’یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں‘ غزہ لوٹنے والا کا دل ٹوٹ گیا

خمس اور احمد امامراہ نے جان لیا تھا کہ شمالی غزہ میں اپنے گھر واپس آ کر انہیں زیادہ سے زیادہ ملبہ ہی ملے گا۔ لیکن وہ پھر بھی واپس آئے کیونکہ ان کے والد اور بھائی ایک سال گزر جانے کے باوجود ملبے میں دفن ہیں۔ غزہ شہر کے الشجاعیہ محلے میں کھڑے ہو کر خمس امامراہ نے کہا “جب میں یہاں واپس آیا تو میرا دل ٹوٹ گیا، میں واپس صرف اپنے والد اور بھائی کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔ مجھے کچھ اور نہیں چاہیے میرا بس ایک ہی سوال ہے کہ مجھے اپنے والد اور بھائی کہاں ملیں گے، بس یہی ہے، بس یہی۔” یہ لمحہ ان کے لیے اتنا دل دہلا دینے والا تھا کہ وہ اس ملبے کے ڈھیر میں اپنی ماں کی سبز رنگ کی بنائی ہوئی ٹوکری تلاش کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے رکے۔ انہوں نے کہا “وہ بُنائی پسند کرتی تھیں، اون کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ خدا میری ماں کی مغفرت کرے، وہ کہانیاں سناتی تھیں۔” ان کی ماں اسرائیلی حملے میں زخمی ہو گئی تھیں اور انہیں علاج کے لیے مصر منتقل کر دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اسرائیل نے رفاہ کراسنگ بند کر دی تھی جس کی وجہ سے صرف چند فلسطینیوں کو ہی علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت ملی۔ امامراہ نے ایک خبر رساں ادارے سی این این کو بتایا کے غزہ کا بیشتر حصہ اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 69 فیصد تعمیرات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ شمالی غزہ کے رہائشیوں کو جنگ کے آغاز میں ہی جنوبی علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور جب وہ علاقے خالی ہو گئے تو واپسی ممکن نہ رہی۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ ایک سال سے زائد عرصے بعد واپس آ رہے ہیں اور ان کے سامنے ایسی تباہی ہے کہ جس کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔ خمس اور احمد امامراہ نے 11 کلومیٹر کا سفر طے کیا تاکہ وہ الشجاعیہ واپس پہنچ سکیں، مگر راستہ انتہائی دشوار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ سفر اتنا مشکل تھا کہ راستے میں ملبے اور گندے پانی کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ کئی جگہوں پر انسانی لاشوں کو بھی نہ اٹھایا گیا تھا اور کچھ لاشیں ابھی بھی وہیں پڑی ہوئی ہیں۔” اس وقت شمالی غزہ کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ اس علاقے میں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور کوئی امدادی کیمپ نہیں ہے، جبکہ امدادی اداروں کو یہاں مدد فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ شمالی غزہ کے مقامی اسپتال کے سربراہ ‘محمد صالح’ نے کہا کہ “یہاں کوئی بھی جگہ پناہ گزینی کے لیے دستیاب نہیں ہے، یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں، اور لوگ اپنے گھروں کی مرمت کی کوشش کر رہے ہیں، مگر صورتحال انتہائی سنگین ہے۔” کئی افراد جنہوں نے شمالی غزہ واپس جانے کا ارادہ کیا تھا، وہ اسی تباہی کے بعد واپس جنوبی پناہ گاہوں میں آ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اروا ال مسری نے بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد نے واپس جانے کا فیصلہ کیا، مگر جب وہ واپس گئے تو انہیں اپنی بربادی کے سوا کچھ بھی نہ ملا۔ اس نے کہا کہ “یہاں زندگی نہیں ہے، ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ میرے بھائی کو پانی کے لیے جابلیہ جانا پڑا، اور پھر وہ غزہ شہر جا کر ہمیں بتا رہے تھے کہ ابھی واپس مت آنا۔” کچھ بھی باقی نہیں بچا، خمس اور احمد امامراہ کے خاندان میں 60 افراد تھے جن میں سے صرف 11 بچ پائے ہیں۔ احمد امامراہ نے بتایا کہ “میری بیٹی 45 دن تک آئی سی یو میں رہی، اور میرا چھوٹا بیٹا آج بھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکا کہ اس نے اپنی ماں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔” یہ تباہی ان کے لیے ایک اور سانحے کی شکل میں آئی، خمس نے بتایا کہ “ہم بہت خوش تھے، میں نے اس بچی کے لیے بہت انتظار کیا تھا، جبکہ وہ اور میری بیوی ایک ساتھ مارے گئے۔” حتیٰ کہ جب وہ اپنے ان پیاروں کی قبروں کی زیارت کے لیے گئے، تو ان کی قبریں بھی اسرائیلی فورسز نے مٹا دیں تھیں۔ “انہوں نے ہماری قبریں بھی مسمار کر دیں، کچھ بھی نہیں چھوڑا۔” خمس امامراہ نے کہا کہ “ہم واپس شمالی غزہ آئے ہیں لیکن کچھ بھی نہیں پایا۔ یہ سب کچھ ملبہ ہے، اور ہم پھر بھی یہاں ہیں کیونکہ ہم غزہ سے ہیں، ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ اگر زندگی اتنی مشکل بھی ہو، ہم غزہ میں ہی رہیں گے، ہم اس زمین کو نہیں چھوڑیں گے، یہ ہمارے آبا کی زمین ہے، اور ہم یہاں رہیں گے۔” خمس کے الفاظ ایک گہری حقیقت کو عیاں کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں “یہ زمین ہمارے آبا کی ہے، ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ہمارے والد، دادا، اور بھائی یہاں دفن ہیں ہم اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتے۔”

چینی بھائیوں کا شکریہ بنتا ہے

کالم لکھنے کا مقصد اپنے چینی بھائیوں، دوستوں کا شکریہ ادا کرنا، انہیں سلام محبت پیش کرنا ہے، مگر اس سے پہلے چند معروضات تو پیش کرنا بنتا ہے تاکہ بات اچھے طریقے سے سمجھ آ سکے۔  صاحبو ، ہمیں اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی سے کوئی کد یا ناراضی نہیں، اس کے فری ورژن سے فائدہ ہی اٹھا رہے ہیں۔ اچھی ، جامع معلومات دیتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ سر کھپا لیا جائے تو ہماری ضروریات کو بہتر طریقے سے سمجھ جاتا ہے ۔ سچی بات ہے کہ میرے دل میں ڈیپ سیک اے آئی کے لئے بھی محبت کے چشمے نہیں ابل رہے۔ نیوٹرل سا معاملہ ہے۔ پہلے دن اس پر اکائونٹ ہی نہیں بنا سکا، جب بنایا تو اب مجھے چیٹ جی پی ٹی سے قدرے بہتر لگا کہ یہاں پر جتنے مرضی سوال پوچھ لو، یہ انکار نہیں کرتا، چیٹ جی پی ٹی کی طرح یہ نہیں کہتا کہ آپ کے سوالات کا کوٹہ ختم ہوگیا، اب چند گھنٹوں بعد رابطہ کریں۔ یہ بات مجھے ڈیپ سیک کی اچھی لگی۔  ویسے مجھے ڈیپ سیک یعنی اس کے اے آئی اسسٹنٹ کی یہ بات بھی اچھی لگی کہ وہ ہر جواب سے پہلے ایک مونولاگ یعنی خودکلامی کر کے بات سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، یہ سب تیزی سے لکھا آتا ہے اور پھر اصل جواب سامنے آئے گا۔ چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک میں اب آگے بڑھنے کی کشمکش ہوگی،ٹاپ پر آنے کے لئے دونوں کمپنیاں اپنی سرتوڑ کوشش کریں گی۔ سنا ہے کہ چینی کمپنی علی بابا نے بھی اپنا اے آئی اسسٹنٹ لانچ کر دیا ہے جو شائد چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے بھی بہتر ہوگا۔  یہ سب لڑائیاں اپنی جگہ مگر میں چینی بھائیوں کا اس لئے شکرگزار اور ممنوں ہوں کہ انہوں نے ایک کرشمہ تخلیق کیا، ایک نئی امید جگائی، حوصلہ پیدا کیا ہے۔  