پاکستان میں سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

پاکستان میں سونے کی قیمت میں آج حیران کن اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق 24 کیرٹ فی تولہ سونے کی قیمت میں 400 روپے کا اضافہ ہواہے، جس کے بعد نئی قیمت 2 لاکھ 92 ہزار 200 روپے ہوگئی ہے۔ اسی طرح 10 گرام 24 کیرٹ سونے کی قیمت میں 343 روپے کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد 10 گرام سونے کی نئی قیمت 2 لاکھ 50 ہزار 514 روپے ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ 22 کیرٹ 10 گرام سونے کی قیمت میں 315 روپے کا اضافہ ہوا ہے، جس کےبعد نئی قیمت 2 لاکھ 29 ہزار 646 روپےہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ عالمی مارکیٹ میں بھی گولڈ کی قیمت میں اضافے کا رجحان رہا اور 5  ڈالرکے اضافے کے بعد سونا 2797ڈالر فی اونس کا ہوگیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی فی تولہ سونا 1500 روپے مہنگا ہوگیا تھا ، جس کے بعد فی تولہ گولڈ کی قیمت 2 لاکھ 91 ہزار 800 روپے پر پہنچ گئی تھی۔ اسی طرح 10 گرام گولڈ 1286روپے اضافے سے 2 لاکھ 50 ہزار 171روپے کا ہوگیا تھا۔ عالمی مارکیٹ میں بھی گولڈ کی قیمت میں اضافے کا رجحان دیکھنے کو ملا اور 14ڈالرکے اضافے کے بعد 2792 ڈالر فی اونس کا ہوگیا تھا۔ خیال رہے کہ  سونے کو صدیوں سے کرنسی اور دولت کی شکل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، سرمایہ کار  اکثر دوسرے کاروباروں کی نسبت سونا خریدنے کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے 26 اضلاع میں ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

پاکستان کے 26 اضلاح میں پولیو وائرس کی تصدیق کی گئی ہے،جس سے متعدد کیسز سامنے آنے کا خدشہ ہے۔دنیا بھر میں پولیو کی لہر ختم ہونے کے بعد افغانستان اور پاکستان میں پولیو کے نئے کیسز سامنے آنا دونوں ممالک کے لیے تشویش ناک ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سنٹر (این ای او سی) حکام کے مطابق ملک کے 26 اضلاع میں پولیو وائرس پایا گیا ہے ، بدین، گھوٹکی، حیدرآباد، جیکب آباد، قمبر، کراچی ایسٹ کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ نجی چینل دنیا نیوز کے مطابق کورنگی، ملیر، کراچی ساؤتھ، کیماڑی، میر پور خاص کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہونے کے ساتھ سجاول، باجوڑ، ڈی آئی خان، لکی مروت، پشاور، کوئٹہ، چمن، لورالائی کے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ این ای او سی حکام کا مزید کہنا ہے کہ پنجاب میں لاہور، ملتان اور راولپنڈی کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق 1955ء سے پہلے پولیومائیلائٹس سےہر سال 50 لاکھ افراد یا تو مفلوج ہو رہے تھے یا پھر ان کی ہلاکت کا سبب بن رہا تھا، 1955ء میں پولیو وائرس کو ختم کرنے کے لیے وائرس بننے کے بعد پولیو کیسز میں کافی کمی دکھائی دی۔ پھر 2000ء تک اس سے حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیکوں کی مہم دنیا بھر میں چلائی گئی۔، جس میں نئی قسم کی پولیو ویکسین کا استعمال ہو رہا تھا، اس تیزی سے پھیلتے پولیو وائرس کو چند علاقوں کے علاوہ دنیا سے ختم کر دیا تھا،  بڑے پیمانے پر پولیو کی خوراک اور ٹیکوں کے پروگراموں کے سبب سن 2023  میں پاکستان میں پولیو کا تقریبا خاتمہ ہو چکا تھا اور اس وائرس کے صرف چھ کیسز باقی رہ گئے تھے۔ لیکن اب یہ کیسز دوبارہ بڑھ رہے ہیں اور گزشتہ برس 73  کیسز رپورٹ ہوئے۔ عالمی خبر ارساں ادارہ ڈی ڈبلیو کے مطابق پاکستان نے سن 2011  سے اب تک خطے میں پولیو وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام پر 10  بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور افغانستان میں تنازعات سمیت دو دہائیوں کے چیلنجوں کے باوجود، اس پروگرام کے ذریعے پاکستان کی سرحدوں کے اندر پولیو کے مکمل خاتمے میں تقریباً کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ لیکن پاکستان کے مختلف صوبوں میں حفاظتی ٹیکوں کی شرح مختلف ہے۔ پنجاب میں 85  فیصد بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں، جبکہ بلوچستان میں یہ شرح 30 فیصد تک کم ہے۔ جب تک ملک بھر میں پولیو کے خاتمے کے لیے کاروائی نہ کی گئی تب تک اس وائرس سے جان چھڑانا ممکن نہیں ہے۔ خیال رہے کہ سال 2025 کی پہلی ملک گیر پولیو مہم 3 فروری سے شروع ہو گی۔

