امریکا کی بجلی کاٹ دینگے، کینیڈین صوبے کے وزیراعلیٰ کی دھمکی

یہ بھی ممکن ہے، ڈوگ فورڈ اپنی بجلی زیادہ مہنگی کر کے امریکہ کو فروخت کریں، یوں دونوں پڑوسیوں کی تجارتی جنگ میں شدت آئے گی۔

سب سے بڑے کینیڈین صوبے اونٹاریو کے وزیراعلی ڈوگ فورڈ نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے کینیڈا کے خلاف ٹیرف جنگ جاری رکھی تو وہ امریکا کی بجلی منقطع کر دیں گے۔   امریکی ریاستوں، نیویارک، مشی گن اور مینی سوٹا کو کینیڈین صوبے اونٹاریو سے ہزاروں میگاواٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے، ان ریاستوں میں 15 لاکھ امریکی کینیڈین بجلی استعمال کرتے ہیں۔   یہ بھی ممکن ہے، ڈوگ فورڈ اپنی بجلی زیادہ مہنگی کر کے امریکہ کو فروخت کریں، یوں دونوں پڑوسیوں کی تجارتی جنگ میں شدت آئے گی۔   امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا سے درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف 4عائد کیا تھا، جبکہ چینی اشیاء پر اضافی 10 فیصد ڈیوٹی بھی عائد کی تھی۔   ٹرمپ کے مطابق، یہ اقدامات امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والی مہلک منشیات، خاص طور پر فینٹینائل (Fentanyl) کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کیے گئے ہیں۔   امریکی صدر کے اس عمل کے جواب میں کینیڈا نے بھی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا اورامریکی اشیا پر 25 فیصد تک ٹیرف لگانے کی دھمکی دی تھی۔   کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے دارالحکومت اوٹاوا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے کینیڈا پر بلاجواز محصولات عائد کیے، جس کے جواب میں کینیڈا 155 ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر 25 فیصد محصولات نافذ کرے گا۔   انہوں نے کہاکہ  30ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر فوری طور پر ٹیرف نافذہو گا، 125ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر 21 دنوں میں ٹیرف لگے گا۔   جسٹن ٹرڈو کا مزید کہنا ہے کہ ہم شائستہ ہیں لیکن لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،کینیڈا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں دعوے دائر کرے گا،ہمارے ٹیرف اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک امریکی ٹیرف واپس نہیں لیا جاتا ۔

ختم ہوتے جان داروں کو کیسے واپس لایا جارہا ہے؟

امریکی ریاست ٹیکساس میں سائنسدانوں نے اونی میمتھ کو واپس لانے کے لیے ایک نیا تجربہ کیا ہے اور اس عمل میں انہوں نے اونی چوہا بنا لیا ہے۔ کلوسل بائیوسائنسز نامی بائیوٹیک کمپنی نے 2021 میں اونی میمتھ اور ڈوڈو برڈ کو واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ معدوم ہو چکے جانوروں کی اہم خصوصیات کو شناخت کر کے انہیں زندہ جانوروں میں شامل کیا جائے۔ اس تحقیق سے نہ صرف معدوم جانوروں کو واپس لانے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ جنگلی حیات کے تحفظ میں بھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اب کمپنی نے چوہے کے جینز میں سات جینز تبدیل کر کے ایک ایسا چوہا بنایا ہے جس کے بال گھنے، لمبے اور اونی ہیں، جیسے کہ میمتھ کے ہوتے تھے۔ اس چوہے کو طاقتور اونی چوہا کا نام دیا گیا ہے۔ اگلا قدم ایشیائی ہاتھی کو جینیاتی طور پر تبدیل کر کے اسے میمتھ جیسی خصوصیات دینا ہے، تاکہ وہ سردی میں سروائیو کر سکے۔ لیکن کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ اصل میں اونی میمتھ واپس لانے کے بجائے صرف موجودہ جانوروں میں تبدیلی کا عمل ہے۔ یونیورسٹی آف مونٹانا کے ایک ماہر کے مطابق، “آپ کسی معدوم جانور کو واپس نہیں لا رہے، بلکہ صرف ایک ایشیائی ہاتھی کو تبدیل کر رہے ہیں۔” یہ تحقیق ابھی کسی سائنسی جریدے میں شائع نہیں ہوئی اور نہ ہی آزاد سائنسدانوں نے اس کی جانچ کی ہے۔ بفیلو یونیورسٹی کے ایک ماہر نے اسے سائنسی لحاظ سے ایک بڑا کارنامہ قرار دیا، لیکن حتمی نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔ یہ چوہا صرف زیادہ بالوں والا ہی نہیں، بلکہ اس میں اونی میمتھ کی تیز چربی جلانے والی صلاحیت بھی شامل کی گئی ہے، جو اسے سردی برداشت کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ جینیاتی تبدیلیاں کچھ عام چوہوں میں پہلے سے موجود تھیں، اور سائنسدانوں نے انہیں ایک چوہے میں اکٹھا کر دیا۔ اگلا بڑا چیلنج ایشیائی ہاتھی پر یہ تجربہ کرنا ہے۔ لیکن چونکہ یہ پہلے ہی ایک خطرے سے دوچار نسل ہے، اس پر تجربہ کرنے سے پہلے کئی قانونی مسائل حل کرنے ہوں گے۔ کمپنی کے سربراہ کے مطابق، اس میں وقت لگ سکتا ہے، لیکن وہ پرامید ہیں کہ یہ تحقیق مستقبل میں بڑے نتائج دے سکتی ہے۔

یورپی ممالک کا اسرائیل سے غزہ میں “بلا روک ٹوک” امداد کی فراہمی کا مطالبہ

ایک جانب اسرائیل کی جارحیت پر تنقید بڑھ رہی ہے، وہیں دوسری طرف، امداد کی بندش کے باعث انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

