چین اور شام کے درمیان تعلقات کی بحالی: احمد الشعار کی چینی سفیر سے اہم ملاقات

شام کے نئے صدر احمد الشعار نے چین کے سفیر ‘شی ہونگوی’ سے پہلی بار ملاقات کی، یہ ملاقات بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی پہلی عوامی ملاقات تھی۔ شام کے سرکاری میڈیا نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے لیکن اس بات چیت کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ چین، جو کہ پہلے بشار الاسد کا حامی رہا ہے 2011 میں شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے شامی حکومت کے مضبوط اتحادی کے طور پر سامنے آیا۔ تاہم، اسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دمشق میں چین کے سفارت خانے میں لوٹ مار کی گئی تھی۔ اب شام میں نئے حکام نے غیر ملکی جنگجوؤں بشمول چینی مسلمانوں یعنی اویغوروں کو شام کی مسلح افواج میں شامل کر لیا ہے۔ مغربی حقوق گروہ چین پر اویغور مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا الزام لگاتے ہیں تاہم بیجنگ ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ چین کی حمایت کے باوجود شام کی نئی حکومت جو کہ اسلام پسند رہنماوں کے زیر اثر ہے اس بات پر زور دیتی ہے کہ وہ اسلامک انقلاب کو برآمد نہیں کرے گی اور اقلیتی گروپوں کے ساتھ رواداری سے حکومت کرے گی۔ اس دوران کچھ غیر ملکی جنگجوؤں کی شمولیت نے شامی عوام اور بیرونی حکومتوں کے درمیان تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ تاہم، نئے حکام کے وعدوں کے باوجود عالمی برادری ابھی تک شام میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے محتاط ہے۔ چین کے صدر ‘شی جن پنگ’ نے اسد کی حکومت کو ہمیشہ بیرونی مداخلت کے خلاف حمایت فراہم کی ہے اور 2023 میں اسد اور ان کی اہلیہ کا چین میں گرم جوشی سے استقبال کیا تھا۔ اس دورے کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہوئے تھے جو اسد کے لیے بین الاقوامی تنہائی سے نجات کا باعث بنے۔ مگر ایک سال بعد اسد کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور شامی عوام کے لیے ایک نیا باب شروع ہو گیا۔ اب شام میں نئے حکام، جن کی قیادت میں شام کی جنگ کے نتیجے میں ایک نیا دور آ رہا ہے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسر نو استوار کر رہے ہیں۔ شامی صدر احمد الشعار کی چین کے سفیر سے ملاقات ان تعلقات کی نوعیت اور ان کے ممکنہ اثرات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے، کیونکہ یہ شام کے نئے حکام کی پالیسیوں کی جھلک فراہم کرتی ہے جو عالمی سیاست میں اہم تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس ملاقات نے نہ صرف شام بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نیا سوال پیدا کر دیا ہے کہ کیا یہ نیا اتحاد عالمی سیاست میں مزید کشیدگی کا باعث بنے گا؟ مزید پڑھیں: میکسیکو کی خودمختاری پر امریکی حملہ: کیا میکسیکو کا دفاع ممکن ہے؟
خیبرپختونخوا نے ارباب نیاز اسٹیڈیم کا نام عمران خان کے نام پر رکھنے کی منظوری دے دی

خیبرپختونخوا (کے پی) پشاور میں ایک ہی اسٹیڈیم ارباب نیاز کے نام سے تھا جسے کے پی کے حکومت نے تبدیل کر کے عمران خان کے نام پر رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ کے پی حکومت نے اس سے قبل اس سٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو صوبے میں واحد بین الاقوامی کرکٹ مقام ہے کا نام پی ٹی آئی کے بانی کے نام پر رکھا گیا ہے تاکہ ملک کے کھیلوں کے منظر نامے کو تشکیل دینے میں سابق وزیر اعظم کے اہم کردار کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور نے ایک روز قبل محکمہ کھیل کی جانب سے اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے ایک سمری پر دستخط کیے تھے اور آج کابینہ کے اجلاس میں اس کی منظوری دے دی گئی۔ ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کا نام تبدیل کرکے ‘عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم’ رکھنے کے فیصلے کی منظوری کے ساتھ ہی کابینہ کے اجلاس میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں صوبے کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اہم فیصلے بھی کیے گئے۔ وزیراعلیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ پیکج کو شفاف طریقے سے تقسیم کیا جائے گا، اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ غریبوں، یتیموں اور خواجہ سراؤں کو ان کا حصہ ملے۔ انہوں نے مزید زور دیا کہ دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کو بھی اس اقدام میں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کی لاگت دو ارب 31 کروڑ تک پہنچ گئی جبکہ 2018 میں ا سٹیڈیم کی لاگت ایک ارب 37 کروڑ روپے لگائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 2021 میں لاگت ایک ارب 94 کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی اور 2024 میں اسٹیڈیم کی لاگت دو ارب 31 کروڑ روپے تک پہنچ گئی
میکسیکو کی خودمختاری پر امریکی حملہ: کیا میکسیکو کا دفاع ممکن ہے؟

میکسیکو کی صدر کلاڈیا شیئن باؤم نے حالیہ دنوں میں امریکی اقدامات کے خلاف سخت بیان دیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کے آئین میں ایسی ترامیم تجویز کریں گی جو میکسیکو کی خودمختاری کو مزید مستحکم کریں۔ یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب امریکا نے کئی میکسیکن کارٹلز کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر تسلیم کیا جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ امریکا ممکنہ طور پر میکسیکو کی سرحدوں میں مداخلت کر سکتا ہے۔ شیئن باؤم نے کہا کہ “میکسیکو کے عوام کسی صورت بھی بیرونی مداخلت، دخل اندازی یا کسی بھی دوسرے عمل کو برداشت نہیں کریں گے جو ہماری ملک کی سالمیت، آزادی اور خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہو۔” ان کا یہ بیان ایک پریس کانفرنس کے دوران آیا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ ان کے ملک کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکا کا یہ اقدام اُس وقت سامنے آیا جب اطلاعات کے مطابق امریکی فوج نے MQ-9 ریپر ڈرونز کو میکسیکو کے فضائی حدود میں بھیجا تاکہ وہ منشیات کے کارٹلز پر نظر رکھ سکے امریکی نشیاتی ادارے CNN کی رپورٹ کے مطابق یہ خفیہ مشن امریکی سرحد پر ڈرونوں کی نگرانی کے حصے کے طور پر کیے گئے ہیں جو سابق امریکی صدر ٹرمپ کی حکمت عملی کے تحت جنوبی سرحد پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے شروع کیے گئے تھے۔ شیئن باؤم اور دیگر میکسیکن حکام نے اس بات پر گہری تشویش ظاہر کی کہ امریکی طیارے میکسیکو کی سرحد کے قریب، اگرچہ بین الاقوامی فضائی حدود میں، لیکن پھر بھی میکسیکو کی خودمختاری میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: بھارت نے بی بی سی پر 3 لاکھ 14 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کر دیا وزیر دفاع ریکارڈو ٹریویلا نے گزشتہ ہفتے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں امریکی جاسوس طیاروں کی پروازوں کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ شیئن باؤم نے آئین کے آرٹیکل 39 اور 40 میں ترامیم کی تجویز پیش کی ہے جو میکسیکو کی آزادی اور خودمختاری پر زور دیتے ہیں۔ ان ترامیم میں یہ بات شامل ہوگی کہ میکسیکو کسی بھی بیرونی تحقیقات یا گرفتاریوں کو صرف اور صرف میکسیکو ریاست کے تحت اور اس کی مکمل اجازت کے ساتھ ہی انجام دے گا۔ شیئن باؤم نے مزید کہا کہ امریکا کے اس فیصلے سے یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ “ہم خودمختاری پر کوئی سودابازی نہیں کریں گے۔” ان کا کہنا تھا کہ “امریکا جو چاہے ان کارٹلز کو کہے لیکن ہمارے لیے یہ صرف تعاون اور ہم آہنگی ہے، کبھی بھی ذلت یا مداخلت نہیں۔” اس کے علاوہ شیئن باؤم نے ایک اور اہم اصلاحات کی تجویز بھی دی ہے جس کے تحت میکسیکو میں غیر قانونی اسلحہ کی تیاری، تقسیم اور درآمد میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے گی۔ لازمی پڑھیں: ٹرمپ کی غیر ملکی امداد کی معطلی افغان خواتین کی تعلیم کے لیے خطرہ بن گئی امریکا سے میکسیکو میں سمگل ہونے والے ہتھیاروں کا طویل عرصے سے ذکر کیا جا رہا ہے اور اس میں ایک بڑا حصہ امریکی ساختہ ہتھیاروں کا ہے۔ میکسیکو نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بیشتر ہتھیار جو جرائم کی جگہوں سے برآمد ہوتے ہیں وہ امریکا سے سمگل ہو کر میکسیکو پہنچتے ہیں، جن کا فیصد 70 سے 90 فیصد تک ہو سکتا ہے۔ شیئن باؤم کا کہنا ہے کہ میکسیکو کسی بھی صورت میں اپنے خودمختاری کے خلاف کسی بھی قسم کی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا، اور یہ کہ وہ ملک کے اندرونی معاملات میں امریکا یا کسی دوسرے ملک کی دخل اندازی کو ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ ان کا یہ موقف ایک مضبوط پیغام ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ میکسیکو اپنے حقوق اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ میکسیکو کے عوام اور حکام کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکا کے کسی بھی اقدام کو چیلنج کیا جائے گا، اور ملک کی خودمختاری کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ یہ صورت حال نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ پورے خطے کی سیاست میں بھی ایک نئی پیچیدگی پیدا کر سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: فرانس نے غیر دستاویزی تارکین وطن کی شادی پر پابندی عائد کر دی
فرانس نے غیر دستاویزی تارکین وطن کی شادی پر پابندی عائد کر دی

فرانس کی سینیٹ نے جمعرات کو ایک بل کی منظوری دی، جس کا مقصد امیگریشن قوانین کو سخت کرنے کے لیے غیر دستاویزی تارکین وطن کو ملک میں شادی کرنے سے روکنا ہے۔ مجوزہ قانون سازی کو اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ امیگریشن کے سخت گیر وزیر داخلہ برونو ریٹیلیو اور وزیر انصاف جیرالڈ ڈرمینین کی حمایت یافتہ اس قانون کو فرانسیسی پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے پہلی پڑھائی میں منظور کیا، جس کے حق میں 227 اور مخالفت میں 110 ووٹ آئے۔ بل اب قومی اسمبلی کے ایوان زیریں سے پاس ہونا ضروری ہے۔ فرانسیسی حکام امیگریشن پالیسیوں اور سرحدی کنٹرول کو سخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ گزشتہ موسم گرما کے قانون ساز انتخابات کے بعد فرانسیسی سیاست میں دائیں جانب تبدیلی کی علامت ہے جس کے نتیجے میں معلق پارلیمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس قانون سازی کا مقصد دھوکہ دہی کی شادیوں پر کریک ڈاؤن کرنا اور ان خامیوں کو بند کرنا ہے جو شادی کے ذریعے رہائشی اجازت نامے یا فرانسیسی شہریت کی فراہمی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ قانون فرانسیسی آئینی کونسل کے 2003 کے فیصلے کے خلاف ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ غیر ملکی کی غیر قانونی حیثیت ‘بذات خود متعلقہ شخص کی شادی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔’ گرینز سینیٹر میلانیا ووگل نے اس کی مذمت کی جسے انہوں نے “آئین پر مکمل حملہ” قرار دیا۔ سوشلسٹ کورین ناراسیگو نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد “زینوفوبیا اور نسل پرستی کے اضطراب پیدا کرنے والے ماحول کو بڑھانا ہے۔” یہ اقدام شمالی فرانس کے ایک قصبے کے میئر کے کیس کے جواب میں سامنے آیا جسے 2023 میں اس شخص کی شادی کی ذمہ داری دینے سے انکار کرنے پر مسجد کے ایک سابق رہنما نے عدالت میں پیش کیا۔ واضح رہے کہ فرانسیسی قانون کے تحت شادیاں سٹی ہالز میں ہونی چاہئیں۔ سینیٹ کا ووٹ ایک الگ کیس کے کچھ دن بعد آیا، جس میں استغاثہ نے جنوبی قصبے بیزیئرز کے میئر رابرٹ مینارڈ کو 2023 میں ایک فرانسیسی خاتون اور ایک غیر دستاویزی الجزائری شخص کے درمیان شادی کی ذمہ داری سے انکار کرنے پر طلب کیا۔
