بانی پی ٹی آئی کو سحری نہ دینے اور عبادت میں خلل ڈالنے کی باتیں درست نہیں، سلمان اکرم راجہ

رہنما پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے بیرسٹر سیف کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جیل میں سحری نہ دینے اور عبادت سے روکنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینئر وکیل سلمان اکرم راجا نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے جیل میں رہنے کا فیصلہ قوم کے مفاد میں کیا ہے اور وہ اپنی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ قیادت پر حملے کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی سیاسی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان کی صحت کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کا معمول کا چیک اپ ہوا اور وہ بالکل صحت مند ہیں۔ جیل میں عمران خان کو سحری نہ دینے اور عبادت سے روکنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ عمران خان کو پارٹی سے کسی قسم کی شکایت نہیں اور ان کی سیاسی رفقاء سے گزشتہ پانچ ماہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ تاہم، ان سے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل پر بات چیت ہوئی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے چودھری ظہیر عباس کو قانونی معاملات کے لیے اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں نے وکالت کو اپنی سیاسی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان نے نیاز اللہ نیازی کو اپنا ترجمان مقرر کر دیا ہے، جب کہ بشریٰ بی بی نے بھی اپنے چار فوکل پرسنز نامزد کیے ہیں۔ عمران خان نے فیصل چودھری کو ہدایت دی ہے کہ تمام پٹیشنز چودھری ظہیر عباس کے حوالے کر دی جائیں۔ مزید پڑھیں: سیاست میں موروثیت: چند خاندان ہی پاکستان کے مالک کیوں ہیں؟ اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان نے اس معاملے پر بات چیت کی ہے، تاہم اس پر مکمل تفصیلات دینا قبل از وقت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمان کی عزت کرتی ہے، اور عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ اپوزیشن اتحاد میں شامل ہوں۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے الزام عائد کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو جیل میں سحر و افطار میں کھانے کو کچھ نہیں دیا جارہا، وہ سحری کے بغیر روزہ رکھنے پر مجبور ہیں۔

بنوں کینٹ میں دھماکہ، چھتیں گرنے سے 15 افراد جاں بحق، دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنادیا، سیکیورٹی ذرائع

خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں کینٹ کے قریب دھماکوں کی دھماکے سے قریبی مکانات کی چھتیں زمین بوس ہوگئیں،  متعدد افراد چھتوں کے ملبے تلے دب گئے، اسپتال انتظامیہ نے 15 افراد کے مرنے کی تصدیق کردی ہے،  25 زخمی بھی ہوئے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دو خود کش بمبار ایک فوجی کمپاؤنڈ میں دو بارودی مواد سے بھری گاڑیاں لے کر گھس گئے، جس کے نتیجے میں زوردار دھماکے ہوئےبنوں پولیس کے مطابق  افطاری کے بعد دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جس کے بعد شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔  بنوں ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا ہے کہ شہر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ابتدائی طور پر چار زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں اور ان چاروں زخمیوں کو دھماکے یا گولیوں کے زخم نہیں ہیں بلکہ خوف سے گرنے اور پتھر لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ بنوں میں چھاؤنی کے علاقے کے قریب رہائشی صحافی محمد وسیم نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب لوگ افظاری کے لیے بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خود اپنے گھر میں موجود تھے۔ ان کے مطابق دھماکہ ایسا تھا جیسے اپنے ہی گھر میں ہوا ہو حالانکہ دھماکے کا مقام ان سے کافی دور ہے۔ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ دھماکہ چھاؤنی میں بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے کیا گیا ہے تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ شدت پسند حملہ آوروں میں کچھ کو چھاؤنی میں داخلے کی کوشش کے دوران سکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا۔سوشل میڈیا اور کچھ صحافیوں کو ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم جیش فرسان محمد کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری کی پوسٹ بھیجی گئی ہے۔  سکیورٹی ذرائع کے مطابق آج افطار کے بعد دہشت گردوں نے بنوں کینٹ میں داخل ہونے کی ناکام کوشش کی، دہشت گردوں نے بارود سے لدی 2 گاڑیاں بنوں کینٹ کی دیوار سے ٹکرا دیں، خوارج  نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے باعث گاڑیاں گھبراہٹ میں دیوار سے ٹکرائیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف انٹری پوائنٹس پر موجود سکیورٹی عملے نے6 خوارج کو جہنم واصل کر دیا، باقی خارجی دہشت گردوں کو محصور کر لیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کی بارود سے بھری گاڑیوں کے دھماکے سے قریبی  مسجد کو بھی نقصان پہنچا، دھماکے سے قریبی گھروں کی چھت گرنے سے شہریوں کے زخمی ہونے اور شہادتوں کی اطلاعات ہیں۔ ترجمان ڈی ایچ کیو اسپتال ڈاکٹر نعمان کے مطابق دہشت گرد حملے میں 15 شہری شہید جب کہ 25 زخمی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نعمان کے مطابق شہید ہونے والے شہریوں میں 4 بچے اور 2 خواتین بھی شامل ہیں۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق خوارج کا رمضان میں شہریوں اور مسجد کو نشانہ بنانا غماز ہے کہ ان کا اسلام سے تعلق نہیں، سکیورٹی فورسز کا تمام خارجیوں کا صفایا کرنے تک کلیئرنس آپریشن جاری رہےگا۔ صدر آصف زرداری نے بنوں میں دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے  دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سکیورٹی فورسز کی تعریف کی ہے۔ صدر مملکت کا کہنا ہےکہ رمضان میں افطار کے دوران ایسا حملہ گھناؤنا عمل ہے،  پوری قوم ایسی مذموم کارروائیوں کو مسترد کرتی ہے، خوارج کی سرکوبی کے لیےکارروائیاں جاری رکھنےکے لیے پرعزم ہیں۔ یاد رہے کہ بنوں کینٹ میں جولائی 2024 میں بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں پولیس کے مطابق آٹھ فوجی اہلکار جان سے گئے تھے اور 10 حملہ آوروں کو مارا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: خیبر پختو نخوا، باجوڑ میں پولیو ٹیم پر حملہ ، پولیس اہلکار قتل ہو گیا ان کے علاوہ 2022 میں بنوں کینٹ کے اندر سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں زیر حراست مبینہ شدت پسندوں نے سکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر یرغمال بنا لیا تھا، جس کے بعد ایک سکیورٹی آپریشن کرتے ہوئے کمپاؤنڈ کے اندر 25شدت پسندوں کو مارا گیا تھا۔ خیال رہے کہ بنوں کینٹ بنوں شہر کے اندر واقع ہے جس کے آس پاس رہائشی مکانات بھی موجود ہے، جب کہ پولیس کے مرکزی دفاتر بھی اس کی حدود میں واقع ہیں۔

اگر ٹرمپ نے تجارتی جنگ جاری رکھی تو اس کے تلخ انجام تک لڑیں گے، چین

چین نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر تجارتی جنگ میں مزید شدت آئی، تو بیجنگ اس جنگ کو ایک تلخ انجام تک پہنچانے میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔ چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان ‘لین جیان’ نے امریکا کے حالیہ تجارتی اقدامات کے جواب میں یہ سخت بیان دیا ہے۔ چین کی طرف سے یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکا نے چینی مصنوعات پر 20 فیصد محصولات عائد کیے ہیں، جس کا اثر دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات پر گہرے اور طویل مدتی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ لین جیان کا کہنا تھا کہ “اگر امریکا اپنی تجارتی جنگ اسی طرح جاری رکھے گا، تو چین بھی اس جنگ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آخر تک لڑے گا، چاہے وہ تجارتی جنگ ہو یا کوئی اور قسم کی جنگ۔” چین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امریکی محصولات کے جواب میں بیجنگ نے زرعی اور خوراکی مصنوعات پر 15 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا ہے، تاکہ اپنے اقتصادی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا جا سکے۔ چین نے امریکا کی سخت تجارتی پالیسیوں کے جواب میں صرف اقتصادی سطح پر نہیں، بلکہ سیاسی اور دفاعی میدان میں بھی اپنے اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں چین نے متعدد امریکی کمپنیوں کو اپنی “نا قابل اعتماد اداروں کی فہرست” میں شامل کر دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو چین میں مزید کاروبار کرنے یا سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ بھی پڑھیں: روس کا ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ تعاون کا اعلان ان کمپنیوں میں امریکا کی وہ دفاعی اور ٹیکنالوجی کمپنیاں شامل ہیں جو چین کے لیے خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ چین نے امریکا کی 15 اہم کمپنیوں کو نشانہ بنایا ہے جن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان کمپنیوں میں “جنرل ڈائنیمکس لینڈ سسٹم” شامل ہے جو فوجی گاڑیاں اور ٹینک تیار کرتی ہے، اور “شیلڈ اے آئی”، جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے بغیر پائلٹ کے طیارے اور ڈرون تیار کرتی ہے۔ ان کمپنیوں پر پابندی چین کے مفادات کے تحفظ کی ایک اور کڑی ہے۔ اس کے علاوہ چین نے امریکی کمپنیوں کے خلاف مزید اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جن میں “ہنٹنگن انگالز انڈسٹری” شامل ہے، جو امریکا میں بحری جہازوں کی سب سے بڑی سازندہ کمپنی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے “ٹیکس اورے” جیسے اداروں کو بھی اپنی پابندی کی فہرست میں شامل کیا ہے، جو دفاعی اور خفیہ معلومات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان اقدامات کے باوجود چین نے امریکا سے بات چیت کی امید کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن سے درخواست کی ہے کہ وہ جلد از جلد بات چیت کا آغاز کرے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ لیکن چین نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر امریکا نے اپنی تجارتی پالیسیوں کو تبدیل نہ کیا، تو چین مزید سخت ردعمل دینے سے گریز نہیں کرے گا۔ چین کے ان اقدامات کا مقصد صرف امریکا کو دباؤ میں لانا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر ایک واضح پیغام دینا بھی ہے کہ وہ اپنے اقتصادی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکا اور چین کے درمیان یہ جنگ مزید طول پکڑے گی یا دونوں ممالک کسی سمجھوتے تک پہنچ کر اس بحران کو ختم کریں گے؟ مزید پڑھیں: ٹرمپ کا یوکرین کی فوجی امداد روکنے کا فیصلہ:عالمی رہنماؤں کا شدید ردعمل

ٹرمپ کا یوکرین کی فوجی امداد روکنے کا فیصلہ:عالمی رہنماؤں کا شدید ردعمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کو فوجی امداد روکنے کے فیصلے نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے۔ یہ اقدام یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ہونے والی حالیہ کشیدگی کے بعد سامنے آیا، جس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نئی دراڑ پیدا کر دی ہے۔ اس فیصلے پر مختلف عالمی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ فیصلہ نہ صرف یوکرین بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالے گا۔ یوکرین کے وزیر اعظم ‘ڈینس شمہال’ نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “ہمارے پاس اپنے وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں، جو جنگ کے محاذ پر ہماری مدد کر سکتی ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ یوکرین اپنے اتحادیوں کے ساتھ تمام دستیاب چینلز کے ذریعے پُرامن طریقے سے کام جاری رکھے گا۔ یوکرینی صدر زیلنسکی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ “ہمیں یہ یاد ہے کہ جرمنی یوکرین کو فضائی دفاعی نظام فراہم کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور ہمارے مالی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔” مزید پڑھیں: روس کا ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ تعاون کا اعلان یوکرینی پارلیمنٹ کے خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ ‘اولیکسانڈر مریژکو’ نے اس فیصلے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ اقدام بظاہر ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ ہمیں روس کے سامنے سرینڈر کرنے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ امداد روکنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم روس کے مطالبات کو تسلیم کر لیں گے۔” دوسری جانب کریمیا کے ترجمان ‘دمتری پیسکوف’ نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “اگر یہ خبر حقیقت ہے تو یہ یوکرینی حکومت کے لیے امن کے عمل کی طرف بڑھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکا ہمیشہ اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والا ملک رہا ہے، اور اگر وہ امداد روک دیتا ہے، تو یہ امن کے قیام کی طرف ایک بہت اہم قدم ہوگا۔” پیسکوف نے مزید کہا کہ “ہم ٹرمپ کے امن لانے کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں، مگر ہمیں اس کا عملی طور پر مظاہرہ دیکھنا ہوگا۔” امریکی سینیٹر جین شیہین نے اس فیصلے پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور کہا کہ “یوکرین کو فوجی امداد روکنے سے صدر ٹرمپ نے پوتن کو مزید جنگی جارحیت کی اجازت دے دی ہے، جو بے گناہ یوکرینیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔” انہوں نے اس قدم کے عالمی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ اقدام پوتن کی حمایت کو مزید تقویت دے گا۔ یہ بھی پڑھیں: ایران اور ترکیہ میں سفارتی کشیدگی، دمشق کی استحکام پر متنازع بیانات یورپی کمیشن کی صدر ‘ارثولا وان ڈیر لیین’ نے عالمی سطح پر اس صورتحال کی سنگینی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم انتہائی خطرناک وقت میں جی رہے ہیں اور یورپ اپنی دفاعی اخراجات کو بہت تیزی سے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔” اسی طرح جرمن وزیر خارجہ ‘اینالینا بیربوک’ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ “یوکرین کی حمایت میں مزید فوجی اور مالی امداد فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے آزادی کے دفاع کو مضبوط بنا سکیں۔” پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے ٹویٹر پر کہا کہ “یوکرین کی خودمختاری اور اس کا مغربی راستہ پولینڈ کے لیے اہم ہے۔ اس بدترین سیاسی ہلچل اور بڑھتے ہوئے بحران کے درمیان یہی سب سے اہم چیز ہے۔” برطانوی حکومت نے اپنے موقف میں کہا کہ “ہم یوکرین کے لیے پائیدار امن کے قیام میں مکمل طور پر مخلص ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنے اہم اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔” لازمی پڑھیں: یورپی ممالک ’یوکرین امن منصوبہ‘ امریکا کو پیش کریں گے فرانس کے وزیر برائے یورپ ‘بنجمن ہیڈڈاڈ’ نے کہا کہ “اگر آپ امن چاہتے ہیں تو کیا یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی روکنا امن کے قیام میں مدد دے گا؟ یہ فیصلہ روس کے ہاتھوں کو مضبوط کرے گا، جو کہ صرف جنگ کو بڑھائے گا۔” اس کے علاوہ ڈنمارک کے وزیر دفاع ‘ٹرولس لنڈ پولسن’ نے کہا کہ “یوکرین کو کچھ اہم امریکی ہتھیاروں کی ضرورت ہے، خاص طور پر پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام، جس پر اب یورپ کو مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔” چیک وزیر اعظم پیٹر فیالا نے کہا کہ “یورپ کو اپنی دفاعی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور یوکرین کی مکمل حمایت فراہم کرنی ہوگی۔” ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں روس کی جارحانہ پالیسی کے آگے سرنڈر نہیں کرنا چاہیے۔” ضرور پڑھیں: ٹرمپ ڈٹ گئے، میکسیکو اور کینیڈا پر عائد 25 فیصد ٹیرف پرعمل درآمد شروع دوسری جانب ہنگری کی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ “امریکی صدر اور ہنگری کی حکومت دونوں کی یہ مشترکہ رائے ہے کہ اس جنگ کو مزید اسلحے کی سپلائی کے بجائے جنگ بندی اور امن مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہیے۔” ٹرمپ کے اس فیصلے نے نہ صرف یوکرین کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مختلف ممالک اس صورتحال کے حل کے لیے اپنی حمایت اور موقف کا اظہار کر رہے ہیں، اور یہ معاملہ عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ لے آیا ہے۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ نے یوکرین کے لیے تمام امداد بند کر دی، بات یہاں تک کیسے پہنچی؟

’مہنگا خرید کر سستا کیسے  بیچ سکتے ہیں‘ دکاندار بھی مہنگائی سے تنگ آگئے

اس سال بھی پاکستان بھر میں یہ مہینہ مہنگائی کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوکاندار بھی اس مہنگائی سے تنگ آگے ہیں۔ رمضان کے آتے ہی حکومت سبسڈی اور اشیائے خورونوش سستی کرنے کا اعلان کرتی ہے، مگر بازاروں میں ہر چیز کا دام دگنا ملتا ہے، جس کی وجہ سے عام عوام یہ سوال کرتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یک لخت مہنگائی کا پہاڑ اس مقدس مہینے میں ان پر مسلط ہو جاتا ہے؟ اگر بات کی جائے اس کی وجوہات کی تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے دوران مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں طلب اور رسد میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، حکومتی کنٹرول کی کمی اور عوامی بے بسی شامل ہیں۔ اس مقدس مہینے میں اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض تاجر مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ پاکستان میٹرز سے ایک شہری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ خوردونوش کی قیمتیں رمضان کے آتے ہی آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں، سیب رمضان سے پہلے دو سو کا مل جاتا تھا لیکن اب 250 سے 300 سے کم نہیں مل رہا، روزہ افطار کے لیے کھجور ضروری ہے مگر کھجور کی قیمت دیکھ کر جیب اجازت نہیں دیتا۔ ایک فروٹ بیچنے والے نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے بازار میں گاہک بلکل نہ ہونے کے برابر ہے، مہنگائی کو دیکھ کر گاہک کے لیے اپنی جیب سے رقم نکالنا نہ ممکن ہوتا ہے۔

روس کا ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ تعاون کا اعلان

روس نے ایک نیا اور غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو ایران کے ساتھ تعلقات میں مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے خطے میں امریکی مفادات کے خلاف سرگرم پراکسی گروپوں کی حمایت پر بات چیت شامل ہے۔ یہ خبر ‘بلومبرگ’ نے منگل کے روز رپورٹ کی، جس کے مطابق روسی حکومت نے واضح کیا کہ وہ امریکا اور ایران کے درمیان تمام مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی حمایت کرتی ہے۔ کریملن کے ترجمان ‘دمتری پسکوف’ نے کہا ہے کہ “روس یقین رکھتا ہے کہ امریکا اور ایران کو تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیے، اور ہم اس عمل میں ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔” یہ پیشرفت اس وقت ہوئی ہے جب ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کو دوبارہ فعال کر دیا ہے، جس کا مقصد ایران کے تیل کی برآمدات کو صفر پر لانا اور اس کے جوہری پروگرام کو روکنا ہے۔ ایران نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس اور ایران کے تعلقات میں ایک نئی جہت اُس وقت آئی جب روس نے ایران کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کا معاہدہ جنوری میں کیا۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں مزید گہرائی آئی ہے، خاص طور پر یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد۔ یہ غیر معمولی تعاون عالمی سطح پر نئی تشویش پیدا کر رہا ہے، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت پر کنٹرول کی جنگ میں روس کا کردار اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ مزید پڑھیں: ایران اور ترکیہ میں سفارتی کشیدگی، دمشق کی استحکام پر متنازع بیانات

ایران اور ترکیہ میں سفارتی کشیدگی، دمشق کی استحکام پر متنازع بیانات

ایران اور ترکیہ کے درمیان حالیہ دنوں میں ایک نئی سفارتی کشیدگی نے خطے میں توجہ حاصل کی ہے، جس کا آغاز ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فدان کے ایک متنازع بیان سے ہوا۔ فدان نے قطر کے نشریاتی چینل ‘الجزیرہ’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایران کی شام میں سرگرمیوں اور اس کے فوجی گروپوں پر سخت تنقید کی، اور اسے خطے کی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی، جو مسلح ملیشیاؤں پر انحصار کرتی ہے بہت “خطرناک” ہے اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ فدان کا کہنا تھا کہ “اگر آپ کسی تیسرے ملک میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرے ممالک بھی آپ کے ملک میں گروپوں کو سپورٹ کر کے آپ کو پریشان کر سکتے ہیں۔” یہ بیان ایران کے لیے ناقابل قبول ثابت ہوا، اور ایرانی وزارت خارجہ نے فورا ترکیہ کے سفیر کو طلب کر لیا۔ ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حکام نے ترکیہ کے سفیر حیکبی کرلانگچ کے ساتھ ملاقات کی، جس میں ایران کی جانب سے فدان کے بیانات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ ڈٹ گئے، میکسیکو اور کینیڈا پر عائد 25 فیصد ٹیرف پرعمل درآمد شروع محمود ہیڈاری، ایران کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے مشرقی یورپ و بحیرہ روم نے کہا ہے کہ “دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات اور علاقائی حالات کی حساسیت کے پیش نظر اس قسم کے غلط بیانات اور حقیقت سے عاری تجزیے سے گریز کرنا ضروری ہے، جو ہمارے تعلقات میں تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔” اس واقعے کے ایک دن بعد، ترکیہ نے ایران کے چارج ڈی افیئرز کو انقرہ میں طلب کیا اور اپنی جانب سے بھی ایران کو اپنے اعتراضات سے آگاہ کیا۔ ترک وزارت خارجہ کے ترجمان ‘انجو کچیلی’ نے کہا ہے کہ “ترکی اپنے خارجی تعلقات کو اندرونی سیاست کے لیے استعمال نہیں کرتا، اور اس معاملے میں ہم نے براہ راست ایران سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔” ایران کے وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باقائی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بعض معاملات پر اختلافات ہیں، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترکیہ کے حالیہ بیانات بے بنیاد اور غیر تعمیری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ہم ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتے ہیں، لیکن ترکی کی جانب سے یہ بیانات غیر سازگار ہیں، اور ایران کو اپنی پوزیشن کو واضح اور مضبوط انداز میں بیان کرنا ضروری تھا۔” اس دوران ایرانی حکام نے ایک اور سخت بیان میں کہا کہ شاید ترکیہ کو اسرائیل کی شام میں پالیسیوں پر زیادہ غور کرنا چاہیے، اور خطے میں اسرائیل کی موجودگی کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔ یہ کشیدگی ایران اور ترکیہ کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کر سکتی ہے، جہاں دونوں ممالک کو اپنے اسٹریٹیجک مفادات اور علاقائی تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ مزید پڑھیں: یورپی ممالک ’یوکرین امن منصوبہ‘ امریکا کو پیش کریں گے

دوسرے سیمی فائنل میں شائقین کے لیے فری افطاری کا اعلان، کھانے میں کیا کیا ملے گا؟

قذافی اسٹیڈیم میں کل ہونے والے دوسرےسیمی فائنل نیوزی لینڈ و جنوبی افریقہ کا میچ دیکھنے والوں کو فری افطاری دی جائے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق شائقین ٹکٹ دکھا کر  کجھور، جوس اور منی پیزا والا افطاری باکس حاصل کر سکیں گے،شائقین اسٹیڈیم کے اندر فوڈ اسٹالز سے کھانے پینے کی دیگر اشیاء بھی خرید سکیں گے، سیمی فائنل میچ کل دوپہر 2 بجے شروع ہوگا جب کہ افطار شام 6 بج کر 5 منٹ پر ہوگا۔ خیال رہے کہ چیمپئنز ٹرافی 2025ء کا پہلا سیمی فائنل انڈیااور آسٹریلیا کے درمیان دبئی میں آج کھیلا جارہا ہے، آسٹریلوی ٹیم کی فتح کی صورت میں فائنل میچ پاکستان میں کھیلا جائے گا اور انڈیا کے جیتنے کی صورت میں فائنل دوبئی میں کھیلا جائے گا۔مزید پڑھیں:دورہ نیوزی لینڈ کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان، بابراعظم، محمد رضوان ٹی ٹوئنٹی سے آئوٹ چیمپئنز ٹرافی کا دوسرا سیمی فائنل دیکھنے کے لیےبھارتی کرکٹ بورڈ کا پانچ رکنی وفد کل لاہور پہنچے گا، پانچ رکنی وفدنائب صدر راجیوشکلا کی قیادت میں کل واہگہ بارڈرسے لاہور  پہنچےگا۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی قذافی اسٹیڈیم میں ٹریننگ سیشن کا جاری ہے،نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم تین گھنٹے نیٹ پریکٹس جاری رکھے گی،جنوبی افریقہ ٹیم شام ساڑھے چھ بجے سے ساڑھے نو بجے تک پریکٹس کرے گی،ٹریننگ سے قبل دونوں ٹیموں کی طرف سے توقع کی جا رہی ہے کہ  کھلاڑی یا اسٹاف پریس کانفرنس کریں گے۔

’مال روڈ سے گندھارا تہذیب تک‘ پنجاب حکومت نے نیا منصوبہ شروع کردیا

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں پنجاب کے سب سے بڑے اور جامع ٹورازم پلان کی اصولی منظوری دے دی گئی، جس میں 170 سیاحتی مقامات اور ٹریلز کی تعمیر و بحالی کی منظوری دی گئی، جب کہ پنجاب میں پہلی مرتبہ ٹورازم ٹریل بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ترجمان حکومتِ پنجاب کے جاری کردہ بیان کے مطابق مریم نواز کی زیرِ صدارت آج اجلاس میں پنجاب میں پہلی مکمل ٹورازم ایپ ‘میگنی فیسینٹ پنجاب’ تیار کر لی گئی، جس کے ذریعے سیاح 170 سے زائد سیاحتی مقامات کی ورچوئل سیر، ہوٹل بکنگ اور ٹریول وزٹ کر سکیں گے۔ اس ایپ میں فوڈ پانڈا اور دیگر سروسز کی سہولت بھی دستیاب ہوگی، جب کہ ایک جدید چیٹ بوٹ کے ذریعے سیاحوں کو رہنمائی فراہم کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے پنجاب میں مذہبی، تاریخی، قدیمی ورثے، آثارِ قدیمہ اور ایکوٹورازم کے فروغ کا اعلان کیا۔ تاریخی مال روڈ، والڈ سٹی لاہور، جی ٹی روڈ کی مغل یادگاریں، سکھ سائٹس اور سکھ ٹورازم ٹریل کو ڈویلپ کرنے کی منظوری بھی دی۔ مریم نواز کی زیرِ صدارت اجلاس میں پنجاب میں گندھارا تہذیب سے جُڑے مقامات جیسے ٹیکسلا میوزیم، دھرم راجیکا، جولیاں، سرکیپ اور گری قلعہ کو گندھارا ٹریل کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کے علاوہ اُچ شریف میں زائرین کے لیے خصوصی ٹریل بھی ڈویلپ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ مزید پڑھیں: پوری دنیا کو پنجاب کا مہمان بنائیں گے: مریم نواز نے میگنی فیشنٹ منصوبے کا آغاز کر دیا اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ (ملتان) کو وادی سندھ کی تہذیب کے نشان کے طور پر بحال کیا جائے گا، جب کہ پنجاب میں موجود گوردوارے اور قدیم گرجا گھروں کی بحالی کے منصوبے پر بھی غور کیا جائے گا۔ چھانگا مانگا فارسٹ پارک اور لال سوہانرا نیشنل پارک کو ایکو ٹورازم کے فروغ کے لیے جدید سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کئی بڑے فیصلے کیے گئے، جیسا کہ پنجاب میں ٹورازم اینڈ ہیریٹیج اتھارٹی ایکٹ 2025 پیش کرنے کا اعلان کیا گیا، جب کہ پنجاب کی پہلی ٹورازم اینڈ ہیریٹیج اتھارٹی کے قیام کی اصولی منظوری بھی دے دی گئی۔ لاہور، ملتان، بہاولپور، چکوال اور جہلم سمیت مختلف شہروں میں سیاحتی مقامات کو عالمی معیار کے مطابق ڈویلپ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی کاوش سے برسوں پرانے مراکز صحت کی حالت اور عوام کی تقدیر بدل گئی۔ پنجاب کے دوردراز کے 750 مراکز صحت یورپی ممالک کے کلینک کامنظر پیش کرنے لگے۔ سٹیٹ آف آرٹ مریم نواز ہیلتھ کلینکس کے انتظامات بھی ینگ ڈاکٹرز کے سپردِ کیے گئے ہیں۔ ریکارڈ مدت میں تعمیرات مکمل کی گئی اور بنیادی مراکز صحت کی بیرونی شکل بھی تبدیل کی گئی۔ خستہ حال دروازے، ٹوٹا پھوٹا فرنیچر اور بوسیدہ عمارتیں جدید ترین مریم نوازشریف ہیلتھ کلینک میں بدل دی گئیں۔ سٹیٹ آف دی آرٹ مریم نواز ہیلتھ کلینک میں نیا فرنیچر، جدید ترین طبی آلات، سٹریچر، چمچماتے فرش، صاف ستھرے کمرے، وارڈ اور نئے واش روم ہیلتھ کلینک کی زینت ہیں۔ ہرمرکز صحت میں صاف ستھری، نئی خوبصورت الماریاں، جدیدایل ای ڈی لائٹ اور نیم پلیٹ آویزاں کر دی گئی۔ سرگودھا کے علاقے پھلرواں کا بوسیدہ حال مرکز صحت تعمیر و بحالی کے بعد بالکل بدل گیا۔ ملتان کے نواحی قاسم بیلہ میں مرکز صحت کی تعمیر و مرمت مکمل ہونے سے مریض مستفید ہو رہے ہیں۔ وہاڑی کے نواحی گاؤں 87 ڈبلیو بی کا رورل ہیلتھ سینٹر میں شاندار کلینک قائم کر دیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ اٹک کے علاقے باہترکا آرایچ سی بھی شاندار کلینک میں تبدیل ہوگیا۔ ضلع گجرات اورسیالکوٹ کے مراکز صحت کو مریم نواز ہیلتھ کلینک کی صورت دیکھ کر عوام انتہائی خوش ہیں۔ بھکر کے علاقے ڈگر رہتاس کے مراکز صحت کی اندورنی اوربیرونی شکل تبدیل ہوگئی۔ وہاڑی کے علاقے اڈہ موچیاں والا میں قدیمی مرکز صحت نے شاندار مریم نواز ہیلتھ کلینک کی صورت اختیار کرلی۔ ضلع خانیوال کے پرانے مراکز صحت کوبھی نئے مریم نوازہیلتھ کلینک میں بدل دیا گیا جس سے علاقے کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

’افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے‘ حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان  دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک گئے جہاں انہوں نے جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامدالحق کی شہادت پر ان کے بھائی اور صاحبزادگان مولانا عثمان الحق، مولانا عبدالحق اور مولانا عرفان الحق سے اظہار تعزیت کیا ۔ جماعت اسلامی کے پی کی قیادت امیر صوبہ خیبر پختونخوا جنوبی پروفیسر محمد ابراہیم، امیر صوبہ وسطی عبدالواسع اور امیر صوبہ شمالی عنایت اللہ خان بھی امیر جماعت کے ہمراہ تھی۔ تعزیت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے مولانا حامد الحق شہید اور ان کے والد مولانا سمیع الحق شہید کی دینی و ملی خدمات کو خراج تحیسن پیش کیا اور دالعلوم حقانیہ کی دینی تعلیم و اشاعت کے میدان میں اہم کردار کی تحسین کی۔ انہوں نے ادارہ میں خودکش دھماکہ کو وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اس کی فوری تحقیقات اور مجرموں اور منصوبہ سازوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ مزید پڑھیں: نماز جمعہ کے دوران جامعہ حقانیہ میں خودکش دھماکا، مولانا عبدالحق سمیت چھ نمازی شہید ہوگئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ  ملک اور خصوصی طور پر کے پی میں امن عامہ کی صورتحال انتہائی نازک ہے۔ کے پی میں دینی تعلیم کے لیے وقف اہم اور تاریخی ادارے میں خودکش دھماکہ سے بذات خود اہم سوال پیدا ہوگیا ہے کہ سیکیورٹی کی صورتحال کس قدر خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو فی الفور امن کے لیے بامعنی مذاکرات کرنا ہوں گے، دونوں ممالک کی آپسی لڑائی سے دونوں ممالک کے عوام کا نقصان اور دشمنوں کا فائدہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی سرزمین کسی صورت پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