پاکستان فٹبال فیڈریشن کی بار بار معطلی، ایشین کپ کوالیفائرز سے دستبرداری کا اعلان

پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) نے ایشین کپ کوالیفائرز سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) نے ایشین فٹبال کنفیڈریشن (اے ایف سی) کی مہلت کا انتظار کیے بغیر ہی ٹورنامنٹ میں عدم شرکت کا اعلان کردیا ہے۔ پی ایف ایف کا کہنا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ایشین کپ کوالیفائر کا فائنل راؤنڈ نہیں کھیل پائے گا۔ اے ایف سی نے اپنے خط میں تحریر کیا تھا کہ اگر چار مارچ تک معطلی ختم نہ ہوئی تو پاکستان کو ٹورنامنٹ سے دستبردار تصور کیا جائے گا۔ اس کے برعکس  پاکستان فٹبال فیڈریشن نے اے ایف سی کا خط ملتے ہی کوالیفائرز نہ کھیلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ایف ایف کا کہنا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ایشین کپ کوالیفائر کا فائنل راؤنڈ نہیں کھیل پائے گا۔ واضح رہے کہ 7 فروری کو عالمی فٹبال فیڈریشن (فیفا) نے پی ایف ایف کی جانب سے تجویز کردہ آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے پی ایف ایف کو معطل کر دیا تھا۔ نجی خبررساں ادارے ڈان کی رپورٹ کے مطابق فیفا کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ پی ایف ایف کوفوری طور پر معطل کیا گیا ہے، جس کی وجہ آئین پر نظرِثانی کرنے میں ناکامی ہے۔ فیفا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ معطلی ایک صورت میں اٹھائی جا ئے گی، جب پی ایف ایف کی کانگریس فیفا اور اے ایف سی کی جانب سے تجویز کردہ آئین کی منظوری دے گی۔ یاد رہے کہ پی ایف ایف سال 2015 سے بحران اور تنازعات کا شکارہے، 2017 کے بعد سے یہ تیسرا موقع ہے، جب پاکستان کی رکنیت معطل کی گئی ہے۔ 2021 میں تھرڈ پارٹی کی غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے فیفا نے پی ایف ایف کو معطل کیا تھا اور اب تیسری دفعہ پھر پی ایف ایف کی رکنیت معطل کی گئی ہے۔