یورپ کے تین بڑے ممالک جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے عوام کے لیے انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنائے اور امداد کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے۔   بدھ کے روز جاری کردہ مشترکہ بیان میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل روکنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔   اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ غزہ کے لیے امدادی ترسیل کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو حماس کی جانب سے جنگ بندی مذاکرات کے لیے پیش کردہ امریکی تجاویز کو مسترد کرنے سے جوڑا گیا ہے، جو کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کی گئی تھیں۔   برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ضروری ہے کہ جنگ بندی کو برقرار رکھا جائے، تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور غزہ میں انسانی امداد کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔   اسرائیل اور حماس کے درمیان 19 جنوری سے نافذ جنگ بندی معاہدے کی پہلی مدت ختم ہو چکی ہے اور فریقین اس کے اگلے مرحلے پر متفق نہیں ہو پا رہے۔   اسرائیل چاہتا ہے کہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں پہلے مرحلے کو ہی توسیع دی جائے، جبکہ حماس دوسرے مرحلے پر عمل درآمد پر زور دے رہی ہے، جس میں جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔   7 اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک کا کہنا ہے کہ غزہ میں عوامی کچن اور بیکریوں کو کھلا رکھنے کے لیے ان کے پاس صرف دو ہفتوں کا راشن باقی ہے۔   دوسری جانب، بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے پاس اردن میں 22,500 خیمے موجود ہیں، جنہیں وہ غزہ بھیجنے کی تیاری کر رہی تھی، تاہم اسرائیل کی جانب سے راستے بند کیے جانے کے بعد امدادی ٹرکوں کو واپس لوٹنا پڑا۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیشن نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس 6.7 ٹن ادویات اور طبی سامان موجود ہے، جو غزہ میں داخل ہونے کے انتظار میں ہے، لیکن موجودہ صورتحال میں اس کی ترسیل ممکن نظر نہیں آ رہی۔   بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے حماس کو خبردار کیا کہ اگر یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا تو اسرائیل کے لیے فوجی امداد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔   اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے حماس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: “یہ تمہاری مرضی ہے، تمام یرغمالیوں کو ابھی رہا کرو اور قتل کیے گئے افراد کی لاشیں واپس کرو، ورنہ تمہارا خاتمہ یقینی ہے۔”   ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ اسرائیل کو “مکمل مدد” فراہم کر رہے ہیں تاکہ حماس کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ انہوں نے غزہ کے عوام کو بھی دھمکی دی اور کہا: “غزہ کے لوگوں کے لیے ایک خوبصورت مستقبل منتظر ہے، لیکن اگر یرغمالیوں کو روکے رکھا گیا تو تم سب ختم ہو جاؤ گے!”   جنوبی افریقہ کا اسرائیل پر “بھوک کو جنگی ہتھیار بنانے” کا الزام ادھر، جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی بحران کو سنگین کرنے کے لیے “بھوک کو بطور جنگی ہتھیار” استعمال کر رہا ہے۔   جنوبی افریقی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا: “غزہ کے عوام ناقابلِ تصور مصائب کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں فوری طور پر خوراک، پناہ گاہ اور طبی سہولیات کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو اسرائیل کو اس کے اقدامات کا جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔”   جنوبی افریقہ نے دسمبر 2023 میں عالمی عدالتِ انصاف میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اسرائیل نے اس الزام کو سختی سے مسترد کیا ہے، تاہم آئرلینڈ، اسپین، بولیویا، کولمبیا، میکسیکو، ترکی، چلی اور لیبیا سمیت کئی ممالک نے جنوبی افریقہ کے موقف کی حمایت کی ہے۔   غزہ میں جانی نقصان اور انسانی بحران میں اضافہ فلسطینی حکام کے مطابق جنگ بندی سے پہلے تک اسرائیلی بمباری میں اب تک کم از کم 48,000 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔   اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے، جبکہ کئی خاندانوں کو بار بار نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے۔   یہ تنازعہ عالمی سیاست میں ایک نیا رخ اختیار کر رہا ہے، جہاں ایک جانب اسرائیل کی جارحیت پر تنقید بڑھ رہی ہے، وہیں دوسری طرف، امداد کی بندش کے باعث انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

سابق کپتان بابراعظم کے والد ناقدین پر پھٹ پڑے، کھری کھری سنا دیں

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابراعظم کے والد اعظم صدیق بُری فارم کی وجہ سے ہونے والی تنقید پر بیٹے کی حمایت میں ایک بار پھر سامنے آ گئے۔ اعظم صدیق نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ٹیم آف دی ائیر کے رکن اور کیپ ملنے کے بعد بابراعظم ڈراپ ہوئے، بابراعظم نیشنل ٹی ٹوئنٹی اور پی ایس ایل میں پرفارم کر کے دوبارہ واپس آ جائے گا۔ اعظم صدیق نے لکھا سابق کھلاڑیوں سے درخواست ہے کہ وہ الفاظ کا چناؤ ٹھیک رکھیں، ایسا نہ ہوکہ کوئی پلٹ کر جواب دے تو برداشت نہ ہو، آپ ماضی ہیں، دوبارہ نہیں کھیلیں گے۔ اُن کا کہنا تھا لوگ کہتے ہیں کہ باپ زیادہ بولتا ہے، میں بابر کا پہلا اور آخری کوچ ہوں، میں بابراعظم کا ترجمان اور مینٹور ہوں، میں سب سے زیادہ خیرخواہ باپ ہوں۔ اعظم صدیق کا کہنا تھا جو چیخ و پکار کر رہے ہیں، ان کی اپنے دور میں کیا کارکردگی رہی ہے، پی سی بی کی ویب سائٹ ایک بار دیکھ لیا کریں، عقل مندوں کے لیے اشارہ کافی ہے۔ خیال رہے کہ بابراعظم کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی اور اس سے قبل نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں بری فارم کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ بابراعظم نے کیرئیر میں مجموعی طور پر 128 ون ڈے میچز کھیلے ہیں جن میں ان کا سب سے زیادہ سکور 158 رنز ہیں۔ انھوں نے ایک روزہ میچوں میں مجموعی طور پر 6 ہزار سے زائد رنز بنا رکھے ہیں جبکہ 59 ٹیسٹ میچوں میں 4 ہزار سے زائد رنز سکور کیے ہیں جس میں سب سے زیادہ سکور 196 رنز ہے۔

‘پارلیمنٹ میں برابر نمائندگی دی جائے’ جنوبی ریاستوں کا مودی حکومت کے خلاف احتجاج

انڈیا کی جنوبی ریاستوں کے اپوزیشن سیاست دانوں نے بدھ کے روز وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے اس منصوبے کے خلاف احتجاج کیا، جس کے تحت 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی دوبارہ ترتیب کی جائے گی۔ جنوبی ریاستوں کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے شمالی ریاستوں کو پارلیمنٹ میں غیر متناسب فائدہ حاصل ہوگا اور وہ زیادہ نشستیں حاصل کر لیں گی، جس سے جنوبی ریاستوں کی سیاسی نمائندگی کمزور پڑ جائے گی۔ یہ احتجاج تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی قیادت میں ہوا، جنہیں پانچ جنوبی ریاستوں میں کانگریس سمیت کئی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ جنوبی ریاستوں کے سیاست دانوں کا مؤقف ہے کہ وہ شمال کی نسبت تیز اقتصادی ترقی کر رہے ہیں اور وہاں آبادی میں اضافہ بھی نسبتاً کم ہے، اس لیے حلقہ بندی میں آبادی کو واحد معیار بنانا غیر منصفانہ ہوگا۔ اسٹالن نے اس حوالے سے ایک قرارداد پیش کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حلقہ بندی کی بنیاد 1971 کی مردم شماری پر ہی رکھی جائے اور اسے 2056 تک برقرار رکھا جائے، تاکہ کم آبادی والے جنوبی علاقوں کو ان کے ترقیاتی ماڈل کی سزا نہ دی جائے۔ 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہی انڈیا میں موجودہ 543 پارلیمانی نشستوں کی تشکیل ہوئی تھی، اور جنوبی رہنما چاہتے ہیں کہ یہ جمود برقرار رہے، جب تک کہ ایک ایسا نیا نظام متعارف نہ کرایا جائے جو تمام ریاستوں کو مساوی نمائندگی فراہم کرے۔ ڈی ایم کے پارٹی کے ترجمان نے واضح کیا کہ وہ حلقہ بندی کے خلاف نہیں، لیکن یہ عمل ان ریاستوں کے خلاف نہیں جانا چاہیے جنہوں نے آبادی کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اگر پارلیمانی نشستوں کی تعداد بڑھائی جاتی ہے تو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے تمام ریاستوں کو متناسب نمائندگی دی جائے، تاکہ کسی ایک خطے کو دوسروں پر فوقیت نہ ملے۔ جنوبی ریاستوں کے سیاست دانوں کا الزام ہے کہ مودی حکومت پہلے بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کر چکی ہے۔ ان کے مطابق وفاقی فنڈز کی تقسیم میں جنوبی ریاستوں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی رہی ہے، گرانٹس کی غیر منصفانہ الاٹمنٹ، آبپاشی کے منصوبوں کی اجازت میں تاخیر، اور خشک سالی سے نجات کے خصوصی فنڈز کی عدم فراہمی جیسے مسائل ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت پارلیمنٹ میں ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن وہ اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انڈیا کے آئین کے مطابق، ہر قومی مردم شماری کے بعد حلقہ بندی کا عمل ہونا لازمی ہے، جو ہر دس سال بعد کیا جاتا ہے۔ تاہم، 2021 میں کورونا وبا کے باعث مردم شماری نہیں ہو سکی، اور بار بار کے مطالبات کے باوجود مودی حکومت نے تاحال نئی مردم شماری کا آغاز نہیں کیا۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق انڈیا کی آبادی 1.21 بلین تھی، جبکہ اب اس کا تخمینہ 1.4 بلین لگایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ کی نشستوں کی تعداد 543 پر برقرار ہے، حالانکہ گزشتہ سال پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا گیا، جس میں 888 نشستوں کی گنجائش رکھی گئی ہے، جو اس بات کا عندیہ ہے کہ مستقبل میں حد بندی کا عمل ضرور ہوگا۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ حلقہ بندی کے عمل سے جنوبی ریاستوں کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے حال ہی میں کہا کہ حکومت تمام ریاستوں کے ساتھ مساوی سلوک کرے گی اور کسی بھی خطے کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اسٹالن کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ شمال اور جنوب کے درمیان غیر ضروری تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں اقتدار حاصل ہے، جبکہ اس کی اتحادی جماعت بہار میں حکومت کر رہی ہے۔ یہ دونوں ریاستیں انڈیا کی سب سے غریب ریاستوں میں شمار ہوتی ہیں، لیکن ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 26 فیصد حصہ رکھتی ہیں۔ اگر حلقہ بندی کا عمل 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوتا ہے تو ان ریاستوں کی پارلیمنٹ میں نشستیں بڑھ جائیں گی، جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور جنوبی ریاستوں کی نمائندگی نسبتاً کمزور پڑ جائے گی۔ یہ معاملہ انڈیا میں ایک بڑی سیاسی بحث کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ جنوبی ریاستیں اپنی ترقی اور کم آبادی کی پالیسیوں کو ایک کامیابی کے طور پر دیکھتی ہیں، جبکہ شمالی ریاستوں کو پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں دینے کا مطلب ان کی سیاسی حیثیت کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔ اس تناظر میں، آنے والے دنوں میں انڈیا میں شمال اور جنوب کے درمیان سیاسی تنازع مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔  

پاک افغان سرحد کے قریب آپریشن: افغانستان سے آنیوالے دہشتگرد گرفتار

دہشت گردوں کے ساتھ پاکستان میں گھسنے والے زیادہ تر افغان شہری یا تو مارے جاتے ہیں یا پکڑے جاتے ہیں

ذرائع کا کہنا ہے کہ 5 مارچ 2025ء کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے ٹوبہ کاکڑی میں سکیورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کیا، جس میں 4 اہم دہشتگرد گرفتار کیے گئے۔   دہشت گردوں سے کلاشنکوفیں، دستی بم اور دیگر آتشیں اسلحہ برآمد ہوا ہے جب کہ گرفتار دہشت گردوں نے دہشتگردی کی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کا اعتراف بھی کیا ہے۔   بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن کے بعد افغانستان سے دراندازی کے مزید شواہد سامنے آ گئے ۔   سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغان دہشتگردوں کے ملوث ہونے میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں دراندازی بڑھنے لگی ہے۔   گرفتار دہشتگرد نے اعترافی بیان میں بتایا کہ میرا نام اسام الدین ولد گلشادہے۔ میں افغانستان سے آیا ہوں۔ ہمارانظریہ ہماری ٹریننگ ہے۔ میرے پاس 2 بندوقیں، 2 کلاشنکوف، ایک گرینیڈ، اور دیگر اسلحہ موجود تھا۔   دہشت گرد اسام الدین نے بتایا کہ ہم افغانستان سے 3 دن پہلے پاکستان میں داخل ہوئے۔ ہم سرحدی باڑ کے ذریعے رات میں چوری سے پاکستان میں داخل ہوئے اور “ہم نے آگےپشین جانا تھا۔   سکیورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کی کامیابی میں مقامی لوگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔   دوسری جانب گرفتار دہشت گردوں کو مزید تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ پہلے بھی کئی افغان دہشتگرد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے ہیں۔ ان ہلاک افغان دہشتگردوں میں افغان صوبے باغدیس کے گورنر کا بیٹا بدرالدین بھی شامل تھا ۔   ذرائع نے مزید بتایا کہ 28 فروری 2025 ء کو ہلاک ہونے والا افغان دہشتگرد مجیب الرحمان افغانستان کی حضرت معاذ بن جبل نیشنل ملٹری اکیڈمی میں کمانڈر تھا۔   دریں اثنا دفاعی ماہرین کے مطابق مقامی لوگوں کا دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ لڑنا خوش آئند امر ہے۔پاکستان میں دہشتگردی کی لہر میں اضافے کی بنیادی وجہ افغانستان کی سرزمین پر پنپتی دہشتگرد تنظیمیں ہیں۔   ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر فوری کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔   دہشت گردوں کے ساتھ پاکستان میں گھسنے والے زیادہ تر افغان شہری یا تو مارے جاتے ہیں یا پکڑے جاتے ہیں اور پاکستان کے بار بار شواہد دینے کے باوجود افغان عبوری حکومت کی خاموشی دراصل دہشت گردوں کی حمایت ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا صحت کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کا حکم

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں جاری صحت اور طبی منصوبوں کی بروقت تکمیل کا حکم دے دیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس کے دوران شعبہ صحت سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے، وزیراعلیٰ کو ینگ ڈاکٹرز کے زیر انتظام مراکز صحت میں مریضوں کا تناسب تین گنا تک بڑھنے پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں بتایا گیا 225آر ایچ سی کی ری ویمپنگ پوری طرح مکمل ہوگئی ، نئے شاندار کلینک میں بدل دیا گیا، مراکز صحت میں بڑے ہسپتالوں کے برابر طبی اور تشخیصی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ جنرل سرجری، گائنی،تشخیص، طبی ٹیسٹ اور دیگر سہولیات بھی میسر ہوں گی، آر ایچ سی کی آؤٹ سورسنگ کے بعد نئے کلینک ہفتہ بھر 24گھنٹے کھلے رہیں گے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے مری کے سامبلی جنرل ہسپتال کی رابطہ سڑکوں کی تعمیر و توسیع کی بھی ہدایت دی، نوازشریف انسٹی ٹیوٹ آف سرگودھا میں جون تک او پی ڈی فنکشنل کرنے کا حکم، جناح ہسپتال پی آئی سی ٹو کو 30ستمبر تک فعال کرنے کی ہدایت دی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کینسر ہسپتال کومقررہ مدت میں فعال کرنے ، بورڈ ز آف گورنر کی نامزدگی اور دیگر امور کی جلد تکمیل کا حکم دیا، ڈویژنل لیول پر ہر مرض کے علاج کے لئے میڈیکل سٹی بنانے کی تجویز کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں 100فیصد بہتری لانا ہدف ہے، ہسپتالوں میں مناسب صفائی نا ہونا انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ امر ہے۔ پسماندہ اور دور دراز علاقوں کے عوام کو بھی جدید ترین طبی سہولتوں کی ضرورت ہے۔ اجلاس کے دوران ہر ضلع کی سطح پر برن یونٹ ، کارڈیک سنٹر اور چلڈرن وارڈ بنانے پر اتفاق کیا گیا، لاہور رنگ روڈ کے اطراف میں میگا میڈیکل سٹی قائم کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا۔ اجلاس بریفنگ میں بتایا گیا کہ پنجاب کے 1147مراکز صحت میں سے 766 کی ری ویمپنگ مکمل کر لی گئی، 396محکمہ صحت کے سپرد کر دیئے گئے۔ پنجاب بھر کے او پی ڈی میں 6 ارب 70 کروڑ سے زائد کی مفت ادویات فراہم کی جا چکی ہیں۔

قطر کا اسرائیلی الزامات کا دوٹوک جواب: حماس کو فنڈنگ کا دعویٰ مسترد

یاد رہے کہ جنگ بندی سے پہلے اسرائیلی فوجی کارروائی میں اب تک کم از کم 48,405 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔

قطر نے بدھ کے روز اسرائیل کی داخلی سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ کو سختی سے مسترد کر دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قطر سے فراہم کی جانے والی مالی امداد نے حماس کی فوجی قوت میں اضافے میں کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں 7 اکتوبر 2023 کا غیر معمولی حملہ ممکن ہوا۔   قطر کے بین الاقوامی میڈیا آفس نے ایک بیان میں کہا کہ “شین بیت سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے قطری امداد کو 7 اکتوبر کے حملے سے جوڑنے کے بے بنیاد الزامات دراصل اسرائیلی سیاست میں ذاتی مفادات اور خود کو بچانے کی ایک اور کوشش ہے۔”   اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی شین بیت نے منگل کو اپنی داخلی تحقیقات کے نتائج جاری کیے، جس میں تسلیم کیا گیا کہ وہ غزہ سے جنوبی اسرائیل پر ہونے والے حملے کو روکنے میں ناکام رہی، جو فلسطینی علاقے میں 15 ماہ طویل جنگ کا سبب بنا۔   تحقیقات کے مطابق، “قطری فنڈز کی آمد اور ان کا حماس کے عسکری ونگ تک پہنچنا” ان بنیادی وجوہات میں شامل تھا جنہوں نے اس تنظیم کی فوجی قوت کو مستحکم کیا اور اسے حملہ کرنے کے قابل بنایا۔   تاہم، قطر کے بیان میں کہا گیا کہ “یہ بات اسرائیل کے اندر اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ قطر کی جانب سے غزہ بھیجی جانے والی تمام امداد اسرائیل کی موجودہ اور سابقہ حکومتوں اور ان کی سیکیورٹی ایجنسیوں، بشمول شین بیت، کے مکمل علم، حمایت اور نگرانی میں فراہم کی گئی۔”   بیان میں مزید کہا گیا کہ “قطری امداد کبھی بھی حماس کے سیاسی یا عسکری ونگ کو فراہم نہیں کی گئی۔”   واضح رہے کہ قطر 2012 سے حماس کے سیاسی دفتر کی میزبانی کر رہا ہے، جسے امریکہ کی بھی حمایت حاصل رہی ہے، تاہم اس وجہ سے قطر پر فلسطینی مزاحمتی تنظیم کی حمایت کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں، جن کی دوحہ ہمیشہ تردید کرتا آیا ہے۔   قطر نے غزہ میں فائر بندی کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے فرائض انجام دیے۔ تاہم، چھ ہفتوں کی نسبتاً خاموشی کے بعد، جس دوران اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا، جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہو گیا اور اس میں توسیع کے حوالے سے فریقین کے درمیان تعطل برقرار ہے۔   قطری حکومت کے بیان میں کہا گیا کہ “اس نازک صورتحال میں شین بیت اور دیگر اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسیوں کو باقی ماندہ یرغمالیوں کو بچانے اور ایک طویل مدتی علاقائی سلامتی کے حل پر توجہ دینی چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے استعمال کریں۔”   بیان میں مزید کہا گیا کہ “یہ دعوے کہ قطری امداد حماس کو فراہم کی گئی، سراسر جھوٹ ہیں اور ان الزامات کا واحد مقصد جنگ کو مزید طول دینا ہے۔”   یاد رہے کہ جنگ بندی سے پہلے اسرائیلی فوجی کارروائی میں اب تک کم از کم 48,405 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔

فلپائن میں فوجی طیارے کے گرنے سے دو پائلٹ جاں بحق

فلپائنی فضائیہ کے دو پائلٹ ایک فوجی مشن کے دوران طیارہ گرنے سے ہلاک ہوگئے۔ فضائیہ کے مطابق، FA-50 لڑاکا طیارہ 4 مارچ کی رات آدھی رات کے فوراً بعد بکیڈن صوبے میں مشن کے دوران دیگر طیاروں سے رابطہ کھو بیٹھا، جس کے بعد تلاش اور بچاؤ آپریشن شروع کیا گیا۔ فوجی حکام نے بتایا کہ بدھ کے روز طیارے کا ملبہ اور دونوں پائلٹس کی باقیات منڈاناؤ کے کالاتونگان پہاڑوں میں ملی۔ فضائیہ کے ترجمان کونسیلو کاسٹیلو نے کہا کہ ملبے کی حالت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حادثہ تھا، تاہم حادثے کی اصل وجہ جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر، باقی 11 FA-50 طیارے عارضی طور پر گراؤنڈ کر دیے گئے ہیں۔ فلپائن نے 2014 میں جنوبی کوریا سے 12 FA-50 جیٹ طیارے خریدے تھے، تاکہ داخلی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے اور بحیرہ جنوبی چین میں چین کے خلاف سمندری دفاع مضبوط کیا جا سکے۔ کاسٹیلو نے کہا کہ فضائیہ جلد از جلد ان طیاروں کو دوبارہ آپریشن میں لانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ دفاعی سرگرمیوں میں زیادہ خلل نہ آئے۔

فرانس نے روس کو یوکرین اور یورپ کے لیے خطرہ قرار دے دیا

فرانسیسی صدر ایمانول میکرون نے روس کو فرانس اور یورپ کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے، فرانس سمیت یورپی ممالک برسلز میں ہونے والے اجلاس کے دوران یوکرین اور یورپی ممالک کے تحفظ کے حوالے سے مختلف آپشن پر تبادلہ خیال کریں گے۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ یورپ اور فرانس کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار امریکہ یا روس کے ہاتھ میں نہیں دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ روس کا جنگی جنون بڑھتا ہی جا رہا ہے اور وہ ملک کے 40 فیصد بجٹ کو دفاعی ضروریات پر خرچ کر رہا ہے، اور روس 2030 تک اپنی افواج میں 3 لاکھ کا اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ ٹینکس کی تعداد 3 ہزار ہو جائے گی اسی طرح جنگی جہازوں میں بھی 300 تک اضافہ ہوگا۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ دفاعی طاقت بڑھانے کے بعد روس کسی بھی وقت یوکرین پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے۔ ایمانول میکرون نے کہا کہ فرانس سمیت یورپی ممالک کو روس کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ آئندہ یوکرین پر حملہ آور نہ ہو اور اس سلسلے میں یوکرین کی جانب سے گارنٹی کا مطالبہ درست ہے۔ واضح رہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کے خلاف جاری جنگ میں اپنے مُلک کی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ’آرمی آف یورپ‘ یعنی ’یورپ کی فوج‘ تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکہ اب شاید اس براعظم کی مدد کے لیے نہ آئے۔‘ میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین کے صدر نے کہا کہ ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے امن مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی کے بعد، یوکرین پیٹھ پیچھے اور اپنی شمولیت کے بغیر کیے گئے معاہدوں کو کبھی قبول اور تسلیم نہیں کرے گا۔‘ یوکرین اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہے اور اس بارے میں اس کی دلیل یہ ہے کہ اس مغربی فوجی اتحاد میں شامل ممالک اپنے کسی رکن ملک پر حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ کیئو کے مطابق روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف نیٹو کی رکنیت ہی اس کی سکیورٹی کی گارنٹی دے سکتی ہے۔ تاہم دوسری طرف روس یوکرین کے نیٹو رکن بننے کی مسلسل مخالفت کرتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں نیٹو افواج اس کی سرحدوں کے انتہائی قریب آ جائیں گی۔