’ترک خاتون اول کے شکر گزار ہیں جنہوں نے صفائی کے طریقہ سے روشناس کروایا‘ مریم نواز

حکومت پنجاب نے ترکیہ کی خاتون اول ایمنہ اردوان کا پرتپاک استقبال کیا اور  ترکیہ کے ویسٹ مینجمنٹ ماڈل  کی پنجاب میں تشکیل دینے پر خاتون اول کا شکریہ ادا کیاگیا۔ وزیراعلی پنجاب  مریم نواز شریف نے ترکیہ کی خاتون اول کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے ان کا پاکستان آمد پر شکریہ ادا کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم خاتون اول کے شکر گزار ہیں   جنہوں نے صفائی کے لئے ہمیں بین الاقوامی بہترین طریقہ کار سے روشناس کروایا۔ وزیراعلٰی مریم نواز شریف نے پاکستان ترکیہ پارٹنر شپ برائے سسٹین ایبلٹی کے تحت سرکلر اکانومی کی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر مریم نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سُتھرا پنجاب پروگرام انتہائی اہم اور انقلابی پراجیکٹ ہے،ستھرا پنجاب محض ایک پالیسی نہیں، بلکہ ایک عزم، ایک وژن ہے جو پنجاب کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے عہدے کاحلف اٹھا تے ہی عزم کیا کہ صوبے کا ہر شہر، ہر گاؤں، بین الاقوامی معیار کے مطابق صاف ستھرا ہونا چاہیے،ہم دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی خوبصورتی اور صفائی کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں، پنجاب کے عوام بھی اسی معیار کے مستحق ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ ستھرا پنجاب پروگرام کے ذریعے صفائی اورکچرے کے مؤثر انتظام اور ماحولیاتی تحفظ میں ایک تاریخی تبدیلی لانے کا عزم کیا ہے،اس پروگرام سے نہ صرف روزگار میں اضافہ ہوگا بلکہ پنجاب کی مقامی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ ستھرا پنجاب پروگرام کے لئے 120 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ستھرا پنجاب میں سرمایہ کاری طویل المدتی ماحولیاتی اور معاشی فوائد فراہم کرے گی۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سُتھرا پنجاب کے تحت ایک نئی انڈسٹری بن رہی  ہے جس سے ایک لاکھ سے زائد ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونگے،مزید یہ کہ ستھرا پنجاب منصوبے کے تحت اربوں روپے کے معاہدے کیے جا چکے ہیں، سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کو فروغ مل رہا ہے۔ مزید انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا آغاز کیا ہے،مقامی صنعتیں اور کاروباری برادری پنجاب کے صفائی کے نظام میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔ سرکاری و نجی اشتراک سے صفائی کے شعبے میں مزید جدت، مؤثریت اور پائیداری آئے گی۔ مریم نواز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کے ویسٹ مینجمنٹ ماڈل کی بدولت ہم نے پنجاب میں جدید، مؤثر اور پائیدار صفائی کا نظام تشکیل دیا ہے۔ سُتھرا پنجاب پروگرام محض سڑکیں صاف کرنے کا منصوبہ نہیں،صحت کا تحفظ، معاشی استحکام، اور جدید پنجاب کی تعمیر کا مشن ہے۔ آخر میں وزیراعلی مریم نواز شریف نے معزز مہمان خاتون اول ترکیہ محترمہ ایمنہ اردوان کے ہمراہ مختلف سٹالز کا معائنہ بھی کیا۔