آغا کریم خان مصر میں اپنے دادا سلطان محمد شاہ کی قبر کے قریب سپرد خاک

پرنس آغا کریم خان، جو اسماعلی (شیعہ) مسلمانوں کے روحانی پیشوا اور دنیا کے 49 ویں امام تھے، ان کو اتوار کے روز مصر کے شہر اسوان میں ایک نجی تدفین کی تقریب کے دوران سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی وفات کا اعلان منگل کے روز آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور اسماعلی کمیونٹی نے کیا۔ ان کے بیٹے رحیم الہسینی جو 53 سال کے ہیں، انہوں کو آغا خان پنجم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے جیسا کہ ان کے والد کی وصیت میں ذکر تھا۔ اس سے پہلے ہفتہ کے روز ایک نجی جنازہ کی تقریب پرتگال کے شہر لسبن میں اسماعلی کمیونٹی سینٹر میں منعقد ہوئی، جس میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، اسپین کے بادشاہ ایمرٹس خوان کارلوس اور پرتگال کے صدر مارسیلو ریبیلو ڈی سوئسا نے شرکت کی۔ آغا خان کو ان کے پیروکاروں کی نظر میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست نسل سے مانا جاتا ہے اور انہیں ایک ریاست کے سربراہ کی طرح عزت دی جاتی ہے۔ اسوان کے گورنر نے ہفتہ کو آغا خان کے خاندان کا اسوان کے جنوبی علاقے کے ہوائی اڈے پر استقبال کیا۔ آغا کریم خان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین اسوان میں کی گئی جہاں وہ اپنے دادا سلطان محمد شاہ اور دادی ام حبیبہ کے قریب دفن ہوئے۔ لازمی پڑھیں: غزہ کو قبضے میں لے کر حماس کو وہاں سے ختم کریں گے اور وہاں صرف ہم موجود ہوں گے،ڈونلڈ ٹرمپ عالمی میڈیا کے مطابق جنرل اسماعیل کمال نے کہا کہ “جب ان کی وصیت کھولی گئی، تو پتا چلا کہ انہوں نے اپنی تدفین اسوان میں اپنے بزرگوں کے قریب کرنے کی درخواست کی تھی۔” آغا خان کی تدفین کی تقریب کے دوران اسوان کے علاقے میں سوگواروں نے جلوس نکالا اور گھنٹیاں بجائیں۔ آغا خان کی میت کو سفید کفن میں لپیٹ کر نیل دریا کے کنارے ایک کشتی پر رکھ کر تدفین کے مقام تک پہنچایا گیا۔ آغا کریم خان کا انتقال 88 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کو 1957 میں ملکہ الزبتھ کی جانب سے “ہز ہائنس” کا لقب دیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کے دادا سلطان محمد شاہ نے انہیں خاندان کی 1,300 سالہ تاریخی سیادت کے طور پر منتخب کیا تھا۔ آغا خان کی قیادت نے نہ صرف اسلامی ثقافت و اقدار کی حفاظت کی بلکہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان روابط کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک صحت کی دیکھ بھال، رہائش، تعلیم اور دیہی اقتصادی ترقی کے مسائل پر کام کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک 30 سے زائد ممالک میں کام کر رہا ہے اور اس کا سالانہ بجٹ ایک ارب ڈالر ہے۔ اسماعلی (شیعہ) مسلمان دنیا بھر میں آباد ہیں اور ان کے لیے آغا خان ایک روحانی پیشوا ہیں جنہیں اپنی آمدنی کا 12.5 فیصد حصہ آغا خان کو دینے کی ذمہ داری محسوس ہوتی ہے۔ آغا خان کی وفات کے بعد ان کے پیروکاروں کے لیے ان کی روحانی اور سماجی خدمات کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے

رمضان المبارک کا چاند کب نظر آئے گا؟ محکمہ موسمیات نے بتا دیا

محکمہ موسمیات نے امکان ظاہر کیا ہے کہ یکم مارچ کو رمضان المبارک کا چاند نظر آجائے گا اور پہلا روزہ دو مارچ کو ہوگا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق، چاند کی پیدائش 28 فروری کو شام پانچ بجکر 45 منٹ پر ہوگی، جس سے اسلامی مہینے رمضان کا آغاز ہوگا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں رمضان کا چاند 28 فروری کو نظر آنے کا امکان ہے۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق یکم مارچ کو چاند نظر آنے کا قوی امکان ہے، اگر یکم مارچ کو چاند کی رویت ہوتی ہے کہ پاکستان بھر میں دو مارچ کو پہلا روزہ ہوگا۔

