”تنخواہوں میں اضافہ زبردستی نہیں ہو گا، جو نہیں لینا چاہتے لکھ کر دے دیں” اپوزیشن احتجاج پر اسپیکر کا جواب

اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر اپوزیشن احتجاج پر اسپیکر اور وزیر قانون کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ زبردستی نہیں ہے۔ جو ممبر اضافی تنخواہ لینا نہیں چاہتے، وہ لکھ کر دے دیں۔ انہیں پرانی تنخواہ ہی دی جائے گی۔ نجی نشریاتی ادارے اے آر وائی نیوز کے مطابق قومی اسمبلی نے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ اجلاس میں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور اضافے پر کڑی نتقید کرتے ہوئے حکومت کو نشانہ بھی بنایا۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اپوزیشن کے احتجاج اور اعتراض پر رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ زبردستی نہیں ہے۔ جو اضافہ کی گئی تنخواہ نہیں لینا چاہتے، وہ لکھ کر دے دیں، انہیں نہیں ملے گی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کسی پر کوئی بھی چیز مسلط نہیں کرنی چاہیے۔ تنخواہوں میں اضافہ زبردستی نہیں ہے۔ جو ممبر اضافی تنخواہ لینا نہیں چاہتے، وہ لکھ کر دے دیں۔ انہیں پرانی تنخواہ ہی دی جائے گی۔

“مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن  ہے” وزیراعظم

ورلڈ گورنمنٹس سمٹ کا اجلاس دبئی میں منعقد ہوا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن ہے، اور پائیدار و منصفانہ امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گورنمنٹس سمٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے خطے میں امن قائم ہو گا وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کی گئی جس میں 50 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا گیا،فلسطین میں 50 ہزار سے زیادہ معصوم جانیں ضائع ہوئی اور آزاد فلسطین کا درالحکومت القدس ہے انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن  ہے،پائیدار اور منصفانہ امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ممکن ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم محمد شہبازشریف اور بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کی چیئرپرسن برائے صدارت  کی دبئی، متحدہ عرب امارات میں  ورلڈ گورنمنٹس سمٹ کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم نے بوسنیا اور ہرزیگووینا کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ دونوں ممالک کے مابین تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، وزیراعظم نے دوطرفہ تعلقات کو باہمی طور پر مفید تجارتی اور اقتصادی تعلقات پر مبنی ایک مضبوط و وسیع البنیاد شراکت داری میں تبدیل کرنے کی پاکستان کی خواہش اظہار کیا۔ بوسنیا اور ہرزیگوینا کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے، وزیراعظم نے کہا کہ بوسنیا اور ہرزیگوینا کی بطور علاقائی روابط کے مرکز کی بے پناہ صلاحیت اور مستقبل میں یورپی یونین کی رکنیت بوسنیا اور ہرزیگوینا کے راستے پاکستانی اشیاء کے بلقان اور مشرقی یورپی منڈیوں تک رسائی کے مواقع فراہم کرے گی۔ بوسنیا اور ہرزیگوینا کی چیئرپرسن برائے صدارت نے پاکستان کی جانب سے نیک خواہشات پر وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بوسنیا اور پاکستان کے مابین مختلف شعبوں بالخصوص تجارت و سرمایہ کاری میں فروغ کی خواہش کا اظہار کیا. دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے مزید فروغ کے لیے مل کر کام کرنے روابط کی مضبوطی پر اتفاق کیا

پتوکی میں امام مسجد نے چندہ بکس میں کرنٹ چھوڑ دیا: چور جاں بحق

پتوکی میں مسجد کے چندہ بکس سے چوری کرنے کی کوشش کے دوران کرنٹ لگنے سے چور جاں بحق ہوگیا۔ مسجد میں موجود چندہ بکس سے ہر چند دن بعد چوری کی وارداتیں ہو رہی تھیں، جس سے تنگ آکر امام مسجد نے چندہ بکس میں کرنٹ چھوڑ دیا۔ گزشتہ رات چور چندہ بکس کا صفایا کرنے پہنچا، مگر بجلی کے جھٹکے سے موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے موقع پر پہنچ کر تفتیش شروع کر دی ہے، جبکہ امام مسجد سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ پتوکی کے نواحی علاقہ حبیب آباد کے ملحقہ گاؤں جودھ سنگ میں پیش آیا جس میں کرنٹ لگنے سے چور جاں بحق ہوگیا۔ واقع کی اطلاع ملنے پر مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر مزید کاروائی شروع کردی۔

