April 19, 2025 10:24 pm

English / Urdu

امریکی ریاست آئیووا میں صنفی شناخت کے تحفظات ختم کرنے کا بل منظور

پہلے ریاستی سینیٹ نے اسے جماعتی بنیادوں پر منظور کیا، اس کے فوراً بعد ریاستی ایوانِ نمائندگان نے بھی اسے منظور کر لیا

آئیووا کی ریاستی اسمبلی نے جمعرات کو صنفی شناخت کے تحفظات کو سول رائٹس کوڈ سے نکالنے کا بل منظور کر لیا، جس پر ریاست بھر میں زبردست احتجاج دیکھنے میں آیا۔   یہ قانون سازی امریکہ میں اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے، جو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حوالے سے بدلتے رویوں کو قانونی شکل دے سکتا ہے۔   شدید مخالفت کے باوجود قانون سازی مکمل معمول کے خلاف یہ بل نہایت ہی کم عرصے میں یعنی صرف ایک ہفتے میں اسمبلی سے منظور کر لیا گیا۔   پہلے ریاستی سینیٹ نے اسے جماعتی بنیادوں پر منظور کیا، اس کے فوراً بعد ریاستی ایوانِ نمائندگان نے بھی اسے منظور کر لیا، جہاں پانچ ریپبلکن اراکین نے بھی ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر اس کی مخالفت کی۔   بل میں کیا تبدیلیاں کی گئیں؟ بل کے تحت: “صنفی شناخت” کو ایک محفوظ شدہ (Protected) قانونی درجہ سے ہٹا دیا گیا۔ “جنس” (Sex) اور “جینڈر” (Gender) کو مترادف قرار دیا گیا، اور جینڈر کو “صنفی شناخت” کے طور پر تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ٹرانس جینڈر افراد کو بیت الخلاء، لاکر رومز اور کھیلوں میں شرکت کے مخصوص قوانین کے تحت مزید محدود کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ ووٹنگ کے دوران شدید مظاہرے جب قانون ساز ادارے میں بل پر ووٹنگ ہو رہی تھی، اس دوران سینکڑوں ٹرانس جینڈر اور ایل جی بی ٹی کیو+ حقوق کے حامی مظاہرین ریاستی کیپٹل میں جمع ہوئے۔ مظاہرین نے “ٹرانس رائٹس ہیومن رائٹس ہیں” کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے “No Hate In Our State” کے نعرے لگائے۔   ایوان کی گیلری میں موجود مظاہرین نے بل کی منظوری پر “Shame!” کے نعرے لگائے، جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔   ریپبلکن حامیوں کا مؤقف بل کے حامیوں نے اسے “حقیقی جینڈر شناخت کے دفاع” کا نام دیا۔ ریپبلکن رکنِ اسمبلی اسٹیون ہولٹ نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا “یہ قانون فطری حقیقت اور بچوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ ہم صنف کی وہ تعریف مانتے ہیں جو فطرت نے دی ہے، نہ کہ وہ جو جدید نظریات میں تبدیل کی جا رہی ہے۔”   آئیووا اسمبلی کی پہلی اور واحد ٹرانس جینڈر رکن، ایمی وِشٹنڈہل نے بل کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا “میں نے اپنی زندگی بچانے کے لیے ٹرانزیشن کی۔ اس بل کا مقصد ہمیں عوامی زندگی سے مٹانا اور ہماری شناخت کو غیر قانونی بنانا ہے۔”   بل اب ریپبلکن گورنر کم رینالڈز کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جائے گا۔   ماضی میں انہوں نے ٹرانس جینڈر طلبہ کے لیے کھیلوں اور عوامی بیت الخلاء تک رسائی پر پابندی کے قوانین پر دستخط کیے ہیں، اس لیے قوی امکان ہے کہ وہ اسے بھی منظور کر لیں گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ قانون یکم جولائی سے نافذ ہو جائے گا۔   قومی سطح پر اثرات ماہرین کے مطابق، یہ قانون امریکہ میں پہلی بار صنفی شناخت کے تحفظ کو ختم کرنے والا باضابطہ اقدام ہوگا۔   امریکہ کی تقریباً آدھی ریاستوں میں جنس اور صنفی شناخت کے تحفظات موجود ہیں، لیکن آئیووا کا فیصلہ اس سمت میں ایک نئی قانونی مثال قائم کر سکتا ہے۔   کئی ریپبلکن ریاستیں پہلے ہی صنف کی تعریف کو “پیدائشی جنسی اعضا” سے منسلک کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر آئیووا میں یہ قانون نافذ ہو گیا تو یہ دیگر ریاستوں کے لیے بھی ایک نئی نظیر بن سکتا ہے۔

پنجاب کی تمام جیلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ ہوگیا

ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق پنجاب بھر کی 43 جیلوں کو سولر انرجی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے حتمی پلان وزیراعلی پنجاب کی منظوری کے لیے  پیش کر دیا۔ محکمہ داخلہ نے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کی مدد سے تمام جیلوں کا ابتدائی سروے مکمل کیا۔ سروے کے دوران جیلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے لیے   لاگت کا تخمینہ بھی لگایا گیا۔ پنجاب کی 43 جیلوں میں بجلی اور گیس کا سالانہ بل ساڑھے 4 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ تمام 43 جیلوں کی مکمل طور پر شمسی توانائی پر منتقلی کی کل لاگت ایک سال کے بلوں سے بھی کم ہے۔ این آر ٹی سی کے مطابق پنجاب کی تمام جیلوں کو 4 ارب 35 کروڑ کی لاگت سے شمسی توانائی پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق گرین انرجی کے مجوزہ حل پر مرحلہ وار عملدرآمد سے بجلی کے بلوں میں 60 فیصد کمی آئے گی۔ شمسی توانائی پر منتقلی سے 3 سالوں میں تمام سرمایہ کاری کی واپسی کے ساتھ طویل مدتی مالی ریلیف ملے گا۔ شمسی توانائی پر منتقلی سے پنجاب کی جیلیں توانائی میں خود کفیل ہوں گی اور خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔ گزشتہ سالوں میں بجلی اور گیس کے بلوں میں ریکارڈ اضافے کے باعث گرین انرجی پر منتقلی کا فیصلہ کیاگیا۔ محکمہ داخلہ نے پنجاب کی تمام جیلوں کو شمسی توانائی پر منتقلی کا پلان صوبائی کابینہ کو پیش کرنے کی درخواست کر دی۔ منصوبے کے لیے   جاری مالی سال کے دوران 2 ارب روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ صوبائی خزانے پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے   پنجاب بھر کی تمام جیلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔        

ہم برطانیہ کے ساتھ ایک زبردست تجارتی معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا اور برطانیہ ایک نئے تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں، جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ انہوں نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معاہدہ امریکی محصولات کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ٹرمپ نے کہا، “ہم ایک زبردست تجارتی معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، اور اس پر کام جاری ہے۔” اسٹارمر نے بھی تصدیق کی کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک نئے اقتصادی معاہدے پر کام شروع ہو چکا ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ اس معاہدے کا ابتدائی خاکہ بہت جلد تیار ہو جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ان کے وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ، نائب صدر جے ڈی وینس، کامرس سیکرٹری ہاورڈ لوٹنک، اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کام کر رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اسٹارمر نے انہیں امریکی برآمدات پر لگائے گئے محصولات ختم کرنے پر قائل کیا ہے، تو ٹرمپ نے ہنستے ہوئے کہا، “اس نے پوری کوشش کی،” اور اسٹارمر کی گفت و شنید کی مہارت کی تعریف کی۔ برطانوی وزیر خزانہ ریچل ریوز نے بھی کہا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکی محصولات کی دھمکیوں کے باوجود امریکا اور برطانیہ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری متاثر نہیں ہوگی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب ٹرمپ پہلی بار صدر تھے، تب بھی دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا تھا، اور انہیں امید ہے کہ ایسا دوبارہ ہوگا۔ 2023 میں، امریکا اور برطانیہ کے درمیان تجارت کا حجم 317 بلین ڈالر رہا، جس سے برطانیہ، امریکا کا پانچواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔ امریکا، برطانیہ کے لیے سب سے بڑا قومی تجارتی پارٹنر ہے، حالانکہ برطانیہ مجموعی طور پر یورپی یونین کے ساتھ زیادہ تجارت کرتا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ محصولات کے معاملے پر بات چیت کی جا سکتی ہے، لیکن وہ یورپی یونین کے ممالک پر زیادہ تجارتی محصولات لگانے کے لیے زیادہ سنجیدہ ہیں۔  

آپریشن سوئفٹ ریٹوٹ کے چھ سال

آپریشن سوئفٹ ریٹوٹ پاکستان کی وہ تاریخ ہے جو ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف مرحوم تو اس جگہ کوریج کرنے پہنچ گئے جہاں ہندوستان نے رات کی تاریکی میں چھپ کر حملہ کیا تھا۔ یہ بالا کوٹ کا علاقہ جابہ تھا اس وقت درجہ حرارت منفی میں تھا لیکن ارشد شریف ہندوستان کے اس ناکام حملے کے تمام تر شواہد سامنے لے کر آئے۔ یہ ایک فیک سرجیکل سٹرائک تھی یہاں تک کے ان خلاف ہندوستان میں مقدمے درج کرنے کی درخواست دی گئی اور انکے ٹویٹراکاونٹ کو بھی بند کرانے کی کوشش کی گئی۔ میں بھی اس حوالے سے حقائق سامنے لا رہی تھی، ہندوستانی ٹرول آرمی نے مجھے سوشل میڈیا پر اٹیک کرنا شروع کر دیا۔ پر ہم دونوں ڈٹے رہے اور اپنا اپنا کام کرتے رہے۔ ۲۷ فروری ۲۰۱۹ کا سورج اپنے ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کرگیا۔ پاکستانی ائیرفورس نے ہندوستان کو ان کے گھر میں گھس کر مارا۔ ہندوستان یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کی طرف سے جواب اتنا شدید ہوگا۔ وہ آہستہ آہستہ سازش بن رہے تھے خود اپنے ملک میں فالس فلیگ آپریشن کروایا اور الزام پاکستان پر لگا کر حملہ کرنے کی ٹھان لی۔ پلوامہ ایک فالس فیلگ آپریشن تھا تاکہ حملہ کر کے مودی سرکار انتخابات میں جیت حاصل کر لے اگر اس بات پر غور کریں کہ جس فوجی قافلے پر حملہ ہوا اس حملے میں نچلی ذات کے فوجی زیادہ مارے گئے جس کشمیری نوجوان عادل ڈار پر اس حملے کا الزام لگا وہ کچھ ماہ سے لاپتہ تھا اور وہ اتنا گولہ بارود کیسے مقبوضہ کشمیر میں لے کر جا سکتا تھا جہاں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج تعینات ہے۔ ہندوستان کو کبھی مجرم ڈھوںڈنے بنانے میں مشکل ہو رہی تھی تو کبھی سہولت کاری کا الزام لگانے کے لئے کسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔اچانک ہندوستان نے شور کرنا شروع کر دیا کہ عبدالرشید غازی مرحوم اس کے منصوبہ ساز ہیں حالانکہ وہ لال مسجد آپریشن میں جان کی بازی ہار گئے تھے تو وہ کیسے ۲۰۱۹ میں کسی حملے کی منصوبہ بندی کرسکتے تھے۔ ۱۴ فروری کو مقبوضہ کشمیر میں حملہ ہوتا ہے سی آر پی ایف کے چالیس اہلکار مارے جاتے ہیں اور ۸ زخمی ہوتے ہیں۔ پندرہ فروری کو مودی سرکار پاکستان پر الزام لگا دیتی ہے۔ اس ہی روز پاکستانی وزارت خارجہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اس ہی وقت خطرے کو بھانپ کر سب کے سامنے اعلان کر دیا تھا کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ ۲۰ فروری کو اقوام متحدہ نے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کی تاہم دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار رہی۔ ہندوستان نے یہ کہا کہ عادل ڈار کا تعلق جیش سے اور جیش کو مولانا مسعود اظہر نے ۲۰۰۰ کی دہائی میں بنایا تھا جس پر اس وقت کی مشرف حکومت نے پابندی لگا دی تھی۔ اس لئے یہ بات ایک مفروضہ ہی لگ رہی تھی کہ ایک غیر فعال تنظیم ہندوستان میں کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے حملہ کر دے۔ دوسری طرف ہندوستان نے پاکستان کے خلاف آپریشن لانچ کر دیا اور اسکو آپریشن بندر کا نام دیا۔ آپریشن بندر کے تحت ہندوستان کی ائیرفورس نے بالا کوٹ میں جیش کا ہیڈ کوارٹر تباہ کرنا تھاْ۔ ہندوستان نے بہاولپور، لاہور اور سیالکوٹ سیکٹرز کی طرف پیش قدمی کی جس کو پاکستان کی ائیر فورس نے روک دیا تاہم ہندوستان لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ میں داخل ہوا انکی جہازوں کی فارمیشن فائیو ناٹیکل مائل تک اندر آئی۔ جیسے ہی پاک فضائیہ ان کے مدمقابل آئی تو ہندوستانی طیارے جابہ کے مقام پر پے لوڈ گراکر بھاگ گئے۔ مرحوم ارشد شریف جابہ پہنچنے والے سب سے پہلے صحافی تھے انہوں دیکھا کہ وہاں درختوں اور جنگل کو جزوی نقصان ہوا اور وہاں کوئی ہیڈ کوارٹر موجود نہیں ہے۔ ۲۷ فروری کو پاکستان نے دن کی روشنی میں منہ توڑ جواب دیا۔ پاک فضائیہ نے ملٹری ٹارگٹ لئے اور انکی فوجی تنصیبات کے پاس بم گرائے۔ پاکستان کی فارمیشن میں ایف سولہ جے ایف ۱۷ تھنڈر شامل تھے۔ جب دونوں ممالک کے طیارے مدمقابل آئے تو پاکستان نے ہندوستان کے دو طیارے تباہ کیے جس میں سو تھرٹی کا ملبہ ہندوستان میں گرا اور ابھی نندن کا جہاز مگ ۲۱ آزاد کشمیر میں کریش کرگیا اوراس کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ پاک فضائیہ نے ٹارگٹ لاک کرنے اور حملے کی ویڈیو بھی جاری کی جبکہ ہندوستان آج تک ایسا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔ پاکستان کے تمام پائلٹس اور ان گراونڈ عملے نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان، ونگ کمانڈر فہیم احمد اور سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کو تمغوں سے نوازا گیا۔ ہندوستان شکست فاش کے بعد بھی باز نہیں آیا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ ابھی نندن نے جہاز تباہ ہونے سے پہلے پاکستان کا ایف سولہ طیارہ گرایا۔ اسلام آباد ائیر ہیڈ کوارٹرز میں ابھی نندن کے جہاز کا ملبہ دیکھایا گیا تو اس کے جہاز کے میزائل جزوی جلے ہوئے سالم حالت میں موجود تھے۔ میں نے ارشد نے بھی اس روز جنگ لڑی تھی۔ ارشد جابہ گئے، ٹی وی شوز کیے اور ٹویٹر کا محاذ سنبھالا جبکہ میں نے جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جوکہ فیک نیوز کے خلاف تھی۔  بھارتی حکومت اور میڈیا وار ہسٹیریا بڑھا رہے تھے اور پاکستانی حکومت مسلح افواج اور میڈیا نے بہت احتیاط ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ آج چھ سال ہوگئے اور ہم فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کے دفاع کا حصہ بنے اور اپنے سامنے پاکستان کی کامیابی دیکھی۔

ٹرمپ کامیکسیکو اور کینیڈا پر 25 فیصد، چین پر اضافی 10 فیصد ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان

ٹرمپ نے 4 فروری کو پہلے ہی چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا، جس کے بعد نئی اضافی ڈیوٹی کے ساتھ مجموعی ٹیرف 20 فیصد ہو جائے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ میکسیکو اور کینیڈا سے درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف 4 مارچ سے نافذ ہو جائے گا، جبکہ چینی اشیاء پر اضافی 10 فیصد ڈیوٹی بھی عائد کی جائے گی۔   ٹرمپ کے مطابق، یہ اقدامات امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والی مہلک منشیات، خاص طور پر فینٹینائل (Fentanyl) کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔   چین کے لیے “دوہرا جھٹکا” ٹرمپ نے 4 فروری کو پہلے ہی چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا، جس کے بعد نئی اضافی ڈیوٹی کے ساتھ مجموعی ٹیرف 20 فیصد ہو جائے گا۔   اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں کہا: فینٹینیل جیسی غیر قانونی منشیات کو امریکہ میں سمگل کیا جا رہا ہے، درآمدی ٹیکس دوسرے ممالک کو اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے پر مجبور کرے گا۔   تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی؟ یہ فیصلے عالمی تجارتی تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کر سکتے ہیں، خصوصاً چین کے ساتھ، جس نے پہلے ہی امریکی ٹیرف پالیسیوں پر شدید ردعمل دیا ہے۔   اب دیکھنا یہ ہے کہ میکسیکو، کینیڈا اور چین ان اقدامات پر کیا ردعمل دیتے ہیں اور کیا یہ سخت تجارتی پالیسیاں فینٹینائل بحران پر قابو پانے میں واقعی مؤثر ثابت ہوں گی یا نہیں؟

امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو ملازمین کی برطرفی سے روک دیا

عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفی سے روک دیا گیا کیلیفورنیا کے ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو عارضی طور پر روکا ہے کہ وہ امریکی محکمہ دفاع اور دیگر وفاقی ایجنسیوں میں حال ہی میں بھرتی کیے گئے ہزاروں ملازمین کو برطرف نہ کرے۔ سان فرانسسکو کے جج ولیم السوپ نے کہا کہ امریکی دفتر برائے پرسنل مینجمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی بھی وفاقی ایجنسی کو ملازمین، خاص طور پر نئے بھرتی کیے گئے پروبیشنری ملازمین، کو نکالنے کا حکم دے۔ ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک حکومت کے محکموں اور ملازمین کی تعداد کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس پر ڈیموکریٹس، یونینوں اور وفاقی کارکنوں نے سخت احتجاج کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کٹوتیاں غیر قانونی ہیں اور حکومتی کاموں میں مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ انتظامیہ پہلے ہی کچھ اہم ملازمین کو واپس بلانے پر مجبور ہو چکی ہے، مگر ٹرمپ نے مسک کی مکمل حمایت کرتے ہوئے 6.7 ٹریلین ڈالر کے امریکی بجٹ میں سے 1 ٹریلین ڈالر کم کرنے کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔ بجٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملازمتوں میں کمی سے مسک کا ہدف حاصل نہیں ہوگا، بلکہ ممکنہ طور پر حکومتی فلاحی منصوبوں میں بھی کٹوتی کرنا پڑے گی۔ جمعرات کو موسمیاتی تحقیق کرنے والے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے سیکڑوں نئے ملازمین کو بتایا گیا کہ انہیں نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔ اسی طرح، انٹرنل ریونیو سروس میں جدید کاری پر کام کرنے والے 60 ملازمین کو بھی خدشہ ہے کہ ان کی نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، او پی ایم نے کم از کم دو درجن دور سے کام کرنے والے ملازمین کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ اپنی نوکریاں برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو واشنگٹن منتقل ہو جائیں، اور انہیں 7 مارچ تک فیصلہ کرنے کا وقت دیا گیا ہے۔  

کراچی کے نوجوان کا کمال: اب کوئی بھی کتاب انگلش سے سندھی میں ترجمہ کریں

کتابیں علم و حکمت کا خزانہ ہیں، جو ہمیں نئی دنیاں دکھاتی ہیں، سوچ کے دروازے کھولتی ہیں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں، جہاں ہر چیز ڈیجیٹل ہو چکی ہے، مطالعے کے شوقین افراد کے لیے ایک نئی اور منفرد ایپلیکیشن متعارف کرائی گئی ہے جو انگلش اور سندھی زبان میں کتابوں کے ذخیرے تک آسان رسائی فراہم کرتی ہے۔ یہ ایپلیکیشن نہ صرف علم کے متلاشیوں کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے بلکہ سندھی زبان و ادب کو فروغ دینے کا بھی ایک اہم ذریعہ ثابت ہوگی۔ چاہے آپ جدید ادب پڑھنا چاہتے ہوں یا کلاسیکی کتابوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں، یہ پلیٹ فارم ہر ذوق کے قارئین کے لیے بہترین انتخاب ہے۔ اب مطالعہ پہلے سے کہیں زیادہ آسان اور دلچسپ ہو گیا ہے، کیونکہ آپ کسی بھی وقت، کہیں بھی اپنی پسندیدہ کتاب پڑھ سکتے ہیں۔

چیمپئنز ٹرافی:افغانستان اور آسٹریلیا اہم میچ میں آج مدمقابل

چیمپئنز ٹرافی میں کھیلے جانے والے گروپ بی کے اہم میچ میں افغانستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں آج آمنے سامنے آئیں گی۔ افغانستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں آج گروپ مرحلے میں اپنے آخری میچ میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں مدمقابل ہوں گی۔ آسٹریلیا اور افغانستان کا میچ دونوں کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے، جو ٹیم جیتی سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی۔ اگر افغانستان کی ٹیم ہاری تو وہ ایونٹ سے باہر ہو جائے گی لیکن آسٹریلیا ہارا تو وہ سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر نہیں ہوگا اور اسے ہفتے کو انگلینڈ اور جنوبی افریقا کے میچ کا انتظار کرنا ہوگا۔ آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے ابھی 3،3 پوائنٹس ہیں البتہ رن ریٹ افریقا کا بہتر ہے۔افغانستان 2 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا نے افغانستان کے خلاف میچ کی تیاری انڈور میں کی جبکہ بارش کے باعث افغانستان کی ٹیم کا پریکٹس سیشن منسوخ کر دیا گیا۔ افغانستا ن کے کپتان حشمت اللہ شاہدی کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کو ہراسکتے ہیں تو آسٹریلیا کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ دوسری جانب آسٹریلوی ٹیم کے بیڑ مارنوس لبوشین نے کہا کہ اُن کے بیٹر فار م میں ہیں،گروپ میں پہلی پوزیشن حاصل کریں گے۔ واضح رہے کہ افغانستان اور آسٹریلیا کے درمیان میچ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں دوپہر 2 بجے شروع ہوگا۔

جمہور ہی جمہوریت سے دور، بلدیاتی انتخابات نہ کروا کے حکومت کیا چاہتی ہے؟

پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ڈھول تو بجایا جاتا ہے، مگر اس کی گونج محض شور ثابت ہوتی ہے، جو حقیقت میں آمرانہ طرزِ حکومت کے تسلسل کے سوا کچھ ظاہر نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات بھی جمہوریت کے نام پر قربان کیے جاتے رہے ہیں، خاص طور پر پنجاب میں گزشتہ 10 سالوں سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے،کبھی لوکل گورنمنٹ کے قوانین میں تبدیلی کو جواز بنا کر معاملہ ٹال دیا جاتا ہے تو کبھی سیکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر التوا کا شکار کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 1956ء سے لوکل گورنمنٹ سسٹم متعارف کرایا گیا، لیکن بااثر حکمرانوں نے ہمیشہ عوامی سطح پر اختیارات کی تقسیم کی ہر کوشش کو ناکام بنایا،آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت بلدیاتی اداروں کو سیاسی، مالی اور انتظامی خودمختاری دی گئی ہے، مگر اس کا فائدہ لوکل گورنمنٹ کے بجائے اراکینِ پارلیمنٹ اپنے نام کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلیوں، نالیوں اور محلوں کے فنڈز بھی عام آدمی کے نمائندوں کے بجائے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے اختیار میں رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے کوئی بھی جمہوری حکومت اپنے اراکینِ اسمبلی کے بجائے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے کے حق میں نہیں رہی، حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے ادوار میں ہی نسبتاً بااختیار بلدیاتی نظام متعارف کرائے گے، جنہیں ہر آنے والی جمہوری حکومت نے ختم کر دیا، ہر حکومت نے بلدیاتی انتخابات کو ٹالنے کے حربے اپنائے کیونکہ اگر یہ انتخابات ہو جائیں تو بلاواسطہ لوکل گورنمنٹ کے اختیارات عام آدمی کو منتقل ہو سکتے ہیں، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ الیکشن کمیشن نے تین مرتبہ حلقہ بندیاں مکمل کیں اور انتخابی شیڈول جاری کیا، لیکن اس کے باوجود صوبے میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا،پنجاب حکومت کی جانب سے مؤثر حکمتِ عملی اختیار نہ کیے جانے پر الیکشن کمیشن میں سماعت ہوئی، جس میں پنجاب حکومت کو جلد از جلد قانون سازی مکمل کرنے اور بلدیاتی انتخابات یقینی بنانے کا حکم دیا گیا۔ سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی الیکشن کمیشن اپنی تیاریاں مکمل کرتا ہے، تو صوبائی حکومتیں قوانین میں ترامیم کر دیتی ہیں، بدقسمتی سے کوئی بھی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کے مطابق، پنجاب حکومت نے پانچ مرتبہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کی، جس کے باعث انتخابات کے انعقاد میں مسلسل رکاوٹ پیدا کی جاتی رہی۔ اگر بلدیاتی انتخابات کے ذریعے مقامی اداروں کو فعال کر دیا جائے تو گلیوں، نالیوں اور محلوں کے بنیادی مسائل عام آدمی کی دہلیز پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میٹرز نے جب ضلع کونسل خانیوال کے سابق چیئرمین انجینئر محمدرضا سرگانہ سے سوال اٹھایا کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے کس طرح عوام کی خدمت کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ مقامی حکومتیں دراصل عوام کی نچلی ترین سطح پہ نمائندگی کرتی ہیں اور نمائندےاپنے مسائل کی ترجیحات کو ازسرِ نو ترتیب دے کروسائل کے مطابق حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جس سے عام آدمی کے بلواسطہ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ ’یہ حقیقت تو بہر کیف جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہر دفعہ جمہوری ادوار میں ہی مقامی حکومتوں پہ شب خوں مارا جاتا رہا ہے، تاکہ اختیارات کو نچلی ترین سطح سے چھین کر مرکز تک ہی محدود کر دیا جائے‘۔ آئین کے آرٹیکل 140اے  (2) اور الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 219 کے تحت الیکشن کمیشن صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا پابند ہے۔ وفاق سمیت تین صوبوں اور کنٹونمنٹ میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں، مگر پنجاب میں تاحال انتخابات نہیں کرائے جا سکے۔ روزنامہ مشرق نیوز کے ایڈیٹر اشرف سہیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے اور جمہوریت کے نام پر جو بد دیانتیاں کی جاتی ہیں ان میں بلدیاتی اداروں کے ساتھ نہ انصافی سر فہرست ہے، کسی بھی جمہوری معاشرے، ملک اورجہاں بھی جمہوری سیاسی نطام ہو وہاں پر بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانا ضروری ہوتا ہے ۔ ’ہمارے ہاں بد قسمتی یہی رہی ہے کہ جب بھی جمہوری حکومتیں آئی ہیں انہوں نے بلدیاتی نظام کو بر طرح متاثر کیا ہے اس میں باقائدہ بد دیانتی اختیار کی گئی ہے اور سیاسی پارٹیز تمام کی تمام اس میں برابر کی شریک رہی ہیں، کس حد تک پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختو نخوا میں بلدیاتی نظام کو متعارف کرایا لیکن پی ٹی آئی نے بھی کچھ خاص اس  کو ترجیع نہیں دی‘۔ ایڈیٹر اشرف سہیل نے بلدیاتی نظام کامیاب نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بلدیاتی نظام قاصر ہونے کی سب سے بڑی وجہ  یہ ہےکہ ہماری سیاسی جماعتیں اور  ہماری پارلیمانی سیاست کا دارومدار شروع سے ہی ایم این اے اور ایم پیز پر ہے، ہماری قوم سمجھ ہی نہیں پا رہی کہ ایم این اے اور ایم پی اے کا کام نالیاں، گلیاں اورسیورج سسٹم کا نہیں ہے،ان کاکام ملکی اور عالمی سطح پر پالیسیز کو ترتیب دینا ہے،ان کو چاہیے قانون سازی کریں اور آئینی معاملات کو دیکھیں لیکن اراکین پارلیمنٹ اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیز پر عمل درآمد کرتے ہیں ۔ ’اراکین پارلیمنٹ نے لوگوں کو اسی چکر میں الجھایا ہوا ہے کہ ترقیاتی کام صوبائی اورقومی اسمبلی کے ممبران کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی ترقیاتی فنڈ ہوتے ہیں انہوں نے اپنے ہاتھوں رکھا ہوتا ہے حالانکہ اصولی طور پر یہ تمام بلدیاتی اداروں کو ٹرانسفر ہو جانے چاہیے‘۔ مشرق نیوز کے ایڈیٹر کا مزید کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے فنڈ بلدیاتی ادروں کے ناظم اور کونسلر کو ملنے چاہئیں  تا کہ وہ تعلیم، صحت، ترقیاتی شعبوں میں کام کریں  اور وہ زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ عام آدمی کے ساتھ زیادہ جڑے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کے بکل برعکس کیا جاتا ہے۔ بلدیاتی نطام کسی بھی معاشرے کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، پاکستان میں اس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی جماعتیں ، سماجی بہبود