تھائی لینڈ میں غیر معیاری سڑکیں 18 افراد کو ابدی نیند سُلا گئیں

تھائی لینڈ میں بس حادثے میں اٹھارہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ پولیس نے بدھ کے روز بتایا کہ تھائی لینڈ کے صوبے پراچنبوری میں سیاحتی بس کے کنٹرول کھو کر کھائی میں گرنے سے اٹھارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ کرنل سوفون فرامانیہ نے کہا کہ “یہ ایک نشیبی سڑک تھی اور بریکیں فیل ہو گئیں جس کی وجہ سے ڈرائیور نے گاڑی کے الٹنے سے پہلے ہی گاڑی کا کنٹرول کھو دیا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ” مرنے والے بالغ افراد تھے جو سیاحتی دورے پر تھے”۔ سوشل میڈیا کی پوسٹس میں دکھائی گئی تصاویرسے معلوم ہوا کہ بس میں پہلے سے کچھ خرابی تھی۔ سوشل میڈیا پوسٹس نے جائے وقوعہ پر امدادی اور طبی کارکنوں کو دکھایا، جو دارالحکومت بنکاک سے 155 کلومیٹر (96 میل) مشرق میں، الٹنے والی بس کے قریب متاثرین کی مدد کررہے تھے۔ تھائی وزیر اعظم پیٹونگٹرن شیناواترا نے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ خاص طور پر بس کی حفاظت کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ایپلیکیشن ایکس پر لکھا کہ “اگر یہ پایا جاتا ہے کہ ایسی گاڑیوں کے استعمال کی خلاف ورزی کی گئی ہے جو معیار پر پورا نہیں اترتی ہیں یا گاڑیوں کے لاپرواہی سے استعمال میں ملوث ہیں تو قانونی کارروائی کی جائے گی”۔ انہوں نے کہا، “گاڑیوں کا معائنہ محفوظ ہونا چاہیے اور انہیں استعمال میں لانے سے پہلے مخصوص معیارات کو پاس کرنا چاہیے تاکہ حادثات کو روکا جا سکے اور دوبارہ اس طرح کے نقصانات کو کم کیا جا سکے”۔ تھائی لینڈ میں گاڑیوں کے حفاظتی معیارات کے کمزور نفاذ اور سڑکوں کی خراب دیکھ بھال کی وجہ سے سڑک حادثات اور اموات عام ہیں۔ اس کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، جنوب مشرقی ایشیائی ملک سڑک ٹریفک سے ہونے والی اموات کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 175 رکن ممالک میں نویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ سال ایک اسکول بس میں گیس سلنڈر لیک ہونے کے باعث آگ لگ گئی تھی جس میں 16 طالب علموں سمیت 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
آئی پی پیز سے معاہدوں میں زبردستی کا الزام بے بنیاد ہے، حکومت کا دوٹوک مؤقف

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی محمد علی نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے خط میں لگائے گئے آزاد توانائی پیدا کرنے والے اداروں آئی پی پیز کے ساتھ زبردستی معاہدے کروانے کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب آٹھ بین الاقوامی ترقیاتی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستانی حکومت کو ایک خط لکھا گیا، جس میں حکومت کے بجلی کی لاگت کم کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے نئے معاہدوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تحفظات بین الاقوامی مالیاتی اداروں، جن میں ورلڈ بینک کا انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن ، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور یورپ کے چار بڑے مالیاتی ادارے شامل ہیں، نے حکومت پاکستان کو متنبہ کیا کہ “آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے زبردستی یا غیرمشاورتی انداز میں تبدیل کرنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوگا، جو پاکستان میں مستقبل کی نجی سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔” حکومت کی وضاحت اور ردعمل محمد علی نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اداروں کو غلط معلومات دی گئی ہیں اور حقیقت میں حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ مکمل طور پر مشاورتی اور خوشگوار انداز میں مذاکرات کیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ: “یہ مذاکرات مکمل طور پر سول قیادت میں ہوئے اور ان کا ماحول دوستانہ اور خوشگوار تھا۔ معاہدے کی شرائط میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ تمام فریقین کے حق میں ہیں اور اس سے توانائی کے شعبے کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔” ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو اب بھی معقول منافع حاصل ہوگا، البتہ کچھ کمپنیوں کو واپسی پر معمولی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن وہ اب بھی کافی حد تک منافع بخش کاروبار جاری رکھ سکیں گے۔ حکومت کے اصلاحاتی اقدامات اور بڑی کامیابیاں محمد علی نے بتایا کہ حکومت نے اب تک آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں تقریباً 1.571 کھرب روپے کی بچت کی ہے، جو مستقبل میں بجلی کے بلوں میں کمی لانے اور گردشی قرضے کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ، حکومت نے ایک آئی پی پی کے خلاف فارنزک آڈٹ کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ اس کے معاہدے میں کوئی غیر قانونی یا غیر منصفانہ شقیں شامل تو نہیں تھیں۔ بجلی کے شعبے میں حالیہ حکومتی اقدامات حکومت پاکستان نے بجلی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحاتی اقدامات کیے ہیں، جن کا مقصد گردشی قرضے میں کمی، بجلی کے نرخوں میں استحکام، اور مستقبل میں سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ پانچ پرانی آئی پی پیز کے معاہدے وقت سے پہلے ختم کر دیے گئے، جس سے 411 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ 14 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی گئی، جس سے 1.4 کھرب روپے کی بچت متوقع ہے۔ بگاس (گنے کے چھلکوں) پر چلنے والی 8 آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کیے گئے، جن کے ذریعے 240 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ گیس پر چلنے والے نجی بجلی گھروں کو گیس کی سپلائی معطل کر دی گئی تاکہ مقامی صنعتوں کو سستی گیس فراہم کی جا سکے۔ بجلی کی خرید و فروخت کے مسابقتی نظام (Competitive Trading Bilateral Contract Markets) کو تیزی سے لاگو کیا جا رہا ہے تاکہ بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومتی حکمت عملی حکومت نے بجلی کے شعبے میں ان اصلاحات کا مقصد ملک میں بڑھتے ہوئے گردشی قرضے (Circular Debt) کو روکنا اور صارفین پر پڑنے والے اضافی مالی بوجھ کو کم کرنا قرار دیا ہے۔ محمد علی نے مزید کہا کہ بجلی کے معاہدوں کی نظرثانی اور دیگر اقدامات سے حکومت کو اربوں روپے کی بچت ہوگی، جو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کیے جا سکیں گے۔ حکومت نے عالمی سرمایہ کاروں کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بدستور محفوظ اور پائیدار رہیں گے اور حکومت بجلی کے شعبے میں مزید نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی رہے گی۔ “ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کو سستی بجلی فراہم کی جائے اور گردشی قرضے کے بوجھ کو کم کیا جائے۔ ہم تمام سرمایہ کاروں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں پاکستان میں مزید مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔”
’ڈالرز دیں شہریت لیں‘ ٹرمپ نے غیرملکیوں کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کردیا

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے EB-5 ویزہ پروگرام ختم کر کے اس کی جگہ 5 ملین ڈالر مالیت کا “گولڈ کارڈ” متعارف کرانے کا عندیہ دیا ہے، جو امریکی شہریت کے حصول کا نیا راستہ ہوگا۔ ٹرمپ نے منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “ہم ایک گولڈ کارڈ فروخت کرنے جا رہے ہیں، جس کی قیمت تقریباً 5 ملین ڈالر ہوگی۔ یہ گرین کارڈ جیسے فوائد فراہم کرے گا اور امریکی شہریت کے حصول کا موقع بھی دے گا۔” EB-5 پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ امریکی حکومت کے مطابق EB-5 ویزہ پروگرام، جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو امریکا میں ملازمتیں پیدا کرنے کے بدلے مستقل رہائش فراہم کرتا تھا، بدعنوانی اور دھوکہ دہی کا شکار تھا۔ اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ نے اسے ختم کر کے “ٹرمپ گولڈ کارڈ” لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ روسی ارب پتی بھی اہل ایک صحافی کے سوال پر کہ آیا روسی ارب پتی بھی “گولڈ کارڈ” کے اہل ہوں گے، ٹرمپ نے جواب دیا: “ہاں، ممکن ہے۔ میں کچھ روسی ارب پتیوں کو جانتا ہوں جو بہت اچھے لوگ ہیں۔” کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹ نک کے مطابق، “پرانا EB-5 ویزہ پروگرام جعلی وعدوں اور دھوکہ دہی سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے برعکس، نیا گولڈ کارڈ پروگرام شفاف اور زیادہ قیمتی ہوگا۔” ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کی مکمل تفصیلات دو ہفتوں میں جاری کی جائیں گی۔
یوکرین جنگ بندی کے بدلے امریکا سے معدنیات کے معاہدے کرنے کو تیار

امریکہ اور یوکرین نے معدنیات کے معاہدے کی شرائط پر اتفاق کیا ہے جو کیف کی طرف سے واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ جنگ کو تیزی سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاہدے سے واقف ایک ذرائع نے کہا کہ “اس میں امریکی سلامتی کی ضمانت یا ہتھیاروں کی مسلسل ترسیل کی وضاحت نہیں کی گئی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ امریکہ یوکرین کو آزاد، خودمختار اور محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ معاہدے سے واقف ذرائع میں سے ایک نے بتایا کہ” مستقبل میں ہتھیاروں کی ترسیل پر واشنگٹن اور کیف کے درمیان ابھی بھی بات چیت جاری ہے”۔ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ “یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی جمعہ کو واشنگٹن آنا چاہتے ہیں تاکہ بڑے معاہدے پر دستخط کریں”۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب دونوں رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے سخت الفاظ کا تبادلہ کیا۔ امریکی صدرنے کیف کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد کی واپسی کے طور پر یہ معاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر تنازع کے خاتمے کے لیے کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یوکرین میں امن فوج کی ضرورت ہے۔ ماسکو، جس نے تین سال قبل یوکرین پر حملہ شروع کیا تھا، نیٹو افواج کی کسی بھی تعیناتی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کچھ یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ یوکرین میں امن فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ ماسکو ایسے امن فوجیوں کو قبول کرے گا، لیکن کریملن نے منگل کو اس کی تردید کی۔ یوکرین میں روس کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے ٹرمپ کی جلدی اور ماسکو کی طرف اس کے جھکاؤ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو امریکی رعایتوں کے اندیشوں کو جنم دیا ہے جو یوکرین اور یورپ میں سلامتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور جغرافیائی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے زیلنسکی کو ایک غیر مقبول “ڈکٹیٹر” کہا تھا جسے فوری امن معاہدے کو ختم کرنے یا اپنا ملک کھونے کی ضرورت تھی۔ یوکرینی رہنما نے کہا کہ امریکی صدر “غلط معلومات کے بلبلے” میں رہ رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ دونوں اطراف کے عہدیداروں نے معاہدے پر اتفاق کیا ہے اور اس پر دستخط کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
ہمیں نسل کشی کا لفظ استعمال کرنے سے معذرت نہیں کرنی چاہیے، فیصل داؤ جی

