’شکریہ پاکستان‘ دہشت گرد پکڑنے پر ٹرمپ خوشی سے نہال

یہ گرفتاری امریکہ اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹی تعاون کی ایک بڑی مثال کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جو خطے میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار دہشت گرد پاکستان کی مدد سے گرفتار کر لیا گیا ہے اور اسے امریکہ منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں وہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے یہ اعلان اپنے دوسرے صدارتی دور میں کانگریس سے پہلے خطاب کے دوران کیا، تاہم انہوں نے گرفتاری کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ خطاب میں انہوں نے کہا، “آج رات، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے اس خوفناک حملے کے مرکزی دہشت گرد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور وہ اس وقت امریکی انصاف کی تلوار کا سامنا کرنے کے لیے یہاں لایا جا رہا ہے۔” ٹرمپ نے اس موقع پر سابق صدر جو بائیڈن پر سخت تنقید کرتے ہوئے افغانستان سے انخلا کو ایک “تباہ کن” اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا، “میں خصوصی طور پر پاکستان کی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے اس درندے کو گرفتار کرنے میں ہماری مدد کی۔” تاہم انہوں نے مشتبہ دہشت گرد کے نام یا آپریشن کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ 26 اگست 2021 کو کابل ایئرپورٹ کے باہر خودکش بم دھماکوں اور مسلح حملے کے نتیجے میں 170 افغان شہریوں سمیت 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا تھا جب ہزاروں افغان شہری کابل ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ دہشت گرد تنظیم داعش خراسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مزیدپڑھیں: یوکرینی صدر مذاکرات پر آمادہ ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ کو خط موصول اپریل 2023 میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ افغان طالبان نے حملے کے ماسٹر مائنڈ کو ہلاک کر دیا ہے، جسے داعش خراسان کا ایک کلیدی رہنما قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، اب اس حملے کے ایک اور منصوبہ ساز، محمد شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق، پاکستان نے سی آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر کارروائی کرتے ہوئے شریفللہ کو گرفتار کیا۔ ذرائع کے مطابق، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے اپنی ابتدائی گفتگو میں ہی اس معاملے پر بات کی تھی۔ اس گفتگو کے بعد، امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کے نتیجے میں یہ اہم گرفتاری عمل میں آئی۔ امریکی خبر رساں ویب سائٹ ایکسیوس نے بھی تصدیق کی ہے کہ گرفتار دہشت گرد شریف اللہ، جسے جعفر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو امریکہ منتقل کیا جا رہا ہے اور وہ بدھ تک امریکی سرزمین پر پہنچ جائے گا۔ امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی نے ایک بیان میں کہا کہ گرفتار مشتبہ شخص کو امریکی محکمہ انصاف، ایف بی آئی اور سی آئی اے کی تحویل میں لے لیا جائے گا۔ بونڈی نے کہا، “ہمیں امید ہے کہ اس گرفتاری سے ان 13 امریکی ہیروز کے خاندانوں کو کچھ حد تک سکون ملے گا جو ایبے گیٹ حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ہم امریکیوں کو نقصان پہنچانے والے تمام افراد کو جلد اور فیصلہ کن انصاف کے دائرے میں لانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔” یہ گرفتاری امریکہ اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹی تعاون کی ایک بڑی مثال کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جو خطے میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔

کیا اسٹیفن کانسٹینٹائن کی دوبارہ تعیناتی پاکستانی فٹ بال کو ترقی دے گی؟

Football coach

پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) نے اسٹیفن کانسٹینٹائن کو دوبارہ قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ آئندہ اے ایف سی ایشین کپ کوالیفائرز میں پاکستان کی کوچنگ کریں گے۔ یہ فیصلہ باضابطہ طور پر اعلان ہونا باقی ہے، لیکن اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کوالیفائرز کے تیسرے راؤنڈ کی تیاری کر رہا ہے، جو ملک کے فٹبال کے لیے ایک اہم موقع ہے۔ ذرائع کے مطابق، کانسٹینٹائن کو صرف شام کے خلاف اے ایف سی کوالیفائر میچ کے لیے کوچنگ کرنے کو کہا گیا ہے، جبکہ طویل مدتی تقرری کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔ پی ایف ایف کے ایک اہلکار نے کہا، “وہ صرف شام کے خلاف اس کوالیفائر کے لیے آ رہے ہیں۔ ہمارے پاس کسی بڑی تبدیلی کا وقت نہیں، اس لیے ہم نے اسٹیفن کو اس میچ کے لیے واپس بلایا ہے۔” کانسٹینٹائن اس سے پہلے بھی 2023-2024 میں پاکستانی ٹیم کے کوچ رہ چکے ہیں۔ ان کی کوچنگ میں پاکستان نے کمبوڈیا کو شکست دے کر تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کوالیفائرز کے دوسرے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اسٹیفن کانسٹینٹائن ایشیائی فٹبال میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ وہ پہلے نیپال اور بھارت سمیت کئی ممالک کی ٹیموں کے کوچ رہ چکے ہیں۔ خاص طور پر بھارت کے ساتھ ان کے ادوار کامیاب رہے، جہاں انہوں نے ٹیم کی عالمی درجہ بندی بہتر کی اور نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا۔ ذرائع کے مطابق، پی ایف ایف نے پاکستان کی اے ایف سی ایشین کپ کوالیفائرز کے تیسرے راؤنڈ میں شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ قدم فیفا کی معطلی کے ختم ہونے کے بعد پاکستان کے فٹبال کے لیے ایک بڑی پیشرفت ہے۔ پاکستان کا پہلا کوالیفائر میچ 25 مارچ 2024 کو شام کے خلاف ہوگا، جو سعودی عرب میں کھیلا جائے گا۔ کانسٹینٹائن اس میچ کے لیے ٹیم کی قیادت کریں گے۔ اس سے قبل، فیفا نے پی ایف ایف پر سے پابندی ہٹا دی تھی، کیونکہ مقامی فٹبال ادارے نے فیفا کی مطلوبہ آئینی ترامیم منظور کر لی تھیں۔ پی ایف ایف نارملائزیشن کمیٹی کے رکن شاہد کھوکھر نے اس فیصلے کی تصدیق کی اور پاکستان کے لیے فیفا اور ایشین فٹبال کنفیڈریشن (اے ایف سی) کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔

دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک مزید آبادی بڑھانے لگا

China population crises

چین اپنی بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی اور نوجوانوں کے لیے نئی پالیسیوں کے ذریعے آبادی میں کمی کا حل نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت بچوں کی دیکھ بھال پر سبسڈی دے گی اور پری اسکول کی تعلیم مفت کرے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ جوڑوں کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ یہ اعلان بدھ کے روز دو سرکاری دستاویزات میں کیا گیا، جو چین کی پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے لیے تیار کی گئی تھیں۔ 2024 میں چین کی آبادی مسلسل تیسرے سال کم ہوئی، جبکہ شادیوں کی تعداد میں بھی 20 فیصد کمی آئی، حالانکہ حکومت نوجوان جوڑوں کو شادی اور بچوں کی پیدائش کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ چین میں بڑھتی عمر کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ 2035 تک 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 40 فیصد بڑھ کر 400 ملین (40 کروڑ) سے زیادہ ہو جائے گی، جو برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ آبادی کے برابر ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ دیہی اور بے روزگار شہریوں کے لیے پنشن میں 20 یوآن کا اضافہ کرے گا اور ریٹائر ہونے والوں کے لیے پنشن میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ بزرگوں کی دیکھ بھال کو بھی بہتر بنایا جائے گا، خاص طور پر دیہی علاقوں میں اور معذور افراد کے لیے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو آہستہ آہستہ بڑھانے کے لیے کام کرے گی۔ اب مردوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے بڑھا کر 63 سال، وائٹ کالر خواتین کی 55 سے 58 سال، اور بلیو کالر خواتین کی 50 سے 55 سال کر دی گئی ہے۔

