“حکومت اور اپوزیشن آئین کی دھجیاں نہ بکھیریں” وکلا کا 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مارچ اور ہڑتال کا اعلان

وکلا برادری کی جانب سے 26 آئینی ترمیم کے خلاف پیر کے روز اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا ہے، مارچ کا اعلان لاہور ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام ہونے والے وکلاء کنونشن میں کیا گیا۔ اتوار کو لاہور میں ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن کی صدارت لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ نے کی۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے تحت ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن کے مشترکہ اعلامیے میں سپریم جوڈيشل کونسل کا اجلاس فوری منسوخ کرنے، 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے اور ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت براہِ راست نشر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گيا ہے کہ جب تک 26 ویں ترمیم کا فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک نئی تعیناتیاں نہ کی جائیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کو ہی چیف جسٹس بنایا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ بار وکلا کنونشن میں حال ہی میں پاس کیے گئے پیکا ایکٹ کی بھی مذمت کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ نے کہا ہے کہ صحافیوں کی جدوجہد کا مکمل ساتھ دیتے ہیں۔ وکلا کنویشن سے خطاب میں وکیل رہنما حامد خان نے کہا کہ وکلا کی تحریک شروع ہوچکی ہے، یہ 26 ویں ترمیم کو بہا لے جائے گی۔ صحافیوں کی آزادی ختم کرنے کے لیے پیکا ایکٹ میں ترمیم کی گئی، وکلا ہر فورم پر صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف اسلام آباد کی تینوں بارز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیگر ہائی کورٹس سے ججز کی منتقلی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کل ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کی تینوں نمائندہ بار کونسلز کے مشترکہ اجلاس نے تین ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ منتقلی کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کے ذریعے میڈیا کو فتح کرلیا گیا اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ کو فتح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بار کونسلز تین ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل ہونے کا نوٹیفکیشن ہرفورم پرچیلنج کریں گی۔ جوڈیشل کمیشن کا سپریم کورٹ کے ججزکی تعیناتی کے لیے 10 فروری کا اجلاس مؤخرکیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ تین فروری 11 بجے تمام بارکونسلز کے زیر اہتمام وکلا کنونشن کا انعقاد کیا جائےگا، اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں 3تین فروری کو وکلا ہڑتال کریں گے۔ صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ریاست علی آزاد نے کہا کہ سینئر موسٹ جج کو چیف جسٹس بنانا تھا، 26 ویں آئینی ترمیم میں بھی یہی لکھا ہے، آئینی ترمیم بھی بدنیتی پر مبنی تھی، اس کے باوجود ٹرانسفر کیے جا رہے ہیں۔ وکلا تحریک آج بھی چل رہی ہے، لیکن کچھ لوگ اقتدار میں بیٹھ کرفائدہ لے رہے ہیں۔ صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نعیم علی گجر نے کہا کہ جب قانون پاس ہونا ہو یا کوئی آئین شکنی ہوتو وکلا ہی سامنے آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو ماضی بھول جاتی ہیں، ہم کسی جج یا شخصیت کے ساتھ نہیں، عدلیہ اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تین سینئر ججز میں سے ایک کو چیف جسٹس بنایا جائے۔ نعیم علی گجر نے کہا کہ وکلا باہر سے آنے والے ججز کے خلاف بھرپور احتجاج اور مزاحمت کریں گے۔
شام کے عبوری صدر احمد الشرع پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے

شام کے عبوری صدر احمد الشرع اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا استقبال ریاض کے نائب گورنر محمد بن عبد الرحمان بن عبد العزیز نے کیا۔ اس موقع پر احمد الشرع کے ساتھ شام کے عبوری وزیر خارجہ اسد الشیبانی بھی موجود تھے۔ سعودی عرب کا یہ دورہ احمد الشرع کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا، کیونکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ان کی متوقع ملاقات شام کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ شام میں حالیہ دنوں میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ ابھر کر سامنے آیا ہے جس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ شام کے آئین کو منسوخ کرنے کے بعد احمد الشرع کو عبوری صدر منتخب کیا گیا ہے اور ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں ایک نیا سیاسی آغاز ہو چکا ہے۔ شام کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی غیر متوقع اور دل دہلا دینے والا موڑ تھا۔ بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی شامی باغی فورسز نے اس وقت کامیابی حاصل کی جب انہوں نے دمشق پر قبضہ کیا اور اس کے بعد بشار الاسد اور ان کے خاندان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یاد رہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نئی شامی انتظامیہ کے ساتھ سعودی عرب کی جانب سے پہلا باضابطہ رابطہ کیا گیا تھا جس میں دو طرفہ تعلقات سمیت دیگر امور کو بہتر انداز سے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ سعودی میڈیا کے مطابق سعودی شاہی مشیر کی قیادت میں وفد نے شام میں پیپلز پیلس میں نئی شامی انتظامیہ کے سربراہ احمد الشعر سے ملاقات کی تھی جس میں مستقبل میں تعلقات کو بہتر بنانے اور دیگر امور کو بہتر انداز سے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ بشار الاسد کی حکومت کے بعد شامی عوام کے لیے یہ لمحہ ایک نیا عہد تھا، جس میں انہیں امید کی کرن نظر آنا شروع ہوئی۔ مزید پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے مغربی پٹی پر حملے، کئی عمارتیں منہدم، متعدد شہادتوں کا خدشہ ماضی میں جب شام پر 5 دہائیوں تک بشار الاسد خاندان کی حکمرانی تھی ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا فقدان تھا اور عوام کو مسلسل ظلم و ستم کا سامنا تھا۔ مگر اس حالیہ تبدیلی نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عالمی سیاست میں نئی صف بندیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ شامی باغیوں نے جیت کی خوشی میں سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ تمام قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور شام میں انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ احمد الشرع، جنہیں ابو محمد الجولانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ حیات تحریر الشام کے سربراہ ہیں، اور ان کی قیادت میں شامی باغیوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے عبوری صدر منتخب ہونے کے بعد شام کی سیاست میں ایک نئی توانائی آ چکی ہے۔ احمد الشرع کا کہنا تھا کہ شام میں آئندہ انتخابات میں 4 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے اس دوران ایک عبوری قانون ساز کونسل تشکیل دی جائے گی جو نئے آئین کی منظوری تک کام کرے گی۔ دوسری جانب احمد الشرع نے سعودی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ سعودی عرب شام کے مستقبل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے مواقعوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ سعودی عرب میں ہی پیدا ہوئے اور اپنے ابتدائی 7 برس وہاں گزارے ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات شام کی اکانومک ترقی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے اہم ہو گی۔ یہ دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سعودی عرب شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے اور شام کی معیشت کو دوبارہ نئی زندگی دینے کے لیے ممکنہ سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شام میں جاری اس سیاسی تبدیلی نے نہ صرف خطے کی سیاست کو متاثر کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی کئی ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلیاں لائی ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں نیا سیاسی منظرنامہ تشکیل پا رہا ہے، جس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑ سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا احمد الشرع کے عبوری صدر بننے کے بعد شام میں کوئی بڑا سیاسی استحکام آ سکے گا؟ کیا سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اس تبدیلی کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ اور کیا شامی عوام کو آخرکار وہ آزادی اور ترقی ملے گی جس کا وہ طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں؟ یہ تمام سوالات اس وقت پورے خطے میں اہمیت رکھتے ہیں اور یہ تیزی سے بدلتے حالات آنے والے دنوں میں ایک نیا سیاسی دھارا تشکیل دے سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: سمجھ نہیں آتا جشن منائیں یا ماتم کریں’ شامی شہر حماۃ میں خوفناک قتل عام کے 43 برس
کرم میں قیام امن کے لیے اسلام آباد میں گرینڈ جرگہ، سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی روک تھام پر اتفاق

کرم میں قیام امن کے لئے اسلام آباد میں منعقد ہونے والا گرینڈ جرگہ اختتام پذیر ہو گیا، جس میں فریقین نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال روکنے پر اتفاق کر لیا۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں قیامِ امن کے لیے آج اسلام آباد میں سینیٹر سجاد سید میاں کے گھر پر گرینڈ جرگے کا انعقاد کیا گیا۔ سجاد سید میاں نے عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جرگے کا انعقاد قیامِ امن کے لیے عمائدین کو قریب لانے کے لیے کیا گیا ہے، جس کا مقصد کرم میں امن لانا ہے، کرم کے عوام امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گرینڈ جرگہ میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام سمیت قیام امن کے لئے ضروری اقدامات پر بات چیت ہوئی،دونوں فریقین میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ نجی ٹی وی چینل ایکسپریس کے مطابق جرگہ ممبر سید رضا حسین نے کہا ہے کہ دونوں فریقین کے عمائدین کے جرگے کی دوسری نشست کل پشاور میں ہوگی۔ واضح رہے کہ طویل بدامنی کے دوران پہلی بار جرگے کی بدولت عمائدین آپس میں بیٹھے، گلے شکوے کئے۔ جرگے میں طے کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا اور فریقین ایک دوسرے کے مقدس مقامات کا احترام کریں گے۔ مزید یہ کہ جرگے میں فریقین کی جانب سے مستقبل میں ایسے جرگوں کے انعقاد اور جنگ بندی کے لیے 14 نکات پر مشتمل لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا گزشتہ ایک عرصے سے بدامنی کا شکار ہے،تاریخی طور پر اس علاقے میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، مگر 21 نومبر 2024 کو ضلع کرم میں ایک بار پھر فرقہ ورانہ جھڑپ ہوئی، جس میں 76 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ کرم میں جاری کشیدگی کے باعث گزشتہ چار ماہ سے آمد و رفت کا سلسلہ بند ہے، جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ نجی خبررساں ادارے ڈیلی پاکستان کے مطابق کرم میں اب تک 157 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ 31 دسمبر کو دونوں فریقین نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے، جس میں امن معاہدہ طے پا گیا۔ کوہاٹ میں منعقدہ اس گرینڈ جرگے میں دونوں فریقین کے 45، 45 نمائندوں نے شرکت کی اور معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے نکات میں اسلحہ جمع کرانا، شاہراہوں کی حفاظت، فرقہ وارانہ جھڑپوں کا خاتمہ، امن کمیٹیوں کا قیام اور کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی شامل تھی۔ پہلے کی طرح یہ معاہدہ بھی زیادہ دیر چل نہ سکا اور دونوں فریقین میں کئی جھڑپیں ہوئیں، جس میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس وقت ضلع کرم میں دفعہ 144 نافذ ہے، جس کے مطابق اسلحے کی نمائش اور 5 سے زائد افراد کا اکٹھے جمع ہونا منع ہے۔
ججوں کی منقتلی، اسلام آباد بار کونسل کا ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں ہڑتال کا اعلان

اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججوں کی منتقلی کے فیصلے کے خلاف وکلا تنظیموں نے کل ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد کی تینوں بار کونسلز نے ججوں کی منتقلی کے صدارتی نوٹیفکیشن کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایک بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ وکلاء کے سخت ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ معاملہ محض ایک ججز کی منتقلی تک محدود نہیں رہا بلکہ اس میں آئین اور عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھانے کی صورت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وکلا تنظیموں نے کہا ہے کہ یہ اقدام عدلیہ میں تقسیم پیدا کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے اور اس کے ذریعے ججز کی تقرری کے اصولوں کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی منتقلی کے فیصلے نے اسلام آباد کی تینوں بار کونسلز کو مشتعل کر دیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ روز لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک ایک جج کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کر دیا تھا۔ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کو ان کے اپنے صوبوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں منتقل کیا گیا۔ آئین کے مطابق صدر مملکت کو ہائی کورٹ کے ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا اختیار ہے، تاہم اس عمل کے لیے ججز کی رضامندی، چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہوتی ہے۔ مزید پڑھیں: سب راستے بند کردیے جائیں تو خوددار قومیں شمشیر کا راستہ اپناتی ہیں، حافظ نعیم کا مظفر آباد میں خطاب وکلا کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا گیا اور یہ فیصلہ سراسر بدنیتی پر مبنی ہے۔ اسلام آباد کی تینوں بار کونسلز یعنی اسلام آباد بار، ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے مشترکہ اجلاس میں اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں وکلا نے کہا کہ ججز کی منتقلی کے اس فیصلے سے عدلیہ میں انتشار اور بدامنی پھیل سکتی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان انصاف کی فراہمی کے عمل کو ہو گا۔ وکلا تنظیموں نے اس معاملے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلے عدلیہ کے اندر اختلافات پیدا کرنے کے مترادف ہیں اور اس کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو مجروح کرنا ہے۔ وکلا نے کل 11 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے جس کے تحت وکلاء عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ وکلا تنظیموں نے اس احتجاج کو مزید وسعت دینے کے لیے ایک ملک گیر وکلا کنونشن کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کنونشن کا انعقاد کل صبح گیارہ بجے ڈسٹرکٹ کورٹ جی الیون میں کیا جائے گا۔ وکلا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس کنونشن میں ملک بھر سے وکلا کی بڑی تعداد شریک ہو گی اور اس موقع پر حکومت کے خلاف ایک متفقہ موقف اپنایا جائے گا۔ ضرور پڑھیں: بہاولنگر میگا کرپشن اسکینڈل میں پیش رفت، سابقہ سی ای او ایجوکیشن شاہدہ حفیظ گرفتار چیئرمین اسلام آباد بار علیم عباسی نے اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم اس فیصلے کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ اس فیصلے کا مقصد عدلیہ کے اندر تقسیم پیدا کرنا ہے اور ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔” انہوں نے مزید کہا کہ وکلا برادری اس بات پر متحد ہے کہ کسی بھی طور پر عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وکلا کا کہنا ہے کہ حکومت اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف اس فیصلے کا دفاع کیا جائے گا اور اس سلسلے میں ملک بھر کے وکلا ایک آواز بن کر احتجاج کریں گے۔ وکلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سازش ہو سکتی ہے تاکہ عدلیہ کے اندر سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس فیصلے کی مخالفت میں وکلا کی طرف سے بھرپور احتجاج کی تیاری کی جا رہی ہے اور ان کے بقول، یہ فیصلہ نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ عزت کے خلاف ہے بلکہ اس سے ملک کی عدلیہ کی آزادی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ججز کی منتقلی ایک معمول کا عمل ہو سکتا ہے مگر اس میں مکمل شفافیت اور قانون کے مطابق عمل ضروری ہے۔ ان کے مطابق اس فیصلے کے خلاف وکلا کا احتجاج قانون کی بالادستی کی بات کر رہا ہے کیونکہ ان کے مطابق اگر اس عمل میں آئینی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی تو یہ ملک کے عدلیہ کے نظام پر سوالات اٹھا سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی منتقلی کا یہ معاملہ صرف وکلا کے احتجاج تک محدود نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس سے آئین اور عدلیہ کی آزادی پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور اس کے اثرات پورے ملک میں محسوس ہو سکتے ہیں۔
بھارتی دفاعی بجٹ میں اضافے کی سفارش: کیا یہ طاقتور فوجی انقلاب کی بنیاد ہے؟

بھارت کے مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ کے دفاعی اخراجات میں 9.5 فیصد کا غیر معمولی اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف بھارت کی طاقتور فوجی مشینری کی سمت کا اشارہ دیتا ہے بلکہ بھارت کے دفاعی امکانات کو بھی نئی جہت دے رہا ہے۔ بھارت کے دفاعی بجٹ میں 6.81 ٹریلین روپے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جو کہ پچھلے سال کے تخمینوں سے واضح طور پر زیادہ ہے۔ لیکن اس بار جو بات سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اضافی رقم نئے ہتھیاروں یا جنگی سازوسامان کی خریداری کے لیے نہیں، بلکہ فوجی اہلکاروں کی تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی میں خرچ کی جائے گی۔ یہ فیصلہ بھارت کی فوجی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا یہ بجٹ دفاعی ترقی کے حقیقی راستے پر لے جائے گا یا صرف ایک وقتی ضرورت کی تکمیل تک محدود رہے گا؟ نئے دفاعی بجٹ میں 4.7 ٹریلین روپے افرادی قوت کے اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 1.80 ٹریلین روپے جنگی سازوسامان کی خریداری پر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ بھی پڑھیں: “امریکی اقدام قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے” چین کا امریکہ کے خلاف ڈبلیو ٹی او سے رجوع کرنے کا اعلان ان میں سے 486 ارب روپے ہوائی جہازوں اور ایرو انجنز کی خریداری کے لیے مختص کی گئی ہے جب کہ 243.9 ارب روپے بحری بیڑوں کی بہتری پر خرچ ہوں گے۔ تاہم بھارتی وزارت دفاع کے سابق مالی مشیر کے مطابق اس بات پر مسلسل تشویش ہے کہ دفاعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ صرف تنخواہوں اور پینشن کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافی اخراجات بھارت کی دفاعی استعداد میں بہتری کی بجائے صرف اس کی موجودہ فوجی ڈھانچے کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی دفاعی سودوں کی نوعیت اس قدر سست ہے کہ رواں مالی سال کے دفاعی بجٹ میں ابھی 125 ارب روپے خرچ کرنے باقی ہیں جو کہ طویل مذاکرات اور پیچیدہ سودوں کا غماز ہے۔ بھارت کی فوجی حکمت عملی میں اس اضافے کے بعد عالمی سطح پر اس بات کا انتظار ہے کہ آیا یہ اضافی رقم واقعی بھارت کی فوجی طاقت میں کوئی انقلاب برپا کر سکے گی یا صرف افواج کے موجودہ حالات کی مرمت تک محدود رہ جائے گی؟ مزید پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے مغربی پٹی پر حملے، کئی عمارتیں منہدم، متعدد شہادتوں کا خدشہ
‘ سمجھ نہیں آتا جشن منائیں یا ماتم کریں’ شامی شہر حماۃ میں خوفناک قتل عام کے 43 برس

شامی ڈکٹیٹر بشار الاسد اپنے خاندان کے 50 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد روس میں پناہ گزین ہے، مگر شام کے شہر حماۃ کے مکین 43 برس قبل کے وہ مناظر نہیں بھولے جب ان کا شہر لہو میں ڈبو دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق سے متعلق اداروں کا اندازہ ہے کہ حماۃ پر اس وقت کے شامی صدر حافظ الاسد کی ہدایت پر ہونے والے حملے میں 10 سے 40 ہزار لوگ قتل کیے گئے۔ تقریبا دو تہائی شہر کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ تاریخی طور پر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق حماۃ شہر میں اسد خاندان کے حکم پر ہونے والے اس قتل عام کے وقت شہر کی آبادی تقریبا 250000 مردوخواتین پر مشتمل تھی۔ 27 روزہ حکومتی کارروائی کے اختتام پر کوئی خاندان ایسا نہیں بچا تھا جس کاکوئی نہ کوئی فرد اسد فورسز کے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو۔ شامی افراد کے مطابق اس خوں ریز کارروائی کے دوران اخوان المسلمون کے لوگوں اور دیگر سنی گروہوں نے حکومتی فورسز کی مزاحمت کی کوشش کی۔ مگر چند روز کے اندر ان سب کو مار دیا گیا۔ مسلسل آپریشن سے بچ جانے والے شامی مزاحمت کار برطانیہ، امریکہ، جرمنی، ایران سمیت دیگر ملکوں کی طرف فرار ہونے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ 1982 کی کارروائی کے بعد زندہ بچ کر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہونے والے ایک اخوانی کارکن ابو تمیمہ کے مطابق بارودیہ نامی قصبہ مزاحمت کاروں کا مرکز تھا جس پر اسد فورسز نے سب سے پہلے قبضہ کیا اور تباہی ڈھائی۔ ان کے مطابق ‘مزاحمت کے خلاف فوری کامیابی کے باوجود اسد فورسز نے کئی دنوں تک کارروائی جاری رکھی، عام شہریوں کا قتل عام کیا جن کا اخوان المسلمون سے کوئی تعلق بھی نہ تھا۔ متاثرین کے مطابق حافظ الاسد کی فورسز نے شامی ماؤں کی گودوں سے ان کے شیرخوار بچے چھینے، بندوقوں کے بٹ مار کر معصوم جانیں لیں مگر انہیں ذرا رحم نہیں آیا تھا۔ ایک اور شامی خانی کے مطابق ان کے والد بھی قتل ہونے والے افراد میں شامل تھے۔ فرانس سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آنکھوں کے معالج کے طور پر کام کرنے والے شامی شہری کو اسد فورسز نے گرفتار کیا اور قریبی فیکٹری میں لے جا کر ان کی آنکھیں نکال دی گئیں، اس کے بعد انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ عرب میڈیا سے کی گئی گفتگو میں خانی کا کہنا تھا کہ شام میں مقیم سنی مسلمانوں کے خلاف اسد فورسز کی یہ درندگی ماضی کا قصہ نہیں بلکہ اب بھی ان کا طریقہ واردات یہی تھا۔ خانی کا کہنا تھا کہ 48 برس قبل ہونے والے قتل عام اور اپنے والد کے قتل کے خلاف اگر انہوں نے چند ماہ پہلے تک کوئی شکایت کی ہوتی تو ان کا حشر بھی والد جیسا ہونا تھا۔ یاد رہے کہ حماۃ کا شہر دسمبر 2024 میں اسد فورسز کے قبضے سے اس وقت آزاد ہوا جب ہیئۃ تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) ودیگر گروہوں نے بشارالاسد کو بےدخل کر کے شام کا اقتدار سنبھالا ہے۔ خانی کے مطابق ‘انہیں اور کئی دیگر افراد کو مجبور کیا گیا کہ وہ یہ کہیں کہ سویلینز کو اخوانی کارکنوں نے قتل کیا ہے۔’ ‘ اسد چاہتا تھا کہ پورے حماۃ کو مزاحمت کی سزا دی جائے۔ ہمارے ذریعے وہ پورے شام کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ کوئی مزاحمت نہ کرے اور ایسا ہی ہوا، 30 برس تک کوئی کھڑا نہیں ہو سکا۔ 1982 میں بدترین قتل عام سہنے والے حماۃ شہر میں تقریبا 30 برس بعد پہلا احتجاج 2011 میں ہوا۔ مسجد عمر بن خطاب سے نکلنے والے جلوس کے شرکا نے حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے اسد رجیم سے جان چھڑانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ اسد خاندان کے لیے کئی دہائیوں بعد پہلا چیلنج تھا۔ یہ وہی مسجد تھی جسے اسد فورسز نے حملہ کے وقت جیل میں بدل دیا تھا۔ خواتین اور بچوں کو یہاں قید کر کے ان کے مردوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ یہاں محبوس بچوں اور خواتین کو کہا گیا کہ باہر نکلنے پر وہ اپنے مردوں کے زندہ ملنے کی امید نہ رکھیں اور ایسا ہی ہوا بھی۔ خانی کے مطابق وہ رہا ہونے کے بعد علاقہ چھوڑ کر چلے گئے، کچھ عرصہ بعد واپس آئے تو ان کی کلاس میں کوئی ایسا بچہ نہ تھا جس کے والد کو اسدی فورسز نے شہید نہ کر دیا ہو۔ 27 روزہ فوجی آپریشن مکمل کرنے کے بعد اس وقت کے شامی ڈکٹیٹر حافظ الاسد کا کہنا تھا کہ ‘حماۃ میں جو ہونا تھا ہو چکا، اب سب ختم ہو گیا ہے۔’ تاہم جدید تاریخ میں فلسطین کے سوا کسی بھی شہری علاقے میں ہونے والے اس بدترین قتل عام میں ‘سب ختم نہیں ہوا’ بلکہ پیچھے بچ جانے والے آج بھی وہ لمحے یاد کر کے کانپ اٹھتے ہیں۔ گزشتہ 43 برسوں کے سینے میں چھپے یہ سارے واقعات حماۃ کے مکینوں کے لیے تو نئے نہیں، لیکن دو فروری کی تاریخ نے موقع پیدا کیا ہے کہ باقی دنیا بھی اس بھیانک قتل عام اور اس کے ذمہ داروں کو یاد رکھے۔ اتنا ہی نہیں حماۃ میں گزری قیامت کے بچ جانے والے متاثرین کو بھی یاد رکھا جائے۔ حماۃ میں کیا ہوا تھا؟ ‘حماۃ قتل عام’ کے نام سے معروف واقعہ دو فروری 1982 کو شامی ڈکٹیٹر حافظ الاسد کے حکم پر میجر جنرل رفعت الاسد نے کارروائی کی تھی۔ حماۃ شہر کی تنگ گلیوں میں ٹینک دوڑائے گئے۔ 27 روز تک جاری رہنے والی کارروائی میں شامی فوج، پیراملٹری فورسز، علوی ملیشیا اور بعثی حکومت کے دیگر یونٹس نے اخوان المسلمون کی قیادت میں ہونے والی مزاحمت کو نشانہ بنایا تھا۔ 1976 سے علاقے کے سنی گروہ اسد حکومت کے مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ جسے ختم کرنے کے لیے سنی مسلمانوں کے خلاف یہ کارروائی کی گئی۔ آپریشن سے قبل حافظ الاسد کے حکم پر شہر کو محاصرے میں لے کر بند اور بیرونی دنیا سے منقطع کر دیا گیا تھا۔ میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا، تمام مواصلات کو ختم، کئی ماہ تک جلی اور کھانے کی ترسیل بھی
پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی

ایک حیران کن میڈیکل بریک تھرو کے طور پر امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایک نئی غیر اوپیئڈ درد کش دوا سوزیٹریجین کی منظوری دے دی ہے، جو درد کے علاج میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ منظوری اس شاندار سائنسی دریافت کا نتیجہ ہے جس میں ایک پاکستانی خاندان کی منفرد جینیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا، جن کے افراد جلتی ہوئی آگ پر بے درد چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس خاندان کے افراد کے جسم میں ایک ایسا جین موجود نہیں تھا جو درد کے سگنلز کو فعال کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید گرمی اور جلنے کے احساس سے بچ جاتے تھے۔ سوزیٹریجین پچھلے بیس سالوں میں درد کی پہلی نئی قسم کی دوا ہے۔ ایف ڈی اے کی جانب سے جمعرات کو اس دوا کی منظوری ایک تاریخی سنگ میل ہے، جو اوپیئڈز کے متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اوپیئڈز عام طور پر درد کو کم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان میں نشے کی لت اور انحصار کا خطرہ ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کا طریقہ کار مختلف ہے، یہ دوا درد کے سگنل دینے والی اعصابی رگوں کو فعال ہونے سے روکتی ہے جس سے دماغ تک درد کا پیغام ہی نہیں پہنچتا۔ یہ بھی پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی اس دوا کی دریافت کا آغاز ایک شاندار جینیاتی مشاہدے سے ہوا۔ پاکستانی خاندان کے افراد کو دیکھ کر محققین نے پایا کہ یہ لوگ آتش چمچوں اور گرم کوئلوں پر چلنے میں کامیاب ہیں، جبکہ ان میں معمولی ترین درد کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان افراد کے جسم میں وہ جین نہیں ہے جو درد کے سگنل کو فعال کرتا ہے۔ یہی جینیاتی خصوصیت اس دوا کی بنیاد بنی، جس نے اس مخصوص سوڈیم چینل کو ہدف بنایا جو درد کی ترسیل میں ملوث ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کی تشکیل کے بعد اس کے کلینیکل ٹرائلز 600 سے زائد مریضوں پر کیے گئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ دوا سرجری کے بعد درد کو مؤثر طریقے سے کم کرتی ہے۔ اگرچہ یہ معجزاتی علاج نہیں ہے تاہم اس نے درد کی شدت کو 0-10 کے پیمانے پر تقریباً 3.5 پوائنٹس تک کم کر دیا، جو ویکوڈن جیسے عام اوپیئڈ درد کش دوا کے اثرات کے مساوی تھا۔ تاہم، یہ دوا دائمی درد جیسے سیاٹیکا کے لیے اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی۔ سوزیٹریجین کی ترقی ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا اوپیئڈ بحران سے دوچار ہے۔ تقریباً 80 ملین امریکی ہر سال درد کش ادویات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ اوپیئڈز ہیں، جو اکثر نشے کا سبب بنتے ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری ایک قدم آگے کی جانب ہے کیونکہ یہ اوپیئڈز کا ایک محفوظ متبادل پیش کرتی ہے۔ اس دوا کی قیمت 15.50 ڈالر فی گولی رکھی گئی ہے جو کہ مریضوں کے لیے ایک چیلنج ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس کی افورڈبیلٹی اور انشورنس کوریج اس کے استعمال میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ضرور پڑھیں: دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟ خوش قسمتی سے مریضوں کے لیے معاونت کے پروگرامز بھی موجود ہیں جو دوا کی قیمتوں میں کمی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری نے درد کے علاج کے ماہرین کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی ہے کیونکہ یہ ایک اور آپشن فراہم کرتی ہے جو اوپیئڈز کے خطرات سے بچا سکتی ہے۔ اس کی کامیابی نہ صرف درد کش ادویات کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی لائے گی بلکہ ممکنہ طور پر اوپیئڈ بحران کے خاتمے کی جانب بھی ایک اہم قدم ہو سکتی ہے۔ اس دوا کی جینیاتی بنیاد پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیتوں سے جڑی ہوئی ہے اور اس نے عالمی سطح پر درد کش ادویات کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔ آنے والے سالوں میں، سوزیٹریجین مزید تحقیق کے ذریعے دوسرے درد کے مسائل جیسے ذیابیطس کی نیوروپیتھی کے لیے بھی ایک موثر علاج بن سکتی ہے۔ ایک نئی اور محفوظ درد کش دوا کے طور پر سوزیٹریجین کی آمد کا مطلب ہے کہ درد کے علاج کے لیے مریضوں کے پاس اب ایک بہتر، غیر اوپیئڈ آپشن ہوگا، جو نہ صرف درد کو کم کرے گا بلکہ انحصار اور نشے کے خطرات سے بھی محفوظ رکھے گا۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟
غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے مغربی پٹی پر حملے، کئی عمارتیں منہدم، متعدد شہادتوں کا خدشہ

اسرائیلی فوج نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے جنین پر بیک وقت کئی حملے کر کے درجنوں عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ فلسطینی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے جینن پناہ گزین کیمپ میں کی گئی وحشیانہ کارروائی کے نتیجے میں 20 سے زائد عمارتیں زمین بوس ہو گئی ہیں، جب کہ متعدد شہادتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فورسز کی اس وحشیانہ کارروائی سے مغربی کنارے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی جانب سے جاری کردہ فوٹیج میں شہر میں پھاڑتے ہوئے دھماکوں کا سلسلہ دکھایا گیا، جس میں آسمان پر دھویں کے لمبے لمبے شعلے اٹھ رہے تھے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فورسز نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد 21 جنوری سے مغربی کنارے میں وحشیانہ کارروائیوں کا آغاز کیا ہوا ہے، جس میں ہیلی کاپٹروں اور بھاری توپ خانے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے الزام عائد کیا کہ دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کے طور پر استعمال ہونے والی عمارتوں کو مسمار کیا گیا ہے، جب کہ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جنین گورنمنٹ اسپتال کے ڈائریکٹر وسام بیکر نے کہا ہے کہ دھماکوں کے نتیجے میں اسپتال کے ایک بڑے حصے کو نقصان پہنچا ہے، لیکن اسپتال میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق جینن میں اسرائیلی فوجی آپریشن میں اب تک 27 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ایک دو سالہ بچی، ایک 73 سالہ بزرگ اور ایک 16 سالہ لڑکا بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2023 کو غزہ کی جنگ کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیلی حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک مغربی کنارے میں 845 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ اس سے قبل کے ایک سال میں یہ تعداد 253 تھی۔ حماس نے اتوار کو جنین میں عمارتوں کی مسماری کے بعد اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ہے، جب کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ آپریشن مکمل ہونے تک سیکیورٹی فورسز علاقے میں موجود رہیں گی، جب کہ انھوں نے آپریشن مکمل ہونے کی کوئی تفصلات فراہم نہیں کی ہیں۔ غزہ میں آئی ڈی ایف نے کہا ہے کہ ایک اسرائیلی طیارے نے مغربی کنارے میں ایک گاڑی پر فائرنگ کی ہے، جو کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ جاری کردہ بیان میں آئی ڈی ایف نے کہا کہ وہ کسی بھی منظر نامے کے لیے تیار ہے اور اپنے فوجیوں کو درپیش فوری خطرات کو ناکام بنانے کے لیے کوئی بھی ضروری کارروائی جاری رکھیں گے۔ خیال رہے کہ یہ دونوں حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں، جب اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو اتوار کو امریکہ کے لیے روانہ ہوئے ہیں، وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے گئے ہیں۔ آر آئی اے کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق دوسری حماس کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مرزوق پیر کو روس کے دارالحکومت ماسکو کا دورہ کرنے والے ایک وفد کی قیادت کریں گے۔ دوسری جانب روس نے طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں حکومتوں اور گروپوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، جن میں اسرائیل، ایران، لبنان اور فلسطینی اتھارٹی شامل ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے جنین میں مختلف سڑکوں پر رکاوٹیں اور چوکیاں قائم کر دی ہیں۔ فوجی آپریشن کے دوران 100 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اسرائیلی فوج کی ان تازہ ترین کارروائی نے مغربی کنارے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے سخت ردعمل دینے کا اعلان کیا ہے، جس کے باعث خطے میں مزید جھڑپوں اور خونریزی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
سعودی عرب سے بے گناہ خاندان کی رہائی: انٹرنیشنل ڈرگ گینگ کے 9 ملزمان گرفتار

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی خصوصی ہدایت پر، پاکستان کی انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے ایک بین الاقوامی منشیات اسمگلنگ گینگ کو بے نقاب کر دیا اور اس کے 9 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ یہ کارروائی ایک بے گناہ پاکستانی خاندان کی مدد کے لیے کی گئی، جو سعودی عرب میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار ہو گیا تھا، حالانکہ ان کا ان سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کیس نے نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون کو اجاگر کیا بلکہ اے این ایف کی بہترین تحقیقاتی صلاحیتوں کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے مرغزار کالونی کی رہائشی فرحانہ اکرم اور ان کے 4 اہل خانہ 23 دسمبر کو سعودی عرب سیاحتی ویزا پر گئے۔ جب یہ خاندان سعودی عرب پہنچا، تو انھیں ایک چونکا دینے والے واقعے کا سامنا کرنا پڑا۔ فرحانہ اکرم کے بیگ کا ٹیگ کسی نامعلوم شخص نے تبدیل کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے سامان میں منشیات کا ایک قیمتی ذخیرہ چھپایا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: پتنگ بازی کرنے والے کے والد کے خلاف مقدمہ، سڑک پر پٹائی اور گھر مسمار کرنے کی وارننگ 30 دسمبر کو سعودی حکام نے انہیں گرفتار کر لیا اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ان کی غیر موجودگی نے ان کے گھر والوں کو شدید ذہنی اور جذباتی اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ دوسری جانب قومی ادارے اے این ایف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کی ذاتی نگرانی میں اس کیس پر کام شروع کیا گیا، جس کے نتیجے میں سعودی عرب کی حکومت اور پاکستانی حکام کے درمیان بہتر تعاون کا آغاز ہوا۔ اے این ایف نے اپنی تفتیشی ٹیم کو فوری طور پر متحرک کر دیا۔ ٹیم نے سعودی عرب میں تمام انٹری اور ایگزٹ پوائنٹس کی ویڈیوز اور تصاویر کا جائزہ لیا اور ایک پورٹر کو گرفتار کیا۔ اس سے حاصل ہونے والی معلومات نے اس بین الاقوامی ڈرگ گینگ کے سرغنہ اور اس کے ساتھیوں کا سراغ لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اے این ایف نے ان تمام شواہد کو سعودی حکام کے ساتھ شیئر کیا، جس کے بعد سعودی عرب میں گرفتار کیے گئے پانچ پاکستانی خاندان کے افراد کو رہائی ملی۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس کامیاب کارروائی پر اے این ایف کی ٹیم کی بھرپور تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “اے این ایف نے جو محنت کی ہے، اس کی بدولت ایک بے گناہ خاندان کو جیل کی سلاخوں سے آزاد کرایا گیا ہے، اور انٹرنیشنل ڈرگ گینگ کا قلع قمع کیا گیا ہے۔” یہ بھی پڑھیں: ‘قوم کا مستقبل محفوظ بنائیں گے’ وزیراعظم نے سال کی پہلی انسداد پولیو مہم کا آغاز کر دیا انہوں نے مزید کہا کہ “سعودی حکام کا تعاون بے حد اہم تھا، اور ان کی مدد کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہیں تھی۔” وزیر داخلہ نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ فرحانہ اکرم اور ان کے خاندان کے افراد نے وزیر داخلہ اور اے این ایف کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ “ہمیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا کہ ہم کتنے شکر گزار ہیں۔” اے این ایف کی اس کامیاب کارروائی نے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی حکام اپنے شہریوں کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیں، اور انٹرنیشنل سطح پر جرائم کے خلاف لڑنے میں کسی بھی تعاون سے دریغ نہیں کرتے۔ اس کیس کی کامیابی نہ صرف ایک خاندان کی آزادی کی علامت ہے بلکہ اس نے عالمی سطح پر منشیات کے خلاف جنگ کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ضرور پڑھیں: سب راستے بند کردیے جائیں تو خوددار قومیں شمشیر کا راستہ اپناتی ہیں، حافظ نعیم کا مظفر آباد میں خطاب
“امریکی اقدام قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے” چین کا امریکہ کے خلاف ڈبلیو ٹی او سے رجوع کرنے کا اعلان

چین کی وزارتِ تجارت (ایم او سی) نے امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر اضافی 10 فیصد محصولات عائد کرنے کے فیصلے پر شدید عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین امریکہ کے اس اقدام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ ترجمان چینی وزارت تجارت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کا یہ یکطرفہ اقدام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ٹیرف کے اس نئے فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تجارتی تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چین امریکہ کے اس غلط اقدام کے خلاف ڈبلیو ٹی او میں شکایت درج کرائے گا اور اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری جوابی اقدامات کرے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ چین امریکی حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے فینٹینائل اور دیگر مسائل کو معروضی اور منطقی انداز میں دیکھے اور دوسرے ممالک کو دباؤ میں لانے کے لیے ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بند کرے۔ یاد رہے کہ فینٹینل ایک مہلک مصنوعی افیون اور کوکین کے خواص پر مشتمل جزو ہے، جو ہیروئن سے 50 گنا زیادہ طاقتور ہے، جس کے امریکہ میں استعمال سے کئی افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ چینی وزارتِ تجارت نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو درست کرے اور چین کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات کرے۔ ترجمان نے کہا کہ اضافی محصولات نہ صرف دو طرفہ تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کریں گے۔ چین نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسداد منشیات کے شعبے میں حاصل ہونے والی مثبت پیش رفت کو برقرار رکھے اور دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم، متوازن اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے تعمیری رویہ اپنائے۔ دوسری جانب واشنگٹن میں چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے امریکی فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔ ترجمان چینی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ چین کا مؤقف ہمیشہ سے واضح اور مضبوط رہا ہے، یہ بات واضح رہے کہ تجارتی اور ٹیرف کی جنگوں میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت چین سے درآمد کی جانے والی تمام اشیا پر 10 فیصد اضافی محصولات عائد کر دیے گئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ نیا ٹیرف پہلے سے موجود محصولات کے اوپر بھی لاگو ہوگا۔ دوسری جانب ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکہ نے میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھی 25 فیصد محصولات عائد کر دیے ہیں، جب کہ کینیڈا سے توانائی کی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