بھارت نے بی بی سی پر 3 لاکھ 14 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کر دیا

بھارت کی مالیاتی جرائم کی تفتیشی ایجنسی ‘انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ’ (ای ڈی) نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی پر غیر ملکی زر مبادلہ کے قوانین کی خلاف ورزی پر 3 لاکھ 14 ہزار 510 پاؤنڈ (تقریباً 4 لاکھ ڈالر) کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ یہ جرمانہ ای ڈی کی جانب سے گزشتہ سال اپریل میں بی بی سی کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے بعد کیا گیا جس کے بعد ٹیکس حکام نے دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی بھی لی تھی۔ ای ڈی نے یہ کارروائی غیر ملکی زر مبادلہ کے انتظام کے تحت کی جس کا مقصد بھارت میں غیر قانونی مالیاتی سرگرمیوں کی روک تھام اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ضوابط کی نگرانی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق بی بی سی کو 2023 کے آغاز میں اس بات پر نوٹس دیا گیا تھا کہ اس نے بھارت میں اپنی کمپنی میں غیر ملکی ملکیت کی حد 26 فیصد تک کم نہیں کی جو کہ بھارتی قوانین کے مطابق ضروری ہے۔ یہ جرمانہ بی بی سی کے بھارتی زبانوں کے حوالے سے نئی کمپنی کے قیام کے بعد عائد کیا گیا ہے جو دسمبر 2023 میں شروع ہوئی تھی۔ ان تحقیقات کا آغاز بی بی سی کی طرف سے بھارت میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں 2002 کے گجرات فسادات پر ایک متنازعہ دستاویزی فلم نشر کرنے کے بعد ہوا تھا۔ اس فلم میں مودی کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے تھے جس کے بعد بھارتی حکومت نے اسے “مذہبی پروپیگنڈہ” قرار دیتے ہوئے اس کی نشریات پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر اس کے کلپس شیئر کرنے پر بھی روک لگا دی گئی۔ ای ڈی نے یہ بھی کہا ہے کہ بی بی سی کے تین ڈائریکٹرز پر بھی جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ ہر ایک ڈائریکٹر کو 1 لاکھ 4 ہزار 836 پاؤنڈ کا جرمانہ بھرنا ہوگا کیونکہ انہوں نے کمپنی کے ان اقدامات کی نگرانی کی تھی جو بھارت میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف تھے۔ یہ واقعہ بھارت اور بی بی سی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی ایک اور مثال ہے جس نے بھارت میں آزادی صحافت اور بیرونی میڈیا اداروں کی سرگرمیوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے ابھی تک اس فیصلے پر کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ کی غیر ملکی امداد کی معطلی افغان خواتین کی تعلیم کے لیے خطرہ بن گئی
آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے باعث گلبرگ میں کاروباری مراکز بند رہیں گے، نوٹیفیکشن جاری

قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کل پہلا میچ کھیلا جائے گا جس کے باعث سیکیورٹی ایشو ہونے کی وجہ سے اسٹیڈیم کے نزدیکی علاقوں میں کاروباری مراکز بند کرانے کے لیے نوٹیفیکشن جا ری کیا گیا ہے۔ نوٹیفیکشن کے مطابق آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے لاہور میں میچ کے باعث کاروباری مراکز بند کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ گلبرگ میں صدیق ٹریڈ سنٹر سے کلمہ چوک تک تمام کاروباری مراکز ،ریسٹورنٹس،منئ ایکسچینج بند رات 10 بجے سے بند ہوں گے۔ ایس ایچ او گلبرک نے کاروباری سرکلر جاری کردیا گیا میچ کے باعث حفیظ سینٹر،لبرٹی مارکیٹ ،مین مارکیٹ ،لاہور سینٹر سمیت تمام مارکیٹس بند رہیں گی۔ خیال رہے کہ کل آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا میچ کھیلا جائے گا، سیکورٹی ایشو کے باعث ان تمام مارکیٹوں میں کاروبار بند کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
چیمپئنز ٹرافی کا میچ دیکھنے کی ‘خوشی’ افغان پناہ گزینوں کے لیے کتنی تلخ ہے؟

افغان پناہ گزین پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی دیکھنے کے لیے پرجوش تو ہیں مگر وطن واپسی کے خوف نے ان کی خوشی میں کچھ کمی کر دی ہے۔ اسلام آباد کے ایک کیفے میں افغان پناہ گزین جمع ہوئے تاکہ اپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کو پہلی بار چیمپئنز ٹرافی میں کھیلتے ہوئے دیکھ سکیں۔ اس موقع پر خوشی کا سماں تھا، مگر جلد ہی ان کی گفتگو کا رخ ایک اور اہم موضوع کی طرف مڑ گیا۔ پاکستان، جو کہ رواں سال چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کر رہا ہے، اس وقت تقریبا چار ملین افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے ایک بڑی مہم چلا رہا ہے جو 40 سال سے زائد عرصے سے جنگ کی وجہ سے پاکستان میں پناہ گزین ہیں جن میں سے کچھ طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد یہاں آئے تھے۔ کراچی کے سٹیڈیم کے باہر جہاں افغان کرکٹ کے شائقین اپنے قومی ٹیم کا حوصلہ بڑھا رہے تھے اسلام آباد کے پناہ گزین خوف میں مبتلا نظر آ رہے تھے۔ یہ خوف اس وقت اور بڑھ گیا جب جنوری میں حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی سے افغان پناہ گزینوں کی ڈی پورٹیشن شروع کر دی۔ نجی نشریاتی ادارے ڈان نیوز کے مطابق ‘راہیل تالش’ جو انسانی حقوق کی مدافع ہیں اور تین سال قبل پاکستان فرار ہو کر آئی تھیں، انہوں نے کہا ہے کہ “جو لوگ 2021 کے بعد پاکستان آئے وہ صرف اپنی جانوں کے خطرے سے بچنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ حالات گزشتہ ماہ سے مزید خراب ہو گئے ہیں۔” ان کے مطابق ہر شخص خوف میں مبتلا ہے۔ یہ بھی پرھیں: جنوبی افریقا کا چیمپئنز ٹرافی میں فاتحانہ آغاز، افغانستان کو 107 رنز سے شکست دے دی اس کے علاوہ 22 سالہ ‘مرزیا دلاور’ نے بھی اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ “جب ہم اٹھتے ہیں تو ہمیں خوف ہوتا ہے کہ پولیس آ جائے گی، لوگ اپنے گھروں سے باہر جانے سے ڈرتے ہیں۔” مرزیا نے افغانستان میں خواتین کی جدو کے مقابلوں میں نمائندگی کی ہے حالانکہ طالبان نے خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی تھی، وہ اپنے خاندان سے تقریبا ایک سال سے جدا ہیں اور ابھی تک آبادکاری کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔ مرزیا نے کہا ہے کہ “میں چاہتی ہوں کہ افغانستان جیتے اور میرا پسندیدہ کھلاڑی راشد خان ہے۔ میرے پورے خاندان نے کرکٹ دیکھنی ہے مگر ان کے لیے یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔” پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی وطن واپسی کے خدشات کے باوجود پاکستانی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کے خلاف ہراساں کرنے کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدامات 2023 کی مہم کا حصہ ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ یہ مشکلات اور خوف کی فضا چیمپئنز ٹرافی جیسے خوشی کے مواقع پر بھی ان کی خوشی کو ماند کر دیتی ہے۔ پاکستانی حکومت اور عالمی برادری کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کی مشکلات کو حل کریں اور انہیں تحفظ فراہم کریں تاکہ وہ نہ صرف اپنے کھیلوں میں بلکہ اپنے روزمرہ کی زندگی میں بھی سکون محسوس کر سکیں۔ یہ صورتحال افغان پناہ گزینوں کے لیے ایک اہم موڑ پر ہے جہاں کرکٹ کا کھیل اور سیاست دونوں ہی ان کی زندگیوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: پاکستان کا تاجکستان سے پانی خریدنا، کیا اس بحران کا یہی حل ہے؟
وزیر اعظم شہباز نے فوری انصاف کی فراہمی کے لیے نئے کیس مینجمنٹ سسٹم کا آغاز کر دیا

ملک کے عدالتی نظام کو جدید بنانے کی اپنی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر، وزیر اعظم شہباز شریف نے مقدمہ اسائنمنٹ اینڈ مینجمنٹ سسٹم کا آغاز کیا تاکہ فریقین کو شفاف، موثر اور فوری انصاف فراہم کیا جا سکے۔ اسلام آباد میں افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ نظام طویل عرصے سے التواء کا شکار تھا کیونکہ ملک بھر سے درخواست گزار اور درخواست گزار شفاف اور تیز انصاف چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہ اقدام ان کی شکایات کو دور کرنے اور مناسب وقت میں انصاف فراہم کرنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کھلی ملی بھگت اور بدعنوانی اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے کئی دہائیوں سے کھربوں روپے ضائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو جدید خطوط پر ڈھالنے اور ماضی کے نقصانات کی تلافی اور مستقبل میں منافع حاصل کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں پر زور دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی سے اپنی حالیہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے اعلیٰ ترین جج سے زیر التواء مقدمات میں میرٹ کی بنیاد پر جلد فیصلے کرنے کی درخواست کی۔ اس ہفتے کے شروع میں، وزیر اعظم نے قومی عدالتی پالیسی سازی کمیٹی کے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے کو شیئر کرنے کے لیے، ان کی دعوت پر، چیف جسٹس آفریدی کی رہائش گاہ کا دورہ کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے پاکستان کے عوام کی بہتری کے لیے واجب الادا ایک ایک پائی واپس کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول بین الاقوامی شراکت داروں، اقوام متحدہ (یو این) اور کینیڈا کا کیس اسائنمنٹ اور مینجمنٹ سسٹم کے لیے مالی معاونت کے ڈیزائن اور توسیع کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اپنے ریمارکس میں، اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کے کنٹری نمائندے ٹرولز ویسٹر نے گورننس میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے حکومت پاکستان اور وزارت قانون و انصاف کی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا۔ انہوں نے ملک کے نظام عدل کو جدید بنانے کے لیے گورننس اصلاحات پر وزیر اعظم شہباز کی قیادت کو سراہا۔
پاکستان کا تاجکستان سے پانی خریدنا، کیا اس بحران کا یہی حل ہے؟

پاکستان میں پانی کے بحران نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیا ہے جب گزشتہ دنوں ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری نے گوادر کو پانی کی فراہمی کے لیے تاجکستان سے پانی درآمد کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کی تفصیلات جان کر ماہرین کے حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے کیونکہ یہ تجویز خود بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا پاکستان میں واقعی پانی کی اتنی کمی ہو گئی ہے کہ ہمیں تاجکستان سے پانی خریدنا پڑے گا؟ گوادر شہر کو صاف پانی کی فراہمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں جہاں پانی کے وسائل پر زور دیا جاتا ہے، گوادر بھی انہی مسائل سے دوچار ہے۔ ایک عالمی جائزے کے مطابق شہری آبادی کو روزانہ 40 گیلن پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور گوادر کی آبادی تقریبا ایک لاکھ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس وقت گوادر کو 40 لاکھ گیلن پانی درکار ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اس حد تک پیچیدہ ہے کہ گوادر کی آبادی میں آئندہ پانچ سے دس سالوں میں پانچ گنا اضافہ متوقع ہے جو کہ اس شہر کی پانی کی ضروریات کو دو کروڑ گیلن تک پہنچا دے گا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جولائی 2023 میں سمندری پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنانے کے لیے ایک پلانٹ نصب کیا گیا، جس کی صلاحیت 12 لاکھ گیلن روزانہ ہے۔ لازمی پڑھیں: حافظ نعیم کا’بنو قابل‘ کارواں گوجرانوالا پہنچ گیا، نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کا اعلان حکومت نے شادی کور اور سواد ڈیموں کی تعمیر کا فیصلہ بھی کیا ہے تاکہ گوادر کی پانی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ صدر زرداری نے ایک انوکھا اعلان کیا جس نے سب کو حیرانی میں مبتلا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے پانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے پاکستان تاجکستان سے پانی خریدے گا اور اس کے لیے ایک پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ اس پائپ لائن کو گوادر تک لانے کے لیے چین کی مدد سے منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور اس کی فیزیبلٹی سٹڈی متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کی گئی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پوری دنیا کو پنجاب کا مہمان بنائیں گے: مریم نواز نے میگنی فیشنٹ منصوبے کا آغاز کر دیا آبی وسائل کے ماہرین اس تجویز کو ’حیران کن‘ قرار دے رہے ہیں کیونکہ گوادر میں پانی کی کمی کے حل کے لیے یہ انتہائی پیچیدہ اور مہنگا منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حسن عباس جو کہ پاکستان کے ایک معروف آبی ماہر ہیں ان کے مطابق یہ تجویز غیر معمولی ہے کیونکہ گوادر کی پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے پاکستان دریائے سندھ کا پانی استعمال کر سکتا ہے جو کہ اعلیٰ معیار کا ہے۔ تاجکستان سے گوادر تک پانی کی پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر اربوں ڈالر خرچ ہو سکتے ہیں۔ تاجکستان کا گوادر سے فاصلہ پونے دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے، اور اتنی طویل پائپ لائن بچھانے کے لیے نہ صرف بھاری سرمایہ درکار ہو گا بلکہ اس کی آپریشنل لاگت بھی بہت زیادہ ہو گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پائپ لائن کو گوادر تک لانے کے لیے 5 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، اور اس کی آپریشنل لاگت الگ ہو گی۔ اس کے علاوہ پائپ لائن کے راستے میں افغانستان بھی آتا ہے جہاں سکیورٹی کے مسائل اور کرایہ کے معاملات بھی درپیش ہوں گے۔ لازمی پڑھیں: سات ارب ڈالر کی اگلی قسط : آئی ایم ایف نے پاکستان کی سنجیدگی اور عزم کی تعریف کرتے ہوئے شیڈول جاری کر دیا پاکستان کی آبی وسائل کے ماہر ظفر اقبال وٹو کے مطابق ہمارے پاس وافر پانی کے وسائل موجود ہیں۔ مون سون کے دوران ہمارے پاس بہت زیادہ پانی آتا ہے، اور اگر ہم اپنی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھا لیں تو ہمیں پانی کی کمی کا سامنا نہیں ہو گا۔ پاکستان کے پاس منگلا اور تربیلا ڈیموں میں 1.4 کروڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے لیکن اس کی ضرورت زیادہ ہے۔ اگر ہم اپنی سٹوریج کو دو سے تین کروڑ ایکڑ فٹ تک بڑھا لیں تو پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب تاجکستان میں پانی کے وسائل بہت زیادہ ہیں۔ اس کا رقبہ 142,600 مربع کلومیٹر ہے اور یہاں 8000 سے زیادہ گلیشیئرز ہیں، جن کی وجہ سے تاجکستان وسطی ایشیائی ممالک میں پانی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آتا ہے۔ تاجکستان کا دریائے آمو کا 80 فیصد حصہ اس کے علاقے میں واقع ہے اور یہ ملک پانی کی کمی کا شکار نہیں ہے بلکہ اس کے پاس بہت زیادہ اضافی پانی موجود ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سیکیورٹی فورسز کا کرک میں کامیاب آپریشن، 6 دہشت گرد مارے گئے 2015 میں تاجکستان کے صدر ‘امام علی رحمٰن’ نے ایک عالمی واٹر فورم میں پانی کی کمی کے مسئلے کے حل کے لیے دنیا کو تاجکستان سے پانی برآمد کرنے کی تجویز دی تھی۔ اس کے بعد سے تاجکستان نے خلیجی ممالک کو پانی فراہم کرنے کی بات کی تھی اور اسی تناظر میں پاکستان میں پانی کی فراہمی کے لیے تاجکستان کا نام لیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں تاجکستان سے پانی لانے کا منصوبہ ایک پیچیدہ اور مہنگا منصوبہ لگتا ہے جس پر دنیا بھر کے ماہرین کی نظر ہے۔ لیکن اس پر خرچ ہونے والے وسائل، سکیورٹی کے مسائل، اور توانائی کی ضرورت کے بارے میں ابھی بہت سوالات باقی ہیں۔ کیا پاکستان اس منصوبے کی لاگت اور چیلنجز کو برداشت کر سکے گا؟ وقت ہی بتائے گا کہ یہ منصوبہ حقیقت میں کس طرح شکل اختیار کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: “پیپلز پارٹی کو اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا ورنہ کراچی کے شہری اپنا حق لینا جانتے ہیں”امیر جماعت اسلامی کراچی
پوری دنیا کو پنجاب کا مہمان بنائیں گے: مریم نواز نے میگنی فیشنٹ منصوبے کا آغاز کر دیا

پنجاب حکومت کا ‘شاندار پنجاب’ میگا ٹورسٹ منصوبے کا آغازکیا گیا ہے جس کے تحت تہذیب و سیاحت کا عالمی مرکز بنانے کا اقدامات جارہی ہیں،پنجاب کے 170تاریخی مقامات کو سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کیلئے میپنگ مکمل،101 گردوارے اور 53 گرجا گھر بھی شامل ہیں۔ وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے میگنی فیشنٹ پنجاب (شاندار پنجاب) میگا ٹورسٹ منصوبے کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت پنجاب کو تہذیب و سیاحت کا ریجنل اور انٹرنیشنل مرکز بنایا جائے گا، پنجاب کے 170 تاریخی مقامات کو عالمی معیار کے سیاحتی مراکزمیں تبدیل کرنے کیلئے تمام تاریخی مقامات کی میپنگ مکمل کرلی گئی۔ فہرست میں 101 گردوارے اور 53 گرجا گھر بھی شامل ہیں۔ سینئرصوبائی وزیر مریم اورنگزیب کی قیادت میں پانچ ماہ کی محنت سے وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کے وژن کو عملی شکل دی گئی۔ سینئر منسٹر مریم اورنگزیب کے تمام مجوزہ منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے۔ پہلی بار پنجاب میں ٹورازم اینڈ ہیریٹیج اتھارٹی ایکٹ 2024 لاگو کیا گیا ہے، پنجاب کی پہلی جامع ٹورسٹ پالیسی بھی تیار کر لی گئی۔وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے پنجاب کے تاریخی مقامات کی تین مراحل میں بحالی کا منصوبہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا اور جولائی تک ٹینڈرنگ شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پہلا مرحلہ جون میں جبکہ دیگر تاریخی مقامات کی بحالی دوسرے اور تیسرے مرحلے میں مکمل ہوگی، وزیراعلیٰ پنجاب نے 16 سیاحتی منصوبوں کے پی سی وَن کی فوری تیاری اور مری کی بانسرا گلی میں ٹورسٹ ویلیج اور پارکس تعمیر کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے تاریخی شہر ٹیکسلا کو انٹرنیشنل ”ٹورسٹ سٹی“ بنانے کا اعلان کیا اور سوئٹزرلینڈ کی طرز پر چھانگا مانگاکو جدید تفریح گاہ بنانے کی منظوری دیدی۔ ٹیکسلا میوزیم کی اپ گریڈیشن، جدیدٹیکنالوجی سے ڈسپلے سینٹرزبنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ ٹیکسلا میں بدھ مت کے پیروکاروں کی سہولت کے لئے عبادت گاہیں اور سدھارتا کے نام سے نئی گیلریزبھی تعمیر کی جائے گی۔ سکھ برادری کی سہولت کے لئے 46 غیرفعال گردوارے بحال کرنے کی بھی منظوری دے دی گئی۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے اقلیتی برادری کے مذہبی و تاریخی مقامات کی حفاظت کا جامع نظام بنانے کی ہدایت کی۔ سیاحت کے فروغ کے لئے بہترین سڑکیں تعمیر، انفراسٹرکچر کی مکمل اپ گریڈیشن اور عالمی معیار کی جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی، ”دلکش لاہور“ منصوبے کے لئے 400 ملین روپے جاری کر دیئے گئے ہیں۔