آسٹریلیا میں رہائش کے مسائل: غیر ملکیوں کے گھر خریدنے پر پابندی

آسٹریلیا غیر ملکی سرمایہ داروں پر ملک میں موجود گھر خریدنے پر پابندی لگائی جائے گی۔ آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حالیہ گھروں کی کمی میں دباؤ کی وجہ سے ہے۔ خزانچی جم چلمرز نے ہاؤسنگ منسٹر کلیئر اونیل کے ساتھ کہا کہ”ہم یکم اپریل 2025 سے 31 مارچ 2027 تک قائم شدہ مکانات کی غیر ملکی خریداری پر پابندی لگا رہے ہیں”۔ اس نے مزید کہا کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا پابندی میں توسیع کی جائے گی یا نہیں۔۔ آسٹریلیا میں رہائش کے حوالے سے عدم اطمینان گزشتہ سال اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے مئی تک ہونے والے عام انتخابات پر غالب آنے کی امید ہے۔ اونیل نے آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے ذریعے ٹیلیویژن پر نشر کیے گئے بیان میں کہا کہ “اس پابندی سے مقامی خریداروں کے لیے ہر سال تقریباً 1,800 جائیدادیں خالی ہو جائیں گی”۔ وزراء کے بیان میں کہا گیا ہے کہ “یہ اقدامات ہمارے پہلے سے ہی بڑے اور وسیع ہاؤسنگ ایجنڈے کا ایک چھوٹا لیکن اہم حصہ ہیں جو زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو گھروں دلانے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں”۔ ہاوسنگ سکیمز کی بڑھتی ہوئی قیمتیں آسٹریلیا میں بحث کا حصہ ہیں اور آئندہ آنے والے انتخابات میں یہ ایک اہم مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک حالیہ سروے میں مرکزی بائیں بازو کی لیبر حکومت اس مسئلے کو اپنی پالیسی میں شامل کر رہی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ہاؤسنگ اصلاحات منظور کیں جن میں ایک مشترکہ ایکویٹی اسکیم اور ڈویلپرز کے لیے ٹیکس مراعات شامل ہیں، تاکہ زیادہ قیمتوں کو کم کیا جا سکے اور 2030 تک 1.2 ملین نئے گھروں کی تعمیر کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔
فیملی سے خودکشی تک

صوابی میں ایک درزی نے بیوی کی جانب سے گھر واپسی سے انکار پر اپنے چار کمسن بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی۔ کچھ دن پہلے ٹانک میں بھی ایک جیولر نے معاشی پریشانیوں اور روزگار کی وجہ سے بیوی، 2 بیٹیوں اور ایک بیٹے کو قتل کر کے خود کشی کر لی تھی. اس طرح کے واقعات کی ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے جہاں ماں نے یا باپ نے بچوں کو مار کر یا اس کی کوشش کرکے خود کشی کر لی ہو۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘فیملی’ جس کا مطلب ہی تحفظ، محبت اور تعلق ہے، وہاں اتنی شدت کیوں آتی جارہی ہے؟ اس کا جواب ہے تعلق کے فطری پہلوؤں کو ناں سمجھنا، دنیاوی آسائشوں کی غیر فطری خواہش اور تربیت کو زندگی سے بے دخل کر دینا۔ میڈیا نے تعلق کا ایک فینٹیسی ورژن لوگوں کے ذہنوں میں بھرپور طریقے سے ڈال دیا ہے جہاں غیر انسانی حد تک ہیرو یا ہیروئن اپنے آپ کی قربانی دیتے نظر آئیں گے۔ جبکہ یہ فطری طور پر ممکن ہی نہیں کیونکہ اچھے سے اچھا فرد 24 گھنٹے ‘فرشتہ موڈ’ میں نہیں رہ سکتا، کبھی وہ نارمل ہوگا تو کبھی غصے میں، کبھی خوشگواری سے بات کرے گا تو کبھی چڑچڑے انداز میں، کبھی نرمی غالب ہوگی توکبھی انتہائی سختی۔ الغرض انسانی فطرت کے مطابق وہ ڈراموں، فلموں اور میڈیا کے خود ساختہ ‘اچھے انسان’ کے برعکس اچھے اور برے، دونوں روئیے اپنائے گا۔ لیکن اگر میڈیا کا بنایا غیر فطری تعلق ہی ‘آئیڈیل’ ہوگا تو ہر دن دھچکہ ملے گا، توقعات ٹوٹیں گی، ہر روز تعلق تہس نہس ہوتے ختم ہوتا جائے گا یہاں تک کہ فرد اپنے شریک حیات اور بچوں سے لاتعلق ہوتا جائے گا۔ ہر فرد میں آگے بڑھنے کی فطری خواہش ہوتی ہیں، لیکن نیچرل ڈیزائن ایسا ہے کہ ہر فرد ہر چیز حاصل نہیں کر سکتا، اسی طریقے سے دنیا میں توازن برقرار رہتا ہے۔ جیسے کوئی دولت بہت کما لے گا تو تعلقات میں ناکام ہوگا۔ کوئی مال نہیں کما پاتا لیکن تعلق نبھانے میں بہترین ہے، کوئی لوگوں کو سمجھنے اور ان کی مدد میں بہت تیز ہوتا ہے تو کوئی تکنیکی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ لیکن اس فطری تقسیم کی خوبصورتی کو ‘مال و آسائشوں’ کو ہر صورت حاصل کرنے کی شدت بدصورتی کی حد تک بگاڑ دیتی ہے۔ خواہش کی آگ بتدریج تعلق کی نرمی و گرمی کو تباہ کر دیتی ہے یہاں تک کہ شریک حیات جب تک مالی و دنیاوی آسودگی فراہم کر رہا ہے جب تک تو اچھا لگتا ہے، ورنہ دوسری صورت ایسے فرد سے تعلق کی خرابی کا سفر طلاق یا خلع کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ خودکشی اور قتل جیسے انتہائی اقدام ہوں یا تعلق و فیملی کا بدصورت ہونا۔ تمام کی جڑ تربیت نہ ہونے سے نکلتی ہے۔ گھر ہو، اسکول ہو، کالج ہو یا دیگر سماجی ادارے، لوگوں کو لوگوں کے ساتھ رہنے کی تربیت نہیں دی جارہی۔ شادی کے بعد کی اونچ نیچ نہیں سمجھائی جارہی، رشتوں کی نزاکتیں نہیں منتقل کی جارہیں، خواہشات کی آگ کو کیسے قابو میں رکھنا ہے یہ نہیں سیکھایا جارہا۔ مرد کو نہیں پتا کہ کیسے اپنی شخصیت کو تعمیری اور مصیبت کے وقت میں تحفظ کا مرکز بنانا ہے۔ خاتون نہیں جانتی معاشی یا تعلق کے بحران میں کیسے زندگی، تعلق اور بچوں کو NAVIGATE کرنا ہے۔ ان تمام اسباب کا نتیجہ صوابی یا ٹانک جیسے المناک واقعات کی صورت نکلتا ہے۔
ڈیجیٹل دور میں کتابی مطالعے کی عادت کیسے بحال کی جائے؟

حالیہ برسوں میں سائنس کے میدان میں انقلاب آیا ہے، جس نے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج بنا کر رکھ دیا ہے۔ نت نئی ایجاد نے ہماری زندگیوں کو یکسر بدل دیا ہے، اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا، اور آن لائن تفریحی ذرائع کی بھرمار نے مطالعے کی روایتی عادت کو متاثر کیا ہے۔ ماضی میں کتب انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہوتی تھیں، فارغ اوقات میں مختلف قسم کی کتابیں پڑھنا ہر گھر میں عام تھا، مطالعہ ذہنی نشوونما، تخلیقی سوچ اور علمی وسعت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ مطالعے کی عادت انسان کو زندگی کی مشکلات اور غم و فکر سے دور ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتی ہے۔ آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا، اسمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل تفریحات نے ہماری توجہ کو منتشر کر دیا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق ایک طالب علم دن میں تقریباً 9 گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتا ہے، جس سے مطالعے کے لیے وقت کم رہ جاتا ہے۔ تیز رفتار زندگی اور وقت کی کمی نے لوگوں کو کتابوں سے دور کر دیا ہے، تعلیمی نصاب میں غیر نصابی کتب کے مطالعے پر کم توجہ، لائبریریوں کی کمی اور کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی اس زوال میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل تفریحی ذرائع، تیز رفتار لائف اسٹائل اور مختصر ویڈیوز کے رجحان نے نوجوانوں کی توجہ کا دورانیہ کم کر دیا ہے، جس کے باعث وہ طویل مطالعے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مزید برآں، تعلیمی نصاب میں تحقیقی اور مطالعاتی عادات کو فروغ نہ دینے کے باعث نوجوانوں میں کتاب بینی کی رغبت گھٹ رہی ہے۔ نوجوانوں میں کتاب بینی کا رجحان کم ہونے کی ایک وجہ ڈیجیٹل تفریحات کی جانب ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ اگرچہ ای بکس اور آڈیو بکس روایتی کتابوں کا متبادل بن سکتی ہیں، لیکن ان کا استعمال بھی محدود ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم پروفیسر کامران مجاہد کا کہنا تھا کہ کتابی کلچر کی بحالی کے لیے گھر، اسکول اور معاشرتی سطح پر مثبت تبدیلیاں ضروری ہیں۔ والدین کو بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنے، میڈیا کو کتابوں کو فروغ دینے، اور حکومت کو لائبریریوں کے قیام جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کتابوں کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا جا سکے۔ یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو کتابی مطالعے کے فروغ کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ آڈیو بکس اور ای بکس کے ذریعے مطالعے کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ آن لائن بک ریویوز اور بُک کلبز کے ذریعے قارئین کو کتابوں کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بتایا ہے کہ ای بکس اور آڈیو بکس سہولت ضرور فراہم کرتی ہیں، لیکن روایتی کتاب کی اہمیت برقرار رہے گی۔ کاغذ پر لکھی تحریر کو پڑھنے سے ذہنی یکسوئی اور بہتر تفہیم حاصل ہوتی ہے، جو ڈیجیٹل فارمیٹ میں مشکل ہو سکتا ہے۔ پروفیسر کامران مجاہد نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لائبریریاں مطالعے کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی کمی نوجوانوں کو کتابوں سے دور کر رہی ہے۔ پبلک لائبریریوں کے قیام اور اسکول و کالج کی سطح پر لائبریری کے مؤثر استعمال سے اس رحجان کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مسلسل سوشل میڈیا، ویڈیوز اور مختصر معلوماتی فارمیٹ دیکھنے کی وجہ سے نوجوانوں کا ذہنی ارتکاز کمزور ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ کتابوں کے طویل مطالعے میں مشکلات پیدا کرتا ہے، کیونکہ مستقل توجہ برقرار رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں لائبریریوں کا قیام اور طلبہ کو غیر نصابی کتب کے مطالعے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔ عوامی اور نجی سطح پر کتاب میلوں کا انعقاد اور حکومتی پالیسیوں میں کتاب بینی کے فروغ پر زور دینا چاہیے۔ پروفیسر کامران مجاہد نے کہا ہے کہ تعلیمی ادارے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتابوں کے مطالعے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہفتہ وار ریڈنگ سیشنز، کتابوں پر مباحثے، اور اسٹوڈنٹ لائبریری سسٹم کو فعال بنا کر طلبہ میں کتابوں سے محبت پیدا کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق اگرچہ سوشل میڈیا نوجوانوں کی توجہ بھٹکانے کا سبب بھی بن رہا ہے، لیکن اگر اس کا درست استعمال کیا جائے تو یہ کتابوں کی ترویج کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ کتابوں کے ریویوز، ریڈنگ چیلنجز، اور بُک کلَبز جیسے اقدامات سے نوجوانوں میں مطالعے کا رجحان بڑھایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کتابوں کی ترویج ممکن ہے۔ مشہور شخصیات اور انفلوئنسرز کتابوں کی تشہیر کر کے مطالعے کی عادت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ پروفیسر کامران مجاہد کے مطابق پاکستان میں کتابوں کی قیمتوں میں اضافہ اور کاغذ کی قلت جیسے مسائل عام آدمی کو کتابوں سے دور کر رہے ہیں۔ اگر حکومت سبسڈی فراہم کرے اور ڈیجیٹل فارمیٹ میں سستی کتابیں دستیاب ہوں تو کتاب بینی کی عادت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں کتابی مطالعے کی عادت کو بحال کیا جا سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور حکومت مل کر اس کے لیے کوشش کریں۔ مطالعے کی عادت نہ صرف فرد کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی اہم ہے۔