بولان میں سیکیورٹی فورسز کی ایک گھنٹے تک جھڑپ، 3 دہشتگرد ہلاک

بلوچستان کے ضلع بولان میں کوئٹہ سبی شاہراہ پر 2 مقامات پر ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ میں 3 دہشت گرد ہلاک ہوگئے، جس کے بعد رات گئے سڑک کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 3 روزہ مذہبی اجتماع کے بعد گزشتہ روز سبی سے کوئٹہ واپس آنے والی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت پھنس گئی جب جدید ہتھیاروں سے لیس دو مسلح گروہوں نے پیر غائب اور آب گم کے مقام پر شاہراہ کو بلاک کیا اور مسافروں کی چیکنگ شروع کر دی۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے بلوچستان کے پارلیمانی سیکرٹری میر لیاقت علی لہری کے قافلے کو بھی روکا اور ان کے محافظوں سے اسلحہ چھین لیا۔ میر لیاقت علی لہری نے بتایا کہ مسلح افراد کے ایک گروپ نے ہائی وے پر ان کی گاڑیوں اور محافظوں کو روکا اور سیکیورٹی گارڈز سے ہتھیار حوالے کرنے کو کہا، محافظوں نے مزاحمت کی لیکن ان کی ہدایت پر اپنے ہتھیار حوالے کر دیئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ غیر یقینی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نقصان سے بچنے کے لیے کیا کیونکہ بہت سے لوگ اجتماع سے واپس آ رہے تھے۔ بعدازاں صحیح سلامت گھر پہنچ گئے۔ حکام نے سڑک کی بندش کے دوران قبائلی بزرگ فرید رئیسانی کے مبینہ قتل کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی کہ وہ کوئٹہ میں اپنے گھر پر محفوظ اور صحت مند ہیں۔ صورتحال کی اطلاع ملتے ہی سیکورٹی فورسز موقع پر پہنچ گئیں اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا، سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا جس کے دوران 3 حملہ آور مارے گئے۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا جبکہ دہشت گرد فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ حکام کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز پہاڑوں میں فرار ہونے والے دہشت گردوں کا تعاقب کر رہی ہیں، کوئٹہ سبی شاہراہ کو 4 گھنٹے بعد ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر رانا دلدار نے بتایا کہ جس علاقے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا وہاں سے ایک لاش اور 4 زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال مچھ لایا گیا۔ جاں بحق ہونے والوں کی شناخت نبی داد کے نام سے ہوئی جبکہ زخمیوں میں صفی اللہ، امان اللہ، غلام رسول اور امین اللہ شامل ہیں۔

بنگلہ دیشی طلبا نئی پارٹی بنا کر الیکشن میں حصہ لیں گے

بنگلہ دیشی طلبا جو گزشتہ سال کے مظاہروں میں سب سے آگے تھے۔ جنہوں نے اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف تحریک چلائی، اس ہفتے ایک سیاسی پارٹی کا آغاز کرنے والے ہیں۔ امتیازی سلوک کے خلاف طلبا کے گروپ نے ان مظاہروں کی قیادت کی جو پبلک سیکٹر میں ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف طالب علموں  کی قیادت والی تحریک کے طور پر شروع ہوا لیکن تیزی سے ایک وسیع تر، ملک گیر بغاوت میں تبدیل ہو گیا جس نے اگست کے شروع میں بدامنی عروج پر پہنچنے کے بعد حسینہ کو ہندوستان فرار ہونے پر مجبور کیا۔ طالب علم گروپ نئی پارٹی کے آغاز کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہا ہے، بدھ کو ہونے والے ایک پروگرام کے دوران نیا اعلان ہونے  کا امکان ہے۔ ناہید اسلام، ایک طالب علم رہنما اور عبوری حکومت کے مشیر جس نے حسینہ کے اخراج کے بعد بنگلہ دیش کا چارج سنبھالا تھا، توقع ہے کہ وہ کنوینر کے طور پر پارٹی کی قیادت کریں گی۔ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت کے اندر طلبہ کے مفادات کی وکالت کرنے میں اسلام ایک اہم شخصیت رہا ہے، جو اگست 2024 سے بنگلہ دیش کی قیادت میں ہے۔ توقع ہے کہ وہ نئی سیاسی جماعت کی قیادت پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اپنے موجودہ کردار سے مستعفی ہو جائیں گے۔ یونس نے کہا ہے کہ انتخابات 2025 کے آخر تک ہو سکتے ہیں، اور بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نوجوانوں کی قیادت والی جماعت ملک کے سیاسی منظر نامے کو نمایاں طور پر تبدیل کر سکتی ہے۔ کئی ہفتوں کے مظاہروں کے بعد حسینہ کے جانے کے بعد سے جنوبی ایشیائی ملک سیاسی بدامنی کا شکار ہے جس کے دوران 1,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اس ماہ کہا کہ حسینہ کی سابقہ ​​حکومت اور سیکورٹی اپریٹس کے اہلکاروں نے منظم طریقے سے بغاوت کے دوران مظاہرین کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ حسینہ اور ان کی پارٹی کسی بھی غلط کام کی تردید کرتی ہے۔

آئی ایم ایف وفد ایک ارب ڈالر موسمیاتی فنڈ ادائیگی پر آج پاکستانی حکومت سے بات چیت کرے گا

انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈز کا مشن پاکستان کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی اضافی فنانسنگ کی درخواست پر آج اسلام آباد میں بات چیت کرے گا۔ مذاکرات کے بعد آئندہ ہفتے کے اوائل میں پالیسی کا جائزہ لیا جائے گا، جس میں جاری 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت حکام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل ٹیم زیادہ تر اہم وزارتوں بشمول منصوبہ بندی، خزانہ، موسمیاتی تبدیلی، پیٹرولیم اور آبی وسائل کے ساتھ ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسیوں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔ اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ نمائندے ماہیر بنیسی نے مزید تفصیلات بتائے بغیر تصدیق کی کہ اب سے تین ہفتوں تک ملاقاتیں جاری رہیں گی۔ آئی ایم ایف کے عملے کی ایک ٹیم مارچ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی، جہاں وہ پاکستان کے توسیعی فنڈ سہولت کی معاونت سے چلنے والے پروگرام کے تحت پہلے جائزے اور حکام کی جانب سے لچک اور پائیداری سہولت (آر ایس ایف) انتظامات کے تحت امداد کی درخواست پر تبادلہ خیال کرے گی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ متعلقہ حکام خاص طور پر منصوبہ بندی اور خزانہ کی وزارتوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پالیسی مشورے کے مطابق آنے والے بجٹ کے لیے ماحولیات سے متعلق پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ (سی-پیما) کے لیے دستاویزات تیار کی ہیں۔39 ماہ پر محیط ای ایف ایف کے پہلے 2 سالہ جائزے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اب تک صرف ایک اسٹرکچرل بینچ مارک مکمل کیا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی وزارتوں اور صوبوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مستقبل کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے منصوبوں کے انتخاب کے معیار اور طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا ہے۔ آئندہ بجٹ کے آغاز میں پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے انتخاب کے لیے غور کیے جانے والے عوامل میں اسٹریٹجک اور بنیادی جاری منصوبے۔ 80 فیصد سے زائد اخراجات کے ساتھ جاری منصوبے اور حقیقت پسندانہ تکمیل کے تخمینے شامل ہوں گے۔اس کے علاوہ ماحولیات سے متعلق اور ماحولیاتی لچک والے منصوبے بھی پی ایس ڈی پی کا حصہ ہوں گے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف کو مزید ایک ارب 20 کروڑ ڈالر بڑھائے۔ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ ماحولیات سے مطابقت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے میں اس طرح کی سرمایہ کاری قدرتی آفات کے خطرات کے منفی نمو کے اثرات کو ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے، جب کہ تیز اور زیادہ مکمل بحالی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ ماحولیاتی لچک بڑھانے کے لیے درکار اضافی سرمایہ کاری قرضوں کی سطح کو معتدل طور پر بلند کرنے کا باعث بنے گی، بحالی کے بعد عوامی قرضوں کو نیچے کی طرف لے جائے گی۔ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ مالیاتی استحکام اور مالیاتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر مزید پیش رفت، مالیاتی گنجائش کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے، جو اس طرح کے جھٹکے کو برداشت کرنے کے لیے ضروری ہوگی۔ آئی ایم ایف کے مطابق، پاکستان کا معیار زندگی کئی دہائیوں سے گر رہا ہے، اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں اسی طرح کے آغاز کے باوجود، پاکستانیوں کی آمدنی جمود کا شکار تھی۔ اور علاقائی ہم منصبوں سے پیچھے رہ گئی تھی، اس کے ساتھ غربت کی شرح بلند رہی اور سماجی ترقی کے اشاریے بھی اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گئے۔ پاکستان کو عالمی اوسط سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا ہے، اس سے موسمیاتی تغیرات میں اضافہ ہوگا، اور انتہائی واقعات بڑھیں گے۔ جن میں پانی کی دستیابی میں کمی، زیادہ شدید اور طویل خشک سالی، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے ساتھ زیادہ متغیر اور شدید مون سون، ساحلی آبادیوں اور بنیادی ڈھانچے پر قبضہ کرنے والے سمندر کی سطح میں اضافہ شامل ہے۔ حال ہی میں، 2022 کے سیلاب سے ایک ہزار 700 افراد ہلاک ہوئے، 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، غربت کی شرح میں 4 فیصد پوائنٹس تک اضافہ ہوا، اور معاشی نقصانات کو مالی سال 22 کے جی ڈی پی کے 4.8 فیصد کے مساوی بڑھادیا۔ 2022 کے سیلاب کے بعد تعمیر نو کی ضروریات کا تخمینہ مالی سال 23 کے بجٹ قومی ترقیاتی اخراجات سے 1.6 گنا زائد لگایا گیا ہے، پاکستان کی کمزور شہری منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے اور آبی وسائل کے انتظام کی وجہ سے اس تباہی میں مزید اضافہ ہوا۔

“یوکرین میں امن کے لیے اپنا عہدہ چھوڑ سکتا ہوں” ولادیمیر زیلنسکی

یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ “اگر امن لانا مقصود ہے تو میں عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہوں”۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اتوار کے روز کہا کہ اگر یوکرین میں امن کا مطلب ہے تو وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “وہ اپنے ملک کی نیٹو فوجی اتحاد میں شمولیت کے لیے اپنی عہدہ چھوڑنے کا تبادلہ کر سکتے ہیں”۔ ایک پریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اگر وہ امن کو یقینی بنانا ہے۔اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ” یوکرین کے امن کے لیے  اگر واقعی مجھے اپنا عہدہ چھوڑنے کی ضرورت ہے، تو میں تیار ہوں”۔ صدر نے مزید کہا کہ “اگر میرے عہدہ چھوڑنے سے نیٹو میں شمولیت ہو سکتی ہے تو میں تیار ہوں”۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی کو ایک “آمر” قرار دیتے ہوئے یوکرین میں انتخابات کرانے پر زور دیا ہے، جو کہ یوکرینی رہنما کی سرکاری پانچ سالہ مدت 2024 میں ختم ہونے کا واضح حوالہ ہے۔ یوکرینی قانون سازی مارشل لاء کی حالت کے دوران انتخابات کے انعقاد پر پابندی عائد کرتی ہے، جسے یوکرین نے فروری 2022 میں روس کے حملے کے دن قرار دیا تھا۔ زیلنسکی نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں کئی دہائیوں تک اقتدار میں نہیں رہوں گا، لیکن ہم پوتن کو یوکرین کے علاقوں پر بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیں گے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ” زیلینسکی کے انتخابات میں کامیاب ہونے مواقع صرف چار فیصد ہیں”۔ اس ہفتے جاری ہونے والے ایک سروے نے زیلنسکی کی کامیابی  کی درجہ بندی کو 63فیصد  پر رکھااور انہوں نے اتوار کو ٹرمپ کے دعووں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کا حوالہ دیا، ان کے جھوٹے بیانات کو خطرناک قرار دیا۔ زیلنسکی نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ کوئی غلطی نہیں ہے، یہ غلط معلومات ہے جس کا اثر ہوتا ہے۔ زیلنسکی پر ٹرمپ کی تنقید اس وقت سامنے آئی جب حالیہ ہفتوں میں دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات تیزی سے خراب ہوئے۔ زیلنسکی جنگ میں انتخابات کے خیال کی مخالفت کرتے ہیں، اس پوزیشن کو ان کے بڑے سیاسی مخالفین کی حمایت حاصل ہے۔ یوکرین کے صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ ٹرمپ کو یوکرین کے لیے ایک پارٹنر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور کیف اور ماسکو کے درمیان محض ایک ثالث کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کیف میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “میں واقعی چاہتا ہوں کہ یہ صرف ثالثی سے زیادہ ہو”۔

ٹرمپ نے ڈین مونگینو کو ایف بی آئی کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کر دیا

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے  سابق پولیس اہلکار، خفیہ ایجنسی کے سابق ایجنٹ اور ریڈیو پوڈ کاسٹر ڈین مونگینو کو ایف بی آئی کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کر دیا ہے جوکہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کیش پٹیل کے ساتھ خدماتا انجام دیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر پیغام میں لکھا کہ ایف بی آئی ڈپٹی ڈائریکٹر کے لیے ڈین مونگینو کا انتخاب بہت اہم ہے، وہ کیش پٹیل کے ساتھ بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد وہ اپنے پوڈ کاسٹ کو چھوڑ دیں گے جوکہ اس وقت امریکہ بھر میں 56ویں نمبر پر ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے ڈین مونگینو کو سینیٹ کی منظوری بھی درکار نہیں ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں ڈین مونگینو کو محب وطن اور ملک سے پیار کرنے والا انسان قرار دیا ہے۔ ڈین مونگینو 4  دسمبر 1974 میں کوئینز نیویارک میں پیدا ہوئے، وہ پروڈیوسر اور مصنف کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں، ان کی اہلیہ پولا آنڈریا مارٹینز ہیں جن سے ان کی دو بچیاں آئزہ بیل اور ایمیلی ہیں۔ ڈین مونگینو نے سٹی یونیورسٹی آف نیویارک سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی، جبکہ پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔  1995 سے 1999 تک نیویارک پولیس میں بطور آفیسر خدمات انجام دیں ، 1999 سے 2011 تک سیکرٹ سروس میں خدمات انجام دیں۔

حماس کا فلسطینی قیدیوں کی رہائی تک اسرائیل کے ساتھ مذاکرات سے انکار

 اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیے جانے کے بعد حماس نے اسرائیل کے ساتھ مزید مذاکرت سے انکار کر دیا ہے۔ا  موقف اپنایا ہے کہ جب تک طے شدہ فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا تب تک کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ حماس کے عہدیدار باسیم نعیم نے کہا کہ مذاکرات اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک فلسطینی قیدیوں کو معاہدے کے مطابق رہا نہیں کیا جاتا۔ اسرائیل نے اتوار کو طے شدہ سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی مؤخر کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حماس ان کی شرائط پوری نہیں کرتی، انہیں آزاد نہیں کیا جائے گا۔ نیتن یاہو آفس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ حماس کی طرف سے بار بار کی جانے والی خلاف ورزیوں جس میں ہمارے قیدیوں کی عزت کو مجروح کرنے والی تقریبات اور پروپیگنڈے کے لیے ان کا مذموم سیاسی استعمال بھی شامل ہیں ان کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اتوار کو حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسیم نعیم نے برطانوی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ  دشمن کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات، جو ثالثوں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں۔ تب تک ممکن نہیں جب تک معاہدے کے تحت طے شدہ 620 فلسطینی قیدی رہا نہیں کیے جاتے، جنہیں ہفتے کے روز 6 اسرائیلی قیدیوں اور 4 لاشوں کے بدلے آزاد کیا جانا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ثالثوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ دشمن معاہدے کی شرائط پر عمل کرے، جیسا کہ طے شدہ معاہدے میں درج ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس نے 19 جنوری سے جاری جنگ بندی کے دوران ایک دوسرے پر خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا البتہ اب تک جنگ بندی برقرار ہے۔ یاد رہے کہ حماس نے ہفتے کو جنگ بندی معاہدے کے تحت 6 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا جس کے بدلے اسرائیل کو بھی 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا مگر اسرائیلی وزیراعظم نے فسلطینی قیدیوں کی رہائی کو مؤخر کر دیا۔

ہمیں جنگ کے بعد فلسطینی بیانیہ تبدیل کرنا چاہیے، علی ابو رزق

اسلام آباد میں “ایکو آف فلسطین” کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مقامی اور عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس جماعت اسلامی کی جانب سے کرائی گئی جس میں امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں نشریاتی ادارے الجزیرہ کے صحافی علی ابو رازق  نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ”غزہ میں نسل کشی کے بعد ہمیں ایک نیا بیانیہ اپنانا چاہیے کیوں جنگ کے بعد ایک نئی قسم کے سامعین سامنے آئے ہیں”۔

پوپ فرانسس کی حالت مزید بگڑ گئی، آکسیجن پر منتقل

کیتھولک عیسائیوں کی مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کی حالت مزید بگڑ گئی، ڈاکٹروں نے حالت کو نازک قرار دے دیا، انہیں آکسیجن دی جا رہی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق 88 سالہ پوپ فرانسس کو ڈبل نمونیا کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ 14 فروری سے اسپتال میں داخل ہیں۔ پوپ فرانسس کی صحت سے متعلق ویٹی کن نے اپنے حالیہ بیان میں بتایا ہے کہ  پوپ فرانسس کی حالت نازک ہے اور انہیں آکسیجن دی جارہی ہے۔ ویٹی کن نے اپنے بیان میں کہا کہ پوپ کو سانس لینے میں کسی نئے مسئلہ کا سامنا نہیں، پوپ چوکنا ہیں اور ذہنی طورپر بہتر ہیں۔ ویٹی کن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پوپ فرانسس اپنے عہدے سے دستبرار نہیں ہو رہے،اس بارے میں قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ ویٹی کن کے سینیئر عہدیدار کارڈینل پیرولین نے کہا کہ فکر مندی کی واحد بات پوپ کی صحت اور دوبارہ ویٹی کن واپسی ہے۔ پوپ سے مستعفی ہونے کے مطالبات بھی بے بنیاد ہیں۔ آرلینڈو ہیلتھ میڈیکل گروپ یورولوجی کے ڈاکٹر جامن کا کہنا ہے کہ پوپ فرانسس کی حالت اب بھی خطرے میں ہے، گردوں کے مسئلے کو تو حل کر لیا جائے گا لیکن کچھ انٹرنل ڈیمج اس سلسلے میں عمل کو مزید پچیدہ بنا سکتے ہیں۔ پاپ فرانسس 17 دسمبر 1936 کو فلورس، بیونس آئرس، ارجنٹائن میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام جارج ماریو برگوگلیو ہے، پاپ فرانسس کے چار بچے ہیں، ان کو انڈیپینڈنٹ پبلشر بک ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

اللّٰہ کا سہارا: دنیا کی تلخ حقیقتوں میں امید کی کرن

زندگی کا سفر ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ہم اپنی تمام تر نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی راہ میں چل رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی لوگوں کی باتیں ہمیں تھکا دیتی ہیں۔ ان کی زبانیں ہمارے اخلاص پر سوال اٹھاتی ہیں، ہمارے ارادوں کو جانچتی ہیں، اور ہمارے حوصلے کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری کوششوں کا کوئی اعتبار ہی نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور ان سے بچنا ممکن نہیں۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے۔ لوگ ہمیشہ ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے رکھتے ہیں چاہے ہم اچھا کریں یا برا۔ سوشل میڈیا، خبروں اور روزمرہ زندگی میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دوسروں کی زندگیوں پر کیسے تبصرے کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تبصرے حوصلہ بڑھانے کے بجائے مایوسی کا باعث بنتے ہیں اور انسان تھکنے لگتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر ایسی صورتحال سے گزرتا ہے جب دنیا کے الفاظ تیر بن کر دل کو چھیدنے لگتے ہیں۔ جب تنقید اور طنز کی گونج ہمارے اندر کی روشنی کو ماند کرنے لگتی ہے۔ جب دل چاہتا ہے کہ سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور چلے جائیں جہاں صرف سکون ہو اور اللہ کی محبت کا سایہ۔ لیکن ایسے لمحات میں ہی اللہ کی رحمت ہمیں تھام لیتی ہے۔ وہ جو ہمارا رب ہے، جو ہماری نیتوں سے واقف ہے، جو دلوں کے حال جانتا ہے، وہ ہمیں ہمارے درد کے ساتھ کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہم نے اس کی رضا کے لیے کیا کچھ قربان کیا اور پھر وہی ہمیں وہ سکون عطا کرتا ہے جو دنیا کی کوئی چیز نہیں دے سکتی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: “فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا، إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا” (پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔) (سورۃ الشرح: 5-6) یہ سچ ہے کہ دنیا کی باتیں ہمیں تھکا سکتی ہیں مگر اللہ کا سہارا ہمیں تھام لیتا ہے۔ جب ہم اپنی زندگی کا مرکز اللہ کو بنا لیتے ہیں تو پھر لوگوں کی رائے بے معنی ہو جاتی ہے۔ وہ چاہے جتنا بھی بولیں جتنا بھی تنقید کریں ہمارے دل کو سکون تب ہی ملے گا جب ہم جان لیں گے کہ ہماری اصل کامیابی اللہ کے ہاں ہے نہ کہ دنیا کی داد و تحسین میں ہے۔ آج کے دور میں جہاں دنیا کی تیز رفتار زندگی میں لوگ ایک دوسرے پر جملے کستے ہیں، اپنی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہاں ہمیں خود کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ اگر کبھی لوگوں کی باتیں تھکانے لگیں تو بس رک کر اللہ کی طرف رجوع کر لیں۔ وہی ہمارا سب سے بڑا سہارا ہے اور وہی ہمیں وہ طاقت دے گا جو ہمیں دنیا کی تھکن سے آزاد کر دے۔ جو لوگ اللہ کے لیے چلتے ہیں وہ کبھی نہیں ہارتے۔ کیونکہ ان کا سفر دنیا کی نظروں میں نہیں بلکہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے راستے پر ثابت قدم رہیے۔ دنیا کی باتوں کو دل پر نہ لیجیے بلکہ اللہ کی محبت کو اپنی سب سے بڑی طاقت بنائیے۔ یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔ جو ہمیں آزمائشوں میں مضبوط رکھتی ہے اور جو ہر مشکل میں امید کی کرن ثابت ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں جب تک زندہ رکھے اپنے سہارے کا ہی محتاج رکھے آمین۔ اور یقناً اللّٰہ کے سہارے کی محتاجی بہترین محتاجی ہے۔

دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال: کیا طاقت کا توازن بدل چکا؟

سال بدل گیا مگر دنیا کے حالات جوں کے توں ہیں، طاقت کے حصول کے لیے بارود کی بو میں سانس لینا دشوار ہے، عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی میں پستے غریب عوام دربدر ہیں، کوئی یورپ میں پناہ لینے کے لیے بھٹک رہا ہے تو کوئی قریبی ممالک میں پناہ لے رہا ہے۔ مشرق سے مغرب تک طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے، کیا حالات نیا جنم لے رہے ہیں؟ کیا طاقت کا توازن بدل چکا ہے؟ عالمی طاقتوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو 20ویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں نوآبادیاتی یعنی سامراجی نظام تھا اور بڑی طاقتوں نے مختلف خطوں پر بادشاہت کے ذریعے قبضہ جما رکھا تھا۔ مگر 1919 میں پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں طاقت کے توازن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب عالمی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا سلسلہ شروع ہوا اور الائنس کا نظام متعارف ہوا۔ نظریاتی، جغرافیائی، ثقافتی اور سماجی لحاظ سے قریب سمجھے جانے والے ممالک نے آپس میں اتحاد کرلیا، جس کے نتیجے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا۔ اتحادی ممالک میں یہ اصول طے پایا کہ اگر کسی ملک پر حملہ ہوگا تو اس کے اتحادی اس کا جواب دیں گے، مگر جیسے ہی طاقت کا توازن بگڑا تو خطے میں نئی جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ابوالحسن نے کہا کہ “امریکا اب بھی دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہے، لیکن اس کی برتری چیلنج ہو رہی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “چین اور روس جیسے ممالک عالمی سطح پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایک نئے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔” اس کے علاوہ طاقتوں کے فروغ میں مادیت پرستی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہر ریاست نے اپنی عسکری قوت پر خاص توجہ دی اور اپنی افواج کو درکار تمام سہولیات سے لیس کرنے میں کامیابی سمجھی۔ ان عوامل کے علاوہ بادشاہت اور قوم پرستی نے بھی جنگی جنون اور ورلڈ آرڈر میں اہم تبدیلی کے لیے کام کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان علی فانی نے کہا کہ “روس اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ توانائی، معیشت اور فوجی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ دونوں ممالک مل کر مغرب کا متبادل طاقت کا محور بن سکتے ہیں۔” پہلی جنگ عظیم کے بعد ‘ملٹی پولر ورلڈ آرڈر’ وجود میں آیا، جس کے بعد لیبر انسٹی ٹیوشنز اور گلوبل گورننگ باڈیز کے قیام نے عالمی طاقت کے ڈھانچے کو تبدیل کیا۔ تاہم، 1939 میں ایک اور بڑی جنگ، یعنی دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، جو 1945 میں ختم ہوئی۔ اس کے بعد طاقت کی ساخت مکمل طور پر تبدیل ہوئی اور ‘ملٹی پولر’ سے ‘بائی پولر ورلڈ آرڈر’ وجود میں آیا جس کے نتیجے میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ 1991 میں افغانستان میں ختم ہوئی، جس کے بعد ‘بائی پولر’ سے ‘یونی پولر ورلڈ آرڈر’ قائم ہوا، جو تاحال برقرار ہے، مگر اس پر اب مختلف آرا موجود ہیں کہ پاور ڈائنامکس ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہی ہے۔ عالمی امور کے ماہرڈاکٹرابوالحسن کا کہنا تھا کہ “چین اپنی اقتصادی ترقی، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اگر چین اسی رفتار سے ترقی کرتا رہا تو مستقبل میں عالمی طاقت کا توازن مشرق کی طرف جھک سکتا ہے۔” دورٍحاضر میں دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال، چین اور روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ طاقت کی ساخت میں تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ‘برکس’ کی شکل میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کا سوشیو اکنامک الائنس بھی اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ موجودہ عالمی نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں جن میں امریکا کے اسٹریٹیجک پارٹنرز بھی شامل ہیں۔ پروفیسر عرفان علی کا کہنا ہے کہ “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بہت بڑا منصوبہ ہے، جو عالمی معیشت پر چین کے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے جاری رہا تو ایشیا عالمی طاقت کے نئے مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ “اگر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک برکس میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ امریکا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہو سکتا ہے، جس سے خطے کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔” دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو دنیا میں یونی پولر ورلڈ آرڈر ہی برقرار ہے، لیکن رجحان میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے اور مستقبل قریب میں عالمی منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ پروفیسر ابوالحسن نے اس پر کہا کہ “عالمی ادارے ابھی تک مغربی ممالک کے زیر اثر ہیں، لیکن بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث انہیں اپنی پالیسیوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ چین سمیت دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔”