جنوبی کوریا میں تعمیراتی سڑک پر عمارت گرنے سے چار افراد ہلاک، چھ زخمی

جنوبی کوریا کے شہر ‘انسونگ’ میں ایک افسوسناک حادثہ پیش آیا جب ایک زیرِ تعمیر ہائی وے کا ایک بلند حصہ گر گیا جس کے نتیجے میں کم از کم چار افراد کی موت واقع ہوئی اور چھ افراد زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ منگل کی صبح تقریبا 9:49 بجے پیش آیا، جب پانچ اسٹیل کے 50 میٹر طویل ستون جو ہائی وے کے پل کو سہارا دے رہے تھے، اچانک گر گئے۔ انسونگ جو کہ دارالحکومت سیول سے تقریبا 65 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے، اس خوفناک حادثے کی زد میں دس افراد آئے۔ ان میں سے چار افراد موقع پر ہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ چھ افراد شدید زخمی ہو گئے اور انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دھماکے کی آواز نے پورے علاقے میں ہلچل مچادی، جبکہ فائر بریگیڈ کی ٹیمیں اور امدادی اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔ حادثے کی نوعیت انتہائی پیچیدہ تھی، کیونکہ ستونوں کے گرنے سے کئی مزدور ملبے تلے دب گئے تھے۔ فورا امدادی کارروائیاں شروع کی گئیں تاکہ ان افراد کو نکالا جا سکے جو ابھی تک زندہ تھے۔ وزارت لینڈ انفراسٹرکچر اینڈ ٹرانسپورٹ’ نے موقع پر اپنے حکام کی ٹیم بھیج دی ہے تاکہ تحقیقات کی جا سکیں اور حادثے کی اصل وجہ کا پتہ چلایا جا سکے۔ فی الحال حادثے کے پیچھے کی وجوہات کا تعین نہیں ہو سکا لیکن حکام نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے حادثے کی جگہ پر موجود تعمیراتی کمپنی، ہنڈائی انجینئرنگ، نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ کمپنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ “ہم تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ سائٹ کی بحالی کے عمل کو تیز کیا جا سکے اور حادثے کی حقیقت کا پتہ چل سکے۔” یہ بھی پڑھیں: ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کے لیے امریکا کی دھمکی، عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا اس حادثے کی تفتیش میں جنوبی کوریا کے وزیرِ اعظم ‘چوی سانگ موک’ نے فوری طور پر تمام دستیاب وسائل کو میدان میں اتارنے کی ہدایات جاری کیں اور کہا کہ مزید نقصانات کو روکنے کے لیے تمام ضروری حفاظتی تدابیر کو فوراً نافذ کیا جائے۔ اس سانحے کا وقت بہت حساس تھا کیونکہ یہ جنوبی کوریا میں اس نوعیت کا ایک اور دردناک واقعہ تھا جس میں عام طور پر صنعتی حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے فروری میں بسوں کے ہوٹل کی تعمیراتی سائٹ پر آگ لگنے سے چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے، جب کہ گزشتہ سال جون میں ایک لِتھیم بیٹری فیکٹری میں آگ لگنے سے 23 افراد کی جانیں گئیں، جس کی وجہ معیار میں کمی اور ناکافی حفاظتی تدابیر تھیں۔ جنوبی کوریا نے حالیہ برسوں میں کام کی جگہوں پر حفاظتی تدابیر کو بہتر بنانے اور کمپنیوں کو ان کے مزدوروں کی حفاظت کے حوالے سے سختی سے جوابدہ بنانے کے لیے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔ 2022 میں حکومت نے ایک ایسا قانون منظور کیا تھا جس کے تحت کسی بھی حادثے میں اگر کوئی کارکن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ دل دہلا دینے والا حادثہ اس بات کا غماز ہے کہ صنعتی حفاظت میں ابھی مزید بہتری کی ضرورت ہے اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ آنے والے وقتوں میں انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ مزید پڑھیں: شہباز شریف آذربائیجان کے بعد ازبکستان کے دورے پر، مقاصد کیا ہیں؟

