ڈاکٹر ذاکر نائیک کی منصورہ لاہور آمد، امیر جماعت اسلامی سے ملاقات

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا یہ دورہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی اور دعوتِ دین کے فروغ کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔

معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جماعت اسلامی کے مرکزی ہیڈکوارٹر منصورہ، لاہور کا دورہ کیا، جہاں ان کی جماعت اسلامی پاکستان کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمٰن سے خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز، اسلام کے فروغ، عالمی حالات اور دینی معاملات سمیت دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔   منصورہ میں ہونے والی اس ملاقات میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت سمیت دیگر اہم شخصیات بھی شریک تھیں۔ اجلاس کے دوران اسلامی تعلیمات کے فروغ، عالمی سطح پر امت مسلمہ کو درپیش مسائل، مذہبی ہم آہنگی، اور پاکستان میں دینی اقدار کے احیاء جیسے امور پر گفتگو کی گئی۔   اس موقع پر حافظ نعیم الرحمٰن نے جماعت اسلامی کی جانب سے کیے جانے والے فلاحی و دینی اقدامات سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو آگاہ کیا، جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی اپنی عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔   ڈاکٹر ذاکر نائیک ہفتے کے روز پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی پہنچے تھے، جہاں انہوں نے مختلف مذہبی و سماجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ کراچی میں قیام کے بعد وہ منگل کی صبح لاہور پہنچے، جہاں انہوں نے منصورہ کا دورہ کیا۔   ان کے اس دورے کے دوران مزید اہم ملاقاتوں کا بھی امکان ہے، جن میں دینی و علمی شخصیات کے ساتھ تبادلہ خیال، مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے اقدامات، اور پاکستان میں دعوت و تبلیغ کے کام کو مزید مؤثر بنانے کے حوالے سے گفتگو شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق، وہ لاہور کے بعد دیگر شہروں کا بھی دورہ کر سکتے ہیں۔   یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اس سے قبل بھی کئی بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر اور اکتوبر میں ان کا ایک تفصیلی دورہ ہوا تھا، جس کے دوران انہوں نے مختلف حکومتی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ ان کے خطابات اور لیکچرز کو عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی ملی تھی، خاص طور پر نوجوان طبقہ ان کی علمی گفتگو سے متاثر نظر آتا ہے۔   دورے کی اہمیت ڈاکٹر ذاکر نائیک کا یہ حالیہ دورہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی، بین المذاہب مکالمے اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ ان کی آمد کو پاکستان میں دعوت و تبلیغ کے کام میں ایک نئی روح پھونکنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے   یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک مستقبل میں پاکستان میں مزید تفصیلی سرگرمیوں کا انعقاد کر سکتے ہیں، جن میں علمی و فکری نشستیں، سیمینارز اور نوجوانوں کے لیے خصوصی لیکچرز شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کے اس حالیہ دورے کو پاکستان میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور مذہبی شعور کی بیداری کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

’آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی سے15 کھرب روپے بچائے‘ وفاقی حکومت کا دعویٰ

حکومت نے کل 27 خود مختار پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)کو مذاکرات کے ذریعے مستقبل کی ادائیگیوں میں تقریباً 15کھرب روپے کی بچت حاصل کی ہے، جب کہ ایک اور ‘ناخوش’ پروڈیوسر کو فرانزک آڈٹ سے گزرنا پڑے گا۔ سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے سامنے وفاقی وزیر اویس احمد خان لغاری، وزیراعظم کے معاون خصوصی محمد علی اور وفاقی سیکرٹری محمد فخر عالم عرفان پر مشتمل پاور ڈویژن کی ٹیم کی جانب سے پریزنٹیشن پیش کی گئی جس میں اس نکتہ پر بات کی گئی۔ پینل کو بتایا گیا کہ اب مزید بچت کے لیے 45 پبلک سیکٹر پاور پلانٹس کے ساتھ بات چیت جاری ہے، وزیر توانائی اویس  لغاری نے پینل کو یقین دلایا کہ حکومت نہ تو سولر سسٹم کی حوصلہ شکنی کرے گی اور نہ ہی کوئی ٹیکس لگائے گی۔ ایس اے پی ایم محمد علی نے کہا کہ حکومت پانچ آئی پی پیز کو 70  سے 80 ارب روپے ادا کر رہی ہے جن کے معاہدے ختم ہو چکے ہیں، جن میں صرف حب پاور کمپنی کو 30 ارب روپے شامل ہیں، انہوں نے اس خیال کو ختم کیا کہ آئی پی پیز کو دباؤ کے ہتھکنڈوں کے ذریعے معاہدوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاخیر سے ادائیگی کے سرچارج کی وجہ سے تقریباً 300 ارب روپے کی ادائیگیوں کو مذاکراتی عمل کے ذریعے معاف کیا جا رہا ہے، بشمول 100 ارب روپے پہلے ہی رائٹ آف کر دیے گئے ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز کے اس سوال کے جواب میں کہ فرانزک آڈٹ کیوں نہیں کیا گیا کیونکہ ماضی میں آئی پی پیز کو اربوں اور کھربوں کی ادائیگی کی گئی تھی جس کے جواز میں محمد علی نے کہا کہ پاکستان کے پاس 50سے 60 پلانٹس کا فرانزک آڈٹ کرنے کی مہارت نہیں ہے اور اس کے لیے بہت زیادہ رقم درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کمیٹی نے 2020 میں اس طرح کے آڈٹ کے لیے 22 ملین روپے مانگے تھے لیکن ایک روپیہ بھی نہیں مل سکا۔ تاہم، اب آئی پی پی کا آڈٹ کیا جائے گا جو ٹیرف پر نظرثانی کے لیے بات چیت پر راضی نہیں ہوا، انہوں نے مزید کہا کہ ایک آئی پی پی جو مذاکرات کی میز پر نہیں آئی اس کا عدالتی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ آئی پی پیز نے ایندھن اور کارکردگی کے معیارات میں گمراہ کر کے حکومت سے ناجائز ادائیگیاں حاصل کیں، لیکن ٹھوس ثبوت کے بغیر اوور انوائسنگ کے الزامات لگانا بہت مشکل تھا اور ایسی کوشش ناکام ہو سکتی ہے اور اسپانسرز بین الاقوامی ثالثی میں جا سکتے ہیں۔ لہذا، انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز پر ٹاسک فورس اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کر رہی ہے کیونکہ اس نے ان پلانٹس کی 20 سال کی بیلنس شیٹس کی جانچ کی ہے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ پچھلی حکومت نے آئی پی پیز کے بارے میں محمد علی رپورٹ پر عمل درآمد نہیں کیا، انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت پہلے ہی آئی پی پیز سے بغیر کسی صوابدید یا احسان کے 1.4 کھرب روپے حاصل کر چکی ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے آئی پی پیز پر ٹاسک فورس کی کارکردگی کو سراہا لیکن حیرانگی کا اظہار کیا کہ ان بچتوں سے صارفین کو کب فائدہ ہوگا۔ محمد علی نے کہا کہ یہ بتدریج صارفین تک پہنچ جائے گا کیونکہ مذاکرات میں پیشرفت اور معاہدے نافذ ہوں گے۔ مسٹر لغاری نے یہ کہتے ہوئے کہا کہ جون 2024 سے بجلی کے نرخ پہلے ہی 4.11 روپے فی یونٹ کم ہو چکے ہیں اور ٹیرف میں مزید خاطر خواہ کمی متوقع ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت نے گزشتہ دہائیوں میں 35 فیصد کی غیر معمولی واپسی کے مقابلے میں پاور پلانٹس کے لیے 17 فیصد کی واپسی طے کی تھی۔ ایس اے پی ایم محمد علی نے بتایا کہ حکومت نے پاور پلانٹس سے 35 ارب روپے وصول کیے جو وفاقی حکومت نے ایندھن کے بدلے ادا کیے تھے۔  مزید برآں، حکومت نے 45 قابل تجدید پلانٹس پر بات چیت شروع کی ہے تاکہ پائیدار شرحوں پر مذکورہ پلانٹس پر منافع کے مارجن کو کم کیا جا سکے۔

