شمالی کوریا کے فوجی روس-یوکرین محاذ سے واپسی پر مجبور، بھاری نقصان کی اطلاعات

شمالی کورین فوجیوں کی ‘روس یوکرین’ جنگ میں شمولیت اور ان کے بعد ہونے والے ہولناک نقصان نے عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق شمالی کوریا نے یوکرین کے محاذ سے اپنے 10,000 فوجیوں کو واپس بلا لیا ہے۔ یہ فوجی روس کے ساتھ مل کر یوکرین کی افواج کے خلاف جنگ میں شریک تھے مگر اب وہ کئی ہفتوں سے محاذ پر نظر نہیں آ رہے۔ جنوبی کوریا کی نیشنل انٹیلی جنس سروس (NIS) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق شمالی کوریائی فوجی جنہیں روس کے کرسک علاقے میں لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا انہوں نے 15 جنوری کے بعد سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان فوجیوں کو شدید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث انہیں واپس بلایا گیا۔ دوسری جانب یوکرین نے پہلے ہی دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کئی شمالی کوریائی فوجیوں کو قید کیا یا ہلاک کیا ہے۔ یوکرین کے فوجی تجزیے کے مطابق شمالی کورین فوجیوں کو کرسک میں یوکرین کے سرحدی علاقے میں ہونے والی حملوں کے دوران بھاری جانی نقصان ہوا۔ یوکرین کی فوج نے ان کی کیپچر کرنے کی ویڈیوز بھی جاری کیں، جن میں شمالی کوریائی فوجی قید دکھائی دیتے ہیں۔ جنوبی کوریا کی انٹیلی جنس سروس کے مطابق ان فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 300 کے قریب پہنچ چکی ہے جب کہ تقریباً 2,700 زخمی ہیں۔ شمالی کوریائی فوجیوں کی تعیناتی کا مقصد روسی افواج کو تقویت دینا اور یوکرین کی افواج کو پسپائی پر مجبور کرنا تھا۔ مگر چھ ماہ بعد یوکرین ابھی بھی اپنے اہم علاقوں پر قابض ہے اور روس کو اس جنگ میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ یہ بھی پڑھیں: امریکی حکومت نے تارکینِ وطن کو تیزی سے واپس بھیجنا شروع کر دیا اس تمام تر صورتحال نے یہ واضح کر دیا ہے کہ شمالی کوریائی فوجیوں کا روس کی مدد کے لیے بھیجا جانا ایک بے سود کوشش تھی۔ اگرچہ روس اور یوکرین کے درمیان زمینی جنگ میں شدت آ چکی ہے مگر فضائی جنگ بھی اپنی پوری شدت سے جاری ہے۔ یوکرین کے صوبے خارکیف کے شہر ایزیوم پر روسی میزائل حملے میں چار افراد کی ہلاکت اور بیس سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ روسی افواج کی یہ کارروائی یوکرین کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ دوسری طرف امریکا میں سیاسی ہلچل مچ گئی ہے۔ یوکرین نے امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے ایک حالیہ بیان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو مزید فوجی امداد دینے کے لیے نایاب معدنیات کے بدلے امداد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد یوکرین میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو امریکہ کی حمایت میں کمی آ سکتی ہے، جس سے یوکرین کو دفاعی حربوں میں شدید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ روس کی حکومت نے بھی اس بات کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا بیان اس بات کا غماز ہے کہ امریکا یوکرین کی بے شرط حمایت کو ختم کرنے والا ہے۔ یوکرین کے لیے یہ صورتحال نہایت نازک ہے کیونکہ اگر امریکا نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تو اس کے لیے اپنی افواج کو طاقتور بنانا اور روس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس دوران، شمالی کوریا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ایک نئے عالمی تنازعہ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان گزشتہ سال دفاعی معاہدہ ہوا تھا، جس میں شمالی کوریا نے روس کی فوج کو مدد فراہم کرنے کی بات کی تھی۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے بھی نئی سال کی تقریر میں روس کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2025 یوکرین جنگ میں ایک بڑی جیت کا سال ہو گا۔ مجموعی طور پر شمالی کوریائی فوجیوں کی واپسی یوکرین میں جاری جنگ کی شدت، اور عالمی سیاست میں بدلتے ہوئے رحجانات یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ دنیا بھر میں اس جنگ کا اثر مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان جاری اس جنگ میں نئے کھلاڑیوں کی شمولیت اور عالمی سیاست کے پیچیدہ پہلو اس جنگ کو ایک نیا موڑ دے سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: چین کا امریکا کو جواب: کب اور کتنا ٹیکس لگے گا؟
’حکمران کشمیر پر سودے بازی سے باز رہیں ‘ کراچی کشمیر کانفرنس کے شرکا کا مطالبہ

یوم کشمیر کی مناسبت سے جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں ، وکلا اور تاجر رہنماؤں نے شرکت کی،کانفرنس میں موقف اختیار کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف اور اہل کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں پوری قوم ایک ہےاور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور کسی بھی قسم کی سودے بازی اور کمزوری کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے، ہماری حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرنے اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، آزادی کشمیر کی جدو جہد کی نہ صرف سیاسی، اخلاقی اور سفارتی سطح پر بلکہ عملی محاذ پر بھی اپنا کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کا اپنی قراردادوں کے مطابق اہل کشمیر کو حق ِ خود ارادیت اور رائے شماری کا حق نہ دلوانا اس عالمی فورم کی ناکامی اور مسلمانوں کے حوالے سے دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے- منعم ظفر نے کہا کہ قائد اعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور یہ شہ رگ آج بھارتی تسلط میں ہے، پاکستان کے عوام کے دل اہل ِ کشمیر کے ساتھ دھڑکتے ہیں، شہ رگ کی آزادی کے لیے پوری قوم یکجان اور یک زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس اور اہل ِ غزہ کی کامیابیوں اور قربانیوں نے اہل کشمیر کو بھی نیا عزم اور حوصلہ دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کو کوئی طاقت اور ٹیکنالوجی شکست نہیں دے سکتی،کشمیریوں کی جدو جہد، قربانیاں اور شہداء کا لہو رنگ لائے گا۔ کشمیر آزاد ہوگا اور سید علی گیلانی کے قول کے مطابق ”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے“ کشمیر پاکستان کا حصہ ضروربنے گا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت خود 1948ء میں کشمیر کے حوالے سے اقوام ِ متحدہ میں گیا تھا اور اقوام ِ متحدہ کی فیصلے کو بھارت نے بھی تسلیم کیا تھا کہ اہل ِ کشمیر کو ان کی آزاد مرضی اور رائے شماری کا حق دیا جائے گا لیکن افسوس کہ بھارت نے فوجی طاقت اور قوت کے بل پر مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم کیا ہے۔ منعم ظفر نے کہا کہ 78سال سے کشمیری اپنے حقِ خودارادیت سے محروم ہیں اور کشمیریوں نے ایک دن کے لیے بھی بھارت کا قبضہ اور غلامی قبول نہیں کی اور مسلسل بھارت کی غلامی سے آزادی کی جدو جہد میں مصروف ہیں، ہزاروں شہداء کے خون سے اس جدو جہدِ آزادی کو جاری رکھا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے، نوجوانوں کو شہید اور اسیر کیا جاتا ہے لیکن کشمیر کے عوام کا آج بھی ایک ہی نعرہ ہے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“، کشمیری عوام اپنے شہداء کے جنازے پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں، 1990ء میں تحریک ِ آزاد کشمیر نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی نے اپنی زندگی کے آخری 12سال اسیری میں گزارے، برہان مظفر وانی کی شہادت سے بھی آزادی کی جدو جہد کو نیا عزم اور حوصلہ ملا، 5اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370/35-A کے برعکس کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کر دیا، بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے آزادی کشمیر کی جدو جہد میں جو کردار ادا کرنا چاہیئے تھا وہ نہیں کیا یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہے۔ کانفرنس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں ، وکلا اور تاجر رہنماؤں نے شرکت کی ۔ شرکاء نے مسئلہ کشمیر پر‘بھارتی تسلط کے خلاف اور اہل ِ کشمیر کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی اور پوری قوم کے ایک مؤقف پر ہونے کا اعلان بھی کیا۔ پورے ملک کے عوام بلا تفریق اہل ِ کشمیر کے ساتھ ہیں اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور کسی بھی قسم کی سودے بازی اور کمزوری کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔
مراکش کشتی حادثہ: 13 پاکستانیوں کی شناخت مکمل

مراکش کشتی حادثہ: 13 پاکستانیوں کی شناخت مکمل مراکش کے ساحلی علاقے میں 16 جنوری 2025 کو ایک کشتی حادثے کا شکار ہوئی، جس میں 50 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 44 پاکستانی شامل تھے۔ حادثے کے بعد پاکستانی حکام اور سفارتی ذرائع کی کوششوں سے اب تک 13 پاکستانیوں کی شناخت مکمل کر لی گئی ہے، جب کہ مزید لاشوں کی شناخت اور وطن واپسی کے عمل پر کام جاری ہے۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب موریطانیہ سے اسپین جانے والی کشتی راستے میں مراکش کے قریب الٹ گئی۔ حادثے کے فوراً بعد ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا، تاہم خراب موسم اور تیز لہروں کی وجہ سے امدادی کارروائیاں مشکلات کا شکار رہیں۔ مراکش حکام کی مدد سے پاکستانی سفارت خانے نے 13 پاکستانیوں کی شناخت مکمل کی ہے، جن کی تفصیلات جاری کر دی گئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ہلاک ہونے والی میں سفیان علی ولد جاوید اقبال پاسپورٹ نمبر VF1812352، سجاد علی ولد محمد نواز پاسپورٹ نمبر XX1836111 ،رئیس افضل ولد محمد افضل پاسپورٹ نمبر MJ1516091، قصنین حیدر ولد محمد بنارس پاسپورٹ نمبر AA6421773، محمد وقاص ولد ثناءاللہ پاسپورٹ نمبر DJ6315471، محمد اکرم ولد غلام رسول پاسپورٹ نمبر DN0151754، محمد ارسلان خان ولد رمضان خان پاسپورٹ نمبر LM4153261، حامد شبیر ولد غلام شبیر پاسپورٹ نمبر CZ5133683 شامل ہیں۔ ان کے علاوہ قیصر اقبال ولد محمد اقبال پاسپورٹ نمبر GR1331413، دانش رحمان ولد محمد نواز پاسپورٹ نمبر SE9154371، محمد سجاول ولد رحیم دین پاسپورٹ نمبر AY5593661، شہزاد احمد ولد ولایت حسین پاسپورٹ نمبر GN1162802 اور احتشام ولد طارق محمود پاسپورٹ نمبر CE1170122 شامل ہیں۔ یہ تمام افراد یورپ میں بہتر مستقبل کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن بدقسمتی سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 16 جنوری 2025 کو موریطانیہ سے اسپین جانے والی کشتی مراکش کے ساحل کے قریب حادثے کا شکار ہوئی۔ اس کشتی پر بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن سوار تھے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ واضح رہے کہ 16 جنوری کو غیر قانونی طور پر مراکش جانے والی کشتی حادثے کا شکار ہوگئی تھی، جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے حادثے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور فوری طور پر پاکستانی سفارت خانے کو مراکش حکام کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ پاکستانی سفارت خانہ متاثرہ خاندانوں سے رابطے میں ہے اور لاشوں کی وطن واپسی کے لیے انتظامات کر رہا ہے۔ دفتر خارجہ نے مراکش میں موجود پاکستانیوں کی فہرست حاصل کر لی ہے تاکہ مزید لاپتہ افراد کی شناخت کی جا سکے۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں جان کی بازی ہار گئے ہوں۔ گزشتہ برسوں میں ایسے کئی المناک واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جون 2023 میں یونان میں ایک کشتی ڈوبی تھی، جس میں 350 پاکستانی بھی شامل تھے۔ پاکستان میں اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اس حادثے میں 281 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ 12 پاکستانی زندہ بچ گئے تھے، جب کہ 16 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ باقی لاشوں کی شناخت ہی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ دوسری جانب ان حادثات میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کے اہل خانہ شدید غم میں مبتلا ہیں۔ کئی خاندانوں نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ مزید نوجوان غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانے کی کوشش نہ کریں۔ حادثے کا شکار ہونے والوں میں سے ایک کے بھائی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘میرے بھائی نے یورپ میں بہتر مستقبل کے خواب دیکھے تھے، لیکن ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گا۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس طرح کے حادثات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔’
سعودی ترقیاتی فنڈ کے سی ای او کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب ہمارا ایک برادر ملک ہے اور پاکستان کے لیے انتہائی نیک خیالات رکھتا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سعودی ترقیاتی فنڈ نے ملک کے پہاڑی اضلاع کے لیے پانی کی اسکیم کی منظوری دی ہے۔ گذشتہ روز اس کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے ہیں جس کے مطابق پاکستان میں کنگ سلمان ہسپتال بھی بنایا جائے گا۔ جس کے لیے سعودی عرب کی جانب سے 40 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ہوگی۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیر کو سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ اور پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان 1.61 ارب ڈالر کے دو معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیر کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک وفد اسلام آباد بھیجا تھا۔ ہماری تیل کی سہولت جو کہ دسمبر 2023 میں ختم ہو گئی تھی، اب دوبارہ سے شروع ہو رہی ہے ، اوراس سے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی سالانہ سہولت ملے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے تیل کی درآمد پر دی جانے والی سہولت سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے۔ سعودی فنڈ کے سی ای او سلطان عبدالرحمن المرشد کی قیادت میں ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدوں میں سعودی عرب سے تیل درآمد کے لیے 1.20 ارب ڈالر اور مانسہرہ میں گریویٹی فلو واٹر سکیم کی تعمیر کے لیے 41 ملین ڈالر رعایتی قرضے کے معاہدے شامل ہیں۔ ملاقات میں شہباز شریف نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے صحت، توانائی، انفراسٹرکچر اور تعلیم کے شعبوں میں پاکستان کو مالی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ 2022 کے تباہی کن سیلاب کے بعد تعمیر نو کے لیے ایس ایف ڈی کی کوششوں کو سراہا۔ دوسری جانب سعودی ترقیاتی فنڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’سعودی قیادت کے مطابق اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی موجودگی میں، سعودی ترقیاتی فنڈ کے سی ای او سلطان المرشد نے آج پاکستان کے معاشی امور کی وزارت کے سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کے ساتھ 1.2 ارب ڈالر کے تیل کے لیے معاہدے پر دستخط کیے۔ سعودی ترقیاتی فنڈ کی جانب ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا “اس معاہدے کا مقصد پاکستان کی معیشت کو سہارا دینا، معاشی چیلنجوں سے نمٹنے، سیکٹر کی ترقی کو فروغ دینے اور ایک مستحکم معیشت کی تعمیر ہے۔ یہ 2019 سے سعودی عرب کی جانب سے تیل کی مالی تعاون کے سلسلے میں فراہم کی جانے والی مدد کی استثنیٰ کے طور پر آیا ہے، جس کی کل رقم 6.7 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان 2.8 ارب ڈالر کی مالیت کے معاہدے ہوئے ہیں، ’جن میں کئی منصوبوں پر کام کا آغاز ہوچکا ہے. مجھے امید ہے کہ جلد ہی ان معاہدوں کے ثمرات دونوں ممالک کو ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں تقریباً 25 لاکھ افراد پر مشتمل پاکستانی کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط پل کا کام کرتی ہے۔ ’عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی میزبانی پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تعریف کرتا ہوں، جس نے غزہ، لبنان اور خطے میں امن کے لیے امت مسلمہ کے مطالبے کو تقویت دی۔
سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: “آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟”

سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں آئینی بینچ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے آج بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ آج کی سماعت میں سزا یافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دئے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے مطابق ہوا۔ ایف بی علی کیس میں کہا گیا سیویلنزکا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے پر ہی ممکن ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سیویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ فوج سے باہر کا شخص صرف جرم کی بنیاد پرفوجی عدالت کے زمرے میں آسکتا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے “ایف بی علی کیس میں آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی ون پر بات ہوئی، ایف بی علی کیس میں کہا گیا صدارتی آرڈیننس سےلایا گیا آرمی ایکٹ درست ہے، یہ بھی کہا گیا بنیادی حقوق کے تحت ری ویو کیا جاسکتا ہے”۔ سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ” 80-1977 کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل لاء میں سزا یافتہ لوگوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں، ہر 8 سے 10 سال بعد عدلیہ کو تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن کیلئے ایک قانون لایا گیا تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بنیادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے”۔ اس موقع پر جسٹس مندوخیل نے سوال کیا ایف بی علی کیس میں نیکسز کی کیا تعریف کی گئی؟ سلمان اکرم راجا نے کہا آرمڈ فورسزکواکسانا اورجرم کا تعلق ڈیفنس آف پاکستان سےمتعلق ہونے کو نیکسزکہا گیا، یہاں ایف بی علی کیس ایسے پڑھا گیا کہ الگ عدالت بنانےکی اجازت کا تاثر بنا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت جسٹس عائشہ کا آرٹیکل 10 اے کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو ہماری جیت ہے، اگریہ کہا جاتا ہےآرٹیکل 175کی شق 3 سے باہر عدالت قائم نہیں ہوسکتی تب بھی ہماری جیت ہے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا ہوسکتا ہے ضیاالحق نے بعد سوچا ہو پہلے جو ہوا وہ غلط تھا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہیں ایسا تو نہیں ضیاالحق نے بعد میں ایف بی علی سے معافی مانگی ہو؟ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا 1962 کا آئین درست تھا؟سلمان اکرم راجا نے جواب دیا 1962 کا آئین تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہےکہ میں فیلڈ مارشل ایوب خان خود کو اختیارات سونپ رہا ہوں، اُس دورمیں آرٹیکل چھپوائے گئے،فتوے دیے گئے کہ اسلام میں بنیادی حقوق نہیں ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سِولینزکے مقدمات سےمتعلق کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔
انڈین ریاست کرناٹکا میں گائے چوری کے واقعات، چوروں کو سرعام گولی مارنے کا عندیہ

انڈین ریاست کرناٹکا کے ضلع اتراکنڑ کے وزیر منکال ایس ویدیا نے خبردار کیا ہے کہ گائے کی چوری میں ملوث افراد کو کھلے عام سڑک پر گولی مار دی جائے گی۔ غیر ملکی خبررساں ادارے ڈیکن ہیرالڈ (ڈی ایچ) کے مطابق گائے چوری کے ملزم کو اتراکنڑ میں موقع پر ہی گولی مار دی جائے گی، یہ فیصلہ اتراکنڑ ضلع میں ہوناور کے قریب گائے ذبح کرنے کے حالیہ واقعہ کے بعد کیا گیا ہے۔ خبررساں ادارے ڈی ایچ کے مطابق منکال ایس ویدیا نے کاروار میں نامہ نگاروں سے کہا ہے کہ جب بی جے پی اقتدار میں تھی تب بھی گائے کی چوری کی اطلاع ملی تھی، لیکن کانگریس حکومت میں گائے پالنے والوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ریاست کرناٹکا کے ضلع اتراکنڑ میں آئے روز گائے کی چوری کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، جس کے باعث گائے کے مالکان شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گائے کی چوری کے بڑھتے واقعات کا مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا ہے کہ ریاستی وزیر نے چور کو سرعام گولی مارنے پر غور شروع کردیا ہے۔ مقامی وزیر نےکہا اگر اس طرح کے واقعات ضلع میں دوبارہ ہوئے، تو وہ گائے چوری کرنے والے ملزمان کو سڑک پر گولی مارنے کا حکم دے دیں گے۔ میکال ایس ویدیا نے کہا ہے کہ ہم ہر روز گائے کا دودھ پیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جانور ہے، جسے ہم پیار اور محبت سے دیکھتے ہیں، پولیس سے کہہ دیا ہے کہ چاہے کوئی بھی ہو، ان کے خلاف کارروائی کریں۔ یاد رہے کہ انڈیا میں گائے کو ماں کا درجہ حاصل ہے، اکثریت گائے کی پوجا کرتی ہے، جس کی وجہ سے ملک کے اکثر حصوں میں گائے کے گوشت پر مکمل پابندی عائد ہے۔ انڈیا میں گزشتہ ایک عرصے سے گائے کو مبینہ ذبح کرنے اور گوشت کھانے کے الزام پر متعدد افراد بالخصوص مسلمانوں اور دَلتوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ 2015 اور 2016 کے درمیانی عرصے میں گائے اسمگل کرنے یا گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں ہندو انتہا پسندوں کے حملوں کے واقعات میں 10 مسلمان قتل کردیے گئے تھے۔ مزید یہ کہ 2015 میں بھی ایک مسلمان شخص کو اس کے پڑوسیوں نے قتل کردیا اور کہا کہ انھیں شبہ ہے کہ اس نے گائے کو ذبح کیا ہے، جب کہ پولیس کا کہنا تھا کہ مقتول کے گھر سے برآمد ہونے والا گوشت بکرے کا تھا۔
پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی ملازمین کے بچوں کو نوکریاں دینے کا قانون ختم

خیبر پختونخواحکومت نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملازمت دینے کا قانون ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ صوبائی حکومت نے ملازمین کی بھرتی کے طریقہ کار میں قانون کی تبدیلی کا سرکاری حکم نامہ جاری کر دیا۔ سرکاری حکم نامے کے مطابق ، نئے ملازمین کی بھرتی، ترقی اور تبادلے کی قانون میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ قواعد و ضوابط نمبر 10 کی شق 4 کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے جبکہ شق 2 کو جزوی طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ شقیں پہلے ان ملازمین کے بچوں کی بھرتی سے متعلق تھیں جن کا انتقال ہو گیا تھا یا جنہیں کام کے لیے نااہل سمجھا جاتا تھا۔ سابقہ نظام کے تحت فوت شدہ یا معذور ملازمین کے بچوں کو ملازمتیں فراہم کی جاتی تھیں۔ نئی پالیسی کے نافذ ہونے کے بعدجن ملازمین کا انتقال ہو جائے گا یا کام کے لیے نااہل ہو جائیں گے، ان کے بچوں کو مزید ملازمت نہیں دی جائے گی۔ گزشتہ سال پنجاب حکومت نے پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 میں 17 اے کے قانون کو ختم کرکے اہم تبدیلیاں کیں۔ سیکرٹری ریگولیشن سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے اس تبدیلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نئی ترمیم کے مطابق اب مرنے والے پنجاب کے سرکاری ملازمین کے بچے نوکریوں کے حقدار نہیں ہوں گے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا، “پنجاب سول سرونٹس 1974 کے سیکشن 23 کے مطابق گورنر پنجاب اپنے اختیارات کو استعمال کرتےہوئےپنجاب سول سرونٹس کے قانون میں فوری اثر کے ساتھ تبدیلی کرتے ہیں”۔ سوشل میڈیا پر اس خبر کے آنے کے بعد صارفین اس بارے میں اپنے رائے دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے اچھا اقدام کہہ رہے ہیں جب کہ کچھ حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے آر وائی کی سوشل میڈیا پوسٹ پر صارفین نے مختلف اقسام کے ری ایکشنز کا اظہار کیا ہے۔ شاہد جان نامی ایک صارف نے لکھا “ہر ظلم پشتون اور پشاور میں کیوں پنجاب ملک لوٹ رہا ھے وہاں سب کچھ ٹھیک ھے کیا پشاور پر پنجابی غلام گلخانان کی حکومت ھے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار گلخانان”۔ فضل حسین نامی صارف نے لکھا کہ “یہ پہلے کب ایماندار تھے کہ اب ایفیشنسی پیش کر رہے ہیں بے ایمان تھے بے ایمان ہیں اور بے ایمان ہی رہیں گے”۔ وسیم شاہ نامی صارف نے کہا کہ”جی اور اب سی ایم کوٹا پر بھرتیاں ہوں گی”۔
امریکا ایل سلواڈور معاہدہ: جرائم پیشہ افراد کو اپنے ملک جگہ دے گا

ایل سلواڈور نے امریکی انتظامیہ کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ طے کیا ہے جو عالمی سطح پر غیر معمولی اور متنازعہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت، سلواڈور نے نہ صرف امریکا میں موجود پرتشدد مجرموں کو پناہ دینے کا وعدہ کیا بلکہ دنیا بھر سے جلاوطن کیے گئے افراد کو بھی اپنے ملک میں قبول کرنے کی پیش کش کی ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی قومیت سے ہو۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس معاہدے کا اعلان کیا، جو ان کے مطابق امریکا اور ایل سلواڈور کے درمیان غیر معمولی دوستی کی علامت ہے۔ اس معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد، سلواڈور کے صدر نائف بوکیلے نے ایک عوامی پوسٹ کے ذریعے اس کا باضابطہ طور پر اعلان کیا اور کہا کہ ان کا ملک امریکا سے سزا یافتہ مجرموں بشمول امریکی شہریوں اور قانونی رہائشیوں کو اپنی جیلوں میں رکھنے کے لیے تیار ہے۔ بوکیلے نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ فیس کی بنیاد پر ہوگا، جو امریکا کے لیے نسبتاً کم ہوگی لیکن ایل سلواڈور کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی، کیونکہ اس سے ان کے جیلوں کے نظام کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس معاہدے میں خاص بات یہ ہے کہ امریکا میں موجود وہ افراد جو غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوئے ہیں اور جنہیں مختلف جرائم میں ملوث سمجھا گیا ہے، انہیں ایل سلواڈور منتقل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایم ایس 13 اور ٹرین ڈی اراگوا جیسے مشہور جرائم پیشہ گروپوں کے ارکان کو بھی امریکا سے ملک بدر کیا جائے گا اور انہیں ایل سلواڈور کی جیلوں میں رکھا جائے گا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس معاہدے کی سختی سے مخالفت کی ہے، اور ناقدین نے اسے جمہوریت کے لیے ایک خطرناک قدم قرار دیا ہے۔ جس کے بارے میں ‘لیگ آف یونائیٹڈ لاطینی امریکی سٹیزن’ (ایل یو ایل اے سی) کے قومی صدر رومن پالومارس نے کہا کہ یہ معاہدہ غیر مجرمانہ جلاوطنوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد صرف اس وجہ سے دوسرے ملک بھیجے جا رہے ہیں کہ وہ اپنی قوم سے جلاوطن ہو گئے ہیں، اور ان کی زندگیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔ ایمرسن کالج کی پروفیسر منیشا گیلمین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بنیادی طور پر ان افراد کو ایک ایسے ملک بھیجنے کی تجویز دے رہا ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی یہ ان کا اصل وطن ہے۔ یہ اقدام عالمی تارکین وطن کے حقوق سے متعلق قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور عالمی سیاست میں ایک نئی پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ ایک اور اہم پہلو اس معاہدے کا یہ ہے جس میں سلواڈور کے قانون کے مطابق گینگ کے ممبر اور دیگر مجرموں کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا۔ ایل سلواڈور نے 2022 سے ایک ایمرجنسی نافذ کی ہے جس کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو صرف گینگ کا رکن ہونے کے شک پر حراست میں لے سکتی ہے۔ اس ایمرجنسی کے نتیجے میں 80,000 سے زائد افراد جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے بیشتر بے گناہ ہیں، اور یہ بات انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے ایک سنگین تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے مفید نظر آ سکتا ہے، تاہم اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اخلاقی اور قانونی پیچیدگیاں ایک طویل عرصے تک عالمی سطح پر بحث کا باعث بن سکتی ہیں۔ جیسے جیسے یہ معاہدہ عمل میں آتا ہے، دنیا بھر کے حقوق کے علمبردار اس پر نظر رکھیں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے ذریعے کسی بھی فرد کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
“پنجاب اسمبلی نے ہمیشہ آزاد صحافت کی حمایت کی ہے” اسپیکر کی پریس کانفرنس

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی نے ہمیشہ آزاد صحافت کی، اسمبلی جلد ہی کامن ویلتھ پارلیمانی ایسوسی ایشن کی علاقائی کانفرنس کا انعقاد کرے گی، جس کی کامیابی میں میڈیا کا انتہائی اہم کردار ہو گا۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کے حقوق، میڈیا کے کردار اور حکومتی ترقیاتی ایجنڈے پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی نے ہمیشہ آزاد صحافت کی حمایت کی ہے، اسی سلسلے میں پہلا میڈیا ہال قائم کر کے صحافیوں کو جدید سہولیات فراہم کی گئی ہیں، تاکہ وہ بہتر صحافتی ماحول میں کام کر سکیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ آئین تمام طبقات کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایک آزاد اور متحرک میڈیا ناگزیر ہے۔ ملک احمد خان نے کہا ہے کہ عالمی میڈیا کے تجربات سے پاکستانی صحافیوں کو سیکھنے کا موقع ملے گا، کیونکہ عالمی صحافیوں نے ہمیشہ سخت ترین حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے پاکستان کی ترقی کے لیے چین کے ترقیاتی ماڈل کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا اور اس حوالے سے حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کی اہمیت اجاگر کی۔ اسپیکر نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی جلد ہی کامن ویلتھ پارلیمانی ایسوسی ایشن (سی پی اے) کی علاقائی کانفرنس کی میزبانی کرے گی اور اس ایونٹ کی کامیابی کے لیے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔ حکومت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسپیکر نے کہا ہے کہ شہروں کی صفائی، تجاوزات کے خاتمے اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے کی بھی حمایت کی۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کو ملک کی ترقی سے جوڑتے ہوئے، انہوں نے اس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ پریس کانفرنس کے اختتام میں اسپیکر نے یہ یقین دہانی کرائی کہ صحافیوں کا پیشہ ورانہ ادائیگی اور سہولیات کی فراہمی میں ہر ممکن تعاون کیا جائے گا، تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔
چین کا امریکا کو جواب: کب اور کتنا ٹیکس لگے گا؟

چینی اشیا پر نئی امریکی ٹیرف کے فوری ردعمل میں چین نے منگل کے روز امریکی درآمدات پر ٹیرف لگا دیا، جس سے دنیا کی دو اعلیٰ ترین معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ مزید بڑھ گئی ہے یہاں تک کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا کو ٹیرف معافی کی پیشکش کی۔ چینی برآمدات پر امریکا کی جانب سے مزید 10 فیصد ٹیرف لگانے کی پالیسی منگل کے روز 12 بج کر ایک منٹ پر عمل میں آئی جب ٹرمپ نے چین کو بار بار کیمیکلز کی امریکا منتقلی کے خلاف کہا۔ امریکی ڈیوٹیز لگنے کے چند منٹوں کے اندر چین کی وزارت خزانہ نے کہا کہ وہ امریکی کوئلے اور ایل این جی پر 15 فیصد اور خام تیل، زرعی آلات اور کچھ گاڑیوں پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرے گی۔ وزارت نے کہا کہ امریکی برآمدات پر نئے ٹیرف 10 فروری سے شروع ہوں گے۔ چین کی وزارت تجارت اور اس کی کسٹمز انتظامیہ نے کہا کہ وہ قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹنگسٹن، ٹیلوریم، روتھینیم، مولیبڈینم اور روتھینیم سے متعلقہ اشیاء پر برآمدی کنٹرول نافذ کر رہا ہے۔ چین ایسے نایاب کیمیکلز کی دنیا میں سپلائی کو کنٹرول کرتا ہے جو صاف توانائی کی منتقلی کے لیے اہم ہیں۔ ٹرمپ نے پیر کو میکسیکو اور کینیڈا پر 25 فیصد ٹیرف کی دھمکی کو آخری لمحات میں معطل کر دیا، دونوں پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحد اور جرائم کے نفاذ پر رعایت کے بدلے میں 30 دن کے توقف پر اتفاق کیا۔ لیکن چین کے لیے ایسا کوئی پیغام سامنے نہیں آیا اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ ٹرمپ ہفتے کے آخر تک چینی صدر شی جن پنگ سے بات نہیں کریں گے۔ اپنی پہلی مدت کے دوران بھی صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ دو سالہ تجارتی جنگ کا آغاز کیا تھا جس میں امریکا اور چین نے ایک دوسرے پر ٹیرف لگائے تھے۔ اس کی وجہ سے عالمی تجارت میں سست روی اور مشکلات آئیں تھیں۔ چین نے فینٹینائل کو امریکا کا مسئلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ٹیرف کو چیلنج کرے گا اور دیگر جوابی اقدامات کرے گا، لیکن بات چیت کے لیے دروازہ ابھی بھی کھلا چھوڑ دیا ہے۔ امریکا چین کے لیے خام تیل کا نسبتاً چھوٹا ذریعہ ہے، جو گزشتہ سال اس کی درآمدات کا 1.7 فیصد تھا، جس کی مالیت تقریباً چھ بلین ڈالر تھی۔ 2019 میں بیجنگ نے امریکی ایل این جی پر ٹیرف لگایا تھا جس کے جواب میں واشنگٹن کی جانب سے چینی سامان پر محصولات میں اضافہ کیا گیا۔ چین نے 2024 میں 2.41 بلین ڈالر کی 4.16 ملین ٹن امریکی ایل این جی درآمد کی، جو 2018 کے حجم سے تقریباً دوگنا ہے۔ چین کی جوابی کارروائی کے بعد ہانگ کانگ میں اسٹاک میں اضافہ ہوا، جب کہ ڈالر مضبوط ہوا اور چینی یوآن گرا، جس سے آسٹریلوی ڈالر نیچے آگیا۔