غزہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ: اسرائیل نے عارضی منظوری دے دی

اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی میں چھ ہفتوں کی عارضی توسیع کی منظوری دے دی ہے، جو رمضان اور یہودی فسح کے دوران جاری رہے گی۔ یہ فیصلہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے ختم ہوتے ہی کیا گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق، یہ توسیع امریکی صدر کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔ منصوبے کے تحت، پہلے دن فلسطینی مزاحمتی گروہ  حماس کے زیرِ حراست نصف یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، جن میں زندہ اور مردہ دونوں شامل ہیں۔ اگر مستقل جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتا ہے تو باقی یرغمالیوں کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے اب تک اس معاہدے کو قبول نہیں کیا، لیکن اگر وہ اپنا فیصلہ بدلے تو اسرائیل مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ نیتن یاہو نے چار گھنٹے طویل میٹنگ کے بعد اس فیصلے کی توثیق کی۔ امریکی منصوبے کے مطابق، اسرائیل کے پاس 42 دن کا وقت ہوگا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوں تو وہ دوبارہ جنگ شروع کر سکے۔ دوسری طرف، فلسطینی حکمران جماعت حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا مستقل حل نکالنا ضروری ہے اور قیدیوں کی مکمل رہائی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ فلسطینی حکمران جماعت حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکی، قطری اور مصری ضمانتوں کے بغیر اس معاہدے میں مزید توسیع قبول نہیں کرے گی۔ پہلے مرحلے میں، جو 19 جنوری کو نافذ ہوا تھا، حماس اور اسرائیل کے درمیان 15 ماہ سے جاری جنگ روک دی گئی تھی۔ اس معاہدے کے تحت 33 اسرائیلی اور 5 تھائی یرغمالیوں کو 1,900 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔ دوسرے مرحلے کے مذاکرات ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے ہیں، جس میں باقی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق، 24 یرغمالی زندہ ہیں، جب کہ 39 کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔

رمضان المبارک کا پہلا دن: کراچی اور راولپنڈی میں سحری کے وقت گیس غائب

رمضان المبارک کی پہلی سحری میں مختلف شہروں میں گیس کی عدم فراہمی نے شہریوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ گیس کمپنیوں کی جانب سے سحر اور افطار کے اوقات میں گیس کی بلاتعطل فراہمی کے اعلانات کے باوجود کراچی، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں گیس ناپید رہی، جس کے باعث شہریوں کو سحری کی تیاری میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ کراچی کے رفاہ عام سوسائٹی، ملیر، ناظم آباد، گلبہار اور رنچھوڑ لائن جیسے علاقوں میں گیس مکمل طور پر بند رہی، جس کے باعث خواتین کو کھانے پکانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح راولپنڈی کے مختلف علاقوں، جن میں سکستھ روڈ، سیٹلائٹ ٹاؤن، ڈھوک کشمیریاں، ڈھوک پراچہ اور سروس روڈ شامل ہیں، گیس کی عدم دستیابی کے باعث شہری سحری کے لیے گیس کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ دیگر متاثرہ علاقوں میں ڈھوک کالا خان، خرم کالونی اور صادق آباد شامل ہیں، جہاں چولہے ٹھنڈے پڑے رہے اور لوگ متبادل ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے۔ سحری کے دوران گیس کی قلت کے باعث ہوٹلوں پر عوام کا رش دیکھنے میں آیا، جہاں لوگ پراٹھے، انڈے اور چائے خریدنے کے لیے جمع ہو گئے۔ بعض علاقوں میں صورتحال اتنی سنگین تھی کہ شہریوں کو بغیر سحری روزہ رکھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ عوام نے گیس کمپنیوں کے دعووں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں بھی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ واضح رہے کہ سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں نے رمضان کے دوران سحری اور افطار کے وقت گیس کی بلا تعطل فراہمی کا اعلان کیا تھا، تاہم پہلے ہی روز ان دعووں کی قلعی کھل گئی، جس پر شہریوں نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

رمضان، پاکستانی اور ایرانی کھجوریں، بڑھتی قیمتوں کی وجہ کیا؟

رمضان المبارک کے آغاز سے ہی کھجوروں کی خریدوفروخت میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان خود بڑی مقدار میں کھجور پیدا کرتا ہے، لیکن پھر بھی بعض خاص اقسام کی کھجوریں دیگر ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں، خاص طور پر سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، عراق اور الجزائر سے۔ ان ممالک سے خاص قسم کی کھجوریں جیسے عجوہ، عنبر، مبروم، صفاوی، خلاص اور مجدول منگوائی جاتی ہیں، کیونکہ ان کی پاکستان میں زیادہ مانگ ہے۔

کارگو طیارے میں پرندہ ٹکرانے سے آگ لگ گئی: امریکا میں ہنگامی لینڈنگ

نیوارک سے انڈیاناپولس جانے والے فیڈیکس کارگو طیارے کو پرواز کے دوران ایک پرندے کے ٹکرانے کے بعد انجن میں آگ لگنے کے سبب ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑی۔ فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق، بوئنگ 767طیارہ، جو فیڈیکس فلائٹ 3609 کے طور پر پرواز کر رہا تھا، ٹیک آف کے دوران ایک پرندے سے ٹکرا گیا، جس سے اس کے دائیں انجن کو نقصان پہنچا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں جہاز کو فضا میں آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا دیکھا گیا۔ خبر رساں ادارےنیویارک اور نیو جرسی کی پورٹ اتھارٹی کے مطابق، طیارے نے نیوارک لبرٹی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر صبح آٹھ بج کر سات منٹ پر ہنگامی لینڈنگ کی، اور خوش قسمتی سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، پرواز میں تین افراد سوار تھے، جو تمام محفوظ رہے۔ لائیو اے ٹی سی کی ریکارڈنگ میں پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرول کے درمیان ہونے والی گفتگو کو محفوظ کیا گیا ہے، جس میں ایک پائلٹ کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے: “ٹاور، فیڈیکس تین ہزار چھ سو نو — ہاں، پرندے کے ٹکرانے کے سبب دائیں انجن بند ہو گیا ہے، ہمیں فوری طور پر ایئرپورٹ پر واپس آنا ہوگا۔” چند لمحوں بعد، ایک اور شخص کہتا ہے کہ انہوں نے فلائٹ تین ہزار چھ سو نو کے انجن کو دائیں بازو سے گرتے ہوئے دیکھا۔ ویڈیوز میں ہنگامی عملے کو لینڈنگ کے بعد طیارے کا فوری طور پر معائنہ کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ نیویارک کے رہائشی مائیک بووا، جو نیوارک ایئرپورٹ کے قریب سے گزر رہے تھے، نے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور فلمایا۔ انہوں نے کہا: “ہم نے ہوائی جہاز کو اوپر جاتے دیکھا اور جہاز تھوڑا سا لرزتا ہوا محسوس ہوا، پھر اچانک آسمان سے ایک بڑی چیز گرتی نظر آئی۔ ہم نے پہلے سوچا کہ یہ کوئی مسافر طیارہ ہے، جس میں لوگ سوار ہیں، اور ہم سب پریشان ہو گئے۔” ہوابازی کے ماہر جان کاکس کے مطابق، بوئنگ 767 طیارے کو ایک انجن پر اڑنے کے قابل بنایا گیا ہے، اور اس طرح کی ہنگامی صورتحال کے لیے پائلٹس خصوصی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے نجی خبر رساں ادارے این بی سی نیوز کو بتایا: “یہ کسی بھی دوسرے انجن کی ناکامی جیسا معاملہ ہے، جس کے لیے پائلٹس کو تربیت دی جاتی ہے اور یہی تربیت محفوظ لینڈنگ کو ممکن بناتی ہے۔” فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن اور نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ نے اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ طیارہ فی الحال ہوائی اڈے کے رن وے پر غیر فعال ہے اور تفتیش کار اس کے انجن میں ہونے والے نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ اس ہفتے ہوا بازی میں پیش آنے والا پہلا بڑا واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں کئی دیگر پروازوں کو بھی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جن میں ڈیلٹا ایئرلائن کی ایک پرواز کا “ممکنہ دھویں” کی اطلاع کے بعد واپس آنا اور امریکن ایئرلائن کی نئی دہلی جانے والی ایک پرواز کا بم کی دھمکی کے بعد روم کی طرف موڑ دینا شامل ہے۔ ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایسے واقعات بعض مسافروں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، لیکن ہوائی سفر اب بھی دنیا کا محفوظ ترین سفری ذریعہ ہے۔  

