ہار گئے تو پوری ٹیم تبدیل کر کے انڈر 19 ٹیم کو نہیں لا سکتے، ہیڈکوچ عاقب جاوید

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈکوچ عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ” کچھ ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو گیم کو بدل دیتے ہیں۔ سلیکشن کمیٹی کا کام ہے کہ بہترین پرفارمنس والے کھلاڑی شامل کرے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈکوچ عاقب جاوید نے راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بعض پلیئرز میچ  کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ بابر اعظم کے علاوہ ہمارے پاس کیا آپشن ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہار گئے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ پوری ٹیم تبدیل کر کے انڈر 19 ٹیم کو لے آئیں۔ صائم ایوب کے انجرڈ ہونے پر خوشدل شاہ کو لانا پڑا۔ خوشدل شاہ نے بہترین پرفارمنس دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہارنے کے بعد کون اطمینان کر سکتا ہے۔ ٹیم توقعات کے مطابق نہ کھیلے تو سب سے زیادہ دکھ کھلاڑیوں کو ہوتاہے۔ بھارت کے خلاف 280یا 300 رنز بناتے تواچھا تھا۔          

غزہ جنگ بندی معاہدے میں رکاوٹ ختم: اسرائیل قیدیوں کو آج رہا کرے گا

دوسری جانب عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے منجمد غزہ جنگ بندی معاہدے پر دوبارہ عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل کی حراست میں فلسطینی قیدیوں کو آج رہا کیا جائے گا۔ پچھلےدنوں اسرائیل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ جس طرح سے یرغمالیوں کو کیمروں کے سائے تلے آزاد کیا جاتا ہے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس وجہ سے اسرائیل نے 602 قیدیوں کی رہائی موخر کر دی تھی اور جنگ بندی کا معاہدہ منجمد  کر دیا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات مصر مییں منعقد ہوں گے۔ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوفکا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں شریک ہونے کے لیے امریکی نمائندے مصر روانہ ہوگئے ہیں۔  

پاکستان اور ازبکستان کا چار سالوں میں دوطرفہ تجارت چار ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق، سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے، شہبازشریف

وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف دو روزہ دورے پر ازبکستان کے صدر شوکت مرزا یوف سے ملاقات کے لیے تاشقند پہنچے، جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس اجلاس میں دونوں ممالک کی تاجر برادری کے مؤثر کردار پر زور دیتے ہوئے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا عندیہ دیا گیا. ازبکستان میں پاک۔ازبک بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا کہ معاشی ترقی سے شہروں میں خوشحالی آتی ہے، دو عظیم ممالک کے تاجر اور سرمایہ کاروں کے عزم کا عکاسی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان، ازبکستان میں سرمایہ کاری کریں بلکہ باہمی مفادات کے لیے اپنے نظریات کا تبادلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کے تاجر اور سرمایہ کار تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے، شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ازبک صدر نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان اور ازبکستان کی بزنس کمیونٹی کی ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت نہیں ہے بلکہ باہمی مفادات کے شعہ جات میں ایک دوسرے کی سپورٹ کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بزنس کمیونٹی ازبکستان آئے اور ٹیکسٹائل وینچرز کی مینجمنٹ کرے، یہ بہترین موقع ہے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے، یہ دونوں ممالک کے بہتر ہوگا، اسی طرح لیدر، فارماسیوٹیکل انڈسٹری اور آلات جراحی کے شعبوں میں پاکستان کی کارکردگی شاندار ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم نے ویزہ پالیسی میں نرمی کے حوالے سے بھی بات کی، ازبکستان نے اسحٰق ڈار کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے لیے ویزے دستیاب ہوں گے، یہ تجارتی فروغ کے لیے بہترین سپورٹ ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ٹرانز افغان ریلوے پروجیکٹ پر بھی بات چیت ہوئی ہے، یہ 7 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے، جو خطے کی ترقی کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ قبل ازیں، ازبکستان کے صدر شوکت مرزا یوف نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی روابط بڑھانے کے بے پناہ مواقع ہیں۔ ازبک صدر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کی شراکت داری ہونے جا رہی ہے، یہ ایک تاریخی دورہ ہے، باہمی تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی، باہمی شراکت داری کے حوالے سے مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ازبک صدر شوکت مرزا یوف نے کہا کہ شراکت داری کے حوالے سے وسیع مواقع ہیں، اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ جوائنٹ وینچرز اور ازبک کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان میں نمایاں کارکردگی کا مشاہدہ کیا گیا ہے، وہ مہنگائی کی شرح کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اسی طرح شرح سود میں کمی بھی اچھی کامیابی ہے، اور پاکستان کے عوام ان تبدیلیوں پر خوش ہیں، اس حوالے سے میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ واضح رہے کہ اجلاس میں خطاب کرنے سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے پریس کانفرس کی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ” پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات کی تاریخ طویل ہے۔ بہترین میزبانی پر شکرگزار ہوں”۔ ان کا کہنا تھا کہ” دونوں ممالک کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں”۔ ازبک صدر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” خوش حال مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔  ہمیں درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا”۔ دونوں رہنماؤں کے مابین دوطرفہ ملاقات اور وفود کی سطح پر ملاقاتیں ہوں گی۔ بعد ازاں، وزیرِ اعظم اور ازبک صدر پاکستان اور ازبکستان مشترکہ بزنس فورم میں شرکت کریں گے اور گفتگو بھی کریں گے۔ وزیرِ اعظم تاشقند میں قائم ٹیکنو پارک کا دورہ بھی کریں گے جہاں وزیرِ اعظم کو ازبکستان کی مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات کے صنعتی یونٹس کا دورہ کروایا جائے گا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ازبکستان کے 2 روزہ دورے پر ہیں، اس سے قبل انہوں نے آذربائیجان کا دو روزہ دورہ کیا تھا، جہاں دونوں ملکوں کے مابین تجارت، دفاع، تعلیم، موسمیات کے حوالے سے متعدد معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں  پر دستخط کیے گئے تھے، دونوں ملکوں نے دو طرفہ تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک پہنچانے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ْ