انڈیا پاکستان کرکٹ میچ: نفسیاتی جنگ یا محض تجارتی شو؟

یہ مقابلہ دو ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان نہیں، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے یہ الفاظ بھارت کے مایہ ناز بلے باز ‘ویرندر سہواگ’ کے ہیں جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی کرکٹ کی سب سے بڑی جنگ کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ یہ لمحہ دراصل ایک جیتا جاگتا تجزیہ ہے اس جذبے کا جسے کرکٹ کے پرستار دنیا بھر میں محسوس کرتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کا کرکٹ میچ صرف ایک کھیل نہیں، یہ ایک ایسی جنگ ہے جو کرکٹ کے میدان سے باہر بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جنگ کی سرحدوں، سیاسی کشمکش اور تاریخ کے صفحات پر چھپی جڑوں کے باوجود بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والا ہر کرکٹ میچ دنیا بھر کے کروڑوں شائقین کے لیے دلچسپی کا باعث بناتا ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ رقابت اب محض ایک تاریخی حیثیت اختیار کر چکی ہے؟ کیا اس میں وہ پہلے والی شدت ہے جو کبھی اسے دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ رقابت بناتی تھی، اب باقی نہیں رہی؟ حالیہ چیمپئنز ٹرافی کے میچ میں بھارت کی پاکستان کے خلاف فتح نے اس سوال کو مزید تقویت دی ہے۔ پاکستان کرکٹ اب صرف ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے” یہ الفاظ پاکستان کے مشہور اخبار “ڈان” کے ہیں جو بھارتی ٹیم کے ہاتھوں پاکستان کی ایک اور شکست کے بعد شائع ہوئے تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کرکٹ کے میدان میں اتنی یک طرفہ شکستیں ہوئی ہیں کہ اب کسی بھی میچ میں ان سے کسی بڑے مقابلے کی توقع کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ 2017 کے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کی بھارت کے خلاف جیت کو اب محض ایک یاد کے طور پر لیا جاتا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق “پاکستان کے کھلاڑی وہ کرکٹ کھیلنے والے نہیں رہے جن کا مقابلہ بھارت کے سٹار کھلاڑیوں سے کیا جا سکے۔ اگر یہ کرکٹ کے میدان کی حقیقت ہے تو اس میں سیاست کی رنگت ہی ہے جو اس مقابلے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔” پاکستان کے کھلاڑی آج بھی IPL جیسے بڑے میدان سے باہر ہیں جو ان کی ترقی کی راہوں کو مزید تنگ کرتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے نہ صرف اپنی داخلی کرکٹ ساخت کو مضبوط کیا ہے بلکہ IPL نے بھارت کے کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر ایک طاقتور کرکٹ مارکیٹ فراہم کی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی وطن واپسی بھارتی کرکٹ بورڈ نے کامیابی کی راہ میں جو قدم اٹھائے ہیں ان کی بدولت بھارت کرکٹ کی دنیا کا طاقتور ترین ملک بن چکا ہے۔ بھارت میں کرکٹ کا کھیل نہ صرف ایک کھیل ہے بلکہ ایک تہذیبی ورثہ بن چکا ہے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کامیابیاں اور ان کا تسلسل اس بات کا غماز ہیں کہ بھارتی کرکٹ نے عالمی سطح پر اپنی ایک الگ ہی شناخت بنا لی ہے۔ بھارت کی کامیاب کرکٹ ٹیم جسے مضبوط ملکی ڈھانچے اور آئی پی ایل کی بھرپور حمایت حاصل ہے یہ سب اب پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی ٹیم مسلسل فنی، انتظامی اور سیاسی بحرانوں کا شکار ہے۔ اس بحران نے پاکستان کی کرکٹ کی طاقت کو کمزور کیا ہے۔ پاک انڈیا کرکٹ مقابلہ صرف ایک نفسیاتی جنگ بن چکی ہے کرکٹ کے ماہر لکھاری ‘گاؤتم بھٹّاچاریہ’ کا کہنا ہے کہ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے میدان میں جو جوش نظر آتا ہے وہ صرف ذہنی دباؤ اور مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان کی حالیہ شکستوں کے باوجود یہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے میچز اب بھی عالمی سطح پر کرکٹ کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے میچز ہیں۔ بھارت کی کرکٹ ٹیم کی اس مسلسل کامیابی کی ایک اور وجہ اس کا مضبوط مارکیٹنگ نیٹ ورک بھی ہے۔ بھارت کے برانڈ کنسلٹنٹ سنتوش دیسائی کہتے ہیں کہ “پاکستان کے مسلسل خساروں کے بعد یہ مقابلہ اب محض ایک تجارتی کھیل بن چکا ہے جہاں بھارت کی مسلسل فتح اس کھیل کا اہم حصہ بن چکی ہے”۔ دوسری جانب ‘شوبھمن گل’ جو بھارت کے نائب کپتان ہیں اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ اس مقابلے کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “یہ ایک ایسا مقابلہ ہے جسے لوگ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر لاکھوں لوگ اس میچ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں تو ہم اس پر کیا کہہ سکتے ہیں۔” لازمی پڑھیں: پاکستان اور انڈیا کا میچ ہی دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ کیوں ہے؟ یقینا دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچز آج بھی کروڑوں شائقین کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلنے جانے والے میچز ہر بار ایک تجارتی بم ثابت ہوتے ہیں، جہاں سے نہ صرف بڑی تعداد میں ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں، بلکہ دنیا بھر میں ان میچز کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کا یہ مقابلہ ایک ایسا کھیل ہے جو صرف کرکٹ تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ سیاسی، ثقافتی، اور تجارتی لحاظ سے بھی ایک اہم موضوع بن چکی ہے۔ کیا اس کا مستقبل اب صرف ایک روایتی اور تجارتی مقابلے تک محدود ہو جائے گا؟ شاید اس کا جواب اس وقت تک واضح نہ ہو، جب تک پاکستان کرکٹ اپنی بلندیاں دوبارہ حاصل نہیں کر لیتا۔ اس وقت تک “یہ ایک نفسیاتی جنگ” ہی رہے گی جو کہ “ہائپ” سے زیادہ کچھ نہیں۔ مزید پڑھیں    : عمران خان نے جیل میں کرکٹ میچ دیکھا، پاکستان کی شکست پر شدید غصے میں مبتلا ہوگئے

کراچی میں’درختوں‘ کی منفرد نمائش، مقاصد کیا ہیں؟

ماحول کو بہتر بنانے میں پودے اہم کردار ادا کرتے ہیں،کراچی میں ایک ایسی سوسائٹی کام کررہی ہے جو ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کررہی ہے اور شجرکاری کو فروغ دے رہی ہے۔  50 سے 60 سال پرانے درختوں کو دوبارہ اگانا ایک جاپانی طریقہ ہے، جس کو ’بون سائی‘ کہا جاتا ہے، بون مطلب درخت اورسائی مطلب ٹرے تو جو درخت ہے اس کو بنیاد طور پہ ٹرے میں اگایا جاتا ہے۔ کراچی میں کام کرنے والی سوسائٹی کے منتظمین کا بتانا ہے کہ ہم درختوں کو ٹرے میں اگاتے ہیں، اس کا آسان مقصد ہے کہ لوگ گھروں میں پودے لگائیں اور ماحول بچائیں۔ بون سائی ایک آرٹ ہے جو دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی مقبولیت حاصل کررہا ہے ۔ لوگوں کو شجر کاری کی طرف راغب کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے، گھروں میں اس طریقے سے پودے اگا کر ماحول کو بہتر رکھا جاسکتا ہے۔

ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کے لیے امریکا کی دھمکی، عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا

سابق امریکی وزیر خارجہ ‘مائیک پومپیو’ نے پیر کو ایران کے خلاف نئے اقدامات کا اعلان کیا جس نے عالمی سطح پر تیل کی منڈی میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکا نے ایران سے تیل خریدنے والے ملکوں کو دی جانے والی استثنی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانچ ملکوں نے مئی تک ایران سے تیل کی خریداری بند نہ کی تو ان پر امریکی اقتصادی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ ان پانچ ملکوں میں چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی شامل ہیں اور اگر انہوں نے امریکی فیصلہ تسلیم نہ کیا تو عالمی تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد آیا ہے اور اس کا اثر نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جائے گا۔ پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا کا مقصد ایران کو اُس پیسے سے محروم کرنا ہے جسے وہ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ ان کے مطابق ایران کی حکومت نے گزشتہ چار دہائیوں میں تیل کی دولت کا استعمال دہشت گردی کی فنڈنگ اور عالمی امن کے لیے خطرہ بننے کے لیے کیا ہے۔ ضرور پڑھیں:اسرائیل کا رمضان میں فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ میں داخلے پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ یہ معاملہ ایک سال قبل اُس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں اور ایران کے تیل کی برآمدات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، امریکا نے جب ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو عارضی طور پر استثنیٰ دیا تو ان ممالک میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، ترکی، اٹلی، یونان اور تائیوان شامل تھے۔ ان میں سے تین ممالک اٹلی، یونان اور تائیوان نے متبادل ذرائع تلاش کر لیے تھے لیکن چین اور امریکا کے اتحادی ملکوں انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی نے ایران سے تیل خریدنا جاری رکھا۔ امریکا نے حالیہ فیصلے کے ذریعے ان ممالک پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ 2 مئی تک ایران سے تیل خریدنا بند کر دیں، ورنہ ان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد ہوں گی۔ پومپیو کے اعلان کے بعد عالمی تیل کی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ایران کی تیل کی برآمدات میں روزانہ 13 لاکھ بیرل کا حصہ ہے، اور اس کی برآمدات کی مقدار اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایرانی تیل کی ترسیل میں دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایرانی تیل بردار جہاز اپنے ٹرانسپونڈر بند کر دیتے ہیں جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ تیل کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔ امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایران کی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پیداوار بڑھانے کی درخواست کی ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ دونوں ممالک اس کمی کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکتے۔ عالمی سطح پر تیل کی فراہمی میں خلل پڑنے کی صورت میں قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ عالمی معیشت پر بھی اثرانداز ہوگا۔ یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ انتظامیہ کا USAID کے 3,600 ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ ایران کے ردعمل کے امکانات بھی عالمی سطح پر تشویش کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایران نے کئی بار آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے نہ صرف ایران بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تیل کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ آبنائے ہرمز ایک انتہائی اہم تجارتی راستہ ہے، جس کے ذریعے عالمی تیل کی ایک بڑی مقدار دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچتی ہے۔ ایران کی طرف سے اس آبی گزرگاہ کو بند کرنے کی دھمکی اس لیے زیادہ سنجیدہ سمجھی جا رہی ہے کہ اس راستے کا کنٹرول ایران کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے لیے آبنائے ہرمز کو بند کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایران کی اپنی برآمدات بھی اس راستے سے گزرتی ہیں اور اس کو بند کرنے سے ایران خود اپنے تجارتی راستوں کو محدود کر لے گا۔ اس کے علاوہ ایران کی اس دھمکی سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایران پر حملہ کرنے کا جواز مل سکتا ہے جس سے ایران کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکا کی طرف سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں ایرانی معیشت پر سنگین اثرات ڈال رہی ہیں۔ ایران کی معیشت گزشتہ برس 6 فیصد سکڑنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا اور اس کے شہریوں کو ضروریات زندگی کے لیے 47 فیصد زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایرانی عوام افراط زر اور بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں جو کہ ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ امریکا کا ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھا رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ ایران کی معیشت کی حالت اور عالمی منڈی پر اثرات، خاص طور پر تیل کی فراہمی میں خلل کے امکانات، ایک اہم چیلنج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایران کی ممکنہ کارروائیاں اور امریکی ردعمل، عالمی تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی کیسے اس بحران سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کہاں تک پہنچتی ہیں۔ مزید پڑھیں: انڈیا اور برطانیہ تجارتی مذاکرات: دونوں ممالک کا اگلی دہائی میں دوطرفہ تجارت کو دوگنا کرنے کا عزم

ٹرمپ انتظامیہ کا USAID کے 3,600 ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک حیران کن اور متنازعہ فیصلہ کیا ہے جس کے تحت امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کے تقریبا تمام ملازمین کو برخاست کرنے یا رخصت پر بھیجنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ یہ اقدام عالمی سطح پر امریکی امداد کے پروگرامز پر سنگین اثرات مرتب کرسکتا ہے جس سے لاکھوں مستحق افراد متاثر ہو سکتے ہیں اور امریکا کی نرم طاقت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ USAID کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق تمام ملازمین، سوائے ان افراد کے جو اہم اور ضروری فنکشنز کے ذمہ دار ہیں، اس مشن کے رہنماؤں یا مخصوص پروگرامز میں شامل ہیں ان کو 23 فروری 2025 کی رات 11:59 بجے (EST) سے عالمی سطح پر ‘انتظامی رخصت’ پر بھیج دیا جائے گا۔ یہ اقدام تقریبا 1,600 امریکی ملازمین کو متاثر کرے گا جنہیں اس دن کے اختتام تک نوٹس اور تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔ اس فیصلے کے بعد امریکی ایجنسی نے 2,000 امریکی مقامی ملازمین کی برطرفی کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ان افراد کو جلد ہی نوٹس موصول ہوں گے اور ان کی مزید ہدایات اور فوائد کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔ اس اقدام کا مقصد غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا اور امریکی امدادی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا بتایا جا رہا ہے کئی امدادی ماہرین نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس سب کا آغاز اُس وقت ہوا جب ایک امریکی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ اجازت دے دی کہ وہ USAID کے ہزاروں ملازمین کو 30 دن کے اندر اپنے عالمی مشن سے واپس بلالے۔ ان ملازمین کو واپس لانے کے لیے ایک ‘رضاکارانہ واپسی پروگرام’ اور دیگر فوائد فراہم کیے جائیں گے۔ دوسری جانب ‘ٹیک صنعت’ کے ارب پتی ‘ایلون مسک’ کی قیادت میں امریکی حکومت نے USAID کو ایک ‘مجرم تنظیم’ اور ‘انتہاپسند بائیں بازو کے مارکسیوں کا گڑھ’ قرار دیتے ہوئے اس کے کاموں پر شدید تنقید کی ہے۔ مسک کا ماننا ہے کہ اس ادارے کا ایجنڈا اس کی اصل مشن سے ہٹ کر ہے اور یہ ضیاع اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ USAID کی اہمیت کو نظرانداز کرنا ایک سنگین فیصلہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ادارہ دنیا بھر میں سب سے بڑا انسانی امداد دینے والا ادارہ ہے جو 2023 میں 72 ارب ڈالر کی امریکی بیرونی امداد کا نصف حصہ فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کی مدد سے لاکھوں افراد کو صحت کی سہولتیں، تعلیم اور دیگر امدادی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ ماضی کے USAID کے عہدیداروں اور عالمی امدادی کارکنوں نے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔  مارشیا وونگ، جو USAID کے انسانی امداد کے شعبے کی سابق نائب معاون ایڈمنسٹریٹر ہیں انہوں نے ٹرمپ کے اس اقدام کو “مختصر نظر، خطرناک اور احمقانہ” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “کرائسس کے ماہرین کی برطرفی سے بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے، بے گھر افراد کی مدد اور عالمی سطح پر انسانی بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو گی۔” یہ تبدیلیاں اس وقت آئی ہیں جب امریکی انتظامیہ عالمی امداد کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے اثرات صرف USAID کے ملازمین تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ دنیا بھر میں امدادی منصوبوں کی کامیابی اور کامیابی کے امکانات پر بھی سنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی سطح پر امریکی امدادی پروگرامز کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے اور عالمی برادری میں امریکہ کی نرم طاقت کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ امدادی کاموں کے حوالے سے عالمی برادری میں نئی بحث کا آغاز کر سکتا ہے جو کہ انسانی امداد کی پائیداری اور اس کے صحیح استعمال پر غور و فکر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ امریکی عوام اور دنیا بھر میں انسانی امداد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف دنیا بھر میں امدادی کاموں کو نقصان پہنچے گا بلکہ امریکہ کی عالمی پوزیشن پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مزید پڑھیں: اسرائیل کا رمضان میں فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ میں داخلے پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ

عمران خان نے جیل میں کرکٹ میچ دیکھا، پاکستان کی شکست پر شدید غصے میں مبتلا ہوگئے

پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن، علیمہ خان نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے جیل میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چیمپئنز ٹرافی کے میچ کو دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میچ میں پاکستان کی شکست نے عمران خان کو شدید غصے میں مبتلا کر دیا اور سارا غصہ کرکٹ پر اتار دیا۔ علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “آج عمران خان کو سب سے زیادہ غصہ کرکٹ پر تھا۔ پاکستان کی شکست نے ان کو بہت دکھی کر دیا ہے اور انہوں نے کرکٹ پر اپنا سارا غصہ نکال لیا۔” علیمہ خان نے مزید بتایا کہ عمران خان نے میچ ہارنے پر گہرا دکھ ظاہر کیا اور اس شکست کو پاکستان کرکٹ کے لئے ایک بڑا دھچکا قرار دیا۔ علیمہ خان نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان نے ان سے کہا ہے کہ “میرے بارے میں صرف پارٹی کے عہدیدار بات کریں۔” علیمہ خان کہ مطابق عمران خان نے اپنی صحت کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ “لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا ہوں، حالانکہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔” عمران خان نے اس بات پر ہنسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سب محض ایک افواہ ہے۔ علیمہ خان نے مزید کہا کہ “عمران خان نے کرکٹ کے حوالے سے محسن نقوی سے بھی سوال کیا کہ اس کا کرکٹ کے بارے میں کیا تجربہ ہے؟” ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا یہ ماننا ہے کہ جب کرکٹ کے معاملات میں سفارشی لوگوں کو شامل کیا جائے گا تو پھر یہی صورتحال ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجا نے بھی عمران خان کے کرکٹ کے حوالے سے غم و غصے کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ “عمران خان اس وقت کرکٹ کی صورت حال سے بے حد افسردہ ہیں، کیونکہ کرکٹ ناتجربہ کار لوگوں کے حوالے کی جا چکی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی کرکٹ کی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔” پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف 23 فروری کو چیمپئنز ٹرافی کے میچ میں شکست نے قومی ٹیم کو ایونٹ سے باہر کر دیا۔ یہ پاکستان کی مسلسل دوسری شکست تھی، اور اس نے نہ صرف پاکستانی شائقین کو مایوس کیا بلکہ عمران خان جیسے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی اور مداح کو بھی افسردہ کر دیا۔ عمران خان کی کرکٹ کے حوالے سے یہ تشویش ایک مرتبہ پھر اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ان کے دل میں کرکٹ کے لئے جو جذبات ہیں، وہ ابھی تک زندہ ہیں اور انہوں نے کرکٹ کے مستقبل کے بارے میں اپنی فکر کا اظہار کیا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی وطن واپسی