نوجوانوں کی زندگیاں بدلنے والا ‘بنو قابل’ پروگرام کیا ہے؟

Web (6)

بنو قابل نوجوانوں کو جدید اسکلز سے روشناس کروا کر خود مختار بنا رہا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا یہ انقلابی منصوبہ ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکا ہے اور اب پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ اگر آپ بے روزگاری سے تنگ ہیں اور اپنا مستقبل خود بنانا چاہتے ہیں تو یہ موقع ضائع نہ کریں۔ جدید ڈیجیٹل اسکلز حاصل کریں، عالمی مارکیٹ میں قدم رکھیں اور “قابل” بنیں۔ بنو قابل پروگرام 2022 میں کراچی سے شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد نوجوانوں کو ڈیجیٹل مارکیٹ کے لیے تیار کرنا تھا۔ اب تک اس پروگرام میں 80,000 سے زائد طلبہ رجسٹر ہو چکے ہیں جبکہ 45,000 طلبہ مختلف کورسز میں زیرِ تعلیم ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے اس پروگرام کو ملک بھر میں وسعت دینے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت اگلے دو سالوں میں 10 لاکھ نوجوانوں کو تربیت دی جائے گی۔ پروگرام میں داخلے کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک رکھی گئی ہے اور عمر کی حد 30 سال مقرر ہے۔ رجسٹریشن کیسے کریں؟ امیدوار “بنو قابل” کی ویب سائٹ پر جا کر خود کو رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ یہ تمام کورسز مکمل طور پر مفت فراہم کیے جا رہے ہیں اور ٹاپ کرنے والے طلبہ کو فری لیپ ٹاپ بھی دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ ڈیجیٹل دنیا میں آگے بڑھ سکیں۔ “بنو قابل” پروگرام ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکا ہے۔ یہ صرف ایک کورس نہیں بلکہ ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر آپ بھی جدید مہارتیں سیکھ کر اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں تو فوراً رجسٹریشن کریں اور “قابل” بنیں!

ڈیفالٹ سے اڑان منصوبے تک کا سفر، کیا حقیقت میں پاکستان معاشی ترقی کررہا ہے؟

Shehbaz sharif.;

