کی شخصیت کی تکمیل کے لیے اساتذہ کا کردار, ہم جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور اسکول کی روزمرہ کی سرگرمیاں بہت ضروری ہیں۔ ای لرننگ نے تعلیم کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، جس نے دنیا بھر کے تعلیمی نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک موثر طریقہ تدریس ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی اسکولوں کی اہمیت بھی برقرار رہنی چاہیے تاکہ بچوں کو ایک متوازن اور مکمل تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مستقبل میں ای لرننگ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کے چیلنجز اور حل پر بھی نظر رکھنی ہوگی تاکہ ہم ایک مکمل اور ذمہ دار شہری تیار کر سکیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہادی ای لرننگ کے سی ای او حنین زیدی نے کہا کہ “ای لرننگ تعلیمی کارکردگی میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو خود سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ روایتی تعلیم کے مقابلے میں زیادہ لچکدار اور جدید تدریسی طریقے مہیا کرتی ہے، مگر یہ مکمل متبادل نہیں ہو سکتی، کیونکہ روایتی تعلیم کا سماجی اور اخلاقی ترقی میں بھی کردار ہوتا ہے۔ ای لرننگ کے فوائد جیسے کہ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ سے سیکھنے کی سہولت اور جدید ڈیجیٹل مواد کی دستیابی، اسے ایک مستقل حل بنا سکتے ہیں۔ تاہم، تکنیکی رکاوٹیں، طلبہ کی توجہ مرکوز رکھنے میں مشکلات، اور اساتذہ و طلبہ کے براہ راست تعلق کی کمی جیسے چیلنجز موجود ہیں۔ لہذا، یہ مکمل روایتی تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتی، لیکن ایک اہم جز ضرور بن سکتی ہے”۔ طلبا اور ای لرننگ کی وجہ سے ان کے روابط کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ “ای لرننگ میں کلاس روم جیسا سماجی ماحول نہیں ہوتا، جس سے بچوں میں باہمی روابط اور سماجی مہارتوں کے فروغ میں کمی آسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس میں گروپ ایکٹیویٹیز، آن لائن مباحثے، اور انٹرایکٹو لرننگ کو شامل کیا جائے تو