وول وچ فیری سروس ،برطانوی تاریخ کو ٹیکنالوجی سے جوڑتا ثقافت اور جدت کا مظہر

وول وچ فیری کی تاریخ 19 ویں صدی سے جڑی ہوئی ہے، جب اس نے لندن کی ثقافت اور ٹیکنالوجی کے سنگم کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ فیری نہ صرف لندن کی تاریخی شان کا حصہ بن چکا ہے بلکہ اس کی سروس آج بھی شہر کے لاکھوں افراد کے لیے ضروری کردار ادا کرتی ہے۔ لندن کی یہ اہم سفری خدمت، جو ٹیمنز دریا پر چلتی ہے، آج بھی لوگوں کو شہر کے مختلف حصوں میں تیز رفتاری سے منتقل کرتی ہے۔ یہ فیری صرف نقل و حمل کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک تاریخی یادگار ہے جو لندن کی جدیدیت اور ماضی کے حسین امتزاج کو ظاہر کرتی ہے، اور شہر کے دل میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
عمران ریاض ہیرو بننے کے لیے خود گرفتار ہوا: شیر افضل مروت

پی ٹی آئی رہنماؤں اور حمایتیوں میں اختلافات کے بعد انکشافات اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق پے ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ علی امین گنڈا پور نے مجھے بتایا کہ عمران ریاض مجھ سے مائنز کا ٹھیکہ مانگتا تھا۔ جب بھی میں جاتا ہوں تو یہ سی ایم ہاؤس میں بیٹھا ہوتا تھا۔ اور یہ بھی کہ عمران ریاض ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ہیرو بننے کے لیے گرفتار ہوا، نہ ہی اس کی زبان زخمی ہوئی اور نہ زبان کا کہیں علاج ہوا۔ عمران ریاض خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران ریاض کا میں نے کافی عرصہ احترام کیا۔ شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور کے مطابق عمران ریاض، فیض حمید کا دست راست تھا اور پی ٹی آئی کے دور میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت گہرے تعلقات تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور کے مطابق فیض حمید نے عمران ریاض کو چکوال میں چھ سو کنال زمین دلوائی۔جہاں اس نے اپنا محل بنایا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی ہدایت پر شیر افضل مروت کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا۔ اس کے جواب میں شیر افضل مروت نے سوشل میڈیا پر طویل تحریر لکھی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی اگر خود سے مجھ سے متعلق فیصلے پر نظر کرے، تو ٹھیک ورنہ میں اپنے لیے کوئی رعایت نہیں مانگوں گا اور پارٹی کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اسے قبول کروں گا۔
غزہ میں تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 369 فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جا رہا ہے اور خان یونس میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا ہے۔ خان یونس میں آئی سی آر سی کے حوالے کیے جانے والے قیدیوں میں الیگزینڈر ٹروفانوو، سگی ڈی کل-چین اور یائر ہورن شامل ہیں، جو اچھی جسمانی حالت میں نظر آئے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ہفتے اسرائیل کے ساتھ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے غیر براہِ راست مذاکرات کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ رہائی ایک بڑے معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات اور معاہدے کی باتیں جاری ہیں، جنہیں دونوں طرف کی حکومتیں اپنے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم، اس معاہدے میں کئی رکاوٹیں آئی ہیں، جن میں سب سے بڑی رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی ہے۔ اسرائیل نے امدادی سامان کی فراہمی کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے اور غزہ کی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی کوششوں کی بدولت، جیسے کہ مصر اور قطر کے توسط سے امداد کی فراہمی میں تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم، اسرائیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک قیدیوں کا مکمل تبادلہ نہیں ہوتا وہ غزہ میں تعمیر نو کے سامان کی فراہمی نہیں کرے گا۔ غزہ میں ابھی تک تعمیراتی سامان جیسے کہ موبائل گھر اور بھاری مشینری، مصر کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں جس سے امدادی کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ غزہ کے اندر صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ جنگ کے نتیجے میں غزہ کی زمین ملبے میں بدل چکی ہے اور ہزاروں لوگ اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا مودی کو ایف 35، اربوں ڈالرز کا جنگی سازوسامان دینے کا اعلان فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں 48,239 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ 111,676 افراد زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی پتا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گازہ کے علاقے میں بارودی سرنگوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے خبردار کیا ہے کہ جنگی ساز و سامان کی ایک بڑی تعداد ناکام ہو کر گازہ کی زمین پر پڑی ہوئی ہے جس سے زندگی کو مزید خطرات لاحق ہیں۔ اس وقت غزہ میں بے شمار ایسے ہتھیار پڑے ہیں جن کی وجہ سے انسانی زندگیوں کے لیے شدید خطرات موجود ہیں۔ اس دوران اسرائیل نے ایک اور حملہ کیا جس میں 15 سالہ انیس صقر النبہین کی موت واقع ہوئی۔ یہ حملہ بُریج کیمپ پر کیا گیا تھا جو ایک اور یاد دہانی ہے کہ جنگی معاہدے کی خلاف ورزیاں اب بھی جاری ہیں۔ آج کی اس صورتحال میں جب ایک طرف قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری ہے، دوسری طرف جنگ کی حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں کہ غزہ کی آزادی اور امن کا راستہ کتنی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ اس معاہدے کا دوسرے مرحلے کا آغاز اگلے ہفتے متوقع ہے جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ غزہ کے لیے یہ لمحہ بہت مشکل ہے اور عالمی برادری کی نگاہیں اب اس بات پر ہیں کہ آیا یہ معاہدہ امن کے راستے کو ہموار کرے گا یا پھر اس کے بعد کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ مزید پڑھیں: یوکرائنی صدر کا جنگ بندی مذاکرات سے قبل سیکیورٹی گارنٹی کا مطالبہ
یوکرینی صدر کا جنگ بندی مذاکرات سے قبل سیکیورٹی گارنٹی کا مطالبہ

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے روس کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات سے قبل سیکیورٹی گارنٹی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ میونخ میں سیکیورٹی کانفرنس سے قبل صدر ٹرمپ سے مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی میٹنگ کرینگے جس کے بعد صرف روسی صدر پوٹن سے بات چیت کریں گے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی نے امریکی نائب صدر وینس کے ساتھ ملاقات کے دوران خونی جنگ کے خاتمے اور میونخ میں سیکیورٹی کانفرنس کے حوالے سے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک اور خطے میں امن چاہتے ہیں لیکن ہمیں قابل بھروسہ سیکیورٹی گارنٹی کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر امریکی نائب صدر وینس نے کہا کہ ٹرمپ حکومت روس اور یوکرین کے درمیان سالوں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ وینس کے مطابق ہم مزید قتل و غارت نہیں چاہتے ہیں، صدر ٹرمپ نے روسی صدر پوٹن کو فون کال کی جس میں امن مذاکرات کے متعلق بات چیت کی گئی جبکہ ٹرمپ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کو مذاکرات کی میز پر جگہ دی جائے گی۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلی کمشنر وولکر ترک کے مطابق جنگ سے یوکرین میں 8 ہزار 400 شہری مارے گئے اور 14 ہزار سے زخمی ہوئے ہیں۔ کمشنر وولکر کے مطابق یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں حیرت انگیز حد تک معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ خونی جنگ میں اب تک 8 ہزار 400 شہریوں کی اموات کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 14 ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے ہیں، لیکن یہ تعداد برف کے پہاڑ کا صرف دکھائی دینے والا رخ ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں لوگوں کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، اس سے تقریباً 1.6 ارب لوگوں کی زندگیوں اور معاش کو نقصان پہنچا ہے اور بہت سے ممالک میں استحکام کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔
مودی ٹرمپ ملاقات : پاکستان پر کیا اثرات پڑیں گے؟

جنوبی ایشیا کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی نظریں امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات پر جمی ہوئی تھیں۔ اس ملاقات سے بہت کچھ طے ہونا تھا اور اب خاصا کچھ سامنے آ چکا ہے۔ تجزیہ نگار اندازے لگا رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ صدر ٹرمپ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری بار جیتنے کے بعد ٹرمپ کو ٹرمپ 2 کے نام سے امریکی میڈیا میں یاد کیا جا رہا ہے/ اس بار وہ زیادہ جارحانہ، تباہ کن انداز سے آگے بڑھے ہیں۔ ٹرمپ امریکہ مخالفوں کے خلاف بھی بہت کچھ کریں گے ، سردست ان سے امریکہ کے اتحادی زیادہ پریشان ہیں۔ امریکی اتحادیوں پر وہ اس بار پوری شدت سے حملہ آور ہوئے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ کینیڈا اور میکسیکو پر وہ ایسی بے رحمی سے پچیس فیصد تک ٹیرف لگا دیں گے؟ پانامہ اور گرین لینڈ کے معاملے میں یوں کھلی دھمکیوں پر اتر آئیں گے۔ نہایت بے دید ہو کر ٹرمپ نے سعودی حکمرانوں کو پہلے کہا کہ پانچ سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کرو۔ سعودی حکومت نے چھ سو بلین ڈالر کی پیش کش تو ٹرمپ نے اچانک حقارت اور بے نیازی سے اسے مسترد کرتے ہوئے حکم صادر کیا کہ نہیں یہ کم ہیں، ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو۔ ان بے چاروں کو تائید کرنا پڑی کہ ممکن ہے ہم اس سے بھی زیادہ سرمایہ کاری کر ڈالیں۔ انڈیا بھی اس بار ٹرمپ کے نشانے پر تھا۔ ٹرمپ دراصل فیصلہ کر چکا ہے کہ اس بار اسے معیشت کو ترجیح بنانا ہے اور کسی ملک کو امریکہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دے گا۔ تجاری توازن بھی ٹھیک رکھے گا اور جو ملک امریکی مصنوعات پر ٹیرف لگائے گا، امریکہ بھی جواب میں ان پر ویسا ہی ٹیرف لگا دے گا۔ صدر ٹرمپ دو دن قبل یہ ایگزیکٹو آرڈر جاری کر چکے ہیں۔ نریندر مودی کو ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری میں نہیں بلایا تھا ۔ حالانکہ مخالف ہوتے ہوئے بھی چینی صدر کو دعوت دی تھی، وہ نہیں آئے ، ان کی جگہ نائب چینی صدر شریک ہوئے۔ مودی کو البتہ ٹرمپ نے اب دورہ امریکہ کے لئے مدعو کیا۔ وہ چوتھے ّّخوش نصیب ٗٗحکمران ہیں جنہیں ٹرمپ نے دعوت دی۔ ویسے دعوت کیا، ایک طرح سے سمجھیں کہ سمن دے کر بلایا ہے۔ جب ٹرمپ نے مودی سے فون پر بات کی تو کہا کہ انڈیا فیئر ٹیرف پالیسی بنائے۔ انڈین سوچتے رہے کہ کس طرح ٹرمپ کو راضی کریں۔ مودی جی اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ انہوں نے جانے سے پہلے کئی فیصلے کر ڈالے۔ امریکی مصنوعات پر ٹیرف ازخود نصف سے بھی کم کر دیا۔ جتنی ایک رعایت دے سکتے تھے، وہ پہلے ہی دے ڈالی۔ بھارت نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی مخالفت بھی نہیں کی ہے، وہ خاموش رہے۔ انڈین پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں یہ سوال اٹھایا گیا تو بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے جواب دینے ہی سے انکار کر ڈالا۔ دوسری طرف بھارت میں امریکی نیشنل سکھ شہری گرپتونت سنگھ پنوں پر قاتلانہ حملے کا الزام ایک بھارتی انٹیلی جینس افسر وکاش یادو پرلگایا گیا تھا۔ امریکی ادارے اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن کے دور میں امریکی یہ بات کرتے رہے مگر مودی حکومت اسے ٹال جاتی تھی۔ اب ٹرمپ کے ڈر سے چند دن پہلے بھارت نے معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک لیگل پینل کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ دراصل مودی حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے خوفزدہ ہے جو کہ امریکہ میں کسی بھی قسم کی نان سینس برداشت نہیں کریں گے۔ خیر ملاقات ہوگئی۔ ٹرمپ اور مودی جی نے آپس میں جپھا ڈالا، مسکرا مسکرا کر باتیں کیں، مشترکہ پریس کانفرنس بھی کر ڈالی۔ مودی تین بار بھارت کے وزیراعظم بن چکے ہیں، مگر وہ میڈیا سے بات چیت سے گریز کرتے ہیں، سولو پریس کانفرنس تو بالکل نہیں کرتے ، دوسرے حکمران کے ساتھ بھی مشترکہ پریس کانفرنس کم ہی کرتے ہیں۔ مودی نے ٹرمپ کے ساتھ البتہ پریس کانفرنس کی، دو سوالات کے جواب بھی دئیے۔ ایک سوال مودی سے ان کے کاروباری دوست گوتم ایڈانی کے حوالے سے کیا گیا جس پر امریکہ میں فراڈ کے کیسز چل رہے ہیں۔ مودی سوال ٹال گئے کہ میں نے اس بارے میں صدر ٹرمپ سے نہیں پوچھا ۔ ویسے ٹرمپ بھی بنگلہ دیش کے حوالے سے سوال ٹال گئے اور کہا کہ مودی بنگلہ دیش پر کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں، اس کا جواب وہ دیں۔ خیر مودی جی سے دوسرا سوال امریکہ سے نکالے گئے بھارتی شہریوں کے بارے میں کیا گیا جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں تھے۔ مودی نے کہا کہ ہم انہیں قبول کریں گے اور یہ امریکہ کا حق ہے وغیرہ وغیرہ۔ مودی جی نے ویسے خاصی چاپلوسی کا مظاہرہ کیا اور وقتافوقتاً ٹرمپ کو مکھن بھی لگاتے رہے۔ کہا کہ مجھے صدر ٹرمپ کی یہ بات پسند ہے کہ وہ امریکی عوام اور امریکہ کو پہلی ترجیح پر رکھتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ میں بھی بھارت اور بھارتی عوام کے لئے یہی چاہتا ہوں۔ مودی کا ایک خاص سٹائل ہے کہ وہ لفظوں کی ہیراپھیری سے اپنا پوائنٹ بنایا کرتے اور اس سے خود ہی لطف اٹھاتے ہیں۔ ان کے ٹیم والے ایسے تھکے ہارے جوکس شائد مجبور ہو کر بنایا کرتے ہیں ۔ اس پریس کانفرنس میں بھی مودی کہنے لگے کہ ٹرمپ کا نعرہ ہے، میک امریکا گریٹ اگین یعنی ماگا (MAGA)جبکہ میرا نعرہ ہے، میک انڈیا گریٹ اگین یعنی مِیگا(MIGA)تو جب انڈیا اور امریکہ مل کر کام کریں گے تو یہ ماگا اور مِیگا مل کر ہوجائے گا میگا (Mega)۔ اب یہ خاصا تھکا ہوا اور بے تکا جملہ ہے۔ ماگا اور می گا مل کر میگا کیسے بن جاتے ہیں ؟ پھر مودی کہنے لگے کہ ایک اور ایک دو نہیں بنتے بلکہ گیارہ بنتے ہیں۔ ان کا اشارہ مشہور ہندی، اردو محاورے کی طرف تھا۔ خیر ٹرمپ خوشامد سے خوش ہوتے ہیں، وہ مسکراتے رہے ، چہرہ تمتماتا رہا، مگر
سپیئرز آف وکٹری میں کامیاب شرکت کے بعد پاکستانی ائیرفورس دستے کی وطن واپسی

سپیئرز آف وکٹری 2025ء مشقوں میں کامیاب شرکت کے بعد پاکستان ائیرفورس کا دستہ سعودی عرب سے وطن واپس پہنچ گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان ائیر فورس کے دستے میں جے ایف 17 بلاک تھری لیڈ فائٹر ایئر کرافٹ، جنگی پائلٹس، تکنیکی عملہ شامل تھا۔ فائٹرز نے پاکستان سے سعودی عرب اور پھر واپسی کی نان سٹاپ پرواز کی، فضا میں ایندھن بھرنے کا مظاہرہ کیا گیا۔ فخر پاکستان جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری نے اپنی غیر معمولی آپریشنل صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ طیاروں کی آپریشنل صلاحیت اور تکنیکی صلاحیت کی وسیع پیمانے پر تعریف کی گئی۔ مشق میں امریکا، برطانیہ، فرانس سمیت دیگر ممالک کی افواج نے حصہ لیا، مقصد شریک فضائی افواج کے درمیان باہمی تعاون کی توثیق کرنا تھا۔ سپیئرز آف وکٹری مشقوں کا مقصد حقیقت سے قریب ترین فضائی جنگ کے ماحول میں اشتراک کار کو فروغ دینا تھا۔ فضائی مشقوں میں میزبان سعودی عرب، پاکستان، بحرین، اور فرانس نے شرکت کی۔ یونان، قطر، متحدہ عرب امارات ،امریکہ اور برطانیہ نے بھی مشقوں میں حصہ لیا۔ فضائی مشقوں کے دوران فخر پاکستان جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری طیاروں نے دنیا کے جدید ترین لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ آپریشنل صلاحیتوں اور تکنیکی خوبیوں کے باعث جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کو مشقوں کے دوران بھرپور پذیرائی ملی۔ پاکستان ایئر فورس کے ایئر اور گراؤنڈ کریو کی ایکسرسائز سپیئرز آف وکٹری میں بھرپور کامیاب شرکت اعلی اپریشنل ٹریننگ کی عکاس ہے۔
پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ: وجوہات، اثرات اور ممکنہ حل

پاکستان میں مہنگائی کے طوفان نے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، حالیہ دنوں میں خوردنی تیل (Edible Oil) کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، درآمدی اخراجات میں اضافے اور مقامی پالیسیوں کی وجہ سے یہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسے میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں جیسے خوردنی تیل کی قیمتیں کب کب اور کتنی بڑھیں؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ آئل ملز مالکان، عوام اور حکومت اس حوالے سے کیا کہہ رہے ہیں؟ اور ماہرین کا کیا موقف ہے؟ پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتیں وقتاً فوقتاً بڑھتی رہی ہیں، لیکن 2024 اور 2025 میں ان میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اکتوبر 2024 میں گھی اور خوردنی تیل کی قیمت میں فی کلو 40 سے 50 روپے اضافہ ہوا۔ فروری 2025 میں خوردنی تیل کی قیمت میں مزید 10 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا، جو عوام کے لیے ایک اور بڑا دھچکا تھا۔ قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمت میں اضافہ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی، اور مقامی سطح پر پیداوار کم ہونا شامل ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے، خاص طور پر ملائیشیا اور انڈونیشیا سے پام آئل درآمد کیا جاتا ہے۔ 2024 کے آخر میں ملائیشیا میں خراب موسم اور سپلائی چین میں مسائل کی وجہ سے پام آئل کی پیداوار کم ہوئی جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی گرتی ہوئی حیثیت بھی خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بنی۔ چونکہ پاکستان خوردنی تیل درآمد کرتا ہے، اس لیے ڈالر مہنگا ہونے سے تیل کی درآمدی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان بزنس فورم کے صدر خواجہ محبوب نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ ماہ رمضان کے دوران کوکنگ آئل اور گھی کی ممکنہ قلت کا خدشہ ہے کیونکہ کسٹم کلیئرنس کے مسائل کی وجہ سے پورٹ قاسم پر تقربیاً 3 لاکھ ٹن پام آئل پھنسا ہوا ہے۔ صدر پاکستان بزنس فورم خواجہ محبوب الرحمن نے بتایا کہ نئے نافذ کیے گئے فیس لیس کسٹمز سسٹم نے خوردنی تیل کی کلیئرنس کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے ملک بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی ہے۔ کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے پھنسے ہوئے جہازوں پر 50 سے 60 ڈالر فی ٹن ڈیمریج چارجز عائد ہورہے ہیں۔ خواجہ محبوب نے کہا ہے کہ یہی صورتحال رہی تو رمضان المبارک میں قیمتوں میں 25 سے 30 روپے فی کلو اضافہ ہوسکتا ہے۔ بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت خوردنی تیل پر تقریباً 100 روپے فی کلو کے ٹیکس وصول کر رہی ہے جس سے قیمتیں مزید بڑھ گئی ہیں۔ دوسری جانب آئل ملز مالکان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہ ٹیکس کم کر دے تو قیمتوں میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی مقامی پیداوار انتہائی محدود ہے، جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار زیادہ ہے۔ اگر حکومت مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات کرے تو قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ آئل ملز مالکان کا مؤقف کہ عالمی سطح پر خام مال کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی، اور حکومتی ٹیکسز کی وجہ سے قیمتیں بڑھانا ان کی مجبوری ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکسز میں کمی کرے اور کاروباری لاگت کم کرنے میں مدد فراہم کرے۔ پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایک گھریلو خاتون نے تیل کی قیمت میں اضافے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “پہلے ہی کھانے پینے کی چیزیں مہنگی تھیں، اب تیل بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ سبزی پکانے کے لیے بھی ہمیں تیل کی مقدار کم کرنی پڑ رہی ہے۔” ایک دکاندار کے مطابق قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے گاہکوں نے خریداری کم کر دی ہے جس سے ان کے کاروبار پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اثر مقامی مارکیٹ پر بھی پڑتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے حالیہ اجلاس میں کہا کہ “ہم عوام پر بوجھ کم کرنے کے لیے سبسڈی دینے پر غور کر رہے ہیں، لیکن عالمی مارکیٹ کے حالات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔” اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) نے وزارت صنعت اور قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی سے اس مسئلے پر رپورٹ طلب کر لی ہے، تاہم عوام کو فوری طور پر ریلیف ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر حکومت خوردنی تیل پر عائد ٹیکسز میں کمی کرے، درآمدی پالیسیوں کو بہتر بنائے اور مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے شروع کرے تو اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر آصف کامران نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں مہنگائی کا ایک بڑا سبب درآمدی اشیا پر انحصار ہے۔ اگر حکومت زرعی شعبے میں اصلاحات لا کر خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں اضافہ کرے، تو ہمیں عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ پر کم انحصار کرنا پڑے گا۔” پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں عالمی منڈی میں قیمتوں کا بڑھنا، روپے کی قدر میں کمی، اور حکومتی پالیسی شامل ہیں۔ عوام مہنگائی کے اس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جبکہ آئل ملز مالکان حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے لیکن فوری ریلیف کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔ اگر حکومت بروقت اقدامات نہ کرے تو مستقبل میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے اثرات عام شہریوں اور ملک کی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