پاکستان میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد 4 مارچ کو وجود میں آنے والی اتحادی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پروزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے ایک سالہ دور حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال میں ملک معاشی استحکام آیا لیکن سفر ابھی طویل اور مشکل ہے، جسے طے کرنا ہے۔ شہباز حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پہلے سال میں معیشت مستحکم ہوئی ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے نکالا گیا۔  اتحادی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر مختلف وزراء نے  اپنی وزارتوں کی کارکردگی رپورٹس پیش کیں۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اور وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ سمیت دیگر وزراء نے حکومتی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر سیاست ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا تھا کہ “پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے میں حکومت کے معاشی اقدامات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی مالی معاونت اور دوست ممالک کی سپورٹ کا بھی بڑا کردار ہے۔ اگرچہ معیشت میں وقتی استحکام آیا ہے، مگر اس کو پائیدار بنانے کے لیے طویل مدتی اصلاحات درکار ہیں۔ صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر معاشی بہتری کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہوگا۔” اس کے علاوہ وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف  نے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  حکومتی اقدامات سے تمام اداروں کا ترقی کا سفر جاری ہے، ہم نے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی، پی ٹی آئی نے ملک میں انتشار بھیلایا۔ ہر قسم کی دہشتگردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ مثبت تنقید کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے اپنی وزارت کی ایک سالہ کارکردگی پر خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018 میں اگر ترقی کا راستہ نہ روکا جاتا تو پاکستان آج بڑی معیشتوں میں شامل ہوتا۔ اڑان پاکستان منصوبے کے تحت ملکی ترقی کا پروگرام دوبارہ شروع کیا ہے۔ ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا تھا “کہ حکومتی اخراجات میں کمی یقینی طور پر ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر بڑے پیمانے پر نوکریوں کا خاتمہ بیروزگاری کو مزید بڑھا سکتا ہے خاص طور پر جب نجی شعبہ اتنی نوکریاں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ اس فیصلے کے باعث عام شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ” افراطِ زر میں کمی ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے لیکن اس کی بڑی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں وقتی اضافہ ہے۔ جی ڈی پی گروتھ ابھی بھی خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے اور صنعتی و زرعی پیداوار میں مطلوبہ بہتری نہیں دیکھی گئی جو کہ طویل مدتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔” دوسری جانب احسن اقبال نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی تو ملک ڈیفالٹ کے قریب تھا۔ 2018 کے بعد سی پیک کے منصوبوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز اب ہو گیا ہے۔ سی پیک منصوبے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری آئی ہے۔امن، استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ وفاقی وزیر شزا فاطمہ نے کہا ہے آئی ٹی کے شعبے کی بہتری پر توجہ مرکوز ہے۔ گزشتہ ایک سال میں موبائل فون کی مقامی مینو فیکچرنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ شزا فاطمہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی سپیڈ کے لیے تین سب میرین کیبل بچھائی گئی ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات دو ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ ای گورنمنٹ کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کی 14 درجے بہتری ہوئی ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ آئی ٹی کے شعبے میں مختلف معاہدے کیے گئے، حکومتی اقدامات سے ای گورننس میں بہتری آئی ہے۔ ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا ہے “کہ حکومتی اخراجات میں کمی یقینی طور پر ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر بڑے پیمانے پر نوکریوں کا خاتمہ بیروزگاری کو مزید بڑھا سکتا ہے خاص طور پر جب نجی شعبہ اتنی نوکریاں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔” انہوں نے مزید کہا کے “اس فیصلے کے باعث عام شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔” حکومت کے معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے نت نئے بیانات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا واقعی ملکی اشاریے بہتری کی سمت میں گامزن ہیں یا پھر یہ محض سیاسی بیانیے ہیں۔ اینکر پرسن اسامہ بن عبید (ماہر سیاست) نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “قانون سازی جمہوری نظام کا لازمی جزو ہے مگر پاکستان میں قوانین پر مؤثر عملدرآمد ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔ کئی بلز محض کاغذی کارروائی تک محدود رہتے ہیں جب تک ان کے نفاذ کے لیے ٹھوس عدالتی اور انتظامی اقدامات نہ کیے جائیں۔” انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “پالیسی اصلاحات کا اصل امتحان ان کا عملی نفاذ اور تسلسل ہے۔ ماضی میں بھی حکومتیں بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ہیں۔ لیکن پالیسیوں میں عدم تسلسل ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحات جاری نہ رہیں تو یہ تمام بیانات محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوں گے۔” ورلڈ اکنامک فورم کے نیو اکانومی اینڈ سوسائٹیز پلیٹ فارم کے مطابق حکومت نے 11 ماہ میں 120 سے زائد اصلاحات متعارف کرائیں۔ افراطِ زر 38 فیصد سے کم ہو کر 4.1 فیصد پر آ گیا۔زرمبادلہ کے ذخائر 4.4 بلین ڈالر سے بڑھ کر 11.73 بلین ڈالر ہو گئے۔ گزشتہ ایک سال میں جی ڈی پی گروتھ 0.29 فیصد سے بڑھ کر 2.38 فیصد ہو گئی، 2025 میں 3.5 فیصد کا ہدف رکھا گیا ہے۔ تجارتی خسارہ 27.47 بلین ڈالر سے کم ہو کر 17.54 بلین ڈالر ہو ا ہے۔  حکومت نے 150,000 وفاقی ملازمتیں ختم کر کے حکومتی اخراجات میں کمی کی ہے۔ اتحادی حکومت نے ایک سال میں سعودی عرب کے ساتھ 2.8 بلین ڈالر کے 34 معاہدے کیے ہیں۔ چین کے وزیرِاعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اورگوادر