چینی ماہرین نے یہ ثابت کیا ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے ضروری نہیں کہ اربوں کھربوں ڈالر کا عظیم الشان انفراسٹرکچر اور بے پناہ مالی وسائل ہوں، دنیا کی جدید ترین امریکی کمپنیوں کی سپورٹ ہو اور مغرب کی چکاچوند کر دینے والی ٹیکنالوجی کا جادو شامل ہو۔  چینی کمپنی ڈیپ سیک کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی جیسےمیگا سٹرکچر، بے تہاشا وسائل اور نیوڈا کمپنی جیسے جدید ترین چپس کے بغیر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے آج کی بے رحم، سفاک اور سیاہ دنیا میں ہمیں بتلایا اور سکھایا ہے کہ کمزور بھی جنگ جیت سکتا ہے۔  آج کل ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ موٹیویشنل سپیکرز سے اس لئے نالاں رہتے ہیں کہ ان کے خیال میں وہ خواب بیچتے ہیں، فرضی، خیالی کامیابی کی کہانیاں سناتے اور کمزوروں کو جیت جانے کی راہ دکھاتے ہیں۔ ہمارے یہ پریکٹیکل لوگ اس پر بڑے نالاں اور برہم ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ عقلمند آدمی وہی ہے جو طاقتور ترین آدمی کی طاقت سے مرعوب ہو کر ہار مان لے، اس کے آگے کھڑا ہونے کا خیال بھی دل میں نہ لے آئے اور پوری فرماں برداری کے ساتھ اوسط درجے کی زندگی گزارتا رہے۔  جو موٹیویشنل سپیکر اس کے برعکس باتیں بتاتے ، مختلف کامیابی کی داستانیں سناتے ہیں ان سب پر ہمارے یہ پریکٹیکل، روشن خیال ، سمجھدار، زیرک لوگ ناراض اور ناخوش ہیں۔ اسی لئے یہ وقتاً فوقتاً ان موٹیویشنل سپیکرز کو بے بھائو کی سناتے رہتے ہیں۔  سچی بات تو یہ ہے کہ چین نے بھی موٹیویشنل سپیکر والا کام کیا، فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے باتیں نہیں کیں، عمل بھی کر کے دکھایا۔ انہوں نے ایک بڑی زبردست، ہلا دینے والی شاک ویو مغرب کے اعلیٰ ترین، طاقتور ترین بزنس سرکلز میں انجیکٹ کر دی ہے ۔  تاریخ ہمیں ویسے اس طرح کی کئی کہانیاں سناتی ہے۔ تاریخ عالم میں ایسے کئی جتھے، گروہ اٹھے جو اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے طاقتور لشکروں سے ٹکرا گئے اور فتح پا لی۔ مغلیہ سلطنت کے بانی بابر کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ چند ہزار کا لشکر لے کر آیا اور ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ کے لشکر کی سوشل میڈیائی محاورے کے مطابق بینڈ بجا دی۔ بہادری اور جرات تو خیر ہوگی ہی ، مگر فرق شائد بابر کی جنگی چالوں اور بہتر عسکری ٹیکنالوجی کا بھی تھا۔  زمانے بدل گئے، دستور تبدیل ہوئے۔عہد حاضر میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید وسائل کا ارتکاز چند ہاتھوں میں کچھ اس طرح ہوا کہ مغرب اور خاص کر امریکہ نے بڑی فیصلہ کن برتری حاصل کر لی ۔ گیپ اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ کوئی ہوشمند شائد اسے پاٹنے کا، کم کرنے اور آگے نکل جانے کا سوچے ہی ناں۔ مجھے ازخود خوشی ہے کہ چینیوں میں ایسے ّّپریکٹیکل ٗٗ اور نپی تلی ّّہوشمندیٗٗ والے کم ہیں، خواب دیکھنے، کرشمہ تخلیق کرنے، اپنے فن کا جادو جگانے اور ناممکن کو ممکن بنانے والے لوگ موجود ہیں۔  کئی سال پہلے ایک برطانوی ادیب کا لیکچر کی تفصیل پڑھی۔ اس نے بتایا کہ چینیوں نے نائن الیون کے دو تین سال بعد اپنے ماہرین کی ایک ٹیم مغربی ممالک میں بھیجی جس نے طویل سٹڈی کے بعد بتایا کہ چینی بچوں کو فینٹسی پر مبنی کہانیاں پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد چینی سکولوں کے نصاب میں باقاعدہ طور پر سپر ہیروز والی کہانیاں ڈالی گئیں، فیری ٹیلز پڑھنے کی عادت بنائی گئی کیونکہ ان کہانیوں سے بچے یہ سیکھتے ہیں کہ طاقتور ترین کو بھی شکست دی جا سکتی ہے اور کچھ نیا، کچھ انوکھا، کچھ اچھوتا تخلیق ہوسکتا ہے جس سے جن اور دیو کو شکست ہو، پری کو رہا کرایا جا سکے اور کمزور کی جیت ہو۔  