کراچی میں کوڑے سے خزانہ بنانے والی جدید صنعت کیسے کام کرتی ہے؟

کراچی میں ایک ایسی صنعت تیار کی گئی ہے جس میں کوڑے سے کار آمد چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔ ٹی جی اے کے نام سے ایک کمپنی ضائع شدہ پلاسٹک سے ضروریاتِ زندگی کی اشیا بنا رہی ہیں۔ وہ ان اشیا سے اینٹیں، فرنیچر، کرسیاں، ٹرے اور گملے وغیرہ بنا رہے ہیں۔ کمپنی کے سی ای او حبیب صاحب کہتے ہیں کہ “ہمارے یہاں سمجھا جاتا ہے کہ ایسی اشیا سے جو چیزیں بنتی ہیں وہ اچھی کوالٹی کی نہیں ہوتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ” ہم تین سال سے یہ کام کر رہے ہیں اور اس سے ماحول کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے”۔

ٹرمپ کا نیا ایگزیکٹو آرڈر: امریکی صحت عامہ کا نظام بڑی تبدیلی کے دہانے پر

یہ اقدام مریضوں کو طبی خدمات کی اصل قیمتوں سے آگاہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ بہتر اور سستی سہولیات کا انتخاب کر سکیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے، جس کا مقصد امریکی صحت عامہ کے نظام میں قیمتوں کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔   یہ اقدام مریضوں کو طبی خدمات کی اصل قیمتوں سے آگاہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ بہتر اور سستی سہولیات کا انتخاب کر سکیں۔   صحت عامہ میں قیمتوں کی خفیہ پالیسی ختم کرنے کا فیصلہ ٹرمپ طویل عرصے سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ انشورنس کمپنیاں اور اسپتال مریضوں کو علاج معالجے کے اخراجات واضح طور پر بتائیں تاکہ قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔   امریکی صحت عامہ کا نظام اب تک نجی معاہدوں اور خفیہ مذاکرات کے ذریعے چلایا جا رہا تھا، جہاں اسپتال، ڈاکٹروں اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان طبی سہولیات کی قیمتوں کو پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔   نئی پالیسی کے فوائد اور ممکنہ اثرات ٹرمپ انتظامیہ کے سابق مشیر اینڈریو برمبرگ نے کہا کہ یہ ایگزیکٹو آرڈر امریکی عوام کے لیے ایک انقلابی قدم ہے، جو ٹرمپ کی صحت عامہ کی پالیسی کا اہم ستون ثابت ہوگا۔   تاہم، انشورنس کمپنیوں اور اسپتالوں کی تنظیموں نے اس اقدام پر اعتراض کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ پالیسی طبی اخراجات میں اضافے اور انشورنس کے پریمیم بڑھنے کا باعث بن سکتی ہے۔   نئے احکامات: اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے لیے سخت قوانین وائٹ ہاؤس کے مطابق، اس حکم کے تحت محکمہ خزانہ، محکمہ محنت اور محکمہ صحت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر اس قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اصل قیمتیں ظاہر کریں، نہ کہ صرف اندازے۔ طبی سہولیات کی قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے ایک نیا نظام بنایا جائے گا۔ قوانین پر عمل نہ کرنے والے اداروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ٹرمپ کی سابقہ پالیسی اور اس کی ناکامی ٹرمپ نے 2019 میں بھی اسی طرح کا ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، لیکن اس پر عملدرآمد کمزور رہا، اور 2022 میں صرف 14 فیصد اسپتال ہی اس قانون کی مکمل پاسداری کر رہے تھے۔   اس وقت حکومت نے خلاف ورزی پر روزانہ 300 ڈالر کا جرمانہ مقرر کیا تھا، لیکن یہ اقدام اسپتالوں کو قانون کی پابندی پر مجبور کرنے میں ناکام رہا۔   