بارشوں کی کمی: کیا خشک سالی کو دعوت دے رہی ہے؟

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں موسم کے غیر معمولی رجحانات تشویشناک صورت اختیار کر چکے ہیں، جس سے ملک بھر میں خشک سالی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق، یکم ستمبر سے 15 جنوری 2024 تک ملک میں معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بارشوں کی کمی نے زراعت اور پانی کے ذخائر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پوٹھوہار اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقے ہلکی خشک سالی کا شکار ہو گئے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشوں کی کمی نہ صرف زراعت بلکہ پانی کی روزمرہ ضروریات پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے جس سے کسانوں کی معیشت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ چیف میٹرولوجسٹ علیم الحسن نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوری طور پر بارشیں نہ ہوئیں تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی کوئی بڑی پیشگوئی نہیں کی ہے جس سے خشک سالی کے اثرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
کراچی کے ’نیشنل اسٹیڈیم‘ کا افتتاح

نئے تعمیر ہونے والے نیشنل اسٹیڈیم کراچی کا افتتاح آج کیا جائے گا۔ افتتاحی تقریب میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری بھی شرکت کریں گے۔ اس کے علاوہ ملک کے نامور گلوگار علی ظفر، شفقت امانت علی اور ساحر علی بگا تقریب میں اپنی آواز کا جادو جگائیں گے۔ اس کے علاوہ تقریب میں لائٹس اور آتش بازی کا بہترین مظاہرہ کیا جائے گا۔ افتتاحی تقریب میں شائقین کا داخلہ مفت ہوگا۔ نئے ڈیزائن میں مرکزی اسٹیڈیم کے سامنےایک نئے عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ نئے اسٹیڈیم میں کھلاڑیوں کے لیے وی آئی پی باکس، ایک گیلری، میڈیا باکسز اور فیملی باکسز بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ مزید برآں، دو ڈریسنگ روم اس نئی عمارت میں منتقل کیے گئے ہیں۔ میچ کا بہترین ویو حاصل کرنے کے لیے ان شائقین کے آگے جنگلے ختم کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہاسپٹلٹی باکسز کی تزئین و آرائش کی گئی ہے اور پیڈسٹرین برج بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اسٹیڈیم میں شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش 34،238 ہے۔ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ لاہور کی طرح کراچی میں بھی اسٹیدیم کی تعمیر کا کام کرنے والے مزدروں کے اعزاز میں آج ظہرانہ دیا جائے گا۔ ظہرانے میں تقریباً تین ہزار سے زائد مزدور مدعو ہیں۔ مزدورں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “ہم دن رات محنت کرکے اسٹیڈیم کی تعمیر کا کام مکمل کیا ہے۔ آج ہماری محنت رنگ لائی ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ “پڑوسی ملک میں کہا جارہا تھا پاکستان کے اسٹیڈیم نامکمل ہیں۔ ہم نے پاکستان کا تاثر دنیا بھر میں بہتر بنایا ہے۔ اسٹیدیم کی جلد تعمیرات مکمل کرنے پر انتظامیہ کے بھی شکر گزار ہیں”۔ یاد رہے نئے تعمیر ہونے والے اسٹیڈیم میں پہلا میچ کل پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقا کھیلا جائے گا۔ اس کے علاوہ 19 فروری سے شروع ہونے والے میگا ایونٹ چیمپیئنز ٹرافی کے میچیز بھی یہیں کھیلے جائیں گے۔
دولت سمیٹنے کی دوڑ، ایلن مسک اور آلٹ مین آمنے سامنے

ایلن مسک کی زیر قیادت سرمایہ کاروں کے ایک کنسورشیم نے چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کو خریدنے کے لیے 97.4 ارب ڈالر کی پیشکش کی ہے جبکہ اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹ نے ایلن مسک سے ’ایکس‘ خریدنے کی پیش کش کردی۔ یہ پیش کش اوپن اے آئی کے بانیوں اور دنیا کے امیر ترین شخص کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کی ایک تازہ ترین جھلک ہے جو اب اربوں ڈالر کی لڑائی میں بدل چکا ہے ۔ ایلن مسک کے وکیل مارک ٹوبروف نے اس پیش کش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیش کش کمپنی کے ‘تمام اثاثہ جات’ کے لیے دی گئی تھی۔ گزشتہ روز یہ باضابطہ طور پر اوپن اے آئی کے بورڈ کے سامنے پیش کی گئی۔ ایلن مسک اس پیش کش کے ذریعے اوپن اے آئی کے مستقبل کی حکمت عملی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹ مین نے اس پیش کش پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک دلچسپ پوسٹ کی۔ آلٹ مین نے ایلن مسک کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ان سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ ایکس (سابقہ ٹویٹر) کو 9.74 بلین ڈالر میں خرید سکتے ہیں۔ اس بیان سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلقات میں شدت آ چکی ہے۔ یہ سب 2015 میں شروع ہوا تھا جب ایلن مسک اور سیم آلٹ مین نے مل کر اوپن اے آئی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ تھا، جس کا مقصد انسانیت کے فائدے کے لیے مصنوعی ذہانت کی ترقی تھا۔ 2018 میں ٹیسلا اور ایکس باس سے تعلقات کے خاتمے کے بعد دونوں کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے۔ آلٹ مین نے کمپنی کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے دوبارہ کوشش کی۔ مسک کا کہنا تھا کہ اوپن اے آئی اب ایک کاروباری ادارہ بن چکا ہے جو انسانیت کے فائدے کے بجائے صرف مالی فائدے پر مرکوز ہے اور آلٹ مین کا کہنا تھا کہ کمپنی کے بہترین مصنوعی ذہانت کے ماڈل تیار کرنے کے لیے منافع بخش ادارہ میں تبدیلی ضروری تھی۔ اوپن اے آئی کی تازہ ترین فنڈنگ راؤنڈ میں کمپنی کی مالیت 157 بلین ڈالر تک پہنچی تھی۔ لیکن مسک کے کنسورشیم کی طرف سے 97.4 ارب ڈالر کی پیش کش کے باوجود کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت کمپنی کی حقیقی قیمت 300 بلین ڈالر کے قریب ہو سکتی ہے۔ مسک نے اس بات پر زور دیا کہ اوپن اے آئی کو ایک اوپن سورس اور سیفٹی فوکسڈ فورس میں واپس آنا چاہیے جو اس کے بانیوں نے تشکیل دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد کمپنی کو اس کی اصل حکمت عملی کی طرف واپس لے جانا ہے تاکہ انسانیت کی بھلا ئی کے لیے مصنوعی ذہانت کی ترقی ہو۔ اس موقع پر اوپن اے آئی کو مسک کی اے آئی کمپنی ‘ایکس اے آئی’ سمیت دیگر نجی ایکویٹی فرموں کی حمایت حاصل ہے۔ جن میں بیرن کیپٹل گروپ اور ویلر مینجمنٹ شامل ہیں۔ دریں اثنا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسٹار گیٹ پروجیکٹ کے نام سے ایک نیا منصوبہ متعارف کرایا ہے۔ جس کا مقصد امریکا میں مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنا ہے۔ ٹرمپ نے اس منصوبے کو ‘تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر منصوبہ’ قرار دیا ہے اور اس کا دعویٰ کیا ہے کہ یہ امریکا کو ‘ٹیکنالوجی کے مستقبل’ میں مضبوط رکھے گا۔ اگرچہ مسک اور ٹرمپ دونوں کے درمیان قریبی تعلقات ہیں، مگر مسک نے اس منصوبے پر سوال اٹھایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس میں اتنی رقم نہیں ہے جتنی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ تمام واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک نیا جنگل قائم ہو چکا ہے جہاں مالی طاقت اور اثر و رسوخ کی لڑائی جاری ہے۔ اوپن اے آئی کے مستقبل کا فیصلہ صرف اس کی داخلی حکمت عملی سے نہیں بلکہ ان اربوں ڈالر کی پیشکش سے بھی ہوگا جو اس کی ملکیت کے لیے لڑی جا رہی ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ٹیکنالوجی کے مستقبل کا تعین ہوگا اور شاید انسانیت کے لیے بھی ایک نیا دور شروع ہو گا۔
پاکستان کا اقوامِ متحدہ میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان سے ٹی ٹی پی مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کے خطرات کے خلاف عالمی اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے ملک کے اندر داعش کی بھرتی کا الزام بھی سختی سے مسترد کیا۔ منیر اکرم نے بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہ داعش کا خطرہ خطے سے آگے تک پھیل چکا ہے، داعش کے خطرے کا ذکر تو ہے مگر پاکستان کو لاحق خطرات کا ذکر کیوں نہیں۔ پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے انسداددہشت گردی حکمت عملی پر بہتر عمل کیلئے جنرل اسمبلی کو ذیلی ادارہ بنانے کی تجویز بھی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ “افغانستان میں دو درجن سے زائد دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں، افغانستان داعش کی بھرتی اور سہولت کاری کامرکز ہے، داعش کے خطرے کی ہرطرف بات کی جارہی ہے”۔ پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ”ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ سے پاکستان کو لاحق خطرات کا کوئی ذکر نہیں ہورہا، پاکستان عالمی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں صف اول میں رہا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت چکائی ہے، ہم نے 80ہزارجانیں گنوائیں، معیشت کوشدیدنقصان پہنچا”۔
امریکا کی غزہ کو’جہنم بنانے‘ کی دھمکی، قیدی رہا نہ کیے گئے تو جنگ بندی ختم کرنے کا کہوں گا: ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ” اگر ہفتے تک تمام اسرائیلی اپنے گھروں کو نہ پہنچے تو ہمیں جنگ بندی کا معاہدہ ختم کر دینا چاہیے”۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے ہفتے تک تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کرنے کی صورت میں جنگ بندی ختم کرنے اور غزہ کو جہنم بنانے کی دھمکی دی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا کہ”اگر اردن اور مصر غزہ کے لوگوں کو اپنے ملک میں آنے نہیں دیں گے تو ان کی امداد بند کرنا ہوگی”۔ پیر کے روز اوول آگس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ”جہاں تک میرا تعلق ہے، اگر تمام قیدیوں کو ہفتے کی دوپہر 12 بجے تک واپس نہیں کیا جاتا، تو میرے خیال میں یہی مناسب وقت ہوگا کہ فائر بندی منسوخ کر دی جائے اور سب کچھ ختم ہو جائے۔ میں کہوں گا کہ انہیں ہفتے کے روز دوپہر 12 بجے تک واپس آ جانا چاہیئے”۔ انہوں نے فلسطینی حکران جماعت حماس کی جانب سے رہا کیے گئے تین قیدیوں کی صحت اور اس اعلان پر مایوسی کا اظہار کیا کہ فلسطینی گروپ مزید قیدیوں کو رہا نہیں کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ “وہ چاہتے ہیں کہ تمام قیدیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے، نہ کہ تھوڑے تھوڑے کر کے۔ ہم سب کی واپسی چاہتے ہیں”۔ عالمی میڈیا کے ایک انٹرویو کے دوران جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ کیا غزہ کے لوگ جنگ مصر جانے کے بعد واپس اپنے وطن آ سکیں گے۔ اس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ”نہیں، وہ واپس نہیں آئیں گے بلکہ وہ غزہ سے بہتر رہائش تلاش کر لیں گے”۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے رہا کیے جانے والے اسرائیلی شہریوں کی صحت پر تشویش ہے۔ اقوام متحدہ نے فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور حماس کو جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے”۔ اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے پریس بریفنگ کرتے ہوئے کہا کہ “ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دونوں فریقین جنگ بندی کے اصولوں کے تحت اپنے بیان کردہ معاہدوں کی پاسداری کریں اور یہ اہم ہے کہ وہ معاہدوں کے تمام متعلقہ پہلوؤں کو برقرار رکھیں”۔‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا فلسطینی حکران جماعت حماس کا پیر کے روز سامنے آنے والا بیان جنگ بندی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ جنگ بندی میں کسی بھی طرح کی تاخیر‘ ایک ’مسئلہ‘ ہے اور حالات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ امن کی جانب جو عمل چل پڑا تھا اُس میں کوئی تاخیر نہ ہو، کوئی تعطل نہ ہو اور معاہدے پر عمل درآمد پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو۔‘ فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے سربراہ ابو عبیدہ نے کہا کہ “حماس معاہدے کی شرائط پر تب تک وابستگی کا اعادہ کرتی ہے جب تک کہ صہیونی غاصبانہ تسلط بھی ان کی پاسداری کرتا رہے گا۔ حماس نے اپنی تمام ذمہ داریاں مقررہ وقت پر پوری کی ہیں۔ قابض حکومت معاہدے کی شرائط کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے اور متعدد خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے”۔ غزہ میڈیا آفس کے مطابق جنگ بندی معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے 12 ہزار امداد کے ٹرک دیے جائیں گے۔ لیکن ابھی تک صرف 8 ہزار پانچ سو ٹرک دیے گئے ہیں۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ ہر دن 50 فیول ٹرک دیے جائیں گے لیکن صرف 15 فیول ٹرک دیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 60 ہزار موبائل گھر اور دو لاکھ ٹینٹس بنانا طے پایا تھا لیکن ابھی تک ایک بھی موبائل گھر تعمیر نہیں کیا گیا ہے جبکہ صرف 20 ہزار ٹینٹس دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی غزہ میں بے گھر افراد کی واپسی میں تاخیر، ہمارے لوگوں کو بم دھماکوں اور گولیوں سے نشانہ بنانا، غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں بہت سے لوگوں کو ہلاک کرنا۔ ضروری پناہ گاہوں کے سامان کے داخلے میں رکاوٹ ڈالنا، بشمول خیمے، پہلے سے تیار شدہ گھر، ایندھن، اور ملبہ ہٹانے کا سامان جو لاشیں نکالنے کے لیے درکار ہیں۔ ہسپتالوں کے لیے ادویات اور ضروری سامان کے ساتھ ساتھ ہسپتال اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کی مرمت کے لیے درکار سامان کے داخلے میں تاخیر۔ فلسطینی حکمران جماعت حماس نے اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی ہے اور معاہدے میں ثالث ممالک کو مسلسل اپ ڈیٹس فراہم کی ہیں، اس کے باوجود قابض اپنی خلاف ورزیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ “حماس معاہدے پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ قیدیوں کی رہائی کو ملتوی کرنا قبضے کے لیے ایک انتباہی پیغام ہے اور اس پر معاہدے کی مکمل تعمیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ”حماس نے جان بوجھ کر اس فیصلے کا اعلان طے شدہ قیدیوں کی رہائی سے پانچ دن پہلے کیا ہے تاکہ ثالثوں کو کافی وقت دیا جائے کہ وہ قابض کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکیں اور اگر قابض کی تعمیل ہو تو تبادلے کے لیے منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھنے کا دروازہ کھلا رکھا جائے”۔ فلسطینی حکمران جماعت حماس کے حکام سمی ابو ظہری نے آج کہا ہے کہ” اسرائیلی یرغمالی اسی صورت میں اپنے گھروں کو پہنچ سکتے ہیں اگر غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر پورا اترا جائے گا۔ انہوں نے ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیانِ جس میں انہوں نے غزہ کو جہنم بنانے کا کہا ہے، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ٹرمپ کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ جو معاہدہ ہوا ہے، دونوں فریقین کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے”۔ امریکی صدر کے بیان
گوئٹے مالا میں بس حادثہ: تین روزہ سوگ کا اعلان

گوئٹے مالا سٹی میں پیر کی صبح ایک بس ہائی وے کے پل سے آلودہ کھائی میں جا گری۔ شہر کے فائر ڈپارٹمنٹ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بس ہائی وے کے پل سے گری جس سے کم از کم 51 افراد ہلاک اور بچ جانے والے افراد پھنس گئے۔ مسافروں سے بھری ہوئی بس سان آگسٹن اکاساگوسٹلان شہر سے دارالحکومت کی طرف سفر کر رہی تھی جب یہ سڑک کے اوپر سے گزرنے والے ہائی وے پل پیونٹے بیلیس سے تقریباً 20 میٹر کے فاصلے پر گر گئی۔ ترجمان کارلوس ہرنینڈز نے بتایا کہ 36 مردوں اور 15 خواتین کی لاشیں حادثے کے لیے قائم صوبائی مردہ خانے میں بھیج دی گئی ہیں۔ فائر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ بس جزوی طور پر گندے پانی میں ڈوبی ہوئی ہے جس کے ارد گرد متاثرین کی لاشیں ہیں۔ گوئٹے مالا کے صدر برنارڈو اریالو نے تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا اور ملک کی فوج اور ہنگامی آفات کی ایجنسی کو جوابی کوششوں میں مدد کے لیے تعینات کر دیا ہے۔ اریالو نے سوشل میڈیا پر کہا، “میں متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہوں جو آج دل دہلا دینے والی خبر سے بیدار ہوئے۔ ان کا درد میرا درد ہے”۔
تہذیب کے رنگ بکھیرتا ’کراچی ادبی میلہ‘

کراچی میں سولہواں ادبی میلہ سات سے نو فروری کو سجایا گیا۔ ادب، ثقافت، تہذیب، معیشت، فن اور موسیقی کو اپنے اندر سموئے یہ میلہ لوگوں کو تین دن جاری رہا۔ میلے میں پاکستان سمیت دنیا کے مایہ ناز لکھاری اور فنونِ لطیفہ میں مہارت رکھنے والے شامل ہوئے۔ افتتاحی تقریب میں امریکا، برطانیہ اور فرانس کے سفارتی نمائندوں نے شرکت کی، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے ثقافتی تنوع اور قدیم تاریخ اپنے اندر بھرپور کشش رکھتی ہے۔ اس ادبی میلے میں جہاں کتابیں ہیں، آرٹ کی نمائش ہے، وہیں معیشت، سیاست اور سفارت کاری جیسے موضوعات پہ بھی گفتگو ہو رہی ہے۔ میلے میں موسیقی اور رقص نے بھی اپنے رنگ یوں بکھیرے کہ شائقین جھوم اٹھے، ادبی میلے میں بین الاقوامی مندوبین بھی مختلف سیشنز میں موجود تھے۔ کراچی ادبی میلے میں ایک گوشہ لنکن کارنر کے نام سے بھی مختص کیا گیا، جہاں بچوں، نوجوانوں اور خواتین کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ مختلف سرگرمیاں ہوئیں، جہاں شرکا کھیلوں، کتابوں اور تعلیمی معلومات سے مستفید ہوئے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت کیوں ضروری ہے؟

اس وقت پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی جنگ چل رہی ہے، ہر ملک کی خواہش ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنا لوہا منوائے، یہی وجہ ہے کہ امریکا کہ چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی تول بنانے کے محض ایک سال بعد ہی چائنہ نے امریکا کی نسبت کئی گنا سستا اور معیاری ڈیپ سیک بنا کر عالمی دنیا میں اپنی برتری ظاہر کر دی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے بغیر کسی ملک کی ترقی کا تصور ممکن نہیں، جس کی وجہ سے ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا خواتین کو اس شعبے میں مردوں کے مساوی مواقع حاصل ہیں؟ عالمی سطح پر تو خواتین سائنسدانوں نے بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنا لوہا منوا چکی ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ شعبہ اب بھی مردوں کا غلبہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین ہر میدان میں کافی پیچھے ہیں، جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ہونا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کاکردار ماضی میں بھی رہا ہے، کئی خواتین سائنسدانوں نے کامیابیاں سمیٹیں اور دنیا کو بتا دیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں، جن میں ماری کیوری، روزالینڈ فرینکلن اور ایڈا لاولیس سرِفہرست ہیں، مگر کیا آج کے جدید دور میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کے پاس بنیادی حقوق ہیں؟ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں سائنسی تحقیق میں کام کرنے والے افراد میں صرف 30 فیصد خواتین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کے لیے حالات بہتر ہو رہے ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک خاص کر پاکستان جیسے ملک میں خواتین کی بنیادی تعلیم میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد میڈیکل اور بائیولوجیکل سائنسز میں دلچسپی رکھتی ہے، لیکن انجینئرنگ، فزکس اور دیگر سائنسی شعبوں میں ان کی نمائندگی کم ہے۔ بہت سی نوجوان پاکستانی خواتین سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں، لیکن انہیں عملی میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی زیادہ شمولیت سے نہ صرف معیشت بہتر ہو سکتی ہے، بلکہ صحت، ماحولیات اور دیگر شعبوں میں بھی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی ایکسپرٹ رابعہ وقار نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے آئی ٹی فری لانسنگ، ایس ٹی ای ایم اسکالرشپس، حکومتی و نجی انیشیٹوز، ٹیک ہبز اور انکیوبیٹرز جیسے مواقع موجود ہیں۔ مگر خواتین کی راہ میں سماجی رویے میں تبدیلی، صنفی تعصب، محدود لیڈرشپ مواقع اور فیلڈ ورک میں مشکلات جیسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ آئی ٹی ماہر پروفیسر عائشہ جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہےکہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں خواتین کی شمولیت انتہائی ضروری ہے۔ حکومت نئے ٹیکنالوجی پارکس اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے خواتین کو شامل کر رہی ہے تاکہ وہ ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان میں سائنس کے شعبے میں خواتین کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، بہت سے والدین سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے کیریئر کو غیر روایتی سمجھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں بچیوں کو سائنسی تعلیم کے کم مواقع ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو تحقیق کے مواقع کم ملتے ہیں۔ رابعہ وقار نے کہا ہے کہ سائنسی میدان میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجوہات میں ثقافتی دباؤ، معاشرے میں کم رول ماڈلز کا ہونا، ایس ٹی ای ایم تعلیم میں کم شمولیت، ورک لائف بیلنس جیسی مشکلات کا ہونا ہے۔ رابعہ وقار کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اسکول لیول پر ایس ٹی ای ایم کی ترویج کی جائے، خواتین سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی، جینڈر انکلوژن پالیسیز اور فلیکسیبل ورک ماڈلز اپنائے جائیں۔ پروفیسر عائشہ جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم، صحت اور جدید معیشت میں شرکت کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت بھی اہم ہے، کیونکہ زیادہ تر تعلیمی ادارے نجی شعبے کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ رابعہ وقار نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حکومت اور نجی ادارے خواتین کو سائنسی تحقیق اور جدت کی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ حد تک مناسب اقدامات کر رہے ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکیوں کے لیے سائنسی تعلیم کے مواقع کو بڑھایا جائے، خواتین کے لیے خصوصی تحقیقی پروگرام متعارف کرائے جائیں، خواتین کو سٹارٹ اپس اور انٹرپرینیورشپ میں شامل ہونے کے لیے سپورٹ دی جائے، مزید یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کے لیے مزید اسکالرشپس اور خصوصی وظائف متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ تحقیق میں آگے بڑھ سکیں۔ باقی دنیا کی طرح پاکستان نے بھی متعدد سائنسدان خواتین پیدا کی ہیں، جنھوں نے عالمی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے، ان میں سب سے پہلا نام فیصل آباد کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی ارفع عبدالکریم رندھاوا کا آتا ہے، جس نے محض 14 برس کی عمر میں سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ دوسرا نام ڈاکٹر نرگس ماولوالا کا آتا ہے، جنھوں نے طبیعیات کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا ئی ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون تھیوریٹیکل فزسسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پروفیسر عائشہ جاوید نے کہا ہے کہ پاکستان میں 43 آئی ٹی پارکس میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نئے پروگرامز کے ذریعے خواتین کو فری لانسنگ اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ میں تربیت دی جا رہی ہے۔ رابعہ وقار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خواتین سائنسدانوں کے لیے ریسرچ فنڈنگ، لیڈرشپ مواقع اور عملی تربیت کے پروگرامز متعارف کرانے چاہئیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب خواتین کی مثالیں دکھا کر حوصلہ افزائی کی جا ئے، تاکہ پاکستان بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کا مقابلہ کرے۔ آئی ٹی ایکسپرٹ عائشہ جاوید نے بتایا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین کی کامیابیوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے، لیکن مزید