“پیکا ایکٹ میں ایک شق بتا دیں جو متنازع یا قابل اعتراض ہو” عطا تارڑ کا تقریب سے خطاب

 وفاقی وزیر عطا تارڑ نے لاہور میں اے پی پی ایمپلائز یونین پنجاب کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صحافی بھائی احتجاج کر رہے ہیں لیکن پیکا قانون کو روکنے کا کیا جواز ہے؟ کیا غلط خبر چلانا بند نہیں ہونا چاہیے۔” مجھے ایک شق بتا دیں جو متنازع یا قابل اعتراض ہے۔ جس کا جو دل چاہے وہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں بندہ ہم سے مخالف نظریات رکھتا ہے تو اس پر حملہ کر دو۔ مجھے بتائیں کہ کیا سائبر کرائمز کا کوئی ادارہ ایسے واقعات” کو روک سکتا ہے”؟”   انہوں نے کہا جو لوگ ایسا غلط خبریں پھیلاتے ہیں احتساب تو دور کی بات ہے کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا۔ ہم نے صرف ایک فورم دیا ہے کہ جاؤ اور اپنی شکایت بتاو”۔ ہم نے یہ قانون اس لیے بنایا ہے وہ واقعات جن میں مذہبی وجوہات پر لوگ قتل کر دیے جاتے ہیں ایسے واقعات کو روکیں۔ کیا یہ معاشرہ اسی طرح چلے گا”۔” لاپور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “دہشت گرد بھی یہی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی بھی استعمال کرتی ہے۔ جس کا جو دل کرے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے”۔ یہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے ہیں۔ اور ہم اس کی ضمانت دیتے ہیں۔ ہم آگے کی مشاورت بیٹھ کر کر سکتے ہیں”۔” ہمیں بتائیں تو سہی کہ کوئی شق قابل اعتراز کیوں ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ ہمارے بچوں کو حفاظت نہ دیں۔ یہ قانون آپ کے اور آپ کے بچوں کی حفاظت کا قانون ہے”۔” جب صحافیوں کے نمائندے اس میں شامل ہیں تو کیسے صحافیوں کا استحصال ہوسکتا”۔”

’آگے کا راستہ واشنگٹن میں دیکھتے ہیں‘ اسرائیلی وزیراعظم ٹرمپ سے ملاقات کریں گے

غزہ میں جنگ بندی کو توسیع دینے کے لیے نیتن یاہو ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ حالانکہ انہیں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے وفد بھیجنے کی ضرورت ہے۔ معاہدے کی شرائط کے تحت جنگ بندی یکم مارچ کو ختم ہونے والی ہے۔  اگلے مرحلے پر بات چیت سوموار کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے ابھی تک مذاکرات کے لیے مذاکراتی ٹیم کا اعلان نہیں کیا ہے، حماس اس ہفتے کو مصر یا قطر میں اپنا  وفد بھیج رہی ہے۔مذاکرات کے لیے اسرائیل کو بھی اپنا وفد بھیجنے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات میں ثالث کے طور پر کام کرنے والے قطر کے وزیر اعظم نے اتوار کو کہا کہ “مذاکرات کب اور کیسے شروع ہوں گے اس بارے میں کوئی واضح تفصیلات نہیں ہیں”۔ دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ “ہمیں آنے والے دنوں میں کچھ تحریک دیکھنے کی امید ہے”۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ “وہ آگے کا راستہ دوحہ یا قاہرہ میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں دیکھتے ہیں”، جہاں وہ اس ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے باضابطہ ملاقات کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما بن جائیں گے۔ نیتن یاہو کے دفتر نے ان کی روانگی کے موقع پر کہا کہ “انہوں نے ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یرغمالیوں کے معاہدے کے دوسرے مرحلے پر بات چیت ان کی واشنگٹن میں ملاقات سے شروع ہو گی جس کے دوران وہ اسرائیل کے موقف پر تبادلہ خیال کریں گے”۔   جنوری کو جنگ بندی کے بعد سے حماس اور اس کے اتحادیوں نے غزہ میں قید 18 یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اس کے بدلے میں، اسرائیلی حکومت نے حراست میں رکھے گئے 583 فلسطینیوں کو رہا کیا ہے ،  ان میں 19 افراد ایسے بھی شامل ہیں جن پر مبینہ طور پر ‘سنگین جرائم‘ کا الزام ہے۔ اسرائیل میں بہت سے ایسے بہت سے بچے بھی ہیں جو بغیر کسی الزام کے جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔ جنگ بندی کے نتیجے میں غزہ کے آبادی کے مراکز سے اسرائیلی افواج کے انخلاء، امدادی کارروائیوں میں اضافے اور گزشتہ سال مئی کے بعد پہلی بار مصر کے ساتھ سرحد پر رفع کراسنگ کو زخمیوں کے انخلاء کے لیے کھولنا دیکھا گیا ہے۔ لیکن جنگ بندی کا پہلا مرحلہ صرف 42 دن کے لیے تھا۔ دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت سوموار کے روز، جنگ بندی کے 16ویں دن شروع ہونی چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ نیتن یاہو پہلے ٹرمپ سے بات کر کے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس دوسری مدت کے دوران، اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائے گی اور تمام زندہ یرغمالیوں، فوجی اور سویلین کو مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا جائے گا۔ اس ہفتے نیتن یاہو وہی چاہیں گے جو ٹرمپ چاہتے ہیں۔ جنگ بندی مذاکرات کے پہلے دور میں امریکی صدر ابھی تک عہدے پر نہیں تھے، حالانکہ ان کی ٹیم نے اسرائیل کو معاہدے کی طرف دھکیلنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔

“امریکیوں کو کچھ دیر پریشانی ہو سکتی ہے” ٹرمپ نے خبردار کر دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میکسیکو، کینیڈا اور چین پر لگائے گئے بڑے ٹیرف امریکیوں کے لیے کچھ عرصے کی تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ عالمی منڈیوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکسز ترقی کی شرح کو کمزور کر سکتے ہیں اور افراط زر کو دوبارہ بڑھا سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ پیر کو کینیڈا اور میکسیکو کے رہنماؤں کے ساتھ بات کریں گے، جنہوں نے اپنے طور پر جوابی ٹیرف کا اعلان کیا ہے، لیکن توقعات کا اظہار کم کیا کہ وہ اپنا ذہن بدل لیں گے”۔ فلوریڈا میں اپنی ماراےلاگو اسٹیٹ سے واشنگٹن واپس آتے ہوئے ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا، ’’مجھے کسی ڈرامائی چیز کی توقع نہیں ہے۔ ان ممالک پر بہت زیادہ رقم واجب الادا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ وہ ادا کرنے جا رہے ہیں”۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ “ٹیرف یورپی یونین کے ساتھ یقینی طور پر ہوں گے” ،لیکن یہ نہیں بتایا کہ کب ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریپبلکن صدر کا کینیڈا اور میکسیکو پر 25فیصد اور چین پر 10فیصد ٹیرف لگانے کا منصوبہ عالمی ترقی کو سست کر دے گا اور امریکیوں کے لیے قیمتیں بلند کر دے گی۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہیں امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے اور گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہمیں کچھ وقت تھوڑا نقصان ہو سکتا ہے، اور لوگ اسے سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد امریکا کو اس کا بہت فائدہ ہو سکتا ہے”۔ شمالی امریکہ کی کمپنیوں نے نئی ڈیوٹی لگائی جو صنعتوں کو آٹوز اور کنزیومر گڈز سے لے کر انرجی تک بڑھا سکتی ہے۔ آئی این جی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ٹیرف تمام امریکی درآمدات کا تقریباً نصف احاطہ کریں گے اور اس فرق کو پورا کرنے کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اپنی مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ قریب ترین مدت میں ایک ناقابل عمل کام ہے۔ تجزیہ کاروں نے اتوار کو کہا، “معاشی طور پر، تجارتی تناؤ میں اضافہ تمام ممالک کے لیے نقصان دہ صورت حال ہے”۔ دوسرے تجزیہ کار نے کہا کہ ٹیرف کینیڈا اور میکسیکو کو ترقی کے وقفے میں ڈال سکتے ہیں اور گھر وں میں مہنگائی ،  بلند افراط زر، کمزور اقتصادی ترقی اور بیروزگاری کا آغاز کر سکتے ہیں۔

مستقبل کی دنیا کا دروازہ: فائیو جی ٹیکنالوجی پاکستان کو بدلنے کے لیے تیار

5جی ٹیکنالوجی جدید دنیا کی ضرورت پوری کرتے ہوئے تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کررہی ہے۔ 5 جی  نے 2019 کے بعد ٹیلی کمیونیکیشن کی دنیا میں 4 جی کو پچھاڑ کر اپنی جگہ بنائی۔ یہ انٹر نیٹ کی رفتار کو اس حد تک بڑھاتی ہے کہ ڈیٹا ملٹی گیگا بٹ کی رفتار سے ٹریول کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف رابطے بہتر ہو رہے ہیں بلکہ سمارٹ شہروں، خودکار گاڑیوں اور صحت کے شعبے میں ریموٹ سرجری جیسے انقلابی اقدامات کو بھی ممکن بنایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ٹیکنالوجی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے نئی راہیں بھی ہموار کر رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی معیشت صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کو کس طرح بدل رہی ہے؟5جی ٹیکنالوجی ریموٹ لرننگ اور انٹرایکٹو کلاس رومز تک آسان رسائی کی مدد سے تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کر رہی ہے، ٹیلی میڈیسن اور ریموٹ سرجری کو حقیقت میں بدل کر صحت کے شعبے میں مزید جدت لائی جارہی ہے، اسمارٹ انڈسٹریز اور ڈیجیٹل مارکیٹ کو فروغ دے کر نئے معاشی مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سمارٹ سینسرز اور ڈرونز کے ذریعے فصلوں کی بہتر نگرانی اور پانی کے کم استعمال کو یقینی بنا کر زراعت میں بھی جدیدیت لائی جارہی ہے۔ ورچوئل ریئلٹی اور الٹرا ایچ ڈی اسٹریمنگ کو زیادہ تیز اور ہموار بنا کر انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو نئی بلندیاں لے جایا جا رہا ہے۔ اسی طرح میڈیا اور کنزیومر ایپلی کیشنز میں 254 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا، جس نے مواد کی ترسیل اور تفریح کو نیا رخ دیا۔ انڈسٹریل مینوفیکچرنگ میں 5جی نے 134 بلین ڈالر کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ پروڈکشن کو تیز اور بہتر بنایا۔ مزید براں فنانشل سروسز ایپلی کیشنز کے شعبے کو 85 بلین ڈالر کا فائدہ ہوا، ساتھ ہی ڈیجیٹل لین دین محفوظ اور تیز ہوا۔5G صرف ایک تیز انٹرنیٹ نہیں بلکہ ایک مستقبل کی دنیا کا دروازہ ہے جہاں ہر کاروبار زیادہ مؤثر، تیز اور جدید ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان کا ‘دبئی اور سنگا پور‘ گوادر: سڑکوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

چین کے اشتراک سے پاکستان کی ترقی کے لیے سی پیک (چین۔پاکستان اکنامک کوریڈور) تب شروع کیا گیا جب محمد نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اس منصوبے کو’ گیم چینجر‘ قرار دیا گیا، سی پیک کا دل ’گوادر سی پورٹ‘ ہے ۔ عالمی سطح پرگوادر منصوبے کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایران اور باقی عرب ممالک سے نزدیکی کی وجہ سے تجارتی عمل آسان ہوجائے گا۔ 2015 میں شروع ہونے والے منصوبے کو آج اہم ترین معاشی اور اقتصادی حب سمجھا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ترقیاتی کام تاحال جاری ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معاشی محقق پروفیسر ڈاکٹر فہد رضوان نے کہا کہ “گوادر کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ منصوبوں پر عمل درآمد میں تاخیر اور انتظامی مسائل ہیں۔ حکومت چینی کمپنیوں اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان چیلنجز کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن بیوروکریٹک رکاوٹیں اور سیاسی عدم استحکام تاحال ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔” دوہزار پندرہ میں سی پیک کے تحت  شروع کیے گئے ’گوادر پراجیکٹ’ کو نہ صرف ایک بہترین تجارتی بندرگاہ کے طور پر ترقی دی جائے گی بلکہ اس منصوبےسے پاکستان میں توانائی، مواصلات اور صنعتی شعبوں میں بھی بڑی سرمایہ کاری کے دروازے کھلیں گے۔ بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر مولانا ہدایت الرحمٰن نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں خود گوادر کا نمائندہ ہوں وہاں بھی ڈالر مافیا کا مسئلہ تاحال ہے، بارڈر کی بندش نوکریوں اور کاروبار کے بھی مسائل ہیں۔ وہاں چیک پوسٹوں کے بھی مسائل ہیں اور عزت نفس کا سنگین مسئلہ ہے۔ سی پیک جسے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں بلوچستان اسی سی پیک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس منصوبے سے نا بلوچستان کو کچھ ملا اور نہ ہی گوادر کے عوام کو‘۔” تین اطراف سے سمندر میں گھرے اور پہاڑوں کی موجودگی کی وجہ سے گوادر اس منصوبے کے تحت سیاحتی لحاظ سے بھی بے شمار فوائد کا حامل ہوگا۔ اس حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ” اس میں ترقی کے نام پر صرف دھوکہ ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ سبز باغ دکھا کر، مستقبل کا دبئی اور سنگاپور کہہ کر بلوچستان اور گوادر کے عوام کو لوٹ لیا گیا ہے۔” انہوں نے اراکین حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “سی پیک کے نام پر کمیشن کھا کر خود ارب پتی بن گئے ہیں لیکن بلوچستان اور گوادر کی حالت تبدیل نہیں ہوئی۔” جغرافیائی لحاظ سے گوادر صفِ اول کی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1954 میں ہونے والے ایک امریکی جیالوجیکل سروے میں گوادر کو گہری بندرگاہ کے لیے موزوں مقام قرار دیا گیا۔ گوادر کا ساحل گہرا ہے جس کے باعث بڑے بڑے جہاز باآسانی لنگرانداز ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فہد رضوان کے ماننا ہے کہ “گوادر بندرگاہ کے مکمل طور پر فعال ہونے سے پاکستان کی معیشت کو زبردست فروغ ملے گا۔ بین الاقوامی تجارت میں اضافہ ہوگا، برآمدات کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، اور ٹرانزٹ ٹریڈ سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے۔ اس کے علاوہ مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔” پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع گوادر پاکستان کو اہم ترین سمندری راستوں سے جوڑتا ہے۔ ایرانی گلف کے دہانے پہ ہونے کی وجہ سے گوادر کو تجارتی راستے کی آمدورفت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گوادر کا آبنائے ہرمز تک فاصلہ صرف 400 کلومیٹر ہے جس سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لیکن سیاسی اور سیکیورٹی کے مسائل اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوت ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر فہد رضوان کا کہنا ہے کہ “بلوچستان میں سیکیورٹی چیلنجز گوادر منصوبے کی رفتار کو کافی حد تک متاثر کر رہے ہیں۔ تخریب کاری کے واقعات اور غیر ملکی مداخلت ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ تاہم حکومت اور سیکیورٹی ادارے خصوصی فورسز، جدید نگرانی کے نظام اور کمیونٹی انگیجمنٹ کے ذریعے سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کر رہے ہیں۔” دوسری جانب اس حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ” پورے سی پیک میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ جو بدترین زیادتی اسلام آباد کے حکمرانوں نے کی ہے اس نے نفرت اور تعصب کی حد کر دی ہے۔” انہوں نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ “اسلام آباد کے حکمرانوں کا بلوچستان کے عوام کے لیے صرف ظلم، بدنیتی اور تعصب ہے۔ یہ بلوچستان کے عوام کو کمتر اور کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے رویوں کی وجہ سے سی پیک بلوچستان میں وجود ہی نہیں رکھتا۔” گوادر منصوبہ پاکستان کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ اس منصوبے سے لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں گے۔ اس کے علاوہ عالمی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس منصوبے میں گوادر بندرگاہ کے علاوہ پورے ملک میں سڑکیں، ائیرپورٹ، پیٹرول پمپ، کھیل کے میدان، تعلیمی ادارے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ادارے شامل ہیں۔ اس حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے کہ “ٹورسٹ ٹرین، موٹروے اور بہت بڑے بڑے پروجکٹ پورے ملک میں سی پیک کے نام سے بنے لیکن بلوچستان کو صرف چیک پوسٹیں ہی ملیں اور کچھ نہیں ملا، اس لیے بلوچستان میں سی پیک کا کوئی وجود نہیں ہے۔” گوادر میں 2020 تک بنیادی انفراسٹرکچر کے منصوبوں نے مکمل ہونا تھا اور اس کے بعد فیز ٹو میں اقتصادیاتی منصوبوں پہ کام شروع ہوا تھا اور عالمی سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ کاری ہونی تھی۔ فیز ون مکمل ہونے کے بعد محتلف وجوہات کی بنا پر تا حال فیز ٹو مکمل نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹر فہد رضوان کے نزدیک “گوادر منصوبے کی تکمیل میں تاخیر عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متزلزل کر سکتی ہے۔ سرمایہ کار ہمیشہ ایسے منصوبوں میں دلچسپی لیتے ہیں جہاں استحکام اور بروقت تکمیل کی ضمانت ہو۔ اگر یہ تاخیر برقرار رہی، تو بیرونی سرمایہ کاری کم ہو سکتی ہے، جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔”

سونے کی چڑیا بلوچستان، کیا سرفراز بگٹی کی’ بے اختیار‘ حکومت عوام کی محرومیاں ختم کرپائی ہے؟

بلوچستان میں بدامنی اور بنیادی سہولیات کا فقدان کا رونا برسوں سے رویا جا رہا ہے، ایک طرف صوبے میں مسلح عسکریت پسند برسر پیکار ہیں تو دوسری طرف حقوق مانگنے والے جلسے جلوس کرتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ صوبائی حکومت ’سب اچھا ہے‘ کا دعویٰ کرتی ہے۔ کیا واقعی بلوچستان میں سب اچھا ہے؟ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں وزیرِاعلیٰ سرفراز بگٹی کی قیادت میں قدرتی وسائل کا تحفظ اور 955 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ جیسے منصوبوں سے صوبے میں ’تبدیلی‘ آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت تعلیم، صحت اور امن و امان پر بھی توجہ دے رہی ہے ایک دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ بلوچستان جو قدرتی وسائل سے بھرپور ہونے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا ہے، وہ اب وزیرِ اعلٰی  میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں ایک نیا دور دیکھ رہا ہے، مگر ناقدین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما، رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے صوبائی حکومت کو بے اختیار قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں‘ ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ‘بلوچستان میں بدامنی کے ذمہ دار بلوچستان کی حفاظت کرنے والے سکیورٹی ادارے ہیں، جو صوبائی حکومت سے 85 ارب روپے تو لیتے ہیں، مگر ان کا جو کام ہے وہ نہیں کرتے‘۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ سیکیورٹی ادارے اپنا کام نہیں کررہے تو پھر وہ کیا کر رہے ہیں؟ جس کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’ کوئی ڈی ایچ اے بنا رہا ہے تو کوئی عسکری بینک، کوئی ٹماٹر کے ٹرک کے پیچھے لگا ہے تو کوئی اور بہت سے دوسرے کاموں میں مصروف ہے‘۔ بلوچستان میں اس وقت سیاسی صورتحال گھمبیر ہے، بے یقینی ہے۔ یہاں کے عوام برسوں سے حکومتی غفلت، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی کا شکارہیں۔ بلوچستان کے حالات پر نظر رکھنے والے مقامی صحافی ببرک کارمل جمالی نے کہا کہ’ بلوچستان تاریخی طور پر بالکل پسماندہ نہیں رہا ہے بلکہ بلوچستان کو پسماندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیراعلٰی سرفراز بگٹی اور اس کی ٹیم وہ کام نہیں کر سکے گی جس کی امید ہم لوگ لگائے بیٹھے ہوئے ہیں‘۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں دہائیوں سے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس بنا پر بلوچستان میں کئی تحریکوں نے جنم لیا، اس مسئلے نے بلوچوں کے ذہن میں ریاست کے خلاف بغاوت کو شدید ہوا دی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ’ حکومت کو صرف کرپشن کی اجازت ہے، زمینوں پر قبضے کرنے کی آزادی ہے، حکومت عوام کو ریلیف دے سکی ہے اور نہ اپنے دعوے پوری کرسکی ہے‘۔  بلوچستان کے مالی حالات پر جہاں وزیر خزانہ میر شعیب احمد نوشیروانی نے 2024-25 کے بجٹ کا اعلان کیا۔ 955 ارب روپے کا یہ بجٹ جو ایک سنجیدہ اقتصادی ترقی کا عکاس ہے، جس میں شہریوں کو تعلیم، صحت، امن و امان، اور لوکل گورنمنٹ جیسے اہم شعبوں میں اضافی فنڈز مختص کیے گئے۔ قومی اسمبلی کے سب سے کم عمر رکن، نواب زادہ جمال خان رئیسانی جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے انہوں  نے بلوچستان کے نوجوانوں کی حالت زار پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم کی کمی، روزگار کی عدم دستیابی، اور سماجی ناانصافی کا سامنا ہے۔اور اگر حکومت نے نوجوانوں کے مسائل پر فوری توجہ نہ دی  تو یہ نوجوان یا تو انتہائی محب وطن بن جائیں گے یا پھر باغی ہو کر پہاڑوں کی طرف رخ کریں گے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبے میں مزید 542 اسکول بند ہو چکے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جو وزیرِ اعلیٰ بگٹی کی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ اگرچہ حکومت نے بند اسکولوں کو فعال کرنے کے لیے 16 ہزار اساتذہ کی ضرورت ظاہر کی ہے مگر اس بحران سے نمٹنے کے لیے مزید فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ببرک کارمل جمالی نے کہا کہ’ برسوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے رہنے والوں کا حق ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا، بلوچستان میں بہت قابل اور محنتی نوجوان ہیں مگر ان کی تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا ‘۔ بلوچستان کی حکومت نے کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کیا ہے۔ ان میں تعلیم، صحت، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر بنیادی سہولتوں کے منصوبے بھی شامل ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بے پناہ ذخائرموجود ہیں۔ جس میں ریکوڈک کاپر گولڈ مائن، کرومائیٹ، سنگ مرمر اور قدرتی گیس شامل ہیں جن میں عالمی سرمایہ داروں کے لیے سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ وفاقی حکومت ،ریاستی اداروں اور صوبائی حکومت نے چین کے اشتراک سے کئی منصوبے تو شروع کررکھے ہیں، فنڈز کا استعمال بھی ہورہا ہے، صوبے کے ساحلی علاقے گوادر کو’ پاکستان کا دبئی‘ بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ یہ ممکن بھی ہے مگر ترقی تب نظر آئے گی جب مقامی افراد کا معیار زندگی بہتر ہوگا ۔

ایلون مسک نے ‘یو ایس ایڈ کو مجرم ادارہ’ قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی غرض سے قائم ‘ڈوج’ کے سربراہ ایلن مسک نے امریکی ادارے ‘یو ایس ایڈ کو مجرم ادارہ’ قرار دے دیا۔ ایلن مسک نے امریکی حکومت کے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے دنیا بھر میں گرانٹس دینے اور مختلف ایکسچینج پروگرامات کے منتظم ادارے کو ایک ایکس پوسٹ میں ‘مجرم ادارہ’ قرار دیا۔ دنیا کے امیر ترین آدمی نے اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ‘اسے مر جانا چاہیے’ کہہ کر اپنے عزائم کا اظہار بھی کیا۔ ایلن مسک کی جانب سے یہ ردعمل اس اطلاع پر دیا گیا کہ ‘یو ایس ایڈ کے سینیئر عہدیداروں نے ڈوج کے نمائندوں کو ایجنسی کے سسٹم تک رسائی سے روکنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔’ ‘ڈوج کے نمائندے ادارے کے سیکیورٹی اور پرسنل ڈیٹا تک رسائی چاہتے تھے تاہم یو ایس ایڈ کے عہدے دار جان وورجیز اور ان کے معاون نے ایسا کرنے سے منع کیا اور زبردستی کرنے پر پولیس بلانے کی تنبیہ کی تھی۔’ ایلن مسک کی پوسٹ پر ردعمل دینے والے متعدد امریکی صارفین نے بھی ان کی طرح ‘ یو ایس ایڈ کو ایک کرپٹ اور بددیانت ادارہ قرار دیا جو امریکیوں کی دولت سے دنیا میں حکومتیں بدلنے اور اپنی مرضی چلانے کا کام کرتا ہے۔’ امریکی اداروں کی خراب کارکردگی اور بیرونی دنیا میں مداخلت کا ذکر چھڑا تو گفتگو میں شامل افراد نے مزید امریکی اداروں کی چھان بین کا مطالبہ بھی کیا۔ ایسے ہی ایک صارف نے لکھا کہ ‘کلنٹن فاؤنڈیشن اور ملینڈا اینڈ گیٹس فاؤنڈیشن کی چھان بین بھی ہونی چاہیے۔’ یہ پہلا موقع نہیں کہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (ڈوج) کے ذمہ دار کے طور پر ایلن مسک نے امریکا کے کسی سرکاری ادارے پر تنقید کی ہے۔ وہ اس سے قبل بھی متعدد اداروں کی مشکوک یا متنازع کارکردگی کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یو ایس ایڈ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپریشنز کو ‘امریکا فرسٹ’ پالیسی سے ہم آہنگ کرے۔ جس کے تحت بیرونی امداد کو روک کر اس کے استعمال کا جائزہ لیا جانا ہے۔ یو ایس ایڈ پر یہ تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کہ وہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم استعمال کر کے ایسی لابنگ کرتا رہا ہے جس سے مزید فنڈز حاصل کیے جا سکیں۔ ایک الگ پوسٹ میں ایلن مسک نے ‘یو ایس ایڈ کو بائیں بازو کے ان مارکسسٹس کا ٹھکانا قرار دیا تھا جو امریکا سے نفرت کرتے ہیں۔’ ڈوج کی جانب سے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ ‘یو ایس ایڈ نے غیرملکی امداد کے لیے امریکی ٹیکس دہندگان کے 40 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس میں سے 45 ملین ڈالر برما میں اسکالر شپس، 520 ملین افریقہ اور 1.2 ارب ڈالر نامعلوم افراد/اداروں کو دیے گئے ہیں۔’