چیمپیئنز ٹرافی میں قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی کی وجہ کیا تھی؟ سابق کپتان نے بتا دیا

معین خان نے کہا ہے کہ جب ٹی 20 ورلڈ کپ ہارے تھے تو چیئرمین پی سی بی سمیت سب نے سرجری کی بات کی تھی، مگر کچھ نہیں کیا گیا۔ ٹیم میں سینئرز کو خیرباد کہنا ہوگا، قومی ٹیم کو نئے خون کی ضرورت ہے۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کپتان معین خان کا کہنا تھا کہ محنت کیے بغیر جیت حاصل نہیں کی جا سکتی، جو ٹیم محنت کر کے آتی ہے وہی جیتتی ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی میں ہوئی بدترین شکست پر بات کرتے ہوئے سابق کپتان نے کہا کہ شکست کی بہت سی وجوہات ہیں، بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیم کی سلیکشن درست انداز میں نہیں ہوئی اور جن پلیئرز کو موقع ملا، وہ توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ معین خان نے کہا کہ جب ٹی 20 ورلڈ کپ ہارے تھے تو چیئرمین پی سی بی سمیت سب نے سرجری کی بات کی تھی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اس وقت بھی سرجری نہیں ہوئی، ہمیں مشکل فیصلے لینے پڑیں گے۔ اس وقت میرٹ کا فقدان ہے، تعلقات پر کرکٹ ہورہی ہے۔ پی سی بی میں کرکٹرز کی جگہ نان ٹیکنیکل لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، جب محنت اور سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے تو مشکلات سامنے آئیں گی۔ تجربہ کار لوگوں کو پی سی بی میں ہونا چاہیے، من پسند اور مرضی کے لوگوں کو لانے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ سابق کپتان نے کہا کہ وزیراعظم کو کرکٹ میں ریفارم پر توجہ دینی ہوگی۔ پی ایس ایل میں کارکردگی کی بنیاد پر ون ڈے ٹیم بنا لی جاتی ہے، بی پی ایل میں کارکردگی بنیاد پر قومی ٹیم میں کھلاڑی شامل کر لیا جاتا ہے۔ اب کرکٹ میں نئے خون کو موقع ملنا چاہیے،ریجن کی سطح پر کرکٹ کو تقویت دینا ہوگی۔ معین خان نے کہا کہ پاکستان ٹیم کو مضبوط بنانے کے لیے تلخ فیصلے کرنا ہوں گے، میرٹ پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ میں بدقسمتی سے فیصلے پہلے ہو جاتے ہیں،پی سی بی میں ملازمت پہلے دے دی جاتی ہے اور اشتہار بعد میں آتا ہے۔ پی سی بی کا چیئرمین بھی ناظم نامزد ہوتا ہے ۔ گورننگ بورڈ نامزد چیئرمین کو ہی منتخب کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: کوہلی کی شاندار سنچری، انڈیا نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی سٹار بلےباز بابر اعظم کے حوالے سے سابق کپتان کا کہنا تھا کہ بابر اچھا کھلاڑی ہے، مگر اسے خود کو تبدیل کرنا ہوگا، بابر کو اپنی سوچ اور رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ویراٹ کوہلی کی طرح خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ معین خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں اب سینئرز کو خیرباد کہنا ہوگا، قومی ٹیم کو نئے خون کی ضرورت ہے۔ چیئر مین پی سی بھی معاملات کا نوٹس لیں، پی سی بی سے بڑی بڑی تنخواہ لینے والے اس کے خلاف ہی باتیں کررہے ہیں۔
تھائی لینڈ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 48 مسلمانوں کو چین کے حوالے کر دیا

تھائی لینڈ نے چین کے ‘سینکیانگ’ علاقے میں اُغور اقلیتی مسلمانوں کے 48 افراد کو واپس بھیج دیا ہے حالانکہ انسانی حقوق کے ادارے اور سرگرم کارکنان اس عمل کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد چین واپس جا کر اذیت، بدسلوکی اور “ناقابل تلافی نقصان” کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس قدم کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی جا رہی ہے، کیونکہ اقوام متحدہ نے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ تھائی لینڈ کی وزارت دفاع کے وزیر ‘پھمتھم ویچایچائی’ نے جمعرات کے روز تصدیق کی کہ اُغوروں کو چین کے سینکیانگ علاقے واپس بھیجا گیا ہے۔ انہوں نے خبرارساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ چین نے یقین دہانی کرائی تھی کہ جو اُغور واپس بھیجے گئے ہیں انہیں وہاں محفوظ رکھا جائے گا۔ تاہم، انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے اس بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ جمعرات کی صبح ‘بانکوک’ کے امیگریشن سینٹر سے چند ٹرکوں کی تصاویر سامنے آئیں جن کی کھڑکیاں سیاہ ٹیپ سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ رپورٹس کے مطابق ان ٹرکوں میں اُغوروں کو لے جایا جا رہا تھا۔ اسی دن کچھ ہی گھنٹوں بعد چین سدرن ایئر لائنز کی ایک غیر منصوبہ بندی پرواز نے بانکوک کے ڈان میوانگ ایئرپورٹ سے اُڑان بھری اور چھ گھنٹے بعد چین کے شہر کاشغر میں لینڈ کی۔ یہ طیارہ اُغوروں کو چین کے سینکیانگ علاقے واپس لے آیا تھا۔ یہ تمام واقعات اس وقت پیش آ رہے ہیں جب چین پر کئی سالوں سے اقلیتی اُغور مسلمانوں کے ساتھ جابرانہ سلوک اور وسیع پیمانے پر قید و بند کے الزامات ہیں۔ چین کے مغربی علاقے سینکیانگ میں تقریبا 10 ملین اُغور آباد ہیں اور ان کی مذہبی، ثقافتی آزادی کو دبانے کی پالیسیوں پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ حقوق گروپوں کا دعویٰ ہے کہ سینکیانگ میں اُغوروں کو نہ صرف بڑی تعداد میں قید کیا گیا ہے، بلکہ انہیں بدترین اذیتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سوڈان میں جنگ اور قحط کے بڑھتے ہوئے خطرات: اقوام متحدہ کا انتباہ یاد رہے کہ ان 48 اُغوروں کا تعلق 2014 میں چین سے فرار ہونے والے 300 افراد کے گروپ سے تھا۔ کچھ افراد کو چین واپس بھیجا گیا، جبکہ دوسروں کو ترکی بھیج دیا گیا تھا اور باقی تھائی لینڈ میں زیر حراست تھے۔ ان افراد میں سے کم از کم دو افراد حراست میں دوران موت کا شکار ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (UNHCR) نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ “یہ ایک واضح خلاف ورزی ہے جو بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اُڑاتی ہے اور تھائی حکومت کے اپنے انسانی حقوق کے وعدوں کی پامالی ہے۔” یو این ایچ سی آر کے تحفظ کے معاون ہائی کمشنر رووندری نی می نکیڈیویلا نے ایک بیان میں کہا، “یہ ایک سنگین عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔” چین کی وزارتِ خارجہ نے اپنی جانب سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 40 چینی “غیر قانونی تارکین وطن” کو تھائی لینڈ سے “بین الاقوامی قانون” کے مطابق واپس بھیجا گیا ہے۔ چین کا کہنا تھا کہ ان افراد کو “جرم کرنے والے گروپوں” سے بچانے کے لیے واپس بھیجا گیا تھا، جو تھائی لینڈ میں پھنسے ہوئے تھے۔ چین کی سرکاری خبر ایجنسی ‘ژنہوا’ نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ 40 افراد “مجرم تنظیموں کے اثر میں آ گئے تھے” اور ان کے اہل خانہ نے بار بار چین سے مدد کی درخواست کی تھی تاکہ ان کی واپسی ممکن ہو سکے۔ تھائی لینڈ کی وزیراعظم ‘پیتونگتارن شیناواترا’ نے اس معاملے پر پہلے کسی بھی تبصرے سے گریز کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ “ایسی صورتحال میں ہر ملک کو قانون، بین الاقوامی عمل اور انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔” تھائی لینڈ میں ایک انسانی حقوق کی تنظیم کراس کلچرل فاؤنڈیشن نے اس کارروائی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے مطالبہ کرے گی کہ اُغوروں کی حراست اور ان کے قانونی حیثیت پر فوری تحقیقات کی جائیں۔ چین اور تھائی لینڈ کے تعلقات اس معاملے کے بعد نئے تنازعات میں اُلجھ سکتے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے کی مزید تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جسے عالمی برادری کی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اس میں نہ صرف اُغور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ بلکہ عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی پاسداری بھی شامل ہے۔ مزید پڑھیں: بنگلا دیش میں انقلابی طلباء کا سیاسی طوفان، نئی پارٹی کا اعلان کردیا
لوگوں کو تھانے لایا ہوں کہ کہیں سی ٹی ڈی والے لاپتہ نہ کر دیں، اختر مینگل

سردار اختر مینگل نے کہا کہ خدشہ ہے کہ کل سی ٹی ڈی والے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ نہ کر دیں، لاپتہ ہونے سے بہتر ہے کہ ان کی گرفتاری ہو اس لیے ان کو تھانے لے آیا ہوں۔ نجی نشریاتی ادارے 24 نیوز کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل بڑی تعداد میں لوگوں کی گرفتاری پیش کرنے کے لئے وڈھ پولیس تھانہ پہنچ گئے، تاہم پولیس نے حراست میں لینے سے انکار کردیا۔ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وڈھ میں پولیس نے میرے بیٹے سمیت 11سو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ایف آئی آرز وڈھ بازار میں دوکانداروں کی جانب سے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کی غیر قانونی گرفتاری کو روکنے کے خلاف کاٹی گئی ہیں،تحفظ میں ناکامی پر لوگوں نے مجبوراً اپنے اور اپنے املاک کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی رکھ دی تھی۔ سربراہ بی این پی نے کہا ہے کہ انتظامیہ اور پولیس نہ تحفظ دے سکتی ہیں اور نہ تاجروں کو اپنے سیکیورٹی کے انتظام کرنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔ لوگوں نے جب پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کو گرفتار نہیں ہونے دیا، تو پولیس نے 11سو افراد کے خلاف مقدمات درج کر دیے۔ ایف آئی آرز میں ایسے لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں، جن کو پولیس والے جانتے تک نہیں، ایف آئی آر میں10 سال کے ایک بچے کو بھی نامزد کیا گیا۔ مزید پڑھیں: پولیس میں خود احتسابی: کرپشن میں ملوث ایس ایچ او کے خلاف کارروائی،گرفتار ان کا کہنا تھا کہ پہلے کہا گیا کہ ایف آئی آرز کو واپس لیں گے لیکن کبھی وزیر اعلیٰ کی عدم موجودگی اور کبھی کسی اور بہانے سے ایف آئی آرز واپس نہیں لیے گئے ۔ ایف آئی آرز میں لوگوں کے خلاف دہشتگردی کے دفعات لگائے گئے ہیں۔ اختر مینگل نے مزید کہاکہ خدشہ ہے کل سی ٹی ڈی والے ان کو اٹھا کر لاپتہ نہ کردیں۔ لاپتہ ہونے سے بہتر ہے کہ ان کی گرفتاری ہو اس لیے ان لوگوں کو تھانے لے آیا ہوں۔ فارم 47کی حکومت کی طرح فارم 47کی انتظامیہ بھی آئی ہے، میرا نام ایف آئی آر میں نہیں ہے لیکن کسی کے ایما پر ہمارے لوگوں کو ایف آئی آرز میں نامزد کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 2ہفتے قبل وڈھ میں پولیس کی جانب سے سردار اختر مینگل کے بیٹے سمیت 11سو افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ایف آئی آر میں انجمن تاجران کے عہدیداروں کو بھی نامزد کیا گیا تھا، سردار اختر مینگل ان لوگوں کی گرفتاری دلانے کے لیے خود تھانے پہنچ گئے۔