راولپنڈی: مسلسل بارش کے باعث آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کا اہم میچ منسوخ

راولپنڈی میں بارش نے کرکٹ کے شائقین کو ایک اور بڑی مایوسی کا سامنا کرایا، جب آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے درمیان اج کھیلا جانے والا چیمپئنز ٹرافی کا میچ منسوخ کردیا گیا۔ یہ میچ دونوں ٹیموں کے لیے انتہائی اہم تھا اور کھلاڑیوں کے درمیان ایک سنسنی خیز مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن بدقسمتی سے موسم نے کھیل کو روک دیا۔ میچ کا ٹاس 1:30 بجے ہونا تھا اور کھیل کا آغاز 2:00 بجے متوقع تھا، مگر ہلکی بارش کی وجہ سے میدان میں نمی بڑھ گئی، جس کے باعث دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے لیے کھیلنا ممکن نہ رہا۔ بارش کا سلسلہ جاری رہنے کے سبب میچ شروع نہ ہو سکا اور آخرکار اسے منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس غیر متوقع صورتحال نے شائقین کرکٹ کو دھچکہ پہنچایا ہے جو میچ کی شدت اور جوش کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ میچ گروپ بی کا حصہ تھا جہاں جنوبی افریقا اور آسٹریلیا دونوں ٹیموں نے 3، 3 پوائنٹس کے ساتھ پہلی اور دوسری پوزیشن پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بارش کی وجہ سے دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے نے گروپ کی رینکنگ پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا، لیکن اس سے دونوں ٹیموں کے ارادے اور پلاننگ میں ممکنہ طور پر تبدیلی آسکتی ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی وطن واپسی

اسرائیل کا رمضان میں فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ میں داخلے پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ

اسرائیل نے ماہ رمضان کے دوران مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے عالمی سطح پر تنقید کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے رمضان میں مسجد اقصیٰ کے لیے مخصوص عمر اور دیگر شرائط عائد کر دی ہیں، جن کا مقصد فلسطینیوں کے عبادت کے حق کو محدود کرنا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق صرف 55 سال یا اس سے زائد عمر کے مرد، 50 سال سے بڑی خواتین اور 12 سال یا اس سے کم عمر کے بچے مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے داخل ہو سکیں گے۔ اس فیصلے کے مطابق غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں سے رہا ہو کر مغربی کنارے پہنچنے والے فلسطینیوں کو بھی مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ جانے کے لیے اسرائیلی حکام سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔ رمضان میں نماز جمعہ کے لیے مسجد اقصیٰ میں صرف 10 ہزار افراد کو داخلے کی اجازت دی جائے گی، جو ایک بڑی تشویش کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ اقدام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے مذہبی حقوق پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہے جس سے رمضان کے مقدس مہینے میں مذہبی عبادات کے حوالے سے کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔ مزید پڑھیں: سلامتی کونسل اجلاس:پاکستان کا یوکرین سے متعلق امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ

شہباز شریف آذربائیجان کے بعد ازبکستان کے دورے پر، مقاصد کیا ہیں؟

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف آج ازبکستان کے دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہو گئے ہیں، جس کا مقصد دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اکانومک اور تجارتی تعلقات میں نئے افق کی تلاش کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی تعلقات مسلسل فروغ پا رہے ہیں، اور اس ضمن میں گزشتہ سال ایک ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ اس کے ساتھ ہی صنعتی تعاون کے لیے بھی ایک روڈ میپ تیار کیا گیا ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین خطے کی اقتصادی ترقی میں اضافہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ ازبکستان کے سفیر ‘علیشر توختایف’ نے گزشتہ ماہ پاکستان میں اعلان کیا تھا کہ اس سال تاشقند اور کراچی کے درمیان براہ راست فضائی راستہ متعارف کرایا جائے گا جو دونوں ممالک کے درمیان روابط کو مزید مضبوط کرے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے ازبک ہم منصب صدر ‘شوکت مرزایف’ کی دعوت پر ازبکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ دونوں رہنما دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کریں گے جن میں اقتصادی تعاون، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، دفاع اور سیکیورٹی سمیت خطے کی استحکام کے معاملات شامل ہیں۔ اس دورے کے دوران پاکستان اور ازبکستان کے درمیان مختلف یادداشتوں (MOUs) اور معاہدوں پر دستخط ہونے کی توقع ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف پاکستان اور ازبکستان کاروباری فورم سے خطاب بھی کریں گے جس میں دونوں ممالک کے کاروباری افراد شرکت کریں گے۔ اس فورم کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو مزید فروغ دینا ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ 2019-20 میں دونوں ممالک کی تجارت 27 ملین ڈالر تھی جو 2022-23 میں بڑھ کر 126 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا۔ یہ دورہ نہ صرف پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات میں نیا باب رقم کرے گا، بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی خوشحالی کے دروازے کھولے گا۔ مزید پڑھیں: مریم نواز کے اشتہارات یا خبریں؟ صحافت کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان

چیمپئنز ٹرافی کی سیکیورٹی سے انکار، 50 سے زائد پولیس اہلکار برطرف

محکمہ پولیس میں ڈسپلن کی سختی سے پاسداری کی جاتی ہے اور جو اہلکار اپنی ذمہ داریوں میں غفلت برتیں گے، ان کے لیے محکمہ میں کوئی جگہ نہیں۔

پاکستان میں کرکٹ کے سب سے بڑی بین الاقوامی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی 2025 کی سیکیورٹی پر مامور 50 سے زائد پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی سے انکار پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ یہ لاہور پولیس کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اہلکاروں کو ایک ساتھ معطل کیا گیا ہے۔   ذرائع کے مطابق، اینٹی رائیٹ فورس کے اہلکاروں کو ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کے احکامات پر برطرف کیا گیا۔ معطل کیے گئے اہلکاروں میں عتیق، زین، علی، شیراز، شان، زبیر، عدیل اور دیگر شامل ہیں، جن کی تفصیلات سرکاری رپورٹ میں درج کر لی گئی ہیں۔   حکام کا مؤقف اور سخت کارروائی کا عندیہ محکمہ پولیس میں ڈسپلن کی سختی سے پاسداری کی جاتی ہے اور جو اہلکار اپنی ذمہ داریوں میں غفلت برتیں گے، ان کے لیے محکمہ میں کوئی جگہ نہیں۔   حکام کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لیے چیمپئنز ٹرافی ایک انتہائی اہم موقع ہے، جس کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر اہلکار اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے میں لاپرواہی کریں تو ان کے خلاف سخت ایکشن لینا ناگزیر تھا۔   پولیس ذرائع کے مطابق، اس فیصلے سے دیگر اہلکاروں کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ڈیوٹی میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔   چیمپئنز ٹرافی کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات پاکستان میں 2025 میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے لیے سیکیورٹی کو اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ لاہور سمیت تمام میزبان شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے اور ہزاروں پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو ڈیوٹی پر مامور کیا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی پلان کے تحت: اسٹیڈیمز کے اندر اور اطراف میں جدید کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی کھلاڑیوں اور آفیشلز کو وی آئی پی سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ ایونٹ کے دوران حساس مقامات پر اضافی نفری تعینات کی جائے گی۔   پولیس حکام کے مطابق، کسی بھی قسم کی کوتاہی یا غفلت برداشت نہیں کی جائے گی اور چیمپئنز ٹرافی کو ہر حال میں محفوظ اور کامیاب بنانا اولین ترجیح ہے۔