یوکرین کے چھ شہروں پر روسی حملے: توانائی اور گیس کے ذخائر تباہ

یوکرین کے حکام کےمطابق روس نے ڈرونز اور میزائلز کے زریعے یوکرین پر ہفتے کے روز حملہ کیا جس کے نتیجے میں آٹھ افراد مارے گئےاور درجنوں رہائشی ،عمارتیں جن میں توانائی کا مرکز شامل ہے، تباہ ہوگیا۔ یوکرین کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ”ایک روسی میزائل نے پولتاوا شہر کے مرکز میں رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا ہے جس میں 4 افراد مارے گئے اور 13 زخمی ہوئے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ پیغام رسانی کی ایپ ٹیلی گرام پر وزارت نے تصاویر پوسٹ کیں جس میں کئی منزلوں والی عمارت پر حملہ ہوا اور اس میں سے دھویں کے گاڑھے بادل نکلتے دکھائی گئے۔ فائر فائٹرز اور درجنوں ریسکیو اہلکار ملبے میں سے تلاش کرتے نظر آئے۔ شہر کے مئیر کے کہا ہے کہ “ڈرون اٹیک سے کھارکیف شہر  کے شمال مشرقی حصے میں ایک شخص جاں بحق جب کہ 4 زخمی ہوئے”۔ علاقائی حکام کے مطابق سومی شہر کے شمال مشرقی علاقے میں حملوں کے دوران تین پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ یوکرین کے وزیر اعظم نے کہا ” پچھلی رات روس نے میزائل، ڈرونز اور ائیریل گولہ باری  کے زریعے مختلف شہروں پر حملے کیے”۔انہوں نے کہا کہ کُل چھ شہروں پر حملے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ”ایسا ہر حملہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں روس کے حملوں کا جواب دینے کے لیے مزید مدد کی ضرورت ہے”۔ پولٹاوا ایک چھوٹا شہر ہے جو روس کے بارڈر سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ شہر کے حکام کے مطابق 18 رہائشی عمارتیں ، ایک سکول اور توانائی کے مراکز کو تباہ کیا گیا۔ یوکرین کے حکام کے  مطابق ایسے حملے  باقی مختلف شہروں میں بھی ہوئے۔ روسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق روس کے وزیر دفاع نے کہا کہ یوکرین کے گیس کے ذخائر اور دوسرے توانائی کے مراکز پر حملہ ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین کے 108 ڈرونز کو مار گرایا ہے۔

رہائی پانے والے فلسطینیوں نے اسرائیل کے غیرانسانی سلوک کا بھانڈا پھوڑدیا

غزہ میں جنگ بندی کے تحت فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بعد رام اللہ میں خوشی کے مناظر دیکھنے کو ملے۔اسرائیل کی جانب سے 183 فلسطینی قیدیوں کو آج رہا کیا گیا ہے جنہیں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف علاقوں سے آزاد کیا گیا۔ یہ اقدام جنگ بندی معاہدے کے ایک حصے کے طور پر عمل میں آیا۔ غزہ میں رفح سرحدی کراسنگ کھول دی گئی ہے جو تقریباً نو ماہ بعد کھولی گئی ہے تاکہ غزہ کے زخمی اور بیمار فلسطینیوں کو مصر علاج کے لیے منتقل کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ دو مختلف مقامات پر تین اسرائیلی قیدیوں کیتھ سیگل، اوفر کلڈرون اور یاردن بیباس کو بھی آزاد کر دیا گیا۔  غزہ کے جنوبی اور شمالی حصوں میں عمل میں آئیں۔ دریں اثنا اسرائیلی افواج مغربی کنارے میں اپنی بڑی عسکری کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کارروائیاں جنین اور طولکرم مہاجر کیمپوں سمیت مختلف فلسطینی کمیونٹیز پر مرکوز ہیں جہاں گزشتہ ہفتے میں دو درجن سے زائد افراد مارے  جا چکے ہیں۔ مزید پڑھیں: حماس نے 183 فلسطینیوں کے بدلے مزید تین اسرائیلی رہا کر دیے اسرائیلی جیلوں میں 23 سال تک غیرقانونی قید سے رہائی پانے والے 57 سالہ فلسطینی فتحی النجر نے حراست کے دوران ہونے والے مصائب کے بارے میں بتایا ،وہ بتاتے ہیں کہ انہیں معلوم تھا کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ رہائی پانے والوں میں ایک فلسطینی نوجوان ردا عبید بھی ہیں جن کی جلد پر نشانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خارش میں مبتلا ہیں۔عبید کی یہ  حالت غیر قانونی حراستی مراکز میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے غیر انسانی اسرائیلی سلوک کے نتیجے میں ہوئی۔ رہا ہونے والے فلسطینی قیدی احمد حمید نے اسرائیلی جیلوں میں غیر قانونی طور پر قید قیدیوں پر ڈھائے جانے والے غیر انسانی حالات کو بیان کیا۔انہوں نے ان مصائب پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ قیدیوں کو خوراک اور نیند کی کمی اور متواتر تلاشی مہم جیسی تکالیف برداشت کرنا پڑتی تھیں۔ غزہ میں اسرائیل کے جنگی آپریشن کے نتیجے میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 47,460 فلسطینی شہید اور 111,580 زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی دن ہونے والے حماس کے حملوں میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد قیدی بنائے گئے۔

ہمارے معاشرے میں لوگ عموماً اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں اور صرف کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں،مرتضیٰ وہاب

کراچی کے مئیر مرتضیٰ وہاب نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں آج یہاں ہوں لیکن یہ سب آسانی سے نہیں آیا۔ میری زندگی کی ایک کہانی ہے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میری زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں، میں سیدھا مئیر نہیں بن گیا۔ انہوں نے کہا میں جب نو سال کا تھا تو میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت میں بہت مایوس ہو سکتا تھا کہ میرے والد نہیں رہے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں نے محنت کی اچھے اسکولوں میں پڑھا، کالج ختم کیا اور پھر یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی کوشش کی، لیکن وہاں بھی فیل ہوگیا۔ اس وقت بھی میں مایوس ہو سکتا تھا لیکن میں نے ہمت سے کام لیا، قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل بننے کا فیصلہ کیا۔ یاد ہے کہ میں جس یونیورسٹی میں جانا چاہتا تھا وہاں میرا داخلہ نہیں ہوا، جس سے میں مایوس ہو گیا تھا لیکن میری ماں نے مجھے سمجھایا کہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پھر قانون کے شعبے کو منتخب کیا اور یہاں تک پہنچا۔ ہمارے معاشرے میں لوگ عموماً اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں اور صرف کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مزید پڑھیں: حکومت بجلی سستی کرنے میں ناکام: کیا حکمران ’اعلان بغاوت‘ کے منتظر ہیں؟ ہمیں اپنے ماضی پر فخر کرنا چاہیے چاہے ہم کہاں تھے اور آج کہاں ہیں۔ معاشرے میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے محنت سے اپنی زندگی بدل کر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر ہم یہ باتیں اپنے معاشرتی سطح پر شیئر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بہت سے وزرا اور افسران ہیں جن کا پس منظر بہت سادہ تھا لیکن انہوں نے محنت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ میں خود جب لندن سے پڑھ کر واپس آیا تو میں نے سوچا تھا کہ وہاں سے آ کر بہت پیسہ کماؤں گا، لیکن میری پہلی نوکری میں صرف پانچ ہزار روپے تنخواہ ملی۔ تاہم، میری اصل حوصلہ افزائی یہ تھی کہ اگر مجھے زیادہ پیسہ کمانا ہے تو محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ آج میں اس مقام پر ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ بھی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ آپ بھی میری طرح محنت کر کے وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں۔ ضرور پڑھیں:مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نوجوانوں کی وطن واپسی

مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی نوجوانوں کی وطن واپسی

مراکش کے ساحل پر 16 جنوری کو پیش آنے والا سانحہ ایک خوفناک داستان بن کر سامنے آیا ہے۔ ایک کشتی جو 2 جنوری کو موریتانیا سے اسپین جانے کے لیے روانہ ہوئی تھی بحیرۂ روم کی گہرائیوں میں ڈوب کر 86 تارکین وطن کی زندگیوں کو لے گئی۔ اس کشتی میں 66 پاکستانی بھی سوار تھے جن میں سے آٹھ نے معجزاتی طور پر جان بچا لی۔ یہ لوگ اسلام آباد کی پرواز QR614 کے ذریعے وطن واپس پہنچے لیکن ان کے ساتھ ایک دردناک کہانی بھی تھی۔ ان افراد کی عمریں 21 سے 41 سال کے درمیان تھیں اور ان کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے تھا جیسے کہ شیخوپورہ، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین، گجرات، اور جہلم۔ مزید پڑھیں: پندرہ ماہ کی جنگ نے غزہ کو کس طرح تباہ کیا، بحالی میں کتنا وقت درکار؟ یہ لوگ ایک خواب کی تکمیل کے لیے غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوئے جس میں انسانی اسمگلرز نے انہیں نہ صرف دھوکہ دیا بلکہ ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ حکام کے مطابق ان افراد نے اسپین جانے کے لیے بھاری رقم انسانی اسمگلرز کو دی تھی۔ اسمگلر ان لوگوں کو پہلے دبئی لے گئے پھر ایتھوپیا اور سینیگال کے راستوں سے اسپین روانہ کرنے کے لیے ایک خطرناک کشتی میں سوار کیا۔ یہ کشتی جو سینیگال سے اسپین کی طرف بڑھ رہی تھی ایک ایسی بھیانک شام کی علامت بن گئی جب وہ مراکش کے ساحل کے قریب غرق ہو گئی۔ دھند اور طوفان میں ڈوبتی ہوئی کشتی اور اس پر سوار 86 افراد میں سے صرف 36 بچ پائے۔ ان میں سے آٹھ پاکستانیوں نے اپنے جانیں بچانے کی ایک شدید جدوجہد کے بعد، کسی طرح مراکش کے ساحل تک پہنچ کر زندہ رہنے کا معجزہ کیا۔ بچ جانے والے افراد نے بتایا کہ اسمگلروں نے نہ صرف ان سے بھاری رقم وصول کی تھی بلکہ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام نے اس سانحے کے بعد فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کیا۔ یہ بھی پڑھیں: چنگاری سے راکھ تک:لاس اینجلس میں کتنا نقصان ہوچکا؟ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اس انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں جو پنجاب کے مختلف علاقوں میں کام کر رہا تھا۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق اسمگلرز نے ان افراد کو انتہائی خطرناک راستوں پر روانہ کیا اور ان کی زندگیوں کو گہری مشکلات میں ڈال دیا۔ یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک نشاندہی ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کس قدر مضبوط اور خطرناک ہیں۔ حکام نے پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی ہجرت کے راستوں سے بچنے کی ہدایت کی ہے اور انہیں سرکاری سفارتخانوں کے ذریعے اپنے سفر کی تصدیق کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس واقعے کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف  کی منظوری سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل احمد اسحاق جہانگیر کو انتظامی ناکامیوں کے باعث عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، کیونکہ انسانی اسمگلنگ کے معاملات میں ایف آئی اے کی سست ردعمل پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔ پاکستانی حکام اب اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سانحے کے بعد نہ صرف ان لوگوں کو انصاف ملے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ ضرور پڑٰھیں: ’یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں‘ غزہ لوٹنے والا کا دل ٹوٹ گیا ان زندہ بچ جانے والوں کی کہانی ایک پیغام ہے کہ غیر قانونی ہجرت کبھی بھی سرفراز نہیں کرتی بلکہ انسان کو زندگی اور موت کے درمیان ایک خوفناک معرکے میں ڈال دیتی ہے۔

بلوچستان میں فورسز کی کارروائیوں میں 23 دہشتگرد ہلاک

پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر  نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے مختلف 2 مختلف علاقوں میں آپریشنز کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے دوران 23 دہشتگرد ہلاک ہوگئے ہیں۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ہفتہ کو جاری کردہ بیان کے مطابق ان آپریشنز کے دوران دہشتگردوں کے حملے میں پاک فوج کے 18 جوان مارے گئے ہیں۔ 31جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں روڈ بلاک کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف کارروائی کی۔ مقابلے کے دوران پاکستانی فورسز کے 18 اہلکار مارے گئے ۔ آئی ایس پی آر کا دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جوابی کارروائی میں آپریشن کرتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 31 جنوری اور یکم فروری کی رات دہشتگردوں نے روڈ بلاک کرنے کی کوشش کی، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری متحرک ہوئے اور سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے مذموم عزائم کو کامیابی سے ناکام بنایا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ گھناؤنے بزدلانہ فعل کے مرتکب اور سہولتکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، قلات کے علاقے منگوچر میں ہونے والی کارروائی کے تناظر میں ہرنائی میں کلیئرنس آپریشن کیا گیا جس میں مزید 11 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز بلوچستان کا امن سبوتاژ کرنےکی کوششیں ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں، ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ بیان کے مطابق مقامی آبادی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، دشمن قوتوں کی ایما پر دہشتگردی کا مقصد بلوچستان کا پُرامن ماحول خراب کرنا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اس حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ قوم دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کے ساتھ ہے۔ صدرمملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