ماہرین کا ردعمل پیٹینٹ رائٹس ایڈووکیٹ ڈاٹ آرگ کی بانی سنتھیا فشر نے کہا کہ یہ قانون امریکی صحت عامہ کے نظام میں انقلابی تبدیلی لائے گا۔ ان کے مطابق، اگر مریضوں کو قیمتوں کی صحیح معلومات ملیں تو وہ مہنگی سہولیات کی جگہ سستی اور معیاری سہولیات کا انتخاب کر سکیں گے۔   انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا، “اگر کوئی ایم آر آئی 3,000 ڈالر میں کروا رہا ہے جبکہ وہی معیار 300 ڈالر میں دستیاب ہو، تو مریض بہتر انتخاب کر سکیں گے۔ اسی طرح، 12,000 ڈالر کی کولونواسکوپی کی جگہ وہ 1,000 ڈالر کی معیاری سروس کو چُن سکتے ہیں۔”   ٹرمپ کا یہ فیصلہ صحت عامہ کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی عملی طور پر کیسے نافذ ہو گی، اس کا انحصار مستقبل میں ہونے والے اقدامات اور انشورنس کمپنیوں کے ردعمل پر ہوگا۔

مصنوعی ذہانت کا استعمال: ہانگ کانگ کا دس ہزار ملازمتیں ختم کرنے کا عندیہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات وقتی طور پر حکومت کے مالی مسائل حل کر سکتے ہیں، مگر ہزاروں افراد کی بے روزگاری معیشت پر نئے دباؤ کا سبب بن سکتی ہے۔

حکومت نے بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے 10,000 سرکاری ملازمتیں ختم کرنے اور مصنوعی ذہانت کے فروغ کا اعلان کر دیا۔   یہ اقدام عالمی معاشی غیر یقینی صورتحال، جغرافیائی کشیدگی اور کمزور جائیداد مارکیٹ کے باعث مالی دباؤ کم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔   ہانگ کانگ کے فنانشل سیکریٹری پال چن نے سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ حکومتی اخراجات میں کمی اور مالی استحکام کی بحالی کے لیے ایک واضح حکمت عملی فراہم کرتا ہے۔   مصنوعی ذہانت کا فروغ: مستقبل کی معیشت کی بنیاد پال چن نے اپنے خطاب میں مصنوعی ذہانت  اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہانگ کانگ کو جدید ڈیجیٹل معیشت کی طرف لے جانے کے لیے یہ اقدام انتہائی ضروری ہے۔   ان کے مطابق حکومت  پر مبنی منصوبوں، خودکار سسٹمز اور ڈیجیٹل اصلاحات میں سرمایہ کاری کرے گی تاکہ معاشی ترقی کو تیز کیا جا سکے اور مالی خسارے کو کم کیا جا سکے۔   مالی بحران کی وجوہات اور ممکنہ اثرات ہانگ کانگ کو گزشتہ چند سالوں سے عالمی کساد بازاری، چین کے ساتھ تجارتی تعلقات میں غیر یقینی کی صورتحال اور رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے حکومتی آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔   اس بحران کے باعث حکومت کو ٹیکس اصلاحات، بجٹ میں سخت اقدامات اور سرکاری اخراجات میں کمی جیسے اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔   عوامی ردعمل ہانگ کانگ میں سرکاری ملازمتوں کے خاتمے پر ملازمین کی یونینز اور عوامی حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات وقتی طور پر حکومت کے مالی مسائل حل کر سکتے ہیں، مگر ہزاروں افراد کی بے روزگاری معیشت پر نئے دباؤ کا سبب بن سکتی ہے۔   حکومت کا مؤقف ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی مواقع پیدا کیے جائیں گے اور ایک مضبوط اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی جائے گی۔ تاہم، یہ اقدامات کتنے مؤثر ثابت ہوں گے، اس کا انحصار آئندہ چند سالوں کی پالیسیوں اور عالمی اقتصادی حالات پر ہوگا۔

پیدا ہوتے ہی ہر انسان کو کون سے 30 بنیادی حقوق مل جاتے ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں جب آپ پیدا ہوتے ہیں تو اسی وقت آپ کو 30 حقوق مل جاتے ہیں۔ پوری دنیا کے انسانوں کو 30 بنیادی حقوق اقوامِ متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ اعلامیے کی وجہ سے ملتے ہیں۔ یہ حقوق کیسے بنے اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔مختلف تہذیبوں ، بادشاہوں، سلطنتوں اور مذاہب نے اپنے طور پر انسان کو سمجھا اور اس کی ضروریات کو دیکھتے ہوئےکچھ اصول ترتیب دیے۔ اقوامِ متحدہ نے 10 دسمبر 1948 کو حقوق کا عالمی اعلامیہ جاری کیا ۔   ایک لمبا سفر طے کر کے آج یہ 30 بنیادی حقوق کے شکل میں موجود ہیں جس کے لیے پوری دنیا کی این جی اوز اور حکومتیں کام کرتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ حقوق کون کون سے ہیں : تمام انسان آزاد اور برابر پیدا ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہر فرد کو مساوی حقوق اور عزت حاصل ہے۔ کسی بھی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہر انسان کو زندگی جینے، تحفظ حاصل کرنے  اور آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا، اور جبری مشقت ممنوع ہے۔  کسی پر ظلم، تشدد، یا غیر انسانی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ تمام افراد قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ ہر شخص کو قانون کا مساوی تحفظ حاصل ہے۔ کسی کو بلا جواز گرفتار یا جلاوطن نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شخص کو آزاد اور غیر جانبدار عدالت میں مقدمہ لڑنے کا حق حاصل ہے۔ کسی کی نجی زندگی میں بلاجواز مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ ہر فرد کو اپنی مرضی سے کسی ملک میں جانے اور واپس آنے کا حق حاصل ہے۔ ظلم و ستم سے بچنے کے لیے کسی بھی ملک میں پناہ لینے کا حق حاصل ہے۔   ہر فرد کو کسی نہ کسی ملک کی شہریت کا حق حاصل ہے۔ بالغ مرد و عورت کو اپنی مرضی سے شادی کرنے اور خاندان بنانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو جائیداد رکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو پرامن طریقے سے جمع ہونے اور تنظیم بنانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو حکومتی معاملات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو صحت، روزگار، اور فلاحی سہولیات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو روزگار کا حق حاصل ہے اور اسے منصفانہ تنخواہ دی جانی چاہیے۔ ہر فرد کو معقول اوقات کار میں آرام کرنے کا  اور چھٹی کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو خوراک، لباس، صحت، اور رہائش کی بنیادی سہولیات میسر ہونی چاہئیں۔ ہر انسان کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، اور ابتدائی تعلیم مفت ہونی چاہیے۔ ہر شخص کو ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت اور سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو اپنے ادبی، سائنسی اور فنی تخلیقات کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو ایسا سماج اور نظام ملنا چاہیے جو انصاف اور مساوات کو فروغ دے۔ کسی کو بھی ان حقوق کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہر شخص پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔ کسی بھی حکومت یا ادارے کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ان حقوق کو ختم یا محدود کرے۔ یہ تمام حقوق دنیا کے ہر انسان کے لیے مساوی طور پر لاگو ہوتے ہیں اور ان کا تحفظ ضروری ہے تاکہ ایک منصفانہ اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ نے اس حقوق کی تمہید میں کہا ہے کہ یہ تمام حقوق آپس میں برابر ہیں۔ کوئی بھی حق دوسرے حق سے زیادہ اہم نہیں بلکہ تمام حقوق مساوی ہیں۔

اسرائیل کا دمشق کے جنوبی علاقوں پر فضائی حملہ، دو افراد جاں بحق ہوگئے

دوسری جانب، حماس  نے اسرائیلی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انہیں شامی خودمختاری پر کھلی جارحیت قرار دیا۔

