سیاہ فام ملازمین ٹرمپ انتطامیہ کے نشانے پر : اہم خاتون افسر زبردستی ریٹائر

امریکی فوج کی لیفٹیننٹ جنرل ٹیلیٹا کراس لینڈ، جو فوج کے صحت کے ادارے کی سربراہ تھیں اور فوج کی اعلیٰ ترین سیاہ فام خاتون افسروں میں سے ایک تھیں، کو جمعہ کے روز زبردستی ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور دیگر سینئر افسران کو برطرف کیے جانے کے صرف ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔ اگرچہ کراس لینڈ کی ریٹائرمنٹ کا باضابطہ اعلان کیا گیا تھا، لیکن خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انہیں اپنے 32 سالہ فوجی کیریئر کو ختم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جمعہ کے روز، قائم مقام اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع برائے صحت، اسٹیفن فرارا نے اعلان کیا کہ کراس لینڈ نے اپنی ریٹائرمنٹ شروع کر دی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ میں گزشتہ 32 سالوں میں قوم، ملٹری ہیلتھ سسٹم، اور آرمی میڈیسن کے لیے کراس لینڈ کی لگن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ تاہم، ایک موجودہ اور ایک سابق فوجی اہلکار نے بتایا کہ کراس لینڈ کو زبردستی ریٹائر کیا گیا اور انہیں اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ پینٹاگون نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ کراس لینڈ کو کیوں ریٹائر کیا گیا۔ وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ فوج میں تنوع، مساوات، اور شمولیت کے پروگراموں کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق یہ تفرقہ پیدا کرتے ہیں۔ گزشتہ سال، ہیلتھ ایجنسی کی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں، کراس لینڈ نے کہا تھا کہ وہ اپنی نسل یا جنس کی بنیاد پر اپنی شناخت نہیں کرتیں۔ “میں اپنی نسل یا اپنی جنس کے لحاظ سے یہ طے نہیں کرتی کہ میں دن رات کیا کرتی ہوں۔ یہ ہمیشہ میرے لیے ایک مشکل سوال رہا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس لیے نہیں کہ میں ذمہ داری کو نہیں سمجھتی۔ یقینی طور پر، فوج میں خاتون ہونے کے چیلنجز ہیں، اور افریقی نژاد امریکی ہونے کے بھی چیلنجز ہیں۔ ٹیلیٹا کراس لینڈ کی جبری ریٹائرمنٹ کو فوج میں تنوع اور مساوات کے خاتمے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس اقدام پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا یہ پالیسی فوج میں کم نمائندگی والے گروہوں کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ تاہم، پینٹاگون نے اس فیصلے پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا۔
مسلم لیگ ن کو کسی ‘سیانے’ کی ضرورت ہے

ہمارے ہاں دیہات، قصبات میں عام رواج ہے کہ اگر کوئی مریض صحت یاب نہ ہو رہا ہو، حکیم، ہومیو پیتھک اور محلے، شہر کے ڈاکٹروں سے معاملہ نہ سنبھلے، مریض کو قریبی بڑے شہر لے جا کر دکھایا جائے اور تب بھی اگر مریض کی حالت نہ سدھرے تو پھر بڑے بوڑھوں میں سے کوئی مشورہ دیتا ہے کہ اسے کسی سیانے کو دکھاؤ۔ یہ سیانا ٗکوئی بھی ہوسکتا ہے، دم درود کرنے والا کوئی بزرگ، کسی قدیمی ٹوٹکے کا مالک کوئی عمر رسیدہ آدمی یا پھر کوئی دوردراز کا ایسا حاذق حکیم جس کے نسخے صدیوں سے سینہ در سینہ چلے آ رہے ہیں اور جس کی شہرت بھی اسی طرح پھیلی ہو۔ مسلم لیگ ن کا بھی یہی حال ہے۔ یہ پارٹی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرے، اس کے لیے ہر ممکن نسخے، ہر تجویز اور مشورے پر عمل ہو رہا ہے، (براہ کرم لفظ مقبولیت کو ماضی بعید کے صیغے میں پڑھیں، انگریزی میں اسے شائد پاسٹ پرفیکٹ کہتے ہیں)۔ بدقسمتی سے ان تمام کوششوں کے نتائج نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ن لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کسی قسم کا سحر ان پر پھونکا گیا ہے یا کچھ اور۔ ان سے بات بن نہیں رہی۔ ویسے اس کی اصل ذمہ داری خود ن لیگ پر عائد ہوتی ہے۔ یہ آج کے دور میں یعنی دو ہزار پچیس (2025) میں نوے کے عشرے کی سیاست کر رہی ہے۔ وہی پرانے ہتھکنڈے ، حربے، حیلے، ہوشیاریاں۔ یہ سب کچھ اتنی آوٹ آف ڈیٹ اور فرسودہ حرکتیں لگتی ہیں کہ اب اس پر تنقید کرنے کا بھی جی نہیں چاہتا۔ یعنی یہ تنقید کے کم از کم لیول پر بھی پورا نہیں اترتیں۔ مثال کے طور پر کون ہے جو آج کل بھی اخبارات پر بطور رشوت اشتہارات کی بھرمار کر دے؟ ساٹھ ساٹھ صفحات کے سپلیمنٹ وہ بھی اخبارات کو جنہیں شائد وہاں کام کرنے والے صحافی بھی اب دلچسپی سے نہیں پڑھا کرتے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں پرنٹ میڈیا تو بہت پہلے ختم ہوا، اب تو الیکٹرانک میڈیا کی بھی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ لوگ خبر اور رائے کے لئے ڈیجیٹل میڈیا (نیوز ویب سائٹس، ولاگ وغیرہ) کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر اپنی فیس بک نیوز فیڈ اور واٹس ایپ گروپس کی طرف جاتے ہیں۔ جسے زیادہ دلچسپی ہو، وہ وی پی این چلا کر (ایکس) ٹوئٹر ٹرینڈز دیکھ لیتا ہے۔ ان سپلیمنٹس کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ فوری طور پر لاہور، پنجاب کا ٹکٹ کٹایا جائے اور بقیہ تمام عمر وہیں گزاری جائے۔ پھر اچانک یاد آگیا کہ میں پچھلے اٹھائیس برسوں سے لاہور ہی میں مقیم ہوں اور سال ڈیڈھ سے تو پنجاب سے باہر بھی نہیں گیا۔ جو کارنامے مریم نواز شریف کے گنوائے گئے ہیں، معلوم نہیں وہ کس پنجاب میں سرانجام دئیے گئے؟ بھارتی پنجاب تو ظاہر ہے نہیں ہو گا، پھر یقینی طور پر خیالی پنجاب ہی ہو سکتا ہے۔ خیر یہ تو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے کارنامے تھے جن پر کبھی الگ سے بات کریں گے۔ سردست تو جناب وزیراعظم شہباز شریف کی بات کر لیتے ہیں۔ چند دن پہلے شہباز شریف نے فرمایا کہ میں نے انڈیا کو پیچھے نہ چھوڑ دیا تو میرا نام بدل دینا۔ فیس بک پر ایک نوجوان کی پوسٹ دیکھی جس نے کچھ وقت لگا کر ریسرچ کی اور اعداد وشمار کے ساتھ ثابت کیا کہ پاکستان انڈیا کو پیچھے تب ہی چھوڑ سکتا ہے جب کرشماتی سپیڈ سے ہماری اکانومی ترقی کرےاور بھارتی معیشت اسی ایک جگہ پر رک جائے، تب بھی پاکستانی موجودہ جی ڈی پی کے حساب سے ستر سے نوے سال میں انڈیا کو کراس کرے گا۔ اس ریسرچ کے مطابق اگر پاکستان 10 فیصد سالانہ کی جناتی ترقی کی رفتار تک پہنچ جائے (جو کہ ناممکن ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کی امپورٹ خوفناک حد تک بڑھ جائے گی، تجارتی خسارہ بھیانک شکل اختیار کر لے گا، زرمبادلہ ختم ہوجائے گا اور ہم دیوالیہ ہوجائیں گے، لیکن اگر کسی معجزے سے ایسا نہ ہو) تب بھی ہمیں 20 پچیس سال لگ جائیں گے، وہ بھی تب جب اس پورے عرصے میں بھارتی معیشت بیٹھ جائے۔ یعنی اس اعتبار سے پاکستان کبھی معاشی طور پر انڈیا سے آگے نہیں نکل سکتا۔ سوال اب بس یہی ہے کہ شہبازشریف صاحب کا نام بدل کر کیا رکھا جائے؟ ہمارے ہاں عام طور سے لمبی لمبی چھوڑنے والوں کو شیخ چلی کہہ دیا جاتا ہے۔ اب پتہ نہیں میاں صاحب شیخ کہلانا پسند کریں گے یا نہیں۔ باتیں اتنی بڑی بڑی، دعوے ایسے بلند وبانگ اور حال یہ کہ کمزور حال معیشت، قرضوں سےہماری کمر ٹوٹنے کو ہے اور اس پر اتنے سارے نئے وزیر بنا لیے گئے ہیں۔ کابینہ میں اس قدر بڑے اضافے کی کیا تک اور جواز ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ صرف ہارڈ کور ن لیگی ہی اس کا دفاع یا تاویل پیش کر سکتے ہیں۔ ایک سینئر صحافی جو ن لیگ کے سابق دور میں چیئرمین پیمرا بھی رہے، انہوں نے اس اضافے پر فرمایا ہے کہ وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ کیونکہ اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر مختلف اوقات میں پریشر ڈالا جاتا تھا کہ کابینہ میں توسیع کی جائے۔ انہوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ کابینہ میں توسیع سے حکومت اور بھی مضبوط ہو گئی ہے، اتحادیوں کا اعتماد بڑھ گیا ہے اور شکایات کم ہوئی ہیں۔ ن لیگ کی حمایت اپنی جگہ لیکن اگر سینئر صحافی اس فہرست پر نظر ڈال لیتے تو سمجھ آ جاتی کہ ان گروپوں کو اگر نمائندگی نہ بھی دی جاتی تو ان میں کہاں اتنی جرات تھی کہ بغاوت کر سکتے۔ اسلام آباد سے طارق فضل چودھری، عقیل ملک، پنڈی سے حنیف عباسی جبکہ رانا مبشر، معین وٹو، عون چودھری، جنید انور وغیرہ کو بھی حصہ بنایا گیا۔ شزہ فاطمہ اور علی پرویز ملک بھی شامل ہیں۔ لودھراں سے عبدالرحمن کانجو کو بھی وزیر بنایا گیا۔ میلسی سے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جیتنے والے اورنگ زیب کھچی کو وفاداری تبدیل
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 10 سال سے التوا کا شکار کیوں ہیں؟

حکومتی سطح پر تمام تر کوششوں کے باوجود پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا ہے، جبکہ ملک کے تینوں صوبوں میں بلدیاتی الیکشن منعقد کیے جا چکے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں 10 سال سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’جمہوری حکومت نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے سے گریز کرتی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہے۔ پنجاب میں پہلے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کروا سکی، اب مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکی، جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں فوری بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے لاہور ہائی کورٹ میں صوبے میں 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔ریکارڈ کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے تین مرتبہ حلقہ بندیاں کیں اور دیگر ضروری اقدامات اٹھائے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ’بدقسمتی سے کوئی بھی جمہوری حکومت بلدیاتی انتخابات کو ترجیح نہیں دیتی، لہٰذا موجودہ حکومت بھی اس معاملے پر سنجیدہ نہیں، البتہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اگر ہوتے ہیں تو یہ الیکشن کمیشن کے احکامات پر ہوں گے۔ 26 فروری 2025 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے حکومت سنبھالتے ہی لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر کام شروع کر دیا تھا کیونکہ تمام شراکت داروں کی جانب سے رائے کا اظہار ضروری ہوتا ہے لہٰذا اب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا بنیادی مسودہ پنجاب اسمبلی میں ضروری قانون سازی کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔ پنجاب میں قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں، ہمارے امیدوار بھی طے ہیں لیکن حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے سے اس لیے گریز کر رہی ہے کہ انہیں عوام کی حمایت نہ پہلے حاصل تھی نہ ہی اب لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیا الدین انصاری نے لاہور ہائی کورٹ میں جمعرات کو درخواست دائر کی کہ ’پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جا رہے۔ آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت بلدیاتی انتخابات کروانا لازمی ہے۔ جمہوری نظام میں گراس روٹ لیول پر اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں۔ تجزیہ کار حسن عسکری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کیا، کوئی بھی جمہوری حکومت نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنے کی حامی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ ہائی کورٹ بارز کے حالیہ انتخابات میں لاہور، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں ن لیگ کے حامی امیدواروں کو شکست ہوئی، اسی طرح عوامی سطح پر ن لیگ کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں حمایت حاصل نہیں۔ اس لیے حکومت خوفزدہ ہے کہ انہیں شکست نہ ہو جائے۔ تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’بدقسمتی سے جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر عوام کو آسانیاں دینے کی بجائے تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سلمان غنی کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ماشل لا کے ادوار میں زیادہ بہتر اور بااختیار بلدیاتی حکومتیں کام کرتی رہیں۔ ان ادوار میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوئے اور لوگوں کو ضلعی حکومتوں کی افادیت کا اندازہ ہوا۔موجودہ حکومت بھی کیونکہ سیاسی جماعت کی ہے اس لیے ان کی ترجیح بھی بلدیاتی نظام کی بجائے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی سوچ دکھائی دیتی ہے۔
یوکرینی صدر کا ٹرمپ سے معافی مانگنے سے انکار

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تلخ کلامی پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا، جمعہ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، اس موقع پر میڈیا نمائندوں کے سامنے یوکرینی صدر کی امریکی صدر اور نائب سے تکرار ہوتی رہی جس کی ویڈیو کیمروں میں محفوظ ہوگئی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے صدر زیلنسکی سے کہا کہ آپ کا ملک جنگ نہیں جیت رہا، آپ ہماری وجہ سے اس جنگ سے صحیح سلامت نکل سکتے ہیں۔ اگر آپ کی فوج کے پاس ہمارا دیا ہوا عسکری سازوسامان نہیں ہوتا تو یہ جنگ 2 ہفتوں میں ہی ختم ہو جاتی۔ اس دوران یوکرینی صدر متعدد مرتبہ امریکی صدر کی بات کا جواب دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو بولنے نہیں دیا۔ٹرمپ انتظامیہ نے باقی مصروفیات منسوخ کر کے زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے چلتا کر دیا اور مشترکہ پریس کانفرنس بھی منسوخ کر دی۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد یوکرینی صدر نے ٹرمپ سے تلخ کلامی پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ یوکرینی صدر نے کہا کہ آج وائٹ ہاؤس میں جوکچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا، اگر ممکن ہو بھی جائے تو بھی وائٹ ہاؤس واپس نہیں جاؤں گا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ یوکرین کے پاس روس کو اپنی سرزمین سے نکالنے کے لیے کافی ہتھیار نہیں، یوکرین کے لیے امریکا کے بغیر روس کو روکنا مشکل ہے۔ یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی حمایت کے بغیر روسی افواج کا حملہ روکنا مشکل ہوگا، امریکا کے ساتھ یقینا تعلقات کو بچایا جا سکتا ہے، ایک شراکت دار کے طور پر امریکا کو کھونا نہیں چاہتے۔ واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے امریکہ کے انتہائی اہم عہدیداران کے ساتھ ناروا اور غصیلے لہجے میں بات کی جوکہ نہیں ہونی چاہئے تھی۔ انھوں نے کہا کہ یوکرینی صدر کو اپنے رویے کے حوالے سے وائٹ ہائوس سے معافی مانگنی چاہئے، کہ اس طرح کا انداز گفتگو عالمی سطح پر قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔
مصطفیٰ عامر قتل کیس کیوں اہم ہے: جانیے کرائم رپورٹر ثاقب صغیر کی زبانی

حال ہی میں سامنے آنے والا مصطفی عامر قتل کیس اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ تمام لوگ اس کے نت نئے انکشافات پر بات کر رہے ہیں۔ یہ کیس نا صرف قتل کا کیس ہے بلکہ منشیات کے گروہ کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر ملزمان کو گرفیار بھی کیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ معاملہ ایک کیس سے بہت بڑھ کر ہے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے سینیئر کرائم رپورٹر ثاقب صغیر نے مکمل کیس کی تفصیلات بتائیں۔ آئیے جانتے ہیں کب کیا ہوا؟
