“حکومت عوام کی مشکلات سے باخبر ہے” خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ”وزیر اعلیٰ کے پی کہتے ہیں ہمارے 99 فیصد مطالبات منظور ہو گئے۔ پی ٹی آئی آج احتجاج اور فساد کی سیاست کر رہی ہے۔ اگر ان کے مطالبات منظور ہو گئے تو احتجاج کس لئے؟ جشن منانا چاہئے۔ ایس سی او کا نفرنس کے دوران بھی پی ٹی آئی والوں نے فساد برپا کرنے کی کوشش کی”۔ ان کا کہنا تھا کہ”حکومت عوام کی مشکلات سے باخبر ہے، بجلی کی قیمت کم کریں گے۔ جب بھی پاکستان کی عزت کا موقع آتا ہے تو فسادی ٹولہ سر اٹھا لیتا ہے۔ حکومت کی کوششوں سے معیشت سنبھل گئی ہے۔ ایس سی او کا نفرنس کے دوران بھی پی ٹی آئی والوں نے فساد برپا کرنے کی کوشش کی”۔ انہوں نے سیالکوٹ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ”شرح سود آدھی، مہنگائی کم ہو کر ڈھائی فیصد تک آگئی ہے۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ ایک لاکھ 18 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “علی امین گنڈا پور کے 90 فیصد مطالبات پورے ہو گئے تو احتجاج کس بات پر کر رہے ہیں۔ پر امن جلسے ہوں تو انتظامیہ کی طرف سے مناسب انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔ 18 یا 19 فروری کو چیمپیئنز ٹرافی کی شروعات پر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ کسی بھی عالمی ایونٹ کی توقیر میں کمی کرنا پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے۔ کوئی اسلام آباد یا کسی صوبے میں حملہ کرنے کی نیت سے جائے تو اسکی اجازت نہیں۔ سیاسی روایات کے مطابق جلسے کیے جائیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا”۔ انہوں نے کہا کہ “پی ٹی آئی نے ایک بار پھر احتجاجی جلسے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وفد کے ایک فرد نے کہا ماہانہ 4 ملین ڈالر پی ٹی آئی والے امریکا میں خرچ کر رہے ہیں۔ عنقریب ان پیسوں پر بھی ان کی لڑائی ہوئی ہے”۔
مشکیزہ: ایک قدیم روایت

پرانے زمانے میں کھلی مشکیزےکو کہا جاتا تھا۔ کھلی کا مطلب پانی رکھنے کا مٹکا بھی ہے۔ آج کل ان کی جگہ کنستر یا بوتلوں نے لے لی ہے۔ آج بھی بلوچستان میں ایک بوتل پہ کپڑا چڑھا دیا جاتا ہے اور اس کا پانی پیا جاتا ہے۔ آج سے 50 سال پہلے (کھلی) مشکیزہ بنانے کے لیے بکری اور بکرے کی کھال کا استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کل کھلی ملک میں ناپید ہو گئی ہے. چھوٹی بکری اور بکرےکو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال اتاری جاتی تھی۔ دس ہفتوں تک کھال کو خشک کیا جاتا تھا اور پھر گرم پانی میں ابالا بھی جاتا ہے اس کے بعد پھر ریشم کے دھاگے سے سی دیا جاتا تھا۔ اس کا پانی فریج سے زیاد ٹھنڈا نہیں تو گرم بھی نہیں ہوتا۔ مشکیزےکا استعمال قدیم روایت کا حصہ ہے۔ دنیا میں بہت سی اقوام اس کا استعمال کرتی ہیں۔ بلوچ قوم بھی مشکیزے کا استعمال اپنے ارتقائی دور سے کرتی چلی آرہی ہے۔ مشکیزے کو بلوچی زبان میں ’’مشک‘‘کہا جاتا ہے ۔زمانہ قدیم میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ ایجاد کیا گیاتھا ۔ مشکیزہ بنانے کا کام کافی مشکل اور کھٹن ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اس کو بناتے ہیں اور زیادہ تر بلوچ خواتین ہی مشکیزہ بنانے کا کام کرتی ہیں۔مشکیزہ بنانے کے لئے بکری اور بکرے کی کھال استعمال کی جاتی ہے۔ بکری یا بکرے کو ذبح کرنے کے بعد کھال کو اتارنے میں کافی احتیاط کی جاتی ہے تاکہ اس میں سوراخ نہ ہونے پائے، اور سوراخ ہونے کی صورت میں کھال مشکیزہ بنانے کے لئے کام نہیں آتی ۔یہ کام بھی ماہر لوگ ہی کرتے ہیں کھال کو اتارنے کے بعد تقریباً چار ہفتوں تک سورج کی تپش میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے اور پھر کیکر کے چھلکے سے ان کو گرم پانی میں ابالا جاتا ہے۔ دس دن تک یہ کھال پانی میں رکھی جاتی ہےجس سے یہ چمڑہ مضبوط ہوجاتا اور پھٹنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے ۔اس کے بعد ریشم کے دھاگوں سے غیر ضروری سوراخ بند کرکے صرف پانی ڈالنے اور نکالنے کے لئے ایک بڑا سوراخ رہ جاتا ہے . پانی اس میں رکھنے کی وجہ سے کھال کی اصل رنگت تبدیل ہوجاتی ہے تو اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے ۔کھال مضبوط اور پائیدار بن جاتی ہے۔ بعد میں مشکیزہ براؤن رنگ کا ہو جاتا ہے۔. مشکیزے بلوچ ثقافت کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے ،آج کے جدید دور میں بھی بلوچستان کے پہاڑی اور دور آفتادہ گاؤں میں جہاں بجلی کی سہولت موجود نہیں ہے،وہاں کے لوگ پانی ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزے کا استعمال کرتے ہیں۔ مشکیزےمیں پانی رکھنے سے اس کی رنگت اور ذائقہ برقرار رہتا ہے۔ مشکیزےبنانے والی ایک عورت کے مطابق مشکیزے کی تیاری کا مرحلہ انتہائی مشکل اور کٹھن کام ہے۔ جسے آج بھی مکران کے دیہی علاقوں میں استعمال کیا جارہا ہےاور جب ماضی میں پوری دنیا میں پانی ٹھنڈا کرنے کے ذرائع نہ تھے تو بلوچوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر مشکیزہ بناکر دنیا کو فریج اور ڈیفریزر بنانے کا خیال فراہم کردیا۔ لکھاری اور محقق گلزار گچکی کا کہنا ہے کہ جب انسانوں نے گاؤں کی صورت میں رہائش اختیار کرنا شروع کی تو قحط کے دنوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کا آغازہوا۔ اس وقت مشکیزے کا استعمال شروع ہوا۔وہ کہتے ہیں آج بھی ان علاقوں میں مشکیزے کا استعمال ہورہا ہے جہاں اب تک بجلی نہیں پہنچی ہے۔ کیچ اور آواران سمیت بلوچستان کے دور تر افتادہ گاؤں میں مشکیزے کا استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ بجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ استعمال کرنے کی قدیم روایت زندہ ہے۔ مشکیزے کی ایک چھوٹی قسم بھی ہے جسے مقامی زبان میں “کلی”کہا جاتا ہے اور یہ چھوٹی بکری یا بکرے کی کھال سے تیار کی جاتی ہے۔اسے عام طور پر چرواہے استعمال کرتے ہیں جوکہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہلکی وزن کا ہوتا ہے۔ مشکیزے پاکستان کے دور افتادہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں لوگوں کے لئے ڈیپ فریزر اور فریج کا کام دیتے ہیں۔ ہرپاکستانی ان پسماندہ پاکستانیوں کی زندگی کے معمول کا اندازہ کرسکتا ہے خاص طور پر وہ جو فریج ،ڈیپ فریزر،کولر کے ٹھنڈے پانی کے عادی ہوں۔
”پی ٹی آئی کی نا اہلی اور بیڈ گورننس کا خمیازہ عوام نے بھگتا ہے” مریم اورنگزیب

سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ساڑھے چار سال میں پی ٹی آئی کی نا اہلی اور بیڈ گورننس کا خمیازہ عوام نے بھگتا ہے۔ مریم اورنگزیب پریس کانفرنس کر رہی ہیں، انھوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ 8 فروری کو یومِ ترقی و تعمیر منا رہے ہیں، وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں پنجاب ترقی کر رہا ہے۔ معیشیت مستحکم اور مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت میں پاکستان نے سفارتی سطح پر پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کیا ہے، سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات کیے گئے۔ پاکستان کی اسٹاک ایکس چینج کا دنیا کی بہترین اسٹاک ایکس چینج میں شمار ہو رہا ہے۔ مخالفین بھی پنجاب حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کے معترف ہیں۔ پنجاب میں جب منصوبوں کے فوائد عوام کو پہنچنا شروع ہوتے ہیں، اس وقت افتتاح کیا جاتا ہے۔ 9 سے 23 فروری تک ہارس اینڈ کیٹل شو کا انعقاد کیا جارہا ہے، ہارس اینڈ کیٹل شو میں فیمیلیز اور بچوں کے لیے مختلف پروگرام ہوں گے۔ سینئر صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ 2018 میں آر ٹی ایس بٹھا کر مینڈیٹ چوری کیا گیا تھا۔ عوامی مینڈیٹ کی واپسی سے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ۔ساڑھے چار سال میں پی ٹی آئی کی نااہلی اور بیڈ گورننس کا خمیازہ عوام نے بھگتا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
وزیرستان میں ہونے والے دہشتگرد حملے میں افغانی شہری ملوث نکلا

آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں 6 فروری کو ہونے والے آپریشن میں ہلاک ہونے والا دہشتگرد افغان شہری نکلا۔ جو پاکستان میں دہشت گردی میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کا ایک اور ناقابل تردید ثبوت ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق، ہلاک ہونے والا دہشتگرد لقمان خان عرف نصرت افغان صوبے خوست کے ضلع سپیرا کا رہائشی تھا۔ اس دہشت گرد کی ہلاکت کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ یہ افغان دہشتگرد پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کے لیے سرگرم تھا۔ آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ 6 فروری کو دتہ خیل میں ہونے والے آپریشن میں لقمان خان مارا گیا۔ دہشتگرد کی لاش کی حوالگی کے لیے افغان عبوری حکومت سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کی مزید کارروائیاں نہ ہوں۔ یہ واقعہ افغان دہشتگردوں کی پاکستان میں مداخلت کے ایک اور سنگین اشارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ چند روز قبل ہی پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں افغان صوبے کے نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل تھا، جو افغان حکومت کے لیے ایک اور سنگین سوال اٹھاتا ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ افغان عبوری حکومت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیاں روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ اس واقعے نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کی ہیں اور دونوں ممالک کے لیے دہشت گردی کی روک تھام ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔
شیخ حسینہ واجد کی برطرفی، کیا محمد یونس ڈوبتے بنگلہ دیش کو بچا پائیں گے؟

بنگلہ دیش میں سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، چھ ماہ قبل وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد بنگلہ دیش کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں معیشت کی بدترین حالت ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ اور اسلام شدت پسند کی بڑھتی ہوئی لہر شامل ہیں۔ ان تمام حالات نے بنگلہ دیش کو ایک سنگین دور سے دوچار کر دیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد، جو گزشتہ پندرہ برسوں سے ملک کی حکمران تھیں، اگست میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے دوران بھارت فرار ہو گئیں۔ یہ بغاوت ایک زبردست سیاسی تحریک کا حصہ تھی جس میں ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور حکومت کے خلاف شدید غصہ پایا گیا۔ اس بغاوت کے بعد، نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ شیخ حسینہ کی جماعت، عوامی لیگ نے اس کی مخالفت میں شدید احتجاج شروع کر دیا ہے، جس میں فروری میں عام ہڑتال اور مظاہروں کا اعلان کیا گیا تھا۔ شیخ حسینہ واجد نے جلاوطنی کے دوران اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ واپس آئیں گی، اور ان کی جماعت کی جانب سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے حامیوں کے ساتھ میدان میں آ کر اقتدار کا دوبارہ کنٹرول حاصل کریں گی۔ حسینہ کی جماعت نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ایک سو سے زائد حامیوں کو حملوں میں مارا جا چکا ہے۔ ان الزامات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی، مگر یہ دعویٰ بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی کا واضح اشارہ ہے۔ جس طرح حکومت کے خلاف مظاہروں اور بغاوتوں میں اضافہ ہوا ہے، ویسے ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے عبوری حکومت پر شدید تنقید کی ہے، اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کو نشانہ بنانے کے لئے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ حکومت نے توہین آمیز سائبر سکیورٹی ایکٹ کو منسوخ کیا، جسے ماضی میں اظہار رائے کو دبا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، مگر اس کی جگہ ایک نیا آرڈیننس نافذ کیا گیا جس میں وہی مضمرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی حکومت کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے میڈیا کی آزادی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ شیخ حسینہ کے دور حکومت میں جو سیاسی استحکام تھا، اس کا خاتمہ ہوتے ہی اسلامی شدت پسند گروہ بھی طاقتور ہو گئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، حسینہ کے زوال کے بعد، اسلامی جماعتیں اور سخت گیر مذہبی گروہ ملک کی موجودہ افراتفری کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ طلبہ قیادت میں ہونے والی بغاوت کے دوران جیل توڑنے کے بعد تقریباً 700 قیدی مفرور ہو گئے تھے، جن میں 70 کے قریب اسلامی شدت پسند شامل تھے۔ عبوری حکومت نے ملک کے انتخابی نظام، قانون کی حکمرانی اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے شعبوں میں اصلاحات کے لئے چھ کمیشن قائم کیے ہیں۔ ان کمیشنوں کی رپورٹس پر غور کیا جا رہا ہے اور ان کے نتائج عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(بی این پی) اور دیگر بڑی سیاسی جماعتوں نے فوری انتخابات کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ ان کے مطابق اصلاحات کا عمل عوامی مینڈیٹ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ شیخ حسینہ کی واپسی کے امکانات ابھی تک واضح نہیں ہیں، مگر ان کے بیانات اور ان کی جماعت کے احتجاج اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے حامیوں کے ساتھ ملک واپس آ کر اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کی کوشش کریں گی۔ بنگلہ دیش کا سیاسی منظر نامہ ایک سنگین بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں۔ عبوری حکومت نے اصلاحات کے وعدے تو کیے ہیں، مگر ان اصلاحات کا نفاذ اور انتخابات کا انعقاد ابھی تک ایک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ اسلام شدت پسندی کا بڑھتا ہوا اثر، صحافیوں اور مخالفین پر ہونے والے حملے اور سیاسی عدم استحکام ملک کے مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ اس بحرانی صورتحال میں بنگلہ دیش کا مستقبل کس سمت میں جائے گا، یہ وقت ہی بتائے گا۔
نیوزی لینڈ نے پاکستان کو سہ ملکی سیریز کے پہلے میچ میں 78 رنز سے شکست دی

سہ ملکی سیریز کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 78 رنز سے شکست دی۔ پاکستان 331 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 47 اوورز میں 252 رنز بنا کر آؤٹ ہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 330 رنز بنائے۔ پاکستان کی طرف سے فخر زمان اور سلمان علی آغا کے علاوہ کوئی بھی بیٹر موثر کھیل پیش نہ کر سکا۔ فخر زمان 84 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے، جبکہ سلمان علی آغا نے 40 رنز بنائے۔ دیگر کھلاڑیوں میں ابرار احمد 23، بابر اعظم 10، کامران غلام 18، محمد رضوان 3 اور خوشدل شاہ 15 رنز کے ساتھ آؤٹ ہوئے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے گلین فلپس نے شاندار 106 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی، جبکہ ڈیرل مچل نے 81 رنز بنائے۔ پاکستان کے شاہین شاہ آفریدی نے 88 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں، لیکن حارث رؤف فٹنس مسائل کے باعث بیٹنگ کے لیے نہ آ سکے۔ میچ کے آغاز میں نیوزی لینڈ کا آغاز غیر متوقع رہا اور اس کی 39 رنز پر 2 وکٹیں گر گئیں۔ ول ینگ محض 4 رنز پر آؤٹ ہوئے، جبکہ اوپنر راچن رویندرا نے 25 رنز بنائے۔ پاکستان کی طرف سے شاہین آفریدی اور ابرار احمد نے ایک ایک کھلاڑی کو پویلین بھیجا۔ اس کے بعد کین ولیمسن اور ڈیرل مچل نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے اسکور کو آگے بڑھایا ۔ تاہم، 134 کے مجموعی سکور پر شاہین آفریدی نے کین ولیمسن کو 58 رنز پر آؤٹ کر دیا، اور حارث رؤف نے ٹام لیتھم کو صفر پر آؤٹ کیا۔ مچل اور گلین فلپس نے اسکور کو مزید بڑھایا اور ٹیم کو 254 تک پہنچایا، جہاں شاہین نے 31 رنز بنانے والے بریسویل کو آؤٹ کیا۔ بعد ازاں، گلین فلپس اور مچل سینٹنر نے ساتویں وکٹ پر 26 گیندوں پر 76 رنز بنائے۔ گلین فلپس نے 7 چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 106 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور ناٹ آؤٹ رہے، جبکہ مچل سینٹنر نے 8 رنز بنائے۔ شاہین آفریدی نے 3، ابرار احمد نے 2 اور حارث رؤف نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ٹاس کے بعد پاکستان کے کپتان محمد رضوان نے کہا کہ اگر وہ ٹاس جیتتے تو پہلے بیٹنگ کرتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بابر اعظم اننگز کا آغاز کریں گے۔ نیوزی لینڈ کے کپتان مچل سینٹنر نے کہا کہ وکٹ بیٹنگ کے لیے سازگار دکھائی دے رہی ہے، اس لیے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے سٹار فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے اپنے پہلے ہی اوور میں نیوزی لینڈ کے اوپننگ بلے باز وِل یانگ کو چلتا کیا، جب کہ دوسری شکار اسپنر ابرار احمد نے رچن رویندرا کا کیا ہے۔ اسٹیڈیم کی حالیہ تزئین و آرائش کے بعد یہ پہلا بین الاقوامی میچ ہے، جس میں شائقین کرکٹ کو جدید سہولیات اور شاندار ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ اسٹیڈیم میں 32 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، جب کہ جدید ایل ای ڈی فلڈ لائٹس، دو بڑی ڈیجیٹل اسکرینز، بہتر ساؤنڈ سسٹم، آرام دہ نشستیں اور ہر انکلوژر سے میچ دیکھنے کے لیے بہترین نظارے کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس شاندار اسٹیڈیم میں ہونے والے پہلے میچ کے لیے شائقین میں بے حد جوش و خروش پایا جا رہا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں کرکٹ کا جنون واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ دونوں ٹیمیں اس میچ کو جیت کر سیریز میں برتری حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ شائقین کرکٹ کی بڑی تعداد اس تاریخی موقع پر اسٹیڈیم میں موجود ہے، جب کہ ٹیلی ویژن اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی لاکھوں افراد اس میچ کو دیکھ رہے ہیں۔ لاہور میں میچ کے باعث ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ لاہور ٹریفک پولیس نے میچ کے دوران ایک جامع ٹریفک پلان ترتیب دیا ہے، جس کے تحت قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں مخصوص سڑکوں کو محدود ٹریفک کے لیے کھلا رکھا گیا ہے، جب کہ پارکنگ کے لیے مختلف مقامات مختص کیے گئے ہیں۔ اس میچ کے لیے لاہور بھر میں ایک زبردست ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے، ہوٹلوں، ریستوران اور دیگر تفریحی مقامات پر بھی کرکٹ کے شوقین افراد کی بڑی تعداد دیکھنے کو مل رہی ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں پاکستانی ٹیم کی حمایت میں بینرز، جھنڈے اور پوسٹرز آویزاں کیے گئے ہیں، جب کہ سوشل میڈیا پر بھی میچ کی بھرپور گہما گہمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کرکٹ شائقین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس تاریخی موقع پر نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں، میچ سے بھرپور لطف اندوز ہوں اور کھیل کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ٹیم کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔
امریکی رہنما کا پاکستانی حکومت کو خط: عمران خان کی رہائی کا مطالبہ

امریکا کی جانب سےعمران خان کو رہا کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی رچرڈ گرینل نے پہلے سوشل میڈیا پر عمران خان کو رہا کرانے کے لیے ٹویٹس کیں اور اب امریکی کانگرس کے رکن اور رپبلکن رہنما جو ولسن نے پاکستان کی حکومت سے کہا ہے کہ” وہ عمران خان کو رہا کرے اور یہ کہ اس طرح کا اقدام امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا”۔ انہوں نے امریکی کانگرس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ افسوس ناک ہے پاکستانی فوج نے عمران خان کو گرفتار کر کے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے”۔ انھوں نے کہا کہ “صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی کرپٹ عدالتی نظام سے بچ کر آئے ہیں اس لیے وہ اس کے خطرات سے آگاہ ہیں”۔ My speech in Congress today. FREE IMRAN KHAN pic.twitter.com/PiH9WY4PHE — Joe Wilson (@RepJoeWilson) February 7, 2025 جو ولسن نے خط کا ذکر اپنی تقریر میں کیا جو انہوں نے کانگرس سے کی۔ امریکی کانگرس کے رکن نے وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف ز رداری، مسلح افواج کے سربرہ عاصم منیر کو مخاطب کر کے کہا کہ “امریکا اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات دونوں ممالک کے قومی مفاد میں ہیں”۔ انھوں نے کہا کہ “امریکا اور پاکستان کے درمیان 75 سال سے زائد عرصے سے جاری دوطرفہ تعلقات میں ہمارے تعلقات اس وقت مزید مضبوط ہوئے ہیں جب پاکستان قانون کی حکمرانی کے اپنے جمہوری اصولوں کو اپناتا ہے”۔‘ امریکی رہنما لکھا کہ “میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی غیرمنصفانہ نظربندی کے حوالے سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے عمران خان سے بہت سے اختلافات ہیں، خاص طور پر چینی کمیونسٹ اور جنگی مجرم پوتن کی حمایت میں ان کے موقف کے حوالے سے، تاہم اگر سیاسی مخالفین کو بیلٹ باکس میں شکست دینے کے بجائے سیاسی الزامات پر غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیا جاتا ہے تو جمہوریت کام نہیں کر سکتی”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “میں پاکستان پر زور دیتا ہوں کہ وہ جمہوری اداروں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھے اور پریس کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور پاکستان کے عوام کی اظہار رائے کی آزادی کی بنیادی ضمانتوں کا احترام کرے”۔‘ یاد رہے اسی طرح کے بیانات کچھ عرصہ پہلے امریکی صدر کے ایلچی رچرڈ گرینل کے بھی سامنے آئے تھے جس میں وہ عمران خان کی رہا ئی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جو ولسن کون ہیں؟ امریکی کانگرس کے مطابق “جو ولسن ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سینئر رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، جہاں وہ مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین اور یورپ سے متعلق ذیلی کمیٹی کے رکن ہیں”۔ جو ولسن امریکی ہیلسنکی کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں، جسے یورپ میں سلامتی اور تعاون کے کمیشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کے چار بیٹے ہیں اور سبھی امریکی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سب سے سینئر رکن بھی ہیں جہاں وہ تیاری اور سٹریٹجک فورسز سے متعلق ذیلی کمیٹیوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے تعلیم اور افرادی قوت اور صحت، روزگار، لیبر اور پنشن سے متعلق ذیلی کمیٹی میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔
”پی ٹی آئی ٹولہ صرف یوم سیاہ ہی منا سکتا ہے” عظمیٰ بخاری کا احتجاج پر جواب

وزیرِاطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ٹولہ صرف یومِ سیاہ ہی منا سکتا ہے اور وہ منا رہے ہیں۔ وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے عوام کے لیے متعدد پروگرام شروع کیے ہیں۔ پنجاب حکومت عوام کے مسائل کے حل پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے احتجاج کا کہا تھا، لاہور کے کسی بھی حلقے میں دکھا دیں، ان کے کتنے لوگ احتجاج کے لیے نکلے ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ جو جماعت یومِ سیاہ منا رہی ہے، خیبر پختونخوا میں اس کی اپنی حکومت ہے، وہاں پر عوام کو کیا ملا ہے؟ بانی پی ٹی کی سزاؤں پر کسی نے احتجاج نہیں کیا ہے۔ اب عوام کے حالات بہتر ہو رہے ہیں، انھیں پی ٹی آئی کے احتجاج میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کو فتنہ فساد کی نہیں، بلکہ اسکالر شپس کی ضرورت ہے۔ انھوں نے قذافی اسٹیڈیم میں گزشتہ روز ہونے والی تقریب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل وزیرِاعظم نے قذافی اسٹیڈیم کا افتتاح کیا، تقریب کو عوام نے انجوائے کیا ہے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب چیمپئینز ٹرافی کی سکیورٹی خود مانیٹر کر رہی ہیں۔ عوام کو فتنہ فساد کی ضرورت نہیں، کھیل کے میدان آباد ہونے چاہییں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں عوام کو پی ٹی آئی کی کرپشن کی لمبی داستانیں ملی ہیں۔ پی ٹی آئی خود تو روتی ہے، پاکستان کو بھی رولانا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ یہ ٹولہ ہر وقت یومِ سیاہ مناتا ہے اور یہ یومِ سیاہ ہی منا سکتے ہیں۔ قوم یومِ ترقی منا رہی ہے اور یہ یومِ سیاہ منا رہے ہیں۔ وزیرِاطلاعات نے کہا ہے کہ گورنر پنجاب ہمیشہ ناراض رہتے ہیں اور میں مزید گورنر پنجاب کے بارے میں سخت الفاظ نہیں بولنا چاہتی۔ صوابی میں ہونے والے جلسے کے لیے، ان کے نئے پارٹی صدر نے ٹیکس کا پیسہ مانگ لیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ‘گنڈا پور یہ بتائیں کہ ایک سال میں ان کی حکومت نے عوام کے لیے کیا کیا ہے؟’ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج صوابی کے جلسے میں سرکاری ملازمین کا بھرپور استعمال کیا جائے گا، جہاں زہریلی تقریروں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ گفتگو کے اختتام میں انھوں نے کہا کہ آج کل خطوط کا موسم ہے اور خطوط کے معاملے پر میں کچھ نہ ہی کہوں تو بہتر ہے۔
’غیرسنجیدہ‘ جواب ملنے پر عمران خان نے آرمی چیف کوکھلا خط لکھ دیا

میں نے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر نیک نیتی سے آرمی چیف (آپ) کے نام کھلا خط لکھا تا کہ فوج اور عوام کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جا سکے مگر اس کا جواب انتہائی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری سے دیا گیا۔ میں پاکستان کا سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے مقبول اور بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں- میں نے اپنی ساری زندگی عالمی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں گزاری ہے۔ 1970 سے اب تک میری 55 سال کی پبلک لائف اور 30 سال کی کمائی سب کے سامنے ہے- میرا جینا مرنا صرف اور صرف پاکستان میں ہے۔ مجھے صرف اور صرف اپنی فوج کے تاثر اور عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی خلیج کے ممکنہ مضمرات کی فکر ہے، جس کی وجہ سے میں نے یہ خط لکھا۔ ‘میں نے جن 6 نکات کی نشاندہی کی ہے ان پر اگر عوامی رائے لی جائے تو 90 فیصد عوام ان نکات کی حمایت کرے گی’ ایجینسیز کے ذریعے پری پول دھاندلی اور الیکشن کے نتائج تبدیل کر کے اردلی حکومت قائم کرنا، عدلیہ پر قبضے کے لیے پارلیمینٹ سے گن پوائنٹ پرچھبیسویں آئینی ترمیم کروانا اور پاکٹ ججز بھرتی کرنا، ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کرنے کے لیے پیکا جیسے کالے قانون کا اطلاق کرنا، سیاسی عدم استحکام اور “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کی ریت ڈال کر ملک کی معیشت کی تباہی، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو مسلسل ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنانا اور تمام ریاستی اداروں کا اپنے فرائض چھوڑ کر سیاسی انجینئیرنگ اور سیاسی انتقام میں شامل کرنا ناصرف عوامی جذبات کو مجروح کر رہا ہے بلکہ عوام اور فوج میں خلیج کو بھی مسلسل بڑھا رہا ہے- فوج ملک کا ایک اہم ادارہ ہے مگر اس میں بیٹھی چند کالی بھیڑیں پورے ادارے کا نقصان کر رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک شخص اڈیالہ جیل میں بیٹھا کرنل بھی ہے جو جیل کے سٹاف کو کنٹرول کرتے ہوئے ناصرف آئین، قانون اور جیل مینول کی دھجیاں بکھیر رہا ہے بلکہ انسانی حقوق بھی پامال کر رہا ہے۔ وہ عدالتی احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ایسے عمل کرتا ہے جیسے “قابض فوج” کرتی ہے۔ پہلے اڈیالہ جیل کے فرض شناس سپرنٹنڈنٹ اکرم کو اغواء کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ قانون کی پاسداری کرتا تھا اور جیل قوانین پر عمل درآمد کرتا تھا، اب بھی تمام عملے کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق پامال کرتے ہوئے مجھ پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک کرنل کی ماتحت جیل انتظامیہ نے مجھ پر ہر ظلم کیا ہے۔ مجھے موت کی چکی میں رکھا گیا ہے۔20 دن تک مکمل لاک اپ میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔ پانچ روز تک میرے سیل کی بجلی بند رکھی گئی اور میں مکمل اندھیرے میں رہا۔ میرا ورزش کرنے والا سامان اور ٹی وی تک لے لیا گیا اور مجھ تک اخبار بھی پہنچنے نہیں دیا گیا۔جب چاہتے ہیں کتابیں تک روک لیتے ہیں۔ ان 20 دنوں کے علاوہ مجھے دوبارہ بھی 40 گھنٹے لاک اپ میں رکھا گیا۔ میرے بیٹوں سے پچھلے چھ ماہ میں صرف تین مرتبہ میری بات کروائی گئی ہے۔ اس معاملے میں بھی عدالت کا حکم نہ مانتے ہوئے مجھے بچوں سے بات کرنے نہیں دی جاتی جو میرا بنیادی اور قانونی حق ہے۔ میری جماعت کے افراد دور دراز علاقوں سے مجھ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں مگر ان کو بھی عدالتی آرڈز کے باوجود ملاقات کی اجازت نہیں ملتی۔ پچھلے چھ ماہ میں گنتی کے چند افراد کو ہی مجھ سے ملوایا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود میری اہلیہ سے میری ملاقات نہیں کروائی جاتی۔میری اہلیہ کو بھی قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ گن پوائنٹ پر کروائی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضے اور کورٹ پیکنگ کا مقصد انسانی حقوق کی پامالیوں اور انتخابی فراڈ کی پردہ پوشی اور میرے خلاف مقدمات میں من پسند فیصلوں کے لیے “پاکٹ ججز” بھرتی کرنا ہے تا کہ عدلیہ میں کوئی شفاف فیصلے دینے والا نہ ہو۔ میرے سارے کیسز کے فیصلے دباؤ کے ذریعے دلوائے جا رہے ہیں۔ مجھےغیر قانونی طور پر 4 سزائیں دلوائی گئی ہیں۔ میرے خلاف فیصلہ دینے کے لیے جج صاحبان پر اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ ایک جج کا بلڈ پریشر 5 مرتبہ ہائی ہوا اور اسے جیل اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ اس جج نے میرے وکیل کو بتایا کہ مجھے اور میری اہلیہ کو سزا دینے کے لیے “اوپر” سے شدید ترین دباؤ ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے جمہوریت پسند کارکنان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سالوں میں لاکھوں شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ہمارے 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کو گرفتار کیا گیا اور سینکڑوں کو اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں بےگناہ لوگوں کو کئی کئی ماہ جھوٹے کیسز میں جیلوں میں رکھا گیا- ایجینسیز کے دباؤ پر ہمارے دو ہزار سے زائد ورکرز، سپورٹرز اور پارٹی لیڈرز کی ضمانت کی درخواستیں اب تک ہائی کورٹ کے ججز التوا میں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں- جیسا سلوک پچھلے تین سال میں ہماری خواتین کے ساتھ کیا گیا ہے وہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی سیاستدانوں کی گھریلو خواتین کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری اخلاقیات کس قدر پستی پر ہیں۔ بزرگ خواتین اور جوان بچیوں کو جیلوں میں قید رکھا گیا۔ میری اہلیہ، ڈاکٹر یاسمین راشد جو 75 سالہ کینسر کی مریضہ ہیں، میری دونوں بہنیں جن کی عمر 65 سال سے زائد ہے سمیت سینکڑوں خواتین کو بے جا پابند سلاسل رکھا گیا ہے اور ان کی حیا کا تقدس پامال کیا گیا۔ نبی پاک ﷺ کے دور میں عورتوں، بزرگوں اور بچوں کو تنگ نہیں کیا جاتا تھا ہمارے دین کا حکم تو
غزہ جنگ بندی: حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا

درجنوں فلسطینی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کے بعد رام اللہ پہنچ گئے ہیں اور مزید رہائی پانے والے افراد بھی جلد ہی وہاں پہنچنے کی توقع ہے۔ دوسری جانب امریکا کے محکمہ خارجہ نے اسرائیل کو 6.75 بلین ڈالر کے بموں، گائیڈنس کٹس اور فیوزز کے علاوہ 660 ملین ڈالر کے ہیلفائر میزائلوں کی فروخت کی منظوری دے دی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں 48,181 افراد کی ہلاکت اور 111,638 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، جیسا کہ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے۔ حکومتی میڈیا دفتر نے ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 61,709 افراد بتائی ہے، اور کہا ہے کہ ہزاروں افراد جو ملبے تلے دبے ہوئے تھے، اب وہ مرنے کے طور پر فرض کر لیے گئے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 1,139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ فلسطینی حکمران جماعت حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ جن میں 52 سالہ الیاہو ڈیٹسن یوسف شرابی، 34 سالہ ابراہیم لیشا لیوی اور 56 سالہ اوہد بن امی شامل ہیں۔ 19 جنوری کو جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 18 یرغمالیوں کو رہا کیا جا چکا ہے اور بدلے میں اسرائیل نے 383 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ اسرائیی فوج کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے 183 قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ تقریبا 33 یرغمالیوں اور 1900 قیدیوں کو تین ہفتوں میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ 33 میں سے 8 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 251 یرغمالیوں کو یرغمال بنایا گیا تھا اور تقریبا 1200 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 61,709 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی تقریبا دو تہائی عمارتوں کو اسرائیل کے حملوں سے نقصان پہنچا ہے یا تباہ کر دیا گیا ہے۔ آج رہا ہونے والی یرغمالی کون ہیں؟ 52 سالہ ایلی شرابی کو کبوتز بیری سے ان کے بھائی یوسی کے ساتھ لے جایا گیا تھا، جن کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس حملے میں ایلی کی برطانوی نژاد بیوی لیانے اور دو بیٹیاں نویا اور یحل ہلاک ہو گئیں۔ 56 سالہ احد بن امی کو بھی ان کی اہلیہ راز کے ساتھ کبوتز بیری سے اغوا کیا گیا تھا۔ راز کو حماس نے رہا کر دیا تھا۔ مغویوں کے خاندانوں کے فورم کے مطابق،احد بن امی، جو ایک اکاؤنٹنٹ ہیں، ‘اپنے اچھے فیصلے اور حس مزاح کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔’ تل ابیب کے جنوب میں واقع شہر ریشون لی زیون سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ لیوی اپنی اہلیہ ایناو کے ساتھ نووا فیسٹیول میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ لیوی کو یرغمال بنا لیا گیا تھا اور ایناو کی لاش ایک بموں سے محفوظ رہنے والی پناہ گاہ سے ملی تھی جہاں یہ جوڑا چھپا ہوا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینامن نتن یاہو کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ حکام کو مغویوں کی فہرست مل گئی ہے اور ان کے اہل خانہ کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل جمعے کے روز یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم ہیڈکوارٹرز نے تین یرغمالیوں کی ‘متوقع رہائی کی خبر’ کا خیر مقدم کیا تھا۔ یرغمالیوں کے نام جاری کرنے سے چند گھنٹے قبل حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں انسانی امداد کی مقدار بڑھانے کے اپنے وعدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ غزہ میں حماس کے میڈیا آفس کی سربراہ سلامہ ماروف نے غزہ سٹی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا: کہ ‘اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے انسانی صورتحال تباہ کن ہے۔’ انھوں نے کہا کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے متوقع 12,000 امدادی گاڑیوں میں سے صرف 8,500 غزہ میں داخل ہوئی ہیں اور طبی سازوسامان اور پناہ گاہوں کی فراہمی میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی ہے۔ یہ الزام اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ٹام فلیچر کے بیان برعکس ہے جنہوں نے جمعرات کو کہا تھا کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد سے خوراک، ادویات اور خیموں کے ساتھ 10،000 گاڑیاں غزہ میں داخل ہو چکی ہیں۔ دریں اثنا 34 سالہ اسرائیلی یرغمالی یارڈن بیباس نے نتن یاہو سے براہ راست درخواست کی ہے کہ وہ ان کی بیوی اور بچوں کو واپس لائیں جو اب بھی قید میں ہیں۔ ‘وزیر اعظم نتن یاہو، میں اب آپ کو اپنے الفاظ سے مخاطب کر رہا ہوں۔۔۔میرے خاندان ک واپس لائیں۔’ رہائی کے بعد اپنے پہلے عوامی بیان میں بیباس نے کہا کہ ‘میرے خاندان کو واپس لائیں، میرے دوستوں کو واپس لائیں، سب کو گھر لائیں۔’ حماس نے نومبر 2023 میں دعویٰ کیا تھا کہ بیباس کی اہلیہ شیری اور دو چھوٹے بیٹے اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