سلامتی کونسل اجلاس:پاکستان کا یوکرین سے متعلق امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ

سلامتی کونسل اجلاس کے دوران روس مخالف تمام یورپی ترامیم مسترد کرتے ہوئے یوکرین سے متعلق امریکی قرارداد منظور کر لی گئی ہے، جس کے حق میں پاکستان نے بھی ووٹ دیا۔ اقوام متحدہ میں پیر کو یوکرین، یورپی یونین کی مشترکہ قرار داد اور امریکہ کی الگ قرار داد پر ووٹنگ ہوئی، یہ دونوں ووٹ اقوام متحدہ میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ہیں۔ کیونکہ واشنگٹن ماضی میں ہمیشہ یوکرین کے حق میں اور روس کے خلاف قراردادوں کی حمایت کرتا رہا ہے، لیکن اب کیئف کے ساتھ اچانک تعلقات میں دراڑ کے بعد اس کا مؤقف بدل گیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرین جنگ پر نئی پوزیشن کے تحت، واشنگٹن اور ماسکو پہلے جنرل اسمبلی کے صبح کے اجلاس میں اور بعد میں سلامتی کونسل کے دوپہر کے اجلاس میں ایک ہی صف میں نظر آئے۔ جنرل اسمبلی میں یورپی حمایت یافتہ قرارداد کو 93 ووٹ ملے، جبکہ 18 ارکان نے اس کی مخالفت کی اور 65 ممالک نے ووٹ کا حق استعمال کرنے سے اجتناب کیا۔  امریکہ نے روس اور اس کے اتحادیوں، بیلاروس، شمالی کوریا اور سوڈان کے ساتھ قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ قرارداد، جو جنگ کے حوالے سے سابقہ قراردادوں کے مقابلے میں کم حمایت حاصل کر سکی، روس پر سخت تنقید کرتی ہے اور یوکرین کی علاقائی سالمیت اور اس کی سرحدوں کی حرمت پر زور دیتی ہے۔   یوکرین کے یورپی اتحادیوں نے امریکی متن میں نمایاں ترمیم پر زور دیا تھا، جس میں واضح کیا گیا کہ یوکرین پر مکمل حملہ روس نے کیا تھا۔اس وجہ سے، بالآخر امریکہ نے اپنی ہی قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ اس کے باوجود، امریکہ نے بغیر کسی تبدیلی کے اپنے اصل متن کو دوپہر کے وقت سلامتی کونسل میں پیش کیا، جہاں پاکستان، چین اور روس سمیت 10 ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیے جبکہ کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔فرانس، برطانیہ، ڈنمارک، یونان اور سلووینیا نے ووٹنگ سے اجتناب کیا۔ سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے بعد پاکستان کے سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان ہر اس اقدام کا خیرمقدم کرے گا جو تمام فریقین کو اس افسوسناک تنازعے کے منصفانہ، پرامن اور پائیدار حل کی جانب لے جائے۔ تعمیری اور جامع سفارت کاری کے ذریعے ایک ایسا معاہدہ ہونا چاہئے جو تمام فریقین اور دیگر متعلقہ عناصر کو بھی شامل کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی جذبے کے تحت، پاکستان نے قرارداد 2774 کی حمایت کی ہے، جسے ہم نے ابھی منظور کیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ یہ قرارداد، جو اس کونسل کی تین سالوں میں پہلی قرارداد ہے، بالآخر قیامِ امن کی راہ ہموار کرے گی۔ پاکستانی سفیر کے مطابق قیامِ امن ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، جو جغرافیائی اور سیاسی تقسیم سے بالاتر ہونی چاہئے، پاکستانی سفیر نے آخر میں کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کونسل اپنی ذمہ داری نبھائے گی اور اس مقصد کے حصول کے لیے یکجا ہوگی۔  

امریکہ نے ایران سے تیل خریدنے والی 4 انڈین کمپنیوں پر پابندی لگا دی

امریکا نے ایران سے تیل کی تجارت میں ملوث 4 انڈین کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جبکہ ایران سے پیٹرو کیمیکل کی تجارت کرنے والے 12 اداروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ واشنگٹن کا یہ اقدام ایران کی تیل کی آمدنی کو روکنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں کی مالی اعانت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایگزیکٹو آرڈرز 13846 اور 13902 کے تحت جاری کی جانے والی پابندیوں میں انڈیا، چین، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، سیشلز، لائبیریا اور پاناما کی کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (او ایف اے سی) نے 22 افراد پر پابندی عائد کی، اور 13 بحری جہازوں کی نشاندہی بلاک شدہ جائیداد کے طور پر کی۔ پابندیوں کی زد میں آنے والی انڈین کمپنیوں میں نوئیڈا، جنوبی دہلی میں واقع آسٹن شپ مینجمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، ہریانہ کی بی ایس ایم میرین ایل ایل پی، تمل ناڈو اور مارشل جزائر میں موجودگی کی حامل کاسموس لائنز ان کارپوریٹڈ اور ناوی ممبئی، مہاراشٹر میں واقع فلکس میری ٹائم ایل ایل پی شامل ہیں۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق غیر قانونی شپنگ سہولت کاروں کا یہ نیٹ ورک فروخت کے لیے ایرانی تیل کی لوڈنگ اور نقل و حمل میں دھوکا دہی سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ انڈیا اور ایران طویل عرصے سے توانائی کے شراکت دار رہے ہیں، لیکن امریکی پابندیوں نے 2019 میں انڈیا کی ایرانی تیل کی درآمد کو روک دیا تھا۔ رواں سال جنوری میں ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود تیل کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے اور چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے پیٹرو کیمیکل سمیت تجارت کو وسعت دینے کے اپنے ارادے کا اشارہ دیا تھا۔

یورپ جانے کی خواہش اور موت کے منہ میں چھلانگ، یہ ڈنکی آخر ہے کیا؟

پاکستان کے شمالی پنجاب کے لوگوں کیلئے یورپ جنت ہے، یہاں سے گھروں میں صرف عورتیں ملتی ہیں مرد سارے سمندرپار رہتے ہیں، یہاں ایک گاؤں تو ایسا ہے جس کے بچے بچپن سے ہی باہر منتقل ہونے کے خواب آنکھوں میں سجالیتے ہیں، زیادہ لوگ غیر قانونی طریقوں سے باہر جاتے ہیں، کئی تو اس کوشش میں سمندری مخلوق کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے مطابق ہر سال 80,000 سے 100,000 پاکستانی بہتر معاشی مواقع کے لئے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سفر خطرات اور جان لیوا حالات سے بھرا ہوتا ہے جس میں بے رحم اسمگلر ان افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ ان افراد کو غیر قانونی تارکینِ وطن بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ‘ڈنکی’ جو انسانی اسمگلنگ سے متعلق استعمال ہوتا ہے ایک پنجابی محاورے سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے غیر قانونی طور پر کسی جگہ جانا جیسے کہ ایک گدھے کی طرح چھلانگ لگانا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سیف اللہ نام کا نوجوان بھی ایسا تھا جواٹلی جانے کے لیے غیر قانونی طور پر کشتی کے حادثے میں ہلاک ہو گیاتھا۔ اس کی والدہ بتاتی ہیں کہ سیف اللہ ایک محنت کش تھا اور گھر کی مالی حالت بہتر کرنے کے لیے ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ اپنی بہنوں کی شادی اور گھر کی حالت بہتر بنانے کی امیدیں لگا کر روانہ ہوا تھا۔ اپنے سفر کے دوران اس نے کئی مشکلات برداشت کیں جیسے پیدل چلنا اور کم کھانا پینا اور آخرکار اس کی زندگی کا یہ سفر آخری سفر ثابت ہوا۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ اب وہ اس خطرناک سفر کی حمایت نہیں کرتیں اور دوسروں کو ایسی کوششوں سے روکنے کی نصیحت کرتی ہیں۔ اسی طرح مدثر علی نامی شخص بھی اپنے غیر قانونی سفر کی کہانی سناتے ہیں جس میں انھیں جسمانی تشدد، دھوکہ دہی اور خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے کئی مرتبہ اس راستے کو اختیار کیا لیکن ایک مرتبہ واپس آ کر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ مدثر علی دوسرے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ایجنٹس کی طرف سے دکھائے گئے سبز باغ حقیقت سے بہت مختلف ہیں۔ یہ دونوں داستانیں غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس کے باعث خاندانوں کی زندگیوں پر پڑنے والے گہرے اثرات کو اجاگر کرتی ہیں۔ فروری 2024 میں ایک جہاز جو ترکی سے لیبیا کے راستے اٹلی جاتے ہوئے غرق ہو گیا تھا جس میں پاکستانی مسافر بھی سوار تھے۔ پولیس کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ انہوں نے اس راستے پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد کو جہاز کے غرق ہونے تک کیوں نہیں سمجھا۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ کئی مسافر جائز دستاویزات اور ویزوں کے ساتھ دبئی یا مصر کے لیے پرواز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ سال 19,000 افراد کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بلال (شعبہ ابلاغیات ننکانہ صاحب کریجوایٹ کالج) نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں خاص کر شمالی پنجاب میں بے روزگاری، کمزور معیشت اور بہتر معیارِ زندگی کی خواہش نوجوانوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے پر مجبور کرتی ہے۔ یورپ میں معاشی استحکام، فلاحی نظام اور بہتر مواقع کی کشش انہیں ہر ممکن طریقے سے وہاں پہنچنے کی ترغیب دیتی ہے۔” ڈاکٹر بلال نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے غیر قانونی ہجرت کے خلاف کریک ڈاؤن اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، مگر یہ مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔ ان کے مطابق “سخت قوانین کے نفاذ اور نوجوانوں کے لیے مقامی مواقع پیدا کیے بغیر اس رجحان میں کمی ممکن نہیں۔“ ڈنکی لگانے کی مختلف مذہبی، سیاسی، اور اقتصادی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا تعلق مختلف معاشرتی اور ثقافتی پس منظر سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں بعض فرقوں میں مذہبی رہنماؤں کی ہدایات کے تحت ڈنکی لگانے کو روحانی ترقی یا عقیدے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلا میانمار حکومت کے مظالم سے تنگ ہزاروں افراد ڈنکی لگاکر بنگلہ دیش پہنچے تھے ان میں متعدد راستے میں ہی ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔ کبھی کبھار کام کے حالات یا معاشی فائدے کی بنیاد پربھی افراد ڈنکی لگاکر ملک سے باہر جاتے ہیں۔ بعض ثقافتوں یا علاقوں میں مزدوروں یا کام کرنے والوں کو جسم پر نشان لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کام کی جگہ تک پہنچ سکیں اور انہیں مخصوص حقوق یا مراعات دی جا سکیں۔ اس کے علاوہ کچھ مقامات پر مخصوص نشان یا علامات معاشی یا تجارتی شناخت کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جو کسی خاص کاروبار یا صنعت کے افراد کے درمیان تعلقات اور شناخت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ معاشی، قانونی، سماجی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے معاملات بھی ڈنکی کا باعث بنتے ہیں حقیقت میں یہ غیر قانونی کام مقامی معیشت پر دباؤ ڈالتا ہے، قانونی مسائل پیدا کرتا ہے اور اس سے افراد کو استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے حل کے لیے قانونی ہجرت کے راستوں کی فراہمی، سرحدوں کی بہتر نگرانی، تعلیمی پروگرامز، بین الاقوامی تعاون اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے غیر قانونی ہجرت کو کم کرنے اور عالمی امن و استحکام کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر شفاعت علی ملک ماہر ابلاغیات نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “قانونی امیگریشن کے پیچیدہ اور مشکل طریقہ کار کی وجہ سے لوگ غیر قانونی راستے اپناتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اگر ویزا پالیسیز کو آسان بنایا جائے، ورک پرمٹس میں اضافہ کیا جائے اور شفاف امیگریشن نظام متعارف کرایا جائے تو ڈنکی کے رجحان میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر شفاعت علی نے مزید کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کو مقامی روزگار کے بہتر مواقع فراہم کر کے ڈنکی کو “پاکستان میں

یورپ یوکرین میں دیرپا امن چاہتا ہے: فرانسیسی صدر کا ٹرمپ سے ملاقات میں موقف

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ فرانس اور یورپی ممالک یوکرین میں دیرپا امن چاہتے ہیں، جبکہ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مذاکرت مثبت طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، جنگ چند ہفتوں میں ختم ہو سکتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے ملاقات کے موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں امن کے لئے یورپی افواج بھیجنے میں بظاہرکوئی مسئلہ نہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ یوکرینی صدرسے رواں ہفتے یا آئندہ ہفتے ملاقات کروں گا، کسی موقع پر روسی صدر سے بھی ملاقات کروں گا، مناسب وقت پر ماسکو جانے کے لیے تیار ہوں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین کو اپنا علاقہ چھوڑنا چاہئے یا نہیں اسی سے متعلق دیکھیں گے، روسی صدر پیوٹن یورپی امن دستوں کو قبول کریں گے۔ دوسری جانب فرانسیسی صدر نے کہا کہ ہمارا مقصد یوکرین میں دیرپا امن قائم کرنا ہے، یوکرین کو سلامتی کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔ فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ امن مشن میں یورپی فوجیوں کو شامل کر سکتے ہیں، یورپی افواج فرنٹ لائن پر نہیں ہوں گی، یورپی افواج کی یوکرین میں موجودگی ضمانت کے طور پر ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے اس موقع پر مزید کہا کہ امریکہ نے یوکرین پر 350 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور یورپ نے بھی اس جنگ میں اپنی مدد کے لیے 100 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم بہت بڑی ہے اور اس کا مقصد یوکرین میں امن قائم کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ جنگ کبھی نہ ہوتی اگر وہ صدر ہوتے اور کہا کہ وہ اس جنگ کو انسانیت کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ جنگ صرف یوکرین اور روس تک محدود نہیں رہے گی اور اس کا اثر پورے یورپ اور دنیا پر پڑے گا۔

انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی وطن واپسی

چیمپئنز ٹرافی میں انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم خاموشی سے دبئی سے اسلام آباد پہنچ گئی۔ دبئی سے قومی ٹیم کا جہاز پہلے لاہور پہنچا ، جہاں چیئرمین پی سی بی سید محسن رضا نقوی اور بورڈ کے عہدیدار اور دیگر چند لوگ اترے، پھر اس جہاز نے دوبارہ اڑان بھری اور اس بار اس کی منزل اسلام آباد تھی، جہاں قومی کرکٹ ٹیم اتری۔ جہاز کے اس سفر میں غیر معمولی خاموشی تھی، کھلاڑی آپس میں بات چیت نہیں کر رہے تھے۔انڈیا کے خلاف دبئی میں اتوار کو یکطرفہ شکست کے بعد سب کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے، سر جھکے ہوئے تھے۔ چیئرمین پی سی بی سید محسن رضا نقوی جو اس سے قبل کراچی سے دبئی خصوصی طیارے میں سفر کر کے دبئی ٹیم کے ہمراہ پہنچے تھے، اس سفر میں خاصی گہماگہمی تھی، قہقہے اور شور تھا، تاہم اس بار گہری خاموشی تھی۔ چیئرمین نے دبئی میں کھلاڑیوں کو عشائیے پر بھی مدعو کیا تھا۔ وہ انڈیا میچ سے ایک رات پہلے اسٹیڈیم کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے پہنچے بھی تھے۔ البتہ واپسی پر شکست کے بعد جیسے سب کچھ بدل چکا تھا۔ نہ رویوں میں وہ گرمجوشی تھی، نہ چہرے پر وہ مسکراہٹ تھی۔ واضح رہے کہ چیمپئنز ٹرافی میں پہلے نیوزی لینڈ اور پھر انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد میزبان اور دفاعی چیمپئن پاکستان ایونٹ سے باہر ہوگیا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو اپنا آخری گروپ میچ 27 فروری کو بنگلادیش کے خلاف  راولپنڈی میں کھیلنا ہے۔گروپ اے سے انڈیا اور نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا ہے۔