وزارتِ ایوی ایشن کو ختم کرنے کے فیصلے پر سابق وزیر ریلوے کا اظہارِ افسوس

سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وزارتِ ایوی ایشن کو ختم کرنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارتِ ایوی ایشن کا خاتمہ ایک غیر سوچا سمجھا اقدام ہے، جس سے قومی معیشیت پر منفی اثر پڑے گا۔ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان جاری کیا ہے کہ وزارتِ ایوی ایشن کو ختم کر کے اسے وزارت دفاع میں ضم کرنے کا فیصلہ انتہائی نامناسب ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ایوی ایشن انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچے گا۔ خواجہ سعد کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا تھا کہ ریلویز اور ایوی ایشن کو ملا کر وزارت ٹرانسپورٹ تشکیل دی جائے گی، لیکن موجودہ حکومت نے اس کے برعکس ایک قدم اٹھایا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اگر حکومت رائٹ سائزنگ کا ارادہ رکھتی تھی، تو ریلویز، ایوی ایشن اور پورٹ اینڈ شپنگ کو ملا کر وزارت ٹرانسپورٹ بنائی جا سکتی تھی، جس سے نہ صرف وزارتوں کی تعداد کم ہوتی، بلکہ مختلف شعبوں کی ترقی کے لیے مربوط حکمت عملی بھی بنائی جا سکتی تھی۔ خواجہ سعد کے مطابق وزارتِ ایوی ایشن کا خاتمہ ایک غیر سوچا سمجھا اقدام ہے، جو نہ صرف ایوی ایشن کے شعبے کو نقصان پہنچائے گا، بلکہ قومی معیشت پر بھی منفی اثرات ڈالے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوی ایشن کا شعبہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ وزارت ایوی ایشن کا خاتمہ ایک بڑا فیصلہ ہے، جس کا مقصد وزارتوں کی تعداد میں کمی لانا اور حکومتی اخراجات میں تخفیف کرنا بتایا گیا ہے، خواجہ سعد کے مطابق یہ فیصلہ ایوی ایشن کے شعبے کی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، جس سے قومی سطح پر متوقع فوائد کم ہو سکتے ہیں۔ ایوی ایشن کے خاتمے کے حوالے سے وزارت دفاع نے ابھی تک کوئی واضح جواب نہیں دیا، لیکن اس فیصلے پر مختلف حلقوں میں ردِ عمل جاری ہے۔

“مجھے کنگ کہنا بند کریں” جنوبی افریقہ کے خلاف تاریخی جیت کے بعد بابر اعظم کی شائقین سے گزارش

بابر اعظم کی ان دنوں پرفامنس کچھ زیادہ بہتر نہیں دکھائی دے رہی، ایک دور تھا جب بابر اعظم کو ان کے فین کرکٹ کا بادشاہ کہتے تھے اور اب بابر اعظم  نےخود اپنی پرفامنس کی وجہ سے فین سے گزارش کی ہے کہ مجھے بادشاہ کہنا بند کریں ۔ سہ ملکی سیریز میں جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی فتح کے بعد بات کرتے ہوئے بابر اعظم نے کہا کہ بیٹنگ کے دوران ان کی بنیادی توجہ اچھا اسکور کرنا ہے لیکن وہ کھیل ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں،انہوں  نے مداحوں پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں “بادشاہ” کہنا بند کر دیں، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ابھی تک خود کو ایک نہیں سمجھتے۔ بابر اعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے، میں اننگز ختم کرنے کے قابل نہیں ہوں، لیکن رضوان اور سلمان نے اچھا کھیلا۔ اس طرح کی پرفارمنس سے ٹیم کا اعتماد بڑھتا ہے۔ سابق کپتان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ خود کو “بادشاہ” کے طور پر نہیں دیکھتے اور لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اسے کہنے سے گریز کریں۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ میں ابھی بادشاہ نہیں ہوں، ہم دیکھیں گے کہ میں کب جاؤں گا۔ اوپننگ میرے لیے ایک نیا کردار ہے اور میں نے ٹیم کی ضروریات کے مطابق یہ ذمہ داری اٹھائی ہے،ایک بار جب اننگز بن جاتی ہے، مجھے کھیل اور پچ کا بہتر اندازہ ہوتا ہے، میں ہمیشہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن میں سیٹ ہونے کے بعد لمبی اننگز نہیں کھیل سکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “میں نے پہلے جو کچھ کیا ہے وہ ماضی میں ہے۔ اگر میں ماضی کی پرفارمنس پر توجہ دیتا ہوں تو میں مستقبل میں پرفارم نہیں کر سکوں گا۔ ہر نیا دن ایک نئی منصوبہ بندی اور ذہنیت کے ساتھ آتا ہے۔ جب ہم کامیابی سے بڑے ٹوٹل کا تعاقب کرتے ہیں تو اس سے ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے،”

