سعودی عرب کی پاکستان میں چھ لاکھ افراد کے لیے موسم سرما کی امداد کا اعلان

سعودی عرب نے پاکستان کے لیے ایک نئی امداد کا آغاز کیا ہے جس سے تقریباً چھ لاکھ افراد کی زندگیوں میں روشنی آئے گی۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر نے 2025 کے منصوبے کے تحت پاکستان میں موسم سرما کی مدد کے لیے ایک وسیع اور تفصیلی امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے جو سردی کے موسم میں درپیش مشکلات کا شکار افراد کی مدد کرے گا۔ اسلام آباد میں جمعرات کو منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین، پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی، اور شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر پاکستان کے ڈائریکٹر عبداللہ البقامی نے شرکت کی۔ اس موقع پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں موسم سرما کی امدادی کٹس کی تقسیم کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، جس کا مقصد پاکستانی عوام کے لئے اس سخت موسم میں راحت کا سامان فراہم کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں 50 ہزار سرد ترین اور برفباری والے اضلاع کے رہائشیوں کو موسم سرما کی کٹس فراہم کی جائیں گی، جن میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے گرم کپڑے، دو پولیسٹر رضائیاں، اور شالیں شامل ہوں گی۔ اس کے بعد مزید 34 ہزار پانچ سو شیلٹر نان فوڈ آئٹمز قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کے تحت مختص کیے جائیں گے، جو تین اضافی مراحل میں تقسیم کیے جائیں گے۔ یہ امدادی منصوبہ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور مقامی حکام کے ساتھ مل کر انتہائی شفاف اور مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے گا تاکہ ان کی صحیح ضرورت مندوں تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔ امداد کا یہ پیکیج پاکستان کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں تقسیم کیا جائے گا، جہاں سردی سے متاثرہ افراد کی تعداد بے شمار ہے۔ پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ یہ تعاون ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اس امدادی پیکج سے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی۔” رنگین رضائیاں اور گرم شالوں سے بھرے ہوئے یہ پیکجز سردی کی شدت سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ایک نیا سورج بن کر طلوع ہوں گے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، سندھ اور پنجاب کے مختلف حصوں میں ان کٹس کی فراہمی سے لاکھوں افراد کو فوری طور پر راحت ملے گی۔ پاکستان کے وزیر برائے فوڈ سکیورٹی رانا تنویر حسین نے اس تقریب میں کہا کہ”یہ امدادی پیکج پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا ایک اور عکاس ہے اور یہ ہمارے دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔” یہ منصوبہ سعودی عرب کے پاکستان کے لیے تعاون اور محبت کا روشن نشان ہے جو نہ صرف سرد موسم میں پریشانی کا شکار افراد کی مدد کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود تاریخی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد کو مزید مستحکم کرے گا۔ یہ عمل یقینی طور پر پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں خوشی اور سکون لائے گا۔
پاکستان انڈیا کرکٹ جنگ، نیٹ فلکس نے ٹریلر جاری کر دیا

نیٹ فلکس کی جانب سے کرکٹ اور سینیماکے شائقین کے لیے ” دی گریٹیسٹ رائولری: انڈیا ورسس پاکستان” کے نام سے سیریز لانے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ سیریز 7 فروری کو نیٹ فلکس پر ریلیز ہوگی۔ نیٹ فلکس نے اپنی ویب سائٹ پر سیریز کا ٹریلر جاری کرتے ہوئے لکھا ۔ “پاکستان اور انڈیا کے درمیان سب سے بڑی جنگ کو کھوجتے ہوئے، یہ ڈاکیومینٹری کرکٹ پیچ کے پیچیدہ ماضی اور غیریقینی حال کی عکاسی کرے گی”۔ ٹریلر میں پاکستان اور انڈیا کے بڑے کھلاڑیوں کو دکھایا گیا ہے جن میں شعیب اختر، رمیز راجہ، وقار یونس، وریندر سہواگ، سارؤ گنگولی، سنیل گواسکر اور شیکر دھون شامل ہیں۔ سیریز کا ٹریلر دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کی جنگ، تاریخی، ثقافتی اور جذباتی پس منظر کے ساتھ دکھاتا ہے۔ لیجنڈ کرکٹرز ٹریلر میں انڈیا بمقابلہ پاکستان کے میچ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ View this post on Instagram A post shared by Netflix India (@netflix_in) ٹریلر میں سارؤ گنگولی کہتے ہیں کہ “کہنے کو تو اسے دوستانہ دورے کا نام دیا جاتا تھا لیکن شعیب اختر 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک رہا ہے، اس میں دوستی کہاں ہے؟” یہ سیریز گرے میٹر میڈیا کی جانب سے بنائی جائے گی جس میں چاندرادیو، اور سٹیورٹ سوگ ہدایت کاری کریں گے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے مقابلے سنسنی اور دلچسبی سے بھرپور ہوتا ہے۔ شائقین امید کر رہے ہیں کہ یہ سیریز پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی کرکٹ جنگ کو مزید دلچسب بنائے گی اور ہم محظوظ ہو سکیں گے۔
