مولانا حامد الحق کی شہادت ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے، عمر ایوب

عمر ایوب نے کہا ہے کہ مولانا حامد الحق کی شہادت ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے اور اسلام کے لیے ان کی بے پناہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ قائد حزبِ اختلاف قومی اسمبلی عمر ایوب نے دارالعلوم حقانیہ اکورہ خٹک میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا حامد الحق سمیت شہدا اور زخمیوں کی خبر سے دل رنجیدہ اور زخمی ہے۔ مولانا حامد الحق کی شہادت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، وہ ایک جید عالم دین تھے، اسلام کے لیے ان کی بے پناہ خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ عمر ایوب نے کہا کہ دل خراش واقعہ امن کو خراب کرنے کی ایک سازش ہے۔ اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے اور مکمل رپورٹ پیش کی جائے، عبادت گاہ میں معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانا بنانا غیر انسانی فعل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، دہشت گردوں کا مقصد ملک میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ قائد حزبِ اختلاف قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ ملک کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی، دہشت گرد عناصر کی ملک میں خوف و انتشار پھیلانے کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مزید پڑھیں: دارالعلوم حقانیہ اور مولانا حامد الحق پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے، مولانا فضل الرحمان حملے میں متاثرہ افراد کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں،انہوں نے مولانا حامدالحق سمیت تمام شہداء کے درجات کی بلندی اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمانے کی دعا کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ خودکش حملے میں زخمی افراد کی جلد صحت یابی کے لیے بھی دعاگو ہیں۔

دارالعلوم حقانیہ اور مولانا حامد الحق پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے، مولانا فضل الرحمان

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اور مولانا حامد الحق پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے۔ نجی نشریاتی ادارے سٹی 42 کے مطابق سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان نے اپنے بیان میں مولانا حامد الحق کی شہادت سمیت دارالعلوم حقانیہ پر دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملے اور برادر مولانا حامد الحق سمیت شہداء اور زخمیوں کی خبر سے دل رنجیدہ اور زخمی ہے، دارلعلوم حقانیہ اور مولانا حامد الحق پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے، جمعہ کے مبارک دن اور ماہ رمضان کی آمد کی حرمت کو پامال کیا ہے۔ دہشت گردی اور بدامنی معاشرے کے لئے ناسور بن چکی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انسانیت کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں۔ خیبرپختونخوا میں بدامنی کے بارے میں ایک عرصے سے رونا رویا جا رہا ہے، لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مولانا عبدالحق کے خانوادے کی طرح میں خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں، اللہ کریم مولانا حامد الحق اور دیگر کی شہادت قبول فرمائے، اللہ کریم زخمیوں کو جلد صحت دے، کارکن اس موقع پر بھر پور کردار ادا کریں۔ مزید پڑھیں: نماز جمعہ کے دوران جامعہ حقانیہ میں خودکش دھماکا، مولانا عبدالحق سمیت چھ نمازی شہید ہوگئے واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے مدینہ منورہ سے مرحوم کے بیٹے حافظ سلمان الحق سے بھی رابطہ کیا اور تعزیت کے بعد واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔

بی بی سی نے غزہ ڈاکیومنٹری پر معذرت کرلی، فلسطینی بچے کے والد کے تعلقات پر تنازعہ

بی بی سی نے جمعرات کو اپنی ڈاکیومنٹری غزہ: ‘ہوو ٹو سروائیو اے وارزون’ میں “سنگین خامیوں” پر معذرت کی۔ جب یہ خبر سامنے آئی کہ اس ڈاکیومنٹری میں ایک فلسطینی بچہ، جو غزہ کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے، یہ بچہ دراصل ایک سابق فلسطینی وزیر کا بیٹا ہے۔ اس بات پر اسرائیلی حمایت یافتہ گروپوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ یہ ڈاکیومنٹری، جو ‘بی بی سی ٹو’ پر نشر ہوئی تھی، 14 سالہ عبداللہ الیازوری کی زندگی کو دکھاتی ہے جو غزہ میں جنگی حالات میں گزارے گئے اپنے دنوں کو بیان کرتا ہے۔ تاہم، جب یہ انکشاف ہوا کہ عبداللہ کے والد، ڈاکٹر ایمن الیازوری حماس کے زیر انتظام غزہ حکومت کے سابق نائب وزیر زراعت تھے تو بی بی سی نے ڈاکیومنٹری کو اپنے اسٹریمنگ سروس سے ہٹا دیا۔ بی بی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس ڈاکیومنٹری کے بنانے میں “سنگین خامیاں” تھیں اور اس پر مکمل طور پر معذرت کی۔ انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ خامیاں صرف پیداوار کمپنی کی نہیں بلکہ ان کی اپنی بھی تھیں۔ بی بی سی کا کہنا تھا، “ہم اس بات کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں اور اس سے ہمارے ادارے کی ساکھ پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس پر معذرت خواہ ہیں۔” بی بی سی کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ پیداوار کمپنی، ہویو فلمز، کو ڈاکیومنٹری کے دوران بار بار سوالات کیے گئے تھے کہ آیا اس میں کوئی تعلق حماس کے ساتھ ہے، تاہم پیداوار کمپنی نے اس حقیقت کو چھپایا کہ عبداللہ کے والد حماس حکومت کے وزیر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: میانمار کیمپ میں پھنسے غیر ملکیوں کے لئے مشکلات : وطن واپس جانے کے لئے رقم کی کمی کا سامنا یہ انکشاف ہونے کے بعد اسرائیل کے حامی گروپوں کی جانب سے بی بی سی پر شدید تنقید کی گئی۔ کیمپیئن اگینسٹ اینٹی سی میٹیزم (CAA) کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ “بی بی سی کی جانب سے اس طرح کی کمزوری اور احتساب کی کمی ایک نئے حد تک پہنچ چکی ہے، جہاں یہ دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کا ترجمان بن چکا ہے۔” ان الزامات نے بی بی سی کے خلاف لندن کے ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج کو بھی جنم دیا۔ برطانوی وزیر ثقافت ‘لیزا نانڈی’ نے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بی بی سی سے یہ “پختہ ضمانتیں” طلب کی ہیں کہ حماس کو اس ڈاکیومنٹری سے کسی بھی قسم کا مالی فائدہ نہیں پہنچا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “بی بی سی کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی جانچ پڑتال کا عمل کٹھن ہو اور ایسا کچھ بھی سامنے نہ آئے جس سے دہشت گردوں کو تقویت ملے۔” یہ بھی پڑھیں: برفانی تودہ کی زد میں آنے سے 57 مزدور پھنس گئے، ریسکیو آپریشن جاری دوسری طرف ‘ آرٹس فار فلسطین’ کے تحت ایک کھلا خط بھی جاری کیا گیا جس میں ڈاکیومنٹری کی ہٹانے کی مخالفت کی گئی۔ اس کھلے خط پر کئی معروف شخصیات نے دستخط کیے جن میں انگلینڈ کے سابق فٹ بالر گیری لائنیکر اداکار رز احمد، اور مشہور فلم ساز کین لوچ شامل تھے۔ ان شخصیات نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ اور فلسطینیوں کے حقوق کو داغدار کرنے والا قرار دیا۔ خط میں کہا گیا کہ “غزہ میں حکومتی عہدوں پر فائز فلسطینیوں کو دہشت گردی کے ساتھ ملانا غلط اور غیر انسانی ہے۔” اس میں یہ بھی کہا گیا کہ بی بی سی کا یہ قدم صحافتی معیار کو کمزور کرتا ہے اور فلسطینیوں کی آوازوں کو دبانے کا سنگین اقدام ہے۔ کھلے خط میں ایک اور نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ اس معاملے نے عبد اللہ الیازوری جیسے نوجوان کی حفاظت کے حوالے سے بی بی سی کے اپنے بین الاقوامی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ کہا گیا کہ بچوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک غیر اخلاقی اور خطرناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ایک بچے کی گواہی کو محض اس کے والد کے تعلقات کی بنیاد پر رد کرنا غیر اخلاقی ہے۔” بی بی سی اب اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا اس پروگرام کے بنانے میں کوتاہیاں صرف زبان اور ترجمہ کی غلطیوں تک محدود تھیں یا اس میں مزید خامیاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اس سے متعلق مزید کوئیڈس ڈسپلنری  کارروائی کی ضرورت ہے۔ یہ سارا معاملہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ میڈیا اور صحافت کا کردار کس قدر حساس ہوتا ہے، خصوصاً جب یہ فلسطینیوں کی کہانیوں کو پیش کرنے کی بات ہو۔ اس سکینڈل نے عالمی سطح پر صحافتی آزادی اور ذمہ داری پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور یہ معاملہ میڈیا کی غیر جانبداری کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: شمالی کوریا کا جدید کروز میزائل تجربہ: جوہری طاقت اور دفاعی عزم کا مظاہرہ