’کسی کا کوئی خط نہیں ملا، یہ سب چالیں ہیں‘ آرمی چیف کا صاف انکار

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا، خط کی تمام باتیں چالیں ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا، اگر کسی کا خط ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا، خط کی تمام باتیں چالیں ہیں۔ اگر کوئی خط ملا تو وزیرِاعظم کو بھجوا دوں گا۔ آرمی چیف نے کہا ہے کہ ملک بہت اچھے انداز سے آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان میں ترقی ہو رہی ہے۔ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے اور اسے آگے بڑھنا چاہیے۔ مزید پڑھیں: عمران خان کا آرمی چیف کو تیسرا خط، کیا لکھا؟ واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں اور وکلاء سے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ انھوں نے آرمی چیف کو خط لکھا ہے، جو کہ انھوں نے عوام کی وجہ سے لکھا ہے۔ اب تک بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 3 خط لکھے جانے کی اطلاعات آئی ہیں، مگر عاصم منیر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ انھیں کسی قسم کا خط نہیں ملا اور وہ خط پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

آر ایل جی کی قیمتوں میں اضافہ  کر دیا گیا 

 آر ایل این جی کی فروری کے ماہ کیلیے قیمتوں کا تعین، اوگرا نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے،جس میں ایس این جی پی ایل 23 ڈالر  فی ایم ایم بی ٹی یو  کااضافہ کیا گیا ہے۔ اوگرا نے آر ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے ، جس کے مطابق ایس این جی پی ایل کیلیے 23 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کا اضافہ کر دیا گیا، ایس ایس جی پی ایل کیلیے 573 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کا اضافہ کیا گیا ہے خیال رہے کہ فروری میں  اضافہ کی وجہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ بتائی گی ہے۔  واضح رہے کہ اوگرہ نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے صارفین کے لیے قیمتوں میں گزشتہ ماہ (دسمبر 2024) کے مقابلے میں آر ایل این جی کی قیمت میں 1.81 فیصد یا 0.2330 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی  کی تھی  جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) صارفین کے لیے قیمتوں میں گزشتہ ماہ (دسمبر 2024) کے مقابلے میں 0.0558 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو یا 0.45 فیصد اضافہ کیا تھا۔

انڈیا میں 40 سال قید کے بعد واپس وطن لوٹنے والا وہ ہیرو جس نے اپنے خون سے ‘پاکستان زندہ باد’ کا نعرہ لکھا

سپاہی مقبول حسین کی کہانی ایک عظیم قربانی کی داستان ہے۔ 1965 کی جنگ میں دشمن کے سامنے ثابت قدم رہتے ہوئے، انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔ طویل قید اور اذیتوں کے باوجود، مقبول حسین نے ہمیشہ “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ بلند رکھا، جو آج تک زندہ ہے۔ یہ 1965 کی بات ہے جب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ چکی تھی۔ سپاہی مقبول حسین جو 1940 میں آزاد کشمیر کے گاؤں ناریاں، تحصیل ترار خیل میں پیدا ہوئے اور پاک فوج کے سپاہی بن کر 1960 میں فوج میں شامل ہوئے۔ سپاہی مقبول آزاد کشمیر رجمنٹ کا حصہ بنے اور 1965 کی جنگ میں حصہ لیا۔ جب آپریشن گلبرگ کے دوران وہ سرینگر کے علاقے میں دشمن کے ساتھ لڑ رہے تھے تو انہیں شدید زخمی ہونے کے باوجود اپنے ساتھیوں کی زندگی بچانے کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ایک ڈھکن میں چھپ کر دشمن کو وقت خریدنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ان کے ساتھی انہیں چھوڑنا نہیں چاہتے تھے مگر مقبول حسین نے خود کو ڈھکن میں چھپایا تاکہ ان کے ساتھی بچ سکیں۔ دشمن کی افواج نے انہیں گرفتار کر لیا اور بھارتی فوج نے نہ صرف انہیں قیدی جنگ کی فہرست میں شامل نہیں کیا بلکہ ان سے جسمانی اور ذہنی اذیت بھی دی۔ بھارتی فوج کے اہلکاروں نے ان پر شدید تشدد کیا انہیں ‘پاکستان مرد آباد’ کہنے پر مجبور کیا مگر وہ ہمیشہ ‘پاکستان زندہ باد’ ہی جواب دیتے۔ اس کے بعد بھارتی فوج نے ان کی انگلیوں کے ناخن نکالنے کی کوشش کی لیکن مقبول حسین نے کبھی بھی دشمن کے سامنے اپنے عزم کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ ان پر تشدد کی انتہاء اس وقت تک پہنچ گئی کہ بھارتی افواج نے ان کی زبان تک کاٹ ڈالی تاکہ وہ “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ نہ لگا سکیں۔ مگر مقبول حسین نے اپنے خون سے “پاکستان زندہ باد” دیواروں پر لکھا جیسے کسی عہد کو اپنی جان سے زیادہ قیمتی سمجھا ہو۔ 40 سال بعد وطن کی مٹی میں واپس قدم یہ 2005 کا سال تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک قیدیوں کی منتقلی ہوئی۔ اس منتقلی کے دوران بھارتی سرحد سے ایک ضعیف اور خاموش شخص واپس آیا جس کا جسم اور ذہن طویل اذیتوں سے متاثر تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر کسی کو بھی یہ یقین نہیں آیا کہ یہ شخص وہی مقبول حسین ہے جو 1965 میں میدان جنگ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے لڑا تھا۔ اس شخص کے جسم سے گفتگو کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی تھی، لیکن جب اس نے اپنے آپ کو دوبارہ شناخت کیا تو اس نے اپنے فوجی نمبر 335139 کو لکھا۔ یہ نمبر نہ صرف اس کی شناخت کا نشان تھا بلکہ اس کی واپسی کا گواہ تھا۔ جب مقبول حسین کا نمبر فوجی ریکارڈ میں چیک کیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ وہی سپاہی مقبول حسین ہے جو 1965 میں مفقود قرار دیا گیا تھا۔ اس کی کہانی اور بہادری سے آگاہ ہو کر تمام افسران نے اسے خراج تحسین پیش کیا اور اس کا علاج شروع کر دیا۔ یہ داستان اس وقت مزید عیاں ہوئی جب مقبول حسین نے اپنا حال لکھنا شروع کیا۔ اس کے کاغذوں پر وہ کہانیاں چھپیں تھیں جو اس نے 40 سال کی اذیت کے دوران جھیلی تھیں۔ یہ کہانیاں ایک نیا باب بن گئیں اور ان کی بہادری کی گونج نے پورے پاکستان میں ایک نئی روح پھونکی۔ 23 مارچ 2009 کو سپاہی مقبول حسین کو پاکستان کی سب سے بڑی عسکری اعزاز ‘ستارۂ جرات’ سے نوازا گیا۔ یاد رہے کہ ان کی زندگی کو ایک ڈرامہ سیریز ‘سپاہی مقبول حسین’ کے ذریعے دنیا کے سامنے لایا گیا جسے آئی ایس پی آر اور انٹر فلو کمیونیکیشنز نے مشترکہ طور پر تیار کیا۔ مقبول حسین نے ہمیشہ اپنے وطن اور اس کی عزت کے لئے قربانی دی۔ ان کی جدوجہد اور قربانی کی ایک نئی نسل کو تعلیم اور حوصلہ دینے کا باعث بنی۔ مقبول حسین 28 اگست 2018 کو دنیا فانی سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔ ان کی نماز جنازہ 29 اگست کو ان کے آبائی گاؤں ناریاں میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبول حسین کی والدہ کی قبر گاؤں کے دروازے کے قریب تھی تاکہ وہ اپنے بیٹے کی واپسی کے منتظر رہیں، اور جب مقبول حسین واپس لوٹے تو وہ ایک حقیقت بن گئی۔ یہ داستان ایک جرات مند، بہادر اور عظیم سپاہی کی ہے جس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قیمت پر بھی اپنے وطن کی عزت کو نہیں بیچا۔ یہ داستان ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقت میں “پاکستان زندہ باد” وہ نعرہ نہیں ہے جو زبان سے نکلا ہو بلکہ یہ وہ جذبہ ہے جو دلوں میں بستا ہے چاہے اس کی قیمت کتنی بھی ہو۔ مزید پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم:زمین کے معاوضے کی ادائیگی مکمل، مقامی کمیونٹی کے لیے ترقی کے دروازے کھل گئے

امریکا کچرے کو توانائی میں کیسے تبدیل کرتا ہے؟

امریکا میں کچرے کو توانائی میں تبدیل کرنے کے جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں، جس کے تحت کچرے کو توانائی پیدا کرنے کے عمل میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کچرے سے کھاد بھی تیار کی جاتی ہے۔ وہاں کی کمیونٹیز سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی ترقی کے لیے کیا اقدامات چاہتے ہیں، اور یہ عمل مقامی سطح پر شامل افراد کی رائے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ سائنسی عمل نہیں ہے تو پھر ہم اس شعبے میں ان سے پیچھے کیوں ہیں؟

پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا دباؤ: حکومت نے بجٹ میں نرمی کا عندیہ دے دیا

پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس سال کے پہلے سات ماہ میں 100 ارب روپے سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ سات ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے 285 ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے ہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 185 ارب روپے تھے۔ یہ اضافہ حکومتی تخمینوں سے بھی 25 ارب روپے زیادہ ہے اور معاشی حالات میں شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے ‘نویگیٹنگ ایز آف ڈوئنگ بزنس ان پاکستان’ کے سیمینار کے دوران اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ اس کی ادائیگی کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے اور بجٹ میں اس بوجھ کو دیگر شعبوں پر منتقل کرنے کا ارادہ ہے۔” علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ گزشتہ بجٹ میں وزیراعظم شہباز شریف کی تردید کے باوجود 75 ارب روپے کا اضافی بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالنا پڑا تھا تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پروگرام کو جاری رکھا جا سکے۔ تاہم یہ بوجھ اس سال کے آخر تک 100 ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے جو حکومتی پیش گوئیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک میں اس وقت مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے اور عوام کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے اس کے باوجود ٹیکس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں مالی سال کے سات ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے 53 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے آخر تک تنخواہ دار طبقے نے 368 ارب روپے ٹیکس ادا کیا تھا اور اس سال سات ماہ میں ہی 285 ارب روپے کا ہدف عبور کر لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق غیر کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے 122 ارب روپے ادا کیے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے 86 ارب روپے ٹیکس ادا کیے جو 50 فیصد کا اضافہ ہے۔ دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کے ٹیکس میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے کو آیا جہاں صوبائی حکومت کے ملازمین نے 48 ارب روپے اور وفاقی حکومت کے ملازمین نے 29 ارب روپے ادا کیے جو بالترتیب 96 فیصد اور 63 فیصد زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کا ماننا ہے کہ غیر رجسٹرڈ تاجروں سے ‘ایٹ سورس’ ٹیکس کٹوتی ایک کامیاب حکمت عملی ثابت ہوئی ہے۔ تاہم، اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس شعبے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کرپشن کم ہوگئی، عالمی درجہ بندی میں بہتری علی پرویز ملک نے سیمینار کے دوران اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مشروبات کی صنعت پر بھاری ٹیکس کی وجہ سے غیر رسمی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح بچوں کی غذائی مصنوعات کی غیر قانونی درآمدات بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ غیر رجسٹرڈ اور سمگل شدہ مصنوعات کی قیمتیں مقامی کاروبار سے نصف تک کم ہیں جو نہ صرف مارکیٹ میں مسائل پیدا کر رہی ہیں بلکہ عوام کی صحت کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ‘سیکرٹری سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل’ (SIFC)  جمیل قریشی نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے اپنی کوششوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کونسل ملک میں خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کو بہتر بنانے بجلی کی قیمتوں میں کمی اور 100 قابلِ سرمایہ کاری منصوبوں کے لیے feasibility studies تیار کرنے پر کام کر رہی ہے۔ جمیل قریشی نے یہ بھی بتایا کہ حکومت پاکستان سوورین ویلتھ فنڈ کو عملی جامع پہنانے کی کوششیں کر رہی ہے جس کے تحت سات منافع بخش اداروں کی حصص کو بیرون ملک فروخت کیا جائے گا تاکہ مالی وسائل میں اضافہ کیا جا سکے۔ تاہم عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) نے اس فنڈ کے قانون اور حکومتی ڈھانچے پر اعتراضات اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے یہ فنڈ عملی طور پر کام نہیں کر رہا۔ پاکستان میں مالی مشکلات اور ٹیکس کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس بات کا عندیہ دیا کہ آئندہ بجٹ میں اس بوجھ کو دیگر شعبوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومت اس ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیاب ہو پائے گی یا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ضروری اقدامات اور اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی اصلاحات کی ضرورت شدت اختیار کر چکی ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے ٹیکس پالیسی، سرمایہ کاری کے فروغ اور اقتصادی اصلاحات پر تیز اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف حکومت کے مالی خسارے کو کم کیا جا سکے بلکہ عوام کو زیادہ فوائد بھی مل سکیں۔ پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو آئندہ بجٹ میں اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔  285 ارب روپے کا ٹیکس ادا کرنے کے باوجود حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے کہ وہ عوام کو مزید مالی مشکلات سے بچانے کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔ مزید پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم:زمین کے معاوضے کی ادائیگی مکمل، مقامی کمیونٹی کے لیے ترقی کے دروازے کھل گئے