“مجھے اس جرم کی سزا دی جارہی ہے جو میری جیل سے سات ہزار میل دور ہوا” مقبول بٹ

تہاڑ جیل میں قید آزادی پسند کشمیری رہنما ’مقبول بٹ‘ کو انڈین حکومت نے برطانیہ میں اپنے سفارت کار کے قتل کے بعد، 11 فروری 1984 کو پھانسی دے دی تھی۔ سنہ 1984 میں برطانیہ میں بھارت کے سفارت کار رویندر مہاترے کو اغوا کرنے والوں کو شاید اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کا یہ عمل مقبول کی پھانسی پر منتج ہوگا۔ لیکن اس واقعے سے بھی بہت پہلے 1966 میں ایک سی آئی ڈی انسپکٹر امر چند کے قتل کے جرم میں مقبول بٹ کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ جب انھیں سزا سنائی گئی تو کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بھری عدالت میں میجسٹریٹ سے کہا: ‘جج صاحب، وہ رسی ابھی نہیں بنی جو مقبول کو پھانسی دے سکے۔’ اس فیصلے کے صرف چار ماہ بعد ہی، مقبول بٹ جیل سے38 فٹ لمبی سرنگ کھود کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔  بھارتی حکومت اور اداروں نے انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن وہ دو ہفتوں تک مسلسل پیدل چل کر آزاد کشمیر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد اگلے تقریباً آٹھ سال وہ آزاد کشمیر میں رہائش پزیر رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ان کی واپسی کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے ان پر بارہمولہ کے ہندواڑہ میں ایک بینک لوٹنے اور بینک مینیجر کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ بھارتی ہوائی جہاز ’گنگا‘ ہائی جیکنگ کیس سنہ 1971 میں سرینگر سے جموں جانے والی پرواز کو ہائی جیک کر کے لاہور ائیرپورٹ پر اتار لیا گیا۔ بھارتی فوکر F27 پرواز جو گنگا کے نام سے مشہور تھی کو اغوا کرنے والے دونوں ہائی جیکروں کا تعلق کشمیرسے تھا۔  اگرچہ مقبول بٹ براہ راست ہائی جیکنگ میں ملوث نہیں تھے لیکن بھارتی حکومت کی جانب سے ان کو اس تمام منصوبے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ طیارہ ہائی جیک کرنے والے ہاشم قریشی نے بھی بعد میں رابطہ کرنے پر میڈیا کو بتایا کہ ’ہم ڈاکٹر فاروق حیدر کے کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ اچانک خبر آئی کہ اریٹیریا کے دو شدت پسندوں نے کراچی میں ایتھوپیا کے ایک جہاز پر فائرنگ کی اور اسے نقصان پہنچایا۔ مقبول بٹ نے جوں یہ سنا وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے اور کہا ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے‘۔ کچھ دنوں بعد بٹ صاحب نے کہا کہ اگر ہم آپ کو جہاز اغوا کرنے کی تربیت دیں تو کیا آپ اسے انجام دے پائيں گے؟ میں نے ان سے کہا کہ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔’ بعد ازاں مقبول بٹ نے خصوصی عدالت میں اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ہم نے کوئی سازش نہیں کی۔ ہم اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم نے ایسا کیا تاکہ کشمیر کی طرف دنیا کی توجہ مرکوز ہو۔ جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کی تشکیل مقبول بٹ نے ایک اور آزادی پسند کشمیری راہنما ’امان اللہ‘ کے ساتھ مل کر 1976 میں جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم نے آگے چل کر نہ صرف مقبول بٹ کی زندگی بلکہ تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔  بھارت نے 2019 میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی تھی جبکہ یاسین ملک سمیت جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کے اہم راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ’نام‘ سربراہی اجلاس اور رہائی کو کوشش سنہ 1981 میں انڈیا میں ’نام‘ سربراہی اجلاس کے دوران میڈیا کو فون پر ایک نامعلوم شخص نے بتایا کہ ’اس نے وگیان بھون اور اشوکا ہوٹل میں بم لگایا ہے اور اگر مقبول بٹ کو فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا تو وہ عمارتیں اڑا دی جائیں گی‘۔ اس سے ایک دن پہلے کانفرنس میں شریک سفارتکاروں کو بھی کیوبا کے سفارت خانے کے لفافوں میں اسی طرح کی دھمکیاں بھیجی گئیں۔ اس کے نتیجے میں تہاڑ جیل میں مقبول بٹ کی سکیورٹی بڑھا دی گئی اور ان کی نگرانی کے نظام کو مزید سخت کردیا گیا۔ رویندر مہاترے کا قتل اور مقبول کی پھانسی سنہ 1984 میں برطانیہ میں بھارتی سفیرکو جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف) کی جانب سے اغوا کیا گیا اور ان کی رہائی کے بدلے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم جب ایسا ممکن نہ ہوسکا تو تنظیم کی جانب سے بھارتی سفارت کار کا قتل کر دیا گیا۔ جس کے بعد بھارتی حکومت نے راتوں رات مقبول کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ تہاڑ جیل کے سابق جیلر کے مطابق مقبول کو ان کی پھانسی سے چند گھنٹے قبل ہی آگاہ کیا گیا تاہم ان کو حالات کا اندازہ تھا اور وہ تمام عمل کے دوران پرسکون رہے۔  وہ گیارہ فروری کی صبح چار بجے اٹھ گئے، آخری بار نماز ادا کی، چائے پی اور پھانسی کے پھندے کی طرف چل پڑے۔  انہوں نے اپنی وصیت لکھوانے کی بجائے ریکارڈ کروائی تاہم بھارتی حکومت نے اس پیغام کو سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر آگے پہنچانے سے انکار کر دیا۔ ہاشم قریشی کے مطابق ’مقبول بٹ نے کہا کہ مجھے اس جرم کی سزا دی جارہی ہے جو میری جیل سے 7000 میل دور واقع ہوا اور جس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے‘۔  میت کی واپسی کی جدوجہد بھارتی حکومت نے پھانسی کے بعد مقبول بٹ کی میت کو واپس کرنے سے انکار کر دیا اور مقبول کی میت کو تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کر دیا گیا تھا۔  حال ہی میں یورپی یونین کشمیر کونسل کے چئیرمین علی رضا سید کی جانب سے مقبول بٹ اور افضل گورو کے اجساد خاکی حاصل کرنے کے لیے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا اعلان سامنے آیا تھا۔  یاد رہے کہ ایک اور کشمیری افضل گورو کو بھی بھارتی حکومت کی جانب سے 9 فروری 2013 کو سزائے موت دے کر ان کے اجساد خاکی کو ان کے اہلخانہ کی مرضی کے برخلاف بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں ہی دفن کردیا گیا تھا۔

’عمران خان کا خط کمیٹی کو بجھوا دیا، وہی اسے دیکھے گی‘ چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے ایک اہم بریفنگ میں آئی ایم ایف وفد سے ملاقات، عدلیہ کی آزادی، عدالتی اصلاحات، عمران خان اور شہباز شریف کے خطوط، سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری، اور پشاور ہائی کورٹ کے ججز کے تحفظات سمیت اہم معاملات پر گفتگو کی ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے انکشاف کیا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے 6 رکنی وفد سے ملاقات کی، جس میں عدلیہ کی آزادی، عدالتی اصلاحات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔   آئی ایم ایف وفد نے سوال کیا کہ اگر بیرونی سرمایہ کاری آتی ہے تو کیا وہ محفوظ ہوگی؟ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور ہمیں آپ کی مدد درکار ہوگی۔   وفد کو عدالتی ریفارمز اور نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے سے آگاہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے پراپرٹی رائٹس کے تحفظ سے متعلق اپنی تجاویز دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس پر اصلاحات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے اور ہمارا کام نہیں کہ ہم آئی ایم ایف کو ہر معاملے کی تفصیل دیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف وفد کو بتایا کہ عدلیہ کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کی ضرورت ہوگی تاکہ انصاف کی فراہمی مزید مؤثر بنائی جا سکے۔ ہائیکورٹس میں جلد سماعت کے لیے خصوصی بینچز بنانے کی تجویز بھی دی گئی۔ عمران خان اور شہباز شریف کے خطوط پر مؤقف چیف جسٹس نے تصدیق کی کہ انہیں سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف دونوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ عمران خان کا خط آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور اسے ججز پر مشتمل آئینی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ عمران خان نے اپنے خط کے ساتھ ایک یو ایس بی میں شواہد بھی فراہم کیے ہیں، جس کا جائزہ لیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے مختلف شخصیات کے خطوط موصول ہوتے ہیں، مگر ہر خط کا جواب دینا ممکن نہیں ہوتا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے خط پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وزیراعظم کو سلام کا پیغام بھجوایا، مگر خط کا جواب نہیں دیں گے۔ وزیراعظم کو کہا گیا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ آئیں تاکہ عدالتی اصلاحات پر بات ہو سکے۔ عدالتی اصلاحات اور ججز کے خدشات چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کے لیے ایجنڈا مانگا ہے۔ قائد حزب اختلاف سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، جو بڑی مشکل سے ممکن ہوا۔ ججز کو ہدایت دی گئی کہ سسٹم کو چلنے دیں اور کسی بھی وجہ سے اسے روکیں نہیں۔ میرے بھائی ججز جو کارپوریٹ کیسز سن رہے تھے، وہ آج کل کیسز نہیں سن رہے، یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ججز اور عدالتی بحران چیف جسٹس نے پشاور ہائی کورٹ میں ججز کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کل ججز بائیکاٹ نہ کرتے تو سنیارٹی میں دوسرے نمبر کے جج سپریم کورٹ آتے، نہ کہ چوتھے نمبر کے، پشاور ہائی کورٹ کے تمام ججز کو ایک ساتھ بلا کر بات کی تھی، تمام ججز نے کہا جو بھی سپریم کورٹ آئے، انہیں اعتراض نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اگر چوتھے نمبر کے جج کو ووٹ نہ دیتا تو وہ بھی سپریم کورٹ میں نہ آ سکتے، کل بائیکاٹ کرنے والے ججز کو کہا تھا کہ کچھ دیر انتظار کریں، 26 اکتوبر کو حلف لیا اور ہائی کورٹ کے چھ ججز کو اپنے گھر بلایا، ان کا خط اب ایجنڈا نمبر ون ہے، جیلوں میں جاتا ہوں تو لوگ مجھے قصوروار سمجھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا ہے آئندہ ہفتے سے دو مستقل بنچ صرف فوجداری مقدمات سنیں گے، ججز ہوں گے تو ہی بنچز بنا سکوں گا، سپریم کورٹ میں نئی تقرریاں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا نیا چیف جسٹس چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے لیے زیر غور آ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے گا۔

چیمپیئنز ٹرافی سے پہلے انگلینڈ ٹیم اہم کھلاڑی سے محروم ہوگئی

انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر جیکب بیتھل انجری کی وجہ سے چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہوگئے۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق انگلش کھلاڑی جوس بٹلر نے تصدیق کی ہے کہ بائیں ہاتھ کے بلے باز آل راؤنڈر جیکب بیتھل ہیمسٹرنگ انجری کا شکار ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہو گئے ہیں۔ جیکب بیتھل انگلینڈ کے نوجوان کھلاڑی ہیں جنہوں نے ستمبر 2024 میں اپنا ڈیبیو کیا ہے۔ انٹرنیشنل ڈیبیو کرنے کے بعد انہوں نے آج تک تین ٹیسٹ میچز، نو ون ڈے انٹرنیشنل اور دس ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل کھیلے ہیں۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز آل راؤنڈر انڈیا کے خلاف ناگپور میں کھیلے گئے سیریز کے پہلے میچ میں انجرڈ ہو گئے تھے۔ 21 سالہ بیتھل نے اس میچ میں شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے 51 رنز بنائے اور شریاس ائیر کی وکٹ بھی حاصل کی۔ انجری کے باعث بیتھل انڈیا کے خلاف 3 میچز پر مشتمل ون ڈے سیریز سے باہر ہوگئے تھے اور انگلینڈ نے ٹام بینٹن کو اتوار کو دوسرے ون ڈے سے قبل ٹیم میں شامل کیا تھا۔ واضح رہے کہ جیکب کی انجری کی صورتحال کے بارے میں ابھی تک انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔ چیمپئنز ٹرافی اسکواڈ میں تبدیلی کے لیے آخری تاریخ 12 فروری مقرر ہے۔  

پاکستان میں کرپشن کم ہوگئی، عالمی درجہ بندی میں بہتری

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2024 جاری کیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں کمی ہوئی ہے۔ کرپشن پرکھنے کے لیے استعمال ہونے والی درجہ بندی میں پاکستان کی پوزیشن گر کر 135 ہو گئی ہے، جو گزشتہ برس 2023 میں 129 تھی۔ پاکستان کا کرپشن پرسیپشن اسکور 27 ہو گیا ہے، جو کہ 2023 میں 29 تھا۔ یہ اسکور آٹھ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ 2023 میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس میں مجموعی اسکور 233 تھا، جو 2024 میں کم ہو کر 216 رہ گیا ہے۔ اسی طرح اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف قانونی کارروائی یا سزاؤں کا اسکور 21 پر برقرار ہے، یعنی اس شعبے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ کن شعبوں میں کرپشن بڑھی؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ملکی وسائل کے غلط استعمال کا انڈیکس 20 سے کم ہو کر 18 ہو گیا۔ کاروباری شعبے میں رشوت اور کرپٹ پریکٹسز کا اسکور 35 سے کم ہو کر 32 پر آ گیا۔ سیاسی نظام میں کرپشن کا انڈیکس 32 سے بڑھ کر 33 ہو گیا۔ حکومتی اداروں اور سرکاری ملازمین کی جواب دہی کمزور ہونے کی وجہ سے بااثر گروہوں کے ریاست پر قبضے کا انڈیکس 35 سے بڑھ کر 39 ہو گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق عوامی فنڈز کا غلط استعمال، یعنی مخصوص افراد یا کمپنیوں کو غیر شفاف طریقے سے فنڈز دینے کا انڈیکس 45 سے کم ہو کر 33 پر آ گیا۔ ایگزیکٹیو، عدلیہ، فوج اور قانون سازوں کی جانب سے ذاتی مفادات کے لیے سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا اسکور 25 سے بڑھ کر 26 ہو گیا۔ پبلک سیکٹر، ایگزیکٹیو، عدلیہ اور لیجسلیٹو کرپشن کا اسکور 20 سے کم ہو کر 14 ہو گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اداروں میں کرپشن مزید بڑھ گئی ہے۔  کرپشن کرنے والے ممالک میں ڈنمارک ملک سب سے آگے ہیں۔ دیگر سرفہرست ممالک میں فن لینڈ دوسرے نمبر پر، سنگاپور تیسرے نمبر پر، امریکا تنزلی کے بعد 28 ویں نمبر پر چلا گیا، بھارت 96 ویں نمبر پر، ترکیہ 107 ویں نمبر پر، بنگلہ دیش 151 ویں نمبر پر اور افغانستان 165ویں نمبر پر موجود ہے۔

ترک صدر اردوان دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی دعوت پر ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کا دو روزہ دورہ کر رہے ہیں۔ رجب طیب اردوان اپنے دورے کے دوران پاکستانی ہم منصب آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور عسکری قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ دفتر خارجہ پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق ترک صدر کے ساتھ ترکیہ کے اعلیٰ حکام بھی ہوں گے۔ ترک صدراردوان پاکستان میں اعلی سطح کی اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کے اجلاس کی مشترکہ سربراہی کریں گے۔ اس دوران دو طرفہ تعلقات کے قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانے کے لیے معاہدوں پر دستخط بھی متوقع ہیں اور صدر اردوان میزبان ممالک کے کاروباری رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (HLSCC) فیصلہ سازی کا اعلیٰ ترین فورم ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اسٹریٹجک سمت فراہم کرتا ہے۔  ایچ ایل سی سی کے تحت متعدد مشترکہ قائمہ کمیٹیاں (JSCs) ہیں، جن میں تجارت، سرمایہ کاری، بینکنگ، فنانس، ثقافت، سیاحت، توانائی، دفاع، زراعت، ٹرانسپورٹ، مواصلات، آئی ٹی، صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور تعلیم جیسے شعبے شامل ہیں۔  اب تک ایچ ایل ایس سی سی کے چھ اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ آخری اجلاس 13-14 فروری 2020 کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکیہ تاریخی برادرانہ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ترک صدر کا دورہ اور ایچ ایل سی سی  کے 7ویں اجلاس کا انعقاد دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے اور کثیر جہتی تعاون کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس سے قبل ترکیہ کے کمیونیکیشنز کے ڈائریکٹر فریہتین آلتن نے ایک بیان میں بتایا کہ صدر رجب طیب اردوان دورہ کے موقع پر دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال کریں گے اور اہم منصوبوں کے ذریعے تعاون کے فروغ کے لیے مشترکہ اقدامات کے مواقع تلاش کیے جائیں گے۔

“وزیر اعلیٰ کے پی نے مجھ پر ذاتی حملہ کروایا” مریم نواز

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جشن اسٹیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 11 سو بچوں کو اپنی طرف سے لیپ ٹاپس دوں گی۔ آپ بچوں میں بہت صلاحیت ہے، تھوڑی سی توجہ سے آپ پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں”۔ لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “سرکاری اسکولوں کے بچوں کی تھوڑی سی توجہ مثبت اثرات پیدا کرتی ہے۔ وزیر تعلیم رانا سکندر بہت محنت کر رہے ہیں اور تعلیم کیلیے بہت کام کر رہے ہیں۔ جشن سٹیم میں پنجاب بھر سے 1100 طلبہ نے حصہ لیا۔ میں نے طلبہ کے تمام سٹالز کا ذاتی طور پر معائنہ کیا، بہت خوشی محسوس ہوئی۔ بچوں، مجھے آپ پر بہت فخر ہے۔ آپ سب بچوں کو مبارک ہو، آپ کی فیملی اور والدین کو بھی مبارک ہو”۔ وزیر اعلیٰ پنجاب  نے کہا کہ” وزیر اعلیٰ کے پی نے مجھ پر ذاتی حملہ کروایا۔ خیبر پختونخوا کے طلبہ ابھی بھی مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ “بچوں سے پوچھا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں۔ پورے دل سے کوشش کروں گی کہ بچوں کے خواب پورے ہوں۔ جتنے بھی وسائل ہیں کوشش کروں گی کہ تمام وسائل آپ بچوں پر نچھاور کروں۔ وزارت اعلیٰ کے پاس موجود تمام وسائل بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے استعمال کروں گی”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “میرا وعدہ ہے کہ ہر روز بچوں کے لیے کام کروں گی۔ آئی ٹی لیبس اپ گریڈ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ سائنس لیبس کو بھی اپ گریڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رانا سکندر کو کہا ہے کہ بچوں کے لیے انگلش کی کلاسز شروع کی جائیں۔ ہونہار اسکالر شپ کی رقم بڑھا کر 50 ہزار روپے کردی گئی ہے”۔ انہوں نے کہا کہ “میرے ساتھ بچوں کا پیار بعض لوگوں کو برداشت نہیں ہوتا۔ بچے مجھ سے جب محبت کا اظہار کرتے ہیں تو لوگوں کو لگتا ہے کہ سب پہلے سے ترتیب دیا ہوا ہے۔ ہر وہ تنقید جو آپ کو بری لگتی ہے وہ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ بچوں، میں چاہتی ہوں لیپ ٹاپس کو تعمیری کام کے لیے استعمال کریں”۔

