امریکا کی پیرس معاہدے سے دستبرداری باقی ممالک پر کیسا اثر چھوڑے گی؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےالیکشن جیتنے اورپیرس معاہدے سے دستبرداری کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک ،جو کاربن کا بہت زیادہ اخراج کرتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلی کو قابو کرنے والے اہداف کو پورا کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس طرح وہ اقوامِ متحدہ کی دی گئی ڈیڈ لائن کو چھوڑ رہے ہیں۔ پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے تقریباً 200 ممالک کو اقوام متحدہ کو نئے قومی آب و ہوا کے منصوبے پیش کرنے کے لیے پیر کی آخری تاریخ تک کا وقت دیا گیا تھا، جس میں یہ طے کیا جانا تھا کہ وہ 2035 تک کاربن فٹ پرنٹ کے اخراج کو کیسے کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پیر کی صبح تک، چین، انڈیا اور یورپی یونین سمیت دنیا کے بہت سے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک نے ایسا نہیں کیا تھا۔ سائنس اور پالیسی انسٹی ٹیوٹ کلائمیٹ اینالیٹکس کے سی ای او بل ہیئر نے کہا کہ “عوام اس حقیقت پر اپنی حکومتوں سے سخت ردعمل کی توقع کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ اب پورے ایک سال میں 1.5 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گئی ہے، لیکن ہم نے عملی طور پر کچھ بھی نہیں دیکھا”۔ بڑے ممالک جنہوں نے آب و ہوا کے نئے منصوبوں کا اعلان کیا ہے ان میں امریکہ، برطانیہ، برازیل، جاپان اور کینیڈا شامل ہیں حالانکہ ٹرمپ سے امریکہ کی بائیڈن دور کی شراکت کو ختم کرنے کی توقع ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ امریکہ کو پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کا حکم دیا تھا اور کچھ توانائی کے اخراجات کو روک دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہ سائمن اسٹیل نے گزشتہ ہفتے کہا کہ “زیادہ تر ممالک نے کہا ہے کہ وہ اس سال بھی اپنے منصوبے تیار کریں گے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “لہذا یہ یقینی بنانے کے لیے کہ یہ منصوبے پہلے اعلی معیار کے ہیں، تھوڑا سا مزید وقت لگانا معنی خیز ہے”۔” لیکن ختم ہونے والی ڈیڈ لائن ان خدشات میں اضافہ کرتی ہے، کچھ اہلکار اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ موسمیاتی پالیسی پر امریکی یو ٹرن دیگر ممالک کی کوششوں میں خلل ڈال رہا ہے”۔” ایک سرکاری اہلکار نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ انڈیا نے ابھی تک اپنے آب و ہوا کے منصوبے کو ڈیزائن کرنے کے لیے درکار مطالعات مکمل نہیں کی ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے پیر کو کہا کہ چین اپنا موسمیاتی منصوبہ مقررہ وقت پر بتائے گا۔
لیبیا میں پاکستانی شہریوں کی کشتی الٹ گئی: 65 مسافر سوار

لیبیا میں پاکستانی شہریوں کو لے جانے والی ایک اور کشتی حادثے کا شکار ہو گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق لیبیا کے ساحل کے قریب پاکستانی شہریوں کو لے جانے والی کشتی حادثے کا شکار ہوئی۔ لیبیا میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق کشتی کو مرسا ڈیلا بندرگاہ کے قریب حادثہ پیش آیا۔ کشتی میں 65 افراد سوار تھے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ طرابلس میں پاکستانی سفارتخانے کی ٹیم زاویہ اسپتال روانہ کر دی گئی ہے، پاکستانی سفارتخانے کی ٹیم مقامی حکام کی معاونت کرے گی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کرائسز مینجمنٹ یونٹ متحرک کر دیا گیا ہے اور کشتی حادثے میں متاثرہ پاکستانیوں کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق مرسا ڈیلا بندرگاہ سے تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے بعد 10 لاشیں نکالی گئیں۔ لیبیا ہلال احمر کے مطابق زاویہ شہر میں مرسا ڈیلا بندرگاہ سے غیر ملکی تارکین وطن کی لاشیں نکالی جا رہی ہیں، تارکین وطن کی لاشوں کوقانونی کارروائی کےلئےمقامی حکام کےسپرد کر دیا گیا ہے۔ لیبین میڈیا کے مطابق ہلال احمر نے کشتی ڈوبنے کی وجہ اور مسافروں کی شناخت نہیں بتائی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کا کیس: سماعت کل تک ملتوی

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ فوجی عدالت سے سزا یافتہ کے وکیل سلمان اکرم راجہ سپریم کورٹ نہ پہنچ سکے۔ دورانِ سماعت وکیل رانا وقار نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ رانا صاحب آپ بھی تو پہنچ گئے ہیں تو راجہ صاحب بھی پہنچ سکتے تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ “آج معلوم تھا راستے بند ہیں تو ٹائم پر نکل آتے، شاید سلمان اکرم راجہ چاہتے ہیں کہ ملزمان جیلوں میں سڑتے رہیں، اگر کیس نہیں چلانا چاہتے تو ان کی مرضی ہے”۔ جسٹس امین الدین نے سوال کیا کہ کیا دوسرے کسی بھی فریق کا کوئی وکیل ہے؟ عدالتی عملے نے ججز کو جواب دیا کہ کسی فریق کا کوئی وکیل نہیں پہنچ سکا۔ سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے کہا کہ کیس سماعت کے لیے پکارا گیا، سلمان اکرم راجہ عدالت میں موجود نہیں تھے، فریق مقدمہ کے وکلاء میں سے کوئی دلائل دینا چاہے تو دے سکتا ہے، کیا ویڈیو لنک پر کوئی فریق مقدمہ کا وکیل ہے تو دلائل دے سکتا ہے۔ عدالتی عملے نے بتایا کہ ویڈیو لنک پر بھی کوئی وکیل موجود نہیں ہے۔ جس کے بعد جسٹس امین الدین نے کہا کہ ٹھیک ہے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دیتے ہیں۔
اسلام آباد: 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کا احتجاج، سرینا چوک پر پولیس سے تصادم

26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کی ملک گیر تحریک آج اسلام آباد میں شدت اختیار کر گئی۔ وکلاء نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس پر پولیس سے شدید تصادم ہوا۔ سرینا چوک پر پولیس اور وکلاء میں ہاتھا پائی، دھکم پیل اور نعرے بازی دیکھنے میں آئی، جبکہ پولیس نے ریڈ زون کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی۔ وکلاء کے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ریڈ زون مکمل سیل، پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ریڈ زون کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز لگا کر راستے بند کر دیے گئے۔ علاوہ ازیں وفاقی دارالحکومت میں موبائل سروس معطل کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ سرینا چوک پر وکلاء اور پولیس میں تصادم ہوا ہے جبکہ وکلاء ریڈ زون میں داخلے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوپہر کے وقت وکلاء کی بڑی تعداد نے سرینا چوک کا رخ کیا اور ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وکلاء کی کوشش تھی کہ وہ شاہراہ دستور تک پہنچ سکیں، جہاں وہ دھرنا دینا چاہتے تھے۔ تاہم، پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے جس پر تصادم ہوا۔ وکلاء نے پولیس بیریئرز ہٹانے کی کوشش کی۔ پولیس نے وکلاء کو پیچھے دھکیلنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ اس موقع پر شدید نعرے بازی ہوئی، وکلاء ‘آئین کی بالادستی’ کے حق میں نعرے لگا رہے۔ پولیس اور وکلاء میں دھکم پیل اور ہاتھا پائی ہوئی۔ وکلاء کے مطالبات ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر 16 رکنی فل کورٹ سماعت کرے اور عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کیا جائے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔ وکلاء کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جب تک 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ نہیں آتا، کسی بھی جج کی تقرری نہ کی جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنایا جائے۔ مزید براں وکلاء کا مطالبہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس منسوخ کیا جائے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا انعقاد عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ علاوہ ازیں وکلاء نے پیکا ایکٹ میں حالیہ ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے آزادی صحافت کی حمایت کی۔ وکلاء کا دعویٰ ہے کہ سیکرٹری سپریم کورٹ بار سلمان منصور کو 26ویں ترمیم کی مخالفت کرنے پر غیر قانونی طور پر معطل کیا گیا۔ وکلاء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ تحریک صرف 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی کے لیے ہے۔ سینیئر وکیل حامد خان نے کہا کہ “یہ تحریک 26ویں ترمیم کو بہا لے جائے گی۔ ہم آئین کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔” سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ربیعہ باجوہ نے کہا کہ “وکلاء کا ایک دھڑا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جبکہ دوسرا آئین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم انصاف کے لیے لڑیں گے۔” دوسری جانب پولیس نے واضح کیا ہے کہ کسی کو بھی غیر قانونی طور پر ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے وکلاء کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، تاہم وکلاء نے ابھی تک کسی مذاکراتی عمل میں شمولیت کا عندیہ نہیں دیا۔ خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر وکلاء برادری نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا تھا۔ وکلاء کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے اور ججوں کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر کیا وکلاء تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ یہ احتجاج عدلیہ اور حکومت کے درمیان جاری کشمکش کو مزید شدت دے سکتا ہے۔ اگر وکلاء تحریک کو عوامی اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گئی تو یہ ایک بڑی آئینی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر حکومت مذاکرات کے ذریعے معاملے کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئی تو یہ بحران جلد حل ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے۔ انہوں نے یہ اعلان خلیج میکسکو جاتے ہوئے جہاز میں کیے جس کے بعد جہاز میں بھی اس کا اعلان کیا گیا۔ اس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ” یہ بہت اچھا اقدام ہے”۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے پہلے ہی گوگل میپس پر خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکا کر دیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی کہا تھا کہ وہ خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا کا نام دے دیں گے۔ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے دن ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت محکمہ داخلہ کو 30 دن کے اندر وہ تمام مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت دی گئی جو نام کی تبدیلی کے لیے ضروری ہوں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے محکمہ داخلہ نے جمعے کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے خلیج میکسیکو کا نام بدل کر “خلیج امریکا” رکھا ہے، اور الاسکا کی بلند ترین چوٹی “ڈینالی” کا نام پھر سے “ماؤنٹ میک کینلے” رکھ دیا ہے۔ گوگل میپس، جو الفابیٹ (جی او جی ایل) کے تحت ہے، ان تبدیلیوں کو اپنے نقشوں میں بھی شامل کرے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ امریکی محکمہ داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر کی ہدایات کے مطابق “خلیج میکسیکو” اب باضابطہ طور پر “خلیج امریکا” کہلائے گا اور شمالی امریکا کی بلند ترین چوٹی کا نام ایک بار پھر ماؤنٹ میک کینلے رکھا جائے گا۔ میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے اس ماہ کے آغاز میں مذاق میں تجویز دی تھی کہ شمالی امریکا کا نام بدل کر “میکسیکن امریکا” رکھ دینا چاہیے۔ گوگل کے ترجمان نے خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کو بتایا کہ کمپنی اپنے نقشوں میں مقامی روایات کے مطابق ناموں کا استعمال کرتی ہے۔ اس طرح، جاپان اور جنوبی کوریا کے قریب سمندری پانی کو “بحیرہ جاپان (مشرقی بحیرہ)” کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ 2012 میں ایران نے گوگل پر دباؤ ڈالا تھا اور گوگل کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ جب گوگل نے “خلیج فارس” کا نام اپنے نقشے سے ہٹا دیا تھا اور ایران اور جزیرہ نما عرب کے درمیان سمندر کا نام نہیں دیا تھا۔ اب وہ پانی “خلیج فارس (خلیج عرب)” کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ گلف یا خلیج سمندر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو تین جانب سے خشکی سے گھرا ہو اور اس میں داخلے کا راستہ بھی ہو۔ عام طور پر خلیج میں داخلے کا راستہ تنگ ہوتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ‘سکوں’ کی پیداوار بند کرنے کی ہدایت کردی، ایسا کیوں ہوا؟

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز (اتوار) اعلان کیا کہ انہوں نے سیکرٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ پینیز (چھوٹے سکے یا سینٹ) کی پیداوار روک دیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت کے بعد خاص طور پر ‘پینی’ کی تیاری کو روکا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکل فیصلہ اس لئے کیا گیا کیونکہ ایک پینی کی تیاری پر خرچ ہونے والی لاگت ایک فیصد سے زیادہ ہے جو کہ امریکی عوام کے پیسوں کے ضیاع کا سبب ہے۔ گزشتہ روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا کہ “ہمیں اپنے عظیم ملک کے بجٹ سے فضول اخراجات کو نکالنا ہے چاہے وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے کئی دہائیوں تک ان سکوں کی تیاری پر پیسہ خرچ کیا ہے۔ ایک پینی (سینٹ) پر خرچ دو سینٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔ ایلون مسک کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی نے بھی اس معاملے پر توجہ دی تھی اور سوشل میڈیا پر اس کی خرابیوں کا ذکر کیا تھا۔ گزشتہ ماہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ اپنے پیغام میں ایلون مسک نے واضح طور پر کہا تھا کہ ایک سینٹ (سکے) کی تیاری کے اخراجات ناقابل قبول ہیں اس لیے اس کی پیداوار کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ 2023 میں امریکی منٹ نے بھی رپورٹ کیا تھا کہ امریکا نے تقریباً 4.1 بلین سکے بنائے تھے جن میں سے زیادہ تر ‘پینی’ تھے۔ اسی طرح مالی سال 2024 میں ‘پینی’ کی تیاری پر 3.7 سینٹ لاگت آئی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ زنک اور تانبے جیسی دھاتوں کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ جس کے باعث ‘پینی’ کی تیاری مزید مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ نیویارک ٹائمز میگزین کی گزشتہ برس کی ایک رپورٹ میں سکے کی پیداوار کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طویل عرصے سے یہ سکے امریکی معیشت کے لئے ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ اب انہیں ختم کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ دوسری جانب بروکنگ انسٹیٹیوشن کی ایک رپورٹ نے بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ نہ صرف ‘پینی’ بلکہ نکل کے سکے کی پیداوار بھی روکی جائے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکومت کو اپنے مالی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا چاہیے اور ان سکے کی تیاری پر پیسہ ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔ امریکی صدر جکے اس اقدام سے ایک بڑی بحث شروع ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی چھوٹے سکوں کی پیداوار بند کر دینا ایک معقول فیصلہ ہے؟ اس سے حکومت کی مالی بچت میں اضافہ ہو گا یا پھر یہ صرف ایک علامتی فیصلہ ثابت ہوگا؟ اس وقت امریکا اور دنیا بھر میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے واقعی مالی وسائل کی بچت ہو سکے گی یا یہ محض ایک سیاسی اقدام بن کر رہ جائے گا۔ لیکن امریکی عوام اور سیاستدان اس فیصلے کو بہت دھیان سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے طویل المدتی اثرات کا تجزیہ کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان کو امریکی شہریوں نے مسترد کر دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے کے بیان کو امریکی شہریوں نے مسترد کر دیا۔ امریکی میڈیا کے ایک پول میں شہریوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ پول میں پوچھا گیا کہ کیا آپ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے متعلق بیان کی حمایت کرتے ہیں۔ پول میں 47 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کے بیان کو غلط قرار دیا اور امریکا کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیا۔ پول میں 13 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کی حمایت کی جبکہ 40 فیصد امریکیوں نے اس بارے میں کوئی رائے نہیں دی۔ پول کے مطابق صدر ٹرمپ کے فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس اسرائیل تنازع سے نمٹنے کے طریقہ کار کی 54 فیصد امریکیوں نے حمایت اور 46 فیصد نے مخالفت کی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں صدر ٹرمپ نے غزہ پر امریکا کی جانب سے قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا، ہم اس کے مالک ہوں گے۔ جس کا مقصد اس علاقے میں ترقی لانا اور ہزاروں لوگوں کو ملازمتیں مہیا کرنا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھاکہ” میں غزہ میں طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھتا ہوں، ہم غزہ کو ترقی دیں گے۔علاقے کے لوگوں کے لیے ملازمتیں دیں گے ، شہریوں کو بسائیں گے”۔ ٹرمپ کے اعلان پر اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ممالک نے غزہ سے فلسطینیوں کی بےدخلی کی مخالفت کی تھی اور دو ریاستی حل پر زور دیا تھا۔ اس اعلان سے پہلے ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر مستقل طور پر ہمسایہ ممالک میں بھیجنے کا کہا گیا تو مصر اور اردن نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے باوجود ایک مرتبہ پھر ٹرمپ نے غزہ میں مقیم 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کر کے پڑوسی ممالک بھیجنے کا اعلان کیا۔ غزہ جنگ کے لیے اسرائیل کو سب سے زیادہ اسلحہ اور زمینی حملے کے لیے فوجی قوت فراہم کرنے والے امریکا کے صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ “ہم اس (غزہ) کے مالک ہوں گے اور وہاں پر موجود تمام خطرناک ہتھیاروں اور دیگر کو ختم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ “ہم اس ٹکڑے پر قبضہ کرنے جا رہے ہیں، ہم اسے ترقی دینے جا رہے ہیں ہزاروں ملازمتیں پیدا کریں گے اور یہ ایسی چیز ہو گی جس پر پورا مشرق وسطیٰ فخر کر سکتا ہے۔” انہوں نے کہا “میں ایک طویل مدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں اور میں اسے مشرق وسطیٰ کے اس حصے میں زبردست استحکام لاتا ہوا دیکھ رہا ہوں” انہوں نے دعوی کیا کہ “علاقائی رہنماؤں سے بات کی ہے اور انہوں نے اس کی حمایت کی ہے۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاں کون رہے گا تو ٹرمپ نے فلسطینیوں کے ملک میں انہی کی رہائش کا حق ماننے کے بجائے کہاکہ “وہ دنیا کے لوگوں کا گھر بن سکتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ آ کر یہاں بس سکتے ہیں”۔ ٹرمپ نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا کہ امریکہ کس طرح اور کس اختیار کے تحت غزہ پر قبضہ کر سکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ بشمول ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں، وہاں امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے گریز کیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ”ٹرمپ اس مسئلے پر غیرروایتی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی غیرروایتی سوچ نئے خیالات کو جنم دیتی ہے۔” امریکی صدر کی جانب سے غزہ پر قبضے کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیل اور غزہ کی حکمراں جماعت حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے پہلے فیز کے تحت متعدد اسرائیلی اور جواب میں سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کیے گئے ہیں۔ پہلے سے اعلان کردہ ٹائم لائن کے مطابق اب مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے دوسرے فیز کی تفصیلات طے کی جانی تھیں۔ مبصرین کو توقع ہے کہ ٹرمپ مستقبل کے مذاکرات کے لیے پیرامیٹرز طے کرنے کے لیے بعض اوقات عالمی سطح پر انتہائی سخت موقف اختیار کرتے ہیں۔ اپنی پہلی مدت میں، ٹرمپ نے بعض اوقات ایسے بیانات جاری کیے جنہیں خارجہ پالیسی کے بڑے اعلانات کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ان میں سے اکثر کو انہوں نے کبھی نافذ نہیں کیا۔
کیویز کا جیت کا سلسلہ جاری، پروٹیز کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی

سہ ملکی ون ڈے سیریز کے دوسرے میچ میں نیوزی لینڈ نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اور جنوبی افریقہ کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر سہ ملکی سیریز کے فائنل میں جگہ حاصل کر لی۔ یہ میچ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ نیوزی لینڈ کا جیت کا سلسلہ جاری ہے، کیویز نے پاکستان کے بعد جنوبی افریقہ کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی۔ ٹاس جیت کر نیوزی لینڈ کے کپتان مچل سینٹنر نے پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اور جنوبی افریقہ نے مقررہ 50 اووروں میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 304 رنز بنائے، جس کے جواب میں کیویز نے یہ ہدف 48.4 اوور میں 4 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ دوسری جانب ٹاس جیتنے کے بعد نیوزی لینڈ کے کپتان مچل سینٹنر نے بتایا تھا کہ ٹیم میں ایک تبدیلی کی گئی ہے، راچن رویندرا کی جگہ ڈیون کانوے کو شامل کیا گیا ہے۔ سینٹنر کا کہنا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کے خلاف اچھا کھیل پیش کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باووما نے بھی ٹاس کے موقع پر کہا کہ اگر ان کی ٹیم ٹاس جیتتی تو وہ بھی پہلے فیلڈنگ کا ہی فیصلہ کرتے۔ باووما نے اس بات کا ذکر کیا کہ ٹیم میں نئے کھلاڑی ہیں اور وہ کھیلنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم میں چار کھلاڑیوں نے ڈیبیو کیا ہے۔ سہ ملکی سیریز کا آج دوسرا میچ تھا، پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 78 رنز سے شکست دی۔ لاہور میں یہ سہ ملکی سیریز کا آخری میچ تھا، آخری دو میچز کراچی میں کھیلے جائیں گے۔ جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 6 وکٹوں کے نقصان پر مقررہ 50 اوورز میں 304 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے میتھیو بریٹز کے 148 بالوں پر 150 رنز کی ناقابلِ یقین اننگ کھیلی۔ اس کے علاوہ ویان مولڈر نے 64، جب کہ جیسن اسمتھ نے 41 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے ول او روک نے 2، میٹ ہنری نے 2، جب کہ بریس ویل نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کر کے چلتا کیا۔ ڈیبیو کرنے والے جنوبی افریقی بلے باز میتھیو پال بریٹز نے اپنے ڈیبیو میچ میں ہی 150 رنز کی بڑی اننگ کھیل کر سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی، مگر ان کی اتنی لمبی اننگ بھی پروٹیز کے کام نہ آئی۔ کیویز نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقررہ اوورز سے قبل 305 کی بجائے 308 رنز جڑ دیے، کیویز نے ٹارگٹ 48.4 اوورز میں ہی حاصل کر لیا۔ کیوی کھلاڑی اور سابق کپتان کین ویلیم سن نے 112 گیندوں پر 133 رنز کی نمایاں اننگ کھیلی اور ناٹ آؤٹ رہے، جب کہ دوسری جانب ڈیوڈ کون وے بدقسمتی سے اپنی سینچری مکمل نہ کر پائے اور 97 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ پروٹیاز کی جانب سے سینوران متھوسمی نے 2، جب کہ ایتھن بوش اور جونیئر ڈالا نے 1،1 وکٹ حاصل کی۔ جنوبی افریقہ کیویز بلے بازوں کو لگام نہ ڈال سکی۔ یاد رہے کہ نیوزی لینڈ نے پہلے پاکستان اور اب جنوبی افریقہ کو شکست دے کر فائنل میں جگہ حاصل کر لی ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت کا حل کیا ہے؟

پاکستان میں غذائی قلت ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف ملک زرعی پیداوار میں خودکفیل دکھائی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف لاکھوں بچے اور خواتین بنیادی غذائی اجزاء سے محروم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف خوراک کی کمی کا معاملہ ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور عوامل کارفرما ہیں؟ ماہرین کے مطابق، اس وقت پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے۔ یونیسف اور ورلڈ بینک کی رپورٹس کے مطابق پست قد بچے 34%، کم وزن بچے 22%، خون کی کمی میں مبتلا بچے 53%، آئرن کی کمی کا شکار حاملہ خواتین41%، 22 فیصد نومولود کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ صرف صحت کا نہیں، بلکہ معیشت کا بھی مسئلہ ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، غذائی قلت کے باعث پاکستان کی معیشت کو ہر سال 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ عوام کی مالی مشکلات ایسی ہیں کہ متوازن غذا نہ لینے سے بچوں کی ہڈیاں نکل آتی ہیں اور ماں باپ بچوں کو اچھی خوراک دینے سے قاصر ہیں ۔لاکھوں والدین کو خوراک کی بڑھتی قیمتوں نے متوازن غذا سے دور کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کا مسئلہ صرف خوراک کی عدم دستیابی نہیں، بلکہ غیر متوازن خوراک بھی ایک بڑا سبب ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ کاربوہائیڈریٹس (چاول، آٹا، چینی) پر گزارا کرتے ہیں، جبکہ پروٹین، وٹامنز اور منرلز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ماہر خوراک کے مطابق لوگ مکمل طور پر بھوکے نہیں ہوتے بلکہ غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ حاملہ خواتین کو آئرن، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی شدید کمی کا سامنا رہتا ہے، جس کی وجہ سے کم وزن بچوں کی پیدائش عام ہو چکی ہے۔
کیا دالیں گوشت جتنی توانائی رکھتی ہیں؟

سائنس کی ترقی کی بدولت دنیا میں جہاں انسان نے تمام مسائل پر قابو پایا ہے، وہیں نت نئی ابھرنے والی بیماریوں نے انسان کو ذہنی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ ان بڑھتی ہوئی تبدیلیوں کی بدولت دنیا بھر میں خوراک کے رجحانات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں اور پاکستان بھی ان تبدیلیوں سے مستثنیٰ نہیں رہ سکا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی طرزِ زندگی، صحت کے بڑھتے ہوئے خدشات، جانوروں کی ختم ہوتی نسل، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ گوشت کی بجائے دالوں پر انحصار کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے ایک اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا دالیں واقعی پروٹین کا بہترین متبادل ہیں یا پھر محض یہ ایک غذائی انتخاب ہے؟ انسانی جسم کے لیے پروٹین ایک بنیادی جزو ہے، جو پٹھوں کی مضبوطی، مدافعتی نظام کو بہتر بنانے اور خلیوں کی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پروٹین کا سب سے مؤثر ذریعہ گوشت ہے، لیکن غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ فائبر، آئرن اور دیگر ضروری وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں، اس لیے گوشت کی نسبت دالیں بہترین متبادل ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو غذائی ماہر ڈاکٹر انجم اکبر نے بتایا ہے کہ ”اگرچہ دالیں کم چکنائی والے پروٹین اور معدنیات کی بھرپور فراہمی کا ذریعہ ہیں، مگر یہ گوشت کے تمام غذائی اجزاء کا مکمل متبادل نہیں بن سکتیں، کیونکہ گوشت میں پائے جانے والے اجزاء دالوں میں اتنی مقدار میں نہیں پائے جاتے، لیکن ایک متوازن غذا میں دالوں کو شامل کر کے گوشت کی مقدار کو کم کیا جا سکتا ہے۔” پاکستان میں گوشت کی بجائے دالوں کا کثرت سے استعمال اس لیے نہیں کیا جاتا کہ یہ گوشت کے متبادل ہے، بلکہ یہ گوشت کی نسبت سستی ملتی ہیں، تو سفید پوش طبقے کی ایک بڑی تعداد اکثر دالوں پر گزارہ کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جہاں مہنگائی عروج پر ہے اور گوشت ہر شہری کی قوتِ خرید میں نہیں، جس کی بدولت دالیں ایک سستا اور غذائیت سے بھرپور متبادل بنتی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں دالوں کے استعمال کی ایک اور وجہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ ساتھ فائبر، آئرن، کیلشیم اور مختلف وٹامنز کا پایا جانا ہے، جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ ایک کپ دال میں تقریباً 15-18 گرام پروٹین پایا جاتا ہے، جو اسے گوشت کے قریب ترین پروٹین کا ذریعہ بناتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے غذائی ماہرِ ڈاکٹر فہد سلیمان نے کہا ہے کہ ” پروٹین حاصل کرنے کے لیے دالوں کے علاوہ انڈے، دہی، گری دار میوے اور بیجوں کو بھی خوراک میں شامل کرنا ضروری ہے ،تاکہ جسم کے لیے ضروری تمام امائنو ایسڈز کو پورا کیا جا سکے۔” خیال رہے کہ گوشت میں پائے جانے والے پروٹین میں تمام ضروری امائنو ایسڈز شامل ہوتے ہیں، جب کہ دوسری جانب دالوں میں بعض امائنو ایسڈز کی کمی ہوتی ہے، اسے لیے کہا جاتا ہے کہ متوازن غذا صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اسے روزانہ کی بنیاد پر کھایا جائے۔ دالوں پر کی جانے والی مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دالیں دل کے لیے بے حد مفید ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دالوں میں فائبر اور کم چکنائی پائی جاتی ہے، جس سے یہ کولیسٹرول لیول کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتی ہیں۔ دالوں کا استعمال محض صحت بڑھانے کے لیے ہی نہیں، بلکہ وزن کم کرنے میں بھی مددگار ہے، ایسا اس لیے ہے کیونکہ دال کھانے سے دیر تک پیٹ بھرے رہنے کا احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بندہ کم کھاتا ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کے مطابق دالوں کو سبزیوں، دودھ کی مصنوعات اور مکمل اناج کے ساتھ کھانے سے متوازن غذا حاصل کی جا سکتی ہے، جو صحت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ دالیں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید مانی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں کم گلیسیمک انڈیکس پایا جاتا ہے، جو بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جانوروں کے گوشت کے زیادہ استعمال سے کولیسٹرول بڑھنے کا خدشہ، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر امراض ہونے خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دالوں کا زیادہ استعمال بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہے۔ ڈاکٹر انجم اکبر کے مطابق دالوں میں پودوں سے حاصل شدہ پروٹین ہوتا ہے، جو فائبر سے بھرپور اور ہاضمے کے لیے مفید ہے، اس کے برعکس گوشت میں موجود پروٹین جانوروں سے حاصل ہوتا ہے، جو بعض اوقات زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ دالوں کے زیادہ مقدار میں استعمال سے بعض افراد میں معدے کی تکلیف، گیس اور ہاضمے کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں ہر چیز کے زیادہ استعمال سے فوائد ملتے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو ضرورت کے مطابق متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے۔ دالیں گوشت کی نسبت سستی اور مفید ہیں، مگر پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں ان کی مقدار میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دالوں کی پیداوار میں کمی، کاشتکاری کے جدید طریقوں کی عدم دستیابی اور درآمدات پر انحصار بڑے مسائل ہیں، جنہیں بہتر پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر انجم اکبر نے دالوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دالوں کے زیادہ استعمال سے گوشت کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی کمی آئے گی، جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں دالوں کا استعمال خوراک کا لازمی جزو ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں گوشت کا استعمال کچھ حد تک بڑھ گیا تھا، جس کی وجہ سے مسائل بھی دیکھے گئے، مگر حالیہ ہونے والی