اسلام آباد میں “ایکو آف فلسطین” کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مقامی اور عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس جماعت اسلامی کی جانب سے کرائی گئی جس میں امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں جنوبی افریقا سے آئے ہوئے فیصل داؤ جی نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں زبان کی طاقت اور استعمال کیے گئے الفاظ کے بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ متعدد تنظیموں جیسا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اپنے ادارے اور آئی سی جے جیسی نے غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے نسل کشی قرار دیا ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “اس میں کوئی شک نہیں۔ یاد رکھیں، نسل کشی راتوں رات نہیں ہوتی۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک منظم، منصوبہ بند، فلسطینی عوام کا خاتمہ ہے۔ یہ گزشتہ 80 سالوں سے جاری ہے۔ صرف اب وہ صدمے کا شکار ہیں اور یا کچھ مغربی دانشوروں اور تنظیموں کے درمیان جو فلسطینی عوام کا اس وحشیانہ اور بے مثال قتل عام کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں نسل کشی کا لفظ استعمال کرنے سے معذرت نہیں کرنی چاہیے”۔
لاہور میں سرخ کے بعد بسوں کا ’سبزانقلاب‘ پنجاب حکومت چاہتی کیا ہے؟

آرام دہ ماحول، خواتین کو ہراسانی کا خوف نہ دھکم پیل کا ڈر، معذور افراد کے لیے خصوصی پروٹوکول سے مزین بسوں کا لاہورمیں آغاز کردیا گیا، یہ بسیں کوئی عام بسیں نہیں بلکہ یہ بجلی پر چلنے والی ’گرین بسیں‘ ہیں جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند روز قبل کیا ہے۔ یہ بسیں گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے چلتی ہوئی مختلف سٹاپس پر رکتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچتی ہیں اور پھر وہاں سے واپس گرین ٹاؤن ڈپو سٹیشن جاتی ہیں۔ الیکٹرک بس کے آپریشن مینیجر محمد عثمان کے مطابق ’یہ بس مکمل طور پر الیکٹرک ہے۔ اس میں سفر کرنے کے لیے مسافر کو ایک کارڈ کی ضرورت پڑے گی جسے وہ بس کے دونوں داخلی و خارجی راستوں پر لگے ویلی ڈیٹرز پر سکین کریں گے۔‘ فی الحال اس بس کا کرایہ 20 روپے ہے اور ایک روٹ پر یہ چلتی نظر آئے گی،لاہور شہر میں چلنے والی ان بسوں کا گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے لاہور ریلوے سٹیشن تک کا یک طرفہ روٹ 27 کلومیٹر ہے۔ اس بس کی خاص بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے بس میں چڑھنے کے لیے ریمپ کے علاوہ بس کے اندر بزرگ اور معذور افراد کے لیے دو نشستیں بھی مختص کی گئیں ہیں جنہیں بیٹھنے کے لیے کھولنا پڑتا ہے۔ ان سیٹوں کے ساتھ ہی وہیل چیئر یا بے بی کارٹ کو کھڑا کرنے کے لیے ایک بیلٹ بھی لگی ہے جس کٓے ساتھ آپ بے بی کارٹ یا وہیل چیئر باندھ سکتے ہیں تاکہ وہ چلتی بس میں ساکت رہ سکیں۔ بس میں خواتین کے لیے نارنجی رنگ کی مخصوص نشستیں تھیں جبکہ مردوں کے لیے مختص نشستوں کا رنگ ہرا تھا۔ بس میں 80 لوگوں کے سوار ہونے کی جگہ ہے جبکہ بس کی نشستیں صرف 30 ہیں۔ یہ بسیں حکومت کی نئی پالیسی کے تحت چلائی جارہی ہیں جس کو ماحول دوست پالیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان حکومت نے نئی پانچ سالہ الیکٹرک وہیکلز پالیسی 2025-30 کا مسودہ تمام شراکت داروں کی مشاورت سے تیار کر لیا ہے، ای وی پالیسی میں سرمایہ داروں کے لئے پرکشش مراعات کو مدِنظر رکھا گیا ہے، پاکستان میں 2025ء تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں چلانے جبکہ 2030ء تک 100 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کے چلائے جانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 2019ء میں بھی حکومتِ پاکستان نے الیکٹرک گاڑیوں کے اپنانے کو فروغ دینے کے لئے ایک پالیسی متعارف کرائی تھی، جسے ای وی پالیسی کا نام دیا گیا تھا، پالیسی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کرنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پنجاب حکومت سموگ اورمہنگے ایندھن سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ اقدامات کررہی ہے، سب سے پہلے یہ کام لاہور سے شروع کیا گیا ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے مقامی الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کی ٹیکنالوجیز تیار کرنے پر کام شروع کردیا ہے، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی نے الیکٹرک گاڑی کا پروٹو ٹائپ تیار کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بلکہ کمی ہے تو فقط وسائل کی۔ پاکستان میں اس وقت انتہائی کم تعداد میں الیکٹرک گاڑیاں موجود ہیں، آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ کرنے کےلئے اقدامات کی جارہی ہیں، پاکستان میں ہونری وی نام کی ایک لوکل چھوٹی الیکٹرک گاڑی موجود ہے جس کی قیمت 40 سے 50 لاکھ کے درمیان ہے، اس کے علاوہ آیڈی ای ٹرون بھی پاکستان میں پائی جاتی ہے جس کی موجودہ قیمت لگ بھگ 8 کروڑ ہے، بہت سی چھوٹی گاڑیاں اور رکشے بھی موجود ہیں۔ صرف الیکٹرک بسوں اور گاڑیوں کو ہی نہیں بڑھایا جارہا بلکہ اب تو الیکٹرک بائیکس بھی سڑکوں پردوڑتی نظرآتی ہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز(لمز) میں ای وہیکلز پراجیکٹ کے ڈائریکٹرعمرآفاق کا کہنا ہے کہ ای بائیکس کی آفادیت کے بارے میں جہاں آگاہی پھیلانے کی بے حد ضرورت ہے وہیں ان بائیکس کی پائیداری سے متعلق لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ای بائیکس کی خریداری میں اضافہ تب ہو گا جب حکومت ان کی خریداری اور رجسٹریشن پر مراعات دینے کی پالیسی اپنائے گی۔ ماحول کا صاف رکھنا یا پھر توانائی کو بچانا ہے تو ای ویز کا استعمال ضروری ہے، ای ویز سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی اور ساتھ ساتھ پیسہ بھی بچے گا۔ لاہور میں بجلی پر چلنے والی بائیکس کا کاروبارکرنے والے تاجرسمیع طارق اعوان کہتے ہیں کہ ای ویز لانا حکومت کا بہت اچھا اقدام ہے، ای ویز سے سموگ میں کمی آئے گی، ماحول صاف ہوگا، لوگوں کے اخراجات بچیں گے، الیکٹرک بائیک استعمال کرنے سے ماہانہ بیس ہزار روپے بچائے جاسکتے ہیں۔ حکومت کس حد تک تیار ہے؟ تاجر کہتے ہیں کہ حکومت پنجاب نوجوانوں کو سستی بائیکس اور آسان اقساط پر فراہم کررہی ہے، بڑے شہروں میں بڑی گاڑیاں بھی چلائی جارہی ہیں۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں ’میٹروبس‘ شروع کی پھراس بس کوسرخ بسوں سے لنک کیا گیا جو شہریوں کو بہترین سروس فراہم کررہی تھی۔ اب سرخ بسوں کا سفر ہری بسوں کی جانب بڑھ چکا ہے، شہری اسے’سبزانقلاب‘ سے جوڑ رہے ہیں ۔
پاکستان میں نیشنل کرپٹو کونسل کے قیام کا اعلان، ڈیجیٹل اثاثوں کے لیے جدید فریم ورک کی تیاری

پاکستان کے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نیشنل کرپٹو کونسل کے قیام پر سنجیدگی سے غور کرے گی، جس کا مقصد ڈیجیٹل اثاثوں کی پالیسی سازی اور ضابطہ سازی میں معاونت فراہم کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے ایک اہم اجلاس وزیر خزانہ کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں امریکی صدر کے مشیران نے بھی شرکت کی، اور کرپٹو کرنسی کے عالمی رجحانات، ضوابط اور معیشت پر اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اجلاس میں کہا کہ حکومت کا مقصد ڈیجیٹل اثاثوں کے لیے عالمی معیار کے مطابق مؤثر، شفاف فریم ورک تیار کرنا ہے، جو مالیاتی شعبے میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے۔ انہوں نے فیٹف گائیڈلائنز کے مطابق ڈیجیٹل اثاثوں کے ضابطوں کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ نیشنل کرپٹو کونسل حکومتی اداروں، ریگولیٹری اتھارٹیز اور انڈسٹری ماہرین پر مشتمل ہوگی۔ کونسل کا مقصد نہ صرف ضوابط کی تشکیل بلکہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں شمولیت کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل اثاثوں میں سرمایہ کاری اور جدیدیت کے لیے متوازن حکمت عملی اپنانے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ یہ اقدام پاکستان کے لیے ڈیجیٹل معیشت کی طرف ایک بڑا قدم ثابت ہو سکتا ہے، جو ملک کو عالمی سطح پر کرپٹو کرنسی اور بلاک چین کے میدان میں ایک نمایاں مقام دے سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: سندھ میں تعلیمی انقلاب کا آغاز: وزیراعلیٰ سندھ کا طلبا کو مفت لیپ ٹاپ دینے کا اعلان