امریکی فوج سے ٹرانس جینڈر اہلکاروں کی برطرفی کا حکم

امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کی جانب سے جاری کردہ ایک اہم میمو کے مطابق، ٹرانس جینڈر فوجی اہلکاروں کو فوج سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جب تک کہ وہ خصوصی استثنیٰ حاصل نہ کر لیں۔ اس اقدام کے بعد نہ صرف نئے ٹرانس جینڈر افراد کے لیے فوج میں شمولیت تقریباً ناممکن ہو جائے گی بلکہ پہلے سے خدمات انجام دینے والے اہلکاروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پینٹاگون کا فیصلہ اور اس کے اثرات یہ حکم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران نافذ کردہ پابندیوں سے بھی زیادہ سخت تصور کیا جا رہا ہے، جن میں ٹرانس جینڈر افراد پر مخصوص پابندیاں عائد کی گئی تھیں، تاہم اس بار پینٹاگون نے واضح طور پر ان کی فوج میں موجودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ پینٹاگون کے اس حکم نامے کے تحت، جو ٹرانس جینڈر اہلکار پہلے ہی امریکی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ یا تو اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہوں گے یا پھر انہیں فوج چھوڑنی پڑے گی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حامیوں نے اس فیصلے کو “امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دور حکومت میں لگائی گئی پابندیوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران، ٹرانس جینڈر افراد پر کچھ مخصوص پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جن میں ان کے فوج میں خدمات انجام دینے کے حوالے سے بعض شرائط شامل تھیں، لیکن اب پینٹاگون نے عملی طور پر ان کی فوج میں موجودگی ہی ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ٹرانس جینڈر اہلکاروں کا مستقبل کیا ہوگا؟ پینٹاگون کے اس نئے اقدام کے بعد، امریکی فوج میں موجود ٹرانس جینڈر اہلکاروں کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ وہ خصوصی استثنیٰ حاصل کرنے کے قابل ہوں گے یا انہیں زبردستی فوج چھوڑنی پڑے گی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں انسانی حقوق، مساوات اور شمولیتی پالیسیوں پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، اور اس کے اثرات مستقبل میں امریکی فوج اور معاشرتی اقدار پر گہرے ہو سکتے ہیں۔
سعودی کمپنی خوشاب میں 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کرے گی

سعودی عرب کے انفال گروپ نے پنجاب کے ضلع خوشاب کے قریب150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے معدنی کمپلیکس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انفال گروپ، انفال سیمنٹ اور انفال راک سالٹ پر مشتمل ایک سعودی کمپنی ہے جو سیمنٹ اور راک سالٹ کی پیداوار اور ترسیل میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ کمپنی سعودی انفال گروپ کے نام سے ریاض، سعودی عرب میں قائم ہے اور کان کنی، پراسیسنگ، اور راک سالٹ کی تقسیم جیسے کاروبار سے وابستہ ہے۔ راک سالٹ ایک قیمتی معدنی وسیلہ ہے جو خوراک کی پروسیسنگ، زراعت اور کیمیکل صنعت سمیت مختلف شعبوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ انفال گروپ سعودی عرب کے معدنی شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے، جو ملک کے ویژن 2030 کے تحت معیشت کو متنوع بنانے کی پالیسی کے تحت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ حکومتِ پنجاب، انفال گروپ کے منصوبے کے لیے 15 مارچ 2025 تک تمام ضروری سہولتوں کی فراہمی مکمل کرے گی، جیسا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی 22 جنوری 2025 کو ہونے والی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا۔ اس میٹنگ میں شامل اعلیٰ سرکاری حکام نے اس نمائندے کو بتایا کہ انفال گروپ نے تمام قانونی تقاضے مکمل کر لیے ہیں اور الاٹمنٹ لیٹر اور ورک آرڈر کے اجرا پر اگلے ہفتے وزیر سطح کی کمیٹی میں حتمی فیصلہ ہوگا۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے فیصلے کے مطابق، حکومتِ پنجاب الاٹمنٹ لیٹر اور ورک آرڈر کے اجرا کے عمل کو تیز کرے گی تاکہ یہ منصوبہ 15 مارچ 2025 تک شروع ہو سکے۔حکام اس سرمایہ کاری کو پنجاب کے معدنی شعبے اور مجموعی ملکی معیشت کے لیے ایک سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔
سوڈان: اقوام متحدہ نے قحط سے متاثرہ پناہ گزین کیمپ کی امداد روک دی

خرطوم: اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام نے شمالی دارفور کے زمزم پناہ گزین کیمپ میں جاری امدادی سرگرمیاں عارضی طور پر روک دی ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان شدید جھڑپوں کے باعث امداد کی فراہمی ناممکن ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے علاقائی ڈائریکٹر لارنٹ بوکیرا نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا “اگر فوری امداد نہ پہنچی تو زمزم کیمپ میں ہزاروں خاندان اگلے چند ہفتوں میں بھوک سے مر سکتے ہیں۔” شدید لڑائی نے انسانی امداد کو روک دیا زمزم کیمپ، جو الفاشر سے 12 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے، پچھلے کئی ماہ سے ریپڈ سپورٹ فورسز کے محاصرے میں ہے۔ یہ پانچ لاکھ سے زائد بے گھر افراد کا مسکن ہے اور دارفور کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ سمجھا جاتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، کیمپ میں 3 لاکھ افراد کو امداد فراہم کی گئی، تاہم رواں ماہ صرف 60 ہزار افراد تک خوراک پہنچ سکی، کیونکہ الفاشر پر قبضے کی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امدادی امور کی ڈائریکٹر ایڈم ووسورنو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ سیٹلائٹ تصاویر سے ثابت ہوتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں کیمپ کے اندر اور اردگرد بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ “شدید لڑائی کے دوران خوفزدہ شہریوں، بشمول امدادی کارکنوں، کے لیے علاقے سے نکلنا ناممکن تھا۔” انہوں نے مزید کہا۔ زمزم کیمپ میں قحط، امدادی سرگرمیاں معطل گزشتہ سال اگست میں زمزم کیمپ میں قحط کا اعلان کیا گیا تھا، جو اب دو مزید کیمپوں تک پھیل چکا ہے۔ اس کے باوجود، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، اب تک صرف ایک ہی امدادی قافلہ کیمپ تک پہنچ پایا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے امدادی کاموں میں تاخیر کی وجوہات میں خراب موسم، لڑائی اور ریپڈ سپورٹ فورسز کی جانب سے رکاوٹوں کو قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ سوڈان میں اپریل 2023 سے فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان جنگ جاری ہے، جس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
اسلحے کے بعد شمالی کوریا نے روس کو فوجی دستے بھی بھیج دیے

جنوبی کوریا کے میڈیا نے جمعرات کو ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ شمالی کوریا نے روس میں اضافی فوجیوں کو تعینات کر دیا ہے، لیکن دستوں کی تعداد کا فوری طور پر پتہ نہیں چل سکا ہے۔ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اضافی دستے روس کے کرسک کے علاقے میں جنگ کے میدانوں میں بھیجے گئے ہیں۔ روسی افواج یوکرین کے فوجیوں سے لڑ رہی ہیں جو سرحد پار مغربی روس کے علاقے میں گھس آئے ہیں۔ این آئی ایس نے پہلے کہا ہے کہ شمالی کوریا نے یوکرین کی جنگ میں لڑنے کے لیے 11,000 سے زیادہ فوجی روس میں تعینات کیے ہیں۔ یوکرین اور مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی افواج نے شمالی کوریا کے ہتھیار بھی استعمال کیے ہیں۔ شمالی کوریا نے یوکرین کی جنگ میں روس کی فوجی حمایت کا باضابطہ طور پر اعتراف نہیں کیا ہے۔
4 یرغمالیوں کی نعشیں اسرائیل کے حوالے، 642 فلسطینی قیدی رہا

حماس نے چار یرغمالیوں کی نعشیں ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیلی حکام کے حوالے کر دی ہیں جبکہ اسرائیل کی جانب سے 642 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ رواں برس 19 جنوری کو طے پایا تھا، جنگ بندی کا پہلا مرحلہ رواں ہفتے اختتام پذیر ہو رہا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ دوسرے ہفتے جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا یا نہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے مزید کچھ نہیں بتایا گیا کہ جنگ بندی مزید جاری رہے گی یا نہیں۔حماس کی جانب سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا جنگ بندی کا پہلا مرحلہ سنیچر کے روز اختتام پزیر ہونے جا رہا ہے۔ چھ ہفتوں پر محیط جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے تحت اسرائیل کو تقریباً 1900 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا فریق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں آگے بڑھنے پر رضامند ہوسکتے ہیں یا نہیں اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس میں مستقل جنگ بندی کی شرائط بھی شامل ہوں گی۔ غزہ میں باقی ماندہ یرغمالیوں کو مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے آزادی ملے گی اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا ہوگا۔ دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات پہلے مرحلے کے دوران شروع ہونے والے تھے تاہم ابھی تک ایسا کُچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب یرغمالیوں کی رہائی اسرائیل اور حماس کے درمیان کئی دنوں سے جاری تعطل کے بعد ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ فریقین کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل ثالثوں کے ذریعے حل ہوئے اگر دوسرے مرحلے کی شرائط کامیابی سے مکمل ہو جاتی ہیں تو اس سے معاہدے کے تیسرے اور آخری مرحلے کا آغاز ہوگا۔ اس طرح ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی باقی ماندہ تمام لاشیں اسرائیل کو واپس کر دی جائیں گی اور غزہ کی تعمیر نو کا کام شروع ہو جائے گا جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے رہا ہونے والے کچھ فلسطینی قیدیوں کو فوری طور پر مصر کے راستے غزہ بھیجا جانا تھا جبکہ اکثریت کو مغربی کنارے سے غزہ واپس بھیجا گیا۔ خان یونس سے موصول ہونے والی اطلاعات اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی قید سے رہائی پانے والوں کا وہاں پرجوش ہجوم نے استقبال کیا۔
پرامن افغانستان خطے کی ترقی و استحکام کے لیے ناگزیر: وزیرِاعظم شہباز شریف

وزیرِاعظم شہباز شریف نے افغانستان میں امن و استحکام کو خطے کی سلامتی اور ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک، بشمول پاکستان، پر حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ یہ بات انہوں نے ازبکستان کے صدر شوکت مرزییویف کے ساتھ تاشقند میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ ازبک صدر نے افغانستان کی ترقی اور فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ یکساں موقف رکھنے کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے درمیان عالمی تنظیموں میں ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ وزیرِاعظم شہباز شریف اور صدر مرزییویف نے ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہ منصوبہ جنوبی اور وسطی ایشیا کو جوڑنے کے لیے “گیم چینجر” ثابت ہوگا۔ ازبک صدر نے اعلان کیا کہ اس منصوبے کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستان کے بھرپور کردار کی یقین دہانی کرائی اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے وفد کے کچھ ارکان کو تاشقند میں ہی رکنے کی ہدایت کی۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی اور ثقافتی تعاون میں توسیع دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور تجارت، سیاحت، توانائی اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو آئندہ چار سال میں 2 ارب ڈالر تک بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ 2021 اور ترجیحی تجارتی معاہدہ 2023 پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنانے اور خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔ اہم معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط وزیرِاعظم شہباز شریف اور صدر مرزییویف نے مختلف معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کے تبادلے کی تقریب میں شرکت کی۔ اہم معاہدوں میں سفارتی پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے ویزا فری انٹری، فوجی خفیہ معلومات کے تبادلے، پیشہ ورانہ تربیت، سائنسی تحقیق، ٹیکنالوجی و جدت، اور میڈیا تعاون کے معاہدے شامل ہیں۔ مزید برآں، لاہور اور تاشقند، لاہور اور بخارا کے درمیان جڑواں شہروں کا درجہ دینے کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے۔ روس کی شہباز شریف کو قازان فورم میں شرکت کی دعوت روسی حکومت نے وزیرِاعظم شہباز شریف کو “روس-اسلامی دنیا: قازان فورم” میں شرکت کی دعوت دی ہے، جو 13 سے 18 مئی تک تاتارستان کے دارالحکومت قازان میں منعقد ہوگا۔ یہ فورم روس اور اسلامی ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے اہم پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے اور اس میں 100 سے زائد اجلاس اور تقریبات منعقد ہوں گی، جن میں اسلامی مالیات، حلال انڈسٹری، تجارت، ٹیکنالوجی، سیاحت اور میڈیا جیسے موضوعات زیر بحث آئیں گے۔ اس فورم کے دوران پہلی بار او آئی سی ممالک کے وزرائے ثقافت کا اجلاس بھی روس میں منعقد کیا جائے گا، جو اسلامی دنیا اور روس کے درمیان ثقافتی تعلقات کے فروغ کے لیے ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
مغربی میڈیا کے اندر کوئی معیار نہیں ہے، انیس تکریدی

اسلام آباد میں “ایکو آف فلسطین” کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مقامی اور عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس جماعت اسلامی کی جانب سے کرائی گئی جس میں امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں قرطبہ فاؤنڈیشن کے انیس تکریدی نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “مغربی میڈیا کے اندر کوئی معیار نہیں ہے۔ یہ منافقت کی بات نہیں ہے۔” انہوں نے کہا “امریکا ٹک ٹاک نامی ایپ کے خلاف کیوں ہے؟ کیونکہ اس کا 75 یا 78 فیصد سے زیادہ مواد فلسطین کے حامیوں کا ہے”۔
مریم نواز حکومت کے منصوبے: نئی ترقی یا پرانی پالیسیوں کی ری برانڈنگ؟

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی حکومت نے اپنے پہلے سال میں 90 سے زائد ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں سے کئی منصوبے صحت، تعلیم، زراعت، توانائی اور سماجی بہبود سے متعلق ہیں۔ اگر ان منصوبوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بیشتر منصوبے یا تو ماضی کی حکومتوں کے جاری کردہ ہیں یا محض نام بدل کر دوبارہ پیش کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ شہباز شریف، عثمان بزدار، اور پرویز الٰہی کی حکومتوں کے تناظر میں مریم نواز حکومت کے منصوبوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرے گی تاکہ واضح کیا جا سکے کہ آیا یہ واقعی عوامی خدمت ہے یا صرف سیاسی تشہیر؟ صحت کے منصوبے: نئے اقدامات یا پرانے وعدے؟ 1.1 نواز شریف کینسر ہسپتال – حقیقت یا تاخیر کا شکار منصوبہ؟ مریم نواز حکومت نے لاہور میں پاکستان کا پہلا سرکاری کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا، جو ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔ پرویز الٰہی دور (2002-2007) میں بھی کینسر کے مریضوں کے لیے علیحدہ یونٹ بنانے کی تجویز دی گئی تھی، لیکن عملدرآمد نہیں ہوا۔ شہباز شریف حکومت (2008-2018) نے بھی کوئی بڑا کینسر ہسپتال بنانے پر توجہ نہیں دی۔ عثمان بزدار دور (2018-2022) میں بھی اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ اگر یہ منصوبہ اتنا ضروری تھا تو پچھلی مسلم لیگ (ن) حکومتوں نے اس پر پہلے کام کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید مریم نواز حکومت کے پاس نہیں ہے۔ 1.2 کلینکس آن ویلز – شہباز شریف دور کی اسکیم کی بحالی مریم نواز حکومت کے مطابق “موبائل کلینک” اور “فیلڈ ہسپتال” کے ذریعے 68 لاکھ افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جا چکی ہیں۔ حقیقت: شہباز شریف حکومت (2010-2018) میں موبائل کلینک متعارف کرائے گئے تھے۔ عثمان بزدار دور میں بھی یہ سروس موجود تھی، مگر محدود پیمانے پر۔ اب مریم نواز حکومت نے اسی اسکیم کو دوبارہ شروع کیا ہے۔ یہ نیا منصوبہ نہیں، بلکہ پرانے منصوبے کی بحالی ہے، لیکن اسے نیا ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 1.3 مفت ادویات کی فراہمی – پرویز الٰہی دور کی اسکیم کی ری برانڈنگ؟ مریم نواز حکومت نے دعویٰ کیا کہ مریضوں کو گھروں پر مفت ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پرویز الٰہی دور میں 2005 میں “ریسکیو 1122 ایمبولینس سروس” متعارف کرائی گئی تھی، جو مریضوں کو ہسپتال پہنچانے کے ساتھ ساتھ مفت ادویات کی فراہمی بھی یقینی بناتی تھی۔ یہ اسکیم پہلے بھی موجود تھی، مگر اس کا دائرہ محدود تھا۔ مریم نواز حکومت نے اسے وسیع کر دیا، لیکن اسے مکمل طور پر نیا منصوبہ قرار دینا غلط ہوگا۔ زراعت کے منصوبے: بزدار حکومت کے ماڈل کی کاپی؟ 2.1 کسان کارڈ – عثمان بزدار کی اسکیم کی توسیع مریم نواز حکومت نے “کسان کارڈ” کے تحت 30 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عثمان بزدار حکومت نے 2021 میں “کسان کارڈ” اسکیم متعارف کرائی تھی، جس کے تحت کھاد، بیج اور زرعی مشینری پر سبسڈی دی گئی تھی۔ مریم نواز حکومت نے اسی اسکیم کو بڑھایا ہے، مگر نیا منصوبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہیں کا وہیں ہے، کسان اب بھی مہنگی کھاد، ڈیزل، اور زرعی پانی کی کمی کا شکار ہیں، جو سبسڈی دینے سے نہیں بلکہ زرعی اصلاحات سے حل ہو سکتا ہے۔ 2.2 گرین ٹریکٹر اسکیم – شہباز شریف دور کا منصوبہ دوبارہ حکومت نے اعلان کیا کہ کسانوں کو 10 لاکھ روپے فی ٹریکٹر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت (2008-2013) میں 50 فیصد سبسڈی پر ٹریکٹر دینے کی اسکیم تھی۔ بزدار حکومت میں بھی یہی اسکیم دوبارہ شروع کی گئی، مگر محدود پیمانے پر۔ موجودہ حکومت نے اسی پرانی اسکیم کو دوبارہ شروع کر دیا، لیکن دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ “نئی” اسکیم ہے۔ توانائی کے منصوبے: پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں 3.1 روشن گھرانہ سولر اسکیم – شہباز شریف حکومت کا پرانا ماڈل؟ مریم نواز حکومت نے اعلان کیا کہ 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینلز دیے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف حکومت (2013-2018) نے “نواز شریف سولر پروگرام” شروع کیا تھا۔ شہباز شریف حکومت نے بھی سولر انرجی کو فروغ دینے کی اسکیمیں متعارف کرائی تھیں۔ عثمان بزدار دور میں “پنچایت گھروں” اور “مساجد” کے لیے سولر پینلز دیے گئے۔ موجودہ حکومت نے صرف سبسڈی بڑھا دی، لیکن بنیادی پالیسی وہی پرانی ہے۔ 3.2 الیکٹرک بس سروس – پرویز الٰہی اور شہباز شریف دور کے ٹرانسپورٹ منصوبوں کی نئی شکل؟ حکومت نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں پہلی بار الیکٹرک بسیں متعارف کرائی گئی ہیں۔ پرویز الٰہی حکومت (2002-2007) نے پہلی بار لاہور میں “سی این جی بسیں” متعارف کرائیں۔ شہباز شریف حکومت نے “میٹرو بس” اور “اورنج لائن” ٹرانسپورٹ منصوبے مکمل کیے۔ عثمان بزدار حکومت نے “بلو لائن بس سروس” پر کام شروع کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے صرف بسوں کی نوعیت بدلی ہے، بنیادی پالیسی پرانی ہی ہے۔ سماجی بہبود کے منصوبے: ماضی کے پروجیکٹس کا نیا نام 4.1 اپنا گھر اپنی چھت – نیا پاکستان ہاؤسنگ کا متبادل؟ حکومت نے بلا سود قرضوں کے ذریعے گھروں کی تعمیر میں مدد دینے کا اعلان کیا۔ یہی ماڈل “نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم” میں بھی تھا، جسے بزدار حکومت نے متعارف کرایا تھا۔ یہ نیا منصوبہ نہیں، بلکہ پرانے کا تسلسل ہے۔ 4.2 دھی رانی پروگرام – شہباز شریف دور کی جہیز اسکیم حکومت نے اعلان کیا کہ غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے مالی امداد دی جائے گی۔ شہباز شریف دور میں “جہیز فنڈ اسکیم” کے نام سے یہی پالیسی پہلے بھی موجود تھی۔ نئے منصوبے یا محض سیاسی دعوے؟ مریم نواز حکومت نے کئی پرانے منصوبوں کو نیا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں واقعی پنجاب میں ترقی کر رہی تھیں، تو انہیں انہی پرانے منصوبوں کو دوبارہ کیوں متعارف کرانا پڑ رہا ہے؟ یہ حکمت عملی سیاسی تشہیر کے لیے کارآمد ہو سکتی ہے، مگر عوامی مفاد میں نہیں۔