ڈبل نمونیا میں مبتلا پوپ فرانسس وینٹی لیٹر پر منتقل

ہسپتال میں زیر علاج پاپ فرانسس کی طبعیت مزید بگڑ گئی ہے، ڈبل نمونیا کے باعث ان کو وینٹی لینٹر پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ 88 سالہ پوپ فرانسس کو ڈبل نمونیا کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ 14 فروری سے اٹلی کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ویٹی کن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پوپ فرانسس کو سانس لینے میں دشواری، کھانسی اور قے کی شکایات ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ 88 سالہ پوپ فرانسس اپنے ہوش وحواس میں ہیں، ان کو اضافی آکسیجن فراہم کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ 2 ہفتے سے زائد علاج کے باوجود پوپ کی صحت خراب ہونا تشویشناک ہے۔ ویٹی کن کے مطابق ڈاکٹروں نے انفیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے پاپ فرانسس کی دوسری مرتبہ ادویات تبدیل کی ہیں۔ پاپ اکیس برس کی عمر سے ہی گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں، جب انفیکشن کی وجہ سے ڈاکٹروں کو ان کا ایک گردہ نکالنا پڑا تھا۔ 2023 کے دوران جرمنی میں قیام کے وقت بھی پوپ فرانسس طبعیت بگڑنے پر تین روز تک ہسپتال میں زیر علاج رہے تھے۔ پاپ فرانسس 17 دسمبر 1936 کو فلورس، بیونس آئرس، ارجنٹائن میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام جارج ماریو برگوگلیو ہے، پاپ فرانسس کے چار بچے ہیں، ان کو انڈیپینڈنٹ پبلشر بک ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
کیا ملکی قوانین واقعی سب شہریوں کے لیے یکساں ہیں؟

قوانین ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کا مظہر ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر افراد کے حقوق، ریاستی اداروں کے اختیارات اور معاشرتی نظم و ضبط کا تعین کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو منظم کرنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان کے مؤثر نفاذ کے لیے ریاستی طاقت کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ پاکستان کا آئین ایک تحریری دستاویز ہے جو قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی طے کرتا ہے اور شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے، جن میں حقِ زندگی، مساوی اور منصفانہ قانونی حقوق، آزادی رائے، تعصب اور امتیازی سلوک سے آزادی اور تنظیم سازی جیسے حقوق شامل ہیں۔ پاکستان میں آئینی اور قانونی ڈھانچہ ہونے کے باوجود، ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہونے کے باوجود، طاقتور طبقات اور غیرریاستی عناصر کا اثر و رسوخ انصاف کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رول آف لاء انڈیکس کے مطابق پاکستان 140 ممالک میں سے 125ویں نمبر پر ہے، جو عدالتی اور قانونی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم ڈاکٹر فہد ملک کا کہنا تھا کہ نظریاتی طور پر آئین پاکستان ہر شہری کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے لیکن عملی طور پر اشرافیہ اور عام شہری کے لیے قوانین کے نفاذ میں واضح فرق ہے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اکثر قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ عام آدمی کو انصاف کے حصول کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں آئین تمام شہریوں کو برابری کا حق دیتا ہے اور کسی بھی فرد کو رنگ، نسل، زبان، علاقائیت یا ذات پات کی بنیاد پر فوقیت حاصل نہیں، لیکن عملی طور پر دولت اور طبقاتی فرق کی وجہ سے انصاف کا معیار مختلف ہے۔ اگر امیر شخص کوئی جرم کرے، تو اسے طاقتور وکلاء، عدالتی رعایتوں اور سیاسی تعلقات کا فائدہ ملتا ہے، جب کہ غریب کو قانونی نظام کی پیچیدگیوں اور مہنگے عدالتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر فہد ملک کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ کیسز کی بھرمار اور ججز کی کمی ہے۔ ایک کیس کا فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے انصاف کا حصول مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر کسی امیر شخص کی بیٹی کسی کو گاڑی تلے روند کر مار دے، تو اس کا ذہنی توازن کمزور قرار دے کر اسے بچا لیا جاتا ہے، جب کہ غریب شخص کو معمولی جرم میں بھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اس دوہرے نظام کی وجہ سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد کمزور ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ ڈاکٹر فہد ملک نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں ہر شہری کو مساوی مواقع ملنے چاہئیں لیکن وکیلوں کی فیس، مقدمات میں تاخیر اور عدالتی پیچیدگیاں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول مشکل بنا دیتی ہیں۔ امیر طبقہ مہنگے وکیلوں اور قانونی چالاکیوں سے فائدہ اٹھا لیتا ہے جبکہ غریب کو برسوں تک فیصلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا بنیادی کام عوام کے جان و مال کی حفاظت اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا ہے، لیکن کئی مسائل اس نظام کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ بدعنوانی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے اکثر پولیس طاقتور طبقے کے حق میں فیصلے کرتی ہے، جس سے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے، ماورائے عدالت قتل، پولیس حراست میں تشدداور جھوٹے مقدمات جیسے مسائل عام ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماہرِ تعلیم نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا نظام طاقتور افراد کے حق میں جھکاؤ رکھتا ہے۔ غریب آدمی کے ساتھ بدسلوکی اور سختی عام بات ہے جبکہ بااثر افراد کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ جب تک پولیس نظام میں اصلاحات اور احتساب نہیں ہوگا یہ تفریق ختم نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں خواتین، اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد کے لیے ادارہ جاتی بہتری، عوامی آگاہی اور سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی ناگزیر ہے، خواتین کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے تحفظ خواتین ایکٹ 2006 اور انسدادِ ہراسانی ایکٹ 2010 نافذ کیے گئے ہیں، جبکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 اور 36 میں کیا گیا ہے، لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے معاشرے میں موجود تعصب اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شہزاد فرید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ پاکستان میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد بہت کمزور ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، جبری تبدیلیِ مذہب اور گھریلو تشدد جیسے مسائل میں اب بھی متاثرہ فریق کو مکمل انصاف نہیں ملتا۔ پاکستان کے قانونی نظام میں بہتری کے لیے اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں، عدالتی نظام میں تیزی لانے کے لیے جدید کیس مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا جانا چاہیے، تاکہ مقدمات کے فیصلے جلد ہو سکیں، پولیس کو سیاست سے آزاد کر کے، بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں اور جدید تربیت دی جائے، تاکہ وہ غیرجانبدارانہ طور پر انصاف فراہم کر سکے۔ ڈاکٹر شہزاد فریدکے مطابق سب سے زیادہ اصلاحات عدالتی اور پولیس نظام میں درکار ہیں۔ فوری انصاف، کرپشن کا خاتمہ اور پولیس کی آزادی کو یقینی بنائے بغیر قانون کی حکمرانی قائم نہیں کی جا سکتی۔ غریب اور کمزور طبقات کو مفت قانونی مدد فراہم کی جائے، تاکہ وہ عدالتی کارروائی کے اخراجات کے بوجھ سے بچ سکیں۔ انسانی حقوق کمیشن کو مزید مضبوط بنا کر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بات چیت کرتے ہوئے ماہرِ انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ غریب قیدیوں کو بدترین حالات میں
پی ٹی آئی قیادت اپنی چھوٹی سیاست کی وجہ سے بیرون ملک پاکستان کو بدنام کر رہی ہے، احسن اقبال

احسن اقبال نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپریل 2022 میں جب اقتدار چھوڑا تھا، اس وقت ملک ان کی حکومت کی بدانتظامی کی وجہ سے معاشی ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا۔ آج کا پاکستان کہیں زیادہ مستحکم اور محفوظ ہے۔ پی ٹی آئی قیادت اپنی چھوٹی سیاست کی وجہ سے بیرون ملک پاکستان کو بدنام کر رہی ہے نجی نشریاتی ادارے ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے ٹائم میگزین میں شائع ہونے والے سابق وزیراعظم عمران خان کے جیل سے مضمون’’ کیوں دنیا کو پاکستان پر توجہ دینی چاہیے‘‘ پر ردعمل دیتے ہوئے اسے ملک کی موجودہ حالت کی مسخ شدہ اور گمراہ کن تصویر کشی قرار دیا ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ذمہ دارانہ طرز حکمرانی اور مضبوط معاشی پالیسیوں کے تحت پاکستان نے قابل ذکر ترقی دیکھی ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے کہا ہے کہ عمران خان کے دور میں مہنگائی جو 38 فیصد تک بڑھ گئی تھی، اب 4 فیصد سے نیچے آ گئی ہے۔ پالیسی ریٹ، جو پہلے 23 فیصد تھا کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے، جب کہ اسٹاک مارکیٹ انڈیکس 42,000 سے بڑھ کر 115,000 کی تاریخی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگز میں نمایاں بہتری آئی ہے، جو سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد اور تجدید معاشی استحکام کی عکاسی کرتی ہے۔ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ مضبوط معیشت قومی استحکام اور سلامتی کی بنیاد ہے۔ عمران خان کے دور اقتدار میں معاشی بدانتظامی، سیاسی عدم استحکام تھا اور صرف چار سالوں میں پانچ وزرائے خزانہ تبدیل کیے گئے۔ اس کی لاپرواہی اور انتقامی سیاست نے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، بے یقینی کا ماحول پیدا کیا جس نے سرمایہ کاروں کو روکا اور عالمی سطح پر پاکستان کی مالی حیثیت کو کمزور کیا۔ مزید پڑھیں: “آمریت کے سائے، عوام کی مزاحمت” عمران خان کا عالمی جریدے میں کالم احسن اقبال نے کہا کہ دانشمندانہ اقتصادی فیصلوں اور قومی ترقی کے عزم کی بدولت پاکستان اب ترقی اور خوش حالی کی راہ پر لوٹ آیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی ترقی کو نقصان پہنچانے کے لیے سیاسی طور پر محرک بیانیے سے گمراہ ہونے کے بجائے ملک کی کامیابیوں کو تسلیم کرے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی قیادت اپنی چھوٹی سیاست کی وجہ سے بیرون ملک پاکستان کو بدنام کر رہی ہے۔
ڈومزڈے مچھلی: کیا اوآرفش کی سطح پر آنا قدرتی آفات کی پیش گوئی ہے؟

حال ہی میں دنیا بھر میں “ڈومزڈے مچھلی” کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے، جسے عام طور پر “اوآرفش” (Oarfish) کہا جاتا ہے۔ یہ گہرے پانی کی سمندری مچھلی جو لمبی، ربن نما جسم اور چمکدار چاندی جیسے پیمانے رکھتی ہے، حالیہ دنوں میں بحر الکاہل کے کنارے کے قریب دکھائی دی ہے۔ یہ مچھلی خاص طور پر میکسیکو کے ”باجا کیلیفورنیا’ کے ساحلی علاقوں میں اس کا نظر آنا ایک سنسنی بن گیا ہے، اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں کئی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اوآرفش کو جاپانی روایات میں “ریوگو نو تسوکی” (Ryugu no tsukai) یعنی “سمندر کے خدا کا پیغمبر” کہا جاتا ہے۔ یہ کہانی 17ویں صدی سے جاپانی ثقافت کا حصہ ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ جب یہ مچھلی سطح پر آتی ہے تو یہ قدرتی آفات کا اشارہ ہوتی ہے خاص طور پر زلزلے اور سونامی میں۔ جاپانیوں کے لئے یہ سمندر کی گہرائیوں سے آئی ایک تنبیہہ ہے، جو قدرت کے غضب کی پیش گوئی کرتی ہے۔ 2011 میں جب جاپان کے ساحلی علاقوں پر اوآرفش کی کئی لاشیں نظر آئیں اور اس کے صرف چند مہینوں بعد ہی تباہ کن توہوکو زلزلہ اور سونامی آیا جس نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا میکسیکو، کینیڈا اور چین پر نئے ٹاررفز کا اعلان: فینٹینائل کے حوالے سے سخت اقدامات اس واقعہ نے اس روایتی عقیدے کو مزید تقویت دی، اور لوگوں کا یقین بڑھ گیا کہ “ڈومزڈے مچھلی” دراصل قدرتی آفات کی پیش گوئی کرتی ہے۔ سائنسدانوں کی نظر میں اس عقیدے میں کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ اوآرفش کی سطح پر آنے کی کوئی ثابت شدہ وجہ نہیں۔ تاہم کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چونکہ اوآرفش گہرے سمندروں میں رہتی ہے، جو اکثر تزویراتی fault lines کے قریب ہوتے ہیں، وہ زلزلوں یا سمندری سرکنے کی حساسیت رکھتے ہیں۔ یہ حساسیت انہیں سطح تک لے آ سکتی ہے لیکن زیادہ تر سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ اوآرفش کا سطح پر آنا قدرتی آفات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ 2019 میں “بولیٹن آف دی سیزمو لوژیکل سوسائٹی آف امریکا” کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جاپان میں اوآرفش کی سطح پر آنے کا زلزلوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لازمی پڑھیں: اسرائیل کا امریکا پر دباؤ: شام میں ترکی کے اثرات کم کرنے کے لیے روس کی فوجی موجودگی کی حمایت اس تحقیق کے نتائج نے اس افسانے کو مزید کمزور کیا، جس میں اوآرفش کے ظہور کو قدرتی آفات سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ یہ نظریہ صرف جاپان تک محدود نہیں، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی اوآرفش کے نظر آنے کو قدرتی آفات سے جوڑا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگست 2017 میں فلپائن کے ساحل پر دو اوآرفش کی لاشیں ملیں اور اس کے اگلے ہی دن ایک 6.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ اس کے علاوہ 2013 میں کیلیفورنیا کے ساحل پر بھی اوآرفش کی لاشیں پائی گئیں، لیکن اس کے بعد کوئی بڑا قدرتی حادثہ نہیں آیا۔ اگرچہ سائنس نے اس عقیدے کو رد کیا ہے، مگر پھر بھی اوآرفش کی سطح پر آنے کی پراسراریت نے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ کیا یہ ایک محض اتفاق ہے یا سمندر کے گہرے راز ہیں جو ابھی تک انسانوں سے پوشیدہ ہیں؟ یہ سوال ابھی تک لاجواب ہے، اور قدرتی آفات کے سلسلے میں اس “ڈومزڈے مچھلی” کا رازی پیغام شاید کبھی نہ کھلے۔ اگرچہ سائنسی تحقیق نے اس افسانے کو مسترد کر دیا ہے، لیکن لوگ اب بھی اس مچھلی کو ایک اجنبی اور پراسرار قدرتی اشارت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے یا سمندر کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے راز ابھی تک بے نقاب نہیں ہوئے؟ یہ سوال شاید ہمیشہ ذہنوں میں موجود رہے گا۔ مزید پڑھیں: بی بی سی نے غزہ ڈاکیومنٹری پر معذرت کرلی، فلسطینی بچے کے والد کے تعلقات پر تنازعہ