چین کا روس، یوکرین جنگ بندی مذاکرات کی حمایت کا اعلان

چین نے امریکہ کی جانب سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کی حمایت کر دی ہے۔ چینی حکام نے جنوبی افریقہ میں منعقد ہونے والے جی 20 ممالک کے اجلاس کے دوران روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ کی حمایت کر دی ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم وقت کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے دور حکومت کے دوران روس اور یوکرین جنگ کے خاتمے  کے لیے مخلص کوششیں کی ہیں۔ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد ٹرمپ نے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کیا جس میں خطے میں پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ چین کے وزیر خارجہ وینگ یی نے جی 20 ممالک کے اجلاس کے موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ چین یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کے لیے امریکی کاوشوں کی تعریف کرتا ہے اور اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ انھوں نےکہا کہ چین خطے میں قیام امن کی کوششوں کو بھرپور سراہتا ہے اور ہمیشہ ان کی حمایت جاری رکھے گا۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے روسی صدر پوٹن سے سعودی عرب میں قیام امن کے حوالے سے مذاکرت کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی کو “ڈکٹیٹر” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں برق رفتاری سے کام کرنا ہوگا یا پھر اپنے ملک کو گنوانا ہوگا۔ صدر ٹرمپ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالتی کی کوششیں کر رہے ہیں ، اسی حوالے سے انھوں نے سعودی عرب میں روسی صدر ولادی پوٹن سے خصوصی ملاقات بھی کی۔

3100 قبل مسیح کی تہذیب لیے قاہرہ مصر کا دارلحکومت کیسے بنا؟

قاہرہ مصر کا دارالحکومت اور عرب دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے، جو اپنی تاریخی، ثقافتی اور سیاسی اہمیت کے لیے مشہور ہے۔ یہ دریائے نیل کے کنارے آباد ہے اور اسلامی و فرعونی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ قاہرہ میں واقع اہرامِ مصر دنیا کے قدیم سات عجائبات میں شامل ہیں، جبکہ جامعہ الازہر اسلامی تعلیم کا عالمی مرکز سمجھی جاتی ہے۔ شہر میں مصری عجائب گھر جیسے تاریخی مقامات بھی موجود ہیں، جہاں فرعونوں کے نوادرات محفوظ ہیں۔ قاہرہ کو مشرق وسطیٰ کا ثقافتی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے، جہاں عربی ادب، موسیقی اور فلمی صنعت کو فروغ حاصل ہے۔ اپنی گہماگہمی، روایتی بازاروں، جدید عمارتوں اور تاریخی ورثے کے امتزاج کی وجہ سے یہ شہر سیاحوں کے لیے بھی بےحد پرکشش ہے۔

کیا آپ کی زبان بھی مر رہی ہے؟ زبانوں کی بدلتی صورتحال

سنو! تم کل سے نظر نہیں آ رہے… کہاں تھے؟”میں actually ممّا کے ساتھ الحمراء گیا ہوا تھا. وہاں festival تھا۔وہ ہے نا وہ اردو poet……..کیا نام ہے اُس کا؟ Oh God, I forgot    تووہ جس کے نام میں ایک ہی word 2 بار آتا ہے؟” فیض احمد فیض!”وہی…فیض احمد فیض!ممّا کہتی ہیں. He was a revolutionary poetپتہ ہے… بہت hard ہے… اُس کی language۔او مائی گاڈ! اوپر سے گزر جاتی ہے. آج کل ہربچے سےاسی طرح سے بات کرتے ہوئے سنیں گے اور والدین اس طرح کی زبان سے بہت فخرمحسوس کرتے ہیں جس سے بچے اپنی مقامی زبان سے بالکل لا تعلقی اختیار کرلیتے ہیں اور آخر کار وہ زبان بالکل مرجاتی ہے۔ پاکستان میں کل  77 زبانیں بولی جاتی ہیں  جن میں پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اورہندکوسےتوپاکستانی واقف ہیں لیکن دیگر زبانیں ایسی کہ جن کے بارے میں بیشتر پاکستانیوں کو خبر تک نہیں جن میں شینا، کھوار، کوہستانی، توروالی، گاؤری، ڈھاٹکی، تھری، بروشسکی، بلتی، وخی اور ارمڑی (برکی) وغیرہ شامل ہیں۔ انٹرنیشنل ورلڈ فیکٹ ادارہ سی آئی اے کے مطابق پاکستان میں پنجابی 39.9، پشتو 16.1، سندھی 14، سرائیکی 12.2، اردو 7.1، بلوچی 3، ہندکو 2.4، براہوی 1.2،  اور دیگر2.4  فیصد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ عالمی زبانوں کو شمار کرنے والا ادارہ ’اینتھولوگ‘کے  2022 کے ایڈیشن کے مطابق پاکستان میں 77 زبانیں ہیں جن میں 68 مقامی اور 9 غیر مقامی ہیں ان میں سے 4 ادارتی، 24 ترقی پذیر، 30جوش مند، 15 خطرے میں اور 4 مرنے والی ہیں۔ مقامی زبان کو درپیش خطرات کے حوالے سے  پاکستان دنیا کا 28واں ملک ہے  جسے اپنی مقامی زبانیں کھونے کا خوف لاحق ہے۔ بروشسکی، شینا، واکھی، بلتی، اور کلاشی زبانوں سے زیادہ تر پاکستانی نا واقف ہیں کیوں کہ یہ زبانیں ایک خاص علاقے میں بولی جاتی ہیں اوران کو بولنے والوں کی کمی کی وجہ سے یہ زبانیں ناپید کے خطرے میں ہے۔   بروشسکی گلگت بلتستان میں بولی جاتی ہے، یہ زبا ن کچھ اس وجہ سے منفرد ہے کیوں کہ اس کا کسی دوسری زبان سے تعلق نہیں۔ اس کے بولنے والے افراد کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور یہ معدومیت کے خطرے میں ہے۔  شینا شمالی علاقوں خاص طورپرگلگت اور دیامرمیں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے کئی لہجے ہیں اس پر فارسی اور اردو کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ شینا زبان کا ادب زیادہ تر لوک کہانیوں اور زبانی روایات پر مبنی ہے۔ واکھی چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان تاجکستان، افغانستان اورچین میں بھی بولی جاتی ہے۔واکھی زبان کے بولنے والوں کی تعداد کم ہونے کے باعث یہ بھی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔  بلتی اسکردواورکھرمنگ میں بولی  جانے والی زبان ہے۔ جدید دور میں اس زبان کا استعمال کم ہو رہا ہےجس کے باعث اس کا تحفظ ضروری ہے۔ کیلاشی زبان چترال کے کیلاشی قبیلے کی زبان ہے اور اپنی مخصوص ثقافتی شناخت کی عکاسی کرتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی تعداد محدود ہونے کے باعث یہ زبان بھی خطرے میں ہے۔ لوگ  جدت کو اپنانے کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں  اپنے بچوں کو مادری زبان میں بات چیت کرنے سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس بنیاد پر لوگ اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی زبان  سکھانا زیادہ  بہترسمجھتے ہیں۔ پنجابی کے لکھاری جمیل احمد پال نے ’پاکستان میٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر پنجاب میں لوگ شہروں میں جا کراپنی مادری زبان میں بات چیت کرنے سے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ ’اس احساس کمتری کے پیچھے کم از کم سو، سوا سو سال کا عمل ہے۔ انگریز نے 1849 میں پنجاب پر قبضہ کیا تو اپنی پالیسی کے برعکس یہاں مقامی زبان کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’ہندوستانی‘‘ کو رائج کیا جو بعد میں اردو کے نام سے معروف ہوئی۔ اردو کے نفاذ کے لیے خصوصی کوششیں کی گئیں‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پیسہ اخبار‘‘ میں برسوں تک پنجابی زبان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اسے گھٹیا اور کمتر ثابت کرنے کے لیے مسلسل دو سال تک جعلی ناموں سے مضامین شائع کیے جاتے رہے۔ ایسی مہمات نے عام لوگوں کو متاثر کیا اور پڑھے لکھے لوگ اپنی زبان کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہوکر اسے بولنے سے گریز کرنے لگے۔ ہر شہر میں کتابوں کے بازار کو ’’اردو بازار‘‘ کا نام دیا گیا تاکہ لوگوں کو تاثر دیا جا سکے کہ اردو پڑھے لکھوں کی زبان ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جو تعلیم بچوں کی مادری زبان میں دی جائے، بچے اس کو بہتر طور پہ سمجھ سکتے ہیں۔ مگر پاکستان میں مادری زبان میں تعلیم دینے کا رجحان بہت کم ہے۔ مقامی زبانوں کے ختم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ، حکومت کی جانب سے مادری زبانوں پر توجہ نہ دینا ہے۔ سکولوں میں صرف اردو یا انگریزی ہی پڑھائی جاتی ہے ۔ جمیل احمد پال ان مقامی زبانوں کو مزید ناپید ہونے سے بچانے کے لیےکہتے ہیں کہ دنیا بھر میں بچوں کی بنیاد بنانے کے لیےبنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ مادری زبان ہی چھوٹے بچوں کے لیے بہترین ذریعہ تعلیم ہے۔مقامی زبانوں کو پرائمری تک ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور میٹرک تک ہر مقامی زبان کواختیاری مضمون کا اختیار ملنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرکاری عہدے دار،وزیر اعلیٰ، اور دیگر وزراء اپنی تقریر اور اظہار خیال مقامی زبان ہی میں کریں تاکہ لوگوں سے احساس کمتری دور ہو۔ خوش قسمتی سے یہ سہولت سندھی زبان کو کسی حد تک حاصل ہے۔ پشتو اس معاملے میں کافی پیچھے ہے جبکہ پنجابی اور بلوچی ناقابل ذکر حد میں آتی ہیں۔ مادری زبانوں کو مزید ان خطرات کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان زبانوں میں زیادہ سے زیادہ سیمینار، لوک کہانیوں اورموسیقی کو فروغ دیا جائے اورساتھ ساتھ مقامی ثقافت کے تہواروں پر بھی زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

آسٹریلیا کی چین پر شدید تنقید: آسٹریلوی سمندری حدود کے قریب چائنیز نیول پیٹرول نے سیکیورٹی خطرات بڑھا دیے

چین کے جنگی جہازوں کی آسٹریلوی سمندری حدود کے قریب غیر معمولی موجودگی نے خطے میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ آسٹریلیا کے نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع رچرڈ مارلز نے اسکائی نیوز آسٹریلیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ ان کے ملک کے دفاعی ادارے چینی جنگی جہازوں کی نگرانی کر رہے ہیں جو ان کے ساحلی پانیوں کے قریب بحر جنوبی چین میں حرکت کر رہے ہیں۔ مارلز نے کہا کہ “یہ صورتحال غیر معمولی ہے لیکن ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے” اور یہ کہ چین کے جنگی جہازوں کو بین الاقوامی پانیوں میں موجود رہنے کا مکمل حق ہے تاہم آسٹریلیا کا حق ہے کہ وہ ان جہازوں کی نگرانی کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم اس صورتحال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں تاکہ ہماری سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔” آسٹریلیا کی وزارت دفاع نے 13 فروری 2025 کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ چینی جنگی جہازوں کا ایک قافلہ، جس میں پیپلز لبریشن آرمی نیوی (PLA-N) کا جیانگکائی کلاس فریگیٹ “ہینگ یانگ”، رین ہائی کروز “زونی” اور فُوچی کلاس کی سپلائی شپ “وی شان ہو” شامل ہیں، جو شمال مشرقی آسٹریلیا کی سمندری حدود میں داخل ہوا۔ ان جہازوں کی نقل و حرکت اس بات کا غماز ہے کہ چینی فوج کے سفری مفادات اس علاقے میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ چین کے جنگی جہازوں کی یہ نقل و حرکت آسٹریلوی بحریہ کے لیے چیلنج بن گئی ہے اور اس کی نگرانی 150 نیٹیکل میل تک کی جا رہی ہے۔ ان جہازوں کی موجودگی آسٹریلوی حکومت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کیوں کہ چین کی فوجی طاقت بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ کی فوج نے بھی اس آپریشن کی نگرانی کا اعلان کیا ہے اور دونوں ممالک مل کر چین کے جنگی جہازوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: امریکہ کا یوکرین کی حمایت میں اقوام متحدہ کی قرارداد کا شریک سپانسر بننے سے انکار اسی دوران 11 فروری 2025 کو چین کے ایک جنگی طیارے کی جانب سے ایک اور واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک چینی جی-16 طیارہ نے آسٹریلیا کے رائل ایئر فورس کے پی-8 اے پوزیڈن طیارے کے قریب خطرناک انداز میں فلائرز چھوڑے۔ آسٹریلیا کی وزارت دفاع نے اس واقعے کو “غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں طیاروں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا تاہم خوش قسمتی سے اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس غیر معمولی واقعے نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ بحر جنوبی چین میں چین کی عسکری سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں، اور اس کا اثر خطے میں موجود دیگر ممالک کی دفاعی حکمت عملیوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ آسٹریلیا اور نیو زیلینڈ کی طرف سے اس معاملے پر تیز رفتار نگرانی اور جوابی اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ چین کی فوجی قوت کی پھیلاؤ کے ساتھ خطے کی سلامتی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ کشیدگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر دفاعی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ اس وقت اس بات کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات خطے کے لیے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فوج کا حملہ: تین فلسطینی شہید، درجنوں گرفتار