سات ارب ڈالر قرض پروگرام، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی مذاکرات شروع

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی اگلی قسط کے حصول کے لیے تکنیکی مذاکرات کے بعد پالیسی لیول مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی مذاکرات کا پہلا سیشن وزارت خزانہ حکام اور دوسرا ایف بی آر حکام کے ساتھ مکمل ہوا ہے۔ پالیسی لیول مذاکرات میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ناتھن پورٹر نے قیادت کی، جب کہ سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی مذاکرات میں شریک ہوئے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے لیے پالیسی مذاکرات ہو رہے ہیں، جو 2 ہفتے تک جاری رہیں گے۔ ان مذاکرات کے بعد جائزہ مشن اپنی سفارشات آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کو دے گا، جو اس ماہ کے آخر یا اپریل کے اوائل میں 1.1 ارب ڈالر کی اگلی قسط جاری کرنے اور بجلی سستی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گا۔ وزارت خزانہ حکام آئی ایم ایف وفد سے تعارفی سیشن میں شریک ہوئے، اقتصادی جائزہ مذاکرات 15مارچ تک جاری رہیں گے۔ آئی ایم ایف کے وزارت خزانہ، وزارت توانائی و منصوبہ بندی، اسٹیٹ بینک ، ایف بی آر، اوگرا، نیپرا سمیت دیگر اداروں اور وزارتوں کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔ اس کے علاوہ پنجاب، سندھ ، کے پی اور بلوچستان سے الگ الگ مذاکرات ہوں گے۔ وفد سے ملاقات میں جولائی سے فروری تک معاشی اعشاریوں پر آئی ایم ایف وفد کو پریزنٹیشن دی گئی، جب کہ مالیاتی خسارہ، پرائمری بیلنس، صوبوں کا سرپلس اور ریونیو کلیکشن پر بھی بریفنگ دی گئی۔ آئی ایم ایف وفد سے رواں مالی سال کے لیے جولائی سے جنوری تک ریونیو پر بات ہوئی۔ ڈی جی ڈیٹ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اکنامک ونگ، بجٹ ونگ، ایکسٹرنل فنانس ونگ اور ریگولیشنز ونگ جولائی سے دسمبر مالیاتی خسارہ 1 ہزار 537 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔   ریونیو کلیکشن پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بریفنگ دی ہے، ایف بی آر بورڈ ممبران بھی آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات میں شریک ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے ماہر بنیجی نے کہا ہے کہ فنڈ کی ٹیم مارچ کے اوائل میں سات ارب ڈالر کے توسیعی پروگرام پر حکام سے بات چیت کرے گی، اس سلسلے میں ایک تکنیکی ٹیم فروری کے اوآخر پاکستان پہنچی تھی۔ اس حوالے سے پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ابتدائی طور پر وفد سے سٹرکچرل امور پر گفتگو ہوگی، جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق تمام امور درست ہیں۔ ایک مہینے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ منفی اور سات مہینے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مثبت ہے۔ مزید پڑھیں: حکومت نے آئی پی پیز کے 7000 میگاواٹ کے مہنگے منصوبے منسوخ کر دیے ہیں، وزیر توانائی اویس لغاری یاد رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی حتمی منظوری دی تھی۔ پہلے جائزے کی کامیابی کے بعد فنڈ پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی۔ پاکستان نے گذشتہ سال اکتوبر میں اس ٹرسٹ کے تحت ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ کے لیے باضابطہ درخواست دی تھی تاکہ ملک کی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ ملک کی معیشت بحالی کے ایک طویل عمل سے گزر رہی ہے جسے گزشتہ سال کے آخر میں حاصل کردہ سات ارب ڈالر کے آئی ایم ایف ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی کے تحت نسبتاً استحکام حاصل ہوا تھا۔

