جنوبی افریقہ کی خواتین انڈر 19 ٹیم نے آسٹریلیا کو 5 وکٹوں سے ہرا کر ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنالی

جنوبی افریقہ کی انڈر 19 خواتین کی کرکٹ ٹیم نے ایک شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 5 وکٹوں سے آسٹریلیا کو ہرا کر آئی سی سی ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ میچ آج کوالالمپور کے بیو یماس اوول میں کھیلا گیا، جہاں جنوبی افریقہ کی ٹیم نے نہ صرف ایک شاندار بالنگ پرفارمنس دکھائی بلکہ کمزوری کے باوجود اپنے حوصلے بلند رکھے اور فائنل میں جگہ بنائی۔ آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 20 اوورز میں 105/8 کا سکور بنایا، جس میں جنوبی افریقہ کے اسپنر اشلے وان ویک کی تباہ کن بولنگ نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے 4 اوورز میں صرف 17 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھیجا، اور ان کی اس شاندار پرفارمنس کے باعث آسٹریلیا کا سکور کمزور ثابت ہوا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم کو 106 رنز کا ہدف ملا جو ایک وقت پر مشکل نظر آ رہا تھا لیکن جیمما بوٹھا نے 24 گیندوں پر 37 رنز کی دلیرانہ اننگز کھیل کر ٹیم کی بنیاد رکھی۔ بوٹھا کی اس شاندار بیٹنگ کے باوجود جب ٹیم مشکلات کا شکار ہوئی اور 2 وکٹیں جلد گریں، تو کپتان کیلا رینیکے نے 26 گیندوں پر 26 رنز بنا کر ٹیم کو ٹارگٹ کے قریب پہنچایا۔ وکٹ کیپر بلے باز کارابو میسو نے 19 رنز کی اننگز کھیل کر فتح کو مزید قریب کیا اور پھر میکے وان فورسٹ اور سیشن نیڈو نے آخری اوورز میں چھوٹے لیکن اہم رنز بنا کر جنوبی افریقہ کو 11 گیندوں پر فتح دلائی۔ یہ فتح جنوبی افریقہ کے انڈر 19 خواتین کرکٹ کی تاریخ میں ایک نیا سنگ میل ہے۔ آسٹریلیا کی جانب سے صرف تین کھلاڑی ہی دوہری تعداد میں رنز بنا سکے، جن میں کاویمے بری 36 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں رہی، لیکن جنوبی افریقہ کی بالنگ لائن اپ نے انہیں کوئی کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا۔ ابتدائی اوورز میں نثابیسنگ نینی نے ایک شاندار بولنگ کی، جس میں پہلے اوور میں انیس میک کیون کو ایل بی ڈبلیو کر کے صفر پر پویلین بھیجا۔ اس کے بعد کیلا رینیکے اور سیشن نیڈو نے بھی اپنے بالنگ اسپیلز میں اہم وکٹیں حاصل کیں۔ جنوبی افریقہ کی اسپنر اشلے وان ویک کی 4 وکٹوں کی شاندار کارکردگی نے انہیں “ارمکو پلیئر آف دی میچ” کا اعزاز دلایا۔ انہوں نے تین اوورز میں صرف 17 رنز دے کر چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی، جو کہ ان کی کرکٹ کی تاریخ کی بہترین پرفارمنس تھی۔ اس شاندار فتح کے ساتھ جنوبی افریقہ کی ٹیم اب اتوار کو فائنل میں دفاعی چیمپئن بھارت یا انگلینڈ سے مقابلہ کرے گی اور وہ اس وقت اپنی کامیابی کے خواب دیکھ رہی ہے کہ وہ اس فتح کو مکمل کرکے آئی سی سی ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ کے ٹائٹل کی تاریخ رقم کرے۔
واشنگٹن: حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کا بلیک باکس مل گیا

امریکا کے دارالحکومت میں رونالڈ ریگن واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک خوفناک فضائی حادثہ پیش آیا، جس میں 67 افراد ہلاک ہو گئے۔ واقعہ بدھ کی رات اس وقت پیش آیا جب ایک امریکی فوجی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اور امریکن ایئرلائنز کا ایک ’بمبارڈیئر‘ طیارہ آپس میں ٹکرا گئے۔ جس کے نتیجے میں دونوں طیارے دریائے پوٹومیک میں گر کر تباہ ہو گئے۔ تفتیشی حکام نے بتایا کہ حادثے کے وقت دونوں طیارے معمول کے مطابق پرواز کر رہے تھے اور مواصلات میں کوئی خرابی نہیں آئی۔ امریکن ایئرلائنز کا بمبارڈیئر سی آر جے 700 مسافر طیارہ 60 مسافروں اور عملے کے چار ارکان کے ساتھ واشنگٹن کے قریب ایئرپورٹ پر اترنے کی تیاری کر رہا تھا، جبکہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر تین فوجیوں کو لے کر ایک تربیتی مشن پر تھا۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کے مطابق حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں مختلف ممالک کے شہری شامل ہیں، جن میں روس، فلپائن، جرمنی اور چین کے شہری بھی شامل ہیں۔ امریکی سینیٹر ماریا کینٹویل نے کہا کہ یہ حادثہ ایک عالمی سانحہ بن چکا ہے، اور اس میں چینی شہریوں کی ہلاکت نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا شنہوا نے بھی تصدیق کی ہے کہ حادثے میں دو چینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ حادثے کی تفتیشی کارروائیوں میں تیزی لائی گئی ہے اور حکام نے دونوں طیاروں سے بلیک باکسز (کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر) برآمد کر لیے ہیں۔ ان ریکارڈرز کا تجزیہ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی لیب میں کیا جائے گا۔ ابتدائی رپورٹ 30 دنوں میں جاری کی جائے گی، تاہم حکام نے ابھی تک حادثے کی اصل وجہ کا تعین نہیں کیا ہے۔ واشنگٹن کے فائر اینڈ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ نے بتایا کہ غوطہ خوروں نے حادثے کے مقام تک رسائی حاصل کی ہے، اور باقی اجزاء کو نکالنے کی کارروائی جاری ہے۔ امریکی کوسٹ گارڈ بھی امدادی کاموں میں شریک ہیں اور طیارے کے ملبے کو ہٹانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم، حادثے کی جگہ کے انتہائی خطرناک حالات نے امدادی کارروائیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حادثے کے بارے میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی کمی اور پائلٹس کی تربیت میں ممکنہ خامیاں اس حادثے کا سبب بن سکتی ہیں‘۔ تاہم، یہ بیان امریکی حکام کی تحقیقات سے مختلف ہے، جنہوں نے کہا کہ فوری طور پر کسی بھی ممکنہ وجہ کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔ امریکہ میں ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں حکام نے حفاظتی اقدامات کو مزید سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ حادثہ نومبر 2001 کے بعد سب سے مہلک فضائی حادثہ تھا، جب ایک طیارہ نیویارک کے جان ایف کینیڈین ہوائی اڈے سے اڑنے کے بعد حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ تاہم، واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کا مرکزی رن وے امریکا کا مصروف ترین رن وے ہے، اور حکام نے اس حادثے کے بعد اس علاقے میں حفاظتی انتظامات کا از سر نو جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سانحے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک 28 لاشیں دریائے پوٹومیک سے نکالی جا چکی ہیں، اور حکام نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ باقی تمام اجزاء تک رسائی حاصل کر لی جائے گی۔ حادثے کی تحقیقات کا عمل جاری ہے، اور حکام نے ایئر ٹریفک کنٹرولرز اور پائلٹس کی ذمہ داریوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا کے واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب پیش آنے والا یہ حادثہ ایک بڑے فضائی سانحے کا سبب بن چکا ہے، جس میں 67 افراد کی جانیں گئیں۔ تفتیشی عمل جاری ہے، اور حکام کی کوشش ہے کہ حادثے کے اسباب کی مکمل تحقیقات کی جائیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکے۔
‘دہشت گردوں کی موبائل فون استعمال پر سخت پابندی’

حال ہی میں فتنہ الخوارج کے سرغنہ نور ولی محسود کی خفیہ گفتگو منظر عام پر آئی ہے، جس میں اُس نے اپنے دہشت گردوں کو موبائل فون استعمال کرنے پر سخت پابندی عائد کر دی ہے۔ اس بات نے نہ صرف سکیورٹی فورسز کو متحرک کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس انکشاف نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ذرائع کے مطابق نور ولی محسود نے اپنے پیروکاروں کو ایک خفیہ پیغام بھیجا جس میں انہوں نے تمام مجاہدین کو موبائل فون استعمال کرنے سے گریز کرنے کی ہدایات دیں۔ اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ “موبائل سادہ ہو یا انٹرنیٹ والا، کسی کو بھی اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی، ضرورت پڑنے پر موبائل استعمال کریں، مگر فوراً بند کر دیں اور پھر اس سے دور رہیں۔” اس پابندی کا مقصد واضح طور پر یہ تھا کہ فتنہ الخوارج کی قیادت کی سرگرمیاں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو سکیورٹی فورسز سے چھپایا جا سکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ ایک سنگین مرحلے پر لیا گیا جب فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک دہشت گرد کی موت نے قیادت کو اپنے دفاعی تدابیر مزید سخت کرنے پر مجبور کر دیا۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات دہشت گردوں کی مسلسل ہلاکتوں کی وجہ سے کیے گئے ہیں تاکہ ان کے مواصلاتی ذرائع کو مکمل طور پر محفوظ رکھا جا سکے۔ نور ولی محسود کی خفیہ گفتگو میں مزید کہا گیا کہ “ہماری چھان بین ہو رہی ہے اور ہم پر نظر رکھی جا رہی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی بھی بغیر ضرورت کے موبائل کا استعمال نہ کرے۔” یہ گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ فتنہ الخوارج کی قیادت اس وقت اپنے تنظیمی نیٹ ورک کی حفاظت میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا مقصد دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کو مکمل طور پر خفیہ رکھنا ہے، تاکہ ان کی سرگرمیوں پر سکیورٹی فورسز کی نگرانی مزید موثر ہو سکے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ یہ اقدامات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ ان کے اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی فتنہ الخوارج نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے تھے تاہم موبائل فون کی اس نئی پابندی نے ظاہر کر دیا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں اب سکیورٹی فورسز کی نظر سے بچنا مزید مشکل ہو گئی ہیں۔ یہ تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فتنہ الخوارج کی قیادت اپنی صفوں میں جاری ہلاکتوں سے بے چین ہو چکی ہے اور اس نے اپنے دہشت گردوں کی محفوظ رہنے کی تمام تدابیر بڑھا دی ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی ہے، بلکہ سکیورٹی فورسز کے لیے بھی نئے چیلنجز پیدا ہوئے ہیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سکیورٹی فورسز ان اقدامات کا کس طرح مقابلہ کرتی ہیں اور فتنہ الخوارج کی اس نئی حکمت عملی کو ناکام بناتی ہیں۔
شان مسعود ناکام کپتان، کوہلی، روہت کی طرح ڈومیسٹک کھیلیں

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اندرونی معاملات اور کرکٹ کے میدان میں ہونے والے چیلنجز نے ایک بار پھر کرکٹ کے شائقین کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستانی ٹیم کا حالیہ ریکارڈ بالخصوص شان مسعود کی کپتانی میں ایک سنگین سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی قیادت میں کئی میچز ہارے ہیں بلکہ ان کی اپنی پرفارمنس بھی ان کے کپتان بننے کے فیصلے پر سوالات اٹھاتی ہے۔ ذرائع کی اطلاعات ہیں کہ عالمی کرکٹ کی ایک عظیم شخصیت ویرات کوہلی رانجی ٹرافی کے ایک اہم میچ میں محض چھ رنز پر کلین بولڈ ہو گئے۔ یہ واقعہ نہ صرف کوہلی کے لیے ایک دھچکا تھا بلکہ اس سے ایک بار پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرکٹ میں کامیاب ہونے کے لیے کیا عوامل درکار ہیں؟ جہاں ایک طرف ویرات کوہلی جیسے کھلاڑی اپنی ناکامی کو جلدی سے دور کرتے ہیں وہیں دوسری طرف شان مسعود کی کپتانی میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی نے نہ صرف ان کے لیے بلکہ کرکٹ فینز کے لیے بھی ایک سنگین سوال چھوڑا ہے: آیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے یہ فیصلہ درست تھا؟ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق فرسٹ کلاس کرکٹر، سپورٹس جرنلسٹ دلبر خان کا کہنا ہے کہ “اگر دیکھا جائے تو ‘شان مسعود’ سابق ٹیسٹ کپتان سرفراز احمد سے اچھے ٹیسٹ کپتان ہیں،ان کے فلاپ ہونے کی وجہ ٹیم میں بابر ،رضوان کے ساتھ دوسرے ٹاپ آرڈر ز کا فلاپ ہونا ہے‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر دیکھا جائے تو قومی کرکٹ ٹیم دورہ جنوبی افریقہ میں جیتا ہوا ٹیسٹ ہاری اور اب ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ٹیسٹ بھی فتح کے قریب پہنچ پر ہار گئے‘۔ مجموعی طور پر وہ بہترین کپتان ہیں اور فرنٹ سے لیڈ کرتے ہیں پلانننگ اچھی ہوتی ہے دوسرا ان کی فتوحات اور شکستوں میں پاکستانی وکٹوں کا زیادہ قصور ہے۔ پاکستان کرکٹ کے شائقین اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شان مسعود کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے انہیں کپتان بنانا کتنا درست تھا۔ اس کے علاوہ بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان نے سری لنکا کے خلاف ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز جیت کے ساتھ کیا تھا پھر اچانک شان مسعود کو کپتان بنا دیا گیا۔ پاکستان کرکٹ کے اس بحران میں اہم ترین عنصر پی سی بی کی سلیکشن پالیسی اور اس کے مختلف فیصلے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کو پہلی ٹیسٹ شکست کے بعد سلیکشن کمیٹی اور پچز پالیسی میں تبدیلی کی گئی۔ یہ فیصلہ اوپر سے آیا تھا اور پھر عاقب جاوید کو لانچ کیا گیا تھا جس کے بعد ملتان میں خاص طور پر ایک نئی پچ تیار کی گئی۔ یہ پچ پاکستانی کرکٹرز کو اسپن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ٹیم میں بدترین فیصلے کیے گئے، اور ایک کے بعد ایک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح راولپنڈی میں بھی پاکستان نے ایسی پچ تیار کی جس پر اسپنرز کو فائدہ پہنچا۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان کا ریکارڈ متاثر کن نہیں رہا۔جنوبی افریقہ میں پاکستان کی ٹیم کی شکست اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست نے پاکستان کرکٹ کی حقیقت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ شان مسعود کی پرفارمنس کا جائزہ لیں تو ان کی ٹیسٹ کیریئر میں 42 میچز میں 2380 رنز بنائے ہیں جس میں صرف چھ سنچریاں اور گیارہ ہاف سنچریز شامل ہیں۔ ان کی اوسط 30.12 ہے اور ان کا ہائی سکور 156 ہے۔ ان کے سٹرائیک ریٹ کی بات کی جائے تو یہ 52.43 ہے، جو ایک ٹیسٹ کرکٹر کے لیے خاصا کم ہے۔ اب یہ واضع ہوتا ہے کہ شان مسعود کا ٹیسٹ کرکٹ میں پرفارمنس کے لحاظ سے کوئی خاص کردار نہیں رہا اور جبکہ وہ ابھی بھی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی حالیہ پرفارمنس خاص طور پر جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کی کپتانی میں ناکامیوں کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ملتان میں 52 رنز بنانے کے بعد ان کی باقی اننگز 11، 15 اور 2 تک محدود رہیں جو کہ ایک ناکامی کی علامت ہیں۔ شان مسعود کی کپتانی کا ریکارڈ تقریباً پاکستانی کرکٹ کے تاریخ میں سب سے زیادہ ناکام رہا ہے۔ انہوں نے رواں صدی کے دوران 12 ٹیسٹ میچز میں سے صرف تین جیتے ہیں باقی نو میچز میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی کپتانی میں جیت اور ہار کا تناسب محض 0.33 فیصد رہا، جو کہ ایک سنگین حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اس کے برعکس سابق کپتان بابر اعظم کا ریکارڈ کہیں بہتر رہا ہے جنہوں نے 20 میچز میں سے 10 جیتے اور چھ ہارے تھے ان کا جیتنے کا تناسب 1.66 فیصد ہے۔ دوسری جانب ہمسایہ ملک کے سابق ٹیسٹ کپتان ویرات کوہلی اور روہت شرما جیسے عالمی کھلاڑی جو اپنے کیریئر کے اختتام پر ہیں مگر اب وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیلنے کا موقع دے تاکہ وہ اپنی فٹنس اور فارم کو بہتر بنا سکیں۔ اگر ہم ماضی کی تاریخ دیکھیں تو مصباح الحق اور انضمام الحق جیسے کھلاڑیوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین پرفارمنس دی تھی اور اس کے بعد ان کی بین الاقوامی کرکٹ میں کامیابیاں ملیں۔ سابق کرکٹر عتیق الزمان نے کہا کہ ’میرے خیال سے شان مسعود کی کپتانی باقی کپتانوں سے بہتر ہے۔ اسکی بات کرنے کی سکلز اچھی ہیں۔ اچھے فیصلے کرتا ہے۔ کافی بولڈ سکلز ہیں۔ ابھی اسکو زیادہ تجربہ نہیں ہے کپتانی کا وہ آہستہ آہستہ سیکھے گا اور اسکو تھوڑا لمبا عرصہ چا ہیے۔ دیکھیے جب آسٹریلیا جاتے ہیں یا ساؤتھ افریقہ جاتے ہیں تو بڑی سیریز کھیلتے ہیں، انگلیند کے خلاف تو اس سے پہلے بھی بہت سے کپتانوں کو وائٹ واش ہوئی ہے۔ اور اگر پاکستان نے کسی کو وائٹ واش کیا ہے تو ہوم سیریز میں کیا۔ میرے خیال سے سارا عمل دخل ہارنے میں کپتان کا نہیں ہوتا پوری ٹیم کی ذمہ داری
چیمینز ٹرافی سے قبل آسٹریلین ٹیم اہم کھلاڑی سے محروم

چیمپئنزٹرافی سے قبل آسٹریلوی آل راؤنڈر مچل مارش انجری کا شکار ہوگئے۔ کمر کی انجری کے باعث مچل مارش چیمپئنزٹرافی سے باہر ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی باقی لیگز میں بھی شمولیت مشکوک ہوگئی ہے۔ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے مطابق مچل مارش ک مسلسل کمر دردکی وجہ سے آئی سی سی مینز چیمپئنزٹرافی سے باہر کر دیا گیا ہے۔ نیشنل سلیکشن پینل (این ایس پی) اور آسٹریلوی مینز میڈیکل ٹیم نے انہیں مکمل بحالی تک مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مچل مارش کے لیے حالیہ سیزن کافی مشکل رہا ہے۔ بارڈر گواسکر ٹرافی کے دوران وہ صرف 73 رنز بنا پائے جبکہ گیند بازی میں بھی بہتر کردار ادا نہ کر سکے۔ بگ بیش لیگ میں بھی مارش اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ وہ بی بی ایل کا صرف ایک میچ کھیل سکے۔ مچل آسٹریلوی ٹیم کے ون ڈے اور ٹی 20 ٹیم کے کپتان بھ رہ چکے ہں۔ ان کی کمی ٹیم کے لیے ایک اہم مشکل کھڑی کر سکتی ہے۔
‘جو ملک امریکی ڈالر کے خلاف جائے گا وہ ٹیکس کو “ہیلو” کہے گا’ ڈونلڈ ٹرمپ

اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ ایک بیان میں، ٹرمپ نے اعلان کیاہے کہ اگر کوئی ملک اپنی تجارت مین امریکی ڈالر کی بجائے کوئی اور کرنسی استعمال کرتا ہے تو اسے امریکا کی جانب سے سو فیصد ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ” اگر برکس کے ممبرز ممالک کسی طرح کی دوسری کرنسی میں تجارت کرتے ہیں تو ان کی تجارت پر سو فیصد ٹیکس لگایا جائے گا”۔ “ہمیں ان بظاہر دشمن ممالک سے اس نیت کی ضرورت ہے کہ وہ عظیم امریکی ڈالر کو تبدیل کرنے کے لیے نہ تو کوئی نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کوئی دوسری کرنسی استعمال کریں گے، یا پھر انہیں سو فیصد محصولات کا سامنا کرنا ہوگا”۔ ٹرمپ نے مزید اس بات پر زور دیا کہ برکس کو ڈالر کے متبادل تلاش کرنے کی اجازت دینے کا دور ختم ہوچکا ہےخبردار کیا کہ کوئی بھی ملک جو اس طرح کے اقدام کی کوشش کرے گا اسے ٹیرف کو ہیلو اور امریکہ کو الوداع کہنا پڑے گا۔ برکس دس ممالک کی عالمی تنظیم ہے جو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ممبرز ممالک کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ ابتدائی ممبرز ممالک میں برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریکا شامل ہیں۔ یہ اتحاد 16 جون 2009 کو قیام میں آیا۔ 2024 میں اس اتحاد کی توسیع کی گئی جس میں اتحادی ممالک کی نئی کیٹیگری شامل کی گئی ۔ ان اتحادی ممالک میں بیلاروس، بولیویہ، قازکستان، کیوبا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور اُزبیکستان شامل ہیں۔ برکس کی جانب سے نئی کرنسی متعارف کروانے کی بحث کافی عرصے سے جاری ہے۔ چوں کہ اس گروپ میں روس بھی شامل ہے اور روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی وجہ سے روس پہلے ہی امریکی پابندیوں کا شکار ہے۔ اس لیے روس امریکی ڈالر کو تبدیل کر کے نئی کرنسی استعمال کرنا چاہ رہا ہے تا کہ اسے نقصان کم سے کم ہو۔ ٹرمپ کی بیان کے جواب میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ انڈیا نے کبھی بھی امریکی ڈالر کی مخالفت نہیں کی۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے جواب دیا کہ برکس ڈالر کو نہیں چھوڑ رہا ہے بلکہ واشنگٹن کی غلط پالیسیوں کے مطابق کام کر رہا ہے۔
طیارہ اترنے والا ہے‘ واشنگٹن حادثے میں آخری پیغام بھیجنے والی خاتون کون تھیں؟

امریکا میں مسافر طیارے سے فوجی ہیلی کاپٹر ٹکرانے کے واقعہ میں جاں بحق افراد میں ایک پاکستانی خاتون بھی شامل ہیں۔ امریکی ایئر لائن واشنگٹن ڈی سی میں لینڈنگ کے دوران فوجی ہیلی کاپٹر بلیک ہاک سے ٹکرانے کے بعد حادثے کا شکار ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اس المناک حادثے میں پاکستانی خاتون اسری حسین بھی شامل تھیں۔ اسری کی عمر تقریباً 26 سال تھی اور وہ کام کی تلاش میں وچیٹا، کنساس سے واپس آ رہی تھیں۔ ان کے شوہر، حماد رضا، جو خود بھی انڈیانا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں، نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی اہلیہ نے 30 جنوری کی رات تقریباً 8 بجے انہیں ایک ٹیکسٹ پیغام بھیجا تھا جس میں لکھا تھا کہ “طیارہ اترنے والا ہے۔” تاہم جب حماد نے اس پیغام کا جواب دینے کی کوشش کی تو ان کی اہلیہ سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ یہ بات ان کے دل میں ایک بد گمانی پیدا کرنے لگی، جس کے بعد ان کے خاندان کو اس حادثے کے بارے میں خبر ملی۔ حماد رضا کے والد، ڈاکٹر ہاشم رضا، کراچی کے معروف ڈاکٹر ہیں اور فی الحال مسوری بیپٹسٹ میڈیکل سینٹر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہاشم رضا نے اپنے بیٹے کے دکھ میں شریک ہو کر اس افسوسناک حادثے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسری ایک محنتی اور باصلاحیت نوجوان خاتون تھی جس کا پورا خاندان اس کے نقصان پر غمزدہ ہے۔ امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ اس حادثے میں تمام 67 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور ان کی لاشوں کی تلاش کا عمل جاری ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، طیارہ تین حصوں میں بکھر کر دریا میں گرا، جس میں سے کچھ ملبہ پانی کی سطح سے نکال لیا گیا ہے، مگر تمام ہلاک شدگان کی لاشیں ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکیں۔ پوٹومیک دریا میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے ملبے اور لاشوں کی بازیابی کا عمل جاری ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ اس حادثے کی تفصیلات جلد ہی سامنے آئیں گی۔ اس سانحے نے نہ صرف امریکا بلکہ پاکستان اور دیگر ممالک کے شہریوں کے دلوں کو بھی گہرا دکھ پہنچایا ہے۔
ایک مہینے میں ٹرین کا چوتھا حادثہ، پاکستان ریلوے پر سوالیہ نشان

لاہور سے کراچی جانے والی شالیمار ایکسپریس کو شاہدرہ کے قریب حادثہ پیش آگیا۔ ریلوے ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہدرہ ریلوے اسٹیشن کے قریب شالیمار ایکسپریس کی تین بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں، ٹرین کی ایک بوگی پل سے نیچے اتر گئی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ حادثے کے باعث اپ اینڈ ڈاؤن ٹریک بند ہو گیا، لاہور سے فیصل آباد جانیوالی والی ٹرینوں کا شیدول متاثر ہو گیا۔ دوسری جانب ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلیف کرین شاہدرہ اسٹیشن روانہ کردی گئی ہے، حادثے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور اسٹیشن ماسٹر ظفر اقبال نے کہا کہ حاثہ شاہدرہ کے قریب پیش آیا جس میں تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں تاہم اس حادثے میں کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ہماری ٹیمیں وہاں پر پہنچ گئی ہیں ٹریک کو کلیئر کیا جارہا ہے. چند گھنٹوں میں ٹریک مکمل کلیئر ہو جائے گا، حادثے کی وجوہات ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ پاکستان میں آئے روز ٹرین کے حادثات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خبر رساں ادارے اردو پوائنٹ کے مطابق 2024 میں 118 ٹرین کے حادثات ہوئے۔ جن میں جانی و مالی نقصان ہوا۔ رواں سال اب تک جنوری میں ٹرین کے 4 حادثات ہو چکے ہیں۔ ٹرین کا محکمہ پہلے ہی اپنی کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے نقصان میں جا رہا ہے۔ اس طرح آئے روز نئے حادثات پاکستان ریلوے اور حکومتِ پاکستان کے لیے تشویش کا سببب ہیں۔
قیدیوں کے تبادلے پر جشن و گرفتاریاں: حماس، اسرائیل میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دونوں طرف سے قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے، جمعرات کے روز 110 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ان میں سے 32 قیدی وہ تھے جو زندگی بھر کی سزاؤں کی مدت گزار رہے تھے۔ ان قیدیوں کی رہائی کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تاہم اسرائیلی پولیس نے جشن کی تقریبات کے دوران 12 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔ غزہ میں جہاں جنگ کی تباہ کاریاں جاری ہیں، اسرائیلی افواج نے 47,460 فلسطینیوں کی جان لے لی ہے اور 111,580 کو زخمی کیا ہے۔ یہ سب کچھ 7 اکتوبر 2023 کے دن کے بعد سے شروع ہوا جب حماس کی قیادت میں اسرائیل پر حملے ہوئے تھے۔ اس دن اسرائیل میں 1,139 افراد مارے گئے تھے اور 200 سے زیادہ اسرائیلیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک شخص جو 24 سال سے اسرائیل کی حراست میں تھا اس شخص نے ’الجزیرہ‘ کے ایک نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی اذیتوں کا ذکر کیا اور کہا کہ “یہ لمحے زندگی بھر یاد رہیں گے لیکن ہم نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں۔” غزہ میں اسرائیلی افواج نے نہ صرف فلسطینیوں کو جسمانی طور پر نقصان پہنچایا، بلکہ اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ فلسطینی گھروں پر کیے گئے ‘گرافیٹی’ نے صورتحال کو اور زیادہ دردناک بنا دیا۔ “بریکنگ دی سائلنس” نامی تنظیم جو اسرائیلی فوج کے سابق فوجیوں پر مشتمل ہے اس تنظیم نے ان فوجیوں کے بیانات کا انکشاف کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی گھروں کے اندر گرافیٹی کرنے کا عمل معمول بن چکا تھا جس میں جنسی تصاویر اور نفرت انگیز پیغامات لکھے جاتے تھے۔ ایک اسرائیلی فوجی نے کہا کہ “یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا تھا۔ ہم جانتے تھے کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں واپس آنا ہوگا لیکن ہمیں ان کے گھروں کو تباہ کرنے کا حکم تھا۔” دوسری طرف مغربی کنارے میں جینین اور طولکرم کے علاقوں میں اسرائیلی افواج کی جارحیت نے ایک اور خونریزی کا منظر پیش کیا۔ جینین کے پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج نے تین خواتین کو زخمی کیا جبکہ جینین شہر میں فلسطینی جنگجوؤں نے اسرائیلی افواج کو دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے کئی عمارتوں کو تباہ کر دیا اور درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت 110 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی، جن میں 32 قیدی زندگی بھر کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔یہ ایک اہم قدم تھا، لیکن اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جاری کارروائیاں اور مسلسل کشیدگی نے اس کی کامیابی کو مشکوک بنا دیا۔ دریں اثناء اسرائیل کے لیے ایک اور عالمی تشویش کا معاملہ سامنے آیا جب نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں اسرائیلی فوجیوں سے ان کے فوجی خدمات کے بارے میں سوالات کیے جانے لگے۔ نیوزی لینڈ نے اسرائیلی فوجیوں سے ان کی سروس کے بارے میں تفصیلات طلب کیں اور بعض فوجیوں کو ان کے جوابات کی بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ یہ ساری صورتحال بتاتی ہے کہ نہ صرف غزہ اور مغربی کنارے میں خونریزی جاری ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس جنگ کے اثرات اور اس سے وابستہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شدید بحث کا باعث بن رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری اس سنگین بحران پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتی ہے اور کیا اس خونریزی کو روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے گا؟
‘ٹک ٹاک ویڈیوز پر اعتراض تھا’ امریکا سے پاکستان آئی بیٹی باپ کے ہاتھوں قتل

حال ہی میں اپنے خاندان کو امریکا سے واپس پاکستان منتقل کرنے والے ایک شخص نے اپنی نوعمر بیٹی کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے کیوں کہ بیٹی کی ٹک ٹاک ویڈیوزاسے پسند نہیں تھیں۔ انوار الحق پر قتل کا الزام اس وقت لگایا گیا جب اس نے منگل کو کوئٹہ میں اپنی بیٹی حرا کو گولی مارنے کا اعتراف کیا۔ اس نے ابتدائی طور پر تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ فائرنگ کے پیچھے نامعلوم افراد کا ہاتھ تھا۔ امریکی شہریت رکھنے والے والد نے کہا کہ اسے اپنی بیٹی کی پوسٹس اچھی نہیں لگتی تھیں۔ پولیس کے مطابق وہ اس کیس کو تمام زاویوں سے دیکھ رہے ہیں جس میں غیرت کے نام پر قتل کرنا شامل ہے جو ملک میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمات کے مطابق، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں افراد جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل میں مارے جاتے ہیں۔ یہ قتل عام طور پر رشتہ داروں کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی عزت کے دفاع میں کام کر رہے ہیں۔ حرا انور کے معاملے میں، جس کی عمر 13 سے 14 سال کے درمیان تھی، پولیس کے ترجمان نے کہا کہ اس کے خاندان کو “اس کے لباس، طرز زندگی اور سماجی روابط پر اعتراض تھا”۔ یہ خاندان 25 سال تک امریکا میں مقیم رہا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ ان کے پاس حرا کا فون تھا، جو بند ہے۔ پولیس نے بتایا کہ اس کے والد کے بہنوئی کو بھی قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اگر یہ غیرت کے نام پر قتل پایا جاتا ہے اور وہ مجرم پائے جاتے ہیں، تو ان دونوں مردوں کو لازمی عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ 2016 میں حکومت پاکستان کی جانب سے قانون میں تبدیلی کی گئی تھی۔ اس سے پہلے اگر مقتول کے خاندان کی طرف سے معافی دی جاتی ہے تو وہ جیل کی سزا سے بچ سکتے تھے۔ 2023 میں اطالوی کورٹ نے ایک پاکستانی جوڑے کو عمر قید کی سزا سنائی تھی کیوں کہ انہوں نے بھی اپنی 18 سالہ بیٹی کو قتل کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ لڑکی نے ارینج میریج کرنے سے انکار کیا تھا۔ پنجاب پولیس کے مطابق صرف پنجاب میں 2023 میں 150 کیسز غیرت کے نام پر قتل میں رپورٹ ہوئے۔