عالمی حقوق انسانیت کے تحفظ میں کمی، اقوام متحدہ کا فوری اقدامات پر زور

اقوام متحدہ کے حکام نے عالمی سطح پر انسانوں کے حقوق کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم کیے گئے حقوق انسانیت کے تحفظ کے اصول اب اپنے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ ‘جنیوا’ میں انسانی حقوق کونسل کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانیت ‘وولکر ترک’ نے کہا کہ دنیا میں حقوق انسانیت اور قانون کی حکمرانی میں خطرناک حد تک کمی آ رہی ہے۔ ترک نے اس بات پر زور دیا کہ “عالمی سطح پر انسانوں کے حقوق کا اتفاق رائے آمرانہ حکمرانوں، طاقتوروں اور سرمایہ داروں کے زیر اثر کمزور ہو رہا ہے۔” انہوں نے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حقوق انسانیت کے تحفظ کو مزید تقویت نہ دی گئی تو دنیا ایک بار پھر بڑے پیمانے پر ظلم و ستم کا شکار ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ‘انتونیو گوتریس’ نے بھی انسانی حقوق کی حالت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ “انسانی حقوق کو آمرانہ حکمرانوں سے، جو عوام کی حقیقی طاقت سے خوفزدہ ہیں، اور پدرشاہی سے دبایا جا رہا ہے جو لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکتا ہے اور خواتین کو بنیادی حقوق سے محروم رکھتا ہے۔” ترک نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ قیادتیں قومی سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جواز بنا کر حقوقِ انسانیت کی خلاف ورزیوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے جو حقوق انسانیت کا نظام بڑی محنت سے تعمیر کیا ہے، وہ کبھی اتنے شدید دباؤ کا شکار نہیں ہوا۔” انہوں نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی حقوق انسانیت کو بچانے کے لیے متحد ہو کر کام کریں، تاکہ ماضی کے سانحات کا اعادہ نہ ہو۔ مزید پڑھیں: “یورپ کو امریکا سے حقیقی آزادی دلانے میں مدد کریں گے” فریڈرک مرز
“آنے والے مہینوں میں بجلی کے نرخ مزید کم کیے جا سکتے ہیں” وفاقی وزیر توانائی

وفاقی حکومت نے رمضان المبارک میں سحری اور افطار کے اوقات میں صارفین کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے اپنی تیاری کی توثیق کر دی ہے، جس میں مزید بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے امیددلائی ہے۔ وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ روزہ دار گھروں کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری ہدایات جاری کی جائیں گی۔ لغاری نے شمسی ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ٹیکس کے بارے میں ماضی یا مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ آنے والے مہینوں میں بجلی کے نرخ مزید کم کیے جا سکتے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور میٹنگ کے دوران، سرکاری حکام نے خود مختار پاور پروڈیوسرز کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں اپ ڈیٹ فراہم کیا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پاور محمد علی نے کہا کہ چھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں، اور دوسروں کو ڈالر کی ادائیگی سے مقامی کرنسی میں منتقل کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضوں میں کمی ایک ترجیح رہی، بقایا واجبات پر سود معاف کرنے اور واجبات کو صاف کرنے کے لیے بینکوں سے مقررہ لاگت کے قرضے لینے کے منصوبے ہیں۔ اجلاس میں صحافیوں کی کارروائی ریکارڈ کرنے پر جھگڑا دیکھنے میں آیا۔ ایک رپورٹر نے فلم بنانے کی کوشش کی، لغاری کو یہ سوال کرنے پر اکسایا کہ آیا پارلیمانی قوانین نے ایسی ریکارڈنگ کی اجازت دی ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے ریمارکس دیئے کہ اگر صحافی سیشن کی غلط رپورٹنگ کرتے ہیں تو انہیں پاکستان کے سائبر قوانین کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم، کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محسن عزیز نے میڈیا کوریج کی اجازت دینے کے حق میں فیصلہ دیا، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ سرکاری نشریاتی ادارے فوٹیج جاری کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بجلی کی فراہمی اور پاور سیکٹر میں اصلاحات کے فیصلے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب پاکستان معاشی بحران اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے سستی اور رسائی اہم عوامی خدشات ہیں۔
فرانس میں روسی قونصل خانے پر دھماکہ، روس نے دہشت گردی قرار دے کر تحقیقات کا مطالبہ کردیا

فرانس کے جنوبی شہر مارسیلی میں روسی قونسل خانے پر دھماکہ خیز مواد سے حملہ کیا گیا ہے جس میں پولیس کے مطابق تین دھماکہ خیز بوتلیں پھینکی گئیں جن میں سے دو دھماکے سے پھٹ گئیں۔ یہ حملہ پیر کے روز اس وقت ہوا جب قونسل خانے کے باغیچے میں ان بوتلوں کو پھینکا گیا۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ان بوتلوں کا مواد خطرناک تھا اور ماہرین اس کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے، اس حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، تاہم قونصل خانے کے عملے کو فوری طور پر عمارت کے اندر رہنے کی ہدایت دی گئی، اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نے فوری طور پر علاقے کا معائنہ کیا۔ روس نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے فرانس سے فوری وضاحت طلب کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق یہ حملہ دہشت گردی کے تمام اشارے ظاہر کرتا ہے۔ روس نے فرانس سے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حملے کے اصل مقاصد اور اس کے پیچھے چھپے مجرموں کا پتہ چلایا جا سکے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب یوکرین پر روسی حملے کو تین سال مکمل ہو رہے ہیں، اور عالمی سطح پر اس حملے کے اثرات بڑھنے کے امکانات ہیں۔ روسی حکام نے فرانس کی حکومت سے فوری کارروائی کی درخواست کی ہے۔ فرانسیسی حکام نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن اس وقت تک ملزمان کی شناخت اور حملے کے پیچھے چھپے مقاصد سے متعلق کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔ یہ دھماکہ نہ صرف فرانس بلکہ عالمی سطح پر بھی شدید تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: “یورپ کو امریکا سے حقیقی آزادی دلانے میں مدد کریں گے” فریڈرک مرز
‘ہم نے گولی نہیں چلائی، یہ سب وفاقی حکومت کے احکامات پر ہوا تھا’ علی امین گنڈا پور

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے وفاقی حکومت کے ماتحت ہونے کے حوالے سے اہم بیان دیا ہے جس میں انہوں نے گولی چلانے کی وجوہات اور وفاقی حکومت کی پالیسیوں پر گفتگو کی۔ گنڈا پور کا کہنا تھا کہ جب سے گولی چلانے کے واقعے سے متعلق سوالات اٹھے ہیں وہ بار بار یہ وضاحت دیتے ہیں کہ یہ اقدام وفاقی حکومت کی ہدایات پر کیا گیا تھا نہ کہ صوبائی حکومت کی طرف سے۔ وزیراعلیٰ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “وفاقی حکومت نے آرٹیکل 245 کے تحت جو بھی اقدامات کیے، ہم ان کے ماتحت آتے ہیں۔ اور ہم نے گولی نہیں چلائی، یہ سب وفاقی حکومت کے احکامات پر عمل درآمد تھا۔” اس بیان نے وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان اختیارات اور ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک نیا سوال اٹھا دیا ہے۔ اسی دوران علی امین گنڈا پور نے ‘این ایف سی’ ایوارڈ کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام نے اس معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “فنڈز کی کمی کے باعث صوبے میں مسائل مزید بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا کی آبادی میں 57 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں وفاقی حکومت سے اپنی واجب الادہ رقم کی ادائیگی کا انتظار ہے۔” علی امین گنڈا پور نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا کے مسائل میں اضافے کے باوجود وفاقی حکومت نے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے مناسب فنڈز فراہم نہیں کیے ہیں جس سے سیکیورٹی کی صورتحال اور تجارت کے شعبے میں مزید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم آئین کے تحت اپنے حقوق مانگتے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے فاٹا کی مد میں 400 ارب روپے سے زائد کی رقم ابھی تک نہیں دی جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع کے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔” وزیراعلیٰ نے اپنے صوبے کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کی کارکردگی دیگر صوبوں کے مقابلے میں بے حد بہتر ہے۔ انکا کہنا تھا کہ “ہماری کارکردگی کا موازنہ آپ دیگر صوبوں سے کریں، ہماری کارکردگی ایک فیصد بھی نہیں ہار رہی،” انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس رپورٹ پر مناظرے کے لیے بھی تیار ہیں۔ علی امین گنڈا پور نے کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت پی ٹی آئی کی ہدایات کے مطابق چل رہی ہے، اور جب اڈیالہ جیل کے باہر کیمپ لگے گا تو خیبرپختونخوا سے بھی لوگ عمران خان کی ہدایات پر وہاں پہنچیں گے۔ اس وقت جب صوبائی مسائل وفاقی سطح پر زیر بحث ہیں اور علی امین گنڈا پور کا یہ موقف اس بات کا غماز ہے کہ آئین اور سیاسی حکمت عملیوں کے درمیان توازن کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ مزید پڑھیں: گورنر خیبرپختونخوا کی وزیراعظم سے اسلام آباد ائیرپورٹ کا نام تبدیل کرنے کی درخواست