روبوٹ اب کھانا فرائی کرنے کا کام بھی کریں گے

روبوٹ کا بازو خود بخود کھانے کو تلتا ہے اور مقررہ وقت کے بعد خود نکال کر پیش کرتا ہے، ساتھ ہی اضافی تیل کو فلٹر کر کے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں دیگر صنعتوں میں انقلاب برپا کیا ہے، وہیں اب باورچی خانے میں بھی جدید مشینری کا دور شروع ہو چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کھانے پکانے کی صنعت میں حیرت انگیز تبدیلیاں آ رہی ہیں اور اب ایسا ممکن ہو چکا ہے کہ فرائنگ یعنی تلنے کا عمل انسانی محنت کے بغیر، ایک خودکار روبوٹ کے ذریعے مکمل ہو سکے۔   بین الاقوامی سطح پر روبوٹک فوڈ فرائی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، جہاں خودکار مشینیں کھانے کو تلنے کے تمام مراحل خود انجام دیتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی خاص طور پر فاسٹ فوڈ انڈسٹری کے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، جہاں معیار، تیزی اور لاگت کی بچت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔   جدید روبوٹک مشینیں نہ صرف تیل کا درجہ حرارت خود کنٹرول کرتی ہیں بلکہ کھانے کو مخصوص وقت کے بعد خود بخود نکال لیتی ہیں، تاکہ ہر مرتبہ یکساں ذائقہ اور معیاری خوراک فراہم کی جا سکے۔   ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خودکار نظام سینسرز اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلتا ہے، جس کے ذریعے کھانے کے ہر ٹکڑے کو یکساں تلنے کے لیے روبوٹ مخصوص مقدار میں خوراک کو فرائنگ مشین میں ڈالتا ہے۔ اس کے بعد سینسرز تیل کے درجہ حرارت کو مانیٹر کرتے ہیں تاکہ کھانے کی کوالٹی برقرار رہے۔   روبوٹ کا بازو خود بخود کھانے کو تلتا ہے اور مقررہ وقت کے بعد خود نکال کر پیش کرتا ہے، ساتھ ہی اضافی تیل کو فلٹر کر کے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔   روبوٹک فوڈ فرائی کے بے شمار فوائد ہیں۔ ایک تو یہ روایتی طریقوں کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے، دوسرا یہ کہ ہر مرتبہ کھانے کا معیار اور ذائقہ یکساں رہتا ہے، جس سے کسٹمرز کو ایک جیسا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ریستوران مالکان کے لیے بھی یہ ایک بہترین حل ہے کیونکہ اس سے مزدوری کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔   ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ چونکہ روبوٹ کام کرتا ہے، اس لیے باورچی خانے میں جلنے یا کسی حادثے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی، چونکہ مشین تیل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتی ہے، اس لیے تیل کا ضیاع بھی کم ہوتا ہے، جو ماحولیاتی فوائد کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔   پاکستان میں فاسٹ فوڈ انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور کئی بڑے برانڈز جدید ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں روبوٹک کچن کے متعارف ہونے کے امکانات روشن ہیں، جہاں خودکار نظام کے ذریعے کھانے کی تیاری مزید آسان اور معیاری بنائی جا سکے گی۔   اگر سرمایہ کار اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی لیں تو پاکستان میں بھی جلد ایسے ریستوران دیکھنے کو مل سکتے ہیں جہاں باورچی خانے میں انسانوں کے بجائے روبوٹ کام کر رہے ہوں گے۔

سنگا پور، سعودی عرب سمیت 10 ممالک سے 93 پاکستانی بے دخل، وجوہات بھی سامنے آگئیں

پاکستانیوں کی بیرون ممالک سے بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے، سعودی عرب، ملائیشیا، سنگاپور، مراکش سمیت دیگر دس ممالک سے مزید 93 پاکستانیوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے، جبکہ 6 پاکستانی بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔ امیگریشن ذرائع کے مطابق سعودی عرب سے 4 بلیک لسٹ اور ویزا ختم ہونے پر 1، کنٹریکٹ کی خلاف ورزی پر 24 پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ امیگریشن ذرائع کا کہنا ہے کہ عمان سے 3 بلیک لسٹ، امیگریشن سے انکار پر 1 اور ملائیشیا سے 1 کو ناپسندیدہ قرار دے کر بے دخل کیا گیا۔ امیگریشن ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات میں 1، بلیک لسٹ منشیات اور شراب نوشی پر 3، زائد المیعاد قیام پر 2 اور جیل سے رہا کرکے 37 پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ سنگاپور پاسپورٹ گمشدگی پر 1، موزمبیق سے 1، عراق میں زائد المیعاد قیام پر 4، دیگر الزام پر 2 کو بے دخل کیا گیا۔ امیگریشن ذرائع کے مطابق قطر سے 3 مفرور اور جنوبی افریقا میں رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے 1 اور ناپسندیدہ قرار دے کر 1 پاکستانی کو بے دخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ مراکش میں انسانی اسمگلنگ کے لیے پہنچے 2 نوجوانوں کو حراست میں لےکر پاکستان واپس بھیجا گیا جنہیں کراچی میں انسداد ہیومن ٹریفکنگ سرکل منتقل کیا گیا۔

کتنا بدل گیا ہے وہ!

آپ کا بھی تجربہ ہوگا کہ کبھی کبھی کوئی قریبی فرد آپ کو بدلا ہوا لگنے لگتا ہے۔ خصوصاً شادی کے بعد خواتین کا مردوں کے حوالے سے اور مردوں کا خواتین کے حوالے سے یہ تاثر بہت عام پایا جاتا ہے۔ آپ یہ کہنے لگتے ہیں کہ کتنا بدل گیا ہے وہ! یا کتنی بدل گئی ہے وہ! لیکن کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ دراصل کسی فرد سے تعلق کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کے اہم کام اور آپ کی زندگی کے اہم کام ملتے جلتے ہوتے ہیں یا زندگی انہیں ملا دیتی ہے۔ یوں یہ مشترکہ اہم کام آپ کو قریب لے آتے ہیں۔ اسی طرح کچھ رشتے ایسے بنتے ہیں کہ دو لوگ تیزی سے ایک دوسرے کی ترجیح میں اوپر آتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ جو کام پہلے فرد کے نزدیک اہم تھے، وہ حالات و واقعات کی وجہ سے غیراہم ہونا شروع  ہوجاتے ہیں، جبکہ دوسرے فرد کے نزدیک وہ ویسے ہی اہم رہتے ہیں۔ اب پہلے فرد کے نزدیک حالات و ترجیحات کی بنا پر کچھ اور کام اہم ہوجاتے ہیں۔ یوں وہ وجوہات جو گرمجوشی کی مشترکہ بنیاد ہوتی ہیں بدلنا شروع ہوتی ہے تو تعلق کی گرمجوشی بھی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اب پہلے فرد کے نزدیک دوسرے فرد کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس کی توانائی اور وقت کچھ اور اہم کاموں کے لیے وقف ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسرا فرد جو اپنے پرسیپشن کے مطابق اپنے پرانے تعلق میں ویسا ہی ہے، اسے لگنے لگتا ہے کہ پہلا فرد “کتنا بدل گیا ہے۔” اور اس کا پرسیپشن بتدریج اس کی سوچ، احساسات اور تعلقات پر غالب آتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں پہلا فرد بدلا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہوتی ہیں جو اس کی زندگی اور کاموں کے لیے ضروری ہیں۔ تعلق دلی طور پر ویسا ہی گرمجوش اور محبت سے بھرپور ہوتا ہے۔ تاہم اس کا اظہار ترجیح نہیں رہتا۔ ایسا شادیوں کے بعد بھی ہوتا ہے۔ اسکول کے دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کسی فیلڈ میں ساتھ کام کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ کسی اچھے دوست کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ یوں اکثر و بیشتر اوقات “فرد نہیں بدلا ہوتا ہے” بلکہ آپ کا پرسیپشن ایک جگہ پر “اسٹک” ہوجاتا ہے۔ آپ کسی فرد کو ایک جگہ اسٹک نہیں رکھ سکتے، ہاں اپنے تعلقات، اپنے پرسیپشن کی وجہ سے ضرور خراب کر لیتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ “کتنا بدل گیا ہے وہ!”

