‘ہم ایک مضبوط اور خوشحال افغانستان کے لیے تعلقات کے خواہشمند ہیں’ افغان طالبان

افغانستان میں طالبان کی حکومت نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے جاپان کا دورہ کیا ہے جو ان کے لیے عالمی سطح پر پہلی بڑی سفارتی کوشش ہے۔ یہ دورہ طالبان کی جانب سے عالمی برادری سے ‘باوقار’ تعلقات کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ اس وفد میں طالبان کے وزارت خارجہ، وزارت تعلیم، وزارت صحت اور وزارت معیشت کے اہم افسران شامل ہیں۔ آج سے چند برس قبل طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد ان کے سفارتی روابط زیادہ تر اپنے پڑوسی ممالک اور قریبی خطے تک ہی محدود رہے تھے۔ تاہم، اس دورے نے عالمی سطح پر ان کی موجودگی کو مزید تسلیم کرنے کی کوششوں کو ظاہر کیا ہے۔ جاپان میں طالبان کا یہ دورہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی دوسرے ملک کا پہلا سفارتی دورہ ہے جو اس گروپ کے عالمی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ دورہ ایک ہفتے تک جاری رہے گا اور اس دوران طالبان نمائندے جاپانی حکام سے انسانی امداد کے معاملات پر بات چیت کریں گے اور ممکنہ طور پر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے امکانات پر غور کیا جائے گا۔ طالبان کے ایک اعلیٰ عہدے دار لطیف نظری، جنہوں نے اس وفد کی قیادت کی،انہوں نے اس دورے کو ‘افغانستان کو عالمی برادری کا ایک فعال رکن بنانے’ کے لیے ایک قدم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم ایک مضبوط، متحد، ترقی یافتہ اور خوشحال افغانستان کے لیے عالمی سطح پر باوقار تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں۔‘‘ یہ بھی پڑھیں: ’اسرائیل 18 فروری تک لبنان سے نکل جائے ورنہ قبضہ سمجھیں گے‘ حزب اللہ کا انتباہ طالبان کے جاپان دورے کی اہمیت اس بات سے بھی مزید بڑھ جاتی ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کابل میں ایک اور دہشت گرد حملہ ہوا ہے جس کی ذمہ داری داعش (ISIS) نے قبول کی ہے۔ اس حملے میں وزارت شہری ترقی و آبادکاری کے باہر خودکش دھماکہ ہوا جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ جاپان کی سفارت خانہ نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی کے حملے فوری طور پر بند ہونے چاہئیں۔‘‘ جاپان جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں اپنی سفارت کاری محدود رکھے ہوئے تھا نے حالیہ برسوں میں طالبان حکومت کے ساتھ کچھ سطح پر روابط استوار کیے ہیں خاص طور پر انسانی امداد کی فراہمی کے حوالے سے۔ تاہم طالبان کا جاپان کا یہ دورہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اب عالمی سطح پر مزید تسلیم حاصل کرنے اور اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ یہ دورہ طالبان کے لیے ایک نیا موڑ ہو سکتا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کے سامنے اپنے موقف کو مضبوط کرنے اور افغانستان کی معیشت اور ترقی کے لیے عالمی امداد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن یہ سوال بھی برقرار ہے کہ آیا جاپان اور دیگر ممالک طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ ان تمام پیچیدہ مسائل کے درمیان یہ دورہ ایک سنگ میل بن سکتا ہے جو مستقبل کے تعلقات کی راہیں متعین کرے گا۔ مزید پڑھیں: ’روس نیٹو پر جنگ مسلط کر دے گا‘ یوکرینی صدر نے امریکا کو خبردار کردیا
انڈیا میں آئرش خاتون کے ساتھ زیادتی اور قتل: آٹھ سال بعد فیصلہ

انڈین کورٹ نے 31 سالہ شخص کو نوجوان آئرش خاتون کے ساتھ زیادتی اور قتل کے جرم میں آٹھ سال بعد عمر قید کی سزا سنا دی۔ ہندوستانی عدالت نے پیر کے روز ایک 31 سالہ شخص کو سیاحتی تفریحی ریاست گوا میں ایک نوجوان آئرش خاتون کے ساتھ زیادتی اور قتل کے جرم کے تقریباً آٹھ سال بعد عمر قید کی سزا سنائی۔ متاثرہ خاتون کا نام ہندوستانی قانون کے تحت ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ خاتون نے مارچ 2017 میں جب گوا کا دورہ کیا تو 28 سال کی تھی اور اس جرم کے مجرم وکات بھگت سے دوستی کی۔ تفتیشی افسر فلومینو کوسٹا نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا’’آج عدالت نے حتمی فیصلہ سنایا، ملزم کو عمر قید کی سزا ہوگئی”۔ اس کے وکیل وکاس ورما نے کہا کہ “لاش گوا کے پالولیم ساحل کے جنگلاتی علاقے سے ملی تھی، جس کے چہرے پر کئی زخموں کے نشانات تھے”۔ ورما نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو ایک بیان میں کہا “لڑکی کے نقصان کی کوئی تلافی نہیں کر سکتی، لیکن اس سزا نے اس کے خاندان کے غم کو ہلکا کر دیا ہے۔یہ تقریباً آٹھ سال کی طویل جنگ تھی لیکن انصاف ہوا ہے”۔ وکیل نے کہا کہ” فرانزک رپورٹس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خاتون کیے ساتھ زیادتی کی گئی تھی اور اس کی شناخت کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اس کا چہرہ شراب کی بوتل سے توڑ دیا گیا تھا”۔ بھگت کے وکلاء نے عدالت سے کہا کہ” وہ سزا سنانے میں نرم رویہ اختیار کرے”۔ انڈیا نے زیادتی سے متعلق قوانین کو 2012 میں دہلی کی بس میں ایک نوجوان خاتون کے ساتھ وحشیانہ اجتماعی زیادتی اور اس کے قتل کے بعد سخت کیا اور فاسٹ ٹریک خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ لیکن ایک دہائی سے بعد بھی مسائل سنگین ہیں۔ انڈیا نے 2026 تک ایسی عدالتوں کی تعداد کو کم کر کے 790 کر دیا ہے، جو پہلے 2,600 کا تخمینہ تھا۔ پچھلے مہینےعدالت نے مشرقی شہر کولکتہ کے ایک ہسپتال میں ایک جونیئر ڈاکٹر کیے ساتھ زیادتی اور قتل کے مجرم پولیس رضاکار کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
’اسرائیل 18 فروری تک لبنان سے نکل جائے ورنہ قبضہ سمجھیں گے‘ حزب اللہ کا انتباہ

حزب اللہ کے رہنما شیخ نعیم قاسم نے اسرائیل کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کو 18 فروری تک لبنانی سرزمین سے مکمل طور پر انخلا کرنا ہوگا بصورت دیگر کسی بھی اسرائیلی موجودگی کو قبضہ سمجھا جائے گا۔ شیخ قاسم کا یہ بیان ایک ٹی وی خطاب میں سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے مطابق اسرائیل کے لیے 60 دنوں کے اندر مکمل انخلا ضروری تھا اور اس معاہدے میں کوئی استثنا نہیں۔ اکتوبر کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں زمینی حملے شروع کیے تھے اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ شدید جھڑپیں ہو رہی تھیں جو اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کا حصہ تھیں۔ نومبر میں امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت اسرائیل کو لبنانی سرزمین سے 60 دنوں کے اندر انخلا کرنا تھا تاہم اس وقت کی مدت 18 فروری تک بڑھا دی گئی تھی۔ اسرائیل نے حال ہی میں پانچ فوجی پوسٹس کو اس معاہدے سے مستثنیٰ رکھنے کی درخواست کی تھی جسے حزب اللہ نے سختی سے مسترد کردیا۔ ضرور پڑھیں: ’حماس کو ختم کرنا ضروری ہے‘ امریکی وزیرخارجہ کا اسرائیلی سرزمین پر بیان شیخ نعیم قاسم نے واضح طور پر کہا کہ “اسرائیل کو 18 فروری تک مکمل طور پر انخلا کرنا ہوگا اس کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔” 18 فروری کا دن قریب آتے ہی اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شیخ قاسم نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیلی فوج اس تاریخ کے بعد بھی لبنان میں موجود رہی تو اسے قبضہ تصور کیا جائے گا اور اس کا جواب سختی سے دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “سب جانتے ہیں کہ قبضے کا کیا ردعمل ہوتا ہے،” مگر انہوں نے براہ راست فوجی کارروائی کی دھمکی نہیں دی۔ شیخ قاسم کے خطاب کے دوران اسرائیلی طیاروں نے لبنان کے مشرقی بیکا ویلی میں کم از کم تین مقامات پر بمباری کی۔ یہ بھی پڑھیں: تائیوان معاملے کو بغیر کسی دباؤ کے پرامن طریقے سے حل کیا جائے، امریکی محکمہ خارجہ اسرائیل کی فوج نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد حزب اللہ کی وہ پوزیشنیں تھیں جہاں راکٹ لانچر اور ہتھیاروں کے ذخیرے موجود تھے۔ یہ فضائی حملے اس بات کا غماز ہیں کہ سرحد کے دونوں طرف کشیدگی میں شدت آچکی ہے جس سے لبنان اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔ شیخ قاسم نے لبنان کی حکومت کی جانب سے ایران کی پروازوں پر عائد عارضی پابندی کی بھی شدید مذمت کی جس کا مقصد اسرائیلی الزامات کے مطابق حزب اللہ تک اسلحہ اور نقد رقم کی اسمگلنگ روکنا تھا۔ اس پابندی کے باعث درجنوں لبنانی شہری ایران میں پھنس گئے جن میں زیادہ تر مذہبی نوعیت کی زیارات کے لیے گئے ہوئے تھے۔ لبنان نے ان افراد کو واپس لانے کے لیے دو پروازیں بھیجنے کی کوشش کی مگر ایران نے ان پروازوں کو تہران میں اترنے کی اجازت نہیں دی۔ اس بات نے لبنان میں ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا اور حزب اللہ نے اس پابندی کو اسرائیل کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا۔ لازمی پڑھیں: چینی لڑاکا طیاروں کی تائیوان کی سرحد پر پروازیں، تنازع ہے کیا؟ شیخ قاسم نے لبنان کی حکومت کو اسرائیل کے زیر اثر عمل کرنے کا الزام عائد کیا اور ایرانی پروازوں کو فوراً دوبارہ اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ 18 فروری تک اسرائیل کے انخلا کا فیصلہ اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری جنگ بندی کامیاب ہو پائے گی یا کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ حزب اللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی کسی بھی فوجی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا، چاہے وہ پانچ فوجی پوسٹس ہوں یا کوئی اور چھوٹی پوزیشن ہو۔ دوسری جانب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کی اس نئی لہر نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ عالمی سطح پر مسلسل مذاکرات جاری ہیں تاکہ دونوں فریقوں کو کسی نئے فوجی تصادم سے بچایا جا سکے لیکن معاہدے کی تکمیل اور اس پر عمل درآمد کی حالت میں کئی سوالات موجود ہیں۔ 18 فروری کا دن نہ صرف لبنان اور اسرائیل کے لیے اہم ہے بلکہ اس سے پورے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی سطح پر اثر پڑ سکتا ہے۔ حزب اللہ کا موقف صاف ہے کہ اسرائیل کو اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے لبنان سے مکمل طور پر نکلنا ہوگا اور اس میں کسی بھی قسم کی تاخیر یا استثنا قابل قبول نہیں ہوگی۔ آنے والے دنوں میں، دنیا کی نظریں اس معاہدے پر ہوں گی، کیونکہ یہ نہ صرف اسرائیل اور لبنان کے تعلقات کو تشکیل دے گا بلکہ پورے خطے کی سیاسی اور فوجی حرکیات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ مزید پڑھیں: ’روس نیٹو پر جنگ مسلط کر دے گا‘ یوکرینی صدر نے امریکا کو خبردار کردیا
کراچی میں ہیوی ٹریفک سے ہلاکتیں رکوانے کے لیے جماعت اسلامی عدالت پہنچ گئی

کراچی میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات نے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ سال 771 سے زائد حادثات میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 2025 میں 105 سے زائد افراد کی زندگیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان تمام حادثات کی روک تھام کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر اور اپوزیشن لیڈر کے ایم سی ایف الدین ایڈووکیٹ نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر نے سندھ ہائیکورٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں، اور ان کا حل فوری طور پر طلب کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی غفلت کی وجہ سے شہریوں کی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور اس پر حکومت کی خاموشی ناقابل قبول ہے۔ منعم ظفر کا کہنا ہے کہ “یہ حادثات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر کوئی حکومتی نگرانی نظر نہیں آتی۔ حکومت کا وجود صرف کاغذوں تک محدود ہے، اور وہ عوام کے مسائل کو نظرانداز کر رہی ہے۔” انہوں نے سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی پٹیشن کے حوالے سے کہا کہ یہ درخواست سندھ حکومت، وزارت ٹرانسپورٹ، محکمہ پولیس اور کے ایم سی کے ذمہ داروں کے خلاف دائر کی گئی ہے تاکہ وہ ہیوی ٹریفک کی مانیٹرنگ کا پابند ہوں۔ یہ بھی پڑھیں: یونیورسٹی روڈ کی دوبارہ کھدائی: عوام کا پیسہ ضائع کیوں؟ پٹیشن میں سندھ کے چیف سیکرٹری، سیکرٹری ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی ٹریفک اور کے ایم سی کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس درخواست میں ان اداروں کے خلاف غفلت کے الزامات لگائے گئے ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد حادثات کا شکار ہو رہی ہے۔ عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ “پولیس کو حکم دیا جائے کہ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے پر پابندی پر عمل درآمد کرایا جائے۔” منعم ظفر نے مزید کہا کہ “کراچی کی سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ یہاں ٹریفک کی مناسب مانیٹرنگ اور روڈ سیفٹی قوانین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ شہر میں اوور لوڈنگ اور ناتجربہ کار ڈرائیوروں کا یہ عالم ہے کہ وہ ہیوی ٹریفک چلاتے ہیں، جس سے حادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔” انہوں نے سڑکوں کی کارپٹنگ کے لیے مختص فنڈز کے استعمال کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں اور ان اخراجات کا آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر سڑکوں کی مرمت، پارکنگ کے مسائل، اور چنگ چی رکشوں کی بھرمار کو کنٹرول کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہر کو پندرہ سو سے زائد بسوں کی ضرورت ہے اور مونو ٹرین جیسے منصوبے کو عملی شکل دی جانی چاہیے۔ لازمی پڑھیں: سعودی عرب وژن 2030 کے لیے پاکستانی افرادی قوت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے: وزیر خزانہ منعم ظفر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “کراچی کے شہری ٹیکس بھی دیتے ہیں پھر بھی انہیں پانی خرید کر پینا پڑتا ہے۔” دوسری جانب گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھا ہے۔ گورنر سندھ نے ڈمپر ٹرک اور واٹر ٹینکرز کے ڈرائیوروں کی لاپرواہ ڈرائیونگ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ چند مہینوں میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں اور حادثات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو مشورہ دیا کہ وہ چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیں تاکہ حادثات کی وجوہات کا پتہ چلایا جا سکے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ گورنر نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس وقت عوام میں شدید بے چینی اور تحفظات پائے جاتے ہیں، اور حکومت سے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی استدعا کی تاکہ شہریوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ کراچی کے شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور دونوں جماعت اسلامی اور گورنر سندھ کی طرف سے کئے گئے مطالبات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ٹریفک قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے اور حادثات کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔ کراچی کے شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جاتی ہے کہ سندھ حکومت اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دے گی اور جلد ہی اقدامات اٹھائے گی تاکہ کراچی کے عوام کو محفوظ سڑکوں پر سفر کرنے کا حق مل سکے۔ مزید پڑھیں: ہم ایک ایسا رابطہ قائم کر رہے ہیں جو مشرق اور مغرب کے درمیان پل بنے گا، مشاہد حسین سید
یونیورسٹی روڈ کی دوبارہ کھدائی: عوام کا پیسہ ضائع کیوں؟

کراچی میں دو سال پہلے جب یونیورسٹی روڈ کی جدید کارپٹنگ اور تعمیر کی گئی تھی تو لاکھوں روپے خرچ کیے گئے تھے۔ لیکن جیسے ہی ‘ریڈ لائن’ منصوبہ شروع ہوا تو یہ روڈ پھر سے کھود دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا متعلقہ ادارے اس بات سے بے خبر تھے کہ صرف 2 سال بعد انہیں اس روڈ کو دوبارہ کھودنا پڑے گا؟ کیا کسی نے اس کی منصوبہ بندی کے دوران یہ نہیں سوچا تھا کہ اس روڈ کی دوبارہ کھدائی کی ضرورت پیش آئے گی؟ اب ایک ادارہ انفراسٹرکچر بناتا ہے، اور دوسرا آ کر اُسے اُکھاڑ دیتا ہے۔ ایسے غیر متوازن فیصلوں سے عوام کی محنت اور پیسہ ضائع ہو رہا ہے۔
ارجنٹائن کے صدر کو کرپٹو کرنسی پروموٹ کرنے پر مواخذے کا سامنا

ارجنٹائن کے صدر جاویر مائلی کو کرپٹو کرنسی کو پروموٹ کرنا مہنگا پڑ گیا، اپوزیشن جماعتوں نے صدر کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے سکینڈل میں ملوث ہونے کو نااہلی قرار دیتے ہوئے فوری صدارتی عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ صدر کی جانب سے فوری طور پر کسی مواخذے کی کارروائی کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے۔ کانگریس مین ڈائیگو سینٹیلی نے صدر کیخلاف مواخذے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے پر زور دیا ہے، جبکہ وزیر دفاع پیٹریشیا بلرچ نے صدر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صدر کو اظہار رائے کی پوری آزادی ہے۔ اس تنازع کا آغاز ارجنٹائنی صدر کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ”ایکس” پر ٹوئیٹ سے ہوا جس میں انھوں نے کرپٹو کرنسی پراجیکٹ کو ارجنٹائن کی معیشت کیلئے بہترین قرار دیا لیکن کچھ گھنٹوں بعد ہی انھوں نے گزشتہ پوسٹ کو ڈیلیٹ کرتے ہوئے نئے پیغام میں لکھا کہ میں کرپٹو پراجیکٹ کے متعلق آگاہ نہیں تھا، اب مجھے معلوم ہو گیا جس کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کو مزید نہیں پھیلائیں گے۔ سی این این انکوائری کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر ارجنٹائن صدر کی ٹیم نے وضاحت دی کہ یہ سب ایک غلطی کی وجہ سے ہوا. اب صدر کی جانب سے اینٹی کرپشن آفس کی سربراہی میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے جس میں یہ معلوم کیا جائے گا کہ آیا کوئی حکومتی اہلکار یا صدر خود اس پراجیکٹ سے فائدہ تو نہیں اُٹھا رہے تھے۔ واضح رہے کہ پراجیکٹ کے آغاز پر کرپٹو کرنسی کی قیمت گھنٹوں کے دوران نیچے سے اوپر جانے پر سرمایہ کاروں کو بھاری مالی نقصان اُٹھانا پڑا تھا، پراجیکٹ کے آغاز کے دوران کرپٹو کرنسی کے کچھ ویلٹس کی قیمت زیرو تھی جوکہ کچھ گھنٹوں بعد پانچ ڈالر پر پہنچ گئی تھی۔
’پاکستان مشرق اور مغرب کے درمیان پل بنے گا‘ مشاہد حسین سید

پاکستان میں علاقائی روابط کے حوالے سے ایک تاریخی کانفرنس کل منعقد ہونے جا رہی ہے جس کا عنوان ‘ریجنل کنیکٹیویٹی اور ایمرجنگ اپرچونٹیز’ ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر ایک اہم رابطے کے مرکز کے طور پر اُبھرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ پاکستان جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، چین اور خلیج کے ممالک کے درمیان ایک اہم پل کے طور پر سامنے آ رہا ہے اس کانفرنس میں اپنی جغرافیائی اہمیت کو مزید اجاگر کرے گا۔ چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک اور چین پاکستان انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے اس بات کا ذکر کیا کہ ’پاکستان کے لیے تین سے چار اہم مواقع ہیں جو اس کی علاقائی کنیکٹیویٹی کی بنیاد پر اُبھر کر سامنے آ سکتے ہیں‘۔ ان مواقع میں تجارت، ٹیکنالوجی، سیاحت اور ٹرانسپورٹیشن شامل ہیں۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ “ہم ان علاقوں کے درمیان ایک ایسا رابطہ قائم کرنے جا رہے ہیں جو مشرق اور مغرب کے درمیان پُل کا کام کرے گا۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ہوگا۔” اس کانفرنس میں مرکزی ایشیائی ممالک، چین، جنوبی ایشیا، مغربی ممالک اور خلیج کے ریاستوں کے اہم رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جس میں پاکستان عالمی سطح پر جیو اکنامکس کے کھیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے جیسے کہ وہ ماضی میں ادا کرتا رہا ہے۔ پاکستان، جو جغرافیائی طور پر ایک منفرد پوزیشن پر واقع ہے، خاص طور پر گوادر کے ذریعے جنوبی ایشیائی ریاستوں کے لیے ایک اہم تجارتی راستہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جغرافیائی سیاست کی اس جنگ میں پاکستان کا کردار نہ صرف تجارتی بلکہ تیکنیکی میدان میں بھی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اگر پاکستان نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھایا تو نہ صرف خطے کے ممالک کو فائدہ ہوگا بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک نمایاں مقام حاصل ہوگا۔ پاکستان کی طرف سے پیش کیے جانے والے نئے اقتصادی مواقع اور ترقی کی راہیں دنیا بھر میں اُمید کی ایک نئی لہر پیدا کر سکتی ہیں۔ مزید پڑھیں: سلامتی کونسل اجلاس کل ہوگا، پاکستانی نائب وزیراعظم شرکت کریں گے
’روس نیٹو پر جنگ مسلط کر دے گا‘ یوکرینی صدر نے امریکا کو خبردار کردیا

روس کے بیلگورڈ علاقے میں یوکرین کے ڈرون حملوں نے خونریزی کی نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ گورنر ویچیسلاؤ گلاڈکوف کے مطابق دو الگ الگ حملوں میں کم از کم چار افراد جان سے گئے ہیں۔ ایک حملے میں ایک عورت اس وقت ہلاک ہو گئی جب وہ ایک کار میں سفر کر رہی تھی۔ بعد ازاں تین مرد بھی ایک اور حملے میں ہلاک ہوئے۔ یوکرین کے ڈرون حملوں نے روس کے کراسنودار علاقے کو بھی متاثر کیا جہاں گورنر وینیامین کندراتیف کے مطابق ایک شخص زخمی ہو گیا اور 12 مکانات کو نقصان پہنچا۔ روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ انہوں نے بحر آزوف اور کراسنودار کے جنوبی علاقے میں نو یوکرینی ڈرونوں کو مار گرایا۔ اس دوران یوکرین کی فضائیہ نے اطلاع دی کہ روس نے 143 ڈرون حملے کیے جن میں سے 95 مار گرائے گئے جبکہ 46 ڈرون اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکے۔ ادھر جنوبی یوکرین کے شہر میکولائیو پر رات کے حملے میں کم از کم ایک شخص زخمی ہوا اور ایک اہم انفراسٹرکچر کی عمارت میں آگ لگ گئی۔ یوکرینی گورنر وٹالی کیم نے کہا کہ ان حملوں کے نتیجے میں کئی گھروں کو نقصان پہنچا اور یوکرین کے وزیر اعظم ڈینس شمہال نے بتایا کہ ایک تھرمل پاور پلانٹ کو نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے منفی درجہ حرارت میں سینکڑوں افراد کو بجلی اور ہیٹنگ کی سہولت سے محروم ہونا پڑا۔ اسی دوران مشرقی یوکرین کی فوج نے شدت اختیار کرتی ہوئی روسی افواج کے حملوں کا مقابلہ کیا، خاص طور پر پوکروفسک کے علاقے میں جہاں 24 گھنٹوں میں 261 جھڑپیں ہوئیں۔ لازمی پڑھیں: تائیوان معاملے کو بغیر کسی دباؤ کے پرامن طریقے سے حل کیا جائے، امریکی محکمہ خارجہ یوکرین کے فوجی ترجمان وکٹر ٹریگوبوف نے کہا کہ یوکرین نے ایک مائننگ گاؤں پیشچنے کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یوکرینی فورسز نے متعدد جوابی حملوں میں کامیابی حاصل کی۔ مولاڈووا نے ایک بار پھر روسی ڈرونوں کی سرحدی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اطلاع دی جس کے بعد روسی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا تھا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنے وزیروں کو امریکا سے نایاب معدنیات کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط کرنے سے روک دیا ہے جس میں ماضی اور آئندہ امریکی امداد کے بدلے یوکرین کو معدنیات فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ زیلنسکی نے اس معاہدے کو یوکرین کے مفادات کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے کہا کہ زیلنسکی اس معاملے میں ‘کوتاہ نظر’ ہیں اور یہ تجویز دی کہ امریکی ٹیکس دہندگان یوکرین کو دی گئی امداد کے بدلے کچھ حاصل کر سکیں گے، اور یوکرین کی معیشت کو بھی فائدہ ہو گا۔ یاد رہے کہ زیلنسکی نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو کے لیے حمایت کم کرتے ہیں تو روس نیٹو پر جنگ مسلط کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے پاس روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو جنگ بندی مذاکرات پر راضی کرنے کا فائدہ ہے لیکن پوٹن پر کبھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی پڑھیں: چینی لڑاکا طیاروں کی تائیوان کی سرحد پر پروازیں، تنازع ہے کیا؟ اس کے علاوہ امریکی حکام نے یورپی اتحادیوں سے پوچھا کہ وہ یوکرین کی سیکیورٹی کے لیے امریکا سے کیا تقاضے رکھتے ہیں اور کون سے ممالک کیو کیوپ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔ یوکرین کے صدر نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی امن معاہدے کو مسترد کریں گے جس میں کیف کا مشورہ شامل نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کے دوران یوکرین کا مؤقف شامل ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بات کی اور روس-یوکرین امن بات چیت میں سعودی عرب کے کردار پر تبادلہ خیال کیا۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ یورپ کسی ایسے امن عمل کی حمایت نہیں کرے گا جو یوکرین کی غیر فوجی بنانے کی حمایت کرتا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کا جمہوری اور خودمختار رہنا ضروری ہے، اور ان کی حمایت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے کہا کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے بات چیت کے دوران یوکرین میں امن کے بارے میں بہت کچھ طے کیا جائے گا، لیکن اس عمل میں کئی دشواریاں آئیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مشکل صورتحال کا حل جلد ممکن نہیں۔ یوکرین کی اقتصادی ترقی کے وزیر یولیا سویریڈینکو نے بتایا کہ ایک یوکرینی وفد سعودی عرب میں ملاقات کے لیے گیا ہے جہاں وہ اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنے اور خطے کے ممالک کے ساتھ اہم معاہدے کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ دوسی جانب برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ وہ کیف کے لیے سیکیورٹی ضمانتوں میں شرکت کرنے اور اس میں فوجی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں اگر ضرورت پڑی تو۔ اس سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں یوکرین کے لیے حمایت کی لہریں چل رہی ہیں۔ یہ سب منظرنامہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یوکرین کی جنگ نہ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی سیاست، اقتصادی تعلقات اور مستقبل کے امن کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ عالمی رہنماؤں کی کوششیں اور مذاکرات کی راہ میں پیچیدگیاں اب بھی واضح ہیں مگر اس جنگ کا اثر دنیا کے تمام خطوں پر پڑ رہا ہے۔ مزید پڑھیں: ’حماس کو ختم کرنا ضروری ہے‘ امریکی وزیرخارجہ کا اسرائیلی سرزمین پر بیان
’اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر حمایت بند کی جائے‘ فلسطین کانفرنس

جماعت اسلامی کے زیر اہتمام فلسطین انٹرنیشنل کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں غزہ میں جاری نسل کشی کے خاتمے کی فوری اپیل کی گئی۔ فلسطین کانفرنس کا یہ اعلامیہ عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط آواز بن کر ابھرا ہے۔ کانفرنس کے اعلامیے میں سب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ اسرائیل کی قبضہ گیری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی حمایت بند کی جائے۔ فلسطینی عوام کی آزادی، وقار اور بنیادی حقوق کے احترام کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ اسرائیل کے خلاف عالمی دباؤ بڑھانے کے لیے بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیوں کی مہمات کی حمایت کی جائے۔ اعلامیہ میں آزاد میڈیا کی حمایت کی درخواست کی گئی اور فلسطینیوں کی آواز کو دبانے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا گیا۔ عالمی کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے مندوبین، ارکان پارلمینٹ نے شرکت کی ، اعلامیے کے مطابق اس بات پر زور دیا گیا کہ فلسطینیوں کی آواز کو عالمی سطح پر سنا جانا چاہیے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط فورم تشکیل دیا جائے۔ فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ ایک اہم پیغام بھی تھا کہ تمام مسلم ممالک کو متحد ہو کر فلسطین کی عالمی سطح پر وکالت کرنی چاہیے۔ فلسطینی عوام کے لیے تعمیر و ترقی کے لیے فنڈز کا اعلان کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ اعلامیہ میں صیہونی ریاست اور صیہونیت کو نسل پرست اور برتری پسندانہ نظریہ قرار دیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: عالمی بینک کے ایگزیکٹوڈائریکٹرز کی 20 سال بعد پاکستان آمد، کیا پاکستان اپنی معیشت کو نئی زندگی دے سکے گا؟ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ صیہونیت کی تاریخ جنگی جرائم اور نسل کشی سے بھری ہوئی ہے، جسے عالمی سطح پر واضح طور پر مسترد کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی غزہ کے عوام کی بہادرانہ مزاحمت کو سراہا گیا اور غزہ پر ہونے والے بدترین حملوں، نسل کشی، بمباری، محاصرے اور فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت کی گئی۔ اعلامیہ میں غزہ کے عوام کے لیے امداد کی اپیل کی گئی اور اسلامی ممالک کو غزہ کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے آگے آ کر مدد فراہم کرنے کی درخواست کی گئی۔ عالمی سطح پر غزہ کی تباہی کے ذمہ داروں کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اسرائیل کی طرف سے نسل کشی کے ارتکاب کی شدید مذمت کی گئی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس پر مؤثر کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ نیتن یاہو کو عالمی مجرم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ لازمی پڑھیں: ججز عدالتی افسران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ فلسطینیوں کی مزاحمت کی اصل وجہ اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصیٰ کے آغاز کو فلسطینی عوام کی طرف سے 77 سالوں سے جاری ظلم و بربریت کے خلاف ایک ردعمل قرار دیا گیا۔ طوفان الاقصیٰ کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات کے خلاف اعلان جہاد بھی سمجھا گیا۔ اعلامیہ میں فلسطین کے مسئلے کا حقیقی اور دیرپا حل وقت کی ضرورت قرار دیا گیا۔ اس حل کی بنیاد فلسطینی سرزمین کی اصل حیثیت میں واپسی پر ہے۔ فلسطینیوں کے اپنے گھروں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور کسی بھی غیر فلسطینی کو اس کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی کالونائزیشن اور بستیاں بنانے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر کسی بھی غیر قانونی فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ فلسطین کانفرنس کے اعلامیے میں مسلم ممالک سے اپیل کی گئی کہ وہ اسرائیلی عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوں اور غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے ایک سیکیورٹی پلان تیار کریں۔ اس کے علاوہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے مشترکہ فنڈ قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ یہ اعلامیہ ایک عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت میں ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ عالمی برادری اور مسلم ممالک سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں گے اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں گے۔ غزہ میں جاری تباہی اور ظلم کے خلاف اس مضبوط آواز کا اٹھنا فلسطینیوں کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے۔ مزید پڑھیں: ”سعودی عرب ویژن 230” کیلئے پاکستانی افرادی قوت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے: وزیر خزانہ
سلامتی کونسل اجلاس کل ہوگا، پاکستانی نائب وزیراعظم شرکت کریں گے

سلامتی کونسل کا اعلیٰ سطحی اجلاس کل 18 فروری کو نیویارک میں منعقد ہوگا، سلامتی کونسل کا اجلاس چین کی جانب سے طلب کیا گیا ہے اور اس کی صدارت چینی وزیر خارجہ وانگ ای کریں گے جبکہ پاکستانی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ اس بات کا اعلان دفتر خارجہ کی جانب سے کیا گیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان عالمی گورننس میں بہتری اور کثیرالجہتی تعاون کے فروغ کیلئے چینی اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ترجمان کے مطابق نائب وزیراعظم اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کے مرکزی کردار اور کثیرالجہتی تعاون کی اہمیت کو اُجاگر کریں گے۔ پاکستان 26-2025 کیلئے سلامتی کونسل کے غیرمستقل رکن کی حیثیت سے اپنے اہداف پر روشنی ڈالے گا، اسحاق ڈار مختلف ممالک کے وزراء خارجہ اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام سے ملیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی امن، سلامتی اور ترقی کیلئے اجتماعی کوششوں میں کردار ادا کرتا رہے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان چین کے اس بروقت اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے جو آج کے پیچیدہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے میں کثیرالجہتی عمل کی کلیدی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کثیرالجہتی کے اصولوں ، بین الاقوامی امن، سلامتی اور پائیدار ترقی کے فروغ میں اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کے لئے پاکستان کے مضبوط عزم کا اعادہ کریں گے۔ یاد رہے کہ پاک چین تعلقات ہمیشہ مثبت رہے ہیں، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے چین کی جانب سے پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات پر کھل کر اظہار تشویش کیا گیا ہے۔ پاک چین تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین نے “ڈی ڈبلیو” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں چینی ورکرز کے خلاف بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیاں، پاکستان کا اندرونی عدم استحکام، اور سی پیک منصوبوں کی سست رفتار بھی چین کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ متعدد ماہرین کے مطابق چین نے پاکستان میں اپنے منصوبوں کو متنازع بنانے کے عمل کو ہرگز پسند نہیں کیا، سیاسی حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چینی کارکنوں کے خلاف کارروائیوں میں امریکا ملوث ہو سکتا ہے۔