خضدار کے علاقے زہری میں فائرنگ، رہنما غلام سرور ساتھی سمیت جاں بحق

خضدار کے علاقے زہری میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما غلام سرور اور ان کے ساتھی مولانا امان اللہ جاں بحق ہوگئے، جبکہ ایک گارڈ شدید زخمی ہوا۔ واقعہ اس وقت پیش آیا جب غلام سرور اور ان کے ساتھی ایک مقام سے گزر رہے تھے کہ اچانک حملہ آوروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ ڈپٹی کمشنر خضدار کے مطابق واقعے کی اطلاع ملتے ہی لیویز فورس موقع پر پہنچ گئی اور لاشوں کو مقامی اسپتال منتقل کیا، جبکہ زخمی گارڈ کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ مقامی لیویز حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور ملزمان کو جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ دوسری جانب، جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان اسلم غوری نے غلام سرور اور مولانا امان اللہ کے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس واقعے کو صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ثبوت قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ “وزیراعلیٰ سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں جبکہ صوبے میں بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی نااہلی کے باعث ہمارے رہنما شہید کیے جا رہے ہیں، لیکن حکام خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔” جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں اور کارکنوں نے واقعے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

ٹرین اسٹیشن کی چھت گرنے سے 15 افراد ہلاک: سربیا میں ہزاروں لوگوں کا احتجاج

ہفتے کے روز دسیوں ہزار لوگ جنوبی سربیا کے قصبے نیس میں ریلوے اسٹیشن کے حادثے کے متاثرین کی یاد منانے اور طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے کے لیے جمع ہوئے۔ یہ احتجاج صدر الیگزینڈر ووچک کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سربیا کے دوسرے سب سے بڑے شہر نووی سد میں ایک نئے بننے والے ٹرین اسٹیشن کی چھت گرنے سے 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اور تب سے چار مہینوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ بہت سے سرب باشندے بدعنوانی کا ذمہ دار صدر ووچک کے دس سالہ اقتدار کو ٹھہراتے ہیں۔ اساتذہ، کسان اور دیگر کارکن بھی ان مظاہروں میں شامل ہو گئے ہیں، جو دسمبر میں یونیورسٹیوں میں کلاسوں کی بندش سے شروع ہوئے تھے۔ ووچک کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف مہم چلائے گی اور اس نے بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ہفتے کے روز صبح 11:52 بجے، جس وقت 1 نومبر کو چھت گری تھی، ہزاروں لوگ نیس کی مرکزی سڑکوں پر خاموشی سے کھڑے ہو کر متاثرین کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔ نووی پزار شہر سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ گرافک ڈیزائنر طارق نے کہا، “یہی طریقہ ہے انقلاب لانے کا۔ یہی ایک بہتر مستقبل اور بدعنوانی سے پاک ملک بنانے کا صحیح راستہ ہے۔” نیس کی طرف مارچ کرتے ہوئے سینکڑوں طلبہ کے ساتھ تقریباً 1500 موٹر سائیکل سوار بھی احتجاج میں شامل ہو گئے۔ مظاہرین میں 20 سالہ طالبات انجا اور انا بھی شامل تھیں، جو 130 کلومیٹر دور بور قصبے سے پیدل چل کر نیس پہنچی تھیں۔ انجا نے کہا، “نیس تک پیدل چلتے ہوئے، مجھے لگتا ہے کہ ہم نے سربیا کو جگانے میں کامیابی حاصل کی۔sr اس کی وجہ سے ہمیں اچھا محسوس ہو رہا ہے اور ہم مزید 130 کلومیٹر چل سکتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ وہ معاشرہ نہیں ہے جس میں ہم رہنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک بہتر مستقبل چاہتے ہیں۔” ان احتجاجوں کے دباؤ کے نتیجے میں وزیرِاعظم میلوس ووسیوچ اور دو دیگر وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ استغاثہ نے چھت گرنے کے واقعے میں 13 افراد پر مقدمہ درج کیا ہے، لیکن طلبہ نے روزانہ احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکام اسٹیشن کی چھت گرنے سے متعلق تمام دستاویزات جاری کریں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ طلبہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ احتجاج میں شامل طلبہ پر عائد الزامات ختم کیے جائیں اور اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ احتجاج کے ردعمل میں، صدر ووچک نے مشرقی سربیا کا دورہ کیا اور کسانوں اور شہریوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے ہفتے کے روز مشرقی قصبے مجدانپیک میں کہا، “کوئی رنگین انقلاب نہیں آئے گا۔” جمعہ کے روز نائب وزیرِاعظم الیگزینڈر ولن نے مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر الزام لگایا کہ وہ سربیا میں “رنگین انقلاب” برپا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جو کہ سابق سوویت ریاستوں میں ہونے والی عوامی بغاوتوں کی طرز پر ہے۔

وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد زیلنسکی کا لندن میں گرم جوشی سے استقبال

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی جھڑپ کے بعد، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی جب لندن پہنچے تو برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے انہیں گرمجوشی سے گلے لگا کر خوش آمدید کہا۔ جمعہ کے روز اوول آفس میں ہونے والی ایک غیر معمولی ملاقات میں، ٹرمپ نے یوکرین کی حمایت واپس لینے کی دھمکی دی، جبکہ روس کے اس کے چھوٹے ہمسایہ ملک پر حملے کو تین سال ہو چکے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ہفتے کے روز زیلنسکی اور ٹرمپ دونوں سے بات کی اور وائٹ ہاؤس میں ہونے والے سخت جملوں کے تبادلے کے بعد ایک انٹرویو میں سب کو پرسکون رہنے کا مشورہ دیا۔ لندن میں، لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا جب زیلنسکی، اسٹارمر کے ساتھ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ان کے دفتر پہنچے۔ وہ یورپی رہنماؤں کے سربراہی اجلاس سے پہلے ملاقات کر رہے تھے، جہاں زیلنسکی اتوار کو یوکرین کے لیے امن منصوبے پر بات چیت کے لیے شرکت کریں گے۔ اسٹارمر نے زیلنسکی سے کہا، “مجھے امید ہے کہ آپ نے گلی میں لوگوں کی خوشی کی آواز سنی ہو گی۔ یہ برطانیہ کے عوام ہیں جو یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ آپ کی کتنی حمایت کرتے ہیں اور ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔” انہوں نے مزید کہا، “آپ کو برطانیہ میں مکمل حمایت حاصل ہے۔ ہم یوکرین کے ساتھ ہیں، چاہے جتنا بھی وقت لگے۔” زیلنسکی نے ہفتے کے روز کہا کہ ان کی اسٹارمر کے ساتھ “اہم اور دوستانہ” بات چیت ہوئی ہے، جس میں یوکرین کی پوزیشن کو مضبوط بنانے اور قابل اعتماد سیکیورٹی ضمانتیں حاصل کرنے پر گفتگو ہوئی۔ ٹیلی گرام پر زیلنسکی نے لکھا، “ہم نے یوکرین اور یورپ کو درپیش چیلنجز، اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعاون، یوکرین کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے عملی اقدامات، اور جنگ کے منصفانہ اختتام کے لیے قابل اعتماد سیکیورٹی ضمانتوں پر تبادلہ خیال کیا۔” دیگر یورپی رہنماؤں نے بھی زیلنسکی اور یوکرین کی حمایت کے پیغامات دیے، جس سے ظاہر ہوا کہ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد، امریکا اور یورپ کے درمیان جنگ سے متعلق روایتی اتحاد میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ ادھر، روسی سیاستدانوں نے زیلنسکی کی وائٹ ہاؤس میں ہونے والی بےعزتی پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کے صدر کو وہی ملا جس کے وہ مستحق تھے، اور اب کیف کے لیے امریکی فوجی امداد میں کمی ہونی چاہیے۔ فرانسیسی ایوان صدر کے مطابق، میکرون نے لندن میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر، یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور نیٹو کے سربراہ مارک روٹے سے بھی بات کی۔ اتوار کے روز مختلف اخبارات کو دیے گئے انٹرویو میں میکرون نے کہا، “میرا خیال ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھنے، احترام اور شکرگزاری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم مؤثر طریقے سے آگے بڑھ سکیں، کیونکہ یہاں داؤ پر لگی چیز بہت اہم ہے۔” میکرون نے کہا کہ زیلنسکی نے انہیں بتایا کہ وہ امریکا کے ساتھ “بات چیت کی بحالی” کے لیے تیار ہیں، جس میں یوکرین کے قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والے محصولات میں امریکی رسائی کا معاہدہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ٹرمپ نے ان سے کیا کہا۔  