چند خاندان ہی پاکستان کے مالک کیوں ہیں؟

پاکستان میں موروثی یا خاندانی سیاست کو عمومی طور پر منفی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دیگر ممالک، خاص طور پر ایشیائی ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں اس کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ بی بی سی کی 2018 میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹیوز نے پاکستان میں موروثی سیاست کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا تھا۔ اس تحقیق کے مطابق 1996 میں امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا تناسب تقریباً چھ فیصد تھا، جب کہ 2010 تک انڈیا کی لوک سبھا میں یہ شرح 28 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کے برعکس پاکستان میں 2018 کے الیکشن تک  قومی اور پنجاب اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا، جو دیگر ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ تحقیق میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان میں موروثی سیاست کی بنیادی وجہ وہ پالیسیاں اور قوانین ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے تقریباً 400 بااثر خاندانوں کے حق میں بنتی چلی آ رہی ہیں۔ یہ خاندان قومی وسائل اور نجی شعبوں میں اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، جس کے باعث سیاسی میدان میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی اور موروثی سیاست کو مزید تقویت ملتی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر سیاسات ڈاکٹر زاہد حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں کسی نظریے یا تنظیمی ڈھانچے پر نہیں، بلکہ شخصیات اور خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں۔ انتخابات میں جیت کے لیے مالی وسائل اور مقامی اثر و رسوخ اہم ہوتے ہیں، جو مخصوص خاندانوں کے پاس زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے موروثی سیاست پروان چڑھتی ہے۔ پاکستان میں بھٹو اور شریف خاندان کی سیاسی جڑیں اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں کہ ان کا خاتمہ بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایک فرد سیاسی منظرنامے سے ہٹ جاتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لیے دوسرا تیار ہوتا ہے۔ اگر بھٹو خاندان کی بات کی جائے تو یہ ممکن تھا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو بے نظیر بھٹو سیاست میں نہ آتیں۔ تاہم، جب وہ سیاست میں آئیں تو انہوں نے اپنی جماعت کو مضبوط کیا، بے نظیر کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت وراثتی طور پر ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہو گئی۔ اسی خاندانی سیاست کے تسلسل میں عاصمہ بھٹو کو پاکستان کی خاتونِ اول کا درجہ حاصل ہوا اور اب بھی یہی دکھائی دے رہا ہے کہ یہ پارٹی اسی خاندانی  سیاست کی بنیاد پر ہی مستقبل میں بھی نسل در نسل منتقل ہو گی۔ دوسری طرف شریف خاندان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو  نواز شریف نے اپنے خاندان کی سیاسی بنیاد رکھی، جب کہ ان کے والد کا سیاست میں کوئی کردار نہیں تھا۔نواز شریف نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر خود کو نامزد کیا، بعد ازاں خود کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے چنا، جب کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اپنے بھائی شہباز شریف کے لیے چھوڑ دی۔  وقت کے ساتھ ساتھ شہباز شریف نے اپنی قیادت کو مستحکم کیا  ،خود وزیراعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہوگے اور اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر تیار کیا، جب کہ اب شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب افواہیں یہ بھی ہیں کہ اگلی بار پاکستان کی وزیراعظم مریم نواز ہوں گی۔ شریف اور بھٹو خاندان کے علاوہ دیگر خاندان بھی ان موروثی خاندان کے طور پر جانے جاتے ہیں جن میں پنجاب میں چوہدری خاندان، کے پی کے میں خٹک خاندان، بلوچستان میں بگٹی اور مگسی خاندان  سر فہرست ہیں، جنہوں نے اپنی خاندانی روش کو قائم رکھا ہوا ہے۔ ماہر عمرانیات ڈاکٹر عثمان صفدر نے ‘پاکستان میٹرز’  کو بتایا کہ ان خاندانوں کو صرف عوامی مقبولیت کی بنیاد پر ووٹ ملتے ہیں۔ دراصل روایتی سیاست میں جاگیرداری، مذہبی اثر و رسوخ اور برادری کی وابستگیاں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ یوں سیاسی طاقت چند خاندانوں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ پاکستان میں موروثی سیاست کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ اس کی جڑیں قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی مضبوط ہو ئی، جاگیردارانہ نظام نے اس رجحان کو مزید فروغ دیا اور سیاسی قیادت چند مخصوص خاندانوں کے گرد گھومنے لگی۔ جمہوری نطام میں خاندانی سیاست  یا موروثی سیاست کی جڑیں قائم رہنا ممکن نہیں ہوتیں، مگر پاکستان میں جمہوریت نے موروثی سیاست کو مزید تقویت دی۔ ڈاکٹر زاہد حسن نے موروثی سیاست اور جمہوریت کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موروثی سیاست جمہوریت کی روح کے خلاف ہے، کیونکہ یہ قیادت کو صرف چند خاندانوں تک محدود رکھتی ہے۔ اس کے باعث میرٹ کا قتل ہوتا ہے، نئی قیادت ابھرنے کے مواقع نہیں ملتے اور پالیسی سازی عوامی مفاد کے بجائے مخصوص خاندانوں کے مفاد میں کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ  حقیقت میں موروثی سیاست صرف مخصوص خاندانوں کے اقتدار کو مضبوط کرتی ہے۔ جب حکمرانی کا معیار وراثت بن جائے تو گورننس، پالیسی سازی اور شفافیت متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے عوام بنیادی مسائل سے محروم رہتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں نے موروثی سیاست کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، جب کہ مارشل لا کے ادوار میں بھی یہ رجحان ختم ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتا چلا گیا۔  سابق صدر جنرل ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب پاکستان کے وزیر خارجہ اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے، جب کہ اب گوہر ایوب کے بیٹے عمر ایوب آج بھی پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح جنرل ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق بھی پاکستان کی سیاست میں متحرک ہیں۔ پاکستان میں موروثی سیاست نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے اور مستقبل قریب میں اس کے ختم ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ سیاسی میدان میں عام آدمی کے لیے جگہ محدود ہوتی جا رہی ہے، جب کہ بااثر خاندانوں کی

ٹرمپ نے یوکرین کے لیے تمام امداد بند کر دی، بات یہاں تک کیسے پہنچی؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے لیے تمام فوجی امداد بند کر دی ہے، وائٹ ہاؤس عہدیدار کے مطابق صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ ان کی توجہ امن پر ہے، ہمارے شراکت داروں کو بھی اس مقصد کے لیے پر عزم ہونے کی ضرورت ہے۔ وائٹ ہاؤس عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہم اپنی امداد کو روک رہے ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یقینی بنایا جائے کہ اس امداد کا کوئی مثبت نتیجہ نکل رہا ہے۔ اس سے قبل پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کو دھمکی دیتے ہوئے اشارہ دیا کہ اگر انہوں نے روس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ نہ کیا تو وہ یہاں زیادہ دیر تک نہیں رہیں گے۔ یوکرین میں جنگ بندی کے حوالے سے ڈیل پر امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈیل جلد ہو سکتی ہے، اسے مشکل ڈیل نہیں ہونا چاہئے، لیکن اگر کوئی شخص ڈیل کرنا نہیں چاہتا، تو میرا خیال ہے کہ وہ زیادہ دیر یہاں نہیں رہے گا۔ یاد رہے کہ یوکرینی صدر زیلنسکی جمعہ کو واشنگٹن پہنچے تھے تاکہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کے دوران امریکا اور یوکرین کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کریں۔ جس کے تحت یوکرین کے وسیع معدنی وسائل کو مشترکہ طور پر استعمال کیا جانا تھا۔ یہ ایک امریکی ثالثی امن معاہدے کے تحت جنگ کے بعد کی بحالی کا حصہ تھا۔ لیکن یوکرینی صدرکی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں گرما گرم بحث کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف امریکا کی جانب سے کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فیصد ٹیرف آج سے نافذ ہوگا ، چین سے اشیا کی امریکا درآمد پراضافی رقوم کا اطلاق بھی آج سے ہوگا۔ امریکی صدر نے کینیڈا یا میکسیکو سے ٹیرف کے معاملے پر ڈیل ناممکن قرار دے دی۔ ادھر کینیڈا اور میکسیکو پر آج سے ٹیرف نافذ ہونے پر امریکی اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ 2025 میں پہلی بار ایس اینڈ پی 500 میں ایک روز میں 1.8 فیصد کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی سرفہرست ٹیکنالوجی کمپنیوں کے شئیرز میں بھی گراوٹ نظر آئی ہے۔

