دورہ نیوزی لینڈ کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان، بابراعظم، محمد رضوان ٹی ٹوئنٹی سے آؤٹ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے اسکواڈ کا اعلان کر دیا، ساتھ ہی ٹیم کی قیادت میں بھی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی میں ناقص کارکردگی کے بعد فاسٹ بولرز شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، بلے باز سعود شکیل سمیت 6 کھلاڑیوں کو ڈراپ کر دیا گیا، جبکہ شاداب خان کی بطور نائب کپتان ٹی20 ٹیم میں واپسی ہوئی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے عبوری ہیڈ کوچ عاقب جاوید نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران ٹیم کا اعلان کیا ، جس کے مطابق محمد رضوان کی جگہ سلمان علی آغا کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا نیا کپتان مقرر کیا گیا ہے، جبکہ شاداب خان ان کے نائب ہوں گے۔ ون ڈے ٹیم کی قیادت بدستور محمد رضوان کے پاس رہے گی اور سلمان علی آغا نائب کپتان ہوں گے۔ اسکواڈ میں مزید تبدیلیوں کے تحت محمد رضوان، بابراعظم اور نسیم شاہ کو ٹی 20 فارمیٹ سے باہر کر دیا گیا،جبکہ عبداللہ شفیق، ابراراحمد، عاکف جاوید، بابراعظم کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا ہے، فہیم اشرف، امام الحق، خوشدل شاہ، محمد علی بھی ایک روزہ میچز کا حصہ ہوں گے۔ وسیم جونیئر، عرفان خان، نسیم شاہ ،سفیان مقیم، طیب طاہر بھی اسکواڈ کا حصہ ہوں گے، صائم ایوب ان فٹ ہونے کے باعث دورہ نیوزی لینڈ سے بھی آؤٹ ہو گئے ہیں۔ ٹیم مینجمنٹ میں بھی رد و بدل کیا گئی ہے عاقب جاوید دورہ نیوزی لینڈ کے دوران عبوری ہیڈ کوچ کے طور پر فرائض انجام دیں گے، جبکہ سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف کو بیٹنگ کوچ مقرر کر دیا گیا ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سیریز 16 مارچ سے 5 اپریل تک جاری رہے گی، جس میں 5 ٹی ٹوئنٹی اور 3 ون ڈے میچز کھیلے جائیں گے
انڈیا کی دبئی میں آسٹریلیا کو شکست، لاہور سے فائنل کی میزبانی چھن گئی

انڈیا نے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں چیمپئنز ٹرافی کے پہلے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو چار وکٹوں سے شکست دے دی ۔ اب فائنل لاہور کے بجائے دبئی میں کھیلا جائے گا۔ اس فتح نے انڈیا کو مسلسل تیسری بار چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچا دیا اور اس کا مقابلہ جنوبی افریقہ یا نیوزی لینڈ سے ہوگا، جس کا فیصلہ کل دوسرے سیمی فائنل کے بعد ہو گا۔ انڈیانے آسٹریلیا کی جانب سے ملنے والا 265 رنز کا ہدف 48.1 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا، بھارت کی جانب سے ویرات کوہلی 84 رنز کیساتھ نمایاں رہے۔ انڈیا کی جانب سے اننگز کا آغاز کپتان روہت شرما اور شبمن گل نے کیا تاہم یہ جوڑی زیادہ دیر تک ساتھ نہ نبھا سکی اور شبمن گل 8 رنز بناکر پویلین لوٹ گئے جبکہ کپتان روہت شرما 28 رنز بناکر چلتے بنے۔ ویرات کوہلی اور اور شریاس آئیر کی ذمہ دارانہ بیٹنگ نے ٹیم کے مجموعی سکور کو آگے بڑھایا تاہم شریاس آئیر 45 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے، اکشر پٹیل 27 رنز بناکر بولڈ ہوئے ، ویرات کوہلی 84 جبکہ ہارڈک پانڈیا 28 رنز بناکر کیچ تھما بیٹھے۔ پانڈیا نے 24 گیندوں پر 28 رنز بنائے جبکہ راہول نے 34 گیندوں پر دو چوکوں اور اتنے ہی چھکوں کی مدد سے ناقابل شکست 42 رنز بنائے۔ دوسری جانب آسٹریلیا نے ناتھن ایلس اور زمپا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں جب کہ دوارشوئس اور کونولی نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے اننگز کا آغاز بہتر ثابت نہ ہوسکا اور پہلی وکٹ صرف 4 رنز کے مجموعی سکور پر گری جب اوپننگ بلے باز کوپر کونولی بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے جبکہ دوسری وکٹ 54 رنز کے مجموعی سکور پر گری جب جارح مزاج بلے باز ٹریوس ہیڈ 39 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔ اس طرح آسٹریلیا کی کارکردگی کچھ زیادہ بہتر ثابت نہ ہوئی اور پوری ٹیم 264 رنز پر ڈھیر ہو گی۔ بھارت کی جانب سے محمد شامی نے 3، روندرا جڈیجا اور ورون چکرورتھی نے 2، 2، ہاردک پانڈیا اور اکشر پٹیل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