21 توپوں کی سلامی کا راز! علامتِ امن یا رعب کا اظہار

ملک خداد پاکستان میں یوم آزادی اور دیگر اہم ریاستی و حکومتی سرکاری دنوں کے موقع پر 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہوتا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین، بھارت اور کینیڈا سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اہم ریاستی و حکومتی دنوں کے آغاز پر 21 توپوں کی سلامی ضرور دی جاتی ہے۔ لیکن آخر سلامی کے لیے 21 توپیں ہیں کیوں، یہ 20 یا 22 بھی ہوسکتی تھیں، یا ان کی تعداد ایک درجن تک بھی محدود ہوسکتی تھی؟ اُس وقت توپوں کو چلانے کا کام نہ صرف فوجیں کرتی تھیں، بلکہ عام اور بیوپاری افراد بھی توپیں چلایا کرتے تھے۔ توپوں کو چلانے کی تاریخ پہلے پہل قرون وسطیٰ کے زمانے میں اُس وقت ہوئی، جب دنیا میں جنگیں یا ایک دوسرے سے لڑنا معمول تھا۔ قریباً 14 ویں صدی میں پہلی بار توپوں کو چلانے کی روایت اُس وقت شروع ہوئی، جب کوئی فوج بحری راستے کے ذریعے دوسرے ملک جاتی تو ساحل پر پہنچتے ہی توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیتی کہ ان کا مقصد لڑنا یا جنگ کرنا نہیں۔ افواج کی اس روایت کو دیکھتے ہوئے اُس وقت کے بیوپاری اور کاروباری افراد نے بھی ایک سے دوسرے ملک سفر کرنے کے دوران توپوں کو چلانے کا کام شروع کیا۔ روایات کے مطابق جب بھی کوئی بیوپاری کسی دوسرے ملک پہنچتا یا کوئی فوج کسی دوسرے ملک کے ساحل سمندر پہنچتی تو توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیا جاتا کہ وہ لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یہ فائر امن کا پیغام ہیں چودہویں صدی تک فوج اور بیوپاریوں کی جانب سے 7 توپوں کے فائر کیے جاتے تھے اور اس کا بھی کوئی واضح سبب موجود نہیں کہ آخر 7 فائر ہی کیوں کیے جاتے تھے۔ غیر مستند تاریخ اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے دنیا میں ترقی ہوتی گئی اور بڑے بحری جہاز بنتے گئے، ویسے ہی توپوں کے فائر کرنے کی تعداد بھی بڑھتی گئی، جو 21 تک آ پہنچی۔ برطانوی فوج نے پہلی بار 1730 میں توپوں کو شاہی خاندان کے اعزاز کے لیے چلایا اور ممکنہ طور پر اسی واقعے کے بعد دنیا بھر میں سلامی اور سرکاری خوشی منانے کے لیے 21 توپوں کی سلامی کا رواج پڑا۔ جلد ہی 21 توپوں کی سلامی نے اہمیت اختیار کرلی اور برطانوی فوج نے 18 ویں صدی کے آغاز تک برطانوی شاہی خاندان کی عزت افزائی، فوج کے اعلیٰ سربراہان اور اہم سرکاری دنوں پر توپوں کی سلامی کو لازمی قرار دیا۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے یوم آزادی، اہم ریاستی و حکومتی دنوں پر توپوں کے فائر کرتے ہیں، جب کہ تمام ممالک ریاست اور حکومت کے سربراہ کی شان سمیت دیگر ریاستوں اور ممالک کے مہمانوں کو عزت دینے کے طور پر بھی 21 توپوں کی سلامی دیتے ہیں۔ پاکستان بھی اپنے یوم آزادی کا آغاز 21 توپوں کی سلامی سے کرتا ہے، لیکن ملک میں اس دن کے علاوہ بھی توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