اسرائیلی فوج نے شام کے دارالحکومت دمشق کے جنوبی علاقوں میں فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں کم از کم دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ حملے میں فوجی تنصیبات اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔   اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بیان میں دعویٰ کیا کہ شام کے جنوبی حصے میں عسکری تنصیبات اور فورسز کی موجودگی اسرائیل کے لیے خطرہ ہے، اسی لیے یہ حملے کیے گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا اور کسی بھی خطرے کو بروقت ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔   دوسری جانب، حماس  نے اسرائیلی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انہیں شامی خودمختاری پر کھلی جارحیت قرار دیا۔   فلسطینی گروپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ حملے عرب اقوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے تسلسل کا حصہ ہیں، اور اس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔   یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب خطے میں پہلے ہی کشیدگی عروج پر ہے، اور شام کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔   مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، اور کسی بھی وقت خطے میں بڑے پیمانے پر تصادم ہو سکتا ہے۔

’مسلم لیگ ن ہمیں نظرانداز کررہی ہے‘ پیپلزپارٹی اراکین اسمبلی زرداری کے آگے پھٹ پڑے

لاہور کے گورنر ہاؤس میں صدر مملکت آصف علی زرداری سے پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اراکین نے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی کی قیادت میں ملاقات کی۔ ملاقات میں پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود اور گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان بھی شریک تھے۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی وفد نے صدر مملکت کے سامنے گلے شکوے کیے۔ وفد کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) انتظامی معاملات میں پیپلز پارٹی کے اراکین کو نظر انداز کر رہی ہے اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں بھی انہیں ترجیح نہیں دی جا رہی۔ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے اپنے حلقوں کے مسائل سے بھی صدر مملکت کو آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق، آصف علی زرداری نے اراکین اسمبلی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اتحادی حکومت کے ساتھ چلنا پارٹی کی مجبوری ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تحریری معاہدے کے نکات پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا، تاہم انہوں نے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی وفد کو آئندہ بجٹ تک صبر کرنے اور معاملات حل ہونے کا انتظار کرنے کی تلقین کی۔ صدر مملکت نے مرحلہ وار پارلیمانی وفد اور تنظیمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے مسائل سن کر ضروری ہدایات بھی جاری کیں۔

وائٹ ہاؤس نے ایمی گلیسن کو ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی پروگرام کی قائم مقام ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا

حکومتی ماہرین کے مطابق، ان کے کندھوں پر بڑے چیلنجز ہوں گے، خاص طور پر جب اس منصوبے پر پہلے ہی تنازعات اور شکوک و شبہات کا سایہ ہے۔

کئی ہفتوں تک سوالات سے گریز کرنے کے بعد، وائٹ ہاؤس نے بالآخر منگل کے روز ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کی قائم مقام ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ایمی گلیسن کا نام ظاہر کر دیا۔   ایمی گلیسن ایک ہیلتھ کیئر ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ رہی ہیں اور ماضی میں مختلف اصلاحاتی پراجیکٹس میں کام کر چکی ہیں، لیکن حکومتی امور میں ان کا تجربہ محدود رہا ہے۔   ٹرمپ انتظامیہ کو مسلسل اس حوالے سے دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے اصل انچارج کا اعلان کرے۔ خاص طور پر جب ایک عدالتی دستاویز میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ایلون مسک، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس منصوبے کا سربراہ قرار دیا تھا، درحقیقت کسی بھی سرکاری اختیار کے حامل نہیں ہیں۔   صحافیوں اور ناقدین نے بارہا سوال اٹھایا کہ اگر مسک اس پروگرام کے نگران نہیں ہیں، تو پھر حقیقی سربراہ کون ہے؟   بالآخر، وائٹ ہاؤس نے یہ وضاحت دی کہ ایمی گلیسن اس وقت قائم مقام ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا وہ مستقل بنیادوں پر اس عہدے پر فائز ہوں گی یا نہیں۔   یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ سرکاری اداروں میں اخراجات میں کمی اور بیوروکریٹک اصلاحات کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے، جن میں DOGE پروگرام کو ایک اہم سنگ میل سمجھا جا رہا ہے۔   ابھی تک ایمی گلیسن کی ترجیحات اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں، لیکن حکومتی ماہرین کے مطابق، ان کے کندھوں پر بڑے چیلنجز ہوں گے، خاص طور پر جب اس منصوبے پر پہلے ہی تنازعات اور شکوک و شبہات کا سایہ ہے۔