نیوزی لینڈ نے پہاڑ کو ’انسان‘ کا درجہ دے دیا

نیوزی لینڈ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے نہ صرف قانونی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک پہاڑ، جو مقامی ماؤری قوم کے لیے ایک مقدس روحانی ورثہ تھا، کو انسان کے مساوی حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ قانونی شخصیت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس پہاڑ کا نام ‘تاراناکی ماونگا (Taranaki Maunga)’ ہے، جسے پہلے ‘ماؤنٹ ایگمنٹ’ (Mount Egmont) کہا جاتا تھا۔ تاراناکی ماونگا، جو نیوزی لینڈ کے شمالی جزیرے کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے اب نہ صرف ایک قدرتی عجوبہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے قانونی طور پر ایک زندہ، آزاد اور خود مختار شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو نہ صرف مقامی ماؤری قوم کی ثقافتی ورثہ کا احترام کرتا ہے بلکہ اس پہاڑ کے ساتھ جڑے ہوئے تمام قدرتی عناصر کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیسے ایک پہاڑ کو شخصیت کا درجہ دیا گیا؟ یقیناً یہ سوال ذہن میں آنا فطری ہے کہ آخر ایک پہاڑ کو ‘شخص’ قرار دینے کا مطلب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب نیوزی لینڈ کے حالیہ قانون میں چھپا ہے۔ یہ قانون تاراناکی ماونگا کو تمام انسانی حقوق، اختیارات، ذمہ داریوں اور قانونی معاملات کا حامل بناتا ہے۔ اس پہاڑ کا نیا قانونی نام ‘تِے کاہُویِی ٹُوپُوَا’ (Te Kāhui Tupua) رکھا گیا ہے جو اس پہاڑ کی جسمانی اور روحانی حقیقت کو یکجا کرتا ہے۔ یہ پہاڑ اور اس کے ارد گرد کی سرسبز وادی کو اب ایک واحد، ناقابلِ تقسیم اور زندہ وجود کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جو نہ صرف زمین کی مادی حقیقت بلکہ اس کی روحانی طاقت کو بھی اپنا حصہ مانتا ہے۔ قانون میں اس کے دفاع کے لیے ایک نئی قانونی شخصیت تشکیل دی گئی ہے جس کے پاس تاراناکی ماونگا کے مفادات کا تحفظ کرنے کا اختیار ہوگا۔ تاراناکی ماونگا کی اہمیت صرف اس کی بلندی یا قدرتی خوبصورتی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پہاڑ مقامی ماؤری قوم کے لیے ایک محترم آبا ہے جسے روحانی اور ثقافتی طور پر ان کی زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پہاڑ کے ساتھ جڑی ہوئی کہانیاں اور روایات، ماؤری قوم کی تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں۔ اس کے برعکس، جب نیوزی لینڈ کے ساحل پر برطانوی بحری جہاز ‘ایچ ایم ایس انویجلی’ کے کپتان جیمز کک نے اس پہاڑ کو 1770 میں دریافت کیا تھا تو اسے ‘ماؤنٹ ایگمنٹ’ کا نام دے دیا گیا جو ایک شدید ثقافتی حملہ تھا۔ یاد رہے کہ 1840 میں ماؤری قوم نے برطانوی حکام کے ساتھ ‘ٹریٹی آف ویٹانگی’ (Treaty of Waitangi) پر دستخط کیے تھے، جس میں ماؤری کو اپنی زمین اور وسائل پر حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے کے بعد ہونے والے اقدامات نے ماؤری قوم کے حقوق کو پامال کیا، اور 1865 میں تاراناکی کے علاقے کی زمین کو جبراً ضبط کر لیا گیا۔ اس قبضے کے نتیجے میں نہ صرف ماؤری کی زمین چھین لی گئی بلکہ ان کے ثقافتی ورثہ کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ پچھلی کئی دہائیوں میں ماؤری قوم نے اپنے حقوق کے حصول اور اپنے ورثے کی بحالی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ماؤری احتجاجی تحریک نے اس جدوجہد میں ایک اہم موڑ دیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں نیوزی لینڈ کی حکومت نے ماؤری زبان، ثقافت اور حقوق کے حوالے سے کئی قانونی اصلاحات کیں۔ یہ قانون جو 2023 میں تاراناکی کے آٹھ قبائل کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا حصہ ہے ماؤری قوم کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہے۔ یہ قانون صرف زمین یا قدرتی وسائل کی بازیابی نہیں بلکہ ان کے ثقافتی اور روحانی ورثے کا اعتراف ہے۔ اب جب کہ تاراناکی ماونگا کو قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اس کے حقوق کا استعمال اس کی صحت اور فلاح کے لیے کیا جائے گا۔