مکمل آزادی کا احساس: کیا لوگ اب گاڑیوں میں رہیں گے؟

امریکہ میں روایتی گھروں اور اپارٹمنٹس سے ہٹ کر ایک منفرد طرزِ زندگی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، جسے ری کیریشنل وہیکل یا آر وی میں رہنے کا رجحان کہا جاتا ہے۔ آر وی وہ موٹر ہومز یا ٹریلرز ہوتے ہیں جنہیں لوگ اپنے گھروں کی طرح استعمال کرتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی سفر کر سکتے ہیں۔ یہ طرزِ زندگی نہ صرف نوجوانوں بلکہ ریٹائرڈ افراد اور قدرت سے محبت کرنے والوں میں بھی بے حد مقبول ہو رہا ہے۔ آر وی کلچر کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ آزادی کا احساس اور روزمرہ کے مہنگے اخراجات سے نجات ہے۔ امریکہ میں مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کرائے کے اخراجات کے باعث کئی افراد آر وی کو ایک بہترین متبادل سمجھتے ہیں، جہاں وہ کم لاگت میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں۔ آر وی پارکس اور کیمپ گراؤنڈز کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ طرزِ زندگی اب صرف ایک رجحان نہیں بلکہ ایک مکمل تحریک بن چکا ہے۔ کئی لوگ اپنے آر وی میں جدید سہولیات شامل کر رہے ہیں، جن میں شمسی توانائی سے چلنے والے آلات، جدید انٹرنیٹ سسٹمز اور کمپیکٹ لیکن آرام دہ فرنیچر شامل ہیں۔ نوجوانوں میں آر وی کلچر کو خاص طور پر مقبولیت حاصل ہو رہی ہے کیونکہ وہ ایک ہی جگہ محدود رہنے کے بجائے مختلف شہروں، ریاستوں اور حتیٰ کہ دوسرے ممالک کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیجیٹل خانہ بدوش، جو آن لائن کام کرتے ہیں، اس رجحان کو زیادہ اپناتے ہیں کیونکہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کہیں بھی رہ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب، ریٹائرڈ افراد کے لیے بھی یہ طرزِ زندگی ایک پرکشش انتخاب بن گیا ہے۔ امریکہ میں “سنوبردز” (Snowbirds) کہلانے والے وہ ریٹائرڈ افراد جو شدید سردیوں میں شمالی ریاستوں سے نکل کر گرم علاقوں جیسے فلوریڈا، ایریزونا یا کیلیفورنیا چلے جاتے ہیں، آر وی کو اپنا مستقل مسکن بنا رہے ہیں۔ تاہم، آر وی طرزِ زندگی میں چیلنجز بھی موجود ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ، پارکنگ کے مسائل اور پائیدار رہائش کے لیے درکار سہولیات جیسے پانی اور بجلی کی دستیابی بعض اوقات مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں آر وی کلچر مزید ترقی کرے گا، کیونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ روایتی طرزِ زندگی سے ہٹ کر فریڈم اور سادگی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز اور سہولیات کی بدولت آر وی ہومز مزید آرام دہ اور سمارٹ بنتے جا رہے ہیں، جس سے یہ طرزِ زندگی نہ صرف ممکن بلکہ ایک خواب کی تعبیر بن چکا ہے۔
احتجاج کے مقدمات میں گرفتار پی ٹی آئی کے 22 کارکنوں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کارکنان کیخلاف 26 نومبر کو احتجاج کے مقدمات میں 22 ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کی جانب سے اہم فیصلہ سامنے آیا ہے، پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف 26 نومبر کے احتجاج پر درج مقدمات میں 22 کارکنان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ فاضل جج نے تمام 22 ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستیں خارج کر دیں، جوڈیشل مجسٹریٹ شہزاد گوندل نے دلائل مکمل ہونے پر کل فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ پی ٹی آئی ورکرز کے خلاف 26 نومبر کے احتجاج پر تھانہ رمنا میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 24 نومبر 2024 کو وزیراعلیٰ پختنوخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں احتجاجی کارواں سینئر رہنما اسد قیصر، عاطف خان، شہرام ترکئی، فیصل جاوید سمیت مرکزی و صوبائی قائدین اور ارکان اسمبلی کے علاوہ کارکنوں کے ساتھ پشاور سے اسلام آباد کی جانب نکلا تھا۔ پی ٹی آئی کے قافلے کے پنجاب کی حدود میں داخل ہوتے ہی قافلے پر پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ کی گئی، وفاقی حکومت نے غیر مہمانوں کی موجودگی کی وجہ سے اسلام آباد کے راستے مکمل طور پر سیل کر دیے تھے، سیکیورٹی خدشات کے باعث جڑواں شہروں میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔ پشاور، اسلام آباد موٹروے پر کہیں خاردار تاریں تو کہیں رکاوٹیں لگائی گئی تھیں، خیبر پختونخوا اور کشمیر سے مری آنے والی رابطہ سڑکوں پر خندقیں کھود دی گئیں تھیں، گھوڑا گلی کے مقام پر سڑک پر مٹی کے پہاڑ بنا دیے گئے تھے، اٹک میں جی ٹی روڈ مکمل طور پر بند تھی۔ نومبر کو پی ٹی آئی کے کارکن ڈی چوک جانے کی کوشش میں تھے، کہ اسی دوران پولیس سے ان کی جھڑپ ہوگئی، اس دوران اسلحہ کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔ احتجاج کے حوالے سے تعینات پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد 3 روزہ ڈیوٹی کے دوران زخمی ہوئی تھی۔پولیس اور پی ٹی آئی کی جانب سے ایک دوسرے پر فائرنگ کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔
ناریل کے چھلکوں سے بنی ماحول دوست پودوں کی خوراک

پاکستان میں تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں اور اس کی تازہ ترین مثال کراچی کے ایک باصلاحیت نوجوان نے پیش کی ہے، جس نے ناریل کے چھلکوں اور مختلف کیمیکل کے امتزاج سے ایک منفرد پودوں کی خوراک تیار کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ جدید طریقہ کار نہ صرف قدرتی وسائل کے بہترین استعمال کی مثال ہے بلکہ زراعت اور باغبانی کے شعبے میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اس نئے فارمولے میں ناریل کے سخت چھلکوں کو پیس کر ایک خاص شکل میں ڈھالا جاتا ہے اور پھر اس میں ایسے کیمیائی اجزا شامل کیے جاتے ہیں جو زمین میں پانی کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ تحقیق کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ اس طریقے سے تیار کردہ خوراک استعمال کرنے والے پودے پانی کو زیادہ دیر تک جذب کر سکتے ہیں، جس سے پانی کے استعمال میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس دریافت کو خاص طور پر ان علاقوں کے لیے فائدہ مند قرار دیا جا رہا ہے جہاں پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے اور پودوں کو زیادہ دیر تک نمی فراہم کرنا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ یہ نوجوان جدت پسندوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے، جو مقامی سطح پر ایسے سستے اور مؤثر حل تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ماحول دوست بھی ہوں اور زراعت کے شعبے کو نئی جہت بھی دیں۔ اگر حکومت اور نجی ادارے اس ایجاد کی سرپرستی کریں تو پاکستان میں زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی کی بچت کا ایک جدید اور پائیدار نظام بھی متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ یہ نئی ایجاد ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں نوجوان محض روایتی ملازمتوں کے بجائے جدت طرازی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ایسے منصوبے متعارف کر رہے ہیں جو نہ صرف ملکی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کو نمایاں کر سکتے ہیں۔
بیجنگ کا جوابی وار: امریکی زرعی اور غذائی مصنوعات پر 10 سے 15 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد

امریکہ کی جانب سے چین پر تازہ ترین تجارتی محصولات کے نفاذ کے بعد، چین نے بھی فوری ردعمل دیتے ہوئے امریکی زرعی اور غذائی مصنوعات پر 10 سے 15 فیصد تک اضافی درآمدی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کو ایک مکمل تجارتی جنگ کے مزید قریب کر دیا ہے۔ چین نے نہ صرف امریکی مصنوعات پر محصولات بڑھائے بلکہ قومی سلامتی کے خدشات کو جواز بناتے ہوئے 25 امریکی کمپنیوں پر برآمدات اور سرمایہ کاری کی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔ تاہم، بیجنگ نے اس بار کسی بڑی امریکی کمپنی کو نشانہ بنانے سے گریز کیا، جیسا کہ اس نے 4 فروری کو ٹرمپ انتظامیہ کی محصولات کے جواب میں کیا تھا۔ چین کے تازہ اقدام میں ان 25 کمپنیوں میں سے 10 کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے، جنہوں نے تائیوان کو اسلحہ فروخت کیا تھا۔ بیجنگ ہمیشہ سے تائیوان کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کو اسلحہ فراہم کرنے کے خلاف سخت موقف اختیار کرتا آیا ہے۔ یہ تجارتی کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے چین پر مزید 10 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی حقیقت کا روپ دھار گئی اور یہ نیا محصول 4 مارچ کو صبح 5 بج کر 1 منٹ جی ایم ٹی پر نافذ کر دیا گیا۔ اس اضافے کے بعد چین کی متعدد مصنوعات پر امریکہ میں مجموعی 20 فیصد محصول لاگو ہو چکا ہے۔ امریکی حکومت کا موقف ہے کہ چین کو منشیات کی اسمگلنگ، خاص طور پر فینٹینیل کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہیے تھے، مگر بیجنگ نے اس الزام کو “بلیک میلنگ” قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس کے ہاں دنیا کے سخت ترین انسداد منشیات قوانین موجود ہیں اور امریکہ بلاوجہ اسے نشانہ بنا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اب بھی تجارتی کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات کا خواہاں ہے، مگر واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان “ایک کے جواب میں دوسرا وار” کی حکمت عملی دونوں ممالک کو ایک وسیع پیمانے پر تجارتی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ امریکہ کے تازہ محصولات ان سیکڑوں چینی مصنوعات پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں جو پہلے ہی سخت امریکی تجارتی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں بھی چین کو شدید معاشی دباؤ کا سامنا رہا، جب امریکہ نے چینی سیمی کنڈکٹرز پر ٹیرف دوگنا کر کے 50 فیصد کر دیا تھا اور چین میں تیار کردہ برقی گاڑیوں پر محصولات میں چار گنا اضافہ کرتے ہوئے 100 فیصد سے زائد کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ کی جانب سے 20 فیصد کا نیا ٹیرف ایسے امریکی صارفین کی مصنوعات پر بھی لاگو ہوگا جو پہلے محفوظ سمجھی جا رہی تھیں، ان میں اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس، ویڈیو گیم کنسولز، اسمارٹ واچز، اسپیکرز اور بلوٹوتھ ڈیوائسز شامل ہیں، جو بڑے پیمانے پر امریکی مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں۔ چین نے اس فیصلے کے فوراً بعد جوابی کارروائی کی اور اعلان کیا کہ وہ 10 مارچ سے امریکہ سے درآمد ہونے والے چکن، گندم، مکئی اور کاٹن پر 15 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرے گا۔ اس کے علاوہ، سویابین، جوار، سور کا گوشت، گائے کا گوشت، سمندری خوراک، پھل، سبزیاں اور ڈیری مصنوعات پر بھی 10 فیصد اضافی محصول لاگو ہوگا ۔ چین کی وزارت خزانہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ یہ اقدامات امریکہ کی جانب سے عائد کردہ نئے محصولات کے خلاف ناگزیر ردعمل ہیں۔ چینی وزارت تجارت نے ایک الگ بیان میں امریکی اقدامات کو عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ یکطرفہ امریکی ٹیرف اقدامات چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کی بنیادوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ چین کے بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ اپنے جائز حقوق اور مفادات کا بھرپور دفاع کرے گا اور کسی بھی اقتصادی جبر کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ یہ تجارتی جنگ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ عالمی معیشت پر بھی سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اگر دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے تنازع کو حل کرنے میں ناکام رہے تو ماہرین کے مطابق، آنے والے مہینوں میں عالمی منڈیوں میں مزید عدم استحکام دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
مہنگائی کی شرح میں کمی، بہتری کا فائدہ عوام تک پہنچنا شروع ہوگیا: وزیراعظم

رواں ماہ مہنگائی کی شرح کم ہو کر 1.52 فیصد پر آ گئی ہے جس کو دس سالوں کے دوران کم ترین سطح قرار دیا جا رہا ہے، اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے خبر کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے حالات میں مزید بہتری کی نوید سنا دی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ فروری میں مہنگائی کی شرح مزید کم ہو کر ایک اعشاریہ پانچ دو فیصد پر آ گئی ہے۔ جنوری 2025 میں مہنگائی کی شرح دو اعشاریہ چار ایک فیصد تھی، جنوری کے مقابلے میں فروری میں مہنگائی کی شرح میں صفر اعشاریہ آٹھ تین فیصد کمی ہوئی۔ وزارت خزانہ نے فروری کے لیے مہنگائی کا تخمینہ 2 سے 3 فیصد کے درمیان لگایا تھا، لیکن ملک میں مہنگائی کی شرح وزارت خزانہ کے توقعات سے بھی کچھ کم رہی ہے۔ دریں اثنا وزيراعظم شہباز شریف نے حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر مہنگائی میں کمی کی خبر کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ افراط زر ڈیڑھ فیصد پر ہے جو 2015 کے بعد سب سے کم سطح پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ٹیم کی کاوشوں سے معاشی اشاریے ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہو رہے ہیں، معیشت کی بہتری، کاروبار اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے تمام ادارے مل کر کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میکرو اکنامک معاشی بہتری کا فائدہ عوام تک پہنچنا شروع ہو گیا ہے، قوی اُمید ہے کہ افراط زر میں مزید کمی ہوگی، عوام کو کم نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
ٹرمپ ڈٹ گئے، میکسیکو اور کینیڈا پر عائد 25 فیصد ٹیرف پرعمل درآمد شروع

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو اور کینیڈا پر 25 فیصد کے بھاری ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ نافذ العمل ہو گیا، جو ایک غیرمعمولی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں پر دباؤ ڈالنا ہے، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے شمالی امریکہ کی مجموعی معیشت، بشمول خود امریکہ، شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے خلاف بھی سخت رویہ اپناتے ہوئے وہاں سے درآمد ہونے والی تمام اشیاء پر ٹیرف کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی ہے۔ یہ نیا ٹیرف پہلے سے نافذ اربوں ڈالر کی چینی مصنوعات پر لاگو محصولات کے علاوہ ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو کو کافی وقت دیا تھا تاکہ وہ منشیات کی اسمگلنگ اور خطرناک گینگ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ لہٰذا، یہ تجارتی پابندیاں ناگزیر ہو چکی تھیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی معیشت پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے اور افراط زر ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ نئی تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں ان اشیاء کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جو امریکہ ان ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال امریکہ نے کینیڈا، میکسیکو اور چین سے 1.4 ٹریلین ڈالر مالیت کی مصنوعات درآمد کیں، جو امریکہ کی کل درآمدات کا 40 فیصد بنتی ہیں۔ نئے ٹیرف کے تحت کینیڈا سے آنے والی زیادہ تر اشیاء پر 25 فیصد محصول عائد کیا گیا ہے، تاہم خام تیل جیسی توانائی سے متعلق اشیاء کو 10 فیصد کے کم ٹیرف کے تحت رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب، تازہ پھل، سبزیاں، گاڑیاں، آٹو پارٹس، الیکٹرانکس اور دیگر مصنوعات جو میکسیکو، چین اور کینیڈا سے درآمد کی جاتی ہیں، اب 20 سے 25 فیصد تک کے ٹیرف کا سامنا کریں گی۔ چین اور کینیڈا کا سخت ردعمل بیجنگ نے منگل کے روز فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر نئے محصولات کا اعلان کر دیا۔ چینی اسٹیٹ کونسل ٹیرف کمیشن کے بیان کے مطابق، امریکہ سے درآمد ہونے والے چکن، گندم، مکئی اور کاٹن پر 15 فیصد کا نیا محصول لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، سویابین، گائے کا گوشت، دودھ، سمندری خوراک اور دیگر زرعی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف بھی لاگو کر دیا گیا ہے۔ چین کی وزارت تجارت نے ایک اور سخت اقدام کرتے ہوئے 15 امریکی کمپنیوں کو اپنی “برآمدی کنٹرول فہرست” میں شامل کر لیا، جن میں ڈرون بنانے والی کمپنی “اسکائیڈیو” بھی شامل ہے۔ اس فیصلے کے تحت، ان کمپنیوں کو چین سے دوہری استعمال والی ٹیکنالوجی یا آلات برآمد کرنے پر پابندی ہوگی۔ چین کی پارلیمنٹ “نیشنل پیپلز کانگریس” کے اجلاس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں چینی ترجمان لو چِن جیان نے کہا کہ بیجنگ کسی بھی قسم کے دباؤ یا دھمکیوں کو قبول نہیں کرے گا اور وہ اپنی قومی خودمختاری، سلامتی اور اقتصادی مفادات کا بھرپور دفاع کرے گا۔ کینیڈا نے بھی واشنگٹن کے اس اقدام کے خلاف سخت ردعمل دیا۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا کہ اوٹاوا فوری طور پر 30 بلین ڈالر مالیت کی امریکی اشیاء پر جوابی ٹیرف عائد کرے گا، جبکہ 25 مارچ تک مزید 125 بلین ڈالر کے امریکی سامان پر اضافی محصولات لگائے جائیں گے۔ ٹروڈو نے اپنے بیان میں کہا کہ کینیڈا اس “غیرمنصفانہ فیصلے” کا بھرپور جواب دے گا اور کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔ امریکی معیشت پر ممکنہ اثرات ماہرین اقتصادیات خبردار کر رہے ہیں کہ یہ تجارتی جنگ امریکی معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب معیشت پہلے ہی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ امریکی بیورو آف اکنامک اینالیسس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، جنوری میں صارفین کے اخراجات غیر متوقع طور پر کم ہوئے، جبکہ افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ صارفین کا اعتماد بھی شدید متاثر ہوا ہے اور 2009 کے بعد پہلی بار نئے سال کے آغاز میں سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، بے روزگاری کے تازہ ترین اعداد و شمار بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ گزشتہ ہفتے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں توقع سے زیادہ بڑھ گئیں، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہزاروں وفاقی ملازمین کی برطرفی نے مقامی معیشتوں میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔
“چین کا ٹیکنالوجی میں خودکفالت کی جانب اہم قدم، ملک بھر میں RISC-V چپس کے فروغ کی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ”

چین نے مغربی ملکوں کی ٹیکنالوجی پر انحصار کم کرنے اور مقامی سطح پر ڈیجیٹل خودکفالت کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی پالیسی متعارف کرانے کی تیاری مکمل کر لی ہے، جس کے تحت ملک بھر میں اوپن سورس RISC-V چپس کے استعمال کو تیزی سے فروغ دیا جائے گا۔ اس حوالے سے تیار کی گئی پالیسی گائیڈ لائنز کو رواں ماہ کے آخر تک باضابطہ طور پر جاری کیے جانے کا امکان ہے، تاہم حتمی تاریخ میں ردوبدل ہو سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ پالیسی چین کی آٹھ بڑی سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے مرتب کی جا رہی ہے، جن میں سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنا، چینی وزارت صنعت و انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، اور چائنا نیشنل انٹیلیکچوئل پراپرٹی ایڈمنسٹریشن جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد چین کو چِپ ٹیکنالوجی میں مغربی کمپنیوں کے اثر و رسوخ سے آزاد کرنا اور مقامی سطح پر خودکفیل بنانا ہے۔ ماہرین کے مطابق، RISC-V چپس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اوپن سورس ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ کسی بھی مغربی کمپنی کی ملکیت نہیں، اور ان کے استعمال پر کسی قسم کی پابندی یا رائلٹی لاگو نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ چین، جو امریکی اور یورپی کمپنیوں کے تیار کردہ پروسیسرز پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے، اس ٹیکنالوجی کو تیزی سے اپنانے کی حکمت عملی تیار کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین اور امریکہ کے درمیان سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی اور چپ مینوفیکچرنگ کے حوالے سے کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ نے حالیہ برسوں میں چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں، بالخصوص ہواوے اور دیگر سیمی کنڈکٹر فرمز پر پابندیاں عائد کی ہیں، تاکہ بیجنگ کی چِپ انڈسٹری کو محدود کیا جا سکے۔ اس کے جواب میں چین نے اپنی ٹیکنالوجی کو مزید خودمختار بنانے کی حکمت عملی پر عمل درآمد تیز کر دیا ہے۔ چینی حکومت کا ماننا ہے کہ RISC-V چپس کا زیادہ سے زیادہ استعمال مقامی کمپنیوں کو مغربی ٹیکنالوجی سے آزاد کرے گا اور قومی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی یہ ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس پالیسی کے تحت چین کی لوکل ٹیک انڈسٹری کو عالمی سطح پر مزید مسابقتی بنانے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ مستقبل میں ملک کی معیشت ڈیجیٹل سطح پر خودکفیل ہو سکے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس پالیسی کے نفاذ کے بعد چینی کمپنیاں، تعلیمی ادارے اور ریسرچ سینٹرز RISC-V چپس کے استعمال کو ترجیح دیں گے، جس سے نہ صرف چِپ مینوفیکچرنگ کی لاگت کم ہو گی بلکہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نئی اختراعات اور ایجادات کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ یہ اقدام چین کی طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ملک کو سیمی کنڈکٹرز کے میدان میں عالمی طاقت کے طور پر ابھارنا ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی واقعات دوبارہ کیوں بڑھنے لگے، چشم کُشا انکشافات

پاکستان میں دہشتگردی کی لہر میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے، آئے روز سیکیورٹی فورسز اور اہم اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، حال ہی میں شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے ساتھ جھڑپ میں 4 جوانوں نے جام شہادت نوش کر لیا، جبکہ سرحدی چوکیوں پر حملہ کرنے والے 13 دہشتگرد بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں آدھی رات کو ہونے والی جھڑپوں کے دوران متعدد سیکیورٹی چوکیوں پر حملہ کرنے والے کم از کم 13 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ رات کو ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے اسپالگا، گوش، ٹپی، باروانا، پیپانا لوئر اور پپانا ٹاپ کی 6 سیکیورٹی چوکیوں پر بیک وقت حملہ کیا، چیک پوسٹوں پر تعینات فوجیوں نے اس حملے کا موثر جواب دیا۔ ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز 13 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئیں جبکہ متعدد مبینہ طور پر زخمی ہوگئے، باقی دہشت گرد اندھیرے کی آڑ میں اپنے ساتھیوں کی لاشیں لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ شہید اور زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کو میرانشاہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کر دیا گیا جبکہ شدید زخمیوں کو بنوں کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس دوران اضافی دستے علاقے میں پہنچ گئے اور دہشت گردوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق افغانستان کی سرحد سے متصل شمالی وزیرستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے سیکیورٹی اہلکاروں پر بار بار حملے کیے گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک خودکش بمبار نے عیدک کے علاقے میں یک کار ان کے قافلے سے ٹکرا دی تھی جس کے نتیجے میں دو فوجی شہید ہو گئے تھے۔اس حملے میں 2 شہریوں سمیت کم از کم 10 افراد زخمی ہوئے جس سے گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ اس سے قبل 24 فروری کو شمالی وزیرستان کی تحصیل اسپن وام میں ایک چیک پوسٹ پر حملے میں 4 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے۔28 فروری کو آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ غلام خان کالے کے علاقے میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔ فروری میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران 156 دہشت گرد مارے گئے اور 66 کو گرفتار کیا گیا، یہ تعداد دسمبر 2023 میں مارے گئے 139 دہشت گردوں کے بعد سب سے زیادہ ہے۔گرفتار شدگان میں سے زیادہ تر، 50 گرفتاریاں سابقہ فاٹا کے علاقے سے کی گئیں جبکہ 16 کا تعلق پنجاب سے تھا۔