ٹرمپ کا ایلون مسک کی پالیسیوں پر کنٹرول: کابینہ اجلاس میں عملے کی کمی پر نئی حکمت عملی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اپنے کابینہ کے ارکان کو واضح طور پر بتایا کہ عملے کی کمی اور حکومتی پالیسیوں پر حتمی فیصلہ وہ خود کریں گے نہ کہ ایلون مسک. ایک ذریعہ جسے اس معاملے کی تفصیلات کا علم تھا اس نے عالمی خبررساں رائٹرز کوبتایا کہ صدر ٹرمپ نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ایلون مسک کی “ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی” صرف مشاورتی کردار ادا کرے گی۔ اس اجلاس میں ایلون مسک بھی موجود تھے اور انہوں نے کابینہ کو بتایا کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ تاہم، اجلاس کے دوران یہ واضح ہوا کہ وائٹ ہاؤس کے کچھ حکام اور ایجنسی کے سربراہان نے مسک کے انداز کو سخت اور بے تکلف سمجھا ہے خاص طور پر جب بڑی تعداد میں ملازمین کی برطرفیوں اور پالیسی تبدیلیوں کا سامنا ہوا۔ ایک اطلاع کے مطابق وائٹ ہاؤس کے عملے کے سربراہ ‘سوزی وائلز’ کو مختلف حکومتی اداروں سے شکایات موصول ہو رہی تھیں جن میں ‘ریپبلکن اراکین کانگریس’ بھی شامل تھے۔ ان اراکین نے اپنی شکایات میں کہا کہ ‘مسک’ کی حکمت عملی نہ صرف بے رحمانہ تھی بلکہ اس سے عوام میں بھی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ یہ بھی پڑھیں: بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی قبول نہیں، چینی وزیر خارجہ ٹرمپ نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “مجھے نتائج چاہئیں، لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ اچھے اور قابل لوگوں کو بچایا جائے۔” ان کا یہ بیان ‘اوول آفس’ میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران سامنے آیا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایلون مسک نے بہت جلد عمل کیا ہے؟ ٹرمپ نے جواب دیا کہ “مجھے نہیں لگتا۔ مسک سب کو بتا رہے ہیں کہ اخراجات کیسے کم کیے جا سکتے ہیں۔” اس اجلاس کا مقصد مسک کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا اور حکومتی سطح پر عملے کی کمی کے عمل کو بہتر انداز میں چلانا تھا۔ اس سے قبل ٹرمپ کی کابینہ کے اراکین نے شکایت کی تھی کہ مسک کا انداز زیادہ جارحانہ اور فوری تھا جس کے نتیجے میں 23 لاکھ افراد پر مشتمل وفاقی ملازمین کی تعداد میں 100,000 سے زیادہ کی کمی کی گئی ہے۔ اس کمی نے بہت سے اہم محکموں میں عملے کی کمی پیدا کر دی ہے جن میں جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی اور پرندوں کی فلوں کی تحقیق شامل ہیں۔ لازمی پڑھیں: جابلہ میں خونریز حملے نے شام میں حکومت کے خلاف تشویش اور کشیدگی بڑھا دی ایجنسیوں میں عملے کی کمی کی صورت حال اتنی سنگین ہو گئی تھی کہ حکومت کو متعدد ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنا پڑا اور خاص طور پر ان محکموں میں جہاں حساس تحقیقات یا ملک کی سیکیورٹی کے معاملات زیر بحث تھے۔ اس کے علاوہ یونین اور دیگر حمایتی گروپوں کی جانب سے مسک کی پالیسیوں کے خلاف 30 سے زائد مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔ ٹرمپ نے جمعرات کے اجلاس میں اپنے کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ انہیں صرف “ہتھوڑے” کے بجائے “چاقو” کے ذریعے عملے کی کمی کرنی چاہیے۔ مسک نے گزشتہ ماہ کنزرویٹیو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس میں ایک چین ساؤن کے ساتھ اسٹیج پر آ کر حکومت کے اخراجات کو کم کرنے کی اپنی شدید خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تاہم، یہ کابینہ اجلاس مسک کے لئے ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آیا، جہاں صدر نے ان کے طریقے کو کچھ حد تک قابو کرنے کی کوشش کی۔ کابینہ کے اجلاس کے دوران مسک کے ایک ای میل نے تنازعہ کھڑا کر دیا تھا جس میں انہوں نے تمام وفاقی ملازمین سے کہا تھا کہ وہ اپنی ہفتہ وار کامیابیوں کی فہرست فراہم کریں، ورنہ ان کی غیر موجودگی کو استعفیٰ سمجھا جائے گا۔ ضرور پڑھیں: ایلن مسک کا مریخ مشن:خلائی جہاز ایک مرتبہ پھر خلا میں پھٹ گیا اس ای میل نے مختلف محکموں میں مایوسی اور الجھن کی صورتحال پیدا کر دی تھی، جس کے نتیجے میں کچھ محکموں نے ملازمین کو جواب دینے کی ہدایت کی، جب کہ دوسرے محکموں نے انہیں اس مطالبے سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ وائٹ ہاؤس کے داخلی ذرائع کے مطابق یہ ای میل ایک اور یاد دہانی تھی کہ مسک کا انداز بہت سخت اور بیچ بیچ میں متنازعہ ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے کہا کہ مسک کو اخراجات میں کمی کی حکمت عملی میں ان کی مہارت کا فائدہ اٹھانا ضروری ہے، لیکن ان کے طرزِ عمل کو کابینہ کے ارکان کی تجاویز اور خیالات کے مطابق ڈھالنا بھی ضروری ہے۔ ٹرمپ کا یہ قدم جس میں وہ مسک کی پالیسیوں کو کابینہ کے ارکان کی مشاورت کے ساتھ توازن میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے صدرات کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے تمام اداروں میں ہمواری اور توازن قائم رکھنے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔ مزید پڑھیں: مفت میں نیٹو کا دفاع نہیں کریں گے: ٹرمپ کا اعلان
جنگ بندی کے مذاکرات کسی کام نہ آئے: یوکرین کے ایک اور علاقے پر روس کا قبضہ

روس کی وزارت دفاع نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ اس کی افواج نے مشرقی یوکرین کے ایک اور گاؤں، اندریوکا پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ گاؤں کورخوف کے مغرب میں واقع ہے، جسے ماسکو نے رواں سال جنوری میں اپنے کنٹرول میں لیا تھا۔ یہ پیش رفت روس کی اس مسلسل فوجی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ ڈونیٹسک کے علاقے میں مغرب کی سمت پیش قدمی کر رہا ہے۔ یوکرین کی فوج نے تاحال اندریوکا کے سقوط کی تصدیق نہیں کی، تاہم اس کے جنرل اسٹاف نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا کہ ڈونیٹسک کے پوکروسک سیکٹر میں روسی افواج نے یوکرینی دفاع کو توڑنے کی 17 کوششیں کیں، جن میں اندریوکا بھی ان پانچ مقامات میں شامل تھا جہاں شدید لڑائی ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق، شام کے وقت وہاں مسلح تصادم جاری تھا اور علاقے پر مکمل کنٹرول کے حوالے سے صورتحال واضح نہیں ہے۔ یوکرین کے نجی فوجی بلاگ ڈیپ اسٹیٹ نے بھی اس حوالے سے غیر یقینی صورت حال کا ذکر کیا اور کہا کہ گاؤں پر کس کا مکمل کنٹرول ہے، اس بارے میں تصدیق ممکن نہیں۔ فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے ابتدائی ہفتوں میں کیف پر قبضہ کرنے میں ناکامی کے بعد، روسی فوج نے اپنی توجہ یوکرین کے مشرقی صنعتی علاقے ڈونباس پر مرکوز کر لی۔ اس علاقے میں ڈونیٹسک اور لوہانسک شامل ہیں، جن پر ماسکو بتدریج اپنا کنٹرول بڑھا رہا ہے۔ روس اس وقت یوکرین کے تقریباً 2 فیصد علاقے پر قابض ہے اور پچھلے کئی مہینوں سے ڈونیٹسک کے مختلف علاقوں میں مغرب کی طرف آہستہ لیکن مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد گاؤں روس کے قبضے میں جا چکے ہیں۔ حالیہ لڑائیوں کا مرکز پوکروسک ہے، جو نہ صرف لاجسٹک حب ہے بلکہ یوکرین کی واحد کوئلہ پیدا کرنے والی کان کا بھی مرکز ہے جو سٹیل بنانے کے لیے کوکنگ کول فراہم کرتی ہے۔ جیسے جیسے روسی افواج پوکروسک کے قریب پہنچ رہی ہیں، وہاں کی کولری کو بند کر دیا گیا ہے تاکہ انفراسٹرکچر کو ممکنہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔ یوکرین کے فوجی حکام اور مبصرین کے مطابق، پوکروسک کے دفاع میں اب تک نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، اور حالیہ ہفتوں میں روس کی حملے کی شدت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم، میدان جنگ کی حقیقی صورتحال غیر یقینی ہے، اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ روس آئندہ دنوں میں دوبارہ حملے کی شدت بڑھا دے۔
مفت میں نیٹو کا دفاع نہیں کریں گے: ٹرمپ کا اعلان

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو اتحادیوں کے دفاع پر اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر رکن ممالک اپنی دفاعی اخراجات کی ادائیگی نہیں کرتے تو امریکہ ان کا تحفظ نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ موقف وہ کئی سالوں سے رکھتے ہیں اور اپنی 2017 سے 2021 کی صدارت کے دوران نیٹو اتحادیوں کے سامنے بھی پیش کر چکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، “یہ عام فہم بات ہے۔ اگر وہ ادائیگی نہیں کرتے تو میں ان کا دفاع نہیں کروں گا۔ بالکل نہیں کروں گا۔” ان کے اس بیان نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے، خاص طور پر یورپی ممالک میں جہاں نیٹو کی مشترکہ دفاعی حکمت عملی کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ نیٹو کا بنیادی اصول اجتماعی دفاع ہے، جس کے تحت اگر کسی ایک رکن پر حملہ ہوتا ہے تو اسے تمام اتحادی ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ اتحاد 1949 میں سوویت یونین کے ممکنہ حملے کے خطرے کے پیش نظر قائم کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے حالیہ بیان نے یورپ سے ایشیا تک مختلف ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں کیونکہ یہ بیان اس اتحاد کے بنیادی ڈھانچے پر سوالیہ نشان کھڑا کر سکتا ہے۔ اسی دوران، یورپی رہنماؤں نے دفاعی اخراجات میں اضافے کے منصوبوں کی حمایت کی ہے اور یوکرین کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم دہرایا ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے اپنے بیان میں کہا، “مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگوں کو نیٹو کے مستقبل کے بارے میں خدشات ہو سکتے ہیں، لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اتحاد کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔” دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ہی برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے نیٹو کے اجتماعی دفاعی معاہدے کی پاسداری کا یقین دلایا تھا۔ تاہم ان کے تازہ ترین بیان سے یورپی سفارتی حلقوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فرانسیسی سفارت خانے نے اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ جاپانی سفارت خانے سے بھی ردعمل حاصل نہیں ہو سکا۔ ٹرمپ نے مزید کہا، “ویسے بھی یہ ممالک ہمارے ساتھ اقتصادی طور پر بھاری منافع کماتے ہیں۔ یہ معاہدے آخر بناتا کون ہے؟” ان کے یہ خیالات 2019 کے جاپان کے دورے کے دوران دیے گئے بیانات سے مماثلت رکھتے ہیں جب انہوں نے نیٹو اتحادیوں کے مالیاتی کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔
بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی قبول نہیں، چینی وزیر خارجہ

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے جمعہ کے روز سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک فینٹانائل کے مسئلے پر امریکی دباؤ کا بھرپور جواب دے گا اور کسی بھی بڑی طاقت کو کمزور ممالک کو دھمکانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان کے اس بیان کو عالمی سطح پر امریکہ کے خلاف ایک واضح تنقید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بیجنگ نے جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے اس ماحول میں خود کو ایک قابلِ اعتماد عالمی طاقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بین الاقوامی اداروں سے علیحدگی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکہ نے اس ہفتے چینی درآمدات پر 10 فیصد اضافی محصولات عائد کر دیے ہیں، جس کی بنیادی وجہ فینٹانائل جیسے مہلک نشے کی مسلسل امریکہ میں ترسیل بتائی جا رہی ہے۔ یہ اقدام چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت کئی ممالک کے ساتھ امریکہ کے بڑھتے ہوئے تجارتی تناؤ کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔ چین کی پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک بریفنگ کے دوران وزیر خارجہ وانگ ای نے واضح کیا کہ اگر امریکہ یکطرفہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپناتا ہے تو چین بھی پوری قوت سے اس کا جواب دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک یہ سوچنے کی غلطی نہ کرے کہ وہ چین پر دباؤ ڈال کر ایک طرف اسے نقصان پہنچا سکتا ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ بہتر تعلقات استوار رکھ سکتا ہے۔ وانگ نے مزید کہا کہ امریکہ کو چین کی نیک نیتی کو کمزوری سمجھ کر اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بیجنگ نے ماضی میں امریکہ کی کئی مواقع پر مدد کی ہے، خاص طور پر فینٹانائل کے بنیادی کیمیکلز کی اسمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے، لیکن اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے غیر ضروری محصولات عائد کرنا احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت پر تبصرہ کرتے ہوئے وانگ نے کہا کہ جہاں کہیں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی، چین وہاں نئی راہیں نکالے گا اور جہاں کہیں دباؤ ڈالا جائے گا، وہاں جدت پیدا کی جائے گی۔ چین نے یورپی ممالک اور ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک واضح پیغام دیا کہ وہ عالمی استحکام کے لیے ایک مضبوط پارٹنر بن سکتا ہے۔ یوکرین تنازع پر چین کا مؤقف یوکرین جنگ کے حل کے حوالے سے چین نے ایک “منصفانہ، پائیدار اور بامعنی امن معاہدے” پر زور دیا ہے، جسے تمام فریقین تسلیم کریں۔ وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا کہ چین عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس بحران کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اس کا انحصار متعلقہ فریقین کی خواہشات پر ہوگا۔ مغربی ممالک طویل عرصے سے چین پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ روس پر اپنا معاشی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے میں مدد دے، لیکن بیجنگ نے اب تک ماسکو پر کوئی کھلی تنقید نہیں کی اور نہ ہی روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات محدود کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وانگ ای نے واضح کیا کہ چین اور روس کے تعلقات عالمی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے متاثر نہیں ہوں گے اور نہ ہی انہیں جغرافیائی کھیل کا ایک مہرہ بنایا جا سکتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں دونوں ممالک کے درمیان “لامحدود شراکت داری” کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ گفتگو روس کے یوکرین پر مکمل حملے کی تیسری برسی کے موقع پر ہوئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ عہدہ سنبھالنے کے بعد یوکرین پر اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کی ہے اور روس کے حوالے سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کیا ہے، جس سے یورپی اتحادیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کے روز یوکرین جنگ کو امریکہ اور روس کے درمیان “بالواسطہ جنگ” قرار دیا اور کہا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ ماسکو کو بیجنگ سے دور کیا جائے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے، جو یوکرین جنگ اور تجارتی کشیدگی کے باعث دباؤ میں ہیں۔ وانگ ای نے کہا کہ چین اب بھی یورپ پر اعتماد رکھتا ہے اور اسے ایک قابلِ بھروسہ شراکت دار سمجھتا ہے۔ چین اور ترقی پذیر ممالک وانگ ای نے ترقی پذیر ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی حکمرانی میں اپنی نمائندگی اور اثر و رسوخ میں اضافہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہر ملک صرف اپنی قومی ترجیحات پر زور دے اور طاقت و حیثیت کی بنیاد پر فیصلے کرے تو دنیا “جنگل کے قانون” کی طرف واپس چلی جائے گی، جہاں سب سے زیادہ نقصان کمزور اور چھوٹے ممالک کو ہوگا، اور بین الاقوامی اصول و ضوابط کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ بڑی طاقتوں کو اپنی عالمی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں اور وہ صرف اپنے مفادات کے لیے کام نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کمزور ممالک کو دھمکانے کے بجائے انصاف اور مساوات پر مبنی پالیسی اپنانی چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے پہلے دو ماہ کے دوران امریکہ کو کئی کثیرالجہتی تنظیموں اور ماحولیاتی معاہدوں سے الگ کر دیا، بیشتر غیر ملکی امداد معطل کر دی اور اقوامِ متحدہ کی اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جس میں روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کی گئی تھی۔ چین نے امریکہ کی اس نئی پالیسی کو عالمی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا اور ترقی پذیر ممالک سے کہا کہ وہ بین الاقوامی نظام میں اپنی آواز بلند کریں تاکہ عالمی نظم و نسق میں ان کی پوزیشن مضبوط ہو۔
جابلہ میں خون ریز حملے نے شام میں حکومت کے خلاف تشویش اور کشیدگی بڑھا دی

شام کے ساحلی علاقے ‘جابلہ’ میں بدھ کے روز حکومت کے حامی فورسز کے خلاف ایک خونریز حملہ کیا گیا جس میں کم از کم 13 اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ حملہ بشار الاسد کے حامی جنگجووں نے کیا ہے جنہیں حکومت نے “اسد کی ملیشیاؤں کے باقیات” کے طور پر شناخت کیا۔ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب پورے ملک میں حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں اور نئی حکومت کے لیے چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ حملہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تھا جس کی قیادت اسد کے حامیوں نے کی۔ اس کے علاوہ سرکاری ٹی وی چینل “شام ٹی وی” نے رپورٹ کیا کہ جابلہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں کئی مقامات پر حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اہلکار شہید اور زخمی ہو گئے۔ جابلہ کی سیکیورٹی کے چیف کرنل مصطفی کنیفاتی نے بیان دیا کہ اس حملے میں ہماری فورسز کے کئی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شام کے ساحلی علاقے میں تشویش ناک حد تک کشیدگی بڑھ رہی ہے، جہاں اسد کا علوی فرقہ اکثریت میں ہے اور یہاں سے اسد حکومت کی مضبوط بنیادیں جڑی ہوئی ہیں۔ مزید پڑھیں: جنوبی کوریا کے شہر پچھون میں جنگی طیاروں کے بم گرنے سے 29 افراد زخمی یہ علاقے اس وقت اسد مخالف اور اسلامسٹ باغیوں کے لیے ایک اہم محاذ بن چکے ہیں جو ہر ممکن طریقے سے نئی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس جھڑپ سے صرف چند ماہ قبل شام میں ایک اور سیاسی تبدیلی ہوئی تھی۔ احمد الشرا کی قیادت میں اسلامسٹ گروپ “حیات تحریر الشام” نے بشار الاسد کی حکومت کو گرا دیا تھا۔ الشرا نے ملک کے صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تھا لیکن انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا تھا جن میں اسرائیل کا دباؤ اور مختلف فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی شامل ہے۔ اس حملے نے ساحلی علاقے میں موجود ایک اور اہم مسئلے کو جنم دے دیا ہے جہاں علوی کمیونٹی کے افراد کو مسلسل تشویش کا سامنا ہے۔ اسد کی حکومت نے ہمیشہ اپنے سکیورٹی اور فوجی اداروں میں علویوں کو ترجیح دی تھی اور اب جب حکومت کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے تو علوی کمیونٹی خاص طور پر نشانہ بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ متعدد رپورٹیں ملی ہیں کہ علویوں کو حلب، حمص اور دیگر علاقوں میں حملوں کا سامنا ہے جن میں کئی افراد کی ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ الشرا کی حکومت نے ملک کو ایک جامع طریقے سے چلانے کے وعدے کیے تھے لیکن ابھی تک کسی بھی اہم علوی رہنما سے ملاقات نہیں کی گئی۔ یہ بھی پڑھیں: امریکہ عالمی نظام کو ‘تباہ’ کر رہا ہے، یوکرینی سفیر کا دعویٰ اس سب کے برعکس کرد، عیسائی اور دروز کمیونٹیز کے رہنماؤں سے متعدد ملاقاتیں کی گئی ہیں۔ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی ماہر ‘جاشوآ لینڈس’ نے کہا ہے کہ “علوی کمیونٹی بکھری ہوئی اور غیر متحد ہے لیکن حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے عدم اطمینان اور مظاہروں کا یہ سلسلہ مزید ملیشیاؤں کو متحرک کر سکتا ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ “اس بات کا امکان بھی ہے کہ غیر ملکی طاقتیں اس صورتحال میں مداخلت کریں جو نہ صرف داخلی بلکہ علاقائی سطح پر بھی سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔” دوسری جانب حکومت نے جابلہ شہر میں سخت کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں اور شام کے مختلف حصوں میں حالات کو قابو کرنے کے لیے فوجی آپریشنز جاری ہیں۔ شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی “سانا” نے اطلاع دی ہے کہ جابلہ میں ایک مشہور اسد دور کے سکیورٹی افسر ‘ابراہیم حوائجہ’ کو گرفتار کیا گیا ہے جو اب تک مختلف جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ ایک اور تازہ رپورٹ کے مطابق اس ہفتے کے شروع میں شہر لاذقیہ میں بھی پُرتشدد مظاہرے ہوئے جہاں فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گولیاں چلائیں۔ جس پر ایک رہائشی نے بتایا کہ “مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے فائرنگ کی، جس کے بعد شہر میں مزید تشویش پھیل گئی۔” یہ تمام واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ شام کے ساحلی علاقے میں نئی حکومت کا استحکام اب بھی ایک خواب کی مانند ہے اور وہاں کے عوام و فورسز کو مسلسل دہشت گردی، تشویش اور عدم استحکام کا سامنا ہے۔ الشرا کی حکومت کے لیے یہ نہ صرف داخلی بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے جس کا کوئی فوری حل دکھائی نہیں دیتا۔ لازمی پڑھیں: میکرون 2027 کے بعد ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گے، سابق روسی صدر کی پیشگوئی
ایلن مسک کا مریخ مشن:خلائی جہاز ایک مرتبہ پھر خلا میں پھٹ گیا

اسپیس ایکس کا سٹار شپ خلائی جہاز جمعرات کو ٹیکساس سے اڑان بھرنے کے چند منٹ بعد خلا میں پھٹ گیا، جو ایلن مسک کے مریخ مشن کے لیے اس سال مسلسل دوسری بڑی ناکامی ہے۔ اس حادثے کے بعد فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے فلوریڈا کے کچھ ہوائی اڈوں پر ہوائی ٹریفک روک دی۔ مختلف سوشل میڈیا ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ جنوبی فلوریڈا اور بہاماس کے قریب شام کے آسمان میں آگ کا ملبہ پھیلتا رہا، جب کہ اسپیس ایکس کی لائیو سٹریم نے راکٹ کے بے قابو ہوکر گھومنے اور انجنوں کے بند ہونے کے مناظر دکھائے۔ یہ ناکامی سٹار شپ کے آٹھویں ٹیسٹ میں پیش آئی، جو پچھلے ماہ ہونے والی ساتویں تجربے کے دھماکہ خیز انجام کے بعد ایک اور دھچکا ہے۔ 403 فٹ لمبا یہ راکٹ اسپیس ایکس کے اس منصوبے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ آئندہ دہائی میں انسانوں کو مریخ پر بھیجا جائے۔ لانچ کے بعد راکٹ کا پہلا مرحلہ تو کامیابی سے زمین پر واپس آ گیا، لیکن چند منٹ بعد اس کے بالائی حصے نے خلا میں گھومنا شروع کر دیا اور کئی انجن بند ہو گئے، جس کے بعد کمپنی نے جہاز سے رابطہ کھو دیا۔ اسپیس ایکس کے ترجمان نے لائیو سٹریم پر کہا کہ “بدقسمتی سے، یہ پچھلی بار بھی ہوا تھا، اس لیے اب ہمیں کچھ مشق مل گئی ہے۔” کمپنی کے بیان کے مطابق، اسٹار شپ نے اپنے پچھلے حصے میں ایک طاقتور واقعہ کا سامنا کیا، جس کی وجہ سے کئی انجن ناکارہ ہو گئے اور راکٹ کا کنٹرول کھو گیا۔ تقریباً 9 منٹ 30 سیکنڈ بعد اسپیس ایکس کا راکٹ سے حتمی رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد ایف اے اے نے اعلان کیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرے گا، اور اسپیس ایکس کو اسٹار شپ کی دوبارہ پرواز سے قبل ایجنسی کی منظوری درکار ہوگی۔ جنوری میں بھی ایک آزمائشی پرواز کے آٹھ منٹ بعد راکٹ پھٹ گیا تھا، جس کے نتیجے میں ملبہ کیریبین جزیروں تک پہنچا تھا۔ اسپیس ایکس کے مطابق، اس حادثے میں خارج ہونے والے ملبے میں کوئی زہریلا مواد موجود نہیں تھا۔ سٹار شپ کا مقصد زمین کے گرد ایک مکمل مدار بنانا اور بحرِ ہند میں دوبارہ داخل ہونا تھا، جو مستقبل میں کامیاب لینڈنگ کے ایک اہم مرحلے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ تاہم، متواتر ناکامیوں کے باوجود، اسپیس ایکس مریخ پر انسانوں کو بھیجنے کے اپنے مشن کو تیز کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
ٹرمپ کا میکسیکو اور کینیڈا پر تجارتی محصولات ایک ماہ کے لیے مؤخر کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد کی جانے والی ان تمام اشیاء پر محصولات (ٹیرف) کو ایک ماہ کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے جو امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے (USMCA) کے تحت آتی ہیں۔ یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی معاشی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس نے کاروباری اداروں، منڈیوں اور صارفین میں ہلچل مچا دی تھی۔ یہ اعلان ٹرمپ اور میکسیکو کی صدر کلاؤڈیا شینباؤم کے درمیان ایک اہم ٹیلیفونک گفتگو کے بعد سامنے آیا۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ انہوں نے صدر شینباؤم کے ساتھ گفتگو کے بعد اس بات پر اتفاق کیا کہ میکسیکو کو آزاد تجارتی معاہدے کے تحت کسی بھی چیز پر محصولات ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ احترام اور باہمی تعلقات کے پیش نظر کیا گیا ہے، خاص طور پر سرحدی سیکیورٹی، غیر قانونی تارکین وطن کی روک تھام اور امریکہ میں فینٹانائل کی اسمگلنگ کے خاتمے کے حوالے سے دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ شینباؤم نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے ساتھ “باعزت” بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میکسیکو اور امریکہ کے درمیان تقریباً تمام تجارت آزاد تجارتی معاہدے کے تحت آتی ہے۔ تاہم، ایک امریکی حکومتی اہلکار کے مطابق، میکسیکو سے تقریباً 50 فیصد اور کینیڈا سے 36 فیصد درآمدات اس معاہدے کے دائرے میں آتی ہیں، جبکہ ایووکاڈو جیسی اشیاء اس معاہدے میں شامل نہیں کیونکہ ان کے لیے مقررہ معیارات پر پورا اترنا مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ اس اہلکار نے وضاحت کی کہ جو اشیاء باضابطہ طور پر آزاد تجارتی معاہدے کے قواعد کی تعمیل نہیں کرتیں، انہیں بھی عام طور پر کسٹمز میں بغیر محصولات قبول کر لیا جاتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ آٹوموبائل انڈسٹری کو بھی ایک ماہ کی رعایت دی جائے گی تاکہ کار ساز کمپنیاں اپنی پیداوار امریکہ منتقل کر سکیں اور محصولات سے بچ سکیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ناقابل عمل ہے کیونکہ پیداوار کی منتقلی کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور وقت درکار ہوگا۔ کینیڈا سے درآمد ہونے والی توانائی آزاد تجارتی معاہدے میں شامل نہیں، جس کی وجہ سے توانائی کے شعبے پر 10 فیصد ٹیرف نافذ رہے گا۔ اس کا اثر امریکی ریاستوں مینیسوٹا، مشی گن اور نیویارک میں گیس کی قیمتوں پر پڑنے کا امکان ہے۔ تاہم، امریکی حکومت نے جمعرات کے روز کسانوں کو ریلیف دیتے ہوئے کینیڈا سے درآمد ہونے والی پوٹاش (کھاد میں استعمال ہونے والا ایک اہم جز) پر عائد محصولات کو عارضی طور پر 25 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا۔ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان کشیدگی برقرار اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے میکسیکو کو رعایت دی، مگر کینیڈا کے ساتھ کشیدگی بدستور برقرار رہی۔ ٹرمپ نے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ “محصولات کے بحران کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں تاکہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لیے انتخاب لڑ سکیں۔” دوسری جانب، جسٹن ٹروڈو نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ کینیڈا اور امریکہ مستقبل قریب میں تجارتی جنگ کا شکار رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک امریکہ اپنے محصولات کو مکمل طور پر ختم نہیں کرتا، تب تک کینیڈا اپنی جوابی تجارتی پابندیاں برقرار رکھے گا۔ اونٹاریو کے وزیر اعلیٰ ڈگ فورڈ نے سی این این کو بتایا کہ ان کا صوبہ امریکہ کو بجلی کی برآمدات پر 25 فیصد محصول عائد کرے گا، جس سے تقریباً 15 لاکھ امریکی گھروں کو بجلی کی سپلائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ فورڈ نے کہا کہ “یہ میرے لیے باعث تکلیف ہے، لیکن ہمیں ایسا کرنا پڑے گا۔” انہوں نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ محصولات ختم کریں اور آزاد تجارتی معاہدے پر دوبارہ بات چیت کریں، جسے انہوں نے خود بنایا تھا اور اسے ‘تاریخ کا سب سے بہترین معاہدہ’ قرار دیا تھا۔” کینیڈا کے وزیر خزانہ ڈومینک لی بلانک نے اعلان کیا کہ کینیڈا اپنی جوابی محصولات کی دوسری قسط کو 2 اپریل تک روک رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم تمام محصولات کے مکمل خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں، اور اس دوران ہم امریکہ کی جانب سے دی گئی محدود رعایت کا جائزہ لیں گے۔”
ٹرمپ انتظامیہ کا درجن بھر سفارتی مشنز بند کرنے پر غور

امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا بھر میں اپنے سفارتی نیٹ ورک کو محدود کرنے کا منصوبہ بناتے ہوئے تقریباً درجن بھر قونصل خانوں کو بند کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ متعدد امریکی حکام کے مطابق، زیادہ تر یہ سفارتی مشنز مغربی یورپ میں واقع ہیں اور آنے والے مہینوں میں انہیں بند کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق، محکمہ خارجہ یورپ کے اہم شہروں میں موجود اپنے متعدد قونصل خانوں کو ختم کرنے پر غور کر رہا ہے، جن میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ، فرانس کے شہر اسٹراسبرگ اور اٹلی کے شہر فلورنس کے قونصل خانے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، واشنگٹن ڈی سی میں واقع بعض دفاتر کے عملے میں بھی نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔ محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام کے مطابق، یہ اقدامات امریکی حکومت کی جانب سے سفارتی اخراجات میں کمی اور انتظامی تبدیلیوں کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ خارجہ واشنگٹن میں موجود اپنی کئی ماہر بیورو (Expert Bureaus) کو ضم کرنے کے امکانات بھی دیکھ رہا ہے۔ ان بیورو میں انسانی حقوق، مہاجرین، عالمی فوجداری انصاف، خواتین کے امور اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات جیسے اہم موضوعات پر کام کرنے والے دفاتر شامل ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کر رہی ہے، جن کا مقصد امریکہ کے عالمی سفارتی اثر و رسوخ کو محدود کرنا اور اندرون ملک وسائل پر زیادہ توجہ دینا ہے۔ اس حکومتی پالیسی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سفارتی دفاتر کی بندش سے نہ صرف امریکی اثر و رسوخ کم ہو گا بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ اس اقدام سے غیر ضروری اخراجات میں کمی آئے گی اور سفارتی وسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکے گا۔
پاکستان کو یمن کی بگڑتی صورتحال پر تشویش، سنگین انسانی، سیاسی بحران کب تک جاری رہے گا؟

پاکستان نے یمن کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یمن کے لیے مذاکرات اور فوری انسانی امداد پر زور دیا ہے۔ جمعرات کو سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان کو یمن میں بگڑتی صورتحال پر تشویش ہے، یمن تنازع سنگین انسانی، سیاسی، اقتصادی اور ماحولیاتی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ منیر اکرم نے کہا کہ یمن میں ایک کروڑ سے زائد افرادغذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، یمن کو فی الوقت 1.95کروڑ افراد کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے نے زور دیا کہ فریقین امن معاہدوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائیں، غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور تحفظ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی سے خطے میں استحکام کو فروغ ملے گا۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق یمن میں تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو طبی مدد درکار ہے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً نصف بچے متعدل سے لے کر شدید درجے کی جسمانی کمزوری کا شکار ہیں جن کی تعداد تقریباً 24 لاکھ ہے۔ یمن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے بڑے حصے پر قابض حوثی باغیوں کے مابین لڑائی کے دوران ملک کے لیے عالمی امداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ گزشتہ پانچ برس میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کی سرگرمیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل میں یہ کمی 45 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا اندازہ ہے کہ رواں سال لوگوں کو ضروری طبی خدمات کی فراہمی کے لیے 7 کروڑ 70 لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ گزشتہ برس قدرتی آفات بالخصوص شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد کو ایک مرتبہ پھر نقل مکانی کرنا پڑی۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ تقریباً 45 لاکھ لوگ تاحال اندرون ملک بے گھر ہیں، ان میں 80 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس وقت ‘ڈبلیو ایچ او’ ملک میں بچوں کو غذائیت فراہم کرنے کے 96 مراکز چلا رہا ہے جن سے ہر سال 30 ہزار بچوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ 270 سے زیادہ اضلاع میں غذائیت کی صورتحال کا جائزہ لینے کی خدمات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان مراکز میں کامیاب علاج کی شرح 96 فیصد ہے جو بین الاقوامی معیار سے بھی بلند ہے۔
‘ترقی یافتہ’ ملک برطانیہ میں بڑھتی جبری غلامی ریکارڈ سطح پر

برطانیہ میں ممکنہ جدید غلامی کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں گزشتہ سال ریکارڈ اضافہ ہوا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں نیشنل ریفرل میکانزم میں 19,125 متاثرین کے حوالہ جات درج کیے گئے، جو 2023 کے 17,000 کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑتا ہے۔ جدید غلامی میں انسانی اسمگلنگ، جبری مشقت اور استحصالی جیسی صورتحال شامل ہیں، جو غربت، تنازعات اور ہجرت کے نتیجے میں بڑھ رہی ہیں۔ برطانیہ میں یہ جرم مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے، جہاں مرد، عورتیں اور بچے منشیات یا جنسی تجارت، کار واش، نیل سیلون، نجی گھروں یا سماجی نگہداشت کے شعبے میں استحصال کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: یونان میں لاکھوں مظاہرین سڑکوں پرآگئے، معاملہ کیا ہے؟ برطانیہ کی آزاد انسداد غلامی کمشنر ایلینور لیونز نے کہا کہ حکومت کو جدید غلامی کے شکار افراد کی آواز سننے اور ایک مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس جرم سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں۔ انسانی حقوق کے گروپ اینٹی سلیوری انٹرنیشنل کے مطابق، برطانیہ میں جدید غلامی میں رہنے والے افراد کی حقیقی تعداد تقریباً 130,000 ہے۔ این آر ایم کے مطابق، 23% متاثرین برطانوی شہری تھے، جبکہ 13% البانیہ اور 11% ویتنام سے تعلق رکھتے تھے۔ مزید برآں، تقریباً 6,000 ریفرلز بچوں کے تھے، جو کل تعداد کا 31% بنتے ہیں۔ خیراتی اداروں اور قانون سازوں نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ جدید غلامی سے نمٹنے کے لیے مزدور قوانین کے سخت نفاذ کو یقینی بنائے اور امیگریشن پالیسی میں اصلاحات کرے۔ سخت امیگریشن پالیسیاں بہت سے متاثرین کو ملک بدری کے خوف سے خاموش رہنے پر مجبور کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مدد حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت نے این آر ایم میں کیسز پر تیزی سے کارروائی کرنے کے لیے مزید کیس ورکرز کی خدمات حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے، تاہم، 17,000 سے زائد افراد اب بھی اپنے کیسز کے دوسرے مرحلے کے فیصلے کے منتظر ہیں، جو اس مسئلے کی شدت کو اجاگر کرتا ہے۔