غزہ کو قبضے میں لے کر حماس کو وہاں سے ختم کریں گے اور وہاں صرف ہم موجود ہوں گے،ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر غزہ کے حوالے سے اپنے متنازعہ منصوبے کا اعادہ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ “غزہ ایک بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ ہے اور ہم اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے۔” یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب وہ سپر باؤل کے لئے نیو اورلینز جا رہے تھے اور اس دوران انہوں نے غزہ میں فلسطینی عوام کے لیے ‘رہائشی علاقے’ بنانے کا بھی ذکر کیا۔ ٹرمپ کے اس بیان نے عالمی سطح پر نئی تشویش پیدا کر دی ہے کیونکہ اس میں غزہ کے مستقبل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں فلسطینیوں کو یہاں سے منتقل کرنے کی بات کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ “امریکا اسے اپنے قبضے میں لے گا اور وہاں کوئی نہیں ہو گا، حماس بھی نہیں ہو گا۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکا اس خطے میں تعمیراتی کام کرے گا اور دیگر دولت مند مشرق وسطی کے ممالک کے ساتھ مل کر ‘خوبصورت رہائشی علاقے’ بنائے گا تاکہ فلسطینیوں کے لیے رہائش فراہم کی جا سکے۔ تاہم ان رہائشی منصوبوں کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائی گئیں اور نہ ہی ان کی جگہ کا تعین کیا گیا۔ ضرور پڑھیں: امریکا کی پیرس معاہدے سے دستبرداری باقی ممالک پر کیسا اثر چھوڑے گی؟ ٹرمپ کا یہ بیان پہلی بار نہیں آیا بلکہ اس سے قبل بھی انہوں نے غزہ کی پٹی کے حوالے سے اس طرح کے بیانات دیے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب وہ وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے تھے تو انہوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ امریکا غزہ کو اپنے زیر قبضہ لے گا اور اس کے ساتھ فلسطینیوں کی منتقلی کا عمل شروع کر دے گا۔ ماہرین نے اس عمل کو ‘نسلی صفائی’ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس میں لاکھوں فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی بات کی گئی ہے جو کہ عالمی قوانین کے تحت ایک جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد ان کی انتظامیہ کے عہدیداروں نے اس پر وضاحت پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا مقصد امریکا کو غزہ میں فوجی طور پر مداخلت کرنے کا نہیں تھا بلکہ صرف اس علاقے کی تعمیر نو کرنا تھا۔ امریکی خبر رساں ادارے کے ‘دا نیو یارک ٹائم’ کے مطابق فلسطینیوں کی منتقلی عارضی ہوگی اور امریکا اس عمل کو باہمی مشاورت کے تحت انجام دے گا۔ تاہم ٹرمپ کے اس بیان سے متعلق مزید سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی عالمی رہنماؤں اور ماہرین نے ان کے منصوبے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے اقدامات فلسطینی عوام کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کے غزہ کے حوالے سے پیش کردہ منصوبے کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے جو نیا وژن پیش کیا ہے وہ اسرائیل کے لیے انتہائی مفید ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ “یہ ایک انقلابی اور تخلیقی وژن ہے جو اسرائیل کے لیے بہت بہتر ثابت ہو گا۔” اگرچہ ٹرمپ نے اپنے منصوبے میں کہا تھا کہ امریکا غزہ میں دوبارہ تعمیر کرے گا اور اسے مشرق وسطی کا ‘ریویرا’ بنائے گا تاہم اس پر عمل درآمد کی حقیقت بہت پیچیدہ اور ممکنہ طور پر عالمی سطح پر بڑے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ دوسری جانب مصر اور اردن جیسے ممالک نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے اور ان کے حکام نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں بسانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے نمائندے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس عمل کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی سمجھتی ہیں اور اس پر فوری طور پر روک لگانے کی بات کر رہی ہیں۔ غزہ کی پٹی پر ٹرمپ کا منصوبہ صرف ایک سیاسی گفتگو نہیں ہے بلکہ اس سے فلسطینیوں کی زندگی اور مستقبل کا ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ تجویز غزہ کے مستقبل کی نوعیت اور اس میں رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ کیا یہ منصوبہ واقعی ایک نیا دور شروع کرے گا یا پھر یہ فلسطینیوں کے لیے ایک اور بڑی مشکلات کا باعث بنے گا؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا مگر اس وقت غزہ کی پٹی میں سیاسی کشیدگی اور عالمی سطح پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ مزید پڑھیں: سماجی بحران، تیزی سے ترقی کرتی چینی معیشت کی راہ میں رکاوٹ

