April 17, 2025 11:53 am

English / Urdu

امریکی اسلحہ: افغانستان کے بازاروں میں بکنے لگا

کابل میں واقع ’مجاہدین بازار‘ ایک ایسا مقام ہے جہاں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد چھوڑے گئے اسلحے کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ بازار ہمیشہ سے جنگ اور عسکری سازوسامان کی خرید و فروخت کے لیے مشہور رہا ہے، لیکن اب یہاں موجود سامان نہ صرف مقامی جنگجوؤں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ طالبان کی حکومت کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بازار ہر روز کئی اقسام کے اسلحے، گولہ بارود، اور فوجی سازوسامان سے بھرپور نظر آتا ہے۔ یہ کابل کا سستا اسلحہ بازار ہے۔ یہ سامان افغان جنگ کے دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے استعمال کیا گیا تھا۔ جب امریکا نے 2021 میں افغانستان سے اپنے فوجی انخلا کا آغاز کیا، تو بڑے پیمانے پر فوجی سامان، ٹینک، ہیلی کاپٹر، اسلحہ اور دیگر ضروری سامان کابل اور دیگر شہروں میں چھوڑا گیا۔ اس سامان کا بیشتر حصہ اب ’مجاہدین بازار‘ میں دستیاب ہے، جہاں اسے مختلف گروپوں اور افراد کے ذریعے خرید اور بیچ لیا جاتا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں اپنے پچھلے بیس برسوں کی مہنگی ترین جنگ لڑی جس میں تقریبا دو کھرب تیس ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ افغانستان سے انخلاء کے وقت امریکا نے اپنا زیادہ تر سازو سامان تباہ کردیا تھا مگر اس کے باوجود تقریبا سات ارب ڈالر کا سازو سامان اور اسلحہ پیچھے رہ گیا۔ ان میں سے زیادہ تر سامان اب افغانستان کے استعمال میں ہے ۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے حال ہی میں اس مارکیٹ سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ سامان نہ صرف طالبان کے ہاتھ میں جا رہا ہے بلکہ اس کا استعمال دیگر مسلح گروپوں کے لیے بھی ممکن ہے۔ اس فوجی سامان کی مارکیٹ میں قیمتیں مناسب ہونے کی وجہ سے مقامی جنگجوؤں کی نظر میں یہ ایک منافع بخش موقع ہے۔ بی بی سی کی ٹیم نے اس بازار کا دورہ کیا اور یہاں کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ جہاں ایک طرف یہ بازار افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے اہمیت رکھتا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے عالمی سیکیورٹی پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کابل کے اس بازار میں مختلف اقسام کے ہتھیاروں کے علاوہ، امریکا کی جانب سے چھوڑا گیا مختلف فوجی سازوسامان اور گاڑیاں بھی دستیاب ہیں۔ جنگی طیارے، بکتر بند گاڑیاں، اور جدید ترین مواصلاتی آلات یہاں عام ملتے ہیں۔ یہاں کی قیمتوں کا دارومدار اسلحہ کی حالت اور اس کی نوعیت پر ہوتا ہے، تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس مارکیٹ کا کردار افغان سیاست اور عالمی سیکیورٹی کے تناظر میں ایک اہم موڑ اختیار کر چکا ہے۔ یوں کابل کا یہ ’مجاہدین بازار‘ صرف افغانستان کے اندر ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کا سبب بن چکا ہے، کیونکہ اس کے اثرات سے ناصرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔  

شمع ماڈل اسکول منچن آباد: معصوم بچی پر تشدد، والدین کی تین ماہ سے انصاف کی دہائیاں

وہ ایک معمولی سی صبح تھی، جب بہاولنگر کی تحصیل منچن آباد کے شمع پبلک اسکول میں محمد ریاض نے اپنی آٹھ سالہ بیٹی امِ ایمن کو بھیجا، دل میں یہ خیال تک نہ تھا کہ آج کا دن ان کی زندگی کا سب سے کربناک دن بننے جا رہا ہے۔ امِ ایمن کی مسکراہٹ، اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں، وہ سب کچھ ایک لمحے ختم ہونے جا رہا ہے۔ تقریبا11 بجے اسکول پرنسپل کی کال آئی کہ آپ جلدی آ جائیں آپ کی بچی بے ہوش ہوگئی ہے۔ محمد ریا ض کا دل ڈوب گیا، جیسے آنکھوں کے سامنے اندھیرہ چھا گیا ہو۔ آٹھ سالہ ایک معصوم بچی، جس نے محض پانی مانگا تھا اور اس جرم میں اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قیمت چکائی۔ محمد ریاض اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسکول پہنچے تو جو منظر ان کے سامنے آیا، وہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ امِ ایمن اپنی کلاس میں بینچ پر بے ہوش پڑی ملی۔ کلاس میں موجود باقی بچوں سے بات کرنے پر انھیں پتہ چلا کہ ٹیچر عائشہ منظور نے امِ ایمن کو ساتھی طلبا سے پانی مانگنے پر سر پہ ایک موٹی جلد والی کتاب دے ماری، یہی وہ لمحہ تھا جب ان کی بچی بے ہوش ہو گئی۔ محمد ریاض کی آنکھوں میں خوف تھا، لیکن ساتھ ہی غصہ بھی تھا۔ ہم نے اپنی بچی کو تعلیم کے لیے بھیجا تھا، کیا اس کا حق یہی تھا؟ ان کی آواز میں بے بسی اور غم تھا، امِ ایمن کی والدہ کی آواز میں اتنا دکھ تھا کہ الفاظ بھی ہچکچا گئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنی بچی کو اسکول بھیجا تھا، تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کچھ بنے، لیکن اب یہ سب کیا ہو گیا؟ ان کی آواز میں ایک درد تھا جو کہ صرف ایک ماں محسوس کر سکتی ہے۔ اس کی ماں نے کہا کہ جب میری بیٹی اسکول جاتی تھی، اس کے چہرے پر ایک معصوم سی مسکراہٹ ہوتی تھی اور اس کی ہنسی ہمارے گھر کا سکون تھی۔ وہ کھیلتی تھی، دوڑتی تھی اور ہر لمحے میں خوشی تلاش کرتی تھی، مگر اب وہ منظر آنکھوں سے کوسوں دور ہو چکا ہے۔ وہ بچی جو ہنستی تھی، آج وہ درد میں ڈوبی ہوئی ہے۔ میں ہر دن اپنے دل میں اس کی ہنسی کی آواز سننا چاہتی ہوں، ہمیں انصاف چاہیے، تاکہ ام ایمن پھر سے ویسے ہی مسکرا سکے جیسے تین ماہ قبل وہ مسکراتی تھی۔ جب انہوں نے پرنسپل سے اس معاملے پر بات کی، تو ان کا ردعمل شاکنگ تھا۔ پرنسپل نے کہا ‘ہمیں تمہاری شکایت کا کوئی فرق نہیں پڑتا، جو کرنا ہے کر لو، ہمیں نہیں ڈرایا جا سکتا!’ پرنسپل کا یہ رویہ محمد ریاض کے لیے بالکل نئی حقیقت تھی۔ محمد ریاض نے مزید بتایا کہ پرنسپل نے یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے ہمیں دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور ہمیں اسکول سے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ مقامی صحافی منان پراچہ نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ’یہ واقعہ تیس اکتوبر کو پیش آیا تھا اور ہمیں اس کے بارے میں پندرہ دن بعد معلوم ہوا سکول نے بچی کی حالت پر پردہ ڈالا اور جب محکمہ تعلیم نے اسکول کو سیل کیا تو اس وقت حقیقت سامنے آئی۔’ مزید یہ کہ ‘بچی کے والدین نے کہا کہ ان کی بچی دماغی طور پر معذور ہو رہی ہے اور وہ انصاف کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔’ منان نے کہا کہ ‘جب ہم نے اسکول انتظامیہ سے بات کی تو وہ انکار کرتے رہے، تاہم آف دی ریکارڈ ان سے یہی بات سننے کو ملی کہ یہ واقعہ حقیقت میں پیش آیا تھا۔ پاکستان میٹرز نے شمع ماڈل اسکول کے پرنسپل فرحان شاہ سے رابطہ کیا اور سوالات کیے تو انہوں نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمیں بدنام کرنے اور بلیک میل کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے، جس میں ہم کسی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔  انہوں نے دعوٰی کیا کہ یہاں کے چند مقامی صحافیوں نے ان سے پیسے مانگے انکار پر انہوں نے یہ پراپیگنڈا کیا ہے۔ بچی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق وہ بالکل ٹھیک ہے اور شام کے وقت کہیں قرآن پاک پڑھنے جاتی ہے۔ واضح رہے کہ اسکول انتظامیہ نے اس واقعے کے حوالے سے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور اس معاملے کو بدنامی اور بلیک میلنگ کی کوشش قرار دیا ہے۔ پرنسپل فرحان شاہ نے کہا ہے کہ اسکول کے خلاف اٹھائے جانے والے سوالات بے بنیاد ہیں اور انہوں نے 50 لاکھ روپے کے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مقامی صحافیوں نے اسکول سے پیسے مانگے تھے اور انکار پر یہ الزام لگایا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچی کے صحت کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک ہے اور کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے۔ اس دعوے کا مقصد ان الزامات کو رد کرنا ہے جو اسکول کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ اس حادثے کو تین مہینے گزر چکے ہیں، مگر امِ ایمن کے والدین کی دعائیں ابھی تک بے اثر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ابھی تک وہی خوف اور بے بسی ہے جو اُس دن تھا، جب ان کی بچی بے ہوش پڑی تھی۔ وہ اس وقت سے لے کر آج تک حکام کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، مگر کوئی بھی ان کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے دلوں میں ایک ہی سوال ہے ‘کیا ہماری بچی کا حق صرف اسی قدر ہے؟’ ان کا ہر دن ایک نئی مایوسی کے ساتھ گزرتا ہے اور ہر رات وہ خواب دیکھتے ہیں کہ کہیں ان کی آواز سن کر انصاف کی کرن چمکے، لیکن ابھی تک وہ کرن کہیں دکھائی نہیں دی۔ امِ ایمن کے معاملے نے نہ صرف ایک بچی کی زندگی کو متاثر کیا، بلکہ پورے تعلیمی نظام کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ تین ماہ گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی واضح پیشرفت نہیں

سہ ملکی کرکٹ سیریز کے لیے سخت سکیورٹی: محکمہ داخلہ نے منظوری دے دی

پاکستان، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقا کی کرکٹ ٹیموں کے مابین کھیلی جانے والی سہ ملکی کرکٹ سیریز کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ وفاقی وزارت داخلہ نے 5 سے 10 فروری کیلئے لاہور میں آرمی اور رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دیدی۔ لاہور میں کرکٹ میچز کے دوران پاکستان آرمی اور پاکستان رینجرز پنجاب کی 1، 1 کمپنی تعینات ہو گی۔ آٹھ اور دس فروری کے میچز قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلے جائیں گے۔ ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق محکمہ داخلہ نے پولیس کی درخواست پر وفاقی حکومت کو مراسلہ لکھا تھا۔ لاہور میں دو میچز کے بعد 12 اور 14 فروری کے میچز کراچی میں کھیلے جائیں گے۔ یاد رہے کہ پنجاب پولیس کی درخواست پر محکمہ داخلہ پنجاب نے وفاقی حکومت کو مراسلہ لکھا جس کے جواب میں پاک فوج اور رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دی گئی ہے۔ پاکستان، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کے درمیان ہونے والی یہ سیریز آٹھ سے چودہ  فروری تک کھیلی جائے گی۔ اس ایونٹ کے پہلے 2 میچز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں منعقد ہوں گے جبکہ باقی 2 میچز کراچی کے نیشنل بینک اسٹیڈیم میں کھیلا جائیں گے۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 سے پہلے یہ پاکستان کی آخری سیریز ہوگی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سہ فریقی سیریز اور چیمپئنز ٹرافی کے لیے ٹیم کا اعلان کر دیا ہے۔ نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقا پاکستان میں دو، دو میچز کھیلیں گے۔ چیمپئنز ٹرافی سے پہلے دونوں ٹیمیں پاکستانی سرزمین پر کھیل کر پاکستانی گراؤنڈز کا تجربہ حاصل کریں گی۔

’بلوچستان میں دہشت و شر کی فضا پھیلانے والے عناصر ترقی کے دشمن ہیں‘ وزیر اعظم

وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف خصوصی دورے کے لیے کوئٹہ پہنچ گئے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف دہشت گردوں سے بہادری سے لڑنے والے زخمی اہلکاروں کی عیادت کے لیے سی ایم ایچ کوئٹہ  گئے۔ وزیر اعظم نے نڈر جوانوں کے جذبے اور غیر متزلزل عزم کی تعریف کی۔ نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ اور وزیرِ بجلی اویس لغاری بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ ہیں۔خصوصی دورے کے دوران وزیرِ اعظم کو امن و امان کی موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ دی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ “دہشت گردی کے ناسور کے ملک سے مکمل خاتمے کے لیے افواج پاکستان اور پاکستانی عوام شانہ بشانہ کھڑے ہیں”۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نے 31 جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں عسکریت پسندوں کے حملے زخمی ہونے والے اہلکاروں کی سی ایم ایچ کوئٹہ میں عیادت کے موقع پر کیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کوئٹہ آمد کے بعد وزیر اعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے ہمراہ سی ایم ایچ کوئٹہ پہنچے۔ انہوں نے جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “آپ سب قوم کے ہیرو ہیں اور پوری قوم کو اپنے بہادر نوجوانوں پر فخر ہے۔ دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا”۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “بلوچستان میں دہشت و شر کی فضا پھیلانے والے عناصر بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ “بلوچستان کے عوام کے تحفظ کے لیے سکیورٹی فورسز شر پسند عناصر کے سد باب کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں”۔  انہوں نے مزید کہا کہ “دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لیے افواجِ پاکستان اور عوام شانہ بشانہ ہیں۔ دہشت اور بدامنی پھیلانے والے عناصر ترقی کے دشمن ہیں۔ بلوچستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کے خلاف ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے”۔

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025: روی شاستری نے فائنلسٹ ٹمیوں کی پیش گوئی کر دی

انڈیا کے سابق کرکٹر اور معروف کمنٹیٹر روی شاستری نے آئی سی سی ریویو میں پیش گوئی کی ہے کہ آسٹریلیا اور انڈیا وہ دو ٹیمیں ہیں جو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچ سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا اور آسٹریلیا دونوں ایسی ٹیمیں ہیں جو بڑے ایونٹ میں ہمیشہ بہترین کارکردگی دکھاتی ہیں۔ تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو یہ ٹیمیں فائنل میں جانے کی قابلیت رکھتی ہیں۔ اس وقت وونوں ٹیموں کے پاس عمدہ کھلاڑی ہیں جو کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ 62 سالہ کرکٹر نے کہا کہ اس کے علاوہ جنوبی افریقا اور انگلینڈ سیمی فائنل کھیل سکتی ہیں۔ آئی سی سی ریویو میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا اور انڈیا فائنل میں جا سکتی ہیں ۔ لیکن انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ پاکستانی ٹیم دونوں ٹیموں کے لیے چیلنچ بن سکتی ہے۔ یاد رہے پچھلے آئی سی سی ورلڈ کپ کا فائنل بھی انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا تھا جس میں آسٹریلیا نے انڈیا کو شکست دینے ہوئے ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ ایونٹ کا آغاز19 فروری کو کراچی میں ہوگا جبکہ اختتام  9 مارچ کو ہوگا، چیمپنئز ٹرافی کا میزبان پاکستان ہے، انڈین ٹیم کے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے انڈیا کے تمام میجز دبئی میں ہوں گے ۔ بقیہ میچز پاکستان کے شہروں لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں ہوں گے۔

کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ کو ایک کروڑ ای میلز بھیجنے کا سلسلہ شروع

اسلام آباد میں منعقدہ کشمیر کانفرنس کے دوران جماعتِ اسلامی نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک کروڑ ای میلز بھیجنے کی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بذاتِ خود ای میل کر کے مہم کا باضابطہ آغاز کیا، جس کے بعد سینیئر سیاستدان مشاہد حسین سید سمیت دیگر مندوبین نے بھی اقوام متحدہ کو ای میلز ارسال کیں۔ کانفرنس میں پاکستانی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ حریت کانفرنس کی قیادت، سابق وزیرِاعظم آزاد کشمیر سردار عتیق اور بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط بھی شریک رہے۔ مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری کو بیدار کرنے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔ یہ مہم دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کو ای میلز بھیجنے کی ترغیب دے گی تاکہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو مزید اجاگر کیا جا سکے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے قومی کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ ایک نامکمل ایجنڈا ہے، جسے مکمل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اور تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والا خطہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی انتہا کر رکھی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ بھارت مسلسل کشمیریوں کی آواز دبا رہا ہے اور اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے منظور شدہ قراردادوں کو بھی تسلیم نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے اور ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جماعت اسلامی مسلسل کشمیر کا مقدمہ حکومت کے سامنے رکھے گی۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے قومی کشمیرکانفرنس سے اختتامی خطاب میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے،کشمیریوں کوظلم پرآوازاٹھانے پردبایا جارہا ہے، بھارت کشمیریوں کے ساتھ جو کررہا ہے وہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت  اپنے ہی شہریوں دلتوں سکھوں سمیت باقیوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کر رہا ہے، سوڈان کا مسئلہ ہوتو فوری حل ہوجاتا ہے کشمیر پر اقوام متحدہ خاموش ہے، امریکہ اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی کر رہا ہے۔    View this post on Instagram   A post shared by Pakistan Matters (@pkmatters) کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت صرف کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی، کشمیریوں کو اپنی آزادی کیلیے لڑنے کا حق اقوام متحدہ دے چکی ہے، کشمیریوں کو عسکری مزاحمت کا حق بھی اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے۔  ’کشمیریوں کو عسکری مزاحمت کا حق اقوام متحدہ کا چارٹردیتا ہے‘ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں انڈیا اور پاکستان نے قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا، لیکن انڈیا اس قرارداد سے مکر گیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اب تک 17 قراردادیں ہوچکی ہیں، جن کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو سکا۔ انڈیا اقوامِ متحدہ کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے اور کشمیریوں کے حقوق کی مسلسل پامالی کررہا ہے۔اب وقت کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر عالمی سطح پر لے جایا جائے اور کشمیریوں کے حق کے لیے آواز اٹھائی جائے۔ کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت صرف کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی، کشمیریوں کو اپنی آزادی کیلیے لڑنے کا حق اقوام متحدہ دے چکی ہے، کشمیریوں کو عسکری مزاحمت کا حق بھی اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھی بزور شمشیر ہی آزاد ہوگا،فلسطین کی مثال طاقت کے بغیر مذاکرات نہ ہونا ثابت ہوچکی ہے، سات اکتوبر کے طوفان الاقصٰی آپریشن نے اسرائیل کو مذاکرات پر مجبور کیا،حماس کے اقدامات نے فوجی ماہرین کو ناکام ثابت کیا ہے۔ بھارت اور اسرائیل ایک جیسے ہیں، عالمی قوانین کشمیریوں کو مسلح مزاحمت کی اجازت دیتے ہیں: مشاہد حسین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کشمیر کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل ایک جیسے ہیں، دونوں نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ عالمی قوانین کے تحت کشمیریوں کو اپنی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ عالمی برادری کو فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور اسرائیل کی گٹھ جوڑ سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے، جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مشاہد حسین سید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ “ہمارے ہیروز بھارت کے ولن ہیں اور بھارت کے ہیروز ہمارے ولن ہیں۔” لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آج کچھ لوگ مودی کے ساتھ ایک صفحے پر آگئے ہیں، اور وہ محمود غزنوی کو لٹیرا اور احمد شاہ ابدالی جیسے عظیم مسلم ہیروز پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ہم ہندوستان کے بارے میں اپنی پوزیشن بہت واضح رکھتے ہیں کہ ’ہندوستان اور اسرائیل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھتا ہے اور بھارت اکھنڈ بھارت کی بات کرتا ہے‘۔ یہ جو دہشت گردی کی بات کی جاتی ہے، وہ ہمارے مجاہدین ہیں بلکہ حریت پسند ہیں، جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑی۔ اور یہ انٹرنیشنل قوانین کے مطابق ان کی مسلح جدوجہد جائز ہے، جس کی تائید خود چین نے 2024 میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کی۔ چینی مندوبین نے اس موقف کو عالمی سطح پر تسلیم کیا تھا اور تمام ممالک نے اس پر اپنے بیانات دیے تھے۔ قومی کشمیر کانفرنس میں نائب امیر جماعت لیاقت بلوچ، سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق خان ، آصف لقمان قاضی ، میاں محمد اسلم، عبداللہ گل،  ڈاکٹر مشتاق خان ، عبدالرشید ترابی، رہنما پاکستان پیپلز پارٹی نیر بخاری اور مقبوضہ کشمیر سے رہنما

دوسرے صوبوں سے تین ججوں کی اسلام آباد منتقلی: لاہور ہائی کورٹ بار کا احتجاج

اسلام آباد کی تینوں بار کونسلز نے لاہور، بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹس سے تین ججوں کی اسلام آباد ہائی کورٹ منتقلی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ بار کونسلز کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ججوں کی منتقلی کا نوٹیفیکیشن واپس لیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار، اسلام آباد بار کونسل اور ڈسٹرکٹ کورٹس ایسوسی ایشن کی مشترکہ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے اس خط کے ساتھ ہیں جس میں ملک کی دوسری ہائی کورٹس سے ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہی لگایا جائے۔ واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے دو روز قبل لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کر دیا تھا جبکہ اس سے ایک روز قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے دوسری ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس بنانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ صدر زرداری نے آئین کے آرٹیکل 200 کی شق (ون) کے تحت تینوں ججوں کے تبادلے کیے ہیں جس کا نوٹی فکیشن وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹی فکیشن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، سندھ ہائی کورٹ سے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد آصف کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق صدر ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکتے ہیں، لیکن جج کو ان کی رضامندی اور صدر کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بعد منتقل کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسڑار آفس کی جانب سے جاری ججز روٹا کے مطابق ٹرانسفر ہونے والے ججز آج مختلف مقدمات کی سماعت کریں گے۔ جسٹس سرفراز ڈوگر سینیئرز میں دوسرے نمبر ہر آگئے ہیں جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی اب سینیئرز میں تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار نے ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر پر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ ‏وکلا ارجنٹ کیسز کے بعد عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔

عالمی بینک کا داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے 1 ارب ڈالر قرض کی فراہمی کا اعلان

عالمی بینک نے پاکستان کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 1 ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی، قرض کی یہ رقم داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے استعمال کی جائے گی۔ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق وزارت برائے اقتصادی امور (ای اے ڈی) کے سینئر عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ ورلڈ بینک باضابطہ طور پر داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے ایک ارب ڈالر کا نیا قرض فراہم کرے گا۔ یہ قرض 1.7ٹریلین روپے کی لاگت سے ترمیم شدہ پی سی 1 کی منظوری کے بعد دیا جائے گا، جس میں نئے ٹائم لائنز شامل کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق زمینی حصول میں تاخیر، سکیورٹی خدشات اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے سے منصوبے کے پہلے مرحلے کی لاگت190.1فیصد اضافے کے ساتھ 586 ارب روپے سے بڑھ کر 1700ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔   واضح رہے کہ پہلے مرحلے کا یہ منصوبہ 2160 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا، جب کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد یہ4320 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ دوسری جانب واپڈا نے منصوبے کا ترمیم شدہ پی سی 1 تیار کر لیا ہے، جو اب وزیر برائے آبی وسائل کے پاس موجود ہے اور جلد ہی منظوری کے لیے پلاننگ کمیشن کو بھیجا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس رقم سے پن بجلی کی فراہمی میں اضافہ ہوگا، جو کہ داسو ہائیڈرو پراجیکٹ کے فیز ون پر خرچ کی جائے گی۔ اس منسوبے سے سستی بجلی پیدا ہو گی، کیونکہ بجلی کی پیداوار کا سب سے سستا طریقہ پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا ہے، اس طرح سستی بجلی حاصل کرنے کے لیے دریاؤں پر ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ ملک میں اس وقت 3 بڑے منصوبوں جیسے دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔ خیال رہے کہ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں چین کے تعاون سے زیر تعمیر بجلی کی پیداوار کا سب سے بڑا قومی منصوبہ ہے، جس سے 4320 سے 5400 میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جائے گی۔ یہ منصوبہ مالی سال 2023-24 میں مکمل ہونا تھا، لیکن زمین کے حصول میں رکاوٹوں اور کورونا کی وبا کے باعث کام تاخیر کا شکار ہو گیا، اب اس کی تکمیل 2026-27 میں متوقع ہے۔

ٹوٹے پھوٹے ’عروس البلاد‘ میں نئے قبرستان بنیں گے

وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ” کراچی میں نئے قبرستان بنائے جائیں گے اور ان کے انتظام کو بہتر بنانے کے لئے سندھ حکومت ایک اتھارٹی بھی بنا رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کی ذمہ داری بلاشبہ ریاست کی ہے لیکن ہم وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ سہولیات نہیں دے پارہے ہیں اور المصطفی ویلفیئر سوسائٹی جیسے فلاحی ادارے اس میں ہماری بھرپور مدد کررہے ہیں جو قابل ستائش ہیں”۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز المصطفی ویلفیئر سوسائٹی کے تحت سرد خانے کی افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے المصطفی ویلفیئر سوسائٹی کے سرپرست اعلٰی سابق وفاقی وزیر حاجی محمد حنیف طیب، رکن سندھ اسمبلی آصف موسی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ قبل ازیں صوبائی وزیر سعید غنی نے 19 میتوں کی گنجائش والے جدید سرد خانے کا افتتاح کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ “المصطفیٰ ویلفئیر سوسائٹی طویل عرصے سے فلاحی کام کر رہی ہے۔ ان کے سرپرست اعلی حاجی محمد حنیف طیب کی کاوشوں اور انتھک شب و روز محنت کے سبب یہ ادارہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی فلاحی کاموں کےلیے مشہور ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ “اس ادارے کے تحت جو سہولیات فراہم کر رہے ہیں وہ معیاری ہیں۔ آج المصطفیٰ سرد خانے کا افتتاح کیا گیا ہے، جس میں بیک وقت 19 میتوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس کے علاوہ اس سوسائٹی کے تحت شہر میں 5 اسپتال اور 15 کلینک،  22 اسکول چلائی جارہی ہیں، بزرگ شہریوں کے لئیے بھی رہائش کے لئے سنئیر سیٹیزن ہوم بنایا گیا ہے تاکہ انہیں چھت مل سکے۔ یہ تمام سہولت بھی یہاں تقریبا مفت ہے”۔ سعید غنی نے کہا کہ “المصطفیٰ ویلفئیر سوسائٹی والوں کا یہ ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جو وہ اس شہر اور ملک کے لئے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں قبرستان اور اسپتال کے لئے زمین کی ضرورت ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ ہمارا ہاتھ بٹا رہے ہیں حکومت آپ کی مدد کرے گی، اسپتال یا قبرستان کی زمین کے لئے درخواست جمع کرادی ہے تو اس پر کارروائی ہوگی اور اگر نہیں کرائی تو بھی جمع کرادیں ہم ان کو بھرپور ساتھ دیں گے”۔ سعید غنی نے کہا کہ “وزیر اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ نے اس سلسلے میں ہمیشہ ہماری مدد فرمائی ہے اور ان سے بات کرکے ان کو زمین کے لئے ضرور مدد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس شہر میں نئے قبرستان بنائے جائیں گے اور ان کے انتظامات کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے ایک اتھارٹی بھی بنائی جائے گی۔ انہوں نے حاجی محمد حنیف طیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہماری جس مدد کی ضرورت ہوگی تو مدد کریں گے۔ ہم اپنے حصے کا کام اگر ٹھیک طرح نہیں کر پائے تو یہ کام آپ لوگ کر رہے ہیں اور ہماری مدد کررہے ہیں”۔ سعید غنی نے مزید کہا کہ “تعلیم اور صحت کے شعبے میں یہ جو کام کر رہے ہیں وہ ریاست اور حکومت کی ہے کہ شہریوں کو یہ سہولیات فراہم کرے، ہم وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ سہولیات نہیں دے پارہے ہیں،  المصطفی ویلفیئر سوسائٹی جیسے ادارے جو سہولیات فراہم کر رہے ہیں وہ معیاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں اتنے سرد خانے نہیں ہیں”۔

“دریائے سندھ سے نہریں نکالی گئیں تو پیپلز پارٹی شہباز شریف کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرے گی” ترجمان سندھ حکومت

پاکستان پیپلز پارٹی نے دریائے سندھ سے کینال نکالنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی دھمکی دے دی، کہا گیا کہ اگر دریائے سندھ سے کینال نکالی گئی تو وفاقی حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان سندھ حکومت نادر گبول نے کہا ہے کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو واضح کر دیا ہے کہ اگر دریائے سندھ سے کینال نکالے گئے تو وفاقی حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ ترجمان سندھ حکومت نادر گبول کے مطابق اگر دریائے سندھ سے کینال نکالے گئے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یہ حکومت نہیں رہے گی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی، جیسا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک چلائی گئی تھی۔ مزید یہ کہ سندھ کا کوئی شخص دریائے سندھ سے کینال نکالے جانے کو قبول نہیں کرے گا، کسی کو بھی سندھ کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس وفاقی حکومت نے گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت پاکستان ایریگیشن نیٹ ورک کے ٹیلی میٹری سسٹم کے نفاذ، ارسا پالیسی کی از سرِ نو تشکیل اور چھ نئی اسٹریٹیجک نہروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا۔ مجوزہ نہروں میں سندھ میں رینی نہراور تھر نہر، پنجاب میں چولستان نہر، گریٹر تھل نہر، بلوچستان میں کچھی نہر اور خیبر پختونخوا میں چشمہ رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) شامل ہیں۔ اس منصوبے کے خلاف گزشتہ برس سے سندھ میں سراپا احتجاج جاری ہے، کئی ریلیاں روزانہ کی بنیاد پر نکالی جا رہی ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز بس سروس کے کرایوں میں اضافہ ناگزیر تھا، فیصلہ کیا گیا ہے کہ صحافیوں اور طلبا کے مفت سفر کو یقینی بنایا جائے گا۔ نادر گبول نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی اب سیاست دم توڑ گئی، وہ اب خود کو میڈیا میں زندہ کرنا چاہ رہے ہیں، اسی لیے وہ بنا کسی وجہ کے پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں اور ایم کیو ایم کا پیشہ تو بوری بند لاشیں اور قتل و غارت رہا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں کئی بار ملک میں عدم اعتماد کی تحریکیں چلائی گئیں، جس سے حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ 2022 میں ملک کی بڑی جماعتوں کی جانب سے مہنگائی اور معاشی بدانتظامی کی وجہ تحریک عدم اعتماد چلائی گئی، جس سے پی ٹی آئی حکومت نے اپنا اختیار کھو دیا۔ دوسری طرف 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف ملک کی بڑی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کی، مگر وہ ناکام ہو گئی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں تحریکِ عدم اعتماد کا طریقہ کار 1973 کے آئین میں وضع کیا گیا تھا۔