پاکستان اور سربیا میں قربتیں بڑھنے لگیں

پاکستان اورسربیا کے درمیان دوطرفہ سیاسی مشاورت کا پانچواں دور دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس اہم موقع پر پاکستانی وفد کی قیادت ایڈیشنل سیکرٹری برائے یورپ، شفقت علی خان نے کی، جب کہ سربیا کے وفد کی قیادت وزیر خارجہ، دمجان جووک نے کی۔ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستانی اور سربین رہنماؤں نے نہ صرف دوطرفہ تعلقات کے اہم پہلوؤں پر گفتگو کی بلکہ عوامی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر بھی زور دیا۔ یہ اجلاس اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اپنے روابط کو مزید پائیدار بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ دونوں فریقین نے باہمی تعلقات میں ترقی کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا اوراتفاق کیا کہ مزید تعاون کے راستے تلاش کیے جائیں گے، خاص طور پرسفارتی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں تعاون کا فروغ دیا جائے گا۔ پاکستان اور سربیا نے اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی اپنے خیالات کا تبادلہ کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ عالمی سطح پر اپنی شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ دونوں ممالک نے اپنے مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی راہوں کو تلاش کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ تعاون کی اس نئی لہر سے دونوں ممالک کو فوائد حاصل ہوں گے۔ اس مشاورت کے دوران، دونوں فریقین نے اپنے تعلقات کو باہمی احترام کی بنیاد پر اپنے روابط کو مزید مستحکم کرنے کا عزم کیا۔ اس ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان نئے مواقع کی توقعات وابستہ ہو چکی ہیں جو نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی اور ثقافتی سطح پر بھی کامیاب ثابت ہوں گے۔

ایٹناڈینا کے ایک گھر میں 238 کلوگرام کا ریچھ چھپ کر بچ نکلا

لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ کے دوران ایک 238 کلوگرام کا کالا ریچھ جو مقامی طور پر ‘بیری’ یا ‘وکٹر’ کے نام سے جانا جاتا تھا، اپنی جان بچانے کے لیے ایک گھر کے نیچے چھپ گیا۔ آگ کی شدت کے باعث ریچھ نے یہ پناہ گاہ تلاش کی اور یہی اس کی بقا کی آخری امید بنی۔ ایک دن جب گھر کے مالک ‘سامی اربید’ جو کہ ایٹناڈینا کے علاقے میں رہتے ہیں، وہ اپنے گھر واپس آئے تو ایک حیرت انگیز منظر کا سامنا کیا۔ گھر واپسی پر یوٹیلیٹی ورکرز نے انہیں اطلاع دی کہ گھر کی کرال اسپیس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور کچھ بلاک کر رہا ہے۔ جب اس کا سبب جاننے کی کوشش کی گئی تو ایک رنگ کیمرے سے یہ منظر سامنے آیا۔ یہ بھی پڑھیں: مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا اس منظر میں دیکھا گیا کہ ایک بڑا ریچھ جو خوف کے مارے چھپ کر بیٹھا تھا۔ گھر کے مالک اربید نے سی بی ایس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مجھے لگتا ہے کہ جنگلات کی آگ کے دوران وہ ڈر کے مارے اس جگہ پر چھپ گیا تھا”۔ ایٹناڈینا کے مقامی لوگ یقین رکھتے تھے کہ بیری غالباً ایٹن کینیون کے قریب رہتا تھا جہاں آگ نے سب سے زیادہ تباہی مچائی تھی۔ ریچھ کو بچانے کے لیے محکمہ جنگلی حیات کے ماہرین نے ایک ٹیم تشکیل دی جس کی قیادت کیوٹن ہاؤلز نے کی۔ بیری کو بے ہوش کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ اس کا وزن 238 کلوگرام تھا۔ ماہرین نے اس کے لیے مزیدار کھانا جیسے سیب، پی نیٹ بٹر، اور روسٹ چکن سے بھرے جال کا استعمال کیا۔ جیسے ہی بیری نے یہ خوشبو سونگھی، وہ جال میں پھنس گیا۔ اس کے بعد مہارت کے ساتھ اس ریچھ کو ایٹناڈینا کے محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا جہاں اسے صحت کی جانچ پڑتال کی گئی اور پھر دوبارہ جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔ مزید پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی بیری کی رہائی کے بعد گھر کو ‘بیئر پروف’ بنایا گیا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے غیر متوقع واقعات سے بچا جا سکے۔ یہ داستان صرف ایک ریچھ کی بقا کی نہیں بلکہ ایٹن فائر کی تباہی کی بھی ہے، جس میں 10,000 سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوئیں اور 17 قیمتی جانیں گئیں۔ لیکن بیری کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ قدرت بھی اپنی جگہ پر زندگی کی حفاظت کرتی ہے اور کبھی کبھار زندگی کی جدو جہد بے حد غیر متوقع مقام پر ہو سکتی ہے۔

چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی

دنیا بھر میں چوہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شہری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ حالیہ تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق صرف زیادہ آبادی یا کھانے کی کمی سے نہیں بلکہ ایک اور سنگین عنصر آب و ہوا کی تبدیلی سے ہے۔ یونیورسٹی آف رچمنڈ کے پروفیسر جوناتھن رچرڈسن نے دنیا میں چوہوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تحقیق شروع کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے امریکا کے 200 بڑے شہروں سے چوہوں کے اعداد و شمار جمع کیے لیکن صرف 13 شہروں میں طویل المدت ڈیٹا دستیاب تھا جو ان کی تحقیق کے لیے ضروری تھا۔ اس کے بعد تحقیق میں بین الاقوامی شہروں ٹورنٹو، ٹوکیو اور ایمسٹرڈیم کو بھی شامل کیا گیا تاکہ جغرافیائی تنوع حاصل کیا جا سکے۔ مزید پڑھیں:مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا اس تحقیق کے نتائج شائع ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے 16 میں سے 11 شہروں میں چوہوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جن میں واشنگٹن ڈی سی، سان فرانسسکو، نیو یارک، ٹورنٹو اور ایمسٹرڈیم جیسے شہر میں شامل ہیں۔ رپورٹس کتے مطابق ان شہروں چوہوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ صرف تین شہروں میں کمی دیکھنے کو ملی جن نیو اورلینز، لوئس ویل اور ٹوکیو شامل ہیں۔ رچرڈسن نے کہا کہ یہ چوہے چھوٹے ممالیہ جانور ہیں جو سردیوں میں پناہ لینے کے لئے محدود ہوتے ہیں لیکن گرم درجہ حرارت، خاص طور پر موسم سرما میں، ان کی افزائش کو بڑھا دیتا ہے۔ رچرڈسن کے بقول، گرم موسم چوہوں کو سال بھر افزائش نسل کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ موسم انہیں شکار سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ وقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہر ماحولیات اور جنگلی چوہوں کے ماہر ‘مائیکل پارسنز’ نے کہا کہ گرم موسم چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو چوہے کھانے کے ذرائع اور پناہ گاہوں کے لیے مزید مواقع حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسم کی گرمی سے کھانے اور کچرے کی بو دور تک پھیلتی ہے جس سے چوہے آسانی سے شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔ شہری چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہر کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ چوہے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، کھانے کو آلودہ کرتے ہیں اور تاروں کو کاٹ کر آگ بھی لگا سکتے ہیں، اس سے امریکا میں ہر سال 27 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چوہے مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی کے ماہر انسیکٹس ‘میٹ فرائی’ کے مطابق چوہے 50 سے زائد جراثیموں کو منتقل کرتے ہیں جن میں لیپٹوسپائروسس جیسے سنگین امراض شامل ہیں جو انسانوں میں گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور علاج کے بغیر موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے واشنگٹن ڈی سی میں چوہوں پر قابو پانے کی مہم کے ذمہ دار ‘جیرارڈ براؤن’ کہتے ہیں کہ کوڑے دان میں کھانا نہ ڈالنے سے چوہوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سردی کے موسم میں چوہوں کی تعداد میں کمی آتی ہے اور یہی وہ وقت ہے جب چوہوں کی آبادی پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ رچرڈسن اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شہروں کو چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ مہلک کنٹرول کے بجائے چوہوں کی افزائش کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں، جیسے کھانے کے فضلے اور کچرے تک رسائی کو کم کرنا۔ اگر شہروں نے چوہوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو نہ پایا تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صورتحال بدتر ہو جائے گی۔