اقلیت بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، میثاق سینٹر: جدید اور مفت تحفظ

پنجاب میں اقلیتی برادری کے تحفظ، حقوق اور بہبود کے لیے ایک جدید اور مفت پلیٹ فارم متعارف کرایا گیا ہے۔ میثاق سینٹر اقلیتوں کو قانونی، تعلیمی اور سماجی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق سے آگاہی دینے کے لیے ایک مؤثر سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ سینٹر ایک سب ڈپارٹمنٹ کے طور پر کام کرتا ہے، جو سی ایم سما کی ایک کاوش ہے۔ اگر پنجاب بھر میں کسی بھی اقلیتی فرد کو کوئی مسئلہ درپیش ہو اور وہ مدد کے لیے 15 پر کال کرے، تو اس کال کا مناسب فالو اپ لیا جاتا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس سینٹر اقلیتوں کو فوری مدد فراہم کرتا ہے، جہاں وہ اپنی شکایات براہ راست درج کروا سکتے ہیں، قانونی و سماجی معاونت حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے تحفظ و حقوق سے متعلق رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ میثاق سینٹر صرف ایک شکایات درج کرنے کا پلیٹ فارم نہیں بلکہ ایک محفوظ اور مساوی ماحول کی تشکیل کا عزم رکھتا ہے، جہاں ہر شہری بغیر کسی تفریق کے عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ یہ نہ صرف اقلیتوں کی آواز بلند کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ ان کے تحفظ، حقوق اور مساوات کے فروغ میں بھی ایک اہم قدم ہے۔

اس بار رمضان واقعی مختلف ہو!

