‘پاکستان فلسطین کا بڑا بھائی،’ اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے قیدیوں کی میزبانی کرے گا

پاکستان فلسطین کا بڑا بھائی ہے اور اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے 15 فلسطینیوں کی میزبانی کرے گا۔ حماس کے ترجمان خالد قدومی نے نجی خبررساں ادارے عرب نیوز سے کی گئی گفتگو میں بتایا ہے کہ اسرائیل نے اب تک تقریباً 180 فلسطینیوں کو رہا کیا ہے، جن میں سے کچھ  نے آباد ہونے کے لیے مصر کا رخ کیا ہے۔ دوسری جانب متعدد مسلم ممالک نے ان قیدیوں کی میزبانی پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، جن میں مصر، ترکی، الجزائر، ملائیشیا، پاکستان اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ نجی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد قدورمی نے کہا کہ ‘ہمیں باضابطہ طور پر تصدیق ملی ہے کہ پاکستان نے 15 قیدیوں کی میزبانی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کے لیے ہم پاکستانی حکومت، پاکستانی عوام اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔’ حماس کے ترجمان نے کہا کہ ‘الحمداللہ! یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان صرف فلسطین کا بھائی نہیں بلکہ بڑا بھائی ہے، جس کا روحانی تعلق ہمیشہ القدس کے ساتھ رہا ہے۔ خالد قدومی نے کہا کہ جس طرح اس قوم، اس کے عوام اور اس ملک نے ہمیشہ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، اپنے وعدوں پر قائم رہے ہیں، الحمداللہ! وہ ان کی پاسداری کرتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کی طرف سے رہا کیے گئے فلسطینی قیدیوں کی میزبانی کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ عرب نیوز کے مطابق یہ پیش رفت حماس کے قریبی سمجھے جانے والے فلسطینی خبر رساں ادارے قدس پریس کی طرف سے سامنے آئی، جس میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل نے جو 99 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے، انھیں مصر بھیج دیا گیا ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے مزید 263 فلسطینی قیدیوں کی رہائی متوقع ہے۔ اس معاہدے میں ہوئے مذاکرات کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں باقی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا دیکھا جائے گا۔ یاد رہے کہ مشرقی یروشلم سمیت غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر محیط فلسطینی علاقہ 1967 سے اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتا ہے، پاکستان کا مطالبہ ہے کہ ‘عالمی متفقہ پیرامیٹرز’ کی بنیاد پر ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ مزید یہ کہ پاکستان نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد سے ‘وزیرِاعظم ریلیف فنڈ’ قائم کرنے کے علاوہ غزہ کے لیے کئی امدادی سامان روانہ کیے ہیں، جن کا مقصد جنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے عوامی عطیات جمع کرنا اور فلسطینیوں کی مدد کرنا شامل ہے۔ اکتوبر 2023 میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے اور 251 لوگوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔ اس حملے نے غزہ میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی فوجی کارروائی شروع کی، جس میں 47,000 سے زائد فلسطینی مارے گئے۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی اس وحشیانہ کارروائی نے غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، جہاں ہزاروں اسکول، مکانات اور اسپتال اسرائیلیوں کی بے دریغ بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں۔ 19 جنوری کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کیا گیا، جس میں مرکزی غزہ سے اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلاء اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی شامل ہے۔ معاہدے کے اہم اجزاء میں سے ایک یہ ہے کہ حماس 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین (فوجی اور عام شہری)، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہیں۔ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اسرائیلی خاتون فوجیوں کو رہا کر دیا۔

کوئٹہ میں گیس سلنڈر پھٹنے سے دھماکا

اب سے کچھ دیر پہلے کوئٹہ میں پشین کے علاقے میں دھماکا ہوا ہے۔ پشین بائی پاس کے قریب گیس کا سلنڈر پھٹنے سے دھماکا ہوا ہے جس میں سات افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ دھماکے سے نجی اسپتال کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو اسپتال منتقل کیا جا رہا ہپے۔ پولیس کے مطابق دو زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔

امریکی حکومت نے تارکینِ وطن کو تیزی سے واپس بھیجنا شروع کر دیا

امریکا میں موجود غیر قانونی تارکینِ وطن کو انڈیا واپس بھیجنے کے لیے امریکی فوجی طیارے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ امریکا میں مقیم انڈین غیر قانونی تارکینِ وطن کی پرواز امریکی پروازوں کی سب سے دور پرواز ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکینِ وطن کی واپسی میں تیزی کرنے کے لیے فوج کو حکم دے دیا ہے، جس میں امریکی میکسیکو سرحد پر اضافی دستے بھیجنا، تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے فوجی ہوائی جہاز کا استعمال کرنا اور ان کے لیے فوجی اڈے کھولنا شامل ہیں۔ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سی 17 طیارہ تارکین وطن کے ساتھ ہندوستان کے لیے روانہ ہوا تھا لیکن کم از کم 24 گھنٹے تک نہیں پہنچے گی۔ پینٹاگون نے ایل پاسو، ٹیکساس اور سان ڈیاگو، کیلیفورنیا میں امریکی حکام کے زیر حراست 5000 سے زائد تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے پروازیں بھی فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔ اب تک فوجی طیارے تارکین وطن کو گوئٹے مالا، پیرو اور ہونڈوراس لے جا چکے ہیں۔ فوجی پروازیں تارکین وطن کی نقل و حمل کا ایک مہنگا طریقہ ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ گزشتہ ہفتے گوئٹے مالا کے لیے فوجی جلاوطنی کی پرواز پر ایک شخص کے لیے کم از کم 4,675 ڈالر لاگت آئے گی۔

صدر پاکستان کا دورہ چین، ’امریکی دباؤ بے اثر کرنے کی کوشش‘ ؟

آصف علی زرداری چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر آج سے آٹھ فروری 2025 تک چین کا سرکاری دورہ کریں گے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دورے کے دوران صدر زداری بیجنگ میں صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی چیانگ اور دیگر سینیئر چینی رہنماؤں سمیت چینی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں اقتصادی اور تجارتی تعاون پر خصوصی توجہ کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی اور سکیورٹی تعاون، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور مستقبل کے رابطے کے اقدامات کے متعلق پاک چین تعلقات کے مکمل دائرہ کار کا جائزہ لیا جائے گا۔ مزید یہ کہ دونوں فریق عالمی، علاقائی، جغرافیائی، سیاسی منظر نامے اور کثیرالجہتی فورمز پر دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کریں گے۔ صدر آصف علی زرداری چینی حکومت کی خصوصی دعوت پر چین کے صوبے ہیلونگ جیانگ کے شہر ہاربن میں منعقد ہونے والی نویں ایشین ونٹر گیمز کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق یہ دورہ پاکستان اور چین کے درمیان اعلیٰ سطح کے تبادلوں کی روایت کو اجاگر کرتا ہے، جو دونوں ممالک کے گہرے اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق بنیادی مفادات، سی پیک سمیت اقتصادی اور تجارتی تعاون کو آگے بڑھانے اور علاقائی امن، ترقی اور استحکام کے لیے اپنے مشترکہ عزم کو اجاگر کرنے کے لیے باہمی تعاون کا اعادہ کرتا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کے صدر آصف زداری نے گذشتہ برس نومبر میں چین کا سرکاری دورہ کرنا تھا، لیکن دبئی میں ہوائی اڈے پر ان کے پاؤں میں ہونے والے فریکچر کے باعث یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں تقریباً 11 برس بعد چین کے کسی وزیراعظم  نے پاکستان کا دورہ کیا۔ چینی وزیراعظم لی چیانگ کے اس دورے کے دوران دونوں ممالک نے سکیورٹی، تعلیم، زراعت، انسانی وسائل کی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے طے شدہ 13 مختلف مفاہمتی یادداشتوں اور دستاویزات کا تبادلہ کیا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈین بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ڈاکٹر عمر فاروق زین نے کہا ہے کہ ملک کے صدر آصف علی زرداری کا چین کا دورہ معمول کی سفارت کاری سے بالاتر ہے اور کچھ فوری مسائل کو حل کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں نئی امریکی انتظامیہ کے نمائندوں کا رویہ موجودہ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو سیاسی راحت فراہم کرنے کے لیے امریکی دباؤ کے پیچھے بنیادی مقصد پاکستان کو چین سے اسٹریٹجک فاصلے یا گوسلو پالیسی کی طرف لے جانا ہے۔ پاکستانی انتظامیہ اس طرح محسوس کرتی ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد چین کے ساتھ سرد جنگ ممکن نہیں ہے، اس لیے چین میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سازگار جواب نہ ملنے کے بعد صدر آصف علی زرداری کو حتمی یقین دہانی کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ایک غیر متعین تجزیہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’اس بات کا واضح امکان ہے کہ امریکی دباؤ کے مقاصد کو بے اثر کرنے کے لیے چین سے مشاورت کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کی جائیں‘۔ قومی مفادات کو درپیش خطرات کے پیش نظر چین جیسے اسٹریٹجک پارٹنر کی ضمانت کے طور پر دھڑوں کے سامنے سیاسی اتفاق رائے کا ایک فارمولا پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے موجودہ حالات کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا سیاسی عدم استحکام سی پیک کو متاثر کر رہا ہے، اس لیے کوئی بھی سرمایہ کار زیادہ دیر تک دوستی کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ چین نے 2014 میں سی پیک کے تحت پاکستان میں لگ بھگ 60 ارب ڈالر کے توانائی اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا اور گزشتہ سال اس منصوبے کے 10 سال مکمل ہو گئے تھے۔ چینی میڈیا کے مطابق سی پیک منصوبے کے پہلے مرحلے میں دونوں ممالک نے مل کر 38 منصوبے مکمل کیے ہیں، جن کی مالیت تقریباً 25.2 ارب انریکی ڈالرز ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں پر ملک کے مختلف صوبوں میں کام جاری ہے، حالیہ برسوں میں ان منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر حملے کے بعد ان کی سکیورٹی کے خدشات دونوں ممالک کی توجہ کا محور رہے ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں ہونے والے حملوں کے بعد چینی کمپنیوں اور شہریوں کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے مخصوص فورس بھی تشکیل دے دی ہے۔

وزیراعلیٰ کے لاہورمیں ڈیرے، جنوبی پنجاب مریم نواز کی عدم توجہ کا شکار

پنجاب میں جو بھی حکمران بنا وہ دارالحکومت سے باہر نہیں نکلا، چاہے وہ منتخب ہو یا نگران وزیراعلیٰ۔ دونوں کی توجہ لاہور پر ہی رہی ہے۔ الزام ہے کہ مریم نواز تو ہیں ہی اسی شہر کی اور یہ ہی ان کی توجہ کا محور ہے۔  گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا راج رہا ہے، مگر پچھلے دو انتخابات میں آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی غیر معمولی سیاسی حمایت دیکھنے میں آئی، جس نے مسلم لیگ ن کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ ن لیگ کا پنجاب کو لے کر یہی بیانیہ رہا کہ پنجاب میں تعمیراتی ترقی ن لیگ کی ہی بدولت ہوئی ہے اور اس وقت بھی ن لیگ تعمیراتی کاموں پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، مگر کیا واقعی ن لیگ نے پورے پنجاب میں مساوی کام کیے ہیں؟ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما صائمہ کنول نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ ہونے کی بڑی وجہ بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ ’حکومتی عہدے داروں کی توجہ صرف لاہور پر ہے، جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حکومتی کابینہ کی اپنی رہائش بھی لاہور میں ہے، اس کے علاوہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے ارکان زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر توجہ اور بجٹ لاہور کو دیا جاتا ہے‘۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے لاہور کو خصوصی اہمیت دی ہے اور  بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کے منصوبے، سڑکوں کی تعمیر اور ماس ٹرانزٹ سسٹم پر خصوصی توجہ دی  ہے جب کہ اس کے برعکس جنوبی پنجاب کے عوام کا سوال ہے کہ کیا ان کے علاقوں کو بھی لاہور جتنی توجہ کبھی حاصل ہو پائے گی؟ شعبہ سیاسیات اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کی بنیادی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، تعلیمی و صنعتی ترقی کی کمی اور حکومتی ترجیحات کا عدم توازن ہے‘۔ انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ’ لاہور کو سیاسی، تجارتی اور ثقافتی مرکز ہونے کے باعث زیادہ توجہ اور فنڈنگ دی جاتی ہے، جبکہ جنوبی پنجاب کو زرعی علاقہ سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ تعلیمی پسماندگی، بےروزگاری، سیاسی بےچینی اور زرعی بحران کی صورت میں نکل رہا ہے‘۔ واضح رہے کہ یہ سوال محض کسی سیاسی نعرے یا تنقید کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اس علاقے کی محرومیوں کو کم کرنے کے وعدے کیے، جومحض کھوکھلے دعوے ہی ثابت ہوئے۔ یاد رہے کہ جنوبی پنجاب کا یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں بڑی جماعتوں  نے جنوبی پنجاب کی ترقی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا۔  2018 میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا اور اس مقصد کے لیے ایک سیکریٹریٹ بھی قائم کیا گیا، لیکن مکمل صوبہ بنانے کے حوالے سے کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے  2013 سے 2018 کے دور میں بھی جنوبی پنجاب کے لیے کچھ ترقیاتی منصوبے ضرور بنائے گئے، لیکن زیادہ تر فنڈز لاہور اور دیگر بڑے شہروں پر خرچ کیے گئے۔ یہی صورت حال موجودہ ن لیگی حکومت میں بھی نظر آ رہی ہے۔ مریم نواز کی حکومت کے ابتدائی بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا، جب کہ لاہور میں ترقیاتی کاموں پر خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز  نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں لاہور کو جدید ترین شہر بنانے کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے، جن میں جدید ٹریفک مینجمنٹ سسٹم، انڈر پاسز، اور ایلیویٹڈ ایکسپریس وے جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور میں صحت، تعلیم، اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی متعدد اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب جنوبی پنجاب کے شہری ابھی تک ان بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وہاں کے عوام بنیادی انفراسٹرکچر، معیاری صحت اور تعلیم کی عدم دستیابی، اور روزگار کے کم مواقع جیسے مسائل کا سامنا کر  رہے ہیں۔ اگر جنوبی پنجاب اور لاہورکےبجٹ کا جائزہ لیا جائے تو فرق واضح نظر آتا ہے۔ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں 2023- 24 کے دوران لاہور کے لیے 120 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے، جب کہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع کے لیے مشترکہ طور پر 200 ارب روپے مختص گئے۔ حیران کن بات یہ ہے  جنوبی پنجاب کے لیے مختص کی گئی رقم بھی مکمل طور پر جاری نہیں کی گئی اور بیشتر ترقیاتی منصوبے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔ مریم نواز کی حکومت نے 2024-25 کے بجٹ میں لاہور کے ماس ٹرانزٹ منصوبوں اور انفراسٹرکچر پر مزید اربوں روپے خرچ کرنے کا اعلان کیا، لیکن جنوبی پنجاب میں کوئی بڑا نیا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں کئی تنظیمیں ایسی موجود ہیں جو جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ وہاں کے لوگوں کے لیے علیحدہ صوبائی بجٹ مختص ہو اور وہ ترقیاتی کام کیے جائیں۔ حکومتِ پنجاب کو اس پر خصوصی توجہ دینی ہوگی نہیں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان جیسے حالات جنوبی پنجاب میں بھی پیدا ہوجائیں اور شدت پسند تحریکیں جنم لے لیں، جس سےکھلے عام انسانیت کا استحصال ہوگا۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے صائمہ کنول نے کہا ہے کہ لاہور ڈویژن کا بجٹ جنوبی پنجاب کے بجٹ کے لگ بھگ برابر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ملکی سطح پر لاہور کو دکھا کر کہتی ہے کہ پنجاب نے ان کے دور میں اتنی ترقی کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے برعکس جنوبی پنجاب پر توجہ نہیں دی جا رہی، جب صوبے کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ایک شہر کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور باقی صوبہ پسماندہ

ایلون مسک کو امریکا میں خصوصی سرکاری ملازم کا درجہ دے دیا گیا

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے پیر کو کہا کہ ایلون مسک، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی حکومت کے سائز کو کم کرنے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں، اب انہیں خصوصی سرکاری ملازم سمجھا جائے گا۔ یہ عہدہ دنیا کے امیر ترین شخص کو امریکی حکومت کے لیے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن ابھی تک ان کے کام اور مالیات کے بارے میں ٹھوس باتیں سامنے نہیں آ سکی ہیں جو کہ باقی سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتی ہیں۔ مسک اب بھی الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کے سی ای او ہیں۔ اس کے علاقہ نیا ٹیب اور ایرو سپیس کمپنی سپیس ایکس بھی انہی کے پاس ہے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا کہ مسک کو “خصوصی سرکاری ملازم” کے طور پر درجہ دیا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک دوسرے سینئر اہلکار نے کہا کہ مسک کو سرکاری تنخواہ نہیں مل رہی اور وہ قانون کی مطابق کام کر رہے ہیں۔ عام طور پرخصوصی سرکاری ملازمین کو ان کے عہدوں پر 130 دن سے زیادہ کے لیے تعینات کیا جاتا ہے، لیکن ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ مسک کا عہدہ کب تک رہے گا۔ ایلون مسک نے وفاقی بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر ملازمین کی تعداد میں کمی کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر قواعد و ضوابط تبدیل کیے ہیں کیونکہ ان کی ٹیم کو متعدد سرکاری دفاتر تک رسائی دی گئی ہے۔ مسک کی پالیسیوں  نے سرکاری ملازمین میں خوف پیدا کر دیا ہے اور کچھ ایجنسیوں کے اندر افراتفری پھیلا دی ہے۔ جمہوری قانون سازوں نے اس بات کی مذمت کی ہے کہ وہ ایک غیر منتخب ارب پتی کی حیثیت سے وفاقی حکومت پر بہت زیادہ طاقت حاصل کررہےہیں۔ صدر ٹرمپ نے مسک کو یو ایس ایڈ کی بحالی کی نگرانی سونپی تھی ، انہوں نے سوموار کو مسک کا دفاع کیا اور کہا کہ ان کے مشیر جو کچھ کر سکتے ہیں اس کی حدود ہیں۔ ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا”ایلون ہماری منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرے گا، اور جہاں مناسب ہو ہم اسے منظوری دیں گے جہاں مناسب نہیں، ہم نہیں دیں گے۔ لیکن وہ رپورٹ کرتا رہے گا،” ٹرمپ نے مزید کہا کہ “یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں وہ بہت شدت سے کام کرنا چاہتے ہیں، اور میں ان کے کام سے متاثر ہوں، کیونکہ وہ ، ایک بڑی کمپنی چلا رہا ہے۔اگر کوئی تنازعہ ہے، تو ہم اسے اس کے قریب نہیں جانے دیں گے۔ لیکن اس کے پاس ایک اچھی، فطری قوت ہے۔ اس کے پاس بہت باصلاحیت لوگوں کی ایک ٹیم ہے۔

“ہندوستان اور اسرائیل ایک ہیں۔ ” مشاہد حسین سید

اسلام آباد میں منعقدہ کشمیر کانفرنس کے دوران جماعتِ اسلامی نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک کروڑ ای میلز بھیجنے کی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بذاتِ خود ای میل کر کے مہم کا باضابطہ آغاز کیا، جس کے بعد سینیئر سیاستدان مشاہد حسین سید سمیت دیگر مندوبین نے بھی اقوام متحدہ کو ای میلز ارسال کیں۔ مشاہد حسین سید نے تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ “ہمارے ہیروز بھارت کے ولن ہیں اور بھارت کے ہیروز ہمارے ولن ہیں۔” لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آج کچھ لوگ مودی کے ساتھ ایک صفحے پر آگئے ہیں، اور وہ محمود غزنوی کو لٹیرا اور احمد شاہ ابدالی جیسے عظیم مسلم ہیروز پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ہم ہندوستان کے بارے میں اپنی پوزیشن بہت واضح رکھتے ہیں کہ ’ہندوستان اور اسرائیل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھتا ہے اور بھارت اکھنڈ بھارت کی بات کرتا ہے‘۔ یہ جو دہشت گردی کی بات کی جاتی ہے، وہ ہمارے مجاہدین ہیں بلکہ حریت پسند ہیں، جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑی۔ اور یہ انٹرنیشنل قوانین کے مطابق ان کی مسلح جدوجہد جائز ہے، جس کی تائید خود چین نے 2024 میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کی۔ چینی مندوبین نے اس موقف کو عالمی سطح پر تسلیم کیا تھا اور تمام ممالک نے اس پر اپنے بیانات دیے تھے۔ قومی کشمیر کانفرنس میں نائب امیر جماعت لیاقت بلوچ، سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق خان ، آصف لقمان قاضی ، میاں محمد اسلم، عبداللہ گل،  ڈاکٹر مشتاق خان ، عبدالرشید ترابی، رہنما پاکستان پیپلز پارٹی نیر بخاری اور مقبوضہ کشمیر سے رہنما غلام محمد صفی بھی شریک ہوئے۔

کیا صرف طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟

کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے خلیے بے قابو ہو کر بڑھنے لگتے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ بیماری عام طور پر جینیاتی تغیرات کی وجہ سے ہوتی ہے اور مختلف اقسام میں پائی جاتی ہے۔ لاہور کے نجی ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “کینسر کی متعدد اقسام ہیں، جن میں بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، خون کا کینسر (لیوکیمیا)، اور کولون کینسر شامل ہیں۔ کینسر عام طور پر جینیاتی تبدیلیوں، تمباکو نوشی، غیر صحت بخش خوراک، موٹاپے اور ماحولیاتی عوامل جیسے ریڈی ایشن یا زہریلے کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جلد تشخیص اور مناسب علاج سے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔” کینسر کی علامات میں غیر معمولی گلٹیاں، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، مسلسل تھکاوٹ، جلد پر غیر معمولی تبدیلیاں، مستقل کھانسی، آواز میں تبدیلی، کھانے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، خون بہنا، زخموں کا نہ ٹھیک ہونا اور مستقل جسمانی درد وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم رضا کے مطابق “کینسر کی علامات اس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہیں، لیکن عام طور پر مسلسل تھکن، بغیر کسی وجہ کے وزن میں کمی، کسی بھی جگہ غیر معمولی گلٹی یا سوجن، طویل عرصے تک کھانسی یا خون آنا، اور زخموں کا دیر سے بھرنا شامل ہیں۔ اگر یہ علامات برقرار رہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔” عالمی سطح پر کینسر کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں موروثی (جینیاتی) عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اثرات، غیر صحت مند خوراک، موٹاپا، تمباکو نوشی، شراب نوشی اور دیگر مضر صحت عادات شامل ہیں۔ ماہر جینیٹکس ڈاکٹر خدیجہ قمر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” تمباکو نوشی اور شراب نوشی میں موجود مضر کیمیکل خلیوں کے ڈی این اے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے کینسر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تمباکو میں شامل نکوٹین اور دیگر زہریلے اجزا خاص طور پر پھیپھڑوں، منہ، گلے اور مثانے کے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں، جبکہ شراب نوشی جگر، معدے اور بریسٹ کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ان عادات سے پرہیز کر کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔” کینسر یا سرطان کی کئی اقسام ہیں اور ان سے بچاؤ کے طریقوں پر سبھی ماہرین متفق بھی نہیں ہیں، تاہم محققین اس بات پر ضرور اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر کی نصف سے زائد اقسام سے بچاؤ ممکن ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ کے نزدیک “صحت مند خوراک اور باقاعدہ ورزش کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں، لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، اور کچھ وائرس بھی کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو بروقت پہچانا جا سکے۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں جیسے متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور نشہ آور اشیا سے پرہیز کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدائی تشخیص، جدید علاج اور احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مہلک بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، اور وزن کو کنٹرول میں رکھ کر کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صحت مند طرزِ زندگی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور جسم کو ان عوامل سے بچاتی ہے جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم جینیاتی عوامل اور ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے۔” متوازن اور صحت مند خوراک جیسے نامیاتی غذا، سبزیاں، پھل اور کم چکنائی والے کھانے جسمانی قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش اور جسمانی سرگرمیاں موٹاپے، دل کی بیماریوں اور کینسر کے امکانات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ خاص طور پرتمباکو اور الکحل سے پرہیز صحت مند طرزِ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے مطابق “ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں، جس سے کینسر کے خلیے بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مسلسل تناؤ کی حالت میں ہارمونز کی عدم توازن پیدا ہو سکتی ہے، جو کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ اس لیے ذہنی سکون اور مناسب نیند صحت کے لیے ضروری ہیں۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بیماریوں کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں، مگر جینیاتی عوامل بھی کینسر کے امکانات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جن پر طرزِ زندگی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “جینیاتی عوامل بعض صورتوں میں اتنے طاقتور ہو سکتے ہیں کہ صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کے باوجود بھی کینسر ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ کچھ مخصوص جینیاتی تغیرات (mutations) موروثی طور پر منتقل ہوتے ہیں، جو کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، اور نقصان دہ عادات سے پرہیز کرنے سے اس خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔” دوسری طرف قدرتی جڑی بوٹیاں اور روایتی ادویات بھی مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، مگر ماہرین انہیں مکمل علاج کا متبادل نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں بھی بہت سے افراد اس بیماری کی علامات کو نظرانداز کرتے ہیں اور روایتی ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں جس سے یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے نزدیک ” متبادل طریقہ علاج جیسے ہربل میڈیسن یا ہومیوپیتھی بعض کیسز میں مدافعتی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ کینسر کے مکمل علاج یا بچاؤ میں مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ کینسر کا مؤثر علاج جدید طبی طریقوں جیسے کیموتھراپی، ریڈیوتھراپی، اور سرجری سے ممکن ہے، اس لیے مریضوں کو مستند طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے اور بغیر تحقیق کے

خواجہ آصف نے عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دباؤ کو مسترد کر دیا

وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے امریکا کی جانب سے دباؤ کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کسی بھی فرد، جماعت یا واقعے سے زیادہ وسیع ہیں۔ نجی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مخصوص واقعات یا شخصیات تک محدود نہیں ہیں۔ ان کے ریمارکس ایسے قیاس آرائیوں کے درمیان آئے ہیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ کے کچھ ارکان کی جانب سے سابق وزیر اعظم کی حمایت کے بیانات کے بعد سابق عمران خان کو رہا کرنے کے لیے پاکستان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ٹرمپ کے معاون رچرڈ گرینل سمیت کچھ قانون سازوں نے خان کی رہائی کے حق میں پوسٹ کیا تھا، وزیر دفاع نے نشاندہی کی کہ ان میں سے کچھ قانون سازوں نے بعد میں اپنے ٹویٹس کو حذف کر دیا۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ پاکستان امریکی حکومت کے ساتھ مناسب روابط کو برقرار رکھتا ہے، جو سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ ان کے تبصرے وزیر داخلہ محسن نقوی کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد سامنے آئے ہیں، جہاں انہوں نے ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ٹیم کے اہم ارکان اور دیگر قانون سازوں سے ملاقات کی۔ محسن نقوی نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی اہمیت پر زور دیا کہ ان ملاقاتوں کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ خواجہ آصف نے پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کے حوالے سے کہا کہ حملوں کی بڑھتی ہوئی تعدد اور شدت کی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے گروپوں کے عسکریت پسندوں کی جانب سے جدید ترین امریکی ہتھیاروں کا استعمال ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی مسلح افواج اور لچک بالآخر دہشت گردی کے خطرے پر قابو پالیں گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کچھ واقعات کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، انہوں نے شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے افغانستان میں طالبان حکام کو جلال آباد جیسے پاکستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں بھارتی قونصل خانوں کی کارروائیوں کے حوالے سے بتایا۔