امریکی سینیٹ نے تلسی گبارڈ کی بطور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس تعیناتی کی توثیق کر دی

تلسی گبارڈ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کابینہ میں شامل کیے جانے کے لیے منتخب افراد میں سے سب سے متنازع رکن ہیں۔

نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے طور پر وہ 18 انٹیلیجنس اداروں کی سربراہ ہوں گی جن میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 70 ارب ڈالرز کے بجٹ پر بھی ان کا کنٹرول ہوگا۔ تلسی گبارڈ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کابینہ میں شامل کیے جانے کے لیے منتخب افراد میں سے سب سے متنازع رکن ہیں۔ سینیٹ سے توثیق سے قبل کئی مرتبہ ایسا لگا کہ جیسے تجربے کی کمی اور ان کے ماضی کے متنازع بیانات کی وجہ سے شاید وہ اس عہدے کے لیے سینیٹ میں مطلوبہ حمایت حاصل نہ کر پائیں۔ نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے طور پر تعیناتی کے عمل کے دوران انھیں سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیشی پر ماضی کے اپنے بیانات پر کمیٹی ارکان کے مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کمیٹی ممبران نے ان سے ایڈورڈ سنوڈن کے بارے میں ان کے ماضی کے تبصروں، حکومت کی لوگوں کی نگرانی کرنے کے اختیارات، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور شام کے سابق آمر بشار الاسد کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوال پوچھے۔ گبارڈ کو 2017 میں اس وقت کے شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ملاقات پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔  ملاقات کے بعد انھوں نے دعوی کیا تھا کہ وہ ایک طویل عرصے سے جاری تنازع کا پر امن حل ڈھونڈے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تاہم ان کی بشارالاسد سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بدھ کے روز سینیٹ میں ان کی نامزدگی کی توثیق پر ووٹنگ کے عمل سے قبل ڈیموکریٹ رکن چک شومر کا کہنا تھا کہ جس رات روس نے یوکرین کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا، اس وقت گبارڈ پوتن کے عمل کے لیے امریکہ اور نیٹو کو قصوروار ٹھہرا رہی تھیں۔  ان کے مطابق یہ وجہ انھیں نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر نہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ گبارڈ کو نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے راز افشاں کرنے والے ایڈورڈ سنوڈن کی حمایت میں دیے گئے بیانات کی وجہ سے بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سینیٹر مچ میک کونل (ریپبلکن-کینٹکی) نے تلسی گیبرڈ کی بطور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تقرری کی مخالفت برقرار رکھی اور ووٹنگ کے بعد ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے “یہ ثابت نہیں کیا کہ وہ اس قومی اعتماد کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔” انہوں نے مزید کہا، “قوم کو اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ صدر کو ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹس ایک ایسے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کی جانب سے متاثر ہو سکتی ہیں جس کا فیصلہ کرنے میں تشویشناک غلطیوں کا ماضی رہا ہے۔” میک کونل ان کی توثیق کے خلاف ووٹ دینے والے واحد ریپبلکن سینیٹر تھے۔ 

آئی سی سی کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، تین پاکستانی کھلاڑیوں پر جرمانہ عائد

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی شاہین شاہ آفریدی، سعود شکیل اور کامران غلام کو بدھ کے روز کراچی میں جنوبی افریقہ کے خلاف اپنے ٹرائی نیشن سیریز میچ کے دوران آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ شاہین کو ان کی میچ فیس کا 25 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا کیونکہ ان پر آئی سی سی کے کھلاڑیوں اورمعاون عملے کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 2.12 کی خلاف ورزی کا الزام تھا، جو “بین الاقوامی میچ کے دوران کسی کھلاڑی، کھلاڑی کے معاون عملے، امپائر، میچ ریفری یا کسی دوسرے شخص (جن میں تماشائی بھی شامل ہیں) کے ساتھ غیر مناسب جسمانی رابطے” سے متعلق ہے۔ یہ واقعہ جنوبی افریقہ کی اننگز کے 28ویں اوور میں پیش آیا، جب شاہین نے جان بوجھ کر بیٹر میتھیو بریٹزکے کے راستے میں آ کر اس کے ایک رن لینے میں رکاوٹ ڈالی۔ آئی سی سی قوانین اسے ‘نامناسب جسمانی رابطہ’ قرار دے کر قابل مواخذہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹرز سعود شکیل اور متبادل فیلڈر کامران کو ان کی میچ فیس کا 10 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا کیونکہ انہوں نے جنوبی افریقہ کی اننگز کے 29ویں اوور میں ٹیمبا باؤما کے رن آؤٹ ہونے کے بعد ان کے بہت قریب جا کر جشن منایا تھا۔ سعود اور کامران کو کوڈ کے آرٹیکل 2.5 کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا، جو “ایسی زبان، اعمال یا اشارے استعمال کرنے سے متعلق ہے جو کسی کھلاڑی کے آؤٹ ہونے پر اس کی تذلیل پر مبنی ہو یا جارحانہ ردعمل پیدا کر سکے”۔ اس کے علاوہ، تینوں کھلاڑیوں کے انضباطی ریکارڈ میں ایک ڈی میرٹ پوائنٹ بھی شامل کیا گیا ہے، اور یہ تمام کھلاڑیوں کے پاس 24 ماہ کے عرصے میں کوئی پچھلا جرم نہیں تھا۔ تینوں نے جرمانے کی قبولیت اور خلاف ورزیوں کو تسلیم کیا، اور ایمریٹس آئی سی سی ایلیٹ پینل کے میچ ریفری ڈیوڈ بون کی طرف سے تجویز کردہ سزاؤں کو قبول کیا، اس لیے رسمی سماعتوں کی ضرورت نہیں پڑی۔ میدان کے امپائر اسف یعقوب اور مائیکل گوگھ، تیسری امپائر رچرڈ ایلنگورتھ اور چوتھے امپائر فیصل آفریدی نے الزامات عائد کیے۔ سطح 1 کی خلاف ورزیوں پر کم از کم سزا ایک سرکاری سرزنش، کھلاڑی کی میچ فیس کا 50 فیصد تک جرمانہ اور ایک یا دو ڈی میرٹ پوائنٹس ہو سکتی ہے۔