کرپٹو کرنسی: مالیاتی نظام کا مستقبل یا ایک خطرناک جوا؟

کرپٹو کرنسی، خاص طور پر بٹ کوائن، نے عالمی مالیاتی نظام میں انقلاب برپا کر دیا ہے مگر اس کی اتار چڑھاؤ والی نوعیت خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ 2009 میں ستوشی ناکاموتو نے بٹ کوائن تخلیق کیا، جس کی قیمت اس سال ایک لاکھ ڈالر سے بھی اوپر جا پہنچی ہے اور دنیا بھر میں 5,300 سے زیادہ کرپٹو کرنسیز گردش کر رہی ہیں۔ تاہم، اس کی غیر مرکزی نوعیت اسے دھوکہ دہی کا شکار بناتی ہے، کیونکہ کوئی مرکزی ادارہ اس کی قیمت کو مستحکم نہیں کرتا۔ ایپلیکیشنز کے ذریعے کرپٹو کرنسی کا لین دین ہوتا ہے، جو بلاک چین نیٹ ورک سے جڑا ہوتا ہے۔ ایل سلواڈور جیسے ممالک میں اسے قانونی حیثیت حاصل ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ روایتی کرنسیز اور قیمتی دھاتوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس کے غیر قانونی ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری میں خطرات ہیں اور اس سے متعلق کوئی قانونی دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 60 فیصد اضافہ

پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے 2024 میں 60 فیصد کا شاندار اضافہ ریکارڈ کیا ہے، لیکن اس کی وجہ ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف ملک کو کم زرِ مبادلہ کے ذخائر، قرضوں کا بوجھ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سست اقتصادی شرح نمو کا سامنا ہے، تو دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ کی مسلسل ترقی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ صورتحال بظاہر متضاد نظر آتی ہے۔ ملک کی معاشی مشکلات کے باوجود اسٹاک ایکسچینج میں یہ زبردست اُتار چڑھاؤ کیسے ممکن ہوا؟ کیا یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کی نشانی ہے یا کچھ اور؟ اس بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے کیا راز چھپے ہیں، جو پاکستان کے مستقبل کو شکل دینے والے ہو سکتے ہیں؟
تھائی لینڈ نے میانمار سے 260 انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کو بازیاب کرا لیا

تھائی لینڈ کی فوج نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ اس نے میانمار سے 260 انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کو بازیاب کر لیا ہے، جن میں سے نصف سے زائد افراد ایتھوپیا کے شہری ہیں۔ یہ بازیابی ایک بڑے آپریشن کا حصہ ہے جو میانمار اور تھائی لینڈ کے درمیان موجود سرحدی علاقے میں سرگرم غیر قانونی اسکیموں کے خلاف جاری مہم کا حصہ ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز کے مطابق جنوبی ایشیا کے یہ اسکام سینٹرز تقریبا کئی سالوں سے سرگرم ہیں اور ان میں انسانی اسمگلنگ کے ذریعے ہزاروں افراد کو غیر قانونی آن لائن آپریشنز میں مجبور کیا جاتا ہے جن سے اربوں ڈالرز کی کمائی ہو رہی ہے۔ ان غیر قانونی آپریشنز میں بڑی تعداد میں افراد کو بے رحمی سے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے خاص طور پر تھائی لینڈ اور میانمار کے سرحدی علاقوں میں۔ تھائی فوج نے بیان میں کہا کہ اس گروہ کو چیک کرنے اور ان کی قومیت کی تصدیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں 20 مختلف قومیتوں کے افراد شامل ہیں جن میں 138 ایتھوپیا کے شہری ہیں۔ ان افراد کو جب میانمار کے شہر میاواڈی سے واپس بھیجا گیا تو ان کو تھائی لینڈ کے سرحدی علاقے کی موئی دریا سے گزر کر فوجی گاڑیوں میں منتقل کیا گیا جہاں فوجی اہلکار ان کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی روانگی کو یقینی بناتے تھے۔ تھائی لینڈ نے اس ماہ کے شروع میں میانمار کے ان علاقوں میں بجلی، ایندھن اور انٹرنیٹ کی فراہمی کو محدود کر دیا تھا جہاں یہ غیر قانونی سکیمز چل رہی تھیں۔ اس قدم کا مقصد ان سکام سینٹرز پر دباؤ ڈالنا تھا جو کہ بین الاقوامی سطح پر تھائی لینڈ کی سیاحتی صنعت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا تھا جب چینی اداکار وانگ سنگ کو تھائی لینڈ میں اغوا کر لیا گیا تھا۔ انہیں بعد ازاں تھائی پولیس نے میانمار سے بازیاب کیا۔ اس واقعے نے تھائی حکام کو انسانی اسمگلنگ کے خلاف اپنی کارروائیوں میں مزید شدت لانے پر مجبور کیا ہے۔ تھائی فوج نے یہ بھی بتایا کہ میانمار کی ایک مقامی مزاحمتی جماعت “ڈیموکریٹک کیرن بدھسٹ آرمی” کے اہلکاروں نے ان 260 افراد کو کھوج کر واپس بھیجا جنہیں ‘غیر قانونی کاروباروں’ میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ تھائی لینڈ اور میانمار کے سرحدی علاقے میں جاری انسانی اسمگلنگ کی یہ صورت حال انتہائی پیچیدہ ہے جہاں انسانوں کی اسمگلنگ کے گھناؤنے کاروبار سے کئی زندگیوں کو برباد کیا جا رہا ہے۔ ان کارروائیوں کی کامیابی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ دنیا بھر میں اس طرح کے غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ مزید پڑھیں: حماس اسرائیل کے مزید تین یرغمالی رہا کرنے پر آمادہ
نیوزی لینڈ سکواڈ کا ایک کھلاڑی چیمپیئنز ٹرافی سے باہر: اب کیوی ٹیم کا حصہ کون ہو گا؟

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں تاریخ گزرنے کے بعد ٹیکنیکل کمیٹی کی مدد سے پہلی تبدیلی ہو گئی ہے۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ٹیکنیکل کمیٹی نے نیوزی لینڈ کے جیکب ڈفی کو بین سیئرز کے متبادل کے دور پر نیوزی لینڈ ٹیم میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے۔ جیکب ڈفی کو بین سیئرزکی ہیمسٹرنگ انجری کی وجہ سےباہر ہونے کے بعد متبادل کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔جیکب ڈفی نے 10 ون ڈے کھیل رکھے ہیں۔ اب سے ایونٹ کے اختتام تک کسی بھی کھلاڑی کی تبدیلی کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی کی منظوری ضروری ہوگی۔ ٹیکنیکل کمیٹی میں آئی سی سی کے جنرل مینیجر وسیم خان، آئی سی سی عبوری ہیڈ آف ایونٹ سارا ایڈلر اور پی سی بی کے عثمان واہلہ اور آزاد نمائندوں کی ٹیم کے شان پولاک چار لوگ شامل ہیں۔ خیال رہے کہ 1996 کے بعد پاکستان میں ہونے والا پہلا یہ عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ ہے جو 19 فروری سے پاکستان کے تین شہروں سمیت کراچی لاہور راولپنڈی کے ساتھ دبئی میں شروع ہوگا۔ اس سال ٹورنامنٹ میں آٹھ ٹیموں کی شرکت ہے۔ دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر گروپ کی دو ٹاپ سیمی فائنل میں پہنچیں گی۔
حماس اسرائیل کے مزید تین یرغمالی رہا کرنے پر آمادہ

اسرائیل کی جانب سے دوبارہ جنگ بندی معاہدے پر عمل شروع کرنے کے بعد حماس نے اسرائیل کے تین یرغمالیوں کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسرائیل ملٹری کے سابق ترجمان جوناتھن کونرکس نے آسٹریلین نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم فلسطینیوں کیلئے بھجوائی جانے والی طبی امداد اور خوراک کی سپلائی نہیں روک رہے ہیں۔ اس سے قبل ثالثوں کو اس وقت صورت حال سنبھالنے کے لیے کوششیں کرنی پڑیں جب دونوں فریقوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور جنگ بندی ختم کرنے دھمکیاں سامنے آئیں۔ حماس کے ترجمان عبداللطیف القنوع کا کہنا ہے کہ ہم غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہماری دلچسپی اسرائیل کے ساتھ اس معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کرنے میں ہے۔ قنوع کے بقول ان کے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دھمکیوں اور دباؤ کی زبان پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ اس سے جنگ بندی پر عمل درآمد میں مدد نہیں ملے گی۔ یاد رہے کہ حماس نے اس ہفتے کے شروع میں اسرائیل سے غزہ میں لوگوں پر فضائی حملے جاری رکھے ہیں اور امداد روکی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا تھا کہ اس صورت حال میں وہ یرغمالوں کی رہائی روک دیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل 1947 سے فلسطینی سرزمین پر قابض ہے، اس سے قبل نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران حماس نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 100 کے لگ بھگ یرغمال آزاد کر دیئے تھے۔ پندرہ ماہ تک مسلسل جاری رہنے والی لڑائی میں وزارت صحت کے مطابق 48 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے جبکہ غزہ کی پٹی کا بڑا حصہ بمباری میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور 23 لاکھ آبادی کا بڑا حصہ کئی بار بے گھر ہو چکا ہے۔
ٹرمپ کا روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے سہ فریقی مذاکرات کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک زبردست اعلان کرتے ہوئے روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سہ فریقی مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں اس جنگ کے خاتمے کے لیے مختلف ممالک کی جانب سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا، روس اور یوکرائن کے حکام ایک تاریخی سیکیورٹی کانفرنس کے دوران میونخ میں مذاکرات کریں گے جس کا مقصد جنگ بندی اور اس خونریز تنازعے کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ خبریں عالمی سیاست کے میدان میں سنسنی کا باعث بن گئیں ہیں کیونکہ جنگ کے دو بڑے فریقین، روس اور یوکرائن، نے اب تک اس حوالے سے کسی بھی رسمی بات چیت کی تصدیق نہیں کی تھی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں جلد ہی اہم پیشرفت کی توقع ہے اور ان کا عزم ہے کہ اس تنازعے کا کوئی پائیدار حل نکالا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرائنی صدر ولادیمر زیلنسکی سے جلد ہی ملاقاتیں متوقع ہیں۔ اس دوران امریکی صدر نے روسی صدر پوتن کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی تھی جس کے بعد انہوں نے یوکرائنی صدر زیلنسکی کو آگاہ کیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے حوالے سے بات چیت شروع ہو چکی ہے۔ زیلنسکی نے اس پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ‘امریکا کی طاقت’ اس تنازعے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے اس بات کی وضاحت کی کہ صدر ٹرمپ کی کوششیں کسی طور بھی یوکرائن کے ساتھ غداری نہیں ہیں، بلکہ یہ عالمی امن کی جانب ایک سنجیدہ قدم ہے۔ عالمی سطح پر چین نے امریکا اور روس کے درمیان مواصلات میں اضافے پر خوشی کا اظہار کیا ہے جب کہ جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریس نے ٹرمپ کے اقدامات کو ‘افسوسناک’ قرار دیا ہے۔ روس اور یوکرائن کے درمیان دو سال سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ میں اب تک 66,000 سے زائد روسی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور گزشتہ چار ہفتوں میں مزید 4,600 روسی اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاعات آئی ہیں۔ روسی میڈیا کے مطابق اس دوران 230 قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا گیا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم ہونے کی ایک چھوٹی سی امید جگی ہے۔ یقینا یہ اعلان عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی روس اور یوکرائن اس بات چیت کو ایک پائیدار حل کے طور پر قبول کریں گے؟ یہ وقت بتائے گا کہ کیا ٹرمپ کی سفارتکاری عالمی امن کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوتی ہے، یا پھر یہ بھی ایک اور ناکامی بن کر رہ جائے گی۔ مزید پڑھیں: امریکا اور انڈیا تباہی کے منصوبوں پر عمل پیرا، ٹرمپ کا مودی کو ایف 35، اربوں ڈالرز کا جنگی سازوسامان دینے کا اعلان
’ریفرنس جب آئے گا تب دیکھی جائے گی‘ جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریفرنس کے حوالے سے اہم بیان دیا ہے جس سے ملکی سیاسی اور عدلیہ کے معاملات میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے. سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تقریب حلف برداری کے دوران صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “ریفرنس جب آئے گا تب دیکھی جائے گی، جب کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہونا؟ اللہ مالک ہے۔” اس موقع پر صحافیوں نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے بعض ججز کے کام کرنے کے حوالے سے شکوک ہیں، جس پر جسٹس منصور نے چیلنج کیا کہ “مقدمات نمٹانے کی شرح دیکھ لیں، کس کے کتنے فیصلے قانون کی کتابوں میں شائع ہوئے، سب کچھ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ تمام ججز کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ ہیں اور کسی کے ساتھ ذاتی عناد یا اختلاف نہیں، مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جو چھپائی نہیں جا سکتیں۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللّٰہ نے دعویٰ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کے طرز عمل کی بنا پر ان کے خلاف ریفرنس بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم سینیٹر عرفان صدیقی نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا ججز کے خلاف کوئی ریفرنس بھیجنے کا ارادہ نہیں ہے۔ جسٹس منصور کا یہ بیان کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ کیا حکومت عدلیہ کے خلاف کوئی قدم اٹھانے جا رہی ہے؟ کیا یہ اختلافات عدلیہ میں بڑھتے ہوئے تنازعات کا اشارہ ہیں؟ ان سوالات کے جواب میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ ملک کی عدلیہ کی اندرونی سیاست میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کے 7 نئے ججز نے حلف اٹھا لیا
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے انعامات کا اعلان، جیتنے والی ٹیم کو کتنی رقم دی جائے گی؟

چیمپئنز ٹرافی 2025 کا آغاز ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں ہونے جا رہا ہے، اور کرکٹ کے چاہنے والے اس ایونٹ کے لیے بے حد پرجوش ہیں۔ اس بار یہ عالمی ایونٹ پاکستان کے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔ یہ ایونٹ خاص طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ پاکستان کی ٹیم گزشتہ بار کی چیمپئن ہے اور اب دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر میدان میں اترے گی۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ایک شاندار انعامی رقم کا اعلان کیا ہے جو پچھلے ایڈیشن کے مقابلے میں 53 فیصد زیادہ ہے۔ اس ایونٹ کا فاتح 22 لاکھ 40 ہزار امریکی ڈالر کی انعامی رقم کے ساتھ ٹرافی اپنے نام کرے گا۔ یہ رقم 2017 کے ایڈیشن کے فاتح پاکستان کے لیے ملنے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے، جب پاکستان کو 2.2 ملین ڈالر کا انعام ملا تھا۔ اس کے علاوہ رنرز اپ ٹیم کو 11 لاکھ 20 ہزار ڈالر ملیں گے اور سیمی فائنلز میں شکست کھانے والی دونوں ٹیموں کو 5 لاکھ 60 ہزار ڈالر فی ٹیم ملیں گے۔ اس طرح کل انعامی رقم 69 لاکھ ڈالر رکھی گئی ہے جو کسی بھی کرکٹ ایونٹ کے لیے ایک تاریخی رقم ہے۔ پاکستان کو اس ایونٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے 1996 میں پاکستان نے ورلڈ کپ اور 2008 میں ایشیا کپ کی میزبانی کی تھی، لیکن اب تقریباً 17 سال بعد پاکستان کو آئی سی سی کا کوئی بڑا ایونٹ میزبانی کرنے کا موقع ملا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے میچز 19 فروری سے 9 مارچ کے درمیان کھیلے جائیں گے، اور ان میچز کا سنسنی خیز مقابلہ کرکٹ کے شائقین کو بے حد محظوظ کرے گا۔ پاکستان کے لیے چیلنج یہ بھی ہے کہ انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے اپنے حکومت کے فیصلے کے تحت پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا۔ انڈیا اپنے تمام میچز دبئی میں کھیلے گا، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شائقین کی منتظر کرکٹ کی جنگ اس بار دبئی میں ہو گی۔ حالانکہ گزشتہ برس بھارت نے پاکستان میں ہونے والے ایشیا کپ کے لیے بھی سفر کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور ہائبرڈ ماڈل کے تحت بھارت کے تمام میچز سری لنکا میں کھیلے گئے تھے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کی میزبانی کرنے والے اسٹیڈیمز کراچی، لاہور اور راولپنڈی ہیں، جن میں ہر اسٹیڈیم پر تین گروپ میچز کھیلے جائیں گے۔ کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم، لاہور کا قذافی اسٹیڈیم، اور راولپنڈی کا انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم ان میچز کے لیے تیار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اسٹیڈیمز میں شائقین کرکٹ کا جوش و خروش عروج پر ہوگا، اور ان شہروں میں کرکٹ کی جیت کے جشن کا ماحول بنے گا۔ پاکستان کی ٹیم اس ایونٹ میں اپنے دفاعی چیمپئن ہونے کا اعزاز لے کر اترے گی۔ 2017 میں پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی، اور اس کامیابی نے کرکٹ کے عالمی منظرنامے پر پاکستان کا مقام مزید مستحکم کیا۔ اب جب کہ پاکستان کی ٹیم ہوم گراؤنڈ پر کھیلے گی، ان کے شائقین کی حمایت بھی بہت زیادہ ہوگی جو ٹیم کے حوصلے کو بلند کرے گی۔ اس ایونٹ میں 8 عالمی ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں اور اس بار فائنل کے روز چیمپئن کا فیصلہ انتہائی سنسنی خیز ہوگا۔ اس کے علاوہ، انعامی رقم میں ہونے والا اضافہ کرکٹ کی دنیا کے بڑے ایونٹس میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔ شائقین کرکٹ کو اس ایونٹ کا شدت سے انتظار ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس مرتبہ پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا مقابلہ ثابت ہو گا۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کا ایونٹ پاکستان کے کرکٹ کی تاریخ کا ایک بڑا اور شاندار لمحہ ہوگا۔ اس میں شائقین کرکٹ کے لیے بے شمار دلچسپ میچز، شاندار انعامی رقم اور سنسنی خیز مقابلے ہوں گے۔ پاکستانی ٹیم کے لیے یہ ایونٹ نہ صرف اپنے دفاعی چیمپئن ہونے کا موقع ہے، بلکہ اس کے لیے ایک بڑا اعزاز بھی ہے کہ وہ اپنے ہوم گراؤنڈ پر کرکٹ کے اس عالمی ایونٹ کی میزبانی کر رہا ہے۔ اب بس ایک ہفتہ اور، اس کرکٹ میلے کا آغاز ہونے والا ہے، جس کا ہر لمحہ شائقین کرکٹ کے لیے خوشی اور جوش کا باعث بنے گا۔ مزید پڑھیں: “مجھے کنگ کہنا بند کریں” جنوبی افریقہ کے خلاف تاریخی جیت کے بعد بابر اعظم کی شائقین سے گزارش
اسرائیلی وزیراعظم کا بیان توہین آمیز‘ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان

پاکستان نے اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ کی طرح ریاض کے ساتھ کھڑا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ ترکیہ کے صدر نے قبرص کے معاملے پر پاکستان کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ کے صدر کے دورے کے دوران 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ دورے کے دوران دونوں سربراہان مملکت کی سربراہی میں ترکیہ پاکستان اسٹرٹیجک کونسل کا ساتواں اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اسرائیلی وزیراعظم کے حالیہ بیان کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کا بیان غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سعودی عرب سے مکمل اظہار یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاض کے فلسطین پر غیر متزلزل مؤقف کو کمزور کرنے اور اس کے فلسطینی نصب العین کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوئی بھی کوشش انتہائی افسوس ناک ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی ٹی چینل 14 کو ایک انٹرویو کے دوران فلسطینیوں کی خودمختاری کے کسی تصور کو مسترد کرتے ہوئے ان کے اپنے وطن کی بجائے سعودی عرب میں ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔
ٹرمپ کا مودی کو ایف 35، اربوں ڈالرز کا جنگی سازوسامان دینے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی ایک اہم ملاقات کے دوران ایک تاریخ ساز دفاعی معاہدے پر بات چیت کی گئی۔ اس معاہدے کے تحت امریکا انڈین کو اربوں ڈالرز مالیت کا جدید اسلحہ فراہم کرے گا جس میں ایف-35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹ کی فراہمی بھی شامل ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “ہم اس سال سے انڈین کو اسلحہ فروخت بڑھا دیں گے، جس میں ایف-35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹس بھی شامل ہوں گے۔” ایف-35 جیٹ ایک جدید ترین جنگی طیارہ ہے جو دنیا کے چند منتخب ممالک کو ہی فراہم کیا جاتا ہے جن میں اسرائیل، جاپان، اور نیٹو کے رکن ممالک شامل ہیں۔ انڈیا کے لیے اس طیارے کا حصول ایک بڑی کامیابی ثابت ہو گا کیونکہ یہ اسے عالمی سطح پر اپنے دفاعی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اس ملاقات میں انڈیا اور امریکا نے اپنے دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اہم اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک “انتہاپسند اسلامک دہشت گردی” کے خلاف مشترکہ طور پر کام کریں گے اور اس کے تدارک کے لیے نئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ یہ معاہدہ صرف فوجی تعلقات کو مستحکم کرنے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں توانائی کے شعبے میں بھی تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ انڈیا کے لیے امریکی تیل اور گیس کی درآمدات بڑھانے کی بات کی گئی تاکہ امریکا کا تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے اس معاہدے کو انڈیا کی فوجی جدید کاری کے ایک اہم قدم کے طور پر سراہا۔ انڈیا کی فوجی جدید کاری کے لیے امریکا سے دفاعی سازوسامان کی خریداری گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے اور 2008 سے لے کر اب تک بھارت نے امریکی دفاعی مصنوعات پر 20 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں۔ اس کے علاوہبھارت نے 2024 میں 31 MQ-9B SeaGuardian اور SkyGuardian ڈرونز خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے جس پر چھ سال سے زائد بات چیت جاری تھی۔ یہ بھی پڑھیں: امید ہے عرب ممالک غزہ پر ٹرمپ کو اچھا منصوبہ پیش کریں گے: امریکا امریکا اور انڈیا کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ ایک اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ امریکا انڈیا کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ دونوں ممالک ‘کواڈ’ سیکیورٹی معاہدے کے رکن ہیں جس میں جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد چین کے اثرات کو محدود کرنا اور ایشیا کے علاقے میں طاقت کا توازن قائم رکھنا ہے۔ انڈیا اور چین کے درمیان 3,488 کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کے سبب 2020 میں خونریز جھڑپیں ہو چکی ہیں، جن میں 20 سے زائد بھارتی فوجی شہید ہو گئے تھے۔ انڈیا کے لیے جدید ترین اسلحہ کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے طاقتور فوجی صلاحیتیں حاصل کرے۔ ماضی میں انڈیا کا دفاعی سامان کا سب سے بڑا سپلائر روس تھا، مگر یوکرین جنگ اور اس کے نتیجے میں روس پر عائد عالمی پابندیوں نے انڈیا کو امریکا کی طرف مائل کر دیا ہے۔ انڈیا کے لیے امریکی دفاعی سامان کی خریداری ایک نئی حکمت عملی کے تحت کی جا رہی ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر اپنے دفاعی تعلقات کو متوازن اور مستحکم کرنا ہے۔ اس معاہدے کی کامیابی میں ایک اور عنصر دونوں رہنماؤں کی ذاتی دوستی بھی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مودی کو ‘ایک سخت ترین مذاکرات کار’ قرار دیا اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات چیت کرنے کے دوران ہمیشہ بہت چیلنجنگ ثابت ہوئے۔ وزیرِ اعظم مودی نے ٹرمپ کو اپنا ‘دوست’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں بھی وہ ‘میک امریکا گریٹ اگین’ کی طرح کا نعرہ لگائیں گے۔ امریکا اور انڈیا کے درمیان اس معاہدے سے دفاعی تعلقات میں ایک نیا باب کھلنے جا رہا ہے۔ ایف-35 جےٹس کا معاہدہ انڈیا کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے جو اسے عالمی سطح پر اپنی دفاعی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا موقع دے گا۔ اس کے علاوہ امریکا کی مدد سے انڈیا اپنی فوجی جدید کاری کے منصوبے کو بھی کامیابی سے عملی جامہ پہنا سکے گا جو اسے چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے مقابلے میں برتری حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ مزید پڑھیں: امریکا سے 120 تارکین وطن ملک بدر، کتنے پاکستانی شامل ہیں؟