کار سرکار میں مداخلت،یوسف گیلانی کے چاروں بیٹوں کے وارنٹ جاری

وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے پولیس تھانہ چہلیک کو ملزموں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے

ملتان میں کورونا وبا کے دوران آرڈیننس کی مد میں کار سرکار میں مداخلت کے معاملہ پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے عدالتی حکم عدولی پر ممبران قومی اسمبلی عبد القادر گیلانی ، علی قاسم گیلانی، علی موسی ٰگیلانی اور ممبر صوبائی اسمبلی علی حیدر گیلانی سمیت پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے سمیت دیگر کے وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے ہیں۔   جوڈیشل مجسٹریٹ شاہد حسن مغل نے عدالتی حکم پر چاروں ارکان اسمبلی سمیت دیگر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے پولیس تھانہ چہلیک کو ملزموں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔   عدالت نے سابق ایم پی اے عثمان بھٹی ، نفیس انصاری ، خالد حنیف لودھی ، منظور قادر ، آصف رسول اعوان ، عارف شاہ، رضوان ہانس ، شاہد رضا صدیقی ، رانا سجاد حسین ، کلثوم ناز بلوچ ، شیخ ہاشم رشید ، نسیم لابر ، راؤ ساجد علی، اے ڈی بلوچ ،ایم سلیم راجہ ،عبد الرئوف لودھی و دیگر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔   پولیس تھانہ چہلیک میں ملزموں پر آرڈیننس کی خلاف ورزی اور کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج تھا ،ملزم بار بار عدالتی حکم کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر انہیں گرفتار کر کے پیش کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔    

حکومتی دعوے اور زمینی حقائق: چینی کی قیمتیں کنٹرول سے باہر کیوں؟

پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ چینی جو کبھی 100 روپے فی کلو سے کم میں دستیاب تھی اب 160 روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے متعدد دعوے کیے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔ ہر سال کرشنگ سیزن کے دوران چینی کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن جون، جولائی کے مہینوں میں ذخیرہ اندوز چینی کو مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں تاکہ مصنوعی قلت پیدا کی جا سکے اور قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ شوگر مافیا منظم طریقے سے چینی کو ذخیرہ کرکے زیادہ منافع کما رہا ہے جبکہ عام صارفین اس مہنگائی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق بڑے گوداموں میں ہزاروں ٹن چینی ذخیرہ کی جاتی ہے، جب قیمت 120 سے 130 روپے فی کلو سے بڑھنا شروع ہوتی ہے تو یہ چینی دوبارہ مارکیٹ میں لائی جاتی ہے جس سے منافع خوروں کو بھاری فائدہ ہوتا ہے۔ چینی کی بڑھتی قیمتوں کی ایک اور بڑی وجہ گنے کی کم پیداوار اور شوگر ملز کی پالیسی ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان وحید چوہدری کے مطابق “ملک میں گنے کی پیداوار میں کمی بھی چینی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ رواں سیزن میں کئی کاشتکاروں نے دوسرے فصلوں کی طرف رجحان بڑھا دیا کیونکہ انہیں گنے کی مناسب قیمت نہیں مل رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں چینی کی پیداوار کم رہی جس نے مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا کیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “شوگر ملز بھی کرشنگ سیزن کو تاخیر سے شروع کرتی ہیں تاکہ چینی کی قیمتیں پہلے سے زیادہ بڑھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے حکومت کو شوگر ملز کی سرگرمیوں پر مزید نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ چینی کی برآمدات اور درآمدات پالیسی بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی کی برآمد کو محدود رکھتی، تو قیمتیں اتنی زیادہ نہ بڑھتیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چینی کی برآمد پر فوری پابندی لگا کر مقامی مارکیٹ میں چینی کی سپلائی کو بہتر بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ چینی کی قیمتوں پر عالمی منڈی اور ڈالر کی قیمت میں اتارچڑھاؤ کا بھی اثر پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر چینی کی قیمت میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت میں استحکام نہ ہونے کی وجہ سے درآمدی چینی مزید مہنگی ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری جانب چینی کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہری کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ کراچی میں چینی کی قیمت 160 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے، جس پر شہری شدید پریشان ہیں۔ پنجاب میں بھی چینی مہنگی ہو چکی ہے جس کے باعث روزمرہ گھریلو بجٹ متاثر ہوا ہے۔ پشاور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ چینی کی بڑھتی قیمتوں سے ان کی ماہانہ اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ تنخواہیں وہی پرانی ہیں۔ ایک شہری کی شکایت ہے کہ “اب تو چائے پینے کے لیے بھی دو بار سوچنا پڑتا ہے۔ پہلے سبزیاں مہنگی ہوئیں، اب چینی بھی پہنچ سے باہر ہے۔ آخر ہم جائیں تو جائیں کہاں؟” علاوہ ازیں گھریلو خواتین کا کہنا ہے کہ “چینی کے بغیر ناشتہ مکمل نہیں ہوتا، بچوں کی روٹین خراب ہو رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قیمتیں کم کرے تاکہ عام آدمی آسانی سے چینی خرید سکے۔” ادھر تاجروں کا موقف ہے کہ “ہم بھی مہنگی چینی خرید کر بیچ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور؟ اگر چینی سستی نہیں ہوگی، تو عوام کیسے سستی خریدیں گے؟” دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات عالمی منڈی میں قیمتوں کا بڑھنا، ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ اور موسمی حالات ہیں، جن پر حکومت کا براہ راست کنٹرول نہیں ہے۔ شوگر ملز مالکان کی تاخیری پالیسی اور ذخیرہ اندوز عناصر بھی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ دار ہیں، جن کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت نے مختلف شہروں میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن کیے، لاکھوں ٹن چینی برآمد کی، اور چینی کی برآمد پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے تاکہ مقامی مارکیٹ میں استحکام لایا جا سکے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ رمضان کے دوران عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی پر سبسڈی فراہم کر رہی ہے اور سستا بازار اسکیم کے تحت کم قیمت پر چینی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاہم عوام کی شکایات برقرار ہیں کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی دستیاب ہی نہیں یا محدود مقدار میں دی جا رہی ہے، جبکہ عام بازار میں قیمتیں قابو سے باہر ہو چکی ہیں۔ رمضان میں چینی کی مانگ کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ افطار اور سحری میں شربت، چائے اور دیگر اشیاء میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، جبکہ بازاروں میں مٹھائی، جوس اور دیگر مصنوعات کی تیاری میں بھی چینی کی کھپت بڑھنے سے قلت مزید سنگین ہو جاتی ہے۔ حکومتی مؤقف کے برعکس عوام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات صرف دعوؤں تک محدود ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے چینی خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ چینی کے حالیہ بحران کی وجوہات میں ذخیرہ اندوزی، حکومتی پالیسیوں کی کمزوری، اور عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ شامل ہیں۔ شوگر مافیا کے خلاف کارروائیاں وقتی طور پر قیمتوں میں کمی لا سکتی ہیں لیکن مستقل استحکام کے لیے طویل مدتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ چینی کی برآمدات پر عارضی پابندی، کسانوں کو بروقت ادائیگیاں اور منصفانہ قیمتوں کا تعین اس بحران کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر شفاف مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرائیں تو قیمتوں کو مستحکم رکھا