چینی کمپنیوں ڈیپ سیک، علی بابا اور دیگر کی حالیہ خیرہ کن کامیابیاں یہ بتاتی ہیں کہ پچھلے پندرہ برسوں میں چینی ماہرین نے اپنی نئی نسل کو آوٹ آف باکس تھنکنگ کی عادت ڈال دی۔ وہ مروجہ سیٹ پیمانے سے باہر نکل کر سوچنے اور کچھ کر گزرنے کے قائل اور عادی ہوچکے ۔  چین کا

حکومت بجلی سستی کرنے میں ناکام: کیا حکمران ’اعلان بغاوت‘ کے منتظر ہیں؟

حکومت پاکستان کے باربار اعلانات اور وعدوں کے مطابق ملک میں بجلی سستی نہیں ہورہی جبکہ دیہی علاقوں میں 18،18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاً احتجاج کرتی نظرآتی ہیں، جمعہ کے روز جماعت اسلامی نے ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج کیا۔ سردیوں کے موسم میں بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بجلی کا ماہانہ بل قدرے کم رہتا اور بلند آہنگ احتجاج کی وجہ نہیں بنتا۔ البتہ پاکستان کے بالائی علاقوں کے مکینوں کو شکوہ ہے کہ انہیں روزانہ 20 بیس گھنٹے بجلی میسر نہیں رہتی۔ وزارت توانائی کے ڈیٹا کے مطابق جنوری 2025 میں بجلی کی متوقع فی یونٹ قیمت 32 سے 64 روپے ہے۔ سب سے کم 32 روپے صفر سے 100 یونٹ اور زیادہ 64.06 روپے 700 سے زائد یونٹ خرچ کرنے والوں کے لیے ہے۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت 50.17 روپے جب کہ ہر یونٹ پر تقریبا 14 روپے کا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں پر نو مختلف اقسام کے ٹیکس اور چارجز عائد کیے جاتے ہیں۔ مہنگی بجلی پر ملک بھر میں احتجاج، غم وغصہ کے اظہار کا سلسلہ خودکشیوں اور قتل جیسے افسوسناک واقعات تک جا پہنچا تھا۔ اسی دوران جماعت اسلامی نے معاملے پر احتجاج کیا جس کا دائرہ بڑھا تو اسلام آباد، راولپنڈی میں 14 روزہ دھرنا دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی جانے والی کیپیسیٹی پیمنٹس پاکستانیوں کو سستی بجلی ملنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو بجلی بن ہی نہیں رہی اس کے لیے بھی اربوں روپے چند اداروں کو ادا کیے جا رہے ہیں۔ اس معاملے کو اب کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ حکومت نے بیچ میں چند آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا تو بتایا کہ اس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی بڑی بچت ہو گی۔ ان اقدامات کے باوجود مہنگی بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آ سکی ہے۔ وفاقی وزیربرائے توانائی اویس خان لغاری بھی وقتاً فوقتاً پریس کانفرنسزمیں ’خؤاہش‘ ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کرتے پائے گئے ہیں کہ چند ہفتوں میں ‘خطے کی سستی ترین بجلی’ مہیا کریں گے۔ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں عام صارف کو متاثر ہی نہیں کر رہیں بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ بھی روکے ہوئے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برس میں بجلی کی قیمت میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف جولائی 2023 سے اگست 2024 کے درمیان بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بجلی کا سستا نہ ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں۔ پاکستان میں کل 45 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے  جبکہ  ہماری ضرورت صرف 30 ہزار میگاواٹ ہے ۔ حیرت انگیز طور پہ پاکستان صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کر سکتا ہے  کیوں کہ اس سے زیادہ ہمارا ٹرانسمیشن نظام بجلی ترسیل نہیں کرتا۔ 1984میں پیدا ہونے والی کل بجلی کا 22.8فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا تھا۔ حیران کن طورپر پہ 40 سال بعد بھی ہمارا بجلی کا نظام درست نہ ہو سکا اور آج بھی 16فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کی وجوہات میں  سب سے پہلے حکومتوں کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ 1994 میں پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے نجی شعبے کو بجلی بنانے اور حکومت کو فروحت کرنے کے لیے آمادہ کیا گیا جسے انڈیپنڈنٹ  پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا نام دیا گیا۔ مزید پڑھیں: بجلی سستی کرنے کے حکومتی دعوے مگر پاکستانیوں کے بجلی کے بل کم کیوں نہیں ہو رہے؟ آئی پی پیز اور حکومت کے مابین معاہدے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ چاہے آئی پی پیز کی بنائی ہوئی  بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت مکمل قیمت ادا کرے گی۔ اس وقت ملک میں 90 نجی بجلی گھر کام کر رہے ہیں جو 24،958 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں،جبکہ ”11 سے 14ہزار ”میگاواٹ بجلی آبی ذرائع سے بنتی ہے۔ تین ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور اتنی ہی شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں بنتی ہے۔ ان میں سے تو کچھ ایسے آئی پی پیز بھی ہیں جن کو’مفت‘ میں منافع ادا کیا گیا، کچھ آئی پی پیز تو ایسے بھی ہیں جن کے مالک حکمران پارٹی کے سیاستدان بھی ہیں۔ پاکستانی یہ بجلی استعمال نہیں کرتے مگر وہ کیپسٹی رقوم کے ذریعے اس بجلی کی ادائیگی ضرور کرتے ہیں۔ فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی قیمت 48 روپے میں سے 24 روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو جاتی ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگومیں سابق نگران مشیرِ خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھاکہ پاکستان میں بجلی کے سستا ہونے کےدور دور تک آثار نہیں۔ جس کی وجہ بجلی کا مہنگے داموں بننا ہے۔ ’حکومت کی طرف سے بجلی کے بلوں میں ابھی تک عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیاگیا۔آئی پی پیز سےمہنگے داموں پر بجلی بنانے کے معاہدے کیے گئے ہیں اور بےجا لگائے گئے ٹیکسز کی وجہ سے بجلی بلوں میں ریلیف نہیں دیا جاسکتا‘۔ بجلی کے معاملہ پر ہونے والے احتجاج کے بعد جب حکومت نے بجلی سستی کرنے پر اتفاق کیا تو فریقین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدہ کو طے کرنے والے افراد میں ایک جماعت اسلامی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سید فراست علی شاہ بھی تھے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک عرصے سے ملکی حالات خراب ہیں جس کی وجہ حکومتی اداروں کا ’ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسی اپنانا ہے۔ مختصر مدتی پالیسی کو اپنانے سے مسائل کا مستقل حل نہیں نکلتا اور پھر کسی میں دو روپے کم کردیے تو کسی میں تین روپے بڑھا دیے جیسے ریلیف دیے جاتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کےگزشتہ اسلام آباد دھرنے میں حکومت نے مذاکرات کرکے کہ معاہدہ طے کیا تھا کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کو ختم کرکے عوام کو ریلیف دیاجائے گا۔ اس بات کو تقریباً چھ ماہ گزرچکے ہیں مگر ابھی تک بجلی سستی نہیں ہوئی۔ اسی معاہدہ کے تحت

فیشن انڈسٹری میں حجاب کا بڑھتا رجحان، کیا یہ صرف مارکیٹنگ ہے؟

حجاب کا فیشن فروغ پارہا ہے اور فیشن انڈسٹری اسے قبول بھی کررہی ہے، کھیلوں کے میدان میں باحجاب خواتین دوڑتی نظر آتی ہیں تو دفاتر، کام کی جگہوں پر سکارف پہنے لڑکیاں کام کرتی نظر آتی ہیں ۔ حتیٰ کے ٹی وی چینلز پر نیوز اینکرز، رپورٹزز بھی سرکو ڈھانپے دکھائی دیتی ہیں، سوال یہ ہے کہ فیشن انڈسٹری نے حجاب کو قبول کرلیا؟ حجاب کا تعلق صرف اسلام تک محدود نہیں ہے بلکہ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں بھی اس کی اہمیت کو دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ یہودی اور مسیحی روایات میں خواتین کا سر ڈھانپنا پاکیزگی اور عبادت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہندو اور سکھ ثقافت میں بھی خواتین دوپٹے یا چادر سے خود کو ڈھانپتی ہیں، جو حیا اور احترام کی نشانی تصور کیا جاتا ہے۔ قدیم یونانی اور رومی معاشروں میں بھی مخصوص لباس عورت کی عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔  ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممبر اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ “انسان کو اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا کا فطری جذبہ بخشا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی ہے کہ حضرت آدم ؑ پر شیطان نے سب سے پہلا حملہ کیا، انھیں بے پردہ اور بے لباس کیا۔ حضرت آدم نے خود کو درختوں کے پتوں سے ڈھانپا، جس کا مطلب ہے کہ خود کوباپردہ رکھنا انسان کی فطرت میں حضرت آدم ؑ سے شامل ہے۔” انھوں نے مزید کہا کہ “شیطان کا پسندیدہ ترین مشغلہ اسے بے حجاب کرنا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ انسان کو بے حجاب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بے لباس اور بے حجاب ہونا حیوان کی فطرت میں شامل ہے۔” موجودہ وقت میں حجاب کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہےاور کئی مسلم خواتین اسے اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے طور پر اپنا رہی ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک میں حجاب آزادیِ اظہار کی علامت کے طور پر بھی مقبول ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس بعض ممالک میں حجاب کو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے۔ حجاب پر جاری عالمی بحث مذہبی آزادی، سماجی ہم آہنگی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک اہم موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل کا کہنا ہے کہ “جو عورت باحجاب ہوتی ہے وہ زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔ تمام مذاہب میں جب عورت اپنی مذہبی فرائض سرانجام دیتی ہے تو وہ ڈھیلے ڈھالے اور جسم کو ڈھکنے والے لباس زیب تن کرتی ہے۔ ہر مذہب میں باحجاب رہنا عزت کی علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ حجاب آزادی اور توانائی کی علامت ہے۔” اس وقت حجاب کے حوالے سے عالمی سطح پر دو متضاد نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک جانب بہت سی مسلمان خواتین اسے اپنی خودمختاری، مذہبی آزادی اور ثقافتی شناخت کا حصہ قرار دیتی ہیں تو دوسری جانب بعض خواتین اسے جبر کی علامت کا نام دیتی ہیں۔ نجی خبررساں ادارے ‘جیو نیوز’ کی نامہ نگار اور سینیئر صحافی دعا مرزا نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ””خواتین کی خود مختاری کا انحصار ان کی خود اعتمادی پر ہوتا ہے۔ اگر خواتین حجاب پہن کر پراعتماد ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ ورنہ بہت ساری ایسی خواتین ہیں جو حجاب کرتی تو ہیں لیکن وہ سماجی دباؤ کے تحت کرتی ہیں۔ جب یہ خواتین اس پر واپس ردِعمل دیتی ہیں تو بہت منفی بحث ہوتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “یونیورسٹیز، اسکولز اور مدارس میں حجاب کرنا ضروری ہوتا ہے ساتھ ہی خاندان کا بھی دباؤ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں جب باہر جا کر ابایا اترتا ہے تو اندر سے بغیر آستین کے لباس زین تن کیے ہوئے خواتین نکلتی ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک خودمختاری خود اعتمادی پر ہی منحصر ہے چاہے حجاب کیا ہو یا نہ کیا ہو”۔ حالیہ برسوں میں کئی عالمی فیشن برانڈز نے اپنے کلیکشنز میں حجاب کو شامل کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم خواتین کی فیشن مارکیٹ کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب لاہور کے شعبہ ابلاغیات کی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے نزدیک “فیشن انڈسٹری میں حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان مسلم خواتین کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے فیشن انڈسٹری میں ان کی نمائندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے فیشن کا حصہ بھی بن رہی ہیں۔” دنیا بھر میں مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی مرضی اور پسند سے حجاب پہننے کو ترجیح دے رہی ہے۔ حجاب کو جبر کے بجائے خودمختاری اور مذہبی آزادی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر مغربی ممالک میں جہاں اب مسلم خواتین اپنی شناخت کو فخر سے اپنا رہی ہیں۔ سینیئر صحافی دعا مرزا کا کے نزدیک “حجاب کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کوئی دباؤ یا پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جو جس طرح پرسکون ہے اسی طرح رہے۔ اس پر کوئی بھی فیصلہ تھونپا نہیں جانا چاہیے۔ ملازمت میں بھی حجاب کو لے کر مسائل کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت ساری ایسی خواتین ہیں جو حجاب کرتی ہیں اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔” آج کے جدید حجاب نہ صرف روایتی انداز کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ انہیں فیشن کے نئے رنگوں، ٹیکسچرز اور اسٹائلز میں متعارف کرایا جا رہا ہے جو نوجوان مسلم خواتین میں مقبول ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور جدید فیشن انڈسٹری میں بھی حجاب کو نت نئے انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق “کچھ عالمی برانڈز مسلم خواتین کی ضروریات اور ثقافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے حجاب ڈیزائن کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں یہ ضروری ہے کہ وہ مقامی ثقافتوں اور روایات کا احترام بھی کریں۔” حجاب اب صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ خواتین کی خوداعتمادی اور آزادیِ اظہار کا مظہر بھی بن چکا ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں بھی اس حوالے سے ایک اہم کردار رہا ہے۔ ڈاکٹر سمیعہ کے مطابق “کسی حد تک میڈیا کا ماننا ہے کہ جو عورتیں حجاب نہیں کرتیں وہ ماڈرن عورتیں ہیں، مگر یہ