ہر سال رمضان آتا ہے، ہم روزے رکھتے ہیں، عبادات میں اضافہ کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، صدقہ دیتے ہیں۔ مگر کیا کبھی سوچا کہ کیا ہم واقعی بدلے؟ کیا ہماری نیکیاں، ہماری عبادتیں، ہمارے آنسو، یہ سب کسی حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ بنے؟ یا سب کچھ ایک رسمی عمل تھا، جو رمضان کے بعد ویسا ہی ختم ہوگیا جیسے چاند رات کو دعاؤں کے بعد موبائل میں مصروفیت شروع ہو جاتی ہے؟ اگر رمضان بس اتنا ہی ہے تو ہم نے اس کے اصل مقصد کو نہیں پایا۔ اللہ نے رمضان کو “لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ”(البقرہ: 183) یعنی تقویٰ حاصل کرنے* کا ذریعہ بنایا ہے، نہ کہ صرف بھوک اور پیاس سہنے کا۔ اللہ کا قرب، مگر کیسے؟ ہم سب چاہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اپنے قریب کر لے، مگر ہم اس کے لیے محنت کم کرتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں خود طریقہ بتایا ہے: “يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا ٱتَّقُوا ٱللَّهَ وَٱبْتَغُوا إِلَيْهِ ٱلْوَسِيلَةَ وَجَـٰهِدُوا فِى سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ” (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔) (المائدہ: 35) یعنی اللہ کا قرب محض زبانی دعوؤں سے نہیں ملتا، اس کے لیے ہمیں محنت کرنی ہوگی، اپنی نیتوں کو خالص کرنا ہوگا، اپنی زندگی کو قرآن اور سنت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ یہ رمضان واقعی مختلف کیوں نہ ہو؟ قرآن کو سمجھیں، عمل کریں، ہم رمضان میں قرآن ختم کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں، مگر کیا کبھی رک کر سوچا کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ کیوں نہ اس بار قرآن کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں؟ روز ایک آیت پر غور کریں، اس پر عمل کرنے کی نیت کریں۔ نماز میں اللہ سے بات کریں۔ ہم نماز پڑھتے ہیں مگر اکثر دل کہیں اور ہوتا ہے۔ کیوں نہ اس بار نماز کو فرض سمجھ کر نہیں، بلکہ اللہ سے ملاقات سمجھ کر ادا کریں؟ دعا کرتے وقت موبائل نہ دیکھیں، آنسو نہ روکیں، دعا کو رسمی عمل نہ بنائیں بلکہ حقیقت میں اللہ سے مانگیں۔ اپنی زبان اور نیتوں کی حفاظت کریں۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ آنکھوں، زبان، اور دل کو بھی گناہوں سے بچانے کا نام ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ”  (جو شخص جھوٹ اور برے عمل کو نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔) (بخاری: 1903) لوگوں کو معاف کریں، رشتے جوڑیں۔ ہم عبادتیں تو کرتے ہیں، مگر کیا ہمارے دل صاف ہیں؟ اس بار صرف نمازوں کی تعداد نہ بڑھائیں، بلکہ دل کی میل بھی صاف کریں۔ جس سے ناراض ہیں، اسے معاف کریں۔ جس نے زیادتی کی، اس کے لیے دعا کریں۔ حقیقی نیکی کریں۔ صدقہ دینا آسان ہے، مگر حقیقی نیکی وہ ہے جو کسی کی زندگی بدل دے۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھیں، کسی پریشان شخص کی مدد کریں، کسی دکھی دل کو دلاسہ دیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ” (اللہ کے نزدیک سب سے محبوب شخص وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے۔) (صحیح الجامع: 176) یہ رمضان ضائع نہ ہو! اللہ ہمیں ایک اور موقع دے رہا ہے، ہمیں بلارہا ہے، ہمیں اپنی طرف آنے کا وقت دے رہا ہے۔ “إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ” (بے شک، اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔) (الرعد: 11) اگر اس رمضان میں بھی ہم نہ بدلے، تو پھر کب بدلیں گے؟ اگر اس بار بھی ہمارا دل ویسا ہی سخت رہا، اگر ہمارے گناہ ویسے ہی برقرار رہے، اگر ہمارے اعمال میں وہی لاپرواہی رہی، تو کیا یہ رمضان واقعی قبول ہوگا؟ آئیے اس بار سچے دل سے اللہ کی طرف پلٹ آئیں۔ ایسا رمضان گزاریں کہ جب شوال کا چاند طلوع ہو، تو ہم صرف نئے کپڑوں میں نہیں، بلکہ نئی روح کے ساتھ، نئے ارادوں کے ساتھ، اور ایک بدلے ہوئے دل کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اللّٰہ ہمیں ایسا رمضان عطا کرے جو ہمارے دلوں کو بدل دے، ہمیں اس کے قریب کر دے، اور ہمارے اعمال کو ہمارے لیے جنت کا ذریعہ بنا دے۔ آمین!

رمضان المبارک: برکتوں کا مہینہ مگر قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں؟

روزہ ارکانِ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پہلا روزہ ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ عبادت، رحمت اور برکت کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ مہینہ اپنے ساتھ محض خوشیاں اور برکت ہی نہیں، بلکہ بے تحاشا مہنگائی بھی لاتا ہے۔ اس سال بھی پاکستان بھر میں یہ مہینہ مہنگائی کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رمضان کے آتے ہی حکومت سبسڈی اور اشیائے خورونوش سستی کرنے کا اعلان کرتی ہے، مگر بازاروں میں ہر چیز کا دام دگنا ملتا ہے، جس کی وجہ سے عام عوام یہ سوال کرتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یک لخت مہنگائی کا پہاڑ اس مقدس مہینے میں ان پر مسلط ہو جاتا ہے؟ اگر بات کی جائے اس کی وجوہات کی تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے دوران مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں طلب اور رسد میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، حکومتی کنٹرول کی کمی اور عوامی بے بسی شامل ہیں۔ اس مقدس مہینے میں اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض تاجر مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ ماہرِ معاشیات پروفیسر ڈاکٹر خرم فرید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ رمضان میں مہنگائی کا زیادہ تعلق مصنوعی قلت سے ہوتا ہے۔ تاجر جان بوجھ کر اشیاء کی قیمتیں بڑھاتے ہیں تاکہ زیادہ منافع کما سکیں، حالانکہ رسد اور طلب میں اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ قیمتیں بے قابو ہو جائیں۔ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے منافع خور تاجر اشیاء کو ذخیرہ کرکے قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں، جب کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ عوام مہنگائی کے باوجود خریداری پر مجبور ہوتے ہیں، جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں تو رمضان میں تقریباً ہر چھوٹی بڑی چیز مہنگی ہو جاتی ہے، مگر چند اشیاء کی قیمتوں کو تو جیسے پَر لگ جاتے ہیں، جیساکہ کھجور، چینی اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ دوسری جانب آڑھتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بے جا ٹیکسز، بڑھتے ہوئے کسٹم ڈیوٹیز، دکانوں کے کرائے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو قرار دیتے ہیں، مگر غریب عوام کا کوئی نہیں سوچتا۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر  غریب اور سفید پوش طبقہ ہوتا ہے، جن کے لیے افطاری کا سامنا خریدنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم پروفیسر علی نے کہا ہے کہ رمضان میں مہنگائی سب سے زیادہ غریب اور متوسط طبقے کو متاثر کرتی ہے۔ وہ اشیائے خورونوش کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اکثر غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے ان کی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ حکومت نے رمضان المبارک کے دوران عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے 20 ارب روپے مالیت کے رمضان ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے، جس کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ اس بار عوام کو ریلیف ملے گا، مگرماضی کے ریلیف پیکجز پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان بازار اور سستا بازار کی حقیقت عوام کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر خرم فرید کے مطابق حکومت رمضان میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سستے بازار قائم کرتی ہے،  لیکن یہ اقدامات عموماً کاغذی ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا اور بڑے تاجر ان قوانین سے بچنے کا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ رمضان بازار ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کا دائرہ محدود ہے۔ زیادہ تر افراد عام بازاروں پر ہی انحصار کرتے ہیں جہاں قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر یہ ماڈل پورے ملک میں مؤثر طریقے سے لاگو کیا جائے تو عوام کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور ان کی عدم فعالیت کی وجہ سے قیمتوں میں استحکام نہیں آ سکا، جب کہ سبسڈی کے اعلانات اور عملی صورتِ حال میں فرق کی وجہ سے عوام کو مطلوبہ ریلیف نہیں مل سکا۔ ماضی میں بھی حکومت نے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیا، لیکن عملی طور پر کتنی شکایات درج ہوئیں، کتنے جرمانے اور گرفتاریاں ہوئیں اور عدالتی اور قانونی نظام کس حد تک مؤثر ثابت ہوا؟ یہ سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ پاکستان میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین موجود ہیں، جن کے تحت بھاری جرمانے اور سزائیں دی جا سکتی ہیں، مگر سیاسی دباؤ اور انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے ان قوانین پر سختی سے عمل نہیں ہوتا۔ اس سے منافع خوروں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ پروفیسر شفاقت علی کا کہنا ہےکہ حکومت جو سبسڈی دیتی ہے وہ عام طور پر ناکافی ہوتی ہے اور اکثر اوقات مستحق افراد تک تو پہنچ ہی نہیں پاتی۔ بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے رمضان پیکجز کا زیادہ فائدہ مخصوص طبقے اٹھا لیتے ہیں اور غریب طبقہ بدستور مہنگائی کی چکی میں پستہ رہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے مہنگائی کے خلاف ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے، مگر اس کا فائدہ ابھی تک دیکھا نہیں گیا۔ ماہرِ تعلیم پروفیسر شفاقت علی کا کہنا تھا کہ میڈیا اس مسئلے کو اجاگر تو کرتا ہے مگر بعض اوقات یہ خبریں وقتی سنسنی تک محدود رہتی ہیں۔ اگر میڈیا تسلسل کے ساتھ منافع خوروں کے خلاف مہم چلائے اور حکومت پر دباؤ ڈالے تو صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔ اسلام میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق منافع خوری کے خلاف سخت احکامات موجود ہیں، اس لیے تاجر برادری کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مناسب منافع رکھنا اور قیمتیں اعتدال پر رکھنی چاہئیں۔ پروفیسر شفاقت علی نے کہا ہے کہ اسلام میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے تاجروں پر سخت وعید سنائی ہے جو لوگوں کی ضروریات کی اشیاء مہنگی کر کے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں