سعودی عرب وژن 2030 کے لیے پاکستانی افرادی قوت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے: وزیر خزانہ

محمد اورنگزیب نے سعودی عرب میں ہونے والی العلا کانفرنس میں شرکت کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب نئے پراجیکٹ وژن 2030 کے لیے پاکستانی ہنرمند افرادی قوت سے بھرپور استفادہ کر سکتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار سعودی شہر العلا میں ہونے والی دو روزہ اُبھرتی ہوئی مارکیٹ اکانومیز کانفرنس کے موقعے پر کیا جہاں وہ عالمی غیر یقینی صورت حال کے ماحول میں پائیدار اقتصادی ترقی پر ہونے والی گفتگو میں حصہ لے رہے ہیں۔ سعودی عرب ویژن 2030 کے تحت اپنی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کر رہا ہے۔ یہ ایک سٹریٹیجک ترقیاتی منصوبہ ہے جس کا مقصد تیل پر انحصار کم کرنا اور معیشت کو متنوع بنانا ہے۔یہ پروگرام صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے، تفریح اور سیاحت جیسے عوامی خدمت کے شعبوں کی ترقی پر مرکوز ہے۔ عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری سوچ ہے کہ پاکستان کے پاس ہنر مند افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں جو سعودی عرب کے وژن 2030 کو عملی شکل دینے کے لیے ضروری ہیں۔   محمد اورنگزیب نے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس ایک ساتھ کام کرنے کے بے شمار مواقع ہیں، پاکستانی سعودی عرب میں تارکین وطن کی سب سے بڑی برادریوں میں سے ایک ہیں۔ وہاں 20 لاکھ سے زیادہ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حکومتی سطح پر جی ٹو جی کئی معاہدے زیرِ غور ہیں، العلا کانفرنس ابھرتی ہوئی معیشیتوں کے درمیان تعاون اور اقتصادی استحکام کے لیے اہم فورم ہے۔ مزید یہ کہ ‘ہم سعودی عرب کی حمایت اور آئی ایم ایف پروگرام میں تعاون پر شکر گزار ہیں۔’ سعودی عرب پاکستان کے لیے ترسیلات زر سب سے بڑا کا ذریعہ بھی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب میں کام کرنے والی پاکستانی زیادہ تر محنت کش طبقہ ہے ۔ مزید برآں سعودی فنڈ فار ڈولپمنٹ (ایس ایف ڈی)  نے بھی پاکستانی حکومت کے ساتھ شراکت داری کی تجویز دی جس کے تحت پاکستانی نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرامز شروع کیے جائیں گے تاکہ انہیں جدید اور عملی مہارتیں فراہم کی جا سکیں، جو سعودی عرب کی مزدور مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر کے مطابق اس حوالے سے بات چیت رواں ماہ ہوئی۔العلا کانفرنس ایک سالانہ اقتصادی پالیسی کانفرنس ہے، جس کا اہتمام سعودی عرب کی وزارت خزانہ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کے ریاض میں علاقائی دفتر نے کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق العلا کانفرنس کے کل نو سیشن ہوں گے جس میں 200 شرکا اور 36 مقررین شرکت کریں گے۔یہ فورم بدلتی ہوئی دنیا میں لچک پیدا کرنے کے طریقوں، اور اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی پذیر معیشتوں کے لیے درکار مناسب اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں پر تبادلہ خیال کرے گا۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوگی جب دنیا گہرے اور مسلسل معاشی ناہمواریوں، بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی تناؤ، جغرافیائی سیاست، اور سخت مالیاتی حالات سے دوچار ہے۔ سعودی عرب کے تاریخی شہر العلا میں ایمرجنگ مارکیٹس کانفرنس سے قبل پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کے سعودی ہم منصب محمد بن عبداللہ الجدعان کے درمیان ملاقات میں معاشی تعاون کے فروغ اور باہمی خوش حالی کو آگے بڑھانے کے عزم پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرا خزانہ کے درمیان ملاقات میں دوطرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور مالیاتی تعاون کو بڑھانے کے مواقع پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا جبکہ دونوں وزرائے خزانہ نے اپنے ممالک کی سٹریٹجک شراکت داری کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزرا نے دونوں ممالک کے درمیان بنیادی شعبوں بشمول انفراسٹرکچر، توانائی، ٹیکنالوجی اور مالیات میں تعاون کے امکانات کا جائزہ بھی لیا۔ اس موقعے پر دونوں فریقین نے مسلسل مکالمے اور مشترکہ اقدامات کی اہمیت کو اُجاگر کیا تاکہ سرمایہ کاری اور معاشی مواقع کو فروغ دیا جا سکے جو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ وسیع تر خطے کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

یوکرین جنگ بندی: برطانیہ اپنی فوجیں یوکرین بھیجنے کو تیار

برطانوی وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے کہا ہے کہ “وہ یوکرین  امن معاہدے میں یوکرین  کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے برطانوی فوجیوں کو وہاں بھیجنے کے لیے تیار ہیں”۔ برطانیہ کے وزیر اعظم نے کہا کہ” یوکرین میں پائیدار امن کا قیام ، اگر ہم پیوٹن کو مستقبل میں مزید جارحیت سے روکنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے”۔ پیر کو پیرس میں یورپی رہنماؤں کے ساتھ ہنگامی سربراہی اجلاس میں شرکت سے پہلے، سر کیر نے کہا کہ” برطانیہ ضرورت پڑنے پر اپنی فوجیں  یوکرین کو سیکیورٹی کی ضمانت پر دینے کے لیے تیار ہے”۔ انہوں نے ڈیلی ٹیلی گراف پر لکھا کہ ” میں یہ ہلکے دل سےنہیں کہہ رہا بلکہ میں اس ذمہ داری کو بہت گہرائی سے محسوس کرتا ہوں جس سے برطانوی فوجی  کسی نقصان کے راستے میں رکاوٹ بن سکیں”۔ وزیر اعظم نے مزید کہاکہ”لیکن یوکرین کی سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد کرنے میں کوئی بھی کردار ہمارے براعظم کی سلامتی اور اس ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے”۔ سر کیر نے کہا کہ” یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ کا خاتمہ جب بھی آتا ہے، تو پوٹن کے دوبارہ حملے سے پہلے محض ایک عارضی وقفہ بنتا ہے”۔ یوکرین کے زیر قبضہ اور روس کے زیر قبضہ علاقے کے درمیان سرحد کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی ممالک کے فوجیوں کے ساتھ برطانیہ کے فوجی بھی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے پہلے صرف یہ اشارہ دیا تھا کہ جنگ بندی کے بعد برطانوی فوجی یوکرین کی حفاظت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ وہ اس ماہ کے آخر میں واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ کرنے والے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ “پائیدار امن کے لیے امریکی سلامتی کی ضمانت ضروری ہے، کیونکہ صرف امریکہ ہی پیوٹن کو دوبارہ حملہ کرنے سے روک سکتا ہے”۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو آنے والے دنوں میں سعودی عرب میں روسی حکام سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہفتے کے روز یوکرین کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی کیتھ کیلوگ نے ​​کہا کہ “یورپی رہنماؤں سے صرف مشاورت کی جائے گی اور امریکا اور روس کے درمیان سعودی عرب میں ہونے والےمذاکرات میں یوروپی ممالک شرکت نہیں کریں گے”۔  

عالمی بینک کے ایگزیکٹوڈائریکٹرز کی 20 سال بعد پاکستان آمد، کیا پاکستان اپنی معیشت کو نئی زندگی دے سکے گا؟

عالمی بینک کے 9 ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد تقریبا 20 سال بعد پاکستان پہنچ رہا ہے جس کا مقصد اقتصادی ترقی کے منصوبوں، سرمایہ کاری کے مواقع، اور حال ہی میں منظور کیے جانے والے 40 ارب ڈالرز کے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) کو آئندہ دہائی کے لیے موثر انداز میں نافذ کرنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ یہ تاریخی دورہ عالمی بینک کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور دونوں کے درمیان نئے اقتصادی تعاون کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا یہ وفد اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان عالمی بینک کی نظر میں ایک اہم اقتصادی شراکت دار کے طور پر اُبھرا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وفد میں وہ ایگزیکٹو ڈائریکٹرز شامل ہیں جو عالمی بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں 88 رکن ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس دورے کا مقصد نہ صرف اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو فروغ دینا ہے بلکہ عالمی بینک کی جانب سے منظور شدہ 40 ارب ڈالرز کے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) کو آئندہ دہائی کے لیے کامیابی سے نافذ کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہے۔ وفد پاکستان کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں بشمول وزیر اعظم، وزیر خزانہ، وزیر برائے اقتصادی امور ڈویژن، وزیر منصوبہ بندی اور وزیر توانائی سے ملاقات کرے گا۔ اس دوران ترقیاتی اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا اور ملک میں اقتصادی ترقی کی رفتار کو بڑھانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں دہشتگردوں کے حملے: چار اہلکار شہید، آٹھ زخمی ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا وفد اسلام آباد کے علاوہ خیبرپختونخوا (کے پی)، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں کا بھی دورہ کرے گا۔ ان صوبوں کا دورہ عالمی بینک کے عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک بھر میں پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اپنے وسائل اور حکمت عملی کو متحرک کرنا چاہتا ہے۔ وفد بلوچستان کے نمائندوں سے بھی بات چیت کرے گا تاکہ اس صوبے میں اقتصادی ترقی کے نئے مواقع اور چیلنجز کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ دورہ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں مقامی ترقیاتی چیلنجز کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے مختص وسائل کی فراہمی کے لیے اہم ثابت ہو گا۔ یہ ایک موقع ہے جب عالمی بینک نہ صرف پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملیوں کو حمایت فراہم کرے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں ترقی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے مالی اور تکنیکی امداد بھی فراہم کرے گا۔ ورلڈ بینک کا حالیہ 40 ارب ڈالرز کا کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) پاکستان کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فریم ورک عالمی بینک کے ہیڈکوارٹر میں پاکستان کے لیے ایک خاص توجہ کا حامل بنا ہے۔ لازمی پڑھیں: ڈھائی سال بعد جماعتِ اسلامی کا ہر ٹاؤن ماڈل ٹاؤن ہو گا، امیر جماعتِ اسلامی کراچی کا دعویٰ نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے مطابق پاکستان کا سی پی ایف نہ صرف اس کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھولے گا بلکہ دوسرے ممالک بھی اسے عالمی بینک گروپ کے ساتھ اپنے معاشی تعاون کا معیار سمجھ رہے ہیں۔ سی پی ایف کا مقصد پاکستان کی معیشت میں لچک پیدا کرنا پرائیویٹ سیکٹر کی ترقی کو بڑھاوا دینا اور ملک بھر میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہے۔ اس اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا مقصد پاکستان کی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانا اور عالمی بینک کے طویل المدتی عزم کو تقویت دینا ہے۔ ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا یہ دورہ پاکستان کے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس دورے کا مقصد پاکستان میں کاروباری منصوبوں کی تیاری اور ان کے مؤثر نفاذ پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ یہ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک طویل المدتی تعاون کا اشارہ دیتا ہے، جو مستقبل میں ملک کی اقتصادی ترقی اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی اس تاریخی دورے میں شرکت پاکستان کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف عالمی بینک کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعلقات استوار ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے مقام میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ اس دورے کے دوران کاروباری رہنماؤں تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں بھی کی جائیں گی جو عالمی بینک اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوں گی۔ اس دورے میں شامل ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی ایک متنوع ٹیم ہے جو عالمی بینک کے مختلف ممالک کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان میں الجزائر کے عبدالحق بیدجوئی شامل ہیں، جو 8 ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں، اور نائجیریا کی زینب احمد، جو جنوبی افریقا اور انگولا کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سوئٹزرلینڈ سے بیٹریس میسر، آسٹریلیا کے رابرٹ بروس نکول، اسپین سے ٹریسا سولبس، فرانس کے پال بونمارٹن اور دیگر متعدد اہم شخصیات بھی اس وفد کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں عالمی بینک کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے اور یہ دورہ اس بات کا غماز ہے کہ عالمی بینک پاکستان کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں عالمی بینک کے تعاون سے نہ صرف ملکی معیشت کو تقویت ملے گی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کا مقام بھی مزید مستحکم ہوگا۔ ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے پاکستان دورے سے نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا بلکہ عالمی بینک کے ساتھ ایک نئے اور مستحکم تعاون کا آغاز ہوگا جو دونوں فریقین کے لیے طویل المدتی فوائد کا حامل ثابت ہو گا۔ مزید پڑھیں: ججز عدالتی افسران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

بلوچستان میں دہشتگردوں کے حملے: چار اہلکار شہید، آٹھ زخمی

بلوچستان کے علاقوں کیچ اور قلات میں دہشتگردوں کی جانب سے فرنٹیئر کور اور لیویز کی چیک پوسٹوں پر حملوں کے دوران 4 اہلکار شہید اور 8 زخمی ہوگئے۔ معروف نشریاتی ادارے کے مطابق پہلا حملہ نوشکی کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا گیا، حکام کا کہنا ہے کہ لیویز چیک پوسٹ کو اتوار کی علی الصبح توگھو چھپیئر کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رعد نے بتایا کہ نامعلوم افراد نے چوکی پر فائرنگ کی، لیویز اہلکاروں نے جوابی فائرنگ کی، فائرنگ تبادلہ کچھ دیر تک جاری رہا، جس کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک لیویز اہلکار جاں بحق، جب کہ 2 شدید زخمی ہوگئے، شہید اہلکار کی شناخت علی نواز لانگو کے نام سے ہوئی۔ دوسری جانب ضلع کیچ میں نامعلوم مسلح افراد نے ہفتے کی رات دیر گئے نیم فوجی فرنٹیئر کور کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا، چوکی پر تعینات ایف سی اہلکاروں نے حملہ آوروں کو نشانہ بنایا، شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران 3 جوان شہید اور 6 دیگر زخمی ہوگئے۔ زخمیوں اور لاشوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں شہید ایف سی اہلکاروں کی شناخت نائیک گل سنت، لانس نائیک رانا ذاکر اور سپاہی لکھمیر کے ناموں سے ہوئی ہے۔ بعد ازاں تمام زخمیوں کو علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا گیا، سپاہی لکھمیر کا تعلق بلوچستان کے علاقے نصیر آباد سے تھا۔ حملے کے بعد ایف سی کے مزید دستے علاقے میں پہنچ گئے اور سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا۔ دریں اثنا دہشتگردوں نے ہفتے کی رات مشکی کے علاقے میں ایک پولیس اسٹیشن اور لیویز فورسز کے اسٹیشن پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی، تاہم دونوں مقامات پر موجود اہلکاروں نے مزاحمت کرتے ہوئے حملوں کو ناکام بنایا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے فائرنگ بھی کی جس کا پولیس اہلکاروں نے بھرپور جواب دیا، جس کے بعد حملہ آور فرار ہونے پر مجبور ہوگئے، واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم دھماکے کے نتیجے میں تھانے کی ایک دیوار کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔   وزیر اعظم شہباز شریف نے قلات میں لیویز چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کی ہے، ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ دہشت گرد بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے دشمن ہیں۔ وزیراعظم نے شہدا کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مادر وطن کے دفاع کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ وزیراعظم نے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اور حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی لیویز چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے شہید علی نواز اور دیگر شہدا کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے اور اپنی جان کا نذرانہ دے کر بہادری کی مثال قائم کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔حملے میں ملوث عناصر کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں؟ اب آپ ان کو سن سکتے ہیں

آج کی تیز رفتار زندگی میں جہاں ہر شخص وقت کی کمی کا شکار ہے، آڈیو بکس مطالعے کا ایک آسان اور مؤثر متبادل بن چکی ہیں۔ یہ وہ کتابیں ہیں جنہیں پڑھنے کے بجائے سنا جاتا ہے، اور یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہیں جو مصروف شیڈول کی وجہ سے کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں نکال پاتے۔ پاکستانی طالبہ نے سٹورائز نام کی ایک ایپ بنائی ہے جو آڈیو بکس فراہم کرتی ہے۔ یہ ایپ کتابوں کے خلاصے اور اہم موضوعات کا بھی بتاتی ہیں۔ آئیے ملتے ہیں جنہوں نے یہ ایپ بنائی ہے۔  

ججز عدالتی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے ایک تاریخی فیصلے میں رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار ہائی کورٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ججز عدالتی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کر سکتے تاہم اگر کسی افسر کی جانب سے کوتاہی ہو تو محکمانہ کارروائی ضرور کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس انعام امین منہاس پر مشتمل لارجر بینچ نے رجسٹرار سردار طاہر صابر اور ڈپٹی رجسٹرار محمد اویس الحسن خان کی جانب سے دائر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنایا۔ لارجر بینچ نے اس بات پر زور دیا کہ ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے، مگر توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے انضباطی اقدامات زیادہ مناسب ہیں۔ نجی نشریاتی ادارے ڈان نیوز کے مطابق عدالت نے کہا کہ اگر فرادی کوتاہی کا معاملہ ہو تو اس کی رپورٹ چیف جسٹس کو دی جانی چاہیے تھی اور پھر اس کے خلاف ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں کارروائی کی جانی چاہیے تھی، نہ کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جاتی۔ یہ معاملہ گزشتہ سال 9 مئی کو شروع ہوا تھا جب وکلا کی ہڑتال کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے افسران پر امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا۔ وکیل نعیم بخاری کی شکایت پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی، جس میں انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) کے صدر پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے وکلا کو ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہونے سے زبردستی روکا تھا۔ اس کے بعد، توہین عدالت کی کارروائی کی ہدایات رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کی جانب موڑ دی گئیں کیونکہ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے عدالت کو گمراہ کیا تھا۔ دونوں افسران نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے توہین عدالت کی کارروائی کو چیلنج کیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ لارجر بینچ کے سامنے آیا۔ یہ بھی پڑھیں: “پاکستانیت سب سے اہم، پاک فوج کبھی نہیں ہارے گی” آرمی چیف کا طلبا سے خطاب سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ اس معاملے میں توہین عدالت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وکیل نے کہا کہ قانونی برادری کے کسی رکن کو اس عدالت میں آنے سے نہیں روکا گیا، اور نہ ہی توہین عدالت کی کوئی دوسری وجہ تھی۔ وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ان افسران کی جانب سے فرادی کوتاہی ہوئی تھی تو اس کا مناسب طریقہ یہ تھا کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے بجائے انضباطی کارروائی کی جاتی۔ لارجر بینچ نے اس مؤقف کو تسلیم کیا اور کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے ادارے کی آزادی اور اس کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ہائیکورٹ کے جج کو لگتا ہے کہ کسی افسر کی جانب سے اپنے فرائض میں غفلت برتی جا رہی ہے تو اس معاملے کو چیف جسٹس یا ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہیے تھا، نہ کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جاتی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر توہین عدالت کی کارروائی کی جاتی ہے جہاں کوئی انتظامی یا عدالتی حکم نہیں تھا تو اس سے ادارے کی آزادانہ اور ہموار کارروائی میں رکاوٹ آئے گی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی افسر کی جانب سے ڈیوٹی میں کوتاہی ہوئی تو اس کے لیے مناسب فورم انضباطی کارروائی کا ہے اور اس کے لیے شکایت متعلقہ اتھارٹی کے سامنے پیش کی جانی چاہیے۔ لازمی پڑھیں: چچا بھتیجی کا رشتہ قائم رہے مگر وزیرِاعظم باقی صوبوں پر بھی نظرِ کرم کریں، ترجمان سندھ حکومت یہ کیس توہین عدالت کے ایک مقدمے کے طور پر سامنے آیا تھا جس کی ابتدا 9 مئی 2024 کو ہوئی تھی۔ اس روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں وکلا کی ہڑتال جاری تھی اور اس دوران امن و امان کے معاملات خراب ہوئے۔ وکیل نعیم بخاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے وکلا کو عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ بعد میں اس معاملے میں رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی۔ لیکن ان دونوں افسران نے انٹرا کورٹ اپیل کے ذریعے اس کارروائی کو چیلنج کیا جس کے بعد یہ کیس لارجر بینچ کے سامنے آیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار نے گزشتہ سال 9 مئی کو کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کی تھی۔ اس لیے توہین عدالت کی کارروائی کے کوئی جواز نہیں تھے، اور عدالت نے توہین عدالت کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارروائی کا ہی نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی اور اس کے مؤثر کام کے لئے بھی ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس فیصلے نے یہ ثابت کیا کہ عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے ادارے کی آزادی متاثر ہو سکتی ہے، اور اس کی بجائے مناسب انضباطی کارروائی کی جائے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف عدلیہ کے آزادانہ کام کے حق میں ہے بلکہ یہ اس بات کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ عدالتوں کو سیاسی اور انتظامی امور میں دخل اندازی سے بچنا چاہیے تاکہ انصاف کی فراہمی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔ مزید پڑھیں: ڈھائی سال بعد جماعتِ اسلامی کا ہر ٹاؤن ماڈل ٹاؤن ہو گا، امیر جماعتِ اسلامی کراچی کا دعویٰ

کیا غذائی عادات اور ماحولیاتی عوامل بچپن کے کینسر میں اضافہ کر رہے ہیں؟

ہر سال 4 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرطان (کینسر) سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں اس خطرناک اور جان لیوا مرض سے آگاہی اور اس سےبچاؤ کے متعلق شعور پیدا کرنا ہے۔ 4 فروری کو وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ عالمی سطح پر سرطان موت کی دوسری بڑی وجہ ہے، پاکستان نے کینسر کی تحقیق، علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس بیماری کی روک تھام اور مؤثر طریقے سے علاج کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ خبرنامے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 1000 سے زائد بچوں میں سرطان کی تشخیص ہوتی ہے، اگرچہ طبی میدان میں حالیہ ہوئی ترقی سے بہتر آمدنی والے ممالک میں اس بیماری سے صحت یابی کے امکانات بڑھے ہیں، جس سے 80 فیصد سے زائد بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے، مگر کم آمدنی والے ممالک میں اس کی شرح صرف 20 فیصد تک ہی رہنے کا امکان ہے۔ بچوں میں کینسر کی روک تھام کے لیے مضبوط طبی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کینسر میں مبتلا بچوں کی صحت یابی کا بڑی حد تک دار و مدار ایسے طبی نظام پر ہوتا ہے، جو ان میں بیماری کی بروقت تشخیص اور ابتدائی مرحلے میں ہی موزوں علاج مہیا کر سکے۔ بچپن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز نے دنیا بھر کو تشویش میں ڈال رکھا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید طرزِ زندگی، غیر متوازن غذا اور آلودہ ماحول نے بچوں کی صحت پر منفی اثر ڈال دیا ہے۔ مزید یہ کہ کیمیکل زدہ خوراک اور فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے موٹاپا، الرجی اور دیگر بیماریوں میں اضافہ ہو ا ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی اور زہریلے کیمیکلز نے سانس اور جلدی امراض میں اضافہ کر دیا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو ماہر امراض ِ اطفال ڈاکٹر خدیجہ افضل نے بتایا ہے کہ بچوں میں عام طور پر لیوکیمیا، برین ٹیومر اور لمفوما جیسے کینسر پائے جاتے ہیں۔ ان کی وجوہات میں جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اور بعض وائرس شامل ہو سکتے ہیں۔ جدید تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ قبل از پیدائش ماحولیاتی عوامل بچے میں کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ جدید دور میں فاسٹ فوڈ کا ہر جگہ استعمال عام ہے، والدین آئے روز باہر سے کھانا منگواتے ہیں اور اسے بچوں کی بھی ساتھ کھلا دیتے ہیں، جس سے سرطان سمیت کئی بیماریاں بچوں میں جنم لے رہی ہیں۔ ڈاکٹر خدیجہ افضل کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ اور پروسیسڈ فوڈ میں موجود مصنوعی اجزاء، پریزرویٹوز اور کیمیکل بچوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتے ہیں۔ ان کھانوں میں موجود ٹرانس فیٹس اور ہائی فریکٹوز کارن سیرپ موٹاپے اور ہارمونی عدم توازن کا سبب بنتے ہیں، جو بعض اقسام کے کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ خدیجہ افضل نے کہا ہے کہ تحقیق کے مطابق بازاری کھانوں میں پائے جانے والے کیمیکلز جیسے سوڈیم نائٹریٹ، بی ایچ اے اور بی ایچ ٹی کارسینوجینک اثرات رکھتے ہیں۔ مصنوعی رنگ اور فلیورز بھی بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں اور طویل مدتی استعمال کینسر کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔ بچوں میں سرطان کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی کو مانا جاتا ہے، حکومتی ادارے اور عالمی تنظیمیں اس کے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنے میں لگی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کیسے بچوں میں کینسر کا سبب بن سکتی ہے؟ ڈاکٹر خدیجہ افضل نے پاکستان میٹرز کو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فضائی آلودگی، آلودہ پانی اور زہریلے کیمیکل بچوں کے جسم میں زہریلے مادے جمع کرنے کا سبب بنتے ہیں، جو کینسر کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر صنعتی علاقوں میں رہنے والے بچوں میں سانس اور خون کے کینسر کے کیسز زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ ماہر امراضِ اطفال نے کہا ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کیڑے مار ادویات، پلاسٹک میں موجود زہریلے اجزاء (بی پی اے) اور آلودہ پانی بھی مدافعتی نظام کو کمزور کر کے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سائنسی ترقی کی بدولت علاج میں بہتری آئی ہے، مگر اس کے ساتھ بچوں میں کینسر کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیاہے. عالمی ادارہ صحت کی گلوبل کینسر آبزرویٹری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022 میں 185,748 کیسز رپورٹ ہوئے، 118, 631 اموات ہوئیں،  جب کہ 5 سال سے کم عمر 390,443 مروجہ مقدمات درج ہوئے۔ ماہر صحتِ عامہ ڈاکٹر قمر ایوب نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ پاکستان میں غذائی آلودگی، کمزور مدافعتی نظام، آلودہ پانی اور ناقص صحت سہولیات کی وجہ سے بچوں میں کینسر کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے  وقت پر تشخیص نہ ہونے اور مالی وسائل کی کمی بھی بیماری کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ کینسر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں میں صحت مند غذائی عادات پروان چڑھائی جائیں، قمر ایوب کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو تازہ اور گھریلو کھانوں کی طرف راغب کریں، جن میں پھل، سبزیاں اور پروٹین سے بھرپور غذا شامل ہو۔ جنک فوڈ کی جگہ صحت مند اسنیکس متعارف کروا کر اور کھانے کے اوقات مقرر کر کے صحت مند عادات پروان چڑھائی جا سکتی ہیں۔ حکومتی سطح سے اقدامات کے حوالے سے ڈاکٹر قمر ایوب نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غذائی اشیاء میں ملاوٹ کے خلاف سخت قوانین نافذ کرے اور عوام میں آگاہی مہم چلائے۔ نجی ادارے بھی کینسر ریسرچ، علاج کی سہولتوں اور صحت مند غذا کی فراہمی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی خوراک پر توجہ دیں، بازاری اور پروسیسڈ فوڈ سے گریز کریں اور انہیں جسمانی سرگرمیوں میں شامل کریں۔ اس کے علاوہ، بچوں کا باقاعدہ طبی معائنہ کروانا اور کسی بھی غیرمعمولی علامات کو نظرانداز نہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ ماہرین کی رائے ظاہر کرتی ہے کہ بچوں کی صحت کے لیے متوازن غذا، صاف ستھرا ماحول اور بروقت طبی معائنہ کینسر