“یورپ کو امریکا سے حقیقی آزادی دلانے میں مدد کریں گے” جرمن چانسلرشپ کے امیدوار کا عزم

مخالف قدامت پسندوں کے قومی انتخابات میں کامیابی کے بعد جرمنی کے اگلے چانسلر بننے کے لیے تیار فریڈرک مرز نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ یورپ کو امریکا سے “حقیقی آزادی” دلانے میں مدد کریں گے کیونکہ وہ ایک ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں۔ عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق جرمنی میں انتخابات میں کریسچن ڈیموکریٹک یونین( سی ڈی یو) نے 28.6 فیصد اور آلٹرنیٹیو فار جرمنی ( اے ایف ڈی)نے 20.8 ووٹ حاصل کیے اور اب اے ایف ڈی، سی ڈی یو کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ مرکزی دھارے کی جماعتیں اے ایف ڈی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرتی ہیں جس کو امریکا کی ممتاز شخصیات بشمول ایلون مسک، ٹیک ارب پتی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی کی توثیق حاصل تھی۔ میرز جن کے پاس عہدہ سنبھالنے کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں ہے، یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی سلامتی کو تصادم کرنے والے امریکا اور ایک جارحانہ روس اور چین کے درمیان پھنس جانے کے ساتھ چانسلر بننے کے لیے تیار ہے۔ میرز نے اپنی فتح کے بعد دو ٹوک ریمارکس میں امریکہ کو نشانہ بنایا، انتخابی مہم کے دوران واشنگٹن سے آنے والے “بالآخر اشتعال انگیز” تبصروں پر تنقید کرتے ہوئے، ان کا موازنہ روس کی مخالفانہ مداخلتوں سے کیا۔ میرز نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایک گول میز کو بتایا کہ ہم دونوں طرف سے اتنے بڑے دباؤ میں ہیں کہ اب میری اولین ترجیح یورپ میں اتحاد حاصل کرنا ہے۔ یورپ میں اتحاد پیدا کرنا ممکن ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی نتائج کا خیرمقدم کرنے کے باوجود مرز کا امریکہ کے خلاف براڈ سائیڈ سامنے آیا۔ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا، ’’امریکہ کی طرح، جرمنی کے لوگ عقل سے کام نہ لینے والے ایجنڈے سے تھک چکے ہیں، خاص طور پر توانائی اور امیگریشن پر، جو کہ اتنے سالوں سے غالب ہے۔‘‘ اب تک بحر اوقیانوس کے ماہر کے طور پر دیکھے جانے والے مرز نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کو یورپ کی تقدیر سے بڑی حد تک لاتعلق ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرز کی “ہماری مکمل ترجیح یورپ کو جلد از جلد مضبوط کرنا ہو گی تاکہ ہم قدم بہ قدم امریکہ سے حقیقی آزادی حاصل کر سکیں”۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ پوچھنے کا حوصلہ بھی کیا کہ کیا شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم کی اگلی سربراہی کانفرنس، جس نے کئی دہائیوں سے یورپ کی سلامتی کو فروغ دیا ہے، اب بھی نیٹو کو اپنی موجودہ شکل میں نظر آئے گا۔
گورنر خیبرپختونخوا کی وزیراعظم سے اسلام آباد ائیرپورٹ کا نام تبدیل کرنے کی درخواست

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے وزیراعظم شہباز شریف سے درخواست کی ہے کہ اسلام آباد ائیرپورٹ کا نام تبدیل کرکے “بینظیربھٹو انٹرنیشنل ائیرپورٹ” رکھا جائے۔ فیصل کریم کنڈی نے اپنے خط میں کہا کہ 21 جون 2008 کو اُس وقت کے وزیراعظم نے ائیرپورٹ کا نام بینظیر بھٹو کے نام پر رکھنے کا اعلان کیا تھا اور 17 جولائی 2008 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس کا باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا۔ گورنر کے پی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ائیرپورٹ کا نام بینظیر بھٹو کے نام پر رکھنے کا مقصد اُن کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا اور انہوں نے وزیراعظم سے امید ظاہر کی کہ وہ اس درخواست پر مثبت ردعمل دیں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں جب کے پی حکومت نے پشاور میں واقع واحد بین الاقوامی کرکٹ سٹیڈیم کا نام تبدیل کرکے اسے “عمران خان کرکٹ سٹیڈیم” رکھنے کا فیصلہ کیا، جس پر گورنر فیصل کریم کنڈی نے تنقید کی تھی۔ گورنر فیصل کریم کنڈی نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صوبے کی شناخت مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب صوبائی کابینہ نے پشاور کے “اربع نیاز کرکٹ اسٹیڈیم” کا نام تبدیل کرکے “عمران خان کرکٹ سٹیڈیم” رکھنے کی منظوری دی۔ اس پر گورنر کنڈی نے اس فیصلے کو “نہایت نامناسب” قرار دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی 2023 کے فسادات کے ماسٹر مائنڈ کی علامت کے طور پر سٹیڈیم کا نام تبدیل کرنا ریاست مخالف عناصر کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ گورنر نے مزید کہا کہ صوبے کے عوام سٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے کے خلاف ہیں اور اس پر سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے نو سالہ دور میں پشاور سٹیڈیم کی بحالی میں ناکام رہی جبکہ وفاقی حکومت اور پی سی بی نے دیگر شہروں کے سٹیڈیمز کی تزئین و آرائش میں کامیابی حاصل کی۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان مختلف معاہدے طے
لاہور کا جم خانہ : سرکاری زمین پر امیروں کا سستا کلب

لاہور کا مشہور جم خانہ کلب، جہاں شہر کے طاقتور ترین بزنس مین اور سیاستدان بیٹھتے ہیں، ایک سوال کی زد میں آ گیا ہے۔ اس کلب کی ممبرشپ لاکھوں میں ہے اور یہاں کی سہولتیں زندگی کی عالی ترین آسائشیں فراہم کرتی ہیں، لیکن چونکا دینے والی بات تو یہ ہے کہ یہ کلب سرکاری زمین پر قائم ہے۔ اس سرکاری زمین کو لیز پر لے کر یہاں عالی شان کلب بنایا گیا جو غریب کی پہنچ سے بہت دور ہے لیکن اس زمین کا کرایہ محض 50 پسے فی کینال ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جہاں ایک غریب کی چھوٹی سی دکان کا کرایہ ہزاروں میں ہو، وہاں سرکاری زمین پر اتنی کم قیمت پر استحصال کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ ملک پر بڑھتے ہوئے قرضے اور عوام کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے پیش نظر کیا یہ انصاف ہے کہ طاقتور لوگ انتہائی کم قیمتوں پر سرکاری وسائل سے فائدہ اٹھائیں؟
’اپنی دنیا آپ پیدا کر‘ شیخوپورہ میں بھی’بنوقابل‘ پروگرام کا آغاز

امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا ہے کہ” پاکستان میں تعلیم کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے۔ انہوں نے شیخوپورہ میں ہونے والے بنو قابل پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ اس پروگرام کا حصہ بنے۔ یہ “بنو قابل” پروگرام پورے پاکستان میں نوجوانوں کے لیے سب سے کامیاب تعلیمی پروگرام بن چکا ہے، اور یہ محض ایک پروگرام نہیں بلکہ ان شاء اللہ ایک انقلاب ثابت ہوگا، ایک ریولوشن بنے گا، اور آپ سب اس کا حصہ ہوں گے۔ میں رضاکاروں سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے پیپرز تیار رکھیں، اور جیسے ہی بات مکمل ہو، یہاں سے اعلان کیا جائے اور پیپرز تقسیم کر دیے جائیں۔” اب میں دو تین اہم نکات پر بات کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ جو موقع آپ کو ملا ہے، وہ ایک اہم فیصلہ ہے جو ہم نے الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت کیا تاکہ ایک ایسا پروگرام متعارف کرایا جا سکے جو ہمارے نوجوانوں کو مثبت سمت میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے اور انہیں ایسی مہارتیں حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے جو انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کر سکیں۔ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے۔ المیہ یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے تعلیم حاصل کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں، وہ بڑی قربانیوں سے،” پیٹ کاٹ کر، محنت مزدوری کر کے انہیں تعلیم دلا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے 10 کروڑ 50 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ 75 لاکھ بچے، جن کی عمر 5 سے 16 سال کے درمیان ہے، اسکول سے باہر ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسا نظام مسلط کر دیا گیا ہے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں، جہاں کے بارے میں ہر روز اشتہارات میں ترقی اور نوجوانوں کی پذیرائی کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، عملی طور پر حالات یہ ہیں کہ تقریباً 1 کروڑ 25 لاکھ (12 ملین) بچے، جن کی عمریں 5 سے 16 سال کے درمیان ہیں، اسکول نہیں جا رہے۔ اس کے برعکس، اس مسئلے پر کام کرنے اور اسکولوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے، پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں مختلف این جی اوز کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ نتیجتاً، سرکاری تعلیمی نظام کا معیار اس قدر گرا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے معیاری تعلیم حاصل کریں، تو وہ انہیں نجی تعلیمی اداروں میں داخل کرواتے ہیں، جبکہ سرکاری ادارے محض مجبوری کا انتخاب بن چکے ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے لیے لمحہِ فکریہ ہے، اور ہمیں اس کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ جبکہ آئینِ پاکستان یہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو معیاری اور مفت تعلیم فراہم کرنی ہے، جو کہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کتنے عرصے تک اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے؟ تعلیم کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، کیونکہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، یہاں تک کہ موبائل کے استعمال پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں معیاری اور مفت تعلیم ملے۔ میں آپ سب سے یہ عہد لینا چاہتا ہوں کہ جو بچے اسکول سے باہر ہیں یا معیاری تعلیم سے محروم ہیں، ان کے لیے آپ آواز بلند کریں گے اور اپنے اس حق کو حکمرانوں سے منوا کر رہیں گے۔ پاکستان کے ہر بچے کو معیاری تعلیم ملنی چاہیے۔ تعلیم کو دولت کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر فراہم کیا جانا چاہیے۔ تمام انسان برابر ہیں، کوئی بھی پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ یہ ماحول اور مواقع ہوتے ہیں جو کسی شخص کی صلاحیتوں کو نکھارتے اور اسے آگے بڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سب کے لیے برابر” کے مواقع فراہم کرے تاکہ ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق ترقی کر سکے۔ پاکستان ایک نوجوانوں کا ملک ہے، جہاں 30 سال تک کی عمر کے افراد کی تعداد 60 فیصد سے زائد ہے، جبکہ 40 سال تک کی عمر کے افراد کی تعداد 80 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی میں نوجوانوں کی یہ بڑی تعداد موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے انہیں معیاری تعلیم کے مواقع میسر نہیں۔ اگر آج کی دنیا میں کسی چیز کے ذریعے ایک ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے تو وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کون سا سرکاری ادارہ ایسا ہے جو ایک لاکھ روپے سے کم فیس میں ڈگری پروگرام فراہم کر رہا ہو؟ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غریب طبقہ تو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، اور متوسط طبقہ بھی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں، جبکہ نجی اداروں میں تعلیم مزید مہنگی ہے۔ مزید پڑھیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک کی منصورہ لاہور آمد، امیر جماعت اسلامی سے ملاقات اس صورتحال میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں اور اس تحریک کا حصہ بنیں، کیونکہ تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں۔ ہم فری ایجوکیشن، معیاری ایجوکیشن اور آئی ٹی ایجوکیشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکومت سے اپنا حق چھین کر لیں گے۔ یہ صرف زبانی مطالبہ نہیں، بلکہ ہم نے دنیا کو عملی طور پر دکھا دیا ہے کہ اگر خلوصِ نیت سے کام کیا جائے تو ایک ادارہ اور ایک تنظیم لاکھوں نوجوانوں کو انقلاب کا حصہ بنا سکتی ہے۔ ہمارے اس سفر کا آغاز کراچی سے ہوا، اور دو سال کے اندر چار لاکھ نوجوان ہمارے پروگرام میں رجسٹر ہو چکے ہیں، جن میں سے 50 ہزار سے زائد طلبہ کورس مکمل کر کے سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر یا تو ملازمت حاصل کر چکے ہیں یا فری لانسنگ کر رہے ہیں، جو اس پروگرام کی سب سے بڑی کامیابی
2014 دھرنا کیس:ڈاکٹر طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی جانب سے 2014 میں دھرنوں کے کیس میں ڈاکٹر طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کر دی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی جانب سے 2014 میں دھرنوں سے متعلق کیس کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ شہزاد خان نے کی۔ دوران سماعت غیر حاضری پر عدالت نے ایم این اے خرم شہزاد، علامہ راجہ ناصر عباس سمیت دیگر کارکنوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ عدالت نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے کیسز کی مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔ عمران خان متعلقہ مقدمات میں حاضری سے مستقل استنیٰ پر ہیں، بانی پی ٹی آئی و دیگر کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں 2 مقدمات درج ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے سال 2014 میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے کے تناظر میں ختم کردیا گیا تھا۔ دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئیں تھیں۔ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام پر انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔ پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور رہنماؤں ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ لاگو کیا تھا۔ اس معاملے پر استغاثہ کے پرانے مؤقف کے مطابق 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ استغاثہ نے اپنے کیس کو قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھی، کٹر اور دیگر اشیا کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا تھا۔ 11 ستمبر 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دھرنے کے دوران بننے والے 3 مقدمات میں وزیراعظم عمران خان کی مستقل حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی تھی۔ بعدازاں جج نے پی ٹی وی حملہ کیس سے عمران خان کی بریت کا کیس الگ کردیا تھا اور پی ٹی وی حملہ کیس کی ایک سماعت میں وزیراعظم کے وکیل کو 12 نومبر تک دلائل سمیٹنے کی ہدایت کی تھی۔ جس کے بعد اے ٹی سی نے پارلیمنٹ حملہ کیس سے وزیراعظم عمران خان کو بری کردیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کرلیا تھا۔ خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان اس مقدمے میں اشتہاری رہ چکے ہیں اور بریت کے فیصلے سے قبل ضمانت پر تھے جبکہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری مقدمے میں بدستور اشتہاری ہیں۔
چین میں کورونا جیسا نیا وائرس دریافت: سائنسدان کیا کہتے ہیں؟

چینی سائنسدانوں نے چمگادڑوں میں ایک نیا کورونا وائرس دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر سارس کوو 2 (کووڈ 19) کی طرح انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نئے وائرس کا نام ایچ کیو یو 5 کوو 2 رکھا گیا تھا۔ یہ نیا وائرس بھی کورونا کی طرح انسانی ریسیپٹر کو ہدف بنا کر جسم میں داخل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ یہ وائرس بھی ممکنہ طور پر ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے بلکہ مختلف جانداروں میں گردش کرسکتا ہے۔ یہ وائرس گوانگزو لیبارٹری میں دریافت کیا گیا جس کی قیادت زینگ لی شائی نے کی۔ زینگ لی شائی ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرلوجی میں کام کرتی ہیں انہیں اس وائرس کی دریافت کے بعد بیٹ ویمن بھی کہا جاتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جرنل سیل میں شائع ہوئے جس میں بتایا گیا کہ چمگادڑوں میں موجود ایچ کیو یو 5 کوو 2 مؤثر طریقے سے انسانی ایس 2 ریسیپٹر کو استعمال کرکے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ وائرس انسانی خلیات کو متاثر کرسکتا ہے جبکہ یہ معلوم ہوا کہ پھیپھڑوں اور آنتوں کے نمونوں میں یہ وائرس تیزی سے اپنی تعداد بڑھاتا ہے۔ مزید تجربات میں محققین نے ایسی اینٹی باڈیز اور اینٹی وائرل ادویات کو بھی دریافت کیا جو اس وائرس کو ہدف بناتی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ فی الحال یہ نیا وائرس انسانوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے کووڈ 19 کا باعث بننے والے کورونا وائرس جتنا مؤثر نہیں۔ تحقیق کے مطابق اس وائرس سے کووڈ 19 جیسی عالمی وبا کا خطرہ بہت کم ہے کیونکہ کووڈ ویکسینز سے انسانوں میں پیدا ہونے والی مدافعت بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