پانامہ میں پناہ گزینوں کی حالت زار: غیر قانونی گرفتاری اور بے یار و مددگار صورتحال

دنیا بھر سے آئے ہوئے پناہ گزین جو حالیہ ہفتوں میں امریکا سے واپس اپنے وطن بھیجے گئے تھے ان کی تقدیر اب پانامہ کے ایک دور دراز جنگلاتی کیمپ میں لاوارث اور بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہے۔ پانامہ میں مقیم ان 112 افراد کی حالت زار پر انسانی حقوق کے گروپ شدید تشویش کا شکار ہیں کیونکہ انہیں نہ صرف قانونی مدد سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی انتہائی غیر واضح ہے۔ پناہ گزینوں کے وکلاء کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کلائنٹس سے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ہے۔ ان افراد کو ‘سان ونسنٹے امیگریشن سینٹر’ میں رکھا گیا ہے جو پانامہ کے جنگلات میں گہری جگہ پر واقع ہے اور جو کولمبیا کی سرحد کے قریب ہے۔ پانامہ کے حکام کے مطابق یہ افراد وہ ہیں جنہیں امریکا نے ڈیپورٹ کیا ہے لیکن ان کا قانونی مستقبل اب تک غیر یقینی ہے کیونکہ انہیں یہاں پناہ کے لیے کوئی تشخیص نہیں دی گئی اور نہ ہی انہیں پانامہ کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ لی گیلرنٹ، جو امریکن ‘سول لبرٹیز یونین’ (اے سی ایل یو) کے وکیل ہیں، انہوں نے کہا کہ “یہ افراد، جن میں ہمارے کلائنٹس جیسے خاندان بھی شامل ہیں، پانامہ بھیجے جا رہے ہیں بغیر کسی پناہ گزینی کے عمل کے، حالانکہ ان کا پانامہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور یہاں پہنچتے ہی وہ ایک سیاہ خانہ میں غائب ہو جاتے ہیں، جہاں ان تک قانونی معاونت تک رسائی نہیں ہے۔” یہ بھی پڑھیں: بنگلا دیش میں انقلابی طلباء کا سیاسی طوفان، نئی پارٹی کا اعلان کردیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 20 کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے تحت مکسیکو سرحد پر پناہ گزینی کے عمل پر سخت پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ یہ پناہ گزین وہ افراد ہیں جنہیں امریکہ سے ڈیپورٹ کیا گیا ہے اور جنہیں پانامہ بھیجا گیا ہے تاکہ ان کا استرداد مزید پیچیدہ نہ ہو۔ یہ منصوبہ خاص طور پر ان ممالک کے شہریوں کے لیے بنایا گیا ہے جنہوں نے امریکی ‘ڈیپورٹیشن فلائٹس’ کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، چین، بھارت، ایران، نیپال، پاکستان، سری لنکا، ترکی، ازبکستان اور ویتنام شامل ہیں۔ ان افراد کو پانامہ میں رکھا گیا ہے تاکہ ان کی ملک بدری کی کارروائیاں آگے بڑھائی جا سکیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے اس ڈیپورٹیشن معاہدے پر شدید اعتراض کیا ہے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ افراد اپنے ممالک واپس جا کر خطرات کا سامنا کر سکتے ہیں۔ عالمی تنظیمیں اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ ان افراد کو پانامہ میں قانونی مدد سے محروم رکھا جا رہا ہے اور ان کی حفاظت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ کینیڈیائی وکیل کیرن زوک نے کہا کہ وہ ترکی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اور ان کی بیٹی کی حفاظت کے حوالے سے “انتہائی تشویش” کا شکار ہیں۔ دونوں کو امریکا سے پانامہ کے ذریعے ترکی واپس بھیجا گیا ہے۔ ان کی شکایت میں کہا گیا ہے کہ یہ خاتون اور ان کی بیٹی پناہ لینے کے لیے امریکہ آئیں، لیکن انہیں وہاں سے ڈیپورٹ کر دیا گیا۔ ضرور پڑھیں: سوڈان میں جنگ اور قحط کے بڑھتے ہوئے خطرات: اقوام متحدہ کا انتباہ پانامہ کے صدر ‘جوس مولینو’ نے اس بارے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وہ اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے اور نہ ہی وہ پناہ گزینوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ پناہ گزینوں کو قانونی مشورہ کیوں نہیں دیا جا رہا، تو ان کا جواب یہ تھا کہ “کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ پانامہ میں ان کے پاس وکیل ہیں؟” پانامہ کے حکام نے اس معاملے پر مزید وضاحت دینے سے گریز کیا ہے اور نہ ہی انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے بارے میں کوئی جواب دیا گیا ہے۔ پانامہ کے وکیل ‘سوسانا سبالزا’ نے بتایا کہ وہ ایک ہفتے سے پانامہ کی حکومت سے اپنے کلائنٹس تک رسائی کی درخواست کر رہی ہیں لیکن انہیں جواب نہیں ملا۔ وہ کہتی ہیں کہ “یہ معمول کی بات نہیں ہے کہ ہم نے پانامہ میں کبھی ایسا نہیں دیکھا۔ میں اپنے کلائنٹس سے بات کرنے کا حق رکھتی ہوں۔” پانامہ کے حکام کی جانب سے نہ صرف وکلاء کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلکہ کئی پناہ گزینوں کے موبائل فونز بھی چھینے جا چکے ہیں۔ اس سب کے باوجود بعض افراد نے ریڈ کراس سے مدد طلب کی اور انہیں اپنے خاندان سے رابطہ کرنے کا موقع ملا۔ ان حالات میں پانامہ کے حکام کے مطابق 112 پناہ گزینوں میں سے 113 افراد اپنے ملک واپس جا چکے ہیں، 16 افراد جمعرات کو روانہ ہو رہے ہیں اور 58 افراد اپنے وطن روانہ ہونے کے لیے ٹکٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال عالمی سطح پر امریکی حکام کی پناہ گزینوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی عکاسی کرتی ہے جو دنیا بھر میں بے شمار سوالات اٹھا رہی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ اور قانونی ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان افراد کو انصاف اور قانونی تحفظ فراہم کیا جائے، تاکہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ مزید پڑھیں: رامافوسا کی ٹرمپ کے ساتھ معاہدے کی کوشش، جنوبی افریقہ کے عالمی تنازعات پر حل کی تگ و دو
کراچی سمیت صوبے بھر میں 13 مختلف جعلی ادویات فروخت کی جا رہی ہیں، سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا انکشاف

سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں 13 مختلف جعلی ادویات مارکیٹ میں کمپنیوں کے ناموں سے فروخت کی جارہی ہیں۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے ڈائریکٹر عدنان رضوی نے بتایا ہےکہ گزشتہ 2 ماہ کے دوران مختلف ادویات کے 300 سے زائد سمپل ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں، جس میں 13 مختلف ادویات کے سمپل جعلی پائے گئے ہیں، یہ جعلی ادویات اصل کمپنیوں کے ناموں سے مارکیٹ میں فروخت کی جارہی تھیں۔ واضح رہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ جو جعلی ادویات مختلف کمپنیوں کے نام سے مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہیں ان کمپنیوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ عدنان رضوی نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ مارکیٹ میں 7 فارما کمپینوں کے نام سے جعلی ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو کراچی سمیت اندرون سندھ میں جعلی ادویات کی سینکڑوں شکایت موصول ہوئی تھی، جس ڈرگ انسپکٹروں نے ڈرگ ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے مختلف ادویات کے سپمل حاصل کیے، ان ادویات میں جسم میں درد، مرگی اور ہڈی و پٹھوں کے درد میں استعمال کی جانے والی آئیوڈیکس کے نمونے جب لیبارٹری میں ٹیسٹ کیے تو انکشاف ہوا کہ ان ادویات میں وہ اجزاء شامل نہیں جو درد میں استعمال کی جاتی ہے۔ مزید پڑھیں: ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں! ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے متعلقہ ڈرگ انسپکٹروں کو ہدایت کی کہ ادویات پر درج کمپنیوں کے پتوں پر رابطہ کیا جائے، ڈرگ انسپکٹروں کی کاروائی پر انکشاف ہوا کہ یہ کمپنیاں وہاں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب جب آئیوڈیکس بنانے والی کمپنی سےرابطہ کیا گیا تو کمپنی کے حکام نے بتایا کہ آئیوڈیکس کی مینوفیکچرنگ 2017 کے بعد سے بند ہے، آئیوڈیکس پر مینیوفیکچرنگ کی تاریخ 2024 درج تھی۔ اسی طرح دیگر 13 مختلف ادویات پر درج بیج نمبر، لائنس نمبر اور کمینی کی پتے بھی غلط تھے، جس کے بعد سندھ کے تمام ڈرگ انسپکٹروں کو جعلی ادویات کے خلاف کریک ڈاون کی ہدایت کردی۔ عدنان رضوی نے کہا کہ سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی جانب سے تمام ڈرگ انسپکٹروں کو جعلی ادویات کے خلاف الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی ادویات کی سخت مانیٹرنگ کی جائے۔
چیمپئنز ٹرافی کے بعد کبڈی ورلڈکپ، پاکستان کتنا تیار ہے؟

انگلستان کبڈی ورلڈ کپ 2025 کی میزبانی کے لیے تیار ہے اور یہ ایونٹ پہلی بار ایشیا سے باہر منعقد کیا جا رہا ہے، جہاں مردوں کے مقابلے کے لیے 16 ٹیموں کو چار گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، جب کہ خواتین کے مقابلے کے لیے ٹیموں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مردوں اور خواتین کے کبڈی ورلڈ کپ 2025 کی میزبانی انگلستان کو دی گئی ہے۔ ہفتے تک جاری رہنے والا یہ ٹورنامنٹ ویسٹ مڈلینڈز کے علاقے میں مارچ میں کھیلا جائے گا۔ ایشیا سے باہر پہلی بار منعقد ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان، بھارت اور میزبان انگلستان سمیت سولہ ٹیمیں حصہ لیں گی۔ میچز 17 سے 23 مارچ تک برمنگھم، والسال، کوونٹری اور ولور ہیمپٹن کے چار مقامات پر کھیلے جائیں گے۔ مردوں اور خواتین کے مقابلوں میں ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یورپ سے کبڈی کھیلنے والے ممالک حصہ لیں گے۔ ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 60 سے زائد میچز کھیلے جائیں گے۔ مردوں کے مقابلے میں پاکستان کبڈی ٹیم کو تائیوان، اٹلی اور کینیا کے ساتھ ‘گروپ ڈی’میں رکھا گیا ہے۔ میزبان انگلینڈ ‘گروپ اے’ میں ملائیشیا، پولینڈ اور کیمرون کے ساتھ ہے۔ سری لنکا، ہانگ کانگ، اسکاٹ لینڈ اور مصر کو گروپ بی میں رکھا گیا ہے، جب کہ سابق عالمی چیمپئن بھارت کو ‘گروپ سی’ میں چین، امریکا اور تنزانیہ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ مزید پڑھیں: گلی کوچوں سے عالمی کپ تک، انوکھے نام والا دلچسپ کھیل ‘کھو کھو’ دنیا بھر میں مشہور خواتین کے مقابلے کے لیے انگلینڈ، ہانگ کانگ، پولینڈ اور تنزانیہ “گروپ اے” میں ہیں، جب کہ انڈیا، مصر، اسکاٹ لینڈ اور کینیا “گروپ بی” میں ہیں۔ واضح رہے کہ ٹورنامنٹ کا آغاز 17 مارچ کو میزبان انگلینڈ کی ٹیم کیمرون سے ہوگا۔ اس سے قبل ایک مختصر افتتاحی تقریب بھی منعقد ہوگی۔ قومی ٹیم ٹورنامنٹ کا پہلا میچ 18 مارچ کو کینیا کے خلاف کھیلے گی۔ 19 مارچ کو ٹیمیں گروپ مرحلے کے دوسرے راؤنڈ کے لیے کوونٹری جائیں گی، جہاں کوونٹری ایرینا میں پاکستان کا مقابلہ اٹلی سے ہوگا۔ اگلے دن برمنگھم کا ‘نیچلز ویل بیئنگ سینٹر’ مردوں کے مقابلے میں گروپ مرحلے کے بقیہ میچوں کے لیے ٹیموں کی میزبانی کرے گا۔ 21 مارچ کو خواتین کے گروپ مرحلے کے باقی میچز یونیورسٹی آف وولور ہیمپٹن، والسال کیمپس میں کھیلے جائیں گے، جس کے بعد مردوں کے کوارٹر فائنلز ہوں گے۔ اس کے بعد ٹورنامنٹ دوبارہ وولور ہیمپٹن جائے گا، جہاں مردوں اور خواتین کے سیمی فائنلز 22 مارچ کو ہونے والے ہیں۔ تیسری پوزیشن کے لیے میچز کے ساتھ ساتھ مردوں اور خواتین کی ٹیموں کے فائنل بھی 23 مارچ کو وولور ہیمپٹن میں کھیلے جائیں گے۔ سٹی آف ولور ہیمپٹن کونسل اور ورلڈ کبڈی کی مشترکہ بولی کے بعد کبڈی ورلڈ کپ 2025 کو یو کے حکومت کے کامن ویلتھ گیمز کے لیگیسی اینہانسمنٹ فنڈ سے500,000 پاؤنڈ کی فنڈنگ موصول ہوئی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: بد ترین کارکردگی ،کیا پاکستان سے کرکٹ ختم ہوگئی؟ یہ فنڈنگ اس بات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ کہ کامن ویلتھ گیمز کی مثبت اور پائیدار میراث پورے خطے کو فائدہ پہنچاتی رہے، کھیل اور ثقافت تک رسائی بڑھانے میں بھی مدد دےگی، جس سے ویسٹ مڈلینڈز خطے کی بڑے ایونٹس کے لیے عالمی سطح کے میزبان کے طور پر شہرت بڑھے گی۔
کراچی میں مصطفیٰ عامر کا قتل: پولیس کی تفتیش اور ملزمان کے نیٹ ورک کی تلاش

کراچی کے معروف علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (DHA) میں 6 جنوری کو مصطفیٰ عامر کا قتل ایک لرزہ خیز واقعہ بن چکا ہے جس نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ پولیس نے اس قتل کی تفتیش میں پیش رفت کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی ہے تاکہ ملزمان کے ساتھ ان کے نیٹ ورک کی بھی کھوج لگائی جا سکے۔ مصطفیٰ عامر کو اس کے دوستوں نے اغوا کے بعد قتل کر دیا تھا اور ان کی لاش کو کراچی سے باہر بلوچستان کے حب علاقے میں جلا کر چھپانے کی کوشش کی تھی۔ پولیس کے مطابق قتل کے بعد ملزمان نے مصطفیٰ کی لاش کو اس کی گاڑی کے ٹرنک میں ڈالا اور پھر اسے آگ لگا دی۔ تاہم، بلوچستان پولیس نے جلی ہوئی گاڑی سے اس کی لاش برآمد کی اور اسے غیر شناخت شدہ نعشوں کے لیے مختص دفن کرنے والے ایدھی فاؤنڈیشن کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ لیکن جب لاش کی شناخت کے لیے تحقیقات کی گئیں تو کراچی یونیورسٹی کے لیب نے ڈی این اے کی تصدیق کی اور یہ ثابت ہو گیا کہ مقتول مصطفیٰ عامر ہی تھے۔ اس خبر نے پورے شہر میں ہلچل مچا دی اور پولیس کی تفتیشی ٹیم نے اپنی کارروائی تیز کر دی۔ کراچی پولیس کے چیف ‘عالم اودھو’ نے 23 فروری کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم کی تشکیل کی منظوری دی گئی۔ اس ٹیم کی سربراہی کراچی کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (CIA) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (DIG) مقادس حیدر کو دی گئی ہے۔ اس ٹیم میں سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (SSP) سید عرفان علی بہادر (کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ)، ایس ایس پی انٹی وائلنٹ کرائم سیل انیل حیدر، ایس ایس پی کورنگی قیس خان، ایس ایس پی کیماڑی ازہر جاوید اور ایس ایس پی ایسٹ علینہ راجپر شامل ہیں۔ یہ ٹیم اس قتل کے کیس کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کرے گی اور ملزمان کے نیٹ ورک، ان کی کرمنل سرگرمیوں اور منشیات کے کاروبار کے آپریٹرز کی شناخت کرے گی۔ یہ بھی پڑھیں: پی ٹی اے کی بڑی کارروائی: ساہیوال میں غیر قانونی سمز کے خلاف ریڈ، 2 افراد گرفتار پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کو بھی گرفتار کریں گے جنہوں نے اس قتل یا اغوا کے عمل میں کسی نہ کسی طرح معاونت فراہم کی ہو۔ اس دوران پولیس نے ایک اور ملزم ارمغان کو بھی گرفتار کیا تھا جو مصطفیٰ عامر کے اغوا کیس کے حوالے سے پولیس کی گرفتاری سے بچنے کے لیے مزاحمت کر رہا تھا۔ اسی طرح ایک اور مشتبہ ملزم، ارمغان کا دوست، شیرزاد عرف شہباز بخاری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق ملزمان نے مصطفیٰ کے اغوا کے دوران ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا تھا اور اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلانے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس کیس کو نیا رخ دیتے ہوئے اس میں ملوث تمام افراد کو بے نقاب کرنے کی ٹھانی ہے۔ کراچی کے پولیس حکام نے اس کیس کی تفتیش میں مزید پیش رفت کے لیے 3 مارچ تک رپورٹ طلب کی ہے۔ یہ کیس اس وقت کراچی کی سیاست اور پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے، اور اب سب کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ ملزمان کا نیٹ ورک کس حد تک پھیل چکا ہے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں پولیس کتنی کامیاب ہوتی ہے۔ کراچی کی اس ہولناک واردات نے ایک طرف شہر میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے، تو دوسری طرف پولیس کی تفتیش اور کارروائی کی رفتار پر بھی عوام کی نظریں ہیں۔ یہ کیس اب ایک اہم سیاسی اور سماجی مسئلہ بن چکا ہے جس کے حل کے لیے پولیس کی کارکردگی اور اس کیس کی تحقیقات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ مزید پڑھیں: اپوزیشن گرینڈ الائنس نے پیکا سمیت تمام غیر آئینی ترامیم ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا
بنگلا دیش میں انقلابی طلباء کا سیاسی طوفان، نئی پارٹی کا اعلان کردیا

بنگلا دیش کے طلباء، جنہوں نے پچھلے سال حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا تھا، انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے جو 2025 یا 2026 کے متوقع انتخابات سے قبل سیاسی جنگ کے نئے مورچے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ان طلباء کا نیا گروپ “گانترنترک چھاترا سنگساد” یعنی “ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس کونسل” کے نام سے تشکیل پایا ہے۔ اس گروپ میں وہ مرکزی قائدین شامل ہیں جنہوں نے “اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکرمنیشن” (SAD) نامی طاقتور تحریک کی قیادت کی تھی جس نے اگست میں شیخ حسینہ کی آہنی حکومت کو گرا دیا تھا۔ یہ انقلابی طلبا گروپ بنگلا دیش کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے جس نے اقتدار کے جبر کے خلاف عوامی تحریک کو ایک نئی توانائی فراہم کی۔ ان طلباء کی قیادت میں ہونے والے انقلاب نے حسینہ کی حکومت کو ختم کر دیا تھا اور اب وہ ایک نئی سیاسی پارٹی کے ساتھ میدان میں آ گئے ہیں تاکہ مستقبل کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر سکیں۔ تاہم، جیسے ہی اس نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا گیا مختلف گروپوں کے درمیان اختلافات نے سر اٹھا لیا، جس کے نتیجے میں شدید جسمانی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ لازمی پڑھیں: شام بشار الاسد کے دور میں ہزاروں افراد کی اذیت و قتل پر رپورٹ شائع ہوگئی گانترنترک چھاترا سنگساد کا دعویٰ ہے کہ اس میں شامل افراد نے ملک کی سیاست میں انقلابی تبدیلی کے لئے جو جدوجہد کی ہے وہ طلباء کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے۔ گروپ کے رہنما زاہد احسن نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے یقین دہانی کی ہے کہ کوئی بھی ایسا فرد اس تحریک میں شامل نہیں جو انقلاب کے دوران قتل و غارت یا تشدد میں ملوث رہا ہو۔ ہمارا مقصد طلباء کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور ہم اپنے انقلاب کی روح کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔” مگر اس گروپ کے قیام کے بعد سٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکرمنیشن کے اندر موجود مختلف دھڑوں میں سخت اختلافات سامنے آئے ہیں اور اس کے نتیجے میں باہمی جھگڑے اور جسمانی تصادم بھی ہوئے۔ اسی دوران SAD کے دیگر رہنما جو ماضی میں عبوری حکومت میں شامل تھے اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے الگ سیاسی پارٹی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ گانترنترک چھاترا سنگساد میں کچھ طلباء وہ بھی ہیں جو پہلے شیخ حسینہ کی جماعت “آوامی لیگ” کے یوتھ ونگ سے منسلک تھے مگر ان کا کہنا ہے کہ ان طلباء کی شمولیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان کے ہاتھ خون سے رنگے نہیں ہیں۔ ایک طرف تو یہ انقلابی جماعتیں ہیں، دوسری طرف بی این پی کی قیادت نے انتخابات کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: رامافوسا کی ٹرمپ کے ساتھ معاہدے کی کوشش، جنوبی افریقہ کے عالمی تنازعات پر حل کی تگ و دو سابق وزیراعظم اور بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا نے اپنے ایک براہِ راست خطاب میں انتخابات کے لئے فوری اور کم سے کم اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “عوام ایک ایسا انتخابات چاہتے ہیں جو سب کے لئے قابل قبول ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں تاکہ جمہوریت کو بحال کیا جا سکے۔” خالدہ ضیا کی یہ باتیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ بی این پی اگلے انتخابات کے لئے تیار ہو چکی ہے۔ خالدہ ضیا نے مزید کہا کہ “ہمارے کارکنوں اور طلباء کی جدوجہد نے فاشسٹ حکومت کو شکست دے دی ہے اور اب ہمیں ملک میں جمہوریت کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے متحد ہو کر کام کرنا ہے۔” ان کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی این پی کی قیادت اقتدار میں واپس آنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہی ہے اور انہیں یقین ہے کہ عوامی حمایت ان کے ساتھ ہے۔ ادھر حسینہ کی حکومت کی شکست کے بعد وہ خود بھارت میں جلاوطنی اختیار کر چکی ہیں اور ان کے خلاف مختلف الزامات عائد ہیں جن میں انسانیت کے خلاف جرائم شامل ہیں۔ ان کے خلاف عدالت کی طرف سے گرفتاری کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں، بنگلا دیش کا سیاسی منظرنامہ بہت پیچیدہ اور بے یقینی کی حالت میں داخل ہو چکا ہے۔ بنگلا دیش کے موجودہ سیاسی ماحول میں طلباء کی طاقت اور ان کی فعال سیاست ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ جمہوریت، انقلاب اور طاقت کے درمیان ایک پیچیدہ کھیل بن چکا ہے، جس میں طلباء اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے میدان میں ہیں، اور دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے سخت محنت کر رہی ہیں۔ اگرچہ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت کی مکمل کامیابی کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ بنگلا دیش کا آئندہ سیاسی منظر نامہ شدید کشمکش کا شکار ہے اور اس میں طلباء کا کردار اہم ہوگا۔ مزید پڑھیں: سوڈان میں جنگ اور قحط کے بڑھتے ہوئے خطرات: اقوام متحدہ کا انتباہ
ترسیلات زر میں 25.2 فیصد اضافہ، یہ کیسے ممکن ہوا؟

وزارت خزانہ کی طرف سے ماہانہ اقتصادی آؤٹ لک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران ترسیلات زر، برآمدات اور درآمدات میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جولائی سے جنوری تک ترسیلات زر میں 25.2 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ برآمدات میں 9.7 فیصد اور درآمدات میں 16.8 فیصد اضافہ ہوا۔ نجی نشریاتی ادارہ ایکسپریس نیوز کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے جبکہ روپیہ مستحکم رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی میں پہلے چھ ماہ میں 26.2 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس ریونیو میں 82 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی مدت کے دوران مالیاتی خسارہ 36.1 فیصد کم ہوا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سات ماہ کے دوران افراط زر کی شرح 28.7 فیصد سے کم ہوکر 6.5 فیصد ہوگئی، جبکہ جنوری میں 63 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک گے۔ مزید برآں، پاکستان کے آئی ٹی برآمد کنندگان آئندہ چند سالوں میں قطر کو آئی ٹی اور آئی ٹی سے چلنے والی خدمات کی برآمدات کو 25 ملین ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی وزارت ، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ساتھ مل کر، آئی ٹی برآمد کنندگان جدید مصنوعات اور خدمات کے ساتھ روایتی اور ابھرتی ہوئی دونوں مارکیٹوں میں جارحانہ اسٹریٹجک توسیعی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس اقدام کے ایک حصے کے طور پر، 30 سے زائد مندوبین کے ساتھ 10 آئی ٹی کمپنیوں کا ایک وفد ویب سمٹ قطر 2025 میں شرکت کر رہا ہے، جو دنیا کی معروف ٹیکنالوجی کانفرنسوں میں سے ایک ہے۔ وفد ایک وقف پاکستان پویلین میں پاکستان کے متحرک آئی ٹی اور ٹیک انوویشن لینڈ سکیپ کی نمائش کر رہا ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین عمیر نظام نے کہا کہ آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی وزارت ، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تعاون سے پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی پیش رفت کی وجہ سے قطر کی اہم مارکیٹ اب پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کے لیے بامعنی انداز میں کھل رہی ہے۔
اپوزیشن گرینڈ الائنس نے پیکا سمیت تمام غیر آئینی ترامیم ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا

اسلام آباد میں اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قومی یکجہتی تنظیم کے دوسرے روز کا اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے وجودکی کوئی سیاسی اور قانونی اخلاق کی حمایت نہیں ہے اور پیکا حکمران آئین کی روح کی طرف سے متصادم تمام ترامیم ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ نجی خبررساں ادارے ڈان کے مطابق اپوزیشن گرینڈ الائنس نے آج قومی کانفرنس کرنے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اسلام آباد کے نجی ہوٹل پہنچے۔ اس موقع پر ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی اور جب سابق وزیرِاعظم ہوٹل پہنچے تو انھیں ہوٹل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو انتظامیہ کی جانب سے آج کانفرنس کی اجازت نہیں دی گئی، اپوزیشن جماعتوں کے رہنما نجی ہوٹل میں زبردستی کانفرنس کے لیے گھس گئے۔ تھانہ سیکرٹریٹ کی پولیس نے ہوٹل کے مینجر سے وقوعہ سے متعلق بیان ریکارڈ کر لیا، ہوٹل مینجر نے کہا کہ یہ تمام افراد ہماری اجازت کے بغیر ہوٹل کی حدود میں داخل ہوئے ہیں، تمام سیاسی رہنما ہوٹل میں داخل ہو کر ہال پر قابض ہو گئے ہیں۔ پولیس وقوعہ سے بیان ریکارڈ کرنے کے بعد رپورٹ لے کر روانہ ہوگئی، جب کہ اپوزیشن گرینڈ الائنس کی قیادت پر مقدمہ درج ہونے کا امکان ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا محسن نقوی اور شہباز شریف کو جس نے مشورہ دیا کہ ہمیں کانفرنس نہ کرنے دی جائے، 23 مارچ کو ڈفر ایوارڈ دیا جائے، اس وقت ملک ترقی نہیں کررہا ہے۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ یہ انسٹال 47 کی رجیم ہے جس کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے، 60 صفحات پر اشتہارات چھاپنے سے ملک میں ترقی نہیں آتی۔ بلوچستان میں عوام جلسے کی دعوت دیتے ہیں، بلوچستان حکومت ایک طرف اور دوسری طرف ہم عوامی جلسہ کریں گے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا مقدمہ چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے بھی لڑا، خیبرپختونخوا کے واجبات وفاقی حکومت نے دینے ہیں وہ دیے جائیں، اس ملک میں صرف سیاسی قیدیوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ سیاست کا کیا مقصد ہے آپ کے پوتے، نواسے وزیر اعظم بن جائیں، مفتاح اسماعیل پاکستان پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خطاب میں کہا کہ سیاست کا مقصد خاندانی وراثت کی بجائے عوامی خدمت ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) پہلے “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لگاتی تھی، جو درحقیقت آئین کی عزت کرنے کے مترادف تھا، مگر آج ان کے پاس کوئی جواز نہیں۔ سابق وزیرِخزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے آئین اور قانون کی پاسداری نہیں کی اور انتخابات میں فارم 47 کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے۔ 8 فروری کو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا، سلمان اکرم راجا پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ملک میں جمہوری اقدار پامال ہو چکی ہیں۔ 8 فروری کے انتخابات میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا اور اب حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ایسے حالات میں ملک نہیں چل سکتا۔ پاکستان میں بسنے والے تمام شہری برابر ہیں اور اگر عوام متحد ہوکر آواز اٹھائیں تو کوئی رکاوٹ انہیں نہیں روک سکتی۔ سلمان اکرم راجا نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کسی ڈیل کا حصہ نہیں اور اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو بہت پہلے لندن جا سکتے تھے۔ مزید پڑھیں: ‘پارلیمان کو اختیار نہیں کہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی کر سکے’پیکا ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج آئین کی بالادستی کے بغیر ملک کو نہیں بچایا جا سکتا، محمود خان اچکزئی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ضروری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے علیحدہ ہونا چاہیے اور جن جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات رکھے، انہیں توبہ کرنی ہوگی۔ سربراہ پختونخوا ملی پارٹی نے اعلان کیا ہےکہ فارم 47 کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی میں نہیں بیٹھا جائے گا اور ایک متوازی اسمبلی بنانے کی تجویز دی جس کے اسپیکر اسد قیصر ہوں گے۔ پی ٹی آئی عوامی طاقت پر یقین رکھتی ہے، بیرسٹر گوہر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ملک میں 175 سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن صرف جماعت اسلامی نے کراچی میں پی ٹی آئی کے حق میں سیٹ واپس کی۔ بیرسٹر گوہرنے کہا کہ پی ٹی آئی کسی بھی قسم کی پاور شیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی بلکہ عوامی طاقت کو ترجیح دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت جیل میں قید ہے۔ جب تاریخ لکھی جائے گی تب شہباز شریف کا نام بھی لکھا جائے گا، تاریخ میں بانی پی ٹی آئی کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا، اب وقت ہے ایک دوسرے کو پہچاننا پڑے گا اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہوگا۔ اس وقت ملک میں آئین نام کی کوئی چیز موجود نہیں، مصطفی نواز کھوکھر سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ملک میں آزادی اظہار رائے مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے اور عام شہریوں کی آواز دبانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان معاہدہ ختم ہوچکا ہے اور اپوزیشن کی کانفرنس کو روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا استعمال کیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پیکا ایکٹ کی متنازعہ ترامیم: سوشل میڈیا پر کنٹرول یا آزادی کا کچلنا؟ عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، لیاقت بلوچ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ نوجوانوں کو مایوس کیا جا رہا ہے اور خواتین کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ ملک کو بچانے کے لیے قانون کی بالادستی ضروری ہےاور جمہوری قوتوں کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالادستی ضروری ہے،مہتاب عباسی مہتاب عباسی نے کہا کہ ملک کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، معیشت درست کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے آئین کی بحالی اور قانون کی