یوکرین نے اپنے معدنی وسائل اتحادیوں کے لیے کھول دیے، قیمت جنگ بندی

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نےخبر رساں ایجنسی رائٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران زرخیز زمینوں اور دیگر اہم معدنیات کے وسیع ذخائر کے نقشے پر بات کی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کو جنگ بندی کے معاہدے کے لیے تحریک دینے کی کوشش کا حصہ ہے۔ امریکی صدر جو پہلے ہی روس کے ساتھ یوکرین کی جنگ کو تیزی سے ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، نے پیر کو کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یوکرین اپنی جنگی کوششوں کی مالی معاونت کے بدلے امریکا کو زرخیز زمین اور دیگر معدنیات فراہم کرے۔ زیلنسکی نے کہا “اگر ہم کسی معاہدے کے بارے میں بات کر رہے ہیں، تو آئیے وہ معاہدہ کریں، ہم صرف اس کے لیے ہیں”۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین کو اس کے اتحادیوں سے سیکیورٹی کی ضمانت چاہیے۔ یوکرین نے گزشتہ موسم خزاں میں اپنے اہم معدنیات کو اتحادیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کے لیے کھولنے کا خیال پیش کیا، کیونکہ اس نے ایسا منصوبہ پیش کیا جس نے اسے مذاکرات کے لیے مضبوط ترین پوزیشن میں لانے اور ماسکو کو مذاکرات کی میز پر لانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ زیلنسکی نے کہا کہ “یوکرین کے 20 فیصد سے بھی کم معدنی وسائل بشمول اس کے تقریباً نصف نادر زمین کے ذخائر روس کے قبضے میں ہیں”۔ زرخیز اور نایاب زمینیں اعلیٰ کارکردگی والے میگنٹ، الیکٹرک موٹرز اور کنزیومر الیکٹرانکس کی تیاری میں اہم ہیں۔ زیلنسکی نے کہا کہ” ماسکو ان وسائل کو اپنے اتحادیوں شمالی کوریا اور ایران کے لیے کھول سکتا ہے، جو دونوں امریکی دشمن ہیں”۔ “انہوں نے کہا کہ “ہمیں پیوٹن کو روکنے اور ہمارے پاس جو کچھ ہے اس کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے ۔ روس کی فوجیں کئی مہینوں سے مشرق میں زمین حاصل کر رہی ہیں، جس نے بڑے وسائل کو ایک بے لگام حملے میں تباہ کر دیا ہے۔ جب کہ کیف کی بہت چھوٹی فوج فوجیوں کی کمی اور بیرون ملک سے مستقبل میں ہتھیاروں کی سپلائی کے حوالے سے پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یوکرین کے پاس ٹائٹینیم کے یورپ کے سب سے بڑے ذخائر ہیں جو ہوا بازی اور خلائی صنعت کے لیے ضروری ہیں اور یورینیم جوہری توانائی اور ہتھیاروں کے لیے استعمال ہوتے ہیں”۔ یوکرین نے تیزی سے اپنی خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے تاکہ وہ یوکرین کے سب سے اہم اتحادی وائٹ ہاؤس کے نئے مقیم کے ذریعہ طے شدہ لین دین کے عالمی نقطہ نظر کے مطابق ہو۔ لیکن زیلنسکی نے اس بات پر زور دیا کہ کیف اپنے وسائل کو فراہم کرنےکی تجویز نہیں دے رہا ہے، بلکہ انہیں مشترکہ طور پر ترقی دینے کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند شراکت داری کی پیشکش کر رہا ہے۔”

تیزی سے کم ہوتے معدنی تیل کا متبادل کیا؟

پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کے باعث دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرائع ایندھن کے طور پر استعمال کے فروغ کے لیے کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ اس ضمن میں ہر ملک مستقبل میں اپنے بچاؤ کے لیے تدابیر اختیار کر رہا ہے کیونکہ فوری طور پر تمام تر عوام کو کسی متبادل ذرائع پر منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ روز بہ روز پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے، ایسے میں کیا متبادل ذرائع اس بھاری بوجھ کو اٹھا پائیں گے یا صرف تیل پر انحصار کم کریں گے؟ اس بات کا فیصلہ تو وقت آنے پر ہو جائے گا۔ تیل کی بڑھتی کھپت کے پیش نظر ہالینڈ کے انرجی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر اور توانائی امور کے سربراہ نے دنیا کو وارننگ دی ہے کہ تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں اور وہ وقت جلد آنے والا ہے جب یہی قیمتیں آسمان پر پہنچ کر ہماری دسترس سے باہر ہو جائیں گی۔ ہالینڈ نے متبادل توانائی کے ذرائع تلاش کرتے ہوئے استعمال شدہ بیج سے ‘بائیو فیول’ کی پیداوار کے ایک پلانٹ کا افتتاح کیا ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچنے کے بعد یورپی ممالک نے گنے اور سبزیوں کی مدد سے ‘بائیو فیول’ کی تیاری کو فروغ دینے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں، سولر آئل سسٹم کہلانے والا یہ پلانٹ پیور پلانٹ آئل پیدا کرتا ہے جو کسی بھی بڑی یا چھوٹی کار میں پٹرول کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے ‘ایندھن کنگ’ بننے کی دوڑ میں فی الحال سب سے آگے ہائیڈروجن کا نام ہے۔ پیداواری لاگت زیادہ ہونے کے باوجود جرمنی اور جاپان جیسے ممالک نے ہائیڈروجن گیس پر چلنے والی قیمتی کاریں سڑکوں پر دوڑا دی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2026 تک امریکہ میں ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیاں عام دکھائی دینے لگیں گی۔ پٹرولیم مصنوعات کا دوسرا متبادل ‘بائیو فیول’ یا ‘بائیو ڈیزل’ ہے۔ تیزی سے شہرت حاصل کرتا یہ متبادل فیول جس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اسے پیڑ پودوں سے حاصل کر کے انجنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پیڑ پودوں سے حاصل کیے جانے والے پٹرولیم متبادلات میں ایتھنال کا نام بھی کافی نمایاں ہے۔ یہ ایک طرح کا الکوحل ہے جسے گنے کے رس یا شیرے سے بنایا جاتا ہے خالص ایتھنال کو پٹرول کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ برازیل گنا پیدا کرنے والا ایک اہم ملک ہے یہاں گزشتہ 70 سال سے ایتھنال کو پٹرول ملا کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں ہر سال ڈیڑھ ارب گیلن ایتھنال 10 فیصد کی شرح سے پٹرول میں ملایا جا رہا ہے۔ ایتھنال ملا ہوا پیٹرول ماحولیات کو بہتر بنانے کا کام بھی کرتا ہے اس سے پٹرول کی آتش گیر صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دھواں بھی کم ہوتا ہے۔

انتخابات اور دھاندلی کا کھیل: کیا پاکستانی جمہوریت خطرے میں ہے؟

حکومت کو اقتدار میں آئے ایک برس گزرگیا، مگر عام انتخابات ابھی بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعتِ اسلامی ‘فارم 47’ کی حکومت کے خلاف آج ملک بھر میں یومِ سیاہ منارہی ہیں۔ حکومت احتجاج روکنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے، پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ہےاورہر قسم کے سیاسی احتجاجوں، جلسوں،ریلیوں، دھرنوں اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ قیامِ پاکستان سے ہی جمہوریت  شدید مشکلات سے دوچار ہے، کبھی مارشل لا نے تو کبھی سیاسی عدم اعتماد نے ملک کی راہ میں رکاوٹیں حائل کیں، جس سے  ملک مستحکم نہیں ہوسکا۔ عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات حرفِ عام سننے کو ملتے ہیں، انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات اور لڑائی فساد ہر دفعہ دکھائی دیتا ہے، جس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، جیسے کیا یہ الزامات محض سیاسی چالیں ہیں یا واقعی جمہوری عمل میں سنگین خرابیاں موجود ہیں؟ کیا پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے،یا پھر دھاندلی کے دعوے اسے کمزور کر رہے ہیں؟ پاکستان کے آغاز سے ہی جمہوریت کا سفر ہمیشہ  اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔آزادی کے فوراً بعد ملک کو مستحکم بنانے کے لیے جمہوری نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی ، مگر سیاسی عدم استحکام، فوجی آمریت اور عدالتی مداخلت نے اس خواب کو شرمند ۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ پاکستان کے شفاف ترین انتخابات  1970 میں ہونے والے مانےجاتے ہیں، مگر ان انتخابات نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور ان کے دلوں میں نفرت کا ایسا بیج بویا جو تاحال ختم نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا، جو آج تک لگتا آرہا ہے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات ملک کی جمہوریت کا بنیادی جزو ہوتے ہیں اور ان کا صاف شفاف ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے تا کہ عوام کی پسند کے لائے ہوئے حکمران لائے جائیں اور ملک ترقی کرسکے۔ اس کے برعکس جب انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آتے ہیں، تو عوامی اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے اور جمہوریت  کمزور پڑ جاتی ہے۔ حالیہ ہوئے فروری 2024 کے عام انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات سے محفوظ نہ رہ سکے، مختلف سیاسی پارٹیوں نے ووٹوں کی گنتی، نتائج میں ردو بدل اور پولنگ اسٹیشنوں پر بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے، تقریباً ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے الیکشنز پر سوالات اٹھائے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی پاکستان کی جانب سے اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دے دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ایک سربراہ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘2024 کے انتخابات نہیں بلکہ دھاندلی کا ایک نیا طریقہ تھا۔ ہمارے امیدواروں کو انتخابی مہم کے دوران ہی نااہل کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام نے جس طرح ہمیں ووٹ دیے، وہ نتائج میں نظر نہیں آئے۔’ اس کے برعکس انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نے انتخابات کو منصفانہ قرار دیا اور کہا کہ ‘یہ جمہوریت کی فتح ہے، عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ دھاندلی کا رونا وہی لوگ رو رہے ہیں، جو اپنی شکست تسلیم نہیں کر پا رہے۔ چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیان دیا کہ  انتخابات مکمل طور پر شفاف انداز میں کروائے گئے ہیں، اگر کسی جماعت کی الیکشنز کی شفافیت پر اعتراض ہے تو عدلیہ سے رجوع کرے۔ امیر جماعتِ اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ 8  فروری کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اس دن جعلی نمائندوں کو عوام پر مسلط کیا گیااور عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، فارم 12 کی جگہ فارم 13 دیئے گئے۔ دوسری جانب عالمی مبصرین کی جانب سے بھی انتخابات کی شفافیت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا، بعض نے انتخابات کو تسلی بخش قرار دیا تو بعض  نے اسے تشویشناک قرار دیا۔ پاکستانی عوام گزشتہ کچھ سالوں سے انتخابات اور سیاست کے حوالے سے کافی سنجیدہ نظر آئی ہے،  خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم استحکام کی تحریک کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور شفاف الیکشن کی ایک ایسی کہانی چلی ہے جس نے ہر شخص کو اس بات سے باخبر کیا کہ قیامِ پاکستان سے ہی ملک میں اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے، وہی ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ ہے یا پھر ان پڑھ، وہ اسٹیبلشمنٹ لفظ سے واقف ہے۔ گزشتہ انتخابات نے عوامی اعتماد کو ایسا متزلزل کیا ہےکہ عوام کو محسوس ہوا ہے جیسے  ان کے ووٹ کی قدر نہیں، جس کی وجہ سے جمہوری اداروں سے ان کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ہر دھاندلی کے الزام کے بعد عوامی اعتماد میں کمی آئی،  2013 میں پی ٹی آئی نے دھاندلی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا، جس سے جمہوری عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، پھر  2018 کے انتخابات میں ن لیگ نے دھاندلی کا شور مچایا  اور اب 2024 میں ایک بار پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرایا ہے۔ دھاندلی کے الزامات عدم استحکام لاتے ہیں، جس سے ملک میں سیاسی کشمکش شدت اختیار کرتی ہے،مزید یہ کہ جمہوری ادارے خواہ وہ عدلیہ ہو یا الیکشن کمیشن ان پر سوالات اٹھتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل کو شفاف اور مستحکم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک انتخابات پر عوام کا مکمل اعتماد بحال نہیں ہوگا، تب تک جمہوریت حقیقی معنوں میں مضبوط نہیں ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے عمل کو زیادہ شفاف اور قابلِ اعتماد بنایا جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن  خودمختار اور غیر جانبدار ہواور انتخابات کی نگرانی کی جائے۔ جدید دنیا میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال عام ہو گیا ہے، لیکن پاکستان میں اب تک یہ مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جاسکا۔ اگر ان کا درست اور شفاف طریقے سے پاکستان میں استعمال کیا جائے تو دھاندلی کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ

”سرفراز احمد کے ساتھ ایک بار پھر نا انصافی، کراچی والے خاموش ہیں” راشد لطیف

نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے دو انکلوژرز کو شاہد آفریدی اور یونس خان کے نام سے منسوب کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین تنقید کر رہے ہیں کہ سرفراز کے نام سے انکلوژر منسوب کیوں نہیں کیا گیا۔ صارفین کا کہنا ہے کہ شاہد آفریدی اور یونس خان کے نام سےانکلوژر منسوب کرنا،ایک بہترین فیصلہ ہے، کیونکہ یہ دونوں لیجنڈز اس اعزاز کے حقدار ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سرفراز احمد کا نام شامل  کیوں نہیں کیا گیا؟ واضح رہے کہ یہ بحث سوشل میڈیا پر اس وقت ذینت بنی، جب  سابق پاکستانی کرکٹرراشد لطیف نے اس فیصلے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ سرفراز احمد کیا کراچی کا نہیں ہے؟ سرفراز پوری قوم کا لیجنڈ ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے کامیاب ترین ٹی ٹوئنٹی کپتان ہے، راشد لطیف کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی جیتنے والے کپتان ہیں، اور ملک کے لیے بے شمار خدمات انجام دے چکے ہیں۔اُن کے ساتھ ہر جگہ نا انصافی کی ہے ۔وہ ایسا شریف انسان ہے کہ کوئی تنقید نہیں کوئی ڈراما نہیں خود کو صِرف آور صِرف پاکستان کے لیے وقف کیا ۔ مزید انہوں نے کہا کہ  سرفراز کے ساتھ ہر جگہ نا انصافی کی ہے ،وہ ایسا شریف انسان ہے کہ کوئی تنقید نہیں کوئی ڈراما نہیں خود کو صِرف اور صِرف پاکستان کے لیے وقف کیا ۔کبھی کراچی والے سرفراز کے حق میں آواز بلند کرتے تھے، مگر آج سب خاموش ہیں۔ کیا سرفراز کی خدمات اتنی جلدی بھلا دی گئیں؟ سرفراز کا نام بھی انکلوژرز میں شامل ہونا چاہیے تھا، کیونکہ وہ عزت اور پہچان کا مستحق ہے۔ ایک صارف نے سوشل میڈیا لکھا کہ راشد لطیف نے بالکل بجا کہا! سرفراز احمد نے پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی جتوائی، وہ اس عزت کے مکمل حقدار ہیں۔ پی سی بی کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے ،کراچی کا بیٹا، پاکستان کا فخر،سرفراز نے ہمیشہ ملک کے لیے کھیلا، مگر ہر بار ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔شاہد آفریدی اور یونس خان اپنی جگہ لیجنڈز ہیں، مگر سرفراز احمد کی خدمات کو نظر انداز کرنا سراسر زیادتی ہے۔ سرفراز احمد نے ہمیشہ عزت کے ساتھ ملک کی نمائندگی کی۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کراچی بھی خاموش ہے “چیمپئنز ٹرافی جیتنے والے کپتان کو عزت نہ دینا بڑی ناانصافی ہے! سرفراز احمد صرف کراچی کا نہیں، پورے پاکستان کا ہیرو ہے!”  آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا سرفراز احمد کے ساتھ ناانصافی ہوئی؟ اپنی رائے دیں ایک صارف نے یونس خان اور شاہد آفریدی کو کرچی کے مقامی نہ ہونے دعویٰ کرتے ہوئے لکھا کہ شاہد آفریدی اور یونس خان کا نام اس لیے شامل ہے کہ وہ پکے کراچی والے نہیں ہیں کراچی والوں کو اتنی اہمیت کبھی بھی نہیں دی جا سکتی۔ ایک اور صارف نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر لکھا کہ واقعی سرفراز احمد فخر کراچی فخر پاکستان ہے،یہ اس کے اعلیٰ ترین اخلاق کا ثبوت ہے یہ اس کی شخصیت کا بڑا پن ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی کسی بھی پلیٹ فارم نما نیوز چینل یا پریس کانفرنس کے ذریعے کہیں بھی اپنے خلاف تمام ذیادتیوں کے باوجود کہیں بھی شکایت یا تنقید کرتا نظر نہیں آیا۔ صارف نے لکھا کہ کراچی کا بیٹا پاکستان کا نمائندہ سلام محبت و عقیدت ہے سرفراز تجھے۔