اس کے حقوق کا تحفظ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس کے خلاف جبراً فروخت، غیر قانونی اقدامات یا اس کی قدیم استعمالات پر پابندیاں نہ لگیں۔ اس کے علاوہ قدرتی جنگلی حیات کے تحفظ اور اس کے قدرتی ماحول کی صفائی کے لیے کام کیے جائیں گے۔ نیوزی لینڈ پہلا ملک ہے جس نے قدرتی عناصر کو انسانی حیثیت دی۔ اس سے پہلے 2014 میں ‘ٹی یوریویرا’ نامی جنگل کو بھی قانونی شخصیت کا درجہ دیا گیا تھا جس کے بعد ‘واہنگانوئی دریا’ (Whanganui River) کو بھی 2017 میں یہی درجہ دیا گیا تھا۔ یہ قانون نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں مکمل طور پر متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کے 123 ارکان نے اس بل کی حمایت کی اور اس موقع پر ماؤری زبان میں ایک نغمہ “وائیاتا” (waiata) گایا گیا جس نے اس تاریخی لمحے کو مزید یادگار بنا دیا۔ یہ قانون صرف ایک پہاڑ یا قدرتی خصوصیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ زمین، انسان اور قدرت کے تعلقات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاراناکی ماونگا کا قانونی شخص بننا نہ صرف ماؤری قوم کی فتح ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی قدرتی ورثہ کے تحفظ کی ایک نئی مثال قائم کرتا ہے۔
دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟

ہمیشہ سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں پہ بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ پرنٹر سے کاغذ چھاپنے سے لے کر جدید ترین مصنوئی ذہانت سے اپنے پیچیدہ ترین سوالات کے جوابات حاصل کرنے تک، ٹیکنالوجی نے ہماری ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آنے والے 10 سالوں میں دنیا کی ٹیکنالوجی کیسی ہوگی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے ہمیں اپنے ماضی کے 10 سالوں کو دیکھنا چاہیے۔ 2015 میں ہمارے پاس بہت کچھ ایسا نہیں تھا جو اس وقت ہماری بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اسی طرح اگلے 10 سال کے بعد بھی ہماری زندگیاں نہایت تیزی سے بدل سکتی ہیں۔ کچھ برس پہلے مصنوئی ذہانت کے آنے سے ہماری زندگیوں میں صحیح معنوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے اور اگلے آنے والے وقت میں یہ مزید ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جائے گا۔ مصنوئی ذہانت سے بننے والی مشینیں جیسا کہ گاڑیاں، روبوٹس اورچھوٹے گیجٹس ہماری زندگیوں کا نہایت ضروری حصہ بن جائیں گی۔ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی اورمصنوعی ذہانت کی ہمارے ساتھ جڑت مزید سے مزید ترہوتی جائے گی۔ یہ بات ممکن ہے کہ ہماری زندگی کے تقریباً تمام کام ٹیکنالوجی اور مصنوئی ذہانت سے جڑ جائیں گے۔ ہم اپنی آواز استعمال کر کے اپنے تمام کام کروا سکیں گے۔ اس بات کی جھلک ہم اپنے موبائل فونز میں ، الیکسا اور سیری جیسے آپشنز کو استعمال کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے گھروں میں سمارٹ ڈیوائسز کی مدد سے گھر کے کام بھی کرواتے ہیں۔یوں یہ بات ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ 2035 تک ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کا کردار اس حد تک بڑھ جائے گا کہ ہمیں آن لائن اور آف لائن کاموں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اگر ہم صحت کے شعبے کی بات کریں تو پچھلے 10 سے 20 سالوں میں انسانوں کی اوسط عمر میں واضح فرق آیا ہے۔ جہاں پہلے انسانوں کی عمریں 40 یا 50 سال تک ہوا کرتی تھیں، وہیں اب 50 سے 60 سال تک پہنچ چکی ہیں۔ مزیدبراں پیدا ہونے کے بعد پہلے بچوں کی اموات معمول کی بات تھی، وہیں اب یہ بات کم ہی سننے کوملتی ہیں۔ موجودہ دور میں جنیٹک انجینئرنگ ، پرسنالایزڈ ادویات ، اور سٹیم سیلز جیسے شعبوں میں تیزی ہمیں بتاتی ہیں کہ آنےوالے سالوں میں ایسی کئی بیماریاں ہوں گی جو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی۔ کچھ ایسی بیماریاں جو موروثی طور پہ پائی جاتی ہیں،وہ بھی بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کی جا سکیں گی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ انسان کے بہت سے اندرونی و بیرونی اعضاءباآسانی تبدیل کیے جا سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت کے انجنیئر، ڈین آلیسٹ کے مطابق 2035 تک جن مسائل سے ہم دو چار ہوں گے ان میں سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی ہوگی۔جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نپٹ سکنے کی اہلیت ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ اگلے 10 سالوں میں بڑے پیمانے پہ ہجرت ہونا شروع ہوجائے۔ کیونکہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں، وہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کریں گے۔ جس کی وجہ سے سے ترقی یافتہ ممالک میں وسائل تیزی سے کمی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اگلے 10 برس بعد موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگیوں پر نہایت خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ تاہم اصل صورتِ حال 2035 کے آنے سے ہی واضح ہو گی لیکن ان تمام باتوں کے وقوع پذیر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروفیسر کامران علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال سے بعض روایتی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں خاص طور پر وہ جو معمول کے کاموں پر مبنی ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ڈیٹا سائنس، اے آئی ماڈلنگ اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ جیسے شعبوں میں نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔” دوسری جانب اس حوالے سے آئی ٹی سپیشلسٹ سارہ ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اے آئی کی ترقی سے انسانی ملازمتوں پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اس تبدیلی کو مثبت انداز میں لیں۔ ملازمین کو نئی مہارتیں سیکھنے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ مستقبل کی ملازمتوں کے لیے تیار رہ سکیں۔” پروفیسر کامران علی نے اگلے 10 سالوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “2035 تک ٹیکنالوجی اور انسان کے تعلقات میں مزید گہرائی متوقع ہے۔ ہم ذہین ذاتی معاونین، صحت کی نگرانی کے لیے پہننے والے آلات اور ذہنی کنٹرول والے پروستھیٹکس جیسے انقلابی اقدامات دیکھ سکتے ہیں جو انسانی زندگی کو بہتر بنائیں گی۔” دوسری جانب سارہ ملک کا خیال ہے کہ “مستقبل میں انسان اور ٹیکنالوجی کا انضمام مزید مضبوط ہوگا۔ مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کے امتزاج سے ہم انسانی صلاحیتوں میں اضافہ اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتری کی توقع کر سکتے ہیں۔” پروفیسر کامران علی نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے، کاربن کے اخراج کی نگرانی، اور موسمیاتی پیش گوئیوں میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ ماحولیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں بھی معاون ہے۔” اس حوالے سے سارہ ملک کا ماننا ہے کہ “اے آئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تجزیہ اور ان کے حل تلاش کر سکتے ہیں۔ تاہم ان ٹیکنالوجیز کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاکہ ان کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کیا جا سکے۔” صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے فروغ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر کامران نے کہا کہ “صحت کے شعبے میں اے آئی کی ترقی سے بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جینیاتی تجزیہ اور ذاتی نوعیت کے علاج کے ذریعے ہم مستقبل میں کئی بیماریوں کے مؤثر علاج اور ممکنہ طور پر ان کے خاتمے
پاکستانی نوجوان نے کارخانوں، فصلوں کی نگرانی کے لیے اے آئی کیمرے متعارف کرا دیے

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئی ٹی ایکسپو کا دلچسپ اور معلوماتی میلا سجایا گیا۔ شرکا کے سامنے پیش کیے گئے اے آئی کیمروں نے خوب توجہ سمیٹی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے مانیٹرنگ اور نگرانی کے میدان میں منفرد پیشکش قرار دیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق آپ ان کیمروں کو اپنی مرضی کی کمانڈز دے کر کہیں سے بھی مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کیمرے کسی کارخانے میں نصب ہوں، تو آپ کیمروں ہدایات دے سکتے ہیں کہ جتنے ڈبے بن رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی ڈبہ خراب ہو تو یہ فوری طور پر اس کی نشاندہی کرکے پروڈکشن چین کو اطلاع دیں گے۔ ایک کسان نے ڈرون کیمرے میں ایسی کمانڈ شامل کروائی ہے جس سے ڈرون اس کی فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ فصل کمزور ہو رہی ہو، تو یہ ڈرون فوراً اطلاع دے کر کسان کو مسئلے کا حل نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جدید کیمرے نہ صرف سکیورٹی اور مانیٹرنگ کے لیے بہترین ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں استعمال کے لیے کارآمد ہیں۔