کپتان، نائب کپتان کی شاندار شراکت، پاکستان فائنل میں پہنچ گیا

کپتان اور نائب کپتان کی شاندار شراکت سے پاکستان فائنل میں پہنچ گیا، پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان سہ فریقی سیریز کا تیسرا میچ کھیلا گیا، پروٹیز نے شاہینوں کو جیت کے لیے 353 رنز کا ہدف دیا، جسے شاہینوں نے 49 اوورز میں با آسانی حاصل کر لیا۔ پاکستان نے پروٹیز سے 6 وکٹوں سے جیت حاصل کر لی۔ سہ ملکی کرکٹ سیریز کا تیسرا میچ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا، جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 50 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 352 رنز بنائے، پاکستان نے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 49 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 353 کی بجائے 355 رنز بنا کر شاندار فتح حاصل کر لی۔ پاکستان کا ایک روزہ کرکٹ میں ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے اب تک کا سب سے بڑا اسکور ہے۔ پاکستان کی جانب سے ہدف کا تعاقب کرنے کے لیے فخر زمان اور بابراعظم کریز پر آئے، دونوں اوپننگ بلے بازوں نے 57 رنز کی شراکت داری، بابراعظم زیادہ کریز پر نہ ٹک سکے اور 23 اسکور بنا کر پویلین لوٹ گئے، اس کے بعد سعود شکیل نے کریز پر قدم رکھا اور وہ بھی نہ ٹہر سکے اور آؤٹ ہوگئے اور پھر پیچھے فخر زمان بھی 28 گیندوں پر 41 اسکور بنا کر چلتے بنے۔ فخر زمان کے جانے کے بعد ٹیم کی کمان کپتان اور نائب کپتان نے تھامی اور اپنے فرض کو بخوبی نبھایا، دونوں کھلاڑیوں نے ذمہ دارانہ اننگز کھیلتے ہوئے سینچریاں بنائیں اور ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا، لیکن بد قسمتی سے سلمان علی آغا اختتام تک نہ ٹہر سکے اور 3 رن قبل آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان کے کپتان محمد رضوان نے 128 بالوں پر 122 بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے، جب کہ نائب کپتان سلمان علی آغا نے جارحانہ اننگ کھیلتے ہوئے 103 بالوں پر 134 رنز بنائے۔ پروٹیز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور شاہینوں کو 353 رنز کا ہدف دے دیا، کپتان ٹیمبا بووما اور ٹونی ڈی زورزی نے اننگ کا بہترین آغاز کیا اور 50 رنز کی شراکت داری کی، مگر ٹونی ڈی زورزی زیادہ دیر گریز پر ٹک نہ سکے اور پاکستان کے فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی نے اسے محض 22 رنز پر چلتا کیا۔ ٹونی ڈی زورزی کے پویلین لوٹ کر جانے کے بعد میتھیو بریٹزکے گریز پر آئے، ٹیمبا بووما اور میتھیو نے شاندار باری کھیلتے ہوئے ٹیم کا مجموعی اسکور 170 پر پہنچا دیا، جس کے بعد کپتان بووما رن آؤٹ کر دیے گئے۔ پروٹیز کی جانب سے شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کیا گیا، کپتان ٹیمبا بووما نے 82، میتھیو نے 83، جب کہ کلاسن نے 87 رنز بنائے اور پہاڑ جیسا ہدف دے دیا۔ اس کے علاوہ کائل ویرین 44 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ لوٹ گئے۔ پروٹیز کے خلاف پاکستانی باؤلرز خاص کمال نہ کر سکے اور یکے بعد دیگے پٹتے چلے گئے ہیں، شاہین شاہ آفریدی نے 2، جب کہ نسیم شاہ اور ابرار احمد نے 1،1 وکٹ حاصل کی۔ واضح رہے کہ  پاکستان اور جنوبی افریقا  کے آج ہونے والے میچ میں جو بھی جیتے گا، وہ فائنل میں نیوزی لینڈ سے ٹکرائے گا۔ شاہینوں اور پروٹیز کے لیے یہ میچ ‘ڈو آر ڈائی’ کی حیثیت رکھتا ہے۔دونوں ٹیموں کے لئے یہ میچ سیمی فائنل کی اہمیت اختیار کر چکا ہے،ہارنے والی ٹیم فائنل میں جگہ نہیں بنا سکے گی۔ پاکستان نے جنوبی افریقا کے خلاف اپنی پلیئنگ الیون میں دو تبدیلیاں کی ہیں، زخمی ہونے والے باؤلر حارث رؤف کی جگہ فاسٹ باؤلر محمد حسنین کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے، جب کہ بیٹسمین کامران غلام کی جگہ سعود شکیل کو پلیئنگ الیون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پاکستانی پلیئنگ الیون میں کپتان محمد رضوان ، بابر اعظم ،نائب کپتان سلمان علی آغا ، فخر زمان اور سعود شکیل ،طیب طاہر ، خوشدل شاہ، شاہین شاہ آفریدی اسکواڈ کا حصہ ہونگے، اسکے علاوہ قومی پلیئنگ الیون میں نسیم شاہ اور ابرار احمد بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ فاسٹ بولر حارث رؤف گزشتہ میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف انجری کا شکار ہو گئے، پہلے دو میچز میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان اور جنوبی افریقہ دونوں کو شکست دے کر سہ ملکی سیریز کے فائنل میں جگہ بنائی تھی، اب 14 فروری کو شاہینوں کا مقابلہ کیویز سے ہو گا۔

عمران خان کی بہنیں بے گناہ، اعظم سواتی گناہگار قرار

9 مئی 2023 کے سانحہ کے بعد لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں اہم پیشرفت کا اعلان کیا ہے۔ لاہور کی عدالت میں ہونے والی سماعت میں علیمہ خان اور عظمی خان کو بے قصور قرار دے دیا گیا اور ان کی ضمانتوں کی درخواستیں واپس لے لی گئیں۔ یہ کیس پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی بہنوں کے حوالے سے تھا، جن پر جناح ہاؤس پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ علیمہ خان اور عظمی خان کے خلاف تمام تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور انہیں جناح ہاؤس کیس میں بے گناہ قرار دیا گیا ہے۔ افسر نے مزید کہا کہ ان کی گرفتاری کی ضرورت نہیں ہے اور کیس میں ان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ اس کے بعد دونوں نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں اپنی درخواست ضمانت واپس لے لی جس سے ان کے خلاف عدالت میں دائر مقدمہ ختم ہو گیا۔ دوسری جانب 9 مئی کے سانحہ کے پانچ مختلف مقدمات میں اعظم سواتی کی عبوری ضمانتوں کی درخواست پر بھی سماعت ہوئی۔ پولیس کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اعظم سواتی کو قصوروار قرار دے دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: “اگر پیکا ایکٹ نافذ ہو گیا تو صحافی صرف موسم کی رپورٹنگ کریں گے”، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار میڈیا رپورٹس کے مطابق اعظم سواتی نے عدالت میں کہا کہ ان کی صحت خراب ہے اور وہ اس موقع پر ضمانتوں پر بحث نہیں کر سکتے لیکن جج منظر علی گل نے واضح کیا کہ بحث ان کے وکلا کو کرنی ہے۔ جج کے ریمارکس میں کہا گیا کہ ضمانت کی درخواست پر فیصلہ پھر بھی کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہروں میں لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو نذر آتش کیا گیا، جبکہ فوجی، سول، اور نجی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران 8 افراد ہلاک ہوئے اور 290 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ جناح ہاؤس پر بھی حملہ کیا تھا جسے ایک قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین واقعہ سمجھا گیا۔ لازمی پڑھیں: نویں کثیر القومی مشق امن 2025 شمالی بحیرہ عرب میں انٹرنیشنل فلیٹ ریویو کے انعقاد کے ساتھ اختتام پذیر سانحہ 9 مئی میں ملوث افراد کے لیے ملٹری عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے اور 21 دسمبر 2023 کو 25 مجرمان کو 10 سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئیں۔ 26 دسمبر 2023 کو مزید 60 افراد جن میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی شامل تھے، ان سب کو بھی 10 سال تک قید کی سزائیں دی گئیں تھیں۔ ان سزاؤں کا مقصد ملک میں امن و امان کی بحالی اور ایسے واقعات کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے کو روکنا تھا۔ یہ کیس اور اس کے بعد کی قانونی کارروائیاں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ جناح ہاؤس پر حملے کی تفصیلات نے نہ صرف ملک کے داخلی معاملات کو ایک نئی سمت دی بلکہ ایک طرح سے ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان تصادم کی گہرائی کو بھی واضح کیا۔ جہاں ایک طرف حکومت اور فوج نے اس سانحہ کو ریاستی امن کے لیے سنگین چیلنج قرار دیا، وہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کے رہنما اس مقدمے کو سیاسی انتقام کا شاخسانہ گردانتے ہیں۔ مزید پڑھیں: کراچی والے ڈمپرز کے نشانے پر: نااہل پی پی سرکار ٹریفک قوانین پر بھی عمل نہیں کروا سکتی: حافظ نعیم ان قانونی کارروائیوں کے باوجود ملک بھر میں سیاسی کشمکش ابھی تک جاری ہے اور اس کے اثرات پاکستان کی معیشت اور حکومت کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔  9 مئی کے واقعات نے نہ صرف سیاسی سطح پر ہی بلکہ عوامی سطح پر بھی حکومت کے خلاف غم و غصہ پیدا کیا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف ملک کی سیاسی استحکام کو دھچکہ پہنچا ہے بلکہ اس سے قومی یکجہتی پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگرچہ جناح ہاؤس حملہ کیس میں علیمہ خان اور عظمی خان کی بے گناہی ثابت ہو چکی ہے اور ان کی ضمانتیں واپس لے لی گئی ہیں، مگر اعظم سواتی کے کیس میں ابھی فیصلہ باقی ہے۔ اس کے علاوہ سانحہ 9 مئی کے دیگر ملزمان کی سزائیں اور ان کے مستقبل کا فیصلہ ملک کی سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ جناح ہاؤس حملہ کیس ایک سنگین واقعہ تھا جس نے پاکستان کی سیاست اور حکومت کے خلاف عوامی رائے کو مزید متاثر کیا۔ اس سب کے باوجود عدالتوں کا کردار اس بات کا مظہر ہے کہ انصاف کی فراہمی میں قانون کا احترام ضروری ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ یہ بھی پڑھیں: “مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن  ہے” وزیراعظم

لیبیا کشتی حادثے میں 16 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق، 10 لاپتہ

لیبیا کے ساحل پر ایک خوفناک کشتی حادثہ پیش آیا جس میں 16 پاکستانی باشندے جان کی بازی ہار گئے جبکہ 10 مزید افراد لاپتہ ہیں۔ یہ کشتی تقریباً 70 افراد کو لے کر سفر کر رہی تھی جن میں بیشتر پاکستانی تھے جب یہ کشتی زوایا کے ساحل کے قریب غرق ہو گئی۔ حادثے میں مرنے والوں میں پاکستانیوں کی اکثریت شامل ہے جن کی شناخت ان کے پاسپورٹس سے کی گئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس سانحے کی تصدیق کی اور بتایا کہ پاکستانی سفارت خانہ کی ایک ٹیم ‘طرابلس’ سے زوایا پہنچ کر مقامی حکام اور ہسپتالوں سے اس حادثے کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کر رہی ہے۔ اس کشتی میں 60 سے زائد افراد سوار تھے جو اپنی زندگی کے بہتر مواقع کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق 16 افراد کی لاشیں اب تک نکالی جا چکی ہیں، جن میں پاکستانی پاسپورٹس بھی ملے ہیں جو ان کی شناخت کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت کرم ضلع کے افراد کی ہے جو کہ پاکستان کے ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جو فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: حادثہ نہیں، قتلِ عام ہوا! اس کے علاوہ 37 افراد زندہ بچ گئے ہیں جن میں سے ایک شخص ہسپتال میں زیر علاج ہے اور باقی 33 افراد پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ تین افراد طرابلس میں موجود ہیں اور سفارت خانہ کی جانب سے ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ یہ سانحہ حالیہ مہینوں میں ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جنوری میں بھی ایک کشتی کا حادثہ مراکش کے ساحل پر پیش آیا تھا جس میں 13 پاکستانی جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ دسمبر میں یونان کے قریب ایک اور کشتی حادثے میں 47 پاکستانیوں کو بچایا گیا تھا مگر اس حادثے میں پانچ پاکستانیوں کی موت ہو گئی تھی۔ 2023 میں لیبیا کے شہر طبرق سے یونان جانے والی ایک کشتی کے غرق ہونے کے نتیجے میں 350 سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت ہوئی۔ اس حادثے نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ مدیترانہ سمندر غیر قانونی ہجرت کے خطرناک ترین راستوں میں سے ایک بن چکا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ اپنی جانوں کا خطرہ مول لے کر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے مطابق 2023 میں 6,000 سے زائد پاکستانیوں نے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کی تاہم غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور 40,000 تک پہنچ سکتی ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو اپنے بہتر مستقبل کے لیے انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں لالچ میں آ کر خطرناک سفر اختیار کرتے ہیں۔ لازمی پڑھیں: جامعہ نعیمیہ نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خلاف فتویٰ دے دیا وزیراعظم شہباز شریف نے اس دلخراش سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حادثہ ایک بار پھر اس بات کا غماز ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ ان انسانوں کے قاتلوں کو سخت سزا مل سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ “لیبیا میں پیش آنے والا سانحہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو ان خطرناک راستوں پر بھیجنا انسانی اسمگلروں کی غفلت اور سنگدلی کا نتیجہ ہے۔ ہم اس کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔” یہ سانحہ ایک بار پھر اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان اور عالمی برادری کو مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو شکست دینا، اور پاکستانی شہریوں کو محفوظ اور قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے کے مواقع فراہم کرنا شامل ہو۔ یہ حادثہ ایک اور یاد دہانی ہے کہ مدیترانہ سمندر پر غیر قانونی راستوں پر سفر کرنے والے ہزاروں پاکستانیوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس واقعے نے اس حقیقت کو دوبارہ واضح کر دیا ہے کہ جب تک انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات نہیں کیے جاتے ایسے سانحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مزید پڑھیں: کراچی والے ڈمپرز کے نشانے پر: نااہل پی پی سرکار ٹریفک قوانین پر بھی عمل نہیں کروا سکتی: حافظ نعیم

دیامر بھاشا ڈیم:زمین کے معاوضے کی ادائیگی مکمل، مقامی کمیونٹی کے لیے ترقی کے دروازے کھل گئے

واپڈا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کو زمین کے معاوضے کی ادائیگی 2015 میں مکمل کر دی گئی تھی، حتیٰ کہ ڈیم کے تعمیراتی کاموں کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ واپڈا کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ 91 فیصد زمین کے معاوضے کی ادائیگی مکمل ہو چکی ہے جس میں متاثرین کو 51 ارب روپے سے زائد کی رقم ادا کی گئی ہے۔ واپڈا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ “زمین کے 91 فیصد حصے کے لیے معاوضے کی ادائیگی مکمل ہو چکی ہے، اور قانونی کارروائی 9 فیصد باقی زمین کے لیے جاری ہے۔ عمارات، بازاروں اور دیگر انفراسٹرکچر کے لیے معاوضے کی ادائیگی 2015 میں کی جا چکی تھی۔ یہ تمام عمل ضلعی انتظامیہ اور گلگت بلتستان حکومت کے ذریعے مکمل کیا گیا تھا۔” تاہم، ایک تشویش کی بات یہ سامنے آئی ہے کہ جن دکانوں اور پیٹرول پمپس کے لیے معاوضہ ادا کیا جا چکا ہے ان کے مالکان نے ابھی تک اپنے اثاثے خالی نہیں کیے ہیں۔ واپڈا کے ترجمان نے اس بات کی وضاحت کی کہ ان علاقوں میں کچھ متاثرین اب بھی اپنی جائیدادیں خالی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ واپڈا نے متاثرین کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے مختلف سوشیل اکنامک ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ واپڈا نے تعلیم، صحت اور بنیادی انفراسٹرکچر کے شعبوں میں 78 ارب روپے کے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد مقامی لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ “ہم نے مقامی افراد کو ترجیح دی ہے اور ڈیم کی تعمیر کے لیے ان ہی کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ واپڈا کے تحت مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین میں سے اکثر مقامی افراد ہیں۔” مزید پڑھیں: “اگر پیکا ایکٹ نافذ ہو گیا تو صحافی صرف موسم کی رپورٹنگ کریں گے”، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے میں 2,120 افراد گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 1,600 افراد کا تعلق ڈیمیر سے ہے۔ واپڈا کے مطابق اس منصوبے کے تحت 298 افراد ڈیم کی ذخیرہ کرنے والی جگہ پر کام کر رہے ہیں جب کہ 354 افراد LA&R اور سیکیورٹی کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے 8.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو گی جس سے 1.23 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جا سکے گا۔ اس منصوبے کی پاور جنریشن صلاحیت 4,500 میگاواٹ ہے، اور اس سے سالانہ 18 ارب یونٹ توانائی کی پیداوار متوقع ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل نہ صرف توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دے گی، بلکہ اس سے گلگت بلتستان کے عوام کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور علاقے کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ اگرچہ منصوبے کی تکمیل سے علاقے میں ترقی کی امیدیں جڑ چکی ہیں تاہم ابھی بھی کچھ چیلنجز موجود ہیں۔ زمین کے معاوضے کے حوالے سے بعض مسائل اب بھی موجود ہیں اور ان مقامات پر رہائش پذیر افراد کا تعاون حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ تعمیراتی کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ یہ مسئلہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جب تک مقامی کمیونٹی کی مکمل حمایت حاصل نہ ہو، ترقیاتی منصوبے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن ساتھ ہی، واپڈا کی جانب سے مقامی افراد کو ترجیح دے کر ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے اور سوشیل اکنامک منصوبوں کے آغاز سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اور واپڈا علاقے کی ترقی میں سنجیدہ ہیں۔ ڈیمیر بھاشا ڈیم کا منصوبہ ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے جو نہ صرف پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا بلکہ گلگت بلتستان کی معیشت کو بھی مضبوط کرے گا۔ واپڈا نے معاوضے کی ادائیگی، مقامی لوگوں کو روزگار دینے اور سوشیل ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے اس منصوبے کو ایک کامیاب مثال بنایا ہے۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کو اعتماد میں لیتے ہوئے باقی چیلنجز کو حل کیا جائے تاکہ اس عظیم منصوبے سے علاقے کے عوام کو بھرپور فائدہ پہنچ سکے۔ یہ بھی پڑھیں: نویں کثیر القومی مشق امن 2025 شمالی بحیرہ عرب میں انٹرنیشنل فلیٹ ریویو کے انعقاد کے ساتھ اختتام پذیر

پی ٹی آئی کی پنجاب میں تنظیمی حکمت عملی: 8 فروری کے احتجاج کے بعد نئی حکمت عملی اور سخت فیصلے متوقع

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی چیف آرگنائزر پنجاب، عالیہ حمزہ نے 8 فروری کے احتجاج کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ مرتب کی ہے جس میں ان تمام قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان اور ٹکٹ ہولڈرز کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں جو پارٹی کی ہدایات پر عمل نہیں کر پائے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان ارکان کے سیاسی مستقبل سے متعلق اہم فیصلے کیے جا سکتے ہیں اور یہ رپورٹ پارٹی کے بانی، عمران خان کو پیش کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق 8 فروری کو ہونے والے احتجاج میں شریک نہ ہونے والے ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی عہدیداروں کی تفصیلات جمع کر لی گئی ہیں۔ اس رپورٹ میں وہ تمام افراد شامل ہیں جنہوں نے پارٹی کی ہدایات کے باوجود احتجاج میں شرکت نہیں کی۔ اس حوالے سے پارٹی قیادت نے واضح کیا ہے کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ بانی تحریک انصاف عمران خان کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ اگرچہ پارٹی کی طرف سے ابھی تک کسی کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت فیصلے زیر غور ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: “اگر پیکا ایکٹ نافذ ہو گیا تو صحافی صرف موسم کی رپورٹنگ کریں گے”، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار اس کے علاوہ عالیہ حمزہ نے پنجاب میں تحریک انصاف کی تنظیم سازی کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد پنجاب میں پارٹی کو دوبارہ فعال کرنا اور عوام میں تحریک انصاف کے بیانیے کو پھیلانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب بھر میں رکنیت سازی کی مہم کو تیز کیا جائے گا، تاکہ پارٹی کو نئے کارکنوں کی حمایت حاصل ہو اور انہیں سیاسی عمل کا حصہ بنایا جا سکے۔ عالیہ حمزہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی مہم کو یونین کونسل سطح پر منتقل کیا جائے گا۔ اس مہم کا مقصد مختلف اضلاع میں کارکنوں کو متحرک کرنا، تنظیم سازی کو مضبوط بنانا، اور عوام تک پارٹی کا پیغام پہنچانا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مہم کے دوران پارٹی کارکنوں کو سیاسی تربیت فراہم کی جائے گی تاکہ وہ پارٹی کی پالیسیوں اور حکمت عملی کو مؤثر طریقے سے عوام تک پہنچا سکیں۔ پارٹی کی تنظیم کو مزید مضبوط بنانے کے لیے، عالیہ حمزہ نے فوکل پرسنز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔ ان فوکل پرسنز کا کام پارٹی کی مختلف پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا اور عوامی سطح پر پارٹی کی نمائندگی کرنا ہوگا۔ لازمی پڑھیں: کراچی والے ڈمپرز کے نشانے پر: نااہل پی پی سرکار ٹریفک قوانین پر بھی عمل نہیں کروا سکتی: حافظ نعیم ذرائع کے مطابق عالیہ حمزہ نے فوکل پرسنز کی تعیناتی کے لیے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے اور مختلف اضلاع میں پارٹی رہنماؤں سے تجاویز طلب کی جا رہی ہیں۔ عالیہ حمزہ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کارکنوں کی باقاعدہ تربیت کی جائے گی، تاکہ وہ سیاسی میدان میں مؤثر انداز میں کام کر سکیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کیمپینز اور پارٹی اجلاسوں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ تحریک انصاف کا بیانیہ عوام تک پہنچایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق یہ حکمت عملی آئندہ چند مہینوں میں پنجاب میں پارٹی کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ان اقدامات کی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے اور پارٹی قیادت نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں مزید اہم فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی تنظیم سازی اور حکمت عملی پر عملدرآمد کے نتیجے میں، تحریک انصاف پنجاب میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گی۔ عالیہ حمزہ کی جانب سے 8 فروری کے احتجاج کے حوالے سے مرتب کی جانے والی رپورٹ اور پنجاب میں تنظیمی حکمت عملی کے آغاز سے تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیاں ایک نئے رخ پر جا رہی ہیں۔ پارٹی قیادت کی جانب سے اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد، مختلف فیصلے کیے جا سکتے ہیں جو تحریک انصاف کے مستقبل کو متاثر کریں گے۔ مزید پڑھیں: نویں کثیر القومی مشق امن 2025 شمالی بحیرہ عرب میں انٹرنیشنل فلیٹ ریویو کے انعقاد کے ساتھ اختتام پذیر

نسان اور ہنڈا کے 60 ارب ڈالرز کے انضمام کی بات چیت کیسے ناکام ہوئی؟

جاپان کی دو مشہور آٹومیکرز، نسان اور ہنڈا، کے درمیان 60 ارب ڈالرز کی شراکت داری کے منصوبے نے اُمید کی ایک کرن دکھائی تھی لیکن پھر یہ بات چیت محض ایک ماہ میں اس قدر پیچیدہ ہو گئیں کہ دونوں کمپنیاں اس شراکت داری کو ختم کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ یہ ناکامی نسان کی خود مختاری کے احساس اور ہنڈا کی طرف سے نسان کو ماتحت کمپنی بنانے کی تجویز کے بعد ہوئی۔ ان حالات نے نسان کو سنگین اقتصادی بحران میں دھکیل دیا ہے اور اب وہ نئی شراکت داری کی تلاش میں ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق نسان کی انتظامیہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام رہی کہ ان کی کمپنی بحران کا شکار ہے۔ نسان، جو کئی برسوں تک جاپان کی سب سے بڑی آٹومیکر کمپنیوں میں شامل رہی تھی اب اپنی ساکھ کھو چکی تھی اور ایک کے بعد ایک مسلہ نے اسے گھیر لیا تھا، خاص طور پر امریکی مارکیٹ میں ہائبرڈ گاڑیوں کی مانگ کا کم ہونا اور سیلز میں کمی۔ ہنڈا نے نسان کو پیشکش کی تھی کہ وہ دونوں مل کر اپنے کاروبار کو چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط کر سکتے ہیں، مگر نسان اپنی خودمختاری پر ضد کر رہا تھا۔ مزید پڑھیں:دولت سمیٹنے کی دوڑ، ایلن مسک اور آلٹ مین آمنے سامنے ہنڈا نے نسان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فیکٹری کی استعداد میں کمی لائے اور ملازمین کی تعداد کم کرے، مگر نسان اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ نسان کی انتظامیہ کی جانب سے اس مزاحمت نے اس معاہدے کو عملی شکل دینے کی کوششوں کو ناکام کر دیا۔ ہنڈا کے مطابق نسان کی فیصلہ سازی بہت سست تھی اور اس کی طرف سے آنے والے جوابی اقدامات کافی دیر سے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ نسان نے ایسی فیکٹریوں کو بند کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا جو اس کی عالمی سطح پر ایک اہم مقام رکھتی تھیں۔ ان میں جاپان کے کیوشو علاقے کی فیکٹری شامل تھی، جس کے بارے میں نسان کا کہنا تھا کہ یہ مستقبل میں اس کی برقی گاڑیوں کی منصوبہ بندی کے لیے اہم ہے۔ جب نسان نے اپنی فیکٹریوں کو بند کرنے سے انکار کیا تو ہونڈا نے نسان کو ماتحت کمپنی بنانے کا مشورہ دے دیا۔ یہ تجویز نسان کے لیے بہت ہی توہین آمیز تھی اور اس نے اس پر فوری ردعمل دیا۔ نسان کی انتظامیہ نے اس تجویز کو “ناقابل برداشت” قرار دیا، کیونکہ اس سے نسان کی عزت و وقار پر سوال اٹھتا تھا۔ نسان کے سی ای او، ماکوٹو اُچِدا نے ہونڈا کے سی ای او ‘توشیہِرو میبے’ سے ملاقات کی اور مذاکرات کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد دونوں کمپنیوں نے اس معاملے پر کوئی بھی باقاعدہ بیان دینے سے گریز کیا۔ یہ بھی پڑھیں:پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 28 فیصد اضافے سے 1.86 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں میڈیا رپورٹس کے مطابق نسان کی انتظامیہ نے ہونڈا کی تجویز کو ایک بڑا دھچکا سمجھا اور محسوس کیا کہ اس تجویز نے ان کی عزت نفس کو مجروح کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ناکامی کے بعد نسان اب نئی شراکت داری کی تلاش میں ہے، نسان نے فاکسکن کے ساتھ ممکنہ تعاون پر بات چیت شروع کی ہے جو ایپل کے آئی فونز بنانے والی کمپنی ہے۔ فاکسکن نسان کو اپنی برقی گاڑیوں کی تیاری میں مدد دینے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس میں نسان کے لیے زیادہ لچک اور فائدے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ نسان نے اپنی آمدنی کے حوالے سے پیش گوئی کی ہے کہ اس کی منافع میں 70 فیصد کی کمی آ سکتی ہے جس کا اثر اس کے عالمی کاروبار پر پڑے گا۔ اس کے علاوہ امریکا میں مکسیکو میں بننے والی گاڑیوں پر امریکی محصولات کے خدشات بھی نسان کے لیے ایک اور بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ یہ پیچیدہ صورتحال ایک سبق بھی ہے کہ جب تک کمپنیاں اپنی حقیقت کو نہیں سمجھتیں اور مقابلہ کرنے کے لیے صحیح فیصلے نہیں کرتیں، ان کے لیے مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔ نسان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے بحران کا بغور جائزہ لے اور اس کا کوئی ایسا حل نکالے جو نہ صرف اس کی کمپنی کی ساکھ کو بچائے بلکہ اسے عالمی آٹو انڈسٹری میں دوبارہ ایک مضبوط مقام دلانے میں کامیاب ہو۔ لازمی پڑھیں:چین کا ‘میڈ اِن چائنہ 2025’ منصوبہ: عالمی مارکیٹ میں مغربی غلبے کو چیلنج کرتی ہوئی چینی ٹیکنالوجی کی اجارہ داری

بااختیار خواتین اور صنفی امتیاز کا خاتمہ؟ حقیقت یا افسانہ

موجودہ دور میں خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی امتیاز کا خاتمہ کرنےکے لیے عالمی سطح پر بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے، اقوامِ متحدہ کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لیے چارٹر بنائے گئے اور عالمی سطح پر شعور اجاگر کیا گیا ہے۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (سی سی ڈی اے ڈبلیو)  بین الاقوامی برادری خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں بھی حالیہ ایک عرصے میں خواتین کے حقوق میں نمایاں بہتری آئی ہے، خواتین تعلیمی و سیاسی میدان میں دیکھی گئی ہیں، مگر اس کےباوجود ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2023 کے مطابق صنفی امتیاز کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا کو مزید 100 سال درکار ہیں۔ پاکستان میں تاریخی طور پر خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کی گئی ہیں، پاکستان میں 1973 کے آئین میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، مختلف قوانین خواتین کے تحفظ کا بل 2006 اور گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل 2012 منظور کیے گئے۔ تعلیم، روزگار، سیاست اور معاشرت میں خواتین کا کردار بتدریج بڑھ رہا ہے، لیکن یہ پیش رفت محدود اور مخصوص طبقات تک محدود ہے۔ واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے صنفی مساوات کے فروغ کے لیے مختلف قوانین اور پالیسیز متعارف کروائی ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے مخصوص قوانین اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ ان سب اقدامات کے باوجود پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے، جس کی بڑی وجہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی کمی اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جیساکہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ‘کوئی بھی قوم اس وقت تک کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک اس کی خواتین ان کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔’ اسی لیے اگر صنفی مساوات کا خواب حقیقت بنانا ہے تو  حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مستقبل میں پاکستانی خواتین کے لیے بہتر امکانات پیدا کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی، اس پر عملدرآمد اور معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ عمرانیات کی ڈاکٹر فرزانہ امجد نے بتایا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن عملی اقدامات ابھی بھی ناکافی ہیں۔ کئی شعبوں میں خواتین کی شرکت بڑھی ہے، مگر جاب مارکیٹ، پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں ان کا کردار محدود ہے، جسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ امجد کے مطابق صنفی امتیاز کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ روایتی سماجی نظریات اور پدرشاہی نظام ہے، جو خواتین کو محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، تعلیم، معاشی مواقع اور قانونی عملدرآمد کی کمزوری بھی خواتین کو مساوی حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ فرزانہ امجد نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ خواتین کے خلاف تشدد، ہراسانی، وراثت کے مسائل اور کم عمری کی شادی جیسے معاملات ابھی بھی سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ فرزانہ امجد کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرتی رویے خواتین کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اکثر خواتین کو گھر تک محدود رکھنے یا کمزور سمجھنے کی سوچ عام ہے۔ جب تک سماجی سطح پر خواتین کو مساوی حیثیت دینے کا رجحان پروان نہیں چڑھے گا، ترقی کے امکانات محدود رہیں گے۔ ماہرِتعلیم پروفیسر ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ تعلیم اور معاشی خودمختاری ہی وہ دو عوامل ہیں جو خواتین کو خودمختار بنا سکتے ہیں۔ جب خواتین تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ہوں گی، تو وہ اپنے حقوق کے لیے کھل کر بات کر سکیں گی اور معاشرے میں اپنی جگہ مضبوط کر سکیں گی۔ ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر کے مطابق حکومت کو خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا ہوگا، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہراسانی کے خلاف واضح اقدامات کرنا ہوں گے اور خواتین کے لیے خصوصی تربیتی و معاشی منصوبے متعارف کروانے ہوں گے تاکہ انہیں برابری کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ پروفیسر ثوبیہ ذاکر کہتی ہیں کہ شہری خواتین کو تعلیم اور ملازمتوں تک کچھ حد تک رسائی حاصل ہے، مگر دیہی خواتین صحت، تعلیم اور بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ حکومت کو دیہی خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی اور معاشی منصوبے شروع کرنے چاہئیں، تاکہ وہ بھی ترقی کے سفر میں شامل ہو سکیں۔ نجی نشریاتی ادارے دنیا کے اینکر پرسن اسامہ عبید نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے جا رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر میڈیا اب بھی روایتی صنفی امتیاز کو فروغ دیتا ہے۔ اشتہارات، ڈرامے اور خبروں میں خواتین کو اکثر کمزور، مظلوم یا روایتی کرداروں میں دکھایا جاتا ہے، جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

“اگر ہفتے تک یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو غزہ میں جنگ بندی ختم ہو جائے گی”:اسرائیلی وزیر اعظم کی دھمکی

غزہ اور اسرائیل کے درمیان 15 ماہ جنگ جاری رہنے کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے کچھ شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا، لیکن جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اسرئیل اپنی دھمکیوں سے باز نہیں آیاِ،اسرائیل نے ایک بار پھر حماس کو جنگ شروع کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی اس وقت تک ختم ہو جائے گی جب تک کہ عسکریت پسند گروپ ہفتے تک قیدیوں کو رہا نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں، نیتن یاہو نے زور دے کر کہا کہ اگر حماس ہفتے کی دوپہر تک تعمیل نہیں کرتا تو اسرائیل اس وقت تک شدید فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کرے گا جب تک کہ حماس کو “بالآخر شکست نہیں دی جاتی”۔ حماس کی جانب سے اسرائیل پر معاہدے کی اہم شقوں کی خلاف ورزی کا الزام لگانے کے بعد کئی ہفتوں سے جاری جنگ بندی اب جانچ کی زد میں آ گئی ہے۔ حماس کے عہدیداروں بشمول ابو عبیدہ، گروپ کے مسلح ونگ، قسام بریگیڈز کے ترجمان، نے بتایا کہ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کے باعث وہ تین اضافی اسیروں کی منصوبہ بند رہائی کو منسوخ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ عبیدہ نے تصدیق کی کہ  حماس نے اپنی ذمہ داریوں کو برقرار رکھا ہے، اسرائیل کے اقدامات نے گروپ کو یرغمالیوں کی رہائی میں غیر معینہ مدت تک تاخیر کرنے پر اکسایا ہے۔ نیتن یاہو نے منگل کے روز سلسلہ وار ٹویٹس میں حماس کو جنگ بندی کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے اندر اور ارد گرد فوجیں جمع کریں۔ آج تک حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کے بدلے 21 اسیروں کو رہا کیا ہے۔ تاہم، باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے آخری تاریخ کے قریب آتے ہی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے ملک پر زور دیا ہے کہ اگر ہفتے تک تمام یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو جنگ بندی منسوخ کر دے۔  ٹرمپ مبینہ طور پر اردن کے شاہ عبداللہ دوم پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لیے اسرائیل کی وسیع حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو لے جائیں۔