انسداد تجاوزات مہم: بے گھر افراد کے لیے نوکریوں کا وعدہ

حکومت پنجاب  نے انسداد تجاوزات مہم سے متاثر ہونے والے بے روزگار افراد کی بحالی کے لیے اہم فیصلہ کیا ہےاور اس مہم سے متاثر ہونے والے افراد کر نوکریاں دینےکا وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ  پنجاب مریم نواز نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ چھوٹے کاروبار کی بحالی کے لیے اقدامات کریں، جیسے کہ سٹریٹ وینڈرز، جو تجاوزات ہٹانے کی مہم سے متاثر ہوئے تھے۔ مریم نواز نے کہا کہ تجاوزات کا خاتمہ ٹریفک میں آسانی کے لیے ضروری ہے، حکومت عام لوگوں کو بے روزگار نہیں ہونے دے گی۔ “ہم کسی کی روزی روٹی چھیننا نہیں چاہتے، اسی لیے ان لوگوں کے لیے متبادل انتظامات کرنا ناگزیر ہے جو اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں۔” انہوں نے یہ بھی بتایا کہ متاثرہ افراد کو ہر شہر میں متبادل جگہیں فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا، “ہم ان لوگوں کے لیے انتظامات کا جائزہ لے رہے ہیں جن کی روزی روٹی انسداد تجاوزات مہم سے متاثر ہوئی ہے۔ ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لیے تجاوزات کا خاتمہ ناگزیر ہے۔” وزیراعلیٰ  پنجاب نے  کہا کہ افراتفری کی وجہ سے بازاروں سے گزرنا مشکل ہو گیا ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تجاوزات سے متاثرہ افراد کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی تھی۔ قبل ازیں مریم نواز نے دیگر صوبوں کے طلباء کے لیے ہونار اسکالرشپ سکیم میں توسیع کی منظوری دے دی۔ اہلیت کا یہی معیار پنجاب میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کے لیے بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعلیٰ نے پنجاب میں طلباء کے لیے لیپ ٹاپس کی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار تک بڑھا دی۔ انہوں نے پنجاب میں دوسرے، تیسرے اور چوتھے سمسٹر کے طلباء کو ہونار سکالرشپ سکیم میں شامل کرنے کی منظوری دی۔ وزیراعلیٰ نے اس وقت کے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ اسکالرشپ اور لیپ ٹاپ اسکیموں کے حوالے سے طلباء کے لیے خصوصی ہیلپ لائن قائم کریں۔ لیپ ٹاپ کے حصول کے لیے اہلیت کا معیار 65 فیصد نمبروں کے طور پر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہونار سکالرشپ اور لیپ ٹاپ سکیم ہر بچے کا حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے

مودی نے پیرس جانے کے لیے پاکستانی فضائی حدود کا استعمال کیا

ہندوستانی وزیر اعظم کے طیارے نے فرانس جاتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود کا استعمال کیا اور  34 ہزار کی بلندی سے لاہور کے قریب پاکستان کی حدود میں داخل ہوا۔ نریندرمودی ایک خصوصی طیارے میں سفر کرتے ہوئے نئی دہلی سے پیرس کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ طیارہ لاہور کے قریب پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا اور شیخوپورہ، حافظ آباد، چکوال اور کوہاٹ سمیت کئی علاقوں سے گزرتے ہوئے 34 ہزار فٹ کی بلندی پر اپنا سفر جاری رکھا۔ ایوی ایشن ذرائع نے بتایا کہ مودی کے طیارے نے تقریباً 41 منٹ تک پاکستان کی فضائی حدود میں سفر کیا لیکن پاکستانی حکومت یا اس کے عوام کے لیے کوئی خیر سگالی کا پیغام نہیں چھوڑا۔ ایوی ایشن حکام نے واضح کیا کہ چونکہ افغان فضائی حدود اس وقت بند ہے، اس لیے بھارتی وزیراعظم مودی کو اس پرواز کے راستے کی خصوصی اجازت دی گئی۔ واضح رہے کہ پاکستان نے 26 فروری 2019 کو ہندوستانی لڑاکا طیاروں کی بین الاقوامی حدود اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد اپنی فضائی حدود کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ اس کے باوجود، پاکستان نے تنازعہ کشمیر پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان، 2019 کے آخر میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی جرمنی کی پرواز کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔  خیال رہے کہ ہندوستانی وزیراعظم پیرس میں اے آئی سمٹ کے تیسرے ایڈیشن کی صدارت کریں گے اور نریندر مودی فرانس کا دورہ مکمل کرکے 12 فروری کو امریکا جائیں گے۔

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: سپریم کورٹ کے 6 ججز کی منظوری دے دی گئی

پاکستان کی عدلیہ میں ایک اہم فیصلہ کیا گیا ہے جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کو عارضی جج تعینات کر دیا گیا ہے۔ یہ تعیناتی سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے ایک جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران عمل میں آئی جس میں عدالت کے چھ نئے ججز کی تقرری کے فیصلے کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس کی صدارت چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کی اور اس میں سپریم کورٹ کے لیے نامزد چھ ججز میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی، بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم شامل ہیں۔ ان میں مزید جسٹس شکیل احمد (پشاور ہائیکورٹ) اور جسٹس صلاح الدین پنور (سندھ ہائیکورٹ) کو بھی سپریم کورٹ کے جج بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں قائم مقام جج کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست : سندھ اور لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا ان کی یہ عارضی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 181 کے تحت کی گئی ہے جس کے مطابق صدر مملکت کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس میاں گل حسن کی تعیناتی خصوصاً ٹیکس مقدمات کی جلد سماعت کے لیے کی گئی ہے کیونکہ چیف جسٹس پاکستان نے ان کی تعیناتی کی تجویز دی تھی۔ لیکن اس اہم ترقی کے ساتھ ہی ایک نیا تنازعہ بھی کھڑا ہوگیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اس جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، جس کے نتیجے میں اجلاس میں شریک ارکان کی تعداد کم ہو گئی۔ حکومت کے نمائندے حزب اختلاف کے اراکین اور بار کونسل کے نمائندوں نے اس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے باعث ملک بھر میں اس فیصلے کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ وکلا نے سپریم کورٹ بلڈنگ اور اس کے اطراف میں احتجاج شروع کر دیا ہے جس میں ججز کی تقرری اور 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف شدید نعرے بازی کی جا رہی ہے۔ ضرور پڑھیں: لیبیا میں پاکستانی شہریوں کی کشتی الٹ گئی: 65 مسافر سوار احتجاج کے پیش نظر سپریم کورٹ کی سیکیورٹی میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ڈی آئی جی سیکیورٹی علی رضا کی زیر نگرانی سخت حفاظتی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ دوسری جانب جوڈیشل کمیشن نے اجلاس میں سپریم کورٹ کے چھ نئے ججز کی تقرری کی منظوری دی ہے اور اس کے بعد تمام نوٹیفیکیشنز جاری کیے جائیں گے۔ اس اہم فیصلے کے بعد پاکستان کی عدلیہ میں ایک نیا باب شروع ہو گا، تاہم وکلا کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف احتجاج اور جوڈیشل کمیشن کی کارروائی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی نئی تعیناتیاں اور اس سے جڑے قانونی و آئینی معاملات آئندہ دنوں میں مزید بحث و مباحثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلے عدلیہ کی آزادی اور پاکستان کے آئینی نظام پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ مزید پڑھیں: ”امریکا دوبارہ افغانستان میں جنگ شروع کرنے پر غور کر رہا ہے” مولانا فضل الرحمان کا پشتون فاٹا قومی مشاورتی جرگہ میں خطاب

”امریکا دوبارہ افغانستان میں جنگ شروع کرنے پر غور کر رہا ہے” مولانا فضل الرحمان کا پشتون فاٹا قومی مشاورتی جرگہ میں خطاب

سربراہ جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) مولانا فضل الرحمان نے  پشتون فاٹا قومی مشاورتی جرگہ میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا دوبارہ افغانستان میں جنگ شروع کرنے پر غور کر رہا ہے۔ نجی نشریاتی ادارے جیو کے مطابق جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پشتون فاٹا قومی مشاورتی جرگی میں شرکت کی، جہاں انھوں نے شرکاء سے خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ قومی جرگے میں شامل ہونا باعثِ اعزاز ہے، ہم جرگوں کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھوں  نے جرگہ میں شریک لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 12 سال سے تسلسل کے ساتھ آپ کے جرگوں میں شریک ہو رہا ہوں۔ آج ہم امن کے لیے نکلے ہیں، کیونکہ ہمارے خطے میں امن نہیں ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ قبائل کو اپنے فیصلے کرنے کا حق دیا جائے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا ہے کہ امریکا دوبارہ افغانستان میں جنگ شروع کرنے پر غور کر رہا ہے۔ امن کے بغیر ترقی و خوشحالی ممکن نہیں اور ہم ریاست، آئین اور ملک کے وفادار ہیں۔

پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست : سندھ اور لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا

 سندھ اور لاہور ہائی کورٹس نے پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ پیکا ایکٹ کو صحافیوں اور دیگر ماہرین کی طرف سے اظہار خیال کے خلاف کالا قانون قرار دیا گیا ہے،جس کے خلاف سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پیکا ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کی،عدالت نے استفسار کیا کہ اس قانون میں کیا خرابی ہے، کیا جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو سزا کا سامنا نہیں کرنا چاہیے؟ درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے بنیادی سوال اٹھایا کہ کون فیصلہ کرتا ہے کہ کیا جھوٹ ہے اور کیا سچ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فیصلے عدالتیں نہیں کرتیں، کچھ حکام کی طرف سے بنائے گئے ہیں. “آپ کو حکام کے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔” بیرسٹر علی طاہر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے عدالت کو کرنے چاہیے کیونکہ ان میں بنیادی حقوق شامل ہیں، چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے تو کیس کی سماعت آئینی بنچ کرے۔ بیرسٹر علی طاہر نے اٹک سیمنٹ کیس کا حوالہ دیا، جہاں عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ باقاعدہ بنچ کسی بھی قانون کی آئینی توثیق کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواست پر فریقین سے 5 مارچ تک جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے درخواست کو اسی نوعیت کی دیگر درخواستوں کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی اور مزید سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد بچھر سمیت دیگر نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی۔ عدالت عالیہ لاہور کے جسٹس فاروق حیدر نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ وکیل نے کہا کہ درخواست میں پیکا ایکٹ کی بعض شقوں کو چیلنج کیا گیا ہے، لہٰذا اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری ہونے چاہئیں،جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ یہ کوئی قانون نہیں، صرف عدالتی نظیر ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ آئین کے آرٹیکل 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے نوٹس جاری کرتے مزید سماعت ملتوی کر دی۔

سماجی بحران، تیزی سے ترقی کرتی چینی معیشت کی راہ میں رکاوٹ

دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک چین اس وقت سنگین سماجی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ جس کے اثرات اس کے اندرونی معاشرتی ڈھانچے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ برس چین میں نئی شادیوں کی تعداد میں تاریخی کمی واقع ہوئی اور طلاقوں کی شرح میں بھی معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ یہ صورتحال چینی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے جو ملک کی کم ہوتی آبادی اور معاشی ترقی کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چینی وزارت برائے شہری امور کے مطابق 2024 میں صرف 61 لاکھ جوڑوں نے اپنی شادیوں کا اندراج کرایا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 20.5 فیصد کم ہے۔ یہ اعداد و شمار 1986 میں اعداد و شمار کے جاری ہونے کے بعد سے سب سے کم ہیں۔ وزیر شہری امور کے مطابق اس کمی کا بنیادی سبب بڑھتی ہوئی اقتصادی مشکلات اور نوجوانوں میں شادی کرنے کا رجحان کم ہونا ہے۔ یہ کمی چین کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے کیونکہ حکومت نے طویل عرصے سے آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مختلف حکومتی پالیسیوں کا اطلاق کیا ہے۔ جن میں شادی کی ترغیب دینا اور بچوں کی پیدائش کو بڑھاوا دینا شامل ہے۔ لیکن ان پالیسیوں کے باوجود چین میں نوجوانوں کی شادی کے بارے میں رجحانات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ حکومت کے لیے ایک پریشان کن حقیقت بن چکی ہے۔ گزشتہ برس چین میں طلاق کی شرح میں معمولی اضافہ بھی دیکھا گیا۔ تقریبا 26 لاکھ جوڑوں نے طلاق کے لیے درخواست دی۔ جو پچھلے سال کے مقابلے میں 28 ہزار زیادہ ہے۔ اس اضافہ کی ایک وجہ حکومتی پالیسی ہے جس کے تحت 2021 میں طلاق کی درخواست دینے والوں کے لیے 30 دن کی ‘کولنگ آف’ مدت مقرر کی گئی تھی جس کا مقصد طلاق کے فیصلے کو سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔ اس پالیسی پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کیونکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے خواتین کے لیے بدسلوکی کرنے والی یا ٹوٹی ہوئی شادیوں کو چھوڑنا مشکل ہو گیا ہے۔ چین کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہ صورت حال حکومت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ 2024 میں 16 سے 59 سال کے درمیان کام کرنے والی افراد کی تعداد میں 6.83 ملین کی کمی واقع ہوئی، جو ملک کی معیشت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ دوسری جانب 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت یہ افراد کل آبادی کا 22 فیصد ہیں۔ چینی حکام نے اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے مالی ترغیبات فراہم کرنے، اجتماعی شادیوں کے انعقاد اور ‘دلہن کی قیمت’ جیسے روایات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ غریب مردوں کے لیے شادی کرنا آسان ہو سکے۔ چینی نوجوانوں میں شادی سے متعلق رویے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین جو زیادہ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خود مختار ہو رہی ہیں وہ شادی کے روایتی تصورات سے منحرف ہو رہی ہیں۔ انہیں کام کی جگہ پر امتیازی سلوک اور بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے روایتی ذمہ داریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی خواتین شادی کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔ چین میں سوشل میڈیا پر اس بات پر بھی تبصرے کیے گئے ہیں کہ ‘زندگی اتنی تھکا دینے والی ہے، شادی کرنے کی ہمت کیسے ہو سکتی ہے؟ چین میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش میں کمی کا ایک اور سبب اس کے طویل عرصے تک اپنائی گئی آبادی کی محدودیت کی پالیسی بھی ہے۔ 2015 میں چین نے اپنے ایک بچے کی پالیسی کو ختم کیا اور دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی، اسی طرح 2021 میں اس پالیسی کو تین بچوں تک بڑھا دیا گیا۔ اس کے باوجود شادیوں اور پیدائشوں میں کمی جاری رہی۔ اس صورتحال سے چینی حکومت کی کارگردگی اور خاص کر پالیسیوں پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ حکومت صرف معاشی بحالی پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور معاشرتی ترقی عدم توجہی کا شکار ہو رہی ہے۔ چین میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش میں کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو ملک کی مستقبل کی اقتصادی اور سماجی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ حکومتی اقدامات سے چینی نوجوانوں کے لیے شادی اور بچوں کی پیدائش بارے رائے میں کچھ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اس معاملےکو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ خیال رہے کہ چین میں بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ، سماجی مسائل اور شادی کے بارے میں بدلتے ہوئے رویے اسے ایک نیا چیلنج بنا رہے ہیں جس کا حل تلاش کرنا اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ اگر اس مسئلے کا حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ مستقبل میں دنیا کی ایک بڑی معیشت کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