“آمریت کے سائے، عوام کی مزاحمت” عمران خان کا عالمی جریدے میں کالم

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف سید عاصم منیر کو چاہیے کہ وہ فوج کو اس کے آئینی دائرہ کار میں رکھیں۔ پاکستان کی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے، جب ملک میں حقیقی جمہوری نظام نافذ ہو ایک ایسا نظام جسے عوام نے منتخب کیا ہو۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان نے جیل سے عالمی جریدے ‘ٹائم میگزین’ کو لکھے گئے کالم میں کہا ہے کہ جوں جوں ہم 2025 میں داخل ہو رہے ہیں، میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز اور آزمائشوں سے بھرے دور پر غور کر رہا ہوں۔ اپنی قید تنہائی میں بیٹھ کر میں ایک ایسے ملک کی افسوسناک حقیقت کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو جبر کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود، میں پاکستانی عوام کے عزم اور انصاف کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی پر یقین رکھتا ہوں۔ میرے خلاف سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے مقدمات درحقیقت مجھے خاموش کرانے کی ایک کوشش ہیں۔ لیکن یہ جدوجہد صرف میری ذات تک محدود نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ وسیع تر اثرات کا حامل ہے۔ ایک غیر مستحکم پاکستان نہ صرف علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، بلکہ تجارت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی جمہوری اقدار کو بھی کمزور کر سکتا ہے۔ دنیا کو اس بحران کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا۔ یہ صرف پاکستان کے مستقبل کا معاملہ نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے استحکام کا بھی سوال ہے۔ پاکستان جیسے اہم ملک میں جمہوری آوازوں کا دبایا جانا ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے، جس پر ان تمام لوگوں کو فکر مند ہونا چاہیے جو آزاد اور منصفانہ طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ مزید پڑھیں: “اڈیالا جیل سے خط آرہے ہیں ، منتیں کی جارہی ہیں کہ اللہ کے واسطے مجھے بچا لو” مریم نواز گزشتہ سال بے مثال جبر کا سال تھا۔ میری جماعت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے کارکنوں پر ہونے والے وحشیانہ کریک ڈاؤن نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی گرفتاریوں اور فوجی عدالتوں میں چلائے جانے والے غیر منصفانہ مقدمات کی تفصیلات ریکارڈ کی ہیں۔ واضح رہے کہ اب تک پی ٹی آئی کے 103 کارکنوں اور عہدیداروں کو ان عدالتوں میں سزا سنائی جا چکی ہے، جو کہ پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں، خاص طور پر بین الاقوامی عہد برائے شہری و سیاسی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ سمیت عالمی برادری ان غیر قانونی ٹرائلز پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ یہ تمام مسائل عام پاکستانیوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو یورپی یونین کی جانب سے حاصل خصوصی تجارتی حیثیت ختم کیے جانے کا خطرہ لاحق ہے، جو کہ ہماری معیشت، خاص طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے اپنی ذاتی سیاست میں اس قدر مگن ہیں کہ وہ ملک کے مفادات کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پاکستان میں جمہوریت کے خاتمے کے ساتھ ہی خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب اچانک نہیں ہو رہا، بلکہ یہ ایک منظم پالیسی کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو دہشت گردی کے ان بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے بجائے، ریاستی وسائل کو میرے اور پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی مہم میں جھونک دیا گیا ہے۔ عدالتیں انصاف کی محافظ ہونے کے بجائے سیاسی انتقام کا آلہ کار بن چکی ہیں اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں اب پی ٹی آئی کے کارکنوں پر جھوٹے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: ’کسی کا کوئی خط نہیں ملا، یہ سب چالیں ہیں‘ آرمی چیف کا صاف انکار ہزاروں گھروں پر چھاپے مارے گئے، خاندانوں کو ہراساں کیا گیا اور یہاں تک کہ خواتین اور بچوں کو بھی ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے سوشل میڈیا کارکنان، اوورسیز سپورٹرز اور کارکنوں کے اہلِ خانہ کو اغوا اور ہراساں کیا جا رہا ہے تاکہ ہماری آواز دبائی جا سکے۔ ہم نے کم از کم 12 ایسے کارکنوں کی نشاندہی کی ہے، جنہیں حکومتی فورسز نے اسلام آباد میں حکومت مخالف احتجاج کے دوران قتل کر دیا۔ اگرچہ ہمیں حکومت کی نیت پر شکوک تھے، پھر بھی میں نے پی ٹی آئی قیادت کو مذاکرات کے لیے گرین سگنل دیا تاکہ مزید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔ ہماری شرائط واضح تھیں ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے جو پی ٹی آئی کارکنان اور پُرامن مظاہرین پر حملوں کی تحقیقات کرے۔ دوسرا یہ کہ تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے۔ اس کے بدلے میں مجھے گھر میں نظر بندی کی پیشکش کی گئی، جس کے ساتھ پی ٹی آئی کو کچھ “سیاسی گنجائش” دینے کا مبہم وعدہ کیا گیا، لیکن میں نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ پارلیمنٹ محض ایک ربڑ اسٹیمپ بن چکی ہے، جہاں بغیر کسی بحث کے ایسے قوانین پاس کیے جا رہے ہیں، جو عدلیہ کی آزادی سلب کرنے، آزادیٔ اظہار کو دبانے اور اختلاف رائے کو جرم قرار دینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف سید عاصم منیر کو چاہیے کہ وہ فوج کو اس کے آئینی دائرہ کار میں رکھیں۔ پاکستان کی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے، جب ملک میں حقیقی جمہوری نظام نافذ ہو ایک ایسا نظام جسے عوام نے منتخب کیا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں آمریت کبھی زیادہ عرصے تک نہیں چل سکی، لیکن اس کے برے اثرات نسلوں تک برقرار رہتے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل اسی میں ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے، نہ کہ اسے کچلا جائے۔ ان تمام اندھیروں کے باوجود پاکستان کے عوام پہلے سے کہیں زیادہ باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کو پہچانتے ہیں اور ان کا عزم ہی میری سب سے بڑی امید ہے۔ انصاف اور عزت کے لیے لڑنا آسان نہیں، لیکن یہ جدوجہد کرنے کے قابل ہے۔ میں پورے یقین کے ساتھ

ملک میں پہلا روزہ کب ہو گا؟ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے بتا دیا

پاکستان میں رمضان المبارک کا چاند نظر نہیں آیا، پہلا روزہ اتوار کو ہوگا۔ چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد نے پریس کانفرنس میں رمضان المبارک کا چاند نظر نہ آنے کا اعلان کیا ہے۔ ترجمان وزارت مذہبی امور کے مطابق ملک کے کسی حصے سے رمضان کا چاند نظر آنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی، یکم رمضان المبارک 1446 ہجری 2 مارچ 2025 بروز اتوار کو ہو گا،نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ لاہور میں رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیےصوبائی زونل رویت ہلال کمیٹی کااجلاس ہوا، جس کی صدارت ڈی جی مذہبی امور خالد محمود نے کی، محکمہ اوقاف اور صوبائی زونل رویت ہلال کمیٹی کےممبران بھی چاند دیکھنے کے لیے موجود تھے، مگر چاند نظر نہ آیا۔ مزید پڑھیں: رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج پشاور میں ہوگا پشاورمیں رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے عید گاہ میں انتظامات کیے گئے، ٹیلی سکوپ اور ایچ ٹی ایس سسٹم فعال رہے، محکمہ موسمیات اور سپارکو کی ٹیمیں بھی موجود رہیں لیکن چاند نظر نہ آیا۔ محکمہ موسمیات کراچی میں رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لئے زونل کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس کی صدارت علامہ حافظ محمد سلفی نے کی، اجلاس میں زونل کمیٹی کے ممبران، ڈائریکٹر نیشنل سونامی سینٹر امیر حیدر لغاری اور محکمہ موسمیات سے دیگر شریک ہوئے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آج صبح 5 بج کر 44 منٹ پرچاند کی پیدائش ہوئی ہے اور چاند نظر آنے کیلئے اس کی عمر 16 سے 18 گھنٹے ہونی چاہیے۔ پاکستان، ملائیشیا، برونائی دارالاسلام اور انڈونیشیا، سنگا پور، سری لنکا، بھارت، جاپان میں رمضان المبارک کا چاند نظر نہیں آیا، ان ممالک میں پہلا روزہ دو مارچ یعنی اتوار کو ہوگا۔ یہ بھی پڑھیں: رمضان کی آمد، 88 فیصد پاکستانی اشیائے خورونوش کی خریداری سے پریشان، 70 فیصد نے ملکی سمت کو غلط قرار دے دیا دوسری جانب سعودی عرب، عمان، آسٹریلیا، روس اور نیوزی لینڈ میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا ہے، پہلا روزہ یکم مارچ بروز ہفتے کو ہوگا۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے رمضان کے آغاز پر نیک تمنائوں کا اظہارکیا ہے، سعودی حکومت کی طرف سے بھی سعودی شہریوں اور مملکت میں مقیم تمام افراد کو رمضان المبارک کی مبارک باد دی گئی ہے۔

شمالی کوریا کا جدید کروز میزائل تجربہ: جوہری طاقت اور دفاعی عزم کا مظاہرہ

شمالی کوریا نے اس ہفتے اپنے ‘کروز میزائلوں’ کا تجربہ کیا، جسے اس نے دشمنوں کو ایک واضح پیغام دینے کے طور پر پیش کیا۔ شمالی کوریا کے رہنما کم ‘جونگ ان’ نے ‘یلو سی’ میں ہونے والے اس میزائل مشق کی نگرانی کی، جو جمعہ کے روز سرکاری خبر رساں ادارے KCNA نے رپورٹ کیا۔ شمالی کوریا کی سرکاری خبر ایجنسی کے مطابق یہ میزائل تجربہ دشمنوں کو خبردار کرنے کے لیے کیا گیا، جو “جمہوری عوامی جمہوریہ کوریا کی سیکیورٹی ماحول کو سنگین طور پر پامال کر رہے ہیں اور تنازعے کے ماحول کو بڑھا رہے ہیں”۔ پیانگ یانگ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اس کے پاس جوہری حملوں کے آپریشن کے مختلف وسائل کی تیاری کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ KCNA نے مزید کہا کہ میزائل 130 منٹ تک پرواز کرنے کے بعد اپنے ہدف کو بالکل درست طریقے سے نشانہ بناتے ہوئے 1587 کلومیٹر (986 میل) کی مسافت طے کی۔ اس کامیاب تجربے کے بعد ‘کم جونگ ان’ نے کہا کہ یہ مشق “جوہری بازو کی طاقت” کو ثابت کرنے اور اس کے اجزاء کی قابل اعتمادیت اور آپریشن کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے۔ یہ شمالی کوریا کا چوتھا میزائل تجربہ تھا، اور اسی سال میں یہ دوسرا تجربہ تھا۔ واضح رہے کہ کم جونگ ان اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تین سمٹ ہوچکے ہیں مگر شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ ٹرمپ نے ایک حالیہ انٹرویو میں کم جونگ ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ “ایک ہوشیار شخص ہیں” اور “دینی انتہاپسند نہیں ہیں”۔ شمالی کوریا کا یہ نیا میزائل تجربہ ایک مضبوط پیغام ہے، جو اس کی جوہری طاقت اور اپنے دفاعی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ پیانگ یانگ کے لیے یہ کسی بھی وقت کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہوسکتا ہے، جس کا مقصد عالمی برادری کو اپنی فوجی صلاحیتوں کا احساس دلانا ہے۔ اگرچہ یہ تجربہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے نئے تناؤ کا سبب بن سکتا ہے، لیکن اس نے کم جونگ ان کی قیادت میں ایک مضبوط اور مستحکم پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ مزید پڑھیں: میانمار کیمپ میں پھنسے غیر ملکیوں کے لئے مشکلات : وطن واپس جانے کے لئے رقم کی کمی کا سامنا

میانمار کیمپ میں پھنسے غیر ملکیوں کے لئے مشکلات : وطن واپس جانے کے لئے رقم کی کمی کا سامنا

میانمار میں بین الاقوامی آپریشنز کے دوران غیر قانونی اسکیم سینٹرز سے نکالے گئے غیر ملکی باشندوں کو نہ صرف انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے بلکہ وطن واپس جانے کے لئے مالی وسائل کی بھی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ان افراد کو ایک دور دراز کیمپ میں منتقل کیا گیا ہے جہاں کھانے پینے کی کمی، صفائی کے ناقص حالات اور دیگر مشکلات نے ان کی زندگی کو مزید اذیت ناک بنا دیا ہے۔ یہ افراد، جنہیں میانمار کے سرحدی علاقے میں واقع کیمپ میں رکھا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہاں کیمپ کی حالت انتہائی خراب ہے اور بنیادی ضروریات کی کمی ہے۔ اس کیمپ میں 470 سے زائد افراد موجود ہیں جن میں سے اکثریت افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دن میں ایک یا دو بار کھانا کھاتے ہیں جبکہ صفائی کے حوالے سے بھی کوئی خاص انتظامات نہیں ہیں۔ ایک 29 سالہ افریقی نے  شخص میڈیا کو بتایا کہ “ہم دن میں ایک یا دو بار ہی کھانا کھاتے ہیں، اور بعض اوقات ہمیں ایک بار بھی کھانا نہیں ملتا۔ خواتین کے لئے سینیٹری پیڈز تک کی فراہمی نہیں ہے۔ ہم سب کو پانچ ٹوائلٹس پر 500 افراد کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔” اس کے علاوہ کیمپ کے اندر کا ماحول مزید اذیت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اور افریقی شہری نے کہا کہ “ہم یہاں جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اس جگہ پر کوئی انسانیت نہیں ہے اور ہمیں کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا۔” یہ بھی پڑھیں: برفانی تودہ کی زد میں آنے سے 57 مزدور پھنس گئے، ریسکیو آپریشن جاری دوسری طرف ‘ڈی کے بی اے’ (ڈیموکریٹک کرن بینولیٹ آرمی) کے عہدیدار سان آوگ نے کہا کہ ان کا گروپ ان غیر ملکیوں کی مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے اور روزانہ دو وقت کھانا فراہم کر رہا ہے۔ تاہم، اس نے اعتراف کیا کہ ٹوائلٹس کی کمی ایک حقیقت ہے اور یہ کہ ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے حالات مشکل ہو گئے ہیں۔ میانمار میں ان اسکیم سینٹرز کا انکشاف کچھ ہفتے پہلے ہوا جب تھائی لینڈ میں ایک چینی اداکار کا اغوا کیا گیا تھا، جس کے بعد متعدد ممالک نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ ان غیر قانونی مراکز کو ختم کریں گے۔ ان مراکز میں سینکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پر قید کر کے کام پر مجبور کیا جا رہا تھا، جن میں سے بیشتر کو انسانی اسمگلنگ کا شکار بنایا گیا تھا۔ چین، تھائی لینڈ اور میانمار کی حکومتیں اس وقت ان اسکیم سینٹرز کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اور ان افراد کو وہاں سے نکالنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ اس کارروائی کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کو آزاد کرایا جا چکا ہے، تاہم اب بھی 7,000 سے زائد افراد، جن میں سے بیشتر افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کیمپ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مزید پڑھیں: دو سال پہلے ہونے والے ٹرین حادثے کی یاد میں لاکھوں یونانی سڑکوں پر کیمپ میں موجود افراد کو اپنے وطن واپس جانے کے لیے مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک 29 سالہ شخص نے بتایا کہ “میں نے چین میں اپنے ملک کے سفارتخانے سے رابطہ کیا تھا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ مجھے خود ہی ٹکٹ کا بندوبست کرنا ہوگا۔” اسی طرح ایک اور شخص نے بتایا کہ اس نے اپنے ملک کے سفارتخانے سے رابطہ کیا تھا لیکن وہ اور دیگر افراد ٹکٹ کی قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ اس کیمپ میں ایسے افراد بھی ہیں جو تین ماہ سے زیادہ عرصے سے ان اسکیم سینٹرز میں قید ہیں، اور ان کی حالت انتہائی بدتر ہو چکی ہے۔ ان افراد کے لئے واپس جانے کا راستہ بند ہو چکا ہے، اور ان کی حالت مزید بدتر ہو رہی ہے۔ ایک شخص نے کہا ہے کہ “ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں ہمیں دوبارہ ان اسکیم سینٹرز میں نہ بھیج دیا جائے جہاں ہمیں زبردستی کام کرایا جاتا تھا اور جہاں تشدد کی خبریں بھی آئی ہیں۔” یہ بھی پڑھیں: روبوٹ سے مریضوں کی نگہداشت کیا جاپانی آبادی کے مسائل حل کر پائے گی؟ کیمپ میں موجود افراد نے ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی ہیں جن میں ٹوائلٹس کی گندگی اور کھانے کی حالت کی تصویریں دکھائی گئی ہیں۔ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹوائلٹس میں گندگی ہے اور کھانے کی مقدار بہت کم ہے۔ ایک تصویر میں چند افراد زمین پر بے سدھ لیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ایک اور تصویر میں کھانے کے چھوٹے حصے دکھائے گئے ہیں، جن میں چاول اور سبزیوں کا معمولی حصہ شامل تھا۔ کیمپ کی حالت نے ان غیر ملکی افراد کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، اور یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ ان کے وطن واپس جانے کا کوئی طریقہ نہیں بچا۔ ان حالات میں جہاں ایک طرف ان افراد کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، وہیں دوسری طرف ان کا خوف بڑھ رہا ہے کہ وہ واپس ان اسکیم سینٹرز میں نہ بھیج دیے جائیں جہاں ان کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد ہو رہا تھا۔ ان غیر ملکیوں کی حالت بے حد سنگین ہے، اور ان کے لئے واپس اپنے ملک جانا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان افراد کو ان کے حقوق ملیں گے؟ کیا عالمی برادری اس مسئلے کی طرف توجہ دے گی؟ لازمی پڑھیں: کرد رہنما عبداللہ اوکلان کا بڑا اعلان: تحریک ختم کرنے اور مسلح ارکان کو ہتھیار ڈالنے کی اپیل

اوپن اے آئی کا جی پی ٹی 4.5: اب تک کا سب سے طاقتور اے آئی ماڈل متعارف

اوپن اے آئی نے اپنا سب سے طاقتور اور جدید ترین آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ماڈل “جی پی ٹی 4.5” کا تعارف کرایا ہے، جو کہ ہر سطح پر کارکردگی اور ذہانت کے لحاظ سے ایک نئی مثال قائم کرتا ہے۔ یہ ماڈل خاص طور پر ایسے کاموں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جن میں انسانوں کی طرح ذہنی قابلیت کی ضرورت ہو، اور اس میں مزید جذباتی اور سماجی ذہانت کی خصوصیات شامل کی گئی ہیں۔ جی پی ٹی 4.5 کو چیٹ جی پی ٹی پر دستیاب کیا گیا ہے، مگر اسے استعمال کرنے کے لیے پرو سبسکرائبر بننا ضروری ہے، یعنی ماہانہ 200 ڈالرز کی فیس ادا کرنا ہوگی۔ ابھی یہ ماڈل ریسرچ پریویو کے طور پر جاری کیا گیا ہے اور کمپنی کی توقع ہے کہ صارفین اس میں موجود خامیوں کو دریافت کرکے اس کی کارکردگی میں مزید بہتری لائیں گے۔ اوپن اے آئی کے مطابق جی پی ٹی 4.5 میں سماجی اشاروں کو سمجھنے کی صلاحیت بہت بہتر کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں یہ ماڈل زیادہ حساس اور جذباتی طور پر انسانوں کی طرح رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ابتدائی صارفین نے اسے اتنا ذہین اور حقیقی محسوس کیا ہے کہ یہ کسی حقیقی فرد سے بات کرنے کا تاثر دیتا ہے۔ اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سام آلٹمین نے ایکس (ٹوئٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ “یہ پہلا اے آئی ماڈل ہے جسے استعمال کرتے ہوئے آپ کو لگے گا جیسے آپ کسی پرفکر شخص سے بات کر رہے ہوں۔” حالانکہ کمپنی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جی پی ٹی 4.5 اب بھی خود سے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن یہ سماجی اشاروں کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ کافی متاثر کن ہے۔ بہت جلد یہ ماڈل چیٹ جی پی ٹی پلس صارفین کے لیے بھی دستیاب ہوگا، جس سے اوپن اے آئی کی ٹیکنالوجی کی حدود مزید وسیع ہوں گی۔ یہ نیا ماڈل حقیقت میں اے آئی کے مستقبل کی سمت کا تعین کرتا نظر آتا ہے، جہاں انسان اور مشین کے درمیان فرق مٹتا جا رہا ہے۔ مزید پڑھیں: “سٹارلنک” کی پاکستان میں سروسز تاخیر کا شکار کیوں؟

برفانی تودہ کی زد میں آنے سے 57 مزدور پھنس گئے، ریسکیو آپریشن جاری

انڈیا میں اتراکھنڈ کے چمولی ضلع میں سرحدی گاؤں منا کے قریب برفانی تودہ گرنے کے نتیجے میں 57 بورڈرز روڈ آرگنائزیشن (BRO) کے مزدور برف کے نیچے دب گئے۔ یہ افسوسناک واقعہ 28 فروری 2025 کو اس وقت پیش آیا جب مزدور ایک کیمپ میں موجود تھے، جو منا اور بدری ناتھ کے درمیان واقع ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ، پشکر سنگھ دھامی نے اس بات کی تصدیق کی کہ اب تک 16 مزدوروں کو برف سے نکال لیا گیا ہے، تاہم 57 میں سے بیشتر مزدور ابھی تک برف کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ “ہماری ٹیمیں پوری کوشش کر رہی ہیں اور ITBP کی مدد سے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ ہم ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں اور مزدوروں کی جلد بازیابی کے لیے تمام تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔” مقامی انتظامیہ کے مطابق یہ برفانی تودہ چمولی کے ضلع ‘مجسٹریٹ سندیپ تیواری’ کی زیر نگرانی آنے والے علاقے کے درمیان، یعنی منا اور بدری ناتھ کے بیچ ایک کیمپ پر گرنے کی وجہ سے متعدد مزدوروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس حادثے میں پھنسے ہوئے مزدوروں کو بچانے کے لئے قومی آفات ردعمل فورس (NDRF) اور اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسکیو فورس (SDRF) کی ٹیمیں روانہ کردی گئی ہیں۔ منا گاؤں، جو انڈیا اور تبت کی سرحد پر واقع ہے اور سطح سمندر سے 3200 میٹر بلند ہے جہاں موسم انتہائی سخت ہوتا ہے اور برفباری اور بارش مسلسل جاری ہیں۔ اس صورتحال میں، امدادی کارروائیوں میں دشواری کا سامنا ہو رہا ہے، مگر حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ پھنسے ہوئے مزدوروں کو جلد از جلد بچایا جا سکے۔ اس حادثے نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور حکومت کی تمام ٹیمیں اس امدادی کارروائی میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ باقی افراد کو بھی جلد محفوظ کر لیا جائے گا۔ مزید پڑھیں: دو سال پہلے ہونے والے ٹرین حادثے کی یاد میں لاکھوں یونانی سڑکوں پر

رمضان کی آمد: پاکستان میں مہنگائی کے بارے میں سروے کیا کہتا ہے؟

پاکستان میں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس کے ساتھ ہی عوام کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والے معاشی چیلنجز کے ساتھ، پاکستان کی عوام کی زندگیوں میں مہنگائی، بے روزگاری اور مالی عدم استحکام کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حالیہ سروے، جو آئی پی ایس او ایس پاکستان نے کیا ہے، انہوں نے ملک کے معاشی حالات اور عوامی مالی صورتحال پر ایک تلخ حقیقت کو سامنے رکھا ہے۔ سروے کے نتائج میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ 88 فیصد پاکستانیوں کے لیے روزمرہ اشیاء کی خریداری ایک پیچیدہ اور مشکل عمل بن چکا ہے۔ رمضان کے مہینے میں جب لوگوں کی ضروریات میں اضافے کا سامنا ہوتا ہے، ایسے میں اشیائے خوردونوش کی خریداری پاکستانی عوام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ اس سروے میں شامل 88 فیصد افراد نے کہا ہے کہ وہ مستقبل میں پیسے بچانے کے قابل نہیں ہوں گے، جب کہ 94 فیصد کا خیال ہے کہ گاڑی یا جائیداد خریدنا اب ان کے لیے تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ سروے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ 81 فیصد پاکستانی عوام نے اپنے یا اپنے قریبی افراد کے کاروبار یا نوکریوں کے جانے کے خوف کا اظہار کیا ہے، جس سے معاشی عدم استحکام کی ایک اور گھنٹی بج رہی ہے۔ سروے کے مطابق، 70 فیصد افراد نے ملک کی موجودہ سمت کو غلط قرار دیا ہے۔ عوام کے لیے اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ حکومت کے معاشی فیصلے عوام کی ضروریات کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے باوجود 69 فیصد پاکستانی مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں، جبکہ 61 فیصد بے روزگاری کو ملک کا سب سے بڑا چیلنج گردانتے ہیں۔ 63 فیصد افراد نے ملکی معیشت کو کمزور قرار دیا اور 40 فیصد کو خدشہ ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں ملکی معیشت مزید بگڑ سکتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ:سڑک کنارے بم دھماکے سے راہگیروں سمیت 9 افراد زخمی سروے کے نتائج میں یہ بھی شامل ہے کہ 60 فیصد پاکستانیوں کو اپنی ذاتی مالی صورتحال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس سب کے باوجود سروے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ اہم اشاریے جیسے کہ ملکی سمت اور گھریلو خریداری کا اعتماد، کچھ حد تک بہتر ہوئے ہیں، لیکن عوام کے درمیان مہنگائی اور روزگار کے تحفظ کے حوالے سے خدشات بدستور موجود ہیں۔ ایپسوس پاکستان کے ‘سی ای او عبدالستار بابر’ نے سروے کے نتائج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ “اگرچہ اکثریت معیشت اور روزگار کے تحفظ کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے، لیکن امید کی سطح میں اضافہ حکومت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر حکومت ایک مربوط اور مستحکم حکمت عملی اپنائے، تو عوامی اعتماد میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔” عالمی سطح پر پاکستانی صارفین کا اعتماد بھارت اور چین جیسے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے لیکن برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کے مقابلے میں پاکستان بہتر پوزیشن پر ہے۔ اس سب صورتحال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کو ابھی بھی کئی معاشی اور حکومتی چیلنجز کا سامنا ہے جن پر حکومت کو مسلسل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لازمی پڑھیں: ’وزیرڈبل سے پہلے سنگل ڈیکربس تو چلا کردکھائیں‘ حافظ نعیم کی سندھ حکومت پرکڑی تنقید یہ سروے ایپسوس پاکستان نے مکمل طور پر آزادانہ طور پر کیا ہے، اور اس میں کسی بیرونی ادارے یا اسپانسر کا مالی یا تکنیکی تعاون شامل نہیں تھا، تاکہ نتائج مکمل طور پر غیر جانبدار اور شفاف ہوں۔ سروے 11 سے 18 فروری 2025 کے درمیان پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے 1000 شہریوں سے حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے۔ یہ سروے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رمضان المبارک کا آغاز ہونے والا ہے اور حکومت نے مہنگائی کو سنگل ڈیجٹ میں لانے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے دعوے کیے ہیں۔ تاہم، عوام کی مایوسی اور خدشات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ حکومت کے دعوے زمینی حقیقتوں سے میل نہیں کھا رہے ہیں۔ رمضان کی آمد میں جب عوام روزمرہ کی ضروریات کی خریداری کے لیے پریشان ہیں، تو حکومت کے لیے عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کے بعد پنجاب کابینہ میں توسیع کا فیصلہ، کتنے اراکین شامل؟