یوکرین اور امریکا کے درمیان سعودی عرب میں روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ‘کیف اور ماسکو’ کے پاس امن معاہدے کے بغیر اس جنگ کو ختم کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یوکرینی اور امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگلے ہفتے سعودی عرب میں روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ایک امن فریم ورک پر بات چیت کی جائے گی۔ واشنگٹن نے اس ہفتے یوکرین کو فوجی امداد اور انٹیلی جنس شیئرنگ معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ایک تلخ جھڑپ ہوئی تھی۔ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کو رپورٹرز کو بتایا کہ وہ سعودی عرب میں یوکرینی حکام سے ملاقات کرنے کے لیے تیار ہیں جہاں امن معاہدے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا میکسیکو اور کینیڈا پر تجارتی محصولات ایک ماہ کے لیے مؤخر کرنے کا اعلان وٹکوف نے کہا کہ “ہم اب بات چیت کر رہے ہیں تاکہ یوکرینیوں سے ریاض یا جدہ میں ملاقات کی جا سکے، شہر ابھی تھوڑا تبدیل ہو رہا ہے، مگر سعودی عرب میں ہی ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک امن معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کیا جائے اور ابتدائی طور پر جنگ بندی بھی ہو۔” یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ وہ پیر کو سعودی عرب روانہ ہوں گے اور وہاں امریکی حکام سے بات چیت کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ “میں سعودی عرب جانے کا منصوبہ بنا رہا ہوں، جہاں میں سعودی ولی عہد سے ملاقات کروں گا اور اس کے بعد میری ٹیم امریکی شراکت داروں کے ساتھ کام کرے گی۔” زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ یوکرین امن کے لیے سنجیدہ ہے اور جنگ کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ یہ ملاقاتیں امریکی اور یوکرینی حکام کے درمیان 28 فروری کو ہونے والی ملاقات کے بعد پہلی اہم بات چیت ہوں گی جس میں زیلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی۔ لازمی پڑھیں: بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی قبول نہیں، چینی وزیر خارجہ اس ملاقات کے بعد امریکی صدر نے یوکرین کو انٹیلی جنس شیئرنگ اور امداد فراہم کرنا معطل کر دیا تھا۔ تاہم، ٹرمپ نے منگل کو بتایا کہ انہیں زیلنسکی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں یوکرینی صدر نے کہا ہے کہ وہ “جلدی سے مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں”۔ جمعرات کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ دونوں فریقین، یوکرین اور روس اب ایک امن معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ “میرے خیال میں یوکرین معاہدہ کرنا چاہتا ہے، کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ روس بھی معاہدہ چاہتا ہے لیکن ایک مختلف انداز میں، اور وہ انداز صرف میں جانتا ہوں۔” ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ زیلنسکی نے حالیہ دنوں میں وائٹ ہاؤس کی لڑائی پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور امریکہ کے شکر گزار ہیں۔ تاہم، وٹکوف نے اس بات پر تحفظات ظاہر کیے کہ آیا سعودی عرب میں ہونے والی ملاقات میں امریکا اور یوکرین کے درمیان معدنیات کا معاہدہ طے پائے گا۔ انہوں نے کہا، “ہم دیکھیں گے کہ آیا وہ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔” ضرور پڑھیں: مفت میں نیٹو کا دفاع نہیں کریں گے: ٹرمپ کا اعلان امریکی حکام نے کہا ہے کہ یوکرین کے ساتھ ممکنہ اقتصادی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کو قریب لائے گا بلکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ وہ یوکرین کے خلاف مزید جارحیت کرنے سے پہلے دو بار سوچیں۔ یہ معاہدہ امریکی کمپنیوں کو یوکرین کے نایاب معدنیات تک رسائی فراہم کرے گا جو خاص طور پر ایئر اسپیس، برقی گاڑیوں اور طبی صنعت کے لیے اہم ہیں۔ یوکرین کے لیے اس معاہدے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا اور مستقبل میں یوکرین کے لیے امریکا کی حمایت کو مزید یقینی بنائے گا۔ اب یہ دیکھنا ہو ہوگا کہ سعودی عرب میں ہونے والی ملاقاتیں دونوں فریقین کے لیے کس سمت میں پیش رفت کرتی ہیں۔ کیا یوکرین اور روس کے درمیان امن کی راہ ہموار ہو پائے گی؟ مزید پڑھیں: روس کا حملہ: یوکرین کے گیس پیداوار کے مراکز کو شدید نقصان
اسرائیل نے 50 سال سے کم عمر مسلمانوں کے لیے مسجد اقصیٰ جانے پر پابندی لگا دی

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ رمضان کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے کے 50 سال سے زیادہ عمر کے مسلمانوں اور ان کے بچوں کو جمعہ کے دن یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ بیان میں کہا گیا کہ “مسلم عبادت گزاروں کی محدود تعداد” کو پچھلے سال کے انتظامات کے مطابق احاطے میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی، تاہم، داخلے کی حتمی تعداد واضح نہیں کی گئی۔ اجازت یافتہ افراد میں 55 سال اور اس سے زیادہ عمر کے مرد، 50 سال اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین اور 12 سال تک کے بچے شامل ہوں گے۔ اعلان میں مزید وضاحت کی گئی کہ اسرائیلی عرب شہریوں کے لیے کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ مسجد اقصیٰ یروشلم کے قدیم شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ جگہ یہودیوں کے لیے “حر بیت” یا “ٹیمپل ماؤنٹ” اور مسلمانوں کے لیے “الحرام الشریف” یا “نوبل سینکچری” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ مقام مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں دو اہم مسلم مقدس مقامات شامل ہیں: چٹان کا گنبد اور مسجد اقصیٰ، جسے قبلی مسجد بھی کہا جاتا ہے، جو 8ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس ہفتے رمضان المبارک کا پہلا جمعہ ہے، اور اس فیصلے کے تحت مخصوص شرائط کے حامل مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کر سکیں گے۔
الخدمت فاؤنڈیشن نے عید سے پہلے یتیم بچوں کی عید کرا دی

رمضان اور عید خوشیوں کے تہوار ہیں جو ہر دل میں مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے بچے بھی ہیں جن کے لیے عید کے دن عام دنوں کی طرح ہی ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس نہ نئے کپڑے ہوتے ہیں، نہ تحفے اور نہ ہی کوئی خوشی منانے کا موقع۔ ان بچوں کو وہ تمام خوشیاں دینے کے لیے جو ہر بچے کا حق ہیں، الخدمت کراچی ہر سال یتیم بچوں کے لیے عید شاپنگ پروگرام منعقد کرتا ہے، جس میں ان بچوں کو ان کے پسندیدہ کپڑے اور ضروری اشیاء خود منتخب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف ان بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ ان میں خود اعتمادی اور خوشیوں کو اپنے طور پر اپنانے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں سے تقریباً 2400 بچوں کو یہاں لایا جاتا ہے، جہاں انہیں 6000 روپے کے شاپنگ واؤچرز دیے جاتے ہیں، ساتھ ہی انہیں عیدی کی رقم بھی فراہم کی جاتی ہے۔ چیس ویلیو سینٹر میں ہونے والی یہ سرگرمی والنٹیئرز کی مدد سے منعقد کی جاتی ہے، جہاں ہر بچے کو آزادی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خریداری کرے، بالکل اسی طرح جیسے عام بچے اپنے والدین کے ساتھ بازار جاتے ہیں۔ یہ سرگرمی معاشرے میں یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو رہی ہے، جس کے ذریعے یہ بچے نہ صرف عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں بلکہ ان میں محرومی کے احساس کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے اس اقدام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کوئی بھی بچہ عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہے اور ہر چہرے پر مسکراہٹ ہو!
ارشد شریف قتل کیس:سپریم کورٹ کا حکومتی وکیل پر اظہار برہمی،روزانہ رپورٹ طلب

عدالت اعظمیٰ کے آئنی بینچ نے ارشد شریف قتل کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت اعظمیٰ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے ارشد شریف قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کینیا سے باہمی قانونی امداد کے معاہدے کی توثیق کیلئے وقت مانگتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ میں صدر سے معاہدے کی توثیق کروا لی جائے گی۔ اس موقع پر جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ 10 دسمبر کو معاہدہ ہوا لیکن اب تک توثیق کیوں نہیں ہوسکی؟ جسٹس مندوخیل نے سوال کیا، کیا آپ سے روزانہ کی بنیاد پر پیشرفت رپورٹ مانگی جائے ؟ جسٹس علی مظہر نے کہا 3 ماہ بعد بھی وقت مانگا جا رہا ہے۔ جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیے کہ بے رحمی سے پاکستان کے ایک جانے پہچانے صحافی کو قتل کیا گیا، حکومت پاکستان کینیا میں صحافی کی فیملی کو کیوں سپورٹ نہیں کر رہی، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ وفاق کینیا میں جا کر فریق بن سکتی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم نے 27 فروری کو وزارت داخلہ کو کارروائی آگے بڑھانے کے لیے لکھا ہے، اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دسمبر میں آخری سماعت کے بعد آپ نےفروری میں کیوں وزارت داخلہ کو لکھا۔ جسٹس حسن اظہر نے کہا اب سے روزانہ کی بنیاد پر پیش رفت رپورٹ عدالت میں دیں۔اس موقع پر جسٹس امین الدین نے کہا ہم جے آئی ٹیز کے حق میں نہیں، اس کا فائدہ نہیں ہوتا، ہماری بے چینی یہ ہے کہ اتنا عرصہ ہوگیا، ارشد شریف کیس میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا صدر کو سمری کس نے بھیجنی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا وزارت داخلہ کابینہ کی منظوری کے بعد صدر کو سمری ارسال کرے گی۔ مگر وزارت داخلہ سے میرا رابطہ نہیں ہو پا رہا، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہا کہ وزارت داخلہ کے افسر تو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔بعد ازاں وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ 27 فروری کو کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت خارجہ کو نوٹ بھجوا دیا۔ اس پر جسٹس علی مظہر نے سوال کیا معاہدے کی منظوری صدر نے دینی ہے تو کیا صدر مسترد بھی کر سکتے ہیں؟ وزارت داخلہ کے قانونی مشیر نے جواب دیا اس متعلق کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔
روس کا حملہ: یوکرین کے گیس پیداوار کے مراکز کو شدید نقصان

یوکرین کے توانائی کے وزیر ‘ہیرمین گالوشچنکو’ نے آج ایک بیان میں کہا کہ روسی افواج نے یوکرین کے توانائی اور گیس کے بنیادی ڈھانچے کو اپنے حالیہ ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ “ایک بار پھر، یوکرین کے مختلف علاقوں میں توانائی اور گیس کے بنیادی ڈھانچے پر بڑے پیمانے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔” یوکرین کی سرکاری آئل اینڈ گیس کمپنی ‘نفتوگاز’ نے ایک بیان میں بتایا کہ روسی حملے کے نتیجے میں کمپنی کے قدرتی گیس پیداوار کے مراکز کو نقصان پہنچا ہے۔ کمپنی کے مطابق کہ “وہ پیداوار کے مراکز جن سے گیس کی پیداوار کی جاتی ہے، انہیں نقصان پہنچا ہے، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔” تورنپول کے گورنر ‘ویچی سیلاو نیہودا’ نے بتایا کہ حملے نے مغربی یوکرین کے ایک اہم صنعتی مرکز کو نشانہ بنایا جس کے باعث گیس کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ تاہم، یوکرین کی فضائی دفاعی فورسز نے ایک میزائل کو کامیابی سے گرا لیا اور کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ بھی پڑھیں: جابلہ میں خون ریز حملے نے شام میں حکومت کے خلاف تشویش اور کشیدگی بڑھا دی خارجی افواج نے شمال مشرقی شہر ‘خارکیو’ میں ایک شہری ادارے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ خارکیو کے گورنر ‘اولیہ سینیہوبو’ نے اس بات کی تصدیق کی اور مزید کہا کہ زخمی افراد کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ چیرنیہیو کی شمالی ریاست میں بھی ایک حملہ ہوا جس میں ایک پیداوار کی سہولت کو نقصان پہنچا۔ گورنر ویچی سیلاو چاؤس نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یوکرین کے مغربی علاقے ‘ایوانو-فرانکیویک’ کے گورنر ‘سوٹلانا اونیچچک’ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بھی فضائی دفاعی فورسز نے ایک حملے کو ناکام بنا دیا جس کے نتیجے میں نہ تو کوئی نقصان ہوا اور نہ ہی کوئی جانی نقصان ہوا۔ رپورٹس کے مطابق روس نے اپنی حالیہ کارروائیوں میں یوکرین کے توانائی کے نظام پر حملے تیز کر دیے ہیں اور گیس کے ذخیرہ کرنے کی سہولتوں اور پیداوار کے میدانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ روسی افواج کی جانب سے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے یوکرین کے لیے سنگین بحران کی صورت اختیار کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود یوکرین کی فورسز ان حملوں کا دلیری سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ کا ایلون مسک کی پالیسیوں پر کنٹرول: کابینہ اجلاس میں عملے کی کمی پر نئی حکمت عملی
فیفا ورلڈکپ میں 64 ٹیموں کو شامل کرنے پر غور، ایونٹ کب ہوگا؟

فیفا اس بات پر غور کر رہا ہے کہ 2030 میں ہونے والے مردوں کے فٹ بال ورلڈ کپ کو 64 ٹیموں تک بڑھایا جائے۔ فیفا کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ اس تجویز کو عالمی گورننگ باڈی کے اجلاس کے دوران ایک کونسل رکن نے پیش کیا۔ اگلے سال ہونے والے 2026 ورلڈ کپ میں پہلے ہی توسیع کی جا چکی ہے، جس میں 48 ٹیمیں حصہ لیں گی، جبکہ اس سے قبل ٹورنامنٹ 32 ٹیموں پر مشتمل ہوتا تھا۔ 2026 کا ورلڈ کپ امریکا، میکسیکو اور کینیڈا کی مشترکہ میزبانی میں کھیلا جائے گا، جس میں 16 شہروں میں 104 میچز شیڈول کیے گئے ہیں۔ 2030 ورلڈ کپ کے لیے 64 ٹیموں کی شرکت کی تجویز یوراگوئے کے مندوب اگناسیو اگونسو نے پیش کی۔ تاہم، اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، اور فیفا کا کہنا ہے کہ کسی بھی نئی تجویز کا مکمل تجزیہ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ٹورنامنٹ کو مزید وسعت دینے سے لاجسٹک چیلنجز بڑھ سکتے ہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں مزید کھلاڑی شرکت کریں گے۔ پلیئر یونینز پہلے ہی بغیر مشاورت کے ٹورنامنٹ میں مسلسل اضافے پر تنقید کر چکی ہیں۔ تاہم، فیفا کے صدر گیانی انفانتینو کا کہنا ہے کہ توسیع سے زیادہ ممالک کو کوالیفائی کرنے کا موقع ملے گا، جس سے عالمی سطح پر فٹ بال کے فروغ میں مدد ملے گی اور آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ فٹ بال ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹیو مارک بلنگھم نے کہا کہ دنیا بھر میں کئی ممالک ایسے ہیں جنہیں کبھی ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا موقع نہیں ملا، اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ تاہم، اس کے ساتھ ٹورنامنٹ کی ساخت میں توازن رکھنا بھی ضروری ہوگا۔ 2030 ورلڈ کپ کی میزبانی تین براعظموں کے چھ ممالک کریں گے۔ یہ ٹورنامنٹ فٹ بال کے پہلے ورلڈ کپ کے 100 سال مکمل ہونے کی یاد میں یوراگوئے کے دارالحکومت مونٹیویڈیو میں افتتاحی میچ سے شروع ہوگا۔
ٹرمپ کی دھمکیاں، نیتن یاہو کو غزہ میں جرائم کی ترغیب مل رہی ہے: حماس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کو دی گئی تازہ دھمکیوں پر حماس نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قیدیوں کی رہائی کے لیے بہترین راستہ فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد اور اسرائیل کو ثالثوں کی زیر نگرانی معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرنا ہے۔‘ بدھ کو ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا جس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ تمام قیدیوں کو فوراً رہا جائے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ’اگر ایسا نہ کیا گیا تو تمہارے لیے یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔‘ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے کہا کہ ٹرمپ کے بیانات اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کو غزہ میں محاصرے کو مزید سخت کرنے اور جنگ بندی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ مصری اور قطری ثالثی کے ذریعے ہونے والے ان مذاکرات میں امریکی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر بات چیت ہوئی، تاہم اس بارے میں امریکی حکام نے کوئی سرکاری بیان نہیں دیا۔ اقوام متحدہ میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے خصوصی مندوب فرانسسکا البانیزے سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے ٹرمپ کے ان بیانات کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ دھمکیاں اجتماعی سزا کی ترغیب ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔‘ حماس کے ترجمان عبد اللطیف القانوع نے روئٹرز کو دیے گئے پیغام میں کہا: ’ٹرمپ کی ہمارے لوگوں کو بار بار دھمکیاں، نتن یاہو کو فائر بندی معاہدے سے نکلنے اور غزہ پر مزید سخت محاصرہ اور قحط مسلط کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں۔‘ انہوں نے کہا: ’قیدیوں کی رہائی کے لیے بہترین راستہ فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد اور اسرائیل کو ثالثوں کی زیر نگرانی معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرنا ہے۔‘ حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے ٹی وی خطاب میں کہا: ’اسرائیل کی جنگ کی دھمکیاں یا محاصرہ قیدیوں کی رہائی کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ دشمن کو جنگ اور محاصرے سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے پاس تمام باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کے زندہ ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ اگر اسرائیل نے غزہ پر مزید حملے کیے تو ممکن ہے کہ کچھ قیدی ہلاک ہو جائیں، جیسا کہ پہلے بھی کئی واقعات میں ہو چکا ہے۔ جنوری میں طے پانے والے غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا دوسرا مرحلہ طے شدہ تھا، جس کے دوران مسلح تنازعے کے مکمل خاتمے کے حتمی منصوبے پر بات چیت ہونا تھی۔ تاہم، اسرائیل نے پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد تمام اشیا کی مکمل ناکہ بندی عائد کر دی اور باقی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ شروع کر دیا کیا۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ 23 لاکھ آبادی والے غزہ میں ناکہ بندی کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہو رہی ہے، جو قحط کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیانات ایسے وقت میں آئے جب اطلاعات کے مطابق امریکی حکومت کے ایک ایلچی نے حماس سے خفیہ مذاکرات کیے ہیں، جو کہ ایک روایتی امریکی پالیسی سے انحراف ہے جس کے تحت واشنگٹن حماس کو ایک انتہا پسند تنظیم قرار دیتا ہے اور اس سے مذاکرات نہیں کرتا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کا پنجاب حکومت کو گرفتار سینیٹرز پیش کرنے کا الٹی میٹم

چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے پنجاب حکومت سے گرفتار سینیٹرز کو پیش کرنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے آئندہ اجلاس کی صدارت نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ کراچی کی وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مجھ پر جس حکومت میں کیس بنا آج ہم اس کے اتحادی ہیں، میرے خلاف گواہی دینے والا آج ملزم بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت گرفتار سینیٹرز کو پیش کرے، گرفتار سینیٹرز کو کل پیش نہ کیا تو احتجاجاً اجلاس کی صدارت نہیں کروں گا، ہمیشہ قوانین کی مطابق ذمہ داریاں ادا کیں۔ یاد رہے کہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو ٹڈاپ اسکینڈل کے 3 مقدمات سے بری کر دیا گیا ہے، کیس کی سماعت کراچی کی وفاقی اینٹی کرپشن عدالت میں ہوئی۔ واضح رہے کہ پنجاب پولیس نے گزشتہ روز تحریک انصاف کے سینیٹر عون عباس بپی کو غیرقانونی شکار کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا، چیئرمین سینیٹ کی جانب سے گزشتہ روز پروڈکشن آرڈر جاری کیے جانے کے باوجود پنجاب حکومت نے انہیں سینیٹ اجلاس میں پیش نہیں کیا تھا۔ گزشتہ روز سینیٹ اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین نے اعون عباس بپی کی گرفتاری کے خلاف اجلاس سے واک آئوٹ کر دیا تھا۔ اس موقع پر دپٹی چیئرمین نے کہا تھا کہ عون عباس بپی کی اس ہاؤس میں اتنی ہی عزت ہے جتنی سب کی، اس ہاؤس کو کسی کے دباؤ یا پریشر میں آ کر نہیں چلائیں گے، سینیٹ کا اجلاس قانون کے تحت چلے گا۔ چیئرمین سینیٹ نے 9 مئی کے مقدمات میں گرفتار سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کر رکھے ہیں تاہم پنجاب حکومت انہیں سینیٹ اجلاس میں پیش کرنے سے انکاری ہے۔
تین ماہ میں پی آئی اے کی نجکاری مکمل کرنے کا اعلان

وفاقی وزیر برائے نجکاری و سرمایہ کاری عبدالعلیم خان نے اعلان کیا ہے کہ حکومت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے تمام مراحل اگلے تین ماہ میں مکمل کر لے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کو زیادہ پرکشش بنانے کے لیے ایک نیا روڈ میپ متعارف کرایا جا رہا ہے تاکہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سفارشات کے مطابق نجکاری کمیشن نے اپریل 2024 میں اعلان کیا تھا کہ قومی ایئرلائن کے 51 فیصد سے 100 فیصد تک کے شیئر فروخت کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ تاہم، حکومت کی پہلی کوشش ناکام ثابت ہوئی، جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 4.3 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو 26 فروری کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں خریداروں کی عدم دلچسپی کی کئی وجوہات تھیں، جن میں نئے طیاروں کی خریداری پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور پی آئی اے کے بھاری مالیاتی واجبات شامل تھے۔ وزیر نجکاری نے واضح کیا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں شامل تمام فریقین کے خدشات کو مدنظر رکھا جا رہا ہے اور اس کے مطابق ضروری تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے نجکاری کے عمل میں ترامیم کی جا رہی ہیں تاکہ یہ زیادہ مؤثر اور کامیاب ہو سکے۔ عبدالعلیم خان نے اس امید کا اظہار کیا کہ نجکاری کا یہ نیا مرحلہ بہتر نتائج دے گا اور اس سے قومی ایئرلائن کے مستقبل پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی نے نجکاری کے ماحول کو مزید موزوں اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنا دیا ہے، اور توقع ہے کہ اس بار زیادہ سرمایہ کار اظہارِ دلچسپی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ اقدامات کے نتیجے میں پی آئی اے دوبارہ منافع بخش بننے کے لیے تیار ہے اور جلد ہی برطانیہ کے لیے پروازوں کا آغاز کیا جائے گا۔ وزیر نجکاری نے مزید کہا کہ یورپ اور برطانیہ کے بعد پی آئی اے کی پروازیں اگلے مرحلے میں امریکہ اور مشرقِ بعید کے لیے بھی بحال کی جائیں گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قومی ایئرلائن آج بھی پاکستانیوں کے لیے پہلی ترجیح ہے اور اس کی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے مثبت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں کہ پی آئی اے میں دوبارہ منافع بخش ادارہ بننے کی صلاحیت موجود ہے اور یہ جلد ہی اپنے عروج کی جانب لوٹ آئے گا۔
پاکستانیوں کی بیرون ممالک سے بے دخلی نہ رک سکی، 8 ممالک سے مزید 37 افراد کی واپسی

بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی بے دخلی کا سلسلہ نہیں رُک سکا، جس کی بڑی وجہ دستاویزات کا مکمل نہ ہونا اور افراد کے زائد المعیاد تک قیام ہے۔ امریکا، قبرص، سینیگال سمیت 8 ممالک سے مزید 37 پاکستانیوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے، جن میں سے 3 کو بلیک لسٹ ہونے پر کراچی میں حراست میں لے لیا گیا۔ امیگریشن ذرائع کے مطابق امریکا پہنچے ایک پاکستانی کا امیگریشن حکام نے ویزا منسوخ کر کے اسے پاکستان واپس بھیج دیا، قبرص پہنچے 1 پاکستانی کو امیگریشن نے ناپسندیدہ قرار دے کر واپس کر دیا۔ امیگریشن ذرائع کا کہنا ہے کہ برازیل میں بغیر دستاویزات پہنچے پاکستانی کو بھی بے دخل کر دیا گیا، سینیگال میں انسانی اسمگلنگ کے لیے پہنچے 1 پاکستانی کو حراست میں لے کر واپس بھیج دیا گیا۔ امیگریشن ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں ویزا منسوخ کر کے 2 افراد کو واپس بھیجا گیا جبکہ سعودی سسٹم میں ویزا ریکارڈ نہ آنے، بلیک لسٹ، منشیات، زائد المیعاد قیام، بھیک مانگنے، کفیل کے بغیر کام کرنے، کام سے مفرور، چوری کے الزامات اور پاسپورٹ گم کرنے پر 26 پاکستانیوں کو واپس بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں زائد المیعاد قیام اور بلیک لسٹ ہونے پر 3 پاکستانی واپس بھیجے گئے۔ بحرین میں سکیورٹی رسک کہہ کر ایک پاکستانی کو واپس بھیج دیا گیا۔ ایران سے بھی ایمرجنسی دستاویزات پر 1 پاکستانی کو بے دخل کیا گیا۔ دستاویز میں بتایا گیا کہ کشتیاں ڈوبنے سے جاں بحق ہونے والوں میں بھی زیادہ تعداد ان ہی بےدخل ہونے والوں کی ہی تھی، البتہ کشتی ڈوبنے کے متعدد واقعات کے بعد ایف آئی نے بےدخل ہونے والوں کے خلاف کمر کسی لی۔ ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے نے ایران سے ڈی پورٹ کیے گئے 25 ہزار 113 شہریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے ایف آئی اے بلوچستان نے وزارت داخلہ کو مراسلہ ارسال کیا ہے۔ واضح رہے کہ 14 دسمبر کو یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب کشتی الٹنے کے بعد متعدد تارکین وطن ڈوب کر ہلاک جب کہ کئی لاپتا ہوگئے تھے، دفتر خارجہ نے کشتی حادثے میں بچائے گئے 47 پاکستانیوں کی فہرست جاری کی تھی۔ حادثے کے چند روز بعد یونانی حکام نے لاپتا افراد کو مردہ قرار دیتے ہوئے ان کی تلاش اور ریسکیو کے لیے جاری آپریشن روک دیا تھا۔