‘دبئی میچ کھیلنے آئے ہیں، کسی کو چپ کرانے نہیں،’ کینگروز کپتان اسٹیو اسمتھ

آسٹریلوی کپتان اسٹیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ انڈیا کے خلاف میچ میں اچھا کھیل پیش کریں گے، دبئی کسی کو چپ کروانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ کینگروز کپتان اسٹیو اسمتھ نے دبئی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 2 اچھی ٹیموں کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا، آسٹریلین ٹیم خوب سے خوب تر کھیلنے کے لیے پرعزم ہے۔ اسٹیو اسمتھ کا کہنا تھا کہ انڈین ٹیم ایونٹ کے سارے میچز ایک ہی پچ پر کھیل رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ پچ کی کنڈیشنز سے بخوبی واقف ہے، پچ خشک ہے اور اسپنرز کو مدد ملے گی۔ آسٹریلوی کپتان نے کہا کہ انڈیا کے پاس اعلیٰ معیار کے اسپنرز ہیں، میچ کا فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ مڈل اوورز میں ہم انہیں کیسے کھیلتے ہیں، ہمارے پاس مختلف آپشنز موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چکرورتی سمیت تمام بھارتی اسپنرز اعلیٰ معیار کے ہیں، اس میچ کا نتیجہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ ہم مڈل اوورز میں ان کے اسپنرز کو کیسے کھیلتے ہیں، ہمارے پاس مختلف آپشنز ہیں اسٹیو اسمتھ نے ورلڈکپ 2023 کے فائنل میں بھارت کو شکست دینے اور شائقین کو مکمل خاموش کرانے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ کھیل میں بہترین کارکردگی دکھانے پر یقین رکھتے ہیں، شائقین کو خاموش کرانے پر نہیں۔ مزید پڑھیں: سیمی فائنل سے قبل آسٹریلیا کو بڑا دھچکا، اہم بلے باز ایونٹ سے باہر ہوگئے کینگروز کپتان نے کہا کہ ٹریوس ہیڈ جیسے کھلاڑی کا جارحانہ کھیل ہمیں ایک شاندار آغاز دے سکتا ہے، وہ بڑے میچز میں ہمیشہ پرفارم کرتے ہیں اور کل بھی ہم ان سے یہی توقع رکھیں گے۔ نیوز کانفرنس میں اسمتھ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سخت حصار سے نکل کر دبئی میں ری سیٹ اور ٹریننگ کا موقع ملا جس سے ہمیں کنڈیشنز کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد ملی۔ دبئی میں کچھ کھلاڑیوں نے گالف کھیلی تو کچھ نے ریلکس ہوکر ٹریننگ کی۔ واضح رہے کہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا پہلا سیمی فائنل کل انٹرنیشنل اسٹیڈیم دبئی میں انڈیا اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا جائے گا، جہاں دونوں ٹیمیں فائنل کے لیے جنگ لڑیں گی۔