خوشحالی یا پھر سیاسی مقاصد؟ مریم نوازکا ہدف نوجوان ہی کیوں ہیں؟

وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز نے نوجوانوں کے لیے متعدد اسکیموں کا آغاز کیا ہے، جن میں ہونہار اسکالرشپ پروگرام، بلا سود قرضے، ای بائیکس کی فراہمی اور دیگر ترقیاتی اقدامات شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حالیہ چند مہینوں میں اپنے عوامی منصوبوں، جلسوں اور اجتماعات میں نوجوانوں کو توجہ کا مرکز بنایا ہے، سیاسی تقریبات ہوں یا مذہبی ہرجگہ نوجوانوں کی تربیت، ترقی اور ان کے مستقبل پر بات کرتی نظر آئی ہیں، مگر یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا یہ کوئی سیاسی داؤ ہے یا پھر واقعی نوجوانوں کی خوشحالی کی کوشش کی گئی ہے؟ مریم نواز نے جہاں نوجوانوں کومستقبل پرتوجہ مرکوز کرنے کی نصیحت کی ہے وہیں انھیں نوجوانوں پر تنقید کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب نے 9 مئی 2023 کے واقعات میں نوجوانوں کے غلط راستوں پر چلنے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں وطنِ عزیز کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ مریم نواز نے اپنے بارہا خطاب میں واضح کیا ہے کہ وہ نوجوانوں کو غلط راستے پر جانے سے روکنا چاہتی ہیں اور ان کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے ان کی سیاسی اصلاح کرنا چاہتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ جو نوجوان کسی کے بہکاوے میں آ گئے آج وہ جیلوں میں ہیں، جب کہ وہ جو اپنی محنت سے آگے بڑھے آج وہ کامیاب ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے ڈین سوشل سائنسزڈاکٹرعمرفاروق زین نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز نوجوان کمیونٹی کے لیے متعدد پالیسیاں متعارف کروا رہی ہیں۔ چونکہ گزشتہ 2، 3 برس سے ملک بھر میں ایک تاثرعام ہو چکا ہے کہ نوجوان نسل کی اکثریت پی ٹی آئی سے سیاسی رُغبت رکھتی ہے، لہٰذا اس رجحان کے تدارک کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) یونیورسٹیوں سے گریجویٹ یا کم علم یافتہ نوجوان طبقے کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی یا الیکٹرانک آئٹمز کے زریعے ان کی توجہ اپنی جانب توجہ مبذول کررہی ہے۔ دوسری جانب یہاں بہت سے سوالات بھی جنم لیتے ہیں، جیسا کہ کیا مریم نواز کے اقدامات واقعی نوجوانوں کے بہتر مستقبل کی بنیاد ہیں یا یہ سب صرف ایک سیاسی مقصد کے تحت کیا جارہا ہے؟ اورکیا تمام اسکیمیں نوجوانوں کے دلوں میں مسلم لیگ ن کی جگہ بنا نے کےلیے متعارف کرائی جارہی ہیں؟ واضح رہے کہ مریم نواز نے پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں ہونہار طلبا کے لیے اسکالرشپ پروگرامز کا آغاز کیا ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف تعلیمی لحاظ سے بلکہ معاشی طور پر کمزور طلبہ کے لیے بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ مریم نواز کے بیانیے کا مقصد نوجوانوں کو اس بات کا شعور دینا ہے کہ وہ کسی سیاسی دھوکے کا حصہ نہ بنیں اور اپنی محنت سے ملک کی خدمت کریں۔ ن لیگ کی جانب سے بچوں کو اسکالرشپ دینے، ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کر نے اور ان کے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی میں اسکالر شپ کے انعقاد کے وقت شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ اسکالرشپ کا پیسہ میرے گھر سے نہیں آیا بلکہ یہ عوام کا پیسہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نوجوانوں کےلیے بلا سود قرضوں کی پالیسی متعارف کرائی ہے تاکہ نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کاروبار شروع کر سکیں۔ نوجوانوں کے لیے ای بائیکس فراہم کرنے کی اسکیم بھی شروع کی ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے خطاب میں ہمیشہ نوجوانوں کو اپنی اولاد کی طرح عزیز کہا ہے۔ طلبا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں آپ سے ایک ماں کی طرح بات کر رہی ہوں،اور میرا مقصد یہ ہے کہ آپ کا مستقبل روشن ہو۔ ان سوالوں کے صحیح جواب تو مریم نواز ہی جانتی ہیں،مگر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مریم نواز کی یہ کوششیں ایک خاص حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنا اور مسلم لیگ ن کی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ دوسری طرف کچھ تجزیہ کاروں نے مریم نواز کی ان تمام کوششوں کو اگلے انتخابات کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی ایک حکمت عملی قراردیا ہے۔ صحافی و تجزیہ نگار سلمان غنی کا کہنا تھاکہ مریم نواز کی یہ کوششیں محض ایک سیاسی مہم کا حصہ ہیں، جس کا مقصد عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنا اور نوجوانوں کو مسلم لیگ ن کے قریب لانا ہے۔مریم نواز نے نوجوانوں کے درمیان اپنا سیاسی بیانیہ پھیلانے کی کوشش کی ہے لیکن انہیں ابھی تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ ڈاکٹر عمرفاروق زین نے کہا ہے کہ پاکستان بھر کی سیاسی جماعتیں نوجوان طبقے کو اپنی سیاست کا لازمی جزو تصور کرتی ہیں۔ ن لیگ کو اسٹریٹ پاور سے ہمکنار کرنے اورانتخابات میں میسر کارکردگی دکھانے کے لیے نوجوانوں کا ساتھ چاہیے۔ مزید یہ کہ ن لیگ نے گزشتہ برسوں میں سوشل میڈیا انفلائینسرز کوپیسے دے کراپنی سیاست کا حصہ بنایا ہے۔ ’یقیناً عمران خان کے مقبول تشخص کو غیرجانبدار کرنے کے لیے مسلم لیگ ن کو نوجوان سیاسی کارکنان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی، اس کی ایک جھلک 36 سے 44 سال کی پارٹی رہنماؤں کی قابلِ ذکر تعداد سے دیکھی جا سکتی ہے، جو شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، مہتاب عباسی، آصف کرمانی، زبیر عمر اور بے شمار سیاسی لیڈروں کو پسِ منظر میں ڈال چکی ہے۔ ایک تجزیے کے طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ بوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کےمواقع فراہم کرنا ہی مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا باعث بن سکتا ہے، اس کے علاوہ یہ کہ دیگر اقدامات کا تاثر شاید زیادہ